اقبالیات کے طلبہ جانتے ہیں کہ اسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی کو بحیثیتِ مجموعی اسرار و رموز کہا جاتا ہے- اسرارِ خودی میں اقبال نے فرد (individual)کو اُس کے انفراد سے آگاہ کیا ہے- ویدانت اورفلاطونیت کے زیراثر مسلم فرد، نفی ِ ذات کے فلسفے پر کاربند تھا، جس سے اُمت میں انحطاط، ایک استمرارکےساتھ جاری تھا-اقبال نے اسرارِ خودی میں گویا اثباتِ ذات کا فلسفہ پیش کیا اورفرد کواُس کی اہمیت اور اظہارِ ذات پر آمادہ کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی-یوسف سلیم چشتی شرح اسرارخودی کے دیباچے میں اسرارِ خودی کی تخلیق کے اسباب بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ہندوحکماء(خصوصاً شنکر اچاریہ) نے مسئلہ وحدتُ الوجود کےاثبات میں دماغ کو اپنا مخاطب بنایا-مگرایرانی شعراء نے اس مسئلہ کی تفسیر میں زیادہ خطرناک طریقہ اختیار کیا-یعنی انہوں نے دل کو اپنی آماجگاہ بنایا اور اُن کی حسین و جمیل نکتہ آفرینیوں کا آخر کار نتیجہ یہ نکلا کہ اِس مسئلے نے عوام تک پہنچ کرتمام اسلامی قوم کو ذوقِ عمل سے محروم کردیا-جب علامہ پریہ حقیقت منکشف ہوگئی کہ قوم کی بربادی کا سبب نفیِ خودی کا غیر اسلامی عقیدہ ہےتوانہوں نے اپنے دل و دماغ کی ساری قوتوں کو اثبات یا خودی کے اسلامی عقیدہ کی اشاعت کیلئے وقف کر دیا‘‘-
اس کے برعکس ’’رموزِ بے خودی‘‘ فرداورجماعت کے تعلق کی استواری پر ہے-دراصل اقبال نے اسرارِ خودی میں فرد کو اتنا اجاگر کردیا تھا کہ جماعت (سماج) اُس کی چکاچوند میں ماند پڑنے لگی تھی- اقبال نے اسرارِ خودی کی اِسی تاثیر کو محسوس کرتے ہوئے رموزِ بے خودی لکھنے کا فیصلہ کیا-تاکہ فرد اور سماج کے درمیان ربط کی اسلامی بنیادوں کو واضح کیا جا سکے-
آئندہ سطور میں اسرار و رموز کی علمیاتِ اخلاق کا فقط ایک فلسفیانہ ڈسکورس پیش کیا جارہا ہے-اس مضمون میں اسرار و رموز کے متن کو زیر بحث نہیں لایا گیا- بلکہ فرد اور اجتماع کے درمیان موجود رشتے کو نفسیاتی اور فلسفیانہ سطح پر کچھ اس طرح سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے، کہ انسانی معاشرے کی اخلاقیات کے خدوخال، بے منتِ عقیدہ، خالص سائنسی انداز میں واضح ہوسکیں- علمیات (epistemology)، فلسفہ کی ایک بہت بڑی اور بنیادی شاخ ہے، جس کے معنی ہیں ’’علم العلم‘‘ یا نالج آف نالج- جدید مغربی فلسفہ میں کانٹ کو علمیات کا سب سے بڑا فلسفی مانا جاتاہے-کانٹ نے خاطر خواہ دلائل سے ثابت کیا ہے کہ شے فی الذات کا علم ناممکن الحصول ہے- ہم اشیائے کائنات کے بارے میں جو کچھ جانتے اور پھر بطور علم پیش کرتے ہیں یہ فقط ایک قسم کے شاہد (observer) کی (یعنی ہماری) رائے ہے- ہماری رائے ہمارے حواس کی مرہون ہے- کائنات میں ہمارے علاوہ بھی شاہدین (observers) ہیں-دیگر انواعِ حیات کے حواس ہم سے مختلف ہیں تو شے کے بارے میں اُن کی آراء بھی ہم سے مختلف ہوں گی جو کوئی شاہد، شے کے بارے میں رائے قائم کرتاہے، وہ اس شاہد کے نزدیک علم کہلاتی ہے-ایسا کوئی مشترکہ علم وجود نہیں رکھتا جو تمام شاہدینِ کائنات کے نزدیک ایک جیسا ہو-لہٰذا شے کا حقیقی علم ناممکن الحصول ہے اور ہمیں کہنا پڑتاہے کہ شے فی الذات(thing in itself) کیاہے، ہم نہیں جان سکتے-
علمیاتِ اخلاق (Epistemology of Ethics) کا سوال کچھ یوں ہے کہ ہم انسانوں نے اپنی اخلاقیات کا علم کیسے حاصل کیا؟ہمیں کیسے اور کیونکر معلوم ہوا کہ جھوٹ بولنا ایک بُرا عمل ہے؟ یعنی اگر انسانی اخلاقیات عقیدے (یعنی مذہب) کی مرہونِ منت ہے تو کیا عقائدِ اخلاق میں کہیں تعقل کا کوئی عنصرموجود ہے؟ چنانچہ ’’سماج کی علمیاتِ اخلاق‘‘ کا مطالعہ کرنا ہوگا تو ہمیں فرد کی خلوت و جلوت پر اس کے ہر دو طرح کے عقائد یعنی مذہبی و غیر مذہبی، کا اثر دیکھنا ہوگا-اسرار و رموز کی اخلاقیات دراصل فرد کی خلوت (ذات) و جلوت (سماج) کی اخلاقیات ہی ہے-
روزمرّہ مشاہدے سے ثابت ہے کہ فرد جب اکیلا ہوتا ہے تو اس کی شخصیت کا غالب حصہ مثالی (Ideal) جبکہ مغلوب حصہ مادی (Material) ہوتاہے- لیکن جب فرد، اجتماع میں ہوتا ہے تو اس کی شخصیت کا غالب حصہ مادی جبکہ مغلوب حصہ مثالی ہوتاہے- یہی وجہ ہے کہ اکیلا انسان اپنی ذاتی زندگی میں مادی کائنات کے بہت کم اجزاء سے منسلک رہتا ہے- ایک انسان کے مقابلے میں دیگر حیوانات کی انفرادی زندگی کا غالب حصہ مادی کائنات کے ساتھ مکمل طور پر جُڑا ہوا ہے- ایک چوپائے یا ایک درندے کی تمام تگ و دو مادی کائنات کے اجزاء کے حصول تک محدود رہتی ہے- جبکہ ایک انسان کے، کھانے پینے اور دیگر جسمانی حاجات کے رفع کرنے کا کُل وقت اُس انسان کی باقی ماندہ حاجاتِ شخصی کے مقابلے میں اتنا کم ہے جیسے آٹے میں نمک- یاد رہے کہ ’’خودی کے لیے استراحت کا سامان‘‘ مثالی دنیا سے تعلق کی مثال ہے- پیسے کے حصول کے لیے کی گئی سوچ بچاربھی شخص کی حیاتِ مثالی کی مثال ہےنہ کہ حیاتِ مادی کی کیونکہ پیسے کے خواب دیکھنا بھی خواب دیکھناہی ہے- ایک شخص جو ہر وقت کاروباری سوچیں سوچ سکتاہے، مثالی دنیا میں مقیم ہے- اسی طرح ایک کھلاڑی، ایک سپاہی، ایک دکاندار، ملازم، مزدور حتیٰ کہ بھکاری بھی اپنی ذاتی زندگی میں خیالات کی دنیا کا باشندہ ہے، بایں ہمہ مثالی دنیا میں جیتا ہے- جانور اپنی یاداشتوں کے سہارے اپنے خیالات کے تانے بانے بُننے کا اہل نہیں ہے چنانچہ جانور کی ذاتی زندگی بھی مادی ہے اور اجتماعی زندگی بھی- لیکن ایک انسان کی ذاتی زندگی اپنی ماہیت میں مثالی (خیالی یا خلوت کی زندگی ہے) جبکہ اجتماعی زندگی مادی ہے- چنانچہ یُوں کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ ایک انسان کی انفرادی زندگی پر روحانیت جبکہ معاشرتی زندگی پر مادیت غالب رہتی ہے- یہاں رُوحانیت کی اصطلاح سے یہ التباس نہ پیدا ہونا چاہیے کہ رُوحانی سے لازمی طورپر الوہی بھی مُراد ہے- یہاں رُوحانی سے فقط مثالی یا تصوراتی مُراد ہے-
غرض اکیلے فرد کی شخصیت کی تدوین ہوتی ہے تو اس کی شخصیت کے مثالی پہلُو سے- وہ تنہائی میں کیا سوچتاہے، وہ اپنے آپ کے ساتھ رہتے ہوئے کن خیالات میں مگن رہتاہے، وہ اپنے آنے والے کل کے لیے کیا منصوبہ بندی کرتاہے- ایک مقولہ ہے کہ ’’ہماری تنہائی کی سوچیں ہمارے مستقبل کی گونج ہوتی ہیں‘‘-
“We are shaped by our thoughts; we become what we think”. (Buddha (
اسی مقولے کے مصداق، ہم اپنے معاشی یا جنسی حالات سے بڑھ کر اپنی سوچوں کا پرتَو ہوتے ہیں- دنیا میں جرم و سزا کی داستانیں انفرادی انسانی سوچوں کی تکسید ہوتی ہیں نہ کہ معاشی یا جنسی احتیاجات کی-کسی ایک انسان کے قتل سے لے کربڑے بڑے فاتحین کے مجرمانہ حملوں تک، جیب کاٹنے کے عمل سے لے کر دوسرے ملکوں کے معدنی ذخائر لوٹنے کے عمل تک، گلی محلے کے لڑائی جھگڑے سے لے کر جنگی جرائم تک تمام دنیائے فساد میں انفرادی انسانی سوچ کی کارفرمائی ہوتی ہے نہ کہ اجتماعی انسانی سوچ کی-
انسانی اجتماع یا معاشرہ چونکہ کم خیالی (مثالی) اور زیادہ مادی بنیادوں پر اُستوار ہوتاہے، اس لیے بنیادی احتیاجات کی شراکت افراد کو جرائم کرنے میں مانع ہوتی ہے-یوں گویا کسی بھی اجتماع یا معاشرے کا مدافعتی نظام ضرررساں اخلاقیات کو خود کار طریقے پر منسوخ کرتا رہتا ہے- ایک ایسا معاشرہ بھی جس کے پاس کوئی مذہبی اساس موجود نہ ہو، منطقی اعتبار سے بہت سی اخلاقی قدروں پر متفق ہوتا ہے- کسی بھی انسانی اجتماع کا بہت سی مشترکہ اخلاقیات پر متفق ہونا ایک سائنسی عمل ہے- یہ عمل خودکار طریقے پر انجام پاتاہے-
کوئی بھی انسانی اجتماع جب اپنے لیے اخلاقی اُصول مرتب کرتاہے تووہ اُصول دراصل چند ایسی ممانعتیں ہوتی ہیں جن کی موجودگی میں انسانی اجتماع تادیر قائم رہ سکتاہے- یہ بنیادی اصول دراصل وہ مشترکہ اخلاقی نکات ہوتے ہیں جن پر افراد کا کوئی اجتماع متفق ہوتا اور چلتا رہتاہے- ایسے مشترکہ نکات کے تشکیل پانے کی واحد وجہ انسانی اجتماع کاوجود ہے- اگر انسانی اجتماع نہ ہو تو ایسے اخلاقی نکات کا پیدا ہوجانا ناممکن ہے- ایک اکیلے فرد کو اجتماع ِ انسانی کی اخلاقیات سے اُس وقت تک کوئی سروکار نہیں جب تک اس کا اپنا معاملہ باقی انسانوں کے ساتھ نہ پیش آجائے- یہی وجہ ہے کہ فرد کی انفرادی اخلاقی زندگی اور اس کی اجتماعی اخلاقی زندگی دراصل دو الگ الگ زندگیاں بن کر چلتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ فرد کی انفرادی اخلاقی زندگی اور اجتماعی اخلاقی زندگی کے اُصول بھی دو مختلف ذرائع سے مرتب ہوتے ہیں-
انسانی معاشروں کے بعض اخلاقی اُصول ایسےہوتے ہیں جوتقریباً تمام معاشروں میں ایک جیسی حیثیت رکھتے ہیں-مثلاً کسی کھانا کھاتے ہوئے شخص کے منہ سے نوالہ چھین کر خود کھا لینا ایک ایسا عمل ہے جس پر دنیا میں انسانوں کا ہر اجتماع یقیناً متفق ہوگا کہ یہ ایک بُرائی ہے اور اِس کی ممانعت ضروری ہے- کسی کی مرضی کے خلاف کسی کے ساتھ کوئی جنسی حرکت کرنا بھی ایسا ہی ایک عمل ہوسکتاہے جس کی ممانعت پرامکان غالب ہے کہ تمام معاشرے متفق ہوں گے-ایسی اقدار کو مستقل اقدار کہا جاتا ہے، جن پر تمام معاشرے متفق ہوں- اس طرح کی بے شمار مثالیں تلاش کی جا سکتی ہیں- مستقل اخلاقی اقدار کی موجودگی میں پوری زمین کا ایک مشترکہ سماج وجود میں آتاہے- ایسے سماج کو قرآن مجید کی زبان میں ’’اُمت‘‘ کہتے ہیں-
الغرض! فرد کی انفرادی ذاتی زندگی زیادہ خیالی (مثالی) اور کم جسمانی ہے تو معاشرے کی اجتماعی زندگی زیادہ جسمانی اور کم خیالی (مثالی) ہے- فرد اور اجتماع کے موازنے میں روحانیت اور جسمانیت کی شرح اُلٹ جاتی ہے تو انطباق بھی الٹ جاتاہے- بالکل اسی طریق پر فرد اور اجتماع کیلیے زندگی کے اخلاقی اصول بھی مرتب ہوتے ہیں- یعنی فرد کو اپنی ذاتی زندگی میں جن اخلاقی اُصولوں کی ناگزیریت کی حد تک ضرورت ہے وہ اس کی جسمانی زندگی سے مرتب ہوتے ہیں جبکہ معاشرے کو اپنی حیاتِ اجتماعی کیلیے جن اخلاقی اصولوں کی ناگزیریت کی حد تک ضرورت ہے وہ اُس کی رُوحانی(مثالی) زندگی سے تشکیل پاتے ہیں- فرد اور اجتماع ہردوصورتوں میں اخلاقی اُصول جن ذرائع سےا ٓرہے ہیں ان کا دخل حیاتیاتی سطح کی زندگی میں کم ہے- حیاتیاتی سطح کی انسانی زندگی انفرادی ہویا اجتماعی ہردوصورتوں میں فقط مادی ہے- جبکہ اخلاقی اصولوں کو مادیٔ محض میں دخل انداز ہونے کی کبھی ضرورت پیش نہیں آتی- جنگل کے قانون میں اخلاقی اصولوں کی کیا ضرورت؟ اخلاقی اصولوں کی ضرورت فقط انسانی معاشرے کو ہے- یہی وجہ ہے کہ اخلاقی اُصول، جو حیاتِ انسانی کو مستحکم بنانے کے لیے ہردوسطحات پروجود میں آتے ہیں فی الاصل ارتقائے حیات کا ہی خاصہ ہیں چنانچہ اِن اُصولوں کو کوئی ذی شعور مرتب نہیں کرتا بلکہ یہ اُصول فطرت کے بطن سے نمودار ہوتے ہیں اور حیاتِ انسانی کو قائم و دائم رکھنے کیلیے از خود سرگرمِ عمل رہتے ہیں-
فرد کی سطح پر انفرادی اخلاقی اُصول کسی برتر نصب العین کی موجودگی کے بغیر بھی قائم رہ سکتے ہیں لیکن معاشرے کی اجتماعی زندگی ہمیشہ کسی نہ کسی برترنصب العین کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے- وہ برترنصب العین کچھ بھی ہو سکتاہے- مثلاً ایک قوم کے افراد فقط اپنے دورِ غلامی میں زندہ رہنا چاہتے ہیں یا فقط آزادی کے خواہاں ہیں تو یہ بھی ایک برتر نصب العین ہے- قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ ایک آزاد معاشرے کے افراد کا برترنصب العین ’’جہد للبقاء ‘‘کے برعکس ’’تمکن فی الارض‘‘ ہوتا ہے اور وہ اپنے عہد میں آسمانوں کو چھونے کے خواب اور پھر اُن کی تعبیریں دیکھتے ہیں-
چونکہ فرد کی سطح پر انفرادی اخلاقی اُصول کسی برتر نصب العین کی موجودگی کے بغیر بھی قائم رہ سکتے ہیں-اِس لیے ایک شخص فقط اس لیے اپنے آپ پر بعض حرکتیں ممنوع قرار دے سکتاہے کہ وہ حرکتیں اسے اپنے لیے پسند نہیں ہیں اور جب تک وہ خود کو مجبور نہیں پاتا وہ ایسی حرکتیں انجام نہیں دیتا- مثال کے طورپر ایک شخص کو ’’ہَپ ہَپ‘‘ کرکے کھاناپسند نہیں ہے- وہ اکیلے کمرے میں بھی ایسا نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اسے ایسا کرنا پسند نہیں ہے- یا کوئی شخص، جب تک مجبور نہ ہو، اکیلے کمرے میں بھی میز پر گری ہوئی غذا یا مشروب کو زبان سے چاٹ کر پینا پسند نہیں کرےگا- تو ایسی حرکتیں جو اکیلا شخص اپنی تنہائی میں بھی اپنے لیے پسند نہیں کرتا، وہ فرد کی ذاتی اخلاقیات ہے- فرد کی ذاتی اخلاقیات کا کسی برترنصب العین کے ساتھ منسلک ہونا ضروری نہیں ہے لیکن یہ منسلک ہوبھی سکتی ہے- فردکی یہی ذاتی اخلاقیات کبھی کبھار استمرار کےساتھ مذہبی اخلاقیات میں بدل جاتی ہے اور دھیرے دھیرے افراد کی ایسی ذاتی اخلاقیات برتر نصب العین کی سی صورت اختیار کرلیتی ہیں-
ایک بات جس سے ’’مَزدکی فکر‘‘ ہمیشہ چشم پوشی کرتی رہی ہے وہ یہ ہے کہ روٹی اکیلے انسان کا مسئلہ نہیں بلکہ اُس انسان کا مسئلہ ہے جو اکیلا نہیں، یعنی معاشرے کا حصہ ہے- اکیلا انسان بھوک سے خوفزدہ نہیں ہوسکتا کیونکہ اکیلے انسان کی بھوک کا مسئلہ غیر فطری ہے- مثلاً اگروہ مال جمع بھی کرنا چاہے تو جلد ہی اس پر عیاں ہوجائےگا کہ اس عمل سے اُسے کچھ فائدہ نہیں- کوئی بھی انسان جب بھوک سے خوفزدہ ہوتا ہے تو تحفظِ خویش کے جذبہ سے خوفزدہ ہوتاہے اورخویش ہی تو کسی انسان کا سب سے پہلا معاشرہ ہے- خویش کا دائرہ کار بڑھ کر ہی قبیلے یا معاشرے میں تبدیل ہوتاہے-چنانچہ اکیلا انسان یا فردِ معاشرہ جب مذہبی اخلاقیات یا بالفاظِ دِگر اپنی ذاتی اخلاقیات کو خودکار طریقے پر سنوارتا چلا جاتاہے تو اُس کی یہ کوشش بھی عین ارتقائی عمل ہے- لیکن اس کی یہ کوشش پورے معاشرے کی نفسیاتی زندگی کو ترتیب دیتی ہے- اگر فردِ معاشرہ اپنی ذاتی اخلاقیات میں احساسِ کمتری کا شکارہے تو معاشرہ مجموعی طورپرجرائم پیشہ افرادسے بھرجاتاہے-
ہم فرد کی اِسی ذاتی اخلاقیات کو’’ نجی اخلاقیات‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں-فردکی یہی نجی اخلاقیات نفسِ واحد کا وہ ممنوعہ علاقہ ہےجہاں تہذیبِ نفس کسی نازک پودے کی طرح جنم لیتی ہے-نفسِ انسانی کا یہ ممنوعہ علاقہ وہی ہے جسے وزیرآغا نےہنری ملّر کے حوالے سے وجودکاجزیرہ کہاہے- جہاں اکیلا انسان اُس ملّاح کی طرح قید ہوکر رہ گیاہے جس کا جہاز تباہ ہو چکاہو-[1]
فرد کی نجی اخلاقیات میں تہذیب نفس کی پیدائش کا خودکار عمل کیوں کرشروع ہوتاہے؟ اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ دراصل انسان اپنی بے بسی پر کُڑھنے والی مخلوق ہےاور تہذیبِ نفس کا پودا بے بسی کی اِسی کھاد کی موجودگی میں پھُوٹتا ہے-لیکن اپنی بے بسی پر تو پنجرے میں قید پرندہ یا شیر بھی کڑھتا ہے- ماہرین حیاتیات بتاتے ہیں کہ چڑیا گھروں کے جانور جنگلی جانوروں کی نسبت نفسیاتی دباؤ کا شکار رہتے ہیں-وہ بور ہوتے ہیں، تھک جاتے ہیں اور اُداس رہتے ہیں، لیکن وہ پنجرے سے نکلنے کے لیے کچھ کرنہیں سکتے- اس کے برعکس انسان کی کُڑھن تخلیقی ہے-اُس کی جبلّت کڑھن کا مقابلہ کرنے کے سوطریقے جانتی ہے- اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہیں اور خود کو اتنا بے بس نہیں پاتا جتنا اپنے آپ کے سامنے خود کو بے بس پاتاہے-وہ جانتاہے کہ وہ بہت کمزورہے- شہوت اور اشتہاء کی شدت میں وہ اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے کہ اپنے اُوپر عائد تمام پابندیوں کو توڑدے-
لیکن پھر اگر بغور مطالعہ کیا جائے تواپنی خواہشات پر قابُو پانا بھی فطری ہے-بالکل ویسے جیسے خواہشات کا بے قابُو ہوجانا فطری ہے-لیکن اِس بات کو سمجھنے کیلئے پہلے ہمیں ارتقاء کے ذریعے ملنے والی جبلتوں کی سائنس پرتھوڑا سا غور کرنا پڑے گا- اشتہاء اور شہوت سے متعلق ہماری ’’فوری خواہشات‘‘ کو اِمپلس (Impulse) یا ریفلیکس ایکشن (Reflex action)کہاجاتاہے- اُردو میں ایسے جسمانی ری ایکشن کو اضطراری عمل کہتے ہیں-ایسے اضطرار یا ریفلیکس ایکشن(اِمپَلس) پر قابُو پانا ممکن نہیں ہوتا لیکن ریفلیکس ایکشن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خرابی اور اُس خرابی کے نتیجے میں ملنے والی سزا کی تنبیہ بھی چونکہ فطری ہے اِس لیے وقت کے ساتھ ساتھ خود پر قابُو پانے کی جبلّت نمودار ہو کر جانداروں کے گروہوں کو منظم کر دیتی ہے-
کسی ریفلیکس ایکشن یا اِمپلس پر مسلسل اور متواتر ملنے والی سزا کا خوف بھی بالآخر اِمپَلس بن جاتاہے-’’پانچ بندروں‘‘ والے نام نہاد سماجی تجربے سےیہی ثابت ہوتاہے کہ سزا کی مسلسل اور متواتر تنبیہ بالآخر ایک اِمپلس یا ریفلیکس ایکشن بن جاتی ہے-پانچ بندروں کا مشہورتجربہ کیا ہے؟ اگر آپ پانچ یا کچھ بندروں کو ایک کمرے میں بند کردیں اور اُنہیں بھوکا رکھیں-لیکن شدید بھوک کے عالم میں جب آپ اُنہیں کھانے کی کوئی چیز فراہم کریں تو ساتھ ہی اُن پر ٹھنڈے پانی کا شاورکھول دیں یا کسی اورطرح کی سزادیں- وہ پانی سے ڈر کر بھاگیں گے اور کھانا چھوڑ دیں گے-آپ مسلسل اور متواتر یہ عمل اُن پر دہراتے رہیں تو ایک دن سزاکاخوف اُن کی اِمپلس بن جائےگا-ظاہر ہے اس دوران آپ اُنہیں کسی اور طرح سے کھانا تو کھلاتے رہینگے- اب آپ اُن میں سے کچھ بندر نکال کر نئے بندرکمرے میں لے آئیں تو چونکہ وہ سزا سے واقف نہیں ہیں، اس لیے وہ کھانے کی طرف لپکیں گے-لیکن جونہی وہ کھانے کی طرف لپکیں گے، پرانے بندر آگے بڑھ کر اُنہیں روکیں گے اور ماریں گے- یہ گویا نئے بندروں کیلیے سزا ہوگی- اب یہ عمل پرانے بندر چونکہ اُن کے ساتھ مسلسل اور متواتر دہرائیں گے اِس لیے نئے بندروں میں بھی سزا کی تنبیہ اِمپلس بن جائےگی اور اگر پرانے بندروں کو نکال دینے اور نئے نئے بندروں کو لاتے رہنے کا عمل بھی مسلسل اور متواتر جاری رہے تو سزا کی تنبیہ بھی مسلسل جاری رہے گی اور اس تنبیہ کی وجہ سے پیدا ہوجانے والی اِمپلس یا ریفلیکس ایکشن بھی-یعنی اب کھانے کو دیکھ کر تمام بندروں کا جی تو للچاتا رہے گا لیکن اب وہ سزا کے خوف سے اپنی خواہش پر قابُو پانا بھی سیکھ چکے ہونگے چنانچہ وہ اپنی شدید خواہش کو بھی دبا لیں گے-یوں اُن میں سے ہربندر اپنی ذاتی کمزوری یعنی کھانے کو دیکھ کر للچانے کی اِمپَلس سے آگاہ ہوتے ہوئے بھی کھانے کی طرف نہ لپکے گا، کیونکہ اُس کی دوسری اِمپَلس اس کی جبلت پر حاوی ہو جائے گی- لیکن جب وہ کسی اور بندرکو دیکھےگاکہ وہ کھانے کی طرف لپک رہاہے تو گویا وہ اس کی اِمپَلس کے مظاہرے پر برافروختہ ہوجائےگا-
ہم جانتے ہیں کہ افرادِ معاشرہ اپنی ذاتی کمزوریوں سے تو آگاہ ہوتےہیں لیکن وہی کمزوریاں کسی اور شخص میں دیکھنے کیلیے تیار نہیں ہوتے-ہرفردجبلی طورپر یہ خواہش رکھتاہےکہ جس طرح وہ اپنی ذاتی کمزوریوں کو چھپا لیتا ہے باقی افرادِ معاشرہ بھی اُسی طرح اپنی کمزوریوں کو چھپائیں-ایسا فرد جو اپنی کمزوریوں کو چھپا نہیں سکتا، دیگرافرادِ معاشرہ کی نظر میں مَردُود ہوتا ہے- اپنی کمزوریوں کو چھپالینے کی مہارت بھی ارتقا کا عطاکردہ تحفہ ہے اور جو کوئی بھی اس تحفے سے محروم ہوتا ہے وہ دوسروں کی نظروں میں حقیر ٹھہرتا ہے-
پانچ بندروں کے تجربہ میں ’’سزاکی تنبیہ‘‘ کاجو تصورہم نے دیکھا ، اُسے باقی حیات میں بھی دیکھاجاسکتاہے-بھیڑیوں میں بھی سزاکی تنبیہ کی جبلّت موجود ہے- جب غول کا کوئی نَر بھیڑیا شہوت سے مجبور ہو کر کسی مادہ بھیڑیا کے نزدیک جاتا ہے تو اُسے سزا کا خوف بھی لاحق ہوتا ہے- کیونکہ غول کے عام نَروں کو جنسی عمل کی اجازت نہیں ہوتی- یہ غول کی اجتماعی جبلّت میں ہے کہ فقط غول کا سردار ہی نسل کو آگے بڑھائے گا تاکہ تمام غول ایک ہی باپ کی اولاد ہونے کی وجہ سے ہمیشہ منظم رہے-غول کی تمام مادائیں سردار کی ذاتی مادائیں ہوتی ہیں-لیکن جب کبھی غول کا کوئی عام نَر شہوت سے مجبور ہو کر اپنی اِمپَلس پر قابُو نہیں پاسکتا اورکسی مادہ کے نزدیک چلا جاتاہےتو غول کا سردار یااس کے ہرکارے(یعنی غول کے دیگر نَر) اُس گمراہ بھیڑیے کو غول کی اخلاقیات یاد دلاتے اور اُسے سزا دیتے ہیں- یہی جبلّت شیروں، چیتوں، اور کتوں بلّوں کی بھی ہے-
ماہرینِ جنگلی حیاتیات کیلیے یہ بات ہمیشہ تجسس کا باعث رہی ہے کہ بعض جانور اپنے بچوں کو کیوں مار دیتے ہیں-جنگلی جانورں میں شیر، بھیڑیا اور دیگر کئی درندے اپنے بچوں کا قتل کرتے ہیں- ہم گھروں میں پالتو بلیوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو بلّوں کے ڈر سے چھپاتی پھرتی ہیں کیونکہ بلّے اُنہیں قتل کر دیتے ہیں-سمندر میں کئی قسم کی مچھلیاں اپنے بچوں کو مار دیتی ہیں-یہاں تک کہ بہت زیادہ ارتقاء یافتہ جانور مثلاً چمپانزی اورگوریلا میں بھی دیکھاگیاہے کہ وہ بعض اوقات اپنے ہی بچوں کا قتل کرتے ہیں- ماہرین ِ حیاتیات نے اس قسم کی حیوانی جبلتوں پر تحقیقات کیں تو معلوم ہوا کہ زیادہ تر جانوروں میں ’’نَر‘‘ ایسا کرتے ہیں کہ کسی مادہ کے بچوں کو مار دیتے ہیں- اُن کے ایسا کرنے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ دراصل اُس ’’مادہ‘‘ کو بچوں کی پرورش کے کام سے آزادکرکے اُنہیں دوبارہ جنسی عمل کے تیار کرنا چاہتے ہیں کیونکہ جن بچوں کو وہ مارتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ بچے اُن کے نہیں ہیں-ماہرین حیاتیات بتاتے ہیں کہ بچوں کو قتل کرنے کا عمل زیادہ تر گوشت خورجانوروں میں دیکھاگیاہے- اس کی وجہ یہ ہے کہ گوشت خور جانوریعنی درندے جو غولوں میں رہتے ہیں ہمیشہ اپنے غول کو قائم رکھنا چاہتے ہیں اور ایسا فقط اُس وقت ممکن ہے جب سارے کا سارا غول ایک ہی باپ کی اولاد ہو-
درندے شکاری جانورہیں-مضبوط غول کی صورت ایک جگہ رہنا اُن کی ارتقائی مجبوری ہے-کیونکہ وہ اپنے شکار پر کسی لشکرکی صورت حملہ آور ہوتے ہیں- اگروہ اپنے شکار پر متحد ہو کر حملہ نہ کریں تو بھوکے مرجائیں- لیکن ایک غول ہمیشہ مضبوط غول رہے اِس بات کے لیے فطرت نے اُن میں خود کارطریقے پر یہ نظام نافذ کر رکھا ہے کہ غول کا سردار پورے غول کا دراصل اصلی باپ بھی ہے-چونکہ غول کا سردار، غول کا باپ ہے بایں ہمہ تمام ماداؤں کا واحد شوہر بھی- اب قابلِ توجہ امریہ ہے کہ غول کے تمام نَربھیڑیے جبلّی طور پر اس بات سے آگاہ ہیں کہ جب وہ کسی مادہ کو لُبھائیں گے تو سردار باپ کی طرف سے اُنہیں سزا ملے گی-یہ ہے سزا کی تنبیہ جو اُنہیں یادہے- پھر بھی جب کبھی کوئی بھیڑیا ایسی غلطی کرنے لگتاہے تو صرف سردار ہی نہیں بلکہ دیگر نَر بھیڑیے بھی اس پرحملہ کردیتے ہیں- یہ جبلت کُتوں میں عام مشاہدے کی بات ہے-ارتقاء کے دروان تقریباً تمام درندوں میں اس جبلت نے نشوونما پائی ہے-
درندوں میں موجود غیرت کی اِس جبلت کے مطالعے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جنسی خواہش کی تسکین کا عمل جانوروں میں بھی نہایت ذاتی نوعیت کی چیز ہے-یہ جانوروں میں بھی ایک پرائیویٹ سرگرمی ہے کیونکہ ایسی انواع میں جنسی عمل انجام دینے والے جوڑے کو اپنی نسل کے دیگر جانوروں خصوصاً نَروں سے حملے کا خطرہ ہوتاہے-ارتقاء کے دوران پروان چڑھنے والی ایسی جبلتوں کے مشاہدے سے کسی حد تک انسانی جبلتوں کی بھی وضاحت ہوتی ہے-ایسے انسانی سماج جو قبائل کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں آج بھی غول کے اُصولوں پر مستحکم ہیں-
انسانی معاشروں میں موجود غیرتِ جنسی بھی ارتقا کے دوران پروان چڑھی ہے-جنسی عمل جیسا خالص پرائیویٹ اور نجی عمل کوئی دوسروں کے سامنے کرنے لگے تو ہمیں بُرا کیوں لگتاہے؟اِس سوال کا جواب بھی ارتقاء میں موجود ہے-ہم بھی جسمانی طور پر حیوان ہیں اورجبلی طورپر مجبورہیں کہ دوسروں کے جنسی معاملات پرمشتعل ہوجائیں-یہی وجہ ہے کہ ہروہ شخص جو اپنی کمزوریوں پر قابُو پانے میں ہم سے بہتر ہے ہمیں اچھا لگتا ہے-کیونکہ ہم خود اپنی کمزوریوں پر قابُو پاتے ہوئے جینا چاہتے ہیں-
الغرض! افادیت پسند فلسفوں کا یہ خیال درست نہیں ہے کہ ’حقیقت میں توہر انسان اپنی حیوانی خواہشات کی تسکین حیوانی انداز میں ہی چاہتا ہے لیکن سماجی دباؤ کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر سکتا‘- اس کے برعکس یہ خیال درست ہے کہ انسان اپنی حیوانی خواہشات کو چھپا کر رکھنا چاہتا ہے، کیونکہ حیات الحیوان کے مطالعہ سے یہی ثابت ہوتاہے کہ اس طرح اپنی ایک جبلّت یعنی فطری خواہش پر قابُو پانا ایک اور جبلت یعنی سزاکی تنبیہ کو یاد رکھنے کی جبلّت کی وجہ سے ہوتا ہے-الغرض ہمارا اپنی نفسانی خواہشات کو لوگوں کی موجودگی میں چھپالینا بھی فطری یعنی اِمپلس کی وجہ سے ہوتا ہے-لیکن فرد ذاتی طورپر یہ بات اپنے دل میں جانتاہے کہ اُسے اپنی خواہشات پر قابُو نہیں ہے- وہ جانتاہے کہ وہ لوگوں کے سامنے کتنی مشکل سے خود پر قابُو رکھتا ہے- وہ اپنے غصے، اپنے خوف، اپنے ہیجان، اپنی شہوت اور اپنی بھوک میں خود کو بے قابُو دیکھتاہے تو اُسے اندازہ ہونے لگتاہے کہ وہ بنیادی طورپربہت کمزوراور بے بس ہے-یہی وہ بے بسی ہے جس پر اُس کی کڑھن جبلّی ہے نہ کہ عقلی- تنہائی میں تو وہ اور بھی زیادہ لاچار ہوجاتاہے کیونکہ تنہائی میں اسے اپنی نفسانی خواہشات کی تسکین کیلیے آزادی بھی حاصل ہے-یوں وہ ہمہ وقت اپنی ایسی نجی کیفیات کی وجہ سے جان جاتاہے کہ وہ بہادر(Hero) نہیں ہے-قرآن مجید نے بھی انسان کواِسی بناپر کمزور کہاہے-[2]
ہم جب کسی شخص کو اپنا ہیرو ماننے لگتے ہیں تو دراصل ہم اپنی کمزوریوں کو تسلیم کررہے ہوتے ہیں- ہروہ بات ہماری نظرمیں دوسروں کو ہِیرو بنا دیتی ہے جو خود ہم میں موجود نہیں-ایک شخص جو جانتا ہے کہ وہ بھوک پر قابو نہیں رکھتا، اُس کے لیے ایسا شخص جو بھوک پر قابُو رکھتاہے، بہادر ہے-گویا فرد کی نجی اخلاقیات اس کی سماجی اخلاقیات کے اُصول وضع کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے-اِسی عمل سے معاشرے کی اخلاقی خوبصورتی جنم لیتی ہے-افراد اپنی نجی اخلاقیات میں اپنی جن کمزوریوں سے آگاہ ہوتے ہیں معاشرے میں خودبخود اُن پر پابندی عائد ہوتی چلی جاتی ہے-وہ جن جن اعمال کو حقیقی بہادری مانتے ہیں وہی اعمال اُن کے معاشرے میں احسن شمارہونے لگتے ہیں-فرد کے ایسے تمام اعمال فی الاصل فرد کی تہذیبِ نفس سے پھُوٹتے ہیں- عزت، آبرُو، وسعتِ قلبی، وسعتِ نظری، بڑادِل، حوصلہ، صبر، استقامت، شرافت، متانت اور شجاعت ایسے ہی احسن اعمال ہیں جن کا ماخذ فرد کی تہذیبِ نفس ہے-غالباً اِسی لیے احادیث مبارکہ میں نفس کے جہاد کو جہادِ اکبرکہاگیاہے-[3]
مغرب ہو یا مشرق، جسمانی اعتبار سے تمام انسان ایک جیسے ہیں جبکہ انسان کی جسمانی حاجات ذاتی نوعیت کی شئے ہیں-اس لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ فقط عقل کے ذریعے اخلاقی اُصول وضع کرکے انسانوں کے سپرد کردیے جائیں، جیسا کہ نظریہ افادیت پسندی کے تحت کیا گیا ہے-افرادِ معاشرہ اپنی ذاتی کمزوریوں سے واقفیت کی بنا پربعض اعمال کو پسند اور بعض کو ناپسند کرتے ہیں-یہ عمل خودکار طریقے سے انجام پاتا ہے- اسے ہم ’’سماج کی جبلت‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں-بایں ہمہ معاشرتی اخلاقیات کی تدوین و تشکیل کسی اکیلے مفکر کا کام نہیں بلکہ سماج کی یہی جبلت اخلاقیات کو ہمیشہ اپنے مخصوص نیچرل طریقے پر جنم دیتی ہے-
افرادِ معاشرہ کی اجتماعی پسند ناپسند سےبرآمد ہونے والی سماجی اخلاقیات کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تہذیبِ نفس کسی معاشرے کے لوگوں میں بہت بنیادی سطح پر ہی جنم لیتی ہے- تہذیبِ نفس، نفس کی تہذیب و شائستگی ہے-عہدِ حاضر کے متمدن معاشروں کی اخلاقیات کا نمایاں حصہ چونکہ مصنوعی ہے اِس لیے عہدِ حاضر کے اکثر معاشروں میں تہذیبِ نفس کا فقدان ہے-لیکن کوئی بھی معاشرہ چاہے وہ کتنا ہی جدید کیوں نہ ہوجائے، قدرتی اخلاقیات سے مکمل طور پر کبھی بھی محروم نہیں ہوسکتا-دراصل عامۃ الناس اپنی حیاتِ جسمانی میں جبلتوں سے مغلوب رہتے ہیں اوراِس لیے فرد کی ذات کی گہرائی تک مصنوعی اخلاقیات ویسا نفوذ نہیں رکھتی جیسا کہ قدرتی اخلاقیات کا خاصہ ہے-یادرہے کہ مصنوعی اخلاقیات کی سب سے بڑی مثال جیرمی بینتھم (Jeremy Bentham) اور جان سٹورٹ مِل (Jan Stuart Mill) کا نظریۂ افادیت پسندی ہے-
اب یہ سوال گویا حل ہوچکاہے کہ فرد کی حیاتِ مثالی میں تہذیبِ نفس کس وقت جنم لیتی ہے؟یہ اُس وقت جنم لیتی ہے جب فرد اپنی بے بسی پرکڑھتاہےاوراپنے لیےتصوراتی طورپرایک زیادہ مضبوط اورقابلِ بھروسہ شخصیت گھڑنا شروع کرتاہے-ایک ایسی شخصیت جس پر سب سے پہلے وہ خود بھروسہ کر سکے-اِس نئی شخصیت کا وجود اُس کا ’’ہِیرو وجود‘‘ہے- ہم جب کوئی فلم دیکھتےہیں تو ہیروکوپسند اور ولن کو ناپسند کیوں کرتے ہیں؟ کیونکہ ہِیرو کی شخصیت میں وہ کمزوریاں مفقود ہیں جو ہماری شخصیت میں موجود ہیں-جبکہ ولن کی شخصیت میں وہ کمزوریاں موجود ہیں- ہم خود ہیروجیسا بننا چاہتے ہیں- ہم خود اپنی انسانی کمزوریوں کو پسند نہیں کرتے، یہی وجہ ہے کہ ہم ولن کو پسند نہیں کرتے- یہ انسانی فطرت ہے اور یہی دلیل واضح کرتی ہے کہ عقل کے ذریعے اخلاقیات تشکیل نہیں دی جاسکتی-اخلاقیات معاشرے میں کسی پودے کی طرح پھُوٹتی ہے- بالفاظِ دیگر یہ ذہنِ سماج پر ’’وحی‘‘ کی طرح سے نازل ہوتی رہتی ہے-
تصریحاتِ بالا سے پتا چلتا ہے کہ انسان بطورفردِ واحد اپنی ذاتی زندگی جیتاہے تو وہ اپنے آپ کے ساتھ اکیلا ہوتا ہےلیکن جب وہ دوسرے انسانوں کے ساتھ رابطے میں آتاہے تو وہ معاشرےکے مشترکہ وجود کا حصہ ہوتاہے- اپنی ذات کے ساتھ اکیلا انسان اپنی ذاتی کمزوریوں سے واقف ہونے کی وجہ سے اپنی بے بسی پر کڑھتا ہے اور خود سے بہتر انسانوں کو پسند کرتا ہے-معاشرے میں رہنے کا اُس کا یہی طریقہ ہے- وہ یونہی فرداً فرداً اپنے وجود کی عمق سے معاشرے کیلئے نئے نئے طوراطوار برآمد کرتا اور ’’توحیدِ معاشرت‘‘ کی طرف رواں دواں رہتا ہے-
فرد کی بجائے قوم کے حوالےسے تہذیبِ نفس کی اصطلاح حسن عسکری نے اپنی کتاب ’’وقت کی راگنی‘‘ میں جن معنوں میں استعمال کی ہے، وہی معنی ہمارے بھی پیشِ نظر ہیں- حسن عسکری لکھتے ہیں:
’’انسانی تاریخ کی عظیم ترین اور مکمل ترین روایتی تہذیبیں تین ہیں:چینی، ہندو اور اسلامی- یونانی، یہودی اور ازمنۂ وسطیٰ کی عیسوی تہذیبیں اپنی اپنی جگہ قابل قدر ہیں، لیکن کسی نہ کسی اعتبار سے نا مکمل ہیں- موجودہ مغرب کسی طرح روایتی تہذیب کے دائرے میں آتا ہی نہیں، کیونکہ اس میں روایت کا وجود ہی نہیں ہے- بلکہ یہ بات بھی مشکوک ہے کہ جس معاشرے میں تہذیب نفس کا کوئی مرکزی اصول نہ ہو اُسے تہذیب کہہ بھی سکتے ہیں یا نہیں-بہر حال ان تین بڑی تہذیبوں میں طرح طرح کے اختلافات کے باوجود ایک چیز مشترک ہے، توحید کا نظریہ ‘‘-[4]
جب امریکہ نے 1945ء میں جاپان کے شہروں، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گراکرلاکھوں نہتے اور بے گناہ شہریوں کو ہلاک کیا تو یہ ایک ایسا عمل تھا جسے کسی بھی اخلاقیات کی رُو سے ایک مہذب قوم کا اقدام قرار نہیں دیا جاسکتا-امریکہ کے اِس عمل میں قومی تہذیبِ نفس مفقود تھی- کسی قوم کی تہذیبِ نفس سےمُراد اُس کی وہ اخلاقی عظمت ہےجس کی بناپرقوموں کو اقوامِ عالم میں عزت کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے-مثلاً 2019ءمیں نیوزی لینڈ کی حکومت اور شہریوں نے بھی ایک طرح کی تہذیب کا مظاہرہ کیا، جب نیوزی لینڈ کی ایک مسجد میں 50 سے زیادہ مسلمانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا تو نیوزی لینڈکی حکومت نے صرف اپنے ملک کے مسلمانوں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی اور یکجہتی کا اظہارکیا اوراُنہیں محبت اورخیرسگالی کا پیغام بھیجا- یہ تھی ایک مہذب قوم کی تہذیبِ نفس-
ابتدائی عہد کی اسلامی فتوحات میں اِس طرح کی تہذیبِ نفس کے متعدد واقعات تاریخ میں رقم ہیں- مثلاً حضرت خالد بن ولید () کا ایک واقعہ اِس تصور، یعنی ’’تصورِ تہذیبِ نفس‘‘ کی تفہیم میں مددگارثابت ہوسکتاہے، جو کچھ یوں ہے:
’’مسلمانوں نے یرموک کی طرف روانگی سے پہلے ایک حیرت انگیز کام کیا کہ جس کی تاریخ انسانی میں مثال نہیں ملتی-چونکہ جنگ یرموک کیلئے تمام علاقوں سے مسلمانوں کو جمع کیا گیا تھا ،لہٰذا مسلمانوں نے اس وقت یہ محسوس کیا کہ اب وہ شاید ان تمام علاقوں کی حفاظت نہ کرسکیں کہ جو وہ اس سے پہلے شام میں فتح کرچکے تھے- لہٰذا اُنہوں نے حمص کے عیسائیوں کو یہ کہہ کر جزیہ واپس کردیا کہ ہم آپ کی حفاظت نہیں کرپائیں گے اور معاہدے کے تحت لی گئی رقم واپس لوٹا دی گئی- آج تک تاریخ انسانیت میں ایسا نہیں ہوا کہ ایک فاتح قوم، مفتوح قوم کے غریب اور مسکین لوگوں کے ساتھ اس قدر غیرت اور عزت کا برتاؤ کرے-حمص کے عیسائی مسلمانوں کے اخلاق اور کردار سے اتنے متاثر ہوئے کہ دعا کرنے لگے کہ مسلمان جلد فتح یاب ہو کر واپس لوٹیں-یہ واقعہ یقیناً مسلمانوں کے عظیم اخلاقی کردار کی ایک زندہ تصویر ہے‘‘-[5]
لیکن کوئی قوم اگر نظریاتی طور پر افادیت پسند (Utilitarian) ہے تو اُن کی اجتماعی اخلاقیات کا مرکزی نکتہ ’’عظیم ترمفاد (Greater Good) ‘‘ کا حصول ہوگا- جبکہ نظریۂ افادیت پسندی (Utilitarianism) کے پاس کسی نہتی اور بے گناہ آبادی پر ایٹم بم گِرانے کا جواز بھی موجود ہو سکتا ہے-عظیم ترمفاد کےحصول کے لیے ایسی آبادیوں کو مار دینا نظریۂ افادیت پسندی کے نزدیک ’’ناگزیر نقصان یا کولیٹرل ڈیمیج (Collateral Damage)‘‘ کہلاتاہے-کولیٹرل ڈیمیج وہ نقصان ہے جو کسی بڑے اورعظیم ترمقصد کے حصول کیلئے انسانوں کو مجبوراً اُٹھانا پڑتا ہے-منطقی اعتبار سے نظریۂ افادیت پسندی (Utilitarianism) ہزار خوبیوں کا مالک اور جدید سہی، لیکن اِس کے پاس نفسِ اجتماعی کی آراستگی کا کوئی سامان موجود نہ ہونا فطری امر ہے، کیونکہ یہ نظریۂ افادیت پسندی ہے نہ کہ استفادیت پسندی-نفس کی آراستگی سے مالامال قومیں مستقل اخلاقی اقدار کاخون ہوتے نہیں دیکھ سکتیں- ایسی اقوام کے ہاں اقدار کی قدر و قیمت افراد کی جانوں سے زیادہ سمجھی جاتی ہے-یہیں سے ایک منفرد سوال جنم لیتاہے-
ایک انسانی جان زیادہ قیمتی ہے یا ایک اعلیٰ اخلاقی قدر؟ اس سوال کے ساتھ ہی دوطرح کے نظریات نمودار ہوجاتے ہیں:
- انسانی جان زیادہ قیمتی ہے لہٰذا اخلاقی قدر (اعلیٰ و ادنیٰ) کوقربان کر دیا جانا چاہیے-
- اعلیٰ اخلاقی قدر زیادہ قیمتی ہے چنانچہ انسانی جان کو قربان کر دینا چاہیے-
لیکن اِس سےپہلے کہ ہم اس سوال پر مزید غورکریں، ہمیں دیکھ لینا چاہیے کہ دونوں صورتوں میں انسانی جان کی قربانی بہرحال ناگزیر ہے-کیونکہ اگرہم ثانی الذکر نظریہ کی حمایت کا اعلان کرتے اوراعلیٰ اخلاقی قدر پرانسانی جان کو ترجیح دیتے ہیں توگویا ہم نےنظریۂ افادیت پسندی کی تائید کی-نظریۂ افادیت پسندی روایتی اخلاقی قدروں کو تو قربان کر دیتا ہے لیکن عظیم تر مفاد کے حصول کی خاطر انسانی جانوں کے خرچے کا پھربھی کہیں زیادہ قائل ہے-اسامہ بن لادن کو پکڑنے کے لیے امریکہ نے پورے افغانستان پر ’’بمباربی ففٹی ٹُو‘‘ طیّاروں کے ذریعے ڈیزی کٹربم گرائے- ڈیزی کٹربم کارپٹ بمباری کیلے گرائے جاتے ہیں- اِس کارپٹ بمباری سے پورا افغانستان چند دنوں میں اُڈھڑ کر رہ گیا- ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں اور ان گنت لوگ کبھی اپنے گھروں کو واپس نہ لوٹ سکے-اِس موقع پر امریکہ کا مؤقف یہ تھا کہ اسامہ بن لادن کو پکڑنا زیادہ ضروری ہے، چاہے اُسے پکڑنے کے لیے لاکھوں بے گناہ جانوں کا نذرانہ ہی پیش کیوں نہ کرنا پڑے- کیونکہ وہ دہشت گردوں کا سردار ہے اور دہشت گرد پوری دنیا کے انسانوں کیلئے ایک مستقل خطرہ ہیں- امریکہ کے اِس مؤقف کی تائیدساری مہذب دنیا نے کی- گویا تمام مہذب دنیا بھی عظیم ترمفاد کے اِس نظریہ کی قائل ہے کہ بڑے نقصان سے بچنے کیلیے چھوٹا نقصان برداشت کر لیا جائے-
یہ سچ ہے کہ آج کی پوری مہذب دنیا اخلاقی اقدار کو عظیم تر مفاد کے تناظرمیں ہی مرتب کرتی ہے- لیکن کسی زندہ تہذیب کی مخفی دولت فقط اُس کے افرادِ معاشرہ کی تہذیبِ نفس پر منحصر ہے-جبکہ نفس کی آراستگی یا تہذیبِ نفس کسی معاشرے کی اخلاقیات کا سب سے خوبصورت پہلُو ہے-تہذیبِ نفس سے آراستہ معاشرے بُری رسموں سے پاک ہوتے ہیں-ضروری نہیں کہ ایک معاشرہ جو تمدن کی بلندیوں پر فائز ہے، تہذیبِ نفس سے بھی آراستہ ہو-ہم عام طور پر تہذیب و تمدن کے درمیان موجود فرق کو نظر انداز کر دیتے ہیں- تہذیب اور تمدن میں بہت بنیادی سا فرق پایا جاتا ہے-تمدن کا تعلق نت نئی ایجادات اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے بدلتے ہوئے بڑے بڑے شہروں اور ان کی زندگی سے ہے- لیکن تہذب کا تعلق اس سے نہیں- ایک امیر کبیر شخص جو اعلیٰ لباس اور عمدہ گاڑی میں سوار ہے، متمدن ہے، لیکن عین ممکن ہے کہ مہذب ہونے میں وہ کسی عام سے غریب آدمی سے بھی مات کھاجائے-
جیسا کہ ہم نے علمیاتِ اخلاق کے باب میں دیکھا کہ نفس کی آراستگی یا تہذیبِ نفس کے تصور سے عامۃ الناس بھی واقف ہیں، بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ کسی قوم کے مہذب ہونے کی نشانی یہ ہے کہ اُس قوم کے عام افراد تہذیبِ نفس کی دولت سے مالامال ہوں- لیکن عام لوگ اِسے فقط فرد کی ذاتی ذمہ داری سمجھتے ہیں-مغربی قوموں میں فرد کی ’’آنر‘‘ کا جو تصورموجود ہے، وہ دراصل یہی تہذیبِ نفس کا تصور ہی ہے- یورپ کا فرد ’’آنر‘‘ کے جس تصور کے لیے ہمیشہ سے کٹتا مرتا آیا ہے، ہمارے ہاں اسے ’’آبرُو‘‘ کہا جاتا ہے- ایک مقولہ ہے، ’’مال صدقۂ جان، جان صدقۂ آبرُو‘‘- یعنی اگر مال اور جان میں سے ایک کو چُننا ہو تو ظاہرہے جان کو چُنا جائےگا اور مال کی قربانی قبول کرلی جائےگی- لیکن اگر جان اور آبرُو میں سے ایک کو چُننا ہوگا تو آبرُو کو چُنا جائےگا اورآبرُو کے تحفظ کے لیے جان کا نذرانہ پیش کردیاجائےگا- یاد رہے کہ یہاں آبرُو سے مراد تہذیبِ نفس ہے نہ کہ غیرتِ جنسی-
لیکن نظریۂ افادیت پسندی (Utilitarianism) آنر، آبرُو یا تہذیبِ نفس جیسی اصطلاحات کو سِرے سے تسلیم ہی نہیں کرتا جبکہ نظریۂ افادیت پسندی ہی عہدِ حاضر کا سب سے مقبول فلسفہ ہے-جان سٹورٹ مِل کی آزادی فی زمانہ سب کی پسندیدہ آزادی ہے، جس کے مطابق، مجھے آپ کی ناک کے پاس تک ہاتھ گھمانے کی اجازت ہے-اگر میرا ہاتھ آپ کی ناک کو چھولےگا تو میں نے گویا اپنی حدودِ آزادی سے تجاوز کیا اورآپ کی حدودِ آزادی میں مداخلت کردی-لیکن کیا یہ اخلاقیات فطرتِ انسانی سے میل کھاتی ہے؟ کیا فی الواقعہ آپ مجھے اپنی ناک کی نوک تک ہاتھ گھمانے کی اجازت دے پائیں گے؟ کیا آپ کی جبلت آپ کو یہ واقعہ برداشت کرنے دے گی کہ آپ مجھے کچھ نہ کہیں اور میں آپ کی ناک کے پاس ہاتھ گھماتا رہوں؟
دراصل اخلاقی قدریں جدلیات کے ذریعے مرتب نہیں کی جاسکتیں-ہم دیکھ چکے ہیں کہ اخلاقی قدریں جسدِ معاشرہ پر کسی عضوء کی طرح نمودار ہوتی ہیں-اخلاقیات لکھے نہیں جاتے، اخلاقیات ارتقاء کے نتیجہ میں حاصل ہوتے ہیں بایں ہمہ یہ وجدانی ہیں- پودے کی شاخ پر پھوٹنے والی کونپل کے وجدان کی طرح اخلاقی قدریں بھی، معاشرے کے درخت کی شاخوں پر اُگنے والے پھول اور پتے ہیں- اُصول، قدریں، اعمال، رسمیں، رواج، عادات اور روایات، یہ سب سقراطی طرزِ فکر سے طے نہیں کیے جاسکتے- یہ معاشرے کی اجتماعی وحی ہے- کسی معاشرے میں بُری یا اچھی رسمیں خودکار طریقے سے داخل ہوتی ہیں-معاشرے میں بُری رسموں کی بُہتات ہوجائے تو خودبخود معاشرے کی ریفارمیشن ہونے لگتی ہے-کوئی نہ کوئی ریفارمر پیدا ہوجاتاہے جو معاشرے کی بُری رسموں کو تنقید کا نشانہ بناتاہے-اگروہ ریفارمر ہے تو اس میں قائدانہ صلاحتیں ہوتی ہیں- کسی ریفارمر کے پیغام میں جتنی زیادہ طاقت ہوتی ہے، اپنے معاشرے سے بُری رسموں کے خاتمے کا وہ اتنا زیادہ اہل ہوتا ہے-سماج میں ریفارمر کی حیثیت، باغ میں مالی جیسی ہے-مالی کا کام ہے باغ میں اُگ آنے والی خودرَو جھاڑ جھنکارکو صاف کرے- معاشرے کے باغ میں بُری رسمیں خودرَو جھاڑیوں کی طرح ہی اُگتی ہیں-باغ کی جھاڑ جھنکار میں ایسی بیلیں بھی اُگ آتی ہیں جو توانا درختوں کے وجود پر پلتی اور اُن کاخون پیتی رہتی ہیں-ایسی بیلوں اور جھاڑجھنکار کی بُہتات سے باغ دھیرے دھیرے تباہ ہونے لگتاہے-یہ بُری رسموں کی جھاڑ جھنکار ہے- بُری رسموں کو عربی میں ’’بدعات‘‘ کہا جاتا ہے-وہ عمل جو بدعات کا موجب بنتاہے، عربی میں ’’افتراء‘‘ کہلاتاہے-بُری رسموں کی بُہتات کسی معاشرے میں اِفتراء کی موجودگی کا ثبوت ہے- افتراء ایک خودکار عمل ہے- جب کسی معاشرے میں ریفارمیشن کا عمل کچھ عرصے تک رُکا رہے تو افتراء کے دروازے چوپٹ کھل جاتے ہیں کیونکہ تبدیلی خودکار ہے اور اُسے روکنا ممکن نہیں ہے-ریفارمیشن کے عمل کو عربی میں اجتہاد بھی کہا جا سکتا ہے جبکہ ایک ریفارمر شارع بھی ہو سکتا ہے اور مجتہد بھی-
ہم نے دیکھا کہ سماج ایک زندہ وجود کی طرح ہے- اُس کاجسم، ثقافت، معیشت اورسیاست کی مثلث سے بنتاہےجبکہ اُس کی رُوح اُس کی اخلاقیات ہے-چنانچہ سماج کسی بھی نامیاتی صداقت کی طرح خودرَوبایں ہمہ فطری ہے- اگرسماج کے جسم میں رُوح موجود ہے تو وہ ایک زندہ سماج ہے-زندہ سماج فعّال اور تخلیقی ہوتاہے-تخلیقی سماج کی اخلاقیات کسی قدرتی آرٹ سے مشابہہ ہوتی ہے کیونکہ اس میں فطرت کا حسن بشکل ِ تہذیبِ نفس نمودارہوتاہے-
لیکن سماج کی علمیاتِ اخلاق کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی سماج کی حیاتِ مادی کے تمام تر اُصول فردِ واحد کی حیاتِ روحانی یا مثالی سے برآمد ہوتے ہیں-جبکہ فرد کی حیاتِ روحانی یا مثالی کی کُل دولت فرد کی وہی تہذیب نفس ہے جو اُس کی ذات کے عمق سے یوں پھوٹتی ہے جیسے کسی شاخ پر پھول- چنانچہ معاشرے کی اعلیٰ اخلاقیات کا ماخذ’’خودی‘‘، فردِ واحد کی ذات یا بقول روڈلف سٹائنر ’’مَیں‘‘ کا وجود ہے-
الغرض! چونکہ سماج کی حیاتِ مادی کے تمام اُصول فرد کی حیاتِ مثالی سے نازل ہوتے ہیں اِس لیے، بالآخر فرد کے نفس کی آراستگی ، قوم کے نفس کی آراستگی کی شکل اختیار کرکے سماج کے مادی وجود میں ظاہر ہوتی ہے -نفس کی یہی آراستگی آخرالامر قوموں کی حیاتِ جاوداں کی ضامن ہے-قدرت کے اس سارے منصوبے میں جوحقیقت ہرقدم پر اپنے ہونے کا اظہار کرتی رہتی ہے، وہ ہے، ’’سماج کا تخلیقی وجود‘‘- چنانچہ یہ طے ہے کہ سماجی اخلاقیات کی تشکیل فردِواحد کے سوچنے کا کام نہیں ہے-بُری رسموں کی بہتات پرکسی ریفارمر کا وجودفی الاصل سماج کے اپنے مدافعتی نظام کا نتیجہ ہے نہ کہ کوئی مفکر بزعم ِ خود ریفارمربن سکتاہے-
٭٭٭
[1]وزیر آغا، ڈاکٹر، تنقید اور مجلسی تنقید، (مکتبہ اردو زبان ، سرگودھا، 1976ء)، ص 502
[2]انساء:82
[3]الترمذی، حدیث نمبر 261،اوقال:حدیث حسن صحیح و سندہ حسن و صححہ ابن حبان / موارد:4261، اوالحاکم علی شرط مسلم 2/97 ووافقہ الذھبی
[4]محمد حسن عسکری، وقت کی راگنی،(مکتبہ محراب لاہور، 1997ء) ، ص39
[5]علامہ واقدی، فتوح الشام ، مترجم ، مولوی سید عنایت حسین، (منشی نوال کشور ، لکھنؤ ، 1895ء)