بابی خاندان کا تعارف:
بابی / بابئی قبیلہ ایک پختون قبیلہ ہے جو کہ تاریخی طور پہ اپنی روایات ، شجاعت و بہادری اور سخاوت و فقیری میں بہت معروف ہے - اِس قبیلہ کا بنیادی مسکن افغانستان کا علاقہ قندھار کہا جاتا ہے - مگر بلوچستان میں بھی اس قبیلہ کی ایک بہت بڑی تعداد آباد ہے اور انڈیا میں گجرات کے علاقہ میں بھی بابی قبیلہ کے لوگ بستے ہیں - سلطنت مغلیہ کے بانی ظہیر الدین بابر کی وفات کے بعدجس وقت صوری خاندان نے تختِ ہند پہ حکومت قائم کر لی اور بابر کا بیٹا ہمایوں حفاظتی جلا وطنی پہ مجبور ہو گیا - بابی قبیلہ کے سرداروں نے ہمایوں کو واپس تختِ ہند پہ لانے میں اہم کردار ادا کیا ، جس کے عوض انہیں بحیرہ عرب کے ساحلی علاقوں گجرات کاٹھیا واڑ میں بڑی جاگیریں اور منصب عطا کئے گئے - جب تک سلطنتِ مغلیہ کا مرکزی نظام قائم رہا ، یہ لوگ سلطنتِ مغلیہ سے وابستہ رہے - لیکن اورنگزیب عالمگیر کے بعد مرکز کی کمزوری کے باعث سلطنت بکھرنا شروع ہو گئی تو بابی خاندان کے سرداروں نے گجرات کاٹھیا واڑ میں اپنی کئی خود مختار ریاستوں کا اعلان کیا - جن میں رادھن پور، بلاسینور، جوناگڑھ ، مناوادر، سردار گڑھ اور بانٹوا معروف ریاستیں ہیں جن پہ آنے والے اڑھائی سو برس تک بابی خاندان کی حکومتیں قائم رہیں -
ریاست جوناگڑھ کا تعارف:
ریاست جوناگڑھ کراچی کے سمندری ساحل سے تقریباً 300 میل کے فاصلے پر جزیرہ نما کاٹھیاواڑ میں واقع تھی-جس کا رقبہ تقریبا ً 3337 مربع میل تھا-1941ء کی مردم شماری کے مطابق آبادی 700،000 افراد پر مشتمل تھی- شیرخان بابی نے1736ء میں ریاست جوناگڑھ کے آزاد اور خود مختار ریاست ہونے کا اعلان کیا-[1] تب سے اس پر بابی خاندان کے نواب حکومت کرتے چلے آر ہے تھے-برصغیر پاک و ہند میں برطانوی نوآبادیاتی حکومت کے خاتمے سےقبل ریاستِ جونا گڑھ 562 شاہی ریاستوں میں سے پانچویں بڑی ریاست کے علاوہ مالی اعتبار سے ہندوستان کی دوسری سب سے بڑی مسلم ریاست تھی -[2]
جوناگڑھ پر کئی صدیوں تک مختلف حکمرانوں اور خاندانوں نے حکومت کی، لیکن بابی خاندان نے جوناگڑھ کی ترقی کے لئے تاریخی اور بے مثال انتظامی اصلاحات کیں-جونا گڑھ کے انتظامی ڈھانچہ، ترقیاتی منصوبوں اور عوام الناس کی فلاح و بہبود کیلئے کئے جانے والے اقدامات نمایاں ہیں-
اسٹیٹ کونسل اور ایڈوائزری کونسل:
ریاست کے سیاسی نظام میں دو اہم سیاسی ادارے یعنی اسٹیٹ کونسل اور ایڈوائزری کونسل قائم کیےگئے- اسٹیٹ کونسل میں موجود اراکین کو وزیر یا ممبر کہا جاتا تھا- کابینہ کا ایک سربراہ بنایا گیا جسے دیوان یا وزیر اعظم کا خطاب دیا گیا - اسٹیٹ کونسل میں موجود وزراء کی تقرری بغیر کسی مذہبی، نسلی و قومی تعصب کے ان کی متعلقہ شعبہ میں قابلیت کی بنیاد پر کی جاتی تھی- ہر وزیر کےلئے الگ الگ دفاتر بنائے گئے جہاں بیٹھ کر وہ ریاست کے انتظامی امور سے متعلق اپنے فرائض سر انجام دیتے تھے-اسٹیٹ کونسل کا ایک مقصد ریاست میں امن و امان کی صورتحال کو بھی برقرار رکھنا تھا جو کہ کسی بھی ریاست کے استحکام کیلئے لازم جزو تھا -
ایڈوائزری کونسل ممبرز کو بھی بغیر کسی مذہبی منافرت اور نسلی تعصب کے عوام کے نمائندہ کے طور پر منتخب کیا جاتا تھا- ایڈوائزری کونسل کا قیام ریاست کے کسی بھی اہم معاملے پر عوامی رائے لینا مقصود تھا- جب بھی ریاست میں کوئی اہم معاملہ درپیش ہوتا تو ایڈوائزری کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا جاتا- ریاست میں موجود تمام مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے نمائندہ کی حیثیت سے ایک کثیر تعداد ایڈوائزری کونسل کا حصہ تھی جو مخلص انداز میں ریاست کے استحکام کیلئے اپنا کردار ادا کرتے تھے -[3]
سال 1819ء میں تمام خطہ کاٹھیاواڑ ایسٹ انڈیاکمپنی کے ماتحت آگیا تھااور 1820ء میں کاٹھیاواڑ میں حکومت برطانیہ کی جانب سےپہلا پولیٹکل ایجنٹ کیپٹن بارن ویل کو مقرر کیا گیا جن کا کام خطہ سے ٹیکس اکٹھا کرنا اور تمام صورتحال سے حکومت برطانیہ کو باخبر رکھنا تھا- 1821ء میں ریاست جونا گڑھ نے کاٹھیاواڑ کی دیگر ریاستوں کے محصولات اکٹھا کرنے کی ذمہ داری ایسٹ انڈیا کمپنی کے سپرد کر دی- نواب حامدخانجی ثانی اپنے والد بہادر خانجی بابی کے انتقال کے بعد 13 سال کی عمر میں 29 مئی 1840ءسے 1851ء تک تخت نشین رہے- آپ عمر میں چھوٹے تھے تو اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاست کے مخالفین نے ریاست کو توڑنے کوشش کی مگر آپ نے عقلمندی سےان کا مقابلہ کیا- آپ کا دور بھی ریاست کے حفاظتی اقدامات میں گزرا-[4]
ریاست کی خود مختاری کے اعلان سے ہی جوناگڑھ میں مقامی کلچر اور اسلامی احکامات کے امتزاج پہ مبنی ایک بہترین عدالتی ، انتظامی اور مالیاتی نظام قائم تھا - لیکن چونکہ حکومت برطانوی ہند سے اس کی مطابقت کم تھی جس وجہ سے اس میں بار بار اصلاحات کرنی پڑتی رہیں - اس حوالے سے دیکھا جائے تو نواب مہابت خانجی ثانی کے دور حکومت میں انتظامی اصلاحات کا عروج تھا انہوں نے ملک کے سیاسی، معاشی اور سماجی شعبوں میں بے مثال اصلاحات کیں- نواب مہابت خانجی دوم کے دور حکومت میں ریاست کے انتظامی امور سنبھالنے کیلئے 1863ء میں کابینہ تشکیل دی جسے اسٹیٹ کونسل اور ایڈوائزری کونسل کا نام دیا گیا- ریاست میں عدل و انصاف قائم رکھنے کیلئے روایتی قاضی عدالتیں تھیں مگر بعد ازاں برطانوی طرز کا عدالتی نظام 1863ء میں قائم کیا گیا- جس میں 30 فوجداری عدالتیں (Criminal Courts) اور 26 دیوانی عدالتیں (Civil Courts) کا قیام عمل میں لایا گیا تھا- قابل اور اہل منصفین کو جج کے منصب پر فائز کیا جاتا- سر فیروز مہتہ، سرچمن لال اور سیتل داڈ جیسے نامور قانون دانوں نے بطور جسٹس ریاست جوناگڑھ میں فرائض سرانجام دیئے -[5]
1866 ء میں محکمہ رجسٹری، محکمہ تعلیم اور محکمہ صفائی کو نئے سرے سے منظم کیا گیا- محکمہ تعلیم میں نواب صاحب کی خصوصی دلچسپی کے سبب اس محکمہ کو خوب مالی معاونت بھی کی گئی[6] ملکی دفتر ریونیو، توشہ خانہ ، محکمہ پیمائش ، دیوان آفس اور محکمہ جنگلات قائم کیے گئے -[7] عوام کو حکومتی پیغام، ریاستی ترقی و قومی وبین الاقوامی خبروں سے آگاہ رکھنے کیلئے سرکاری سطح پر ماہنامہ رسالہ دستور العمل کا اجراء بھی کیا گیا - [8]محکمہ پولیس کو 1870ء میں جدید خطوط پر منظم کیا گیا- ایک ہزار گھڑ سوار اور چھ ہزار پیدل دستہ پر مشتمل پولیس پر ولی عہد بہادر خانجی کو بحیثیت پولیس کمشنر تعینات کیا گیا -[9] 1880ء میں پولیس میں بھرتی ہونے کیلئے امتحان پاس کرنا لازم قرار دیا گیا- سال 1890ء میں نواب صاحب نے ریاست کیلئے ایک اسپیشل حفاظتی فورس تیار کی جسے امپیریل سروس ٹروپس کا نام دیا گیا- اس فورس کے قیام میں 2 لاکھ روپیہ خرچ ہوا جبکہ اس فورس کیلئے سالانہ 60 ہزار روپے مختص کئے گئے-[10] یکم فروری 1924ء کو نواب مہابت خانجی سوم نے خصوصی طور پر ریاست میں ایک منظم فورس تشکیل دی- جسے جوناگڑھ اسٹیٹ انفنٹری کا نام دیا گیا- اس فورس کا کام ریاست میں متشددانہ کاروائیوں کا تدارک اور جرائم پیشہ افراد کی سرکوبی کرنا تھا -[11]
ریاست جوناگڑ کی معیشت :
مغلیہ دور میں برصغیر کی معیشت پروان چڑھ رہی تھی-صوبہ گجرات بھی زراعت، تجارت اور مینوفیکچرنگ کے ذریعے اہم کردار ادا کر رہا تھا-یہ ریشم اور کپاس کی مصنوعات کی تیاری میں مشہور تھا - [12]
ریاست جوناگڑھ اپنی بندرگاہوں اور طویل ساحلی پٹی کے لحاظ سے بہت مشہور تھی-ریاست جوناگڑھ معاشی اعتبار سے خطۂ کاٹھیاواڑ میں مستحکم ریاست ہونے کا درجہ رکھتی تھی- معاشی استحکام کیلئے سب سے نمایاں معاشی اصلاحات نواب مہابت خانجی اول کے دور میں شروع ہوئیں- نواب مہابت خانجی اول نے اپنے دور حکومت میں محکمہ محصولات قائم کیااس محکمہ کا کام مال کی درآمدات اور برآمدات سے محصول اکٹھا کرنا تھا- محکمہ محصولات کے قیام سے ریاست کے معاشی نظام میں کافی آسانیاں پیدا ہوئیں -[13] انہوں نے ہی بندر گاہوں کے موثر استعمال کی تجارتی منصوبہ بندی کی اور رقبہ میں کم ہونے کے باوجود اقتصادی طور پہ بہت جلد اور بہت زیادہ مضبوطی حاصل کر لی -
1774ء میں نواب مہابت خانجی اول کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے نواب حامد خان نے تیسرے نواب کی حیثیت سے عہدہ سنبھالا- آپ کے دور میں بھی وزارت امرجی کے پاس تھی امرجی کو کاٹھیاواڑ کی تاریخ کا سب سے تجربہ کار وزیر مانا جاتا تھا -[14] واکر معاہدہ کے بعد برطانوی دباؤ کی وجہ سے امرجی نے خراج (زور طلبی) کو دوبارہ وصول کرنا شروع کر دیا-[15] محکمہ محصولات نے اس حد تک ترقی کی کہ اس نے 1876ء میں مختلف اشیاء کی مد میں 1,817,232 روپے کی کل آمدنی حاصل کی-[16] یوں نواب حامد خانجی کے دور حکومت میں بھی ریاست جونا گڑھ کےمعاشی استحکام کیلئے کافی کوششیں کی گئیں- ابتدائی ادوار میں ریاست کو معاشی لحاظ سے مزید مضبوط کرنے کیلئے کوششیں کی گئیں اس میں ایک سونا نکالنے کا تجربہ بھی قابل ذکر ہے- 1842ء میں نواب حامد خان جی سوم کےدور میں سون رکھ ندی سے سونا نکالنے کا کام کیا گیا -[17]
1892ء میں نواب رسول خانجی کے دورِ حکومت میں معاشی اصلاحات تیز ہونا شروع ہو گئیں- جولائی 1895ء میں ایلی نیشن ڈیپارٹمنٹ کا قیام امن میں لایا گیا - اس محکمہ کا کام زمینداروں کے زمینی حقوق کی جانچ پڑتال اور ان پر ٹیکس مقرر کرنا تھا -[18]ریاست کے استحکام اور انتظامی امور کو چلانے میں معاشی لحاظ سے تاجر برادری نے بھی بھرپور کردار ادا کیا- پورے ہندوستان میں کاٹھیاواڑ کے تاجروں کا خوب چرچا تھا جن کی تجارت کا دائرہ کار ہندوستان کے تمام بڑے شہروں تک پھیلا ہوا تھا - ان تاجروں کی فہرست میں ریاست جوناگڑھ کے شہر بانٹوا اور کتیانہ کے تاجر بھی شامل تھے- بانٹوا کے تاجروں نے ریاست میں تجارتی مراکز قائم کرنے کے بعد بیرون ممالک تک کاروبار کو وسعت دی- ہندوستان کی بڑی ایجنسیوں میں آدم جی لمیٹڈ، دادا لمیٹڈاور آرگ لمیٹڈ کے مالکان کا تعلق جوناگڑھ کے شہر بانٹوا سے تھا- جبکہ ہندوستان میں ویجیٹیبل کمپنی، ویسٹرن انڈیا ماچس کمپنی، تاتا آئل اور برما آئل کے علاوہ چند غیر ملکی کمپنیوں کا اختیار بھی انہی کے پاس تھا-
ریاست میں صنعتی حوالے سے مختلف کارخانے لگائے گئے تھے جن کا اختیار ریاست کے منجھے ہوئے صنعتکاروں کے پاس تھا-نواب مہابت خانجی کے دور حکومت میں 1925ء میں ریاستی شہر شاہ پور میں شکر کا اور ویراوال میں سلائی کا کارخانہ لگایا گیا- اسی طرح نواگڈھ میں چمڑے کا اور جونا گڑھ شہر میں برف کا کارخانہ قائم کیا گیا- 1945ء میں نواب مہابت خانجی سوئم کے دور حکومت میں ہی ریاست کے صنعت کاروں اور حکومت کے درمیان مشترکہ منصوبہ پر اتفاق ہوا - ایک کروڑ روپے کی لاگت سے کاٹھیاواڑ انڈسٹریز کا قیام عمل میں لایا گیا - انڈسٹری کے سرپرست نواب مہابت خانجی اور بانی سیٹھ لطیف ابراہیم باوانی تھے - اس منصوبے کے بعد مٹی کے برتن کی تیاری کے لئے ولی عہد کے نام سے منسوب دلاور سینڈیکیٹ کمپنی قائم کی گئی اور بعد میں سالٹ ورکس کی مشینری نصب کی گئی - ریاست میں ایک کارخانہ رنگائی کے لئے، 25 کارخانے روئی نکالنے کیلئے،5 کارخانے روئی پریس کرنے کیلئے، ایک کارخانہ لکڑی چیرنے کیلئے، 17 کارخانے آٹا پیسنے کیلئے، پانچ کارخانے تیل نکانے کیلئے لگائے گئے جبکہ 11 آٹے اور تیل کی مخلوط ملیں بھی موجود تھیں -[19]
ریاست میں صنعتی ترقی کے فروغ کیلئے اقدامات کیے گئے تھے- صنعتی حوالے سے ریاست کو مزید مستحکم کرنے کے لئے 11 مارچ 1908ء کو سر رسول خان لمیٹڈ کمپنی کا قیام عمل میں لایا گیا - اس کمپنی میں دھاگہ بننے اور کاتنے کا کام ہوتا تھا - ریاست میں ترقیاتی کاموں کی جانب نواب صاحب کی دلچسپی نمایاں تھی اور ہر نئے روز نئے نئے منصوبوں پر کام جاری تھا- اور اس سلسلے میں جوناگڑھ شہر میں مارکیٹ بنانے کا منصوبہ تیار کیا گیا- مؤرخہ 24 جنوری 1910ء کو گورنر بمبئی سر جارج سڈنہم کلارک نے مارکیٹ کا سنگ بنیاد رکھا- نواب صاحب نے مارکیٹ کو گورنر کلارک کے نام سے منسوب کر کے کلارک مارکیٹ رکھ دیا - [20]
نواب مہابت خانجی سوئم کے دور حکومت میں ریاست کے اندر جدید صنعتی اور معاشی اصلاحات متعارف کروائی گئیں - 1914ء میں ریاست کے اندر 17 فیکٹریاں کام کر رہی تھیں جن میں سے 6 فیکٹریا ں کپاس کی تھیں- ان فیکٹریوں نے ریاست کی صنعتی ترقی میں اہم کردار ادا کیا -[21]ریاست چونکہ انتظامی لحاظ سے روز بروز ترقی کر رہی تھی- تجارت کے حوالے سے بھی دائرہ کار وسیع کردیا گیا گیا تھا- سال 1913ء میں درآمدات 791432 روپے جبکہ برآمدات 102103 روپے کی ہوئیں-ریاست میں بیرون ممالک کے لئے زیادہ تر تجارت سمندری راستے سے کی جاتی تھی اس حوالے سے ریاست کے سمندری ساحل پر چھوٹی بڑی 16 بندرگاہیں قائم کی گئیں تھیں- ملکی معیشت کی بہتری میں ان بندرگاہوں کا بھی اہم کردار ہے -[22]
شعبہ زراعت ریاست کیلئے ایک خاص اہمیت کا حامل تھا، ریاست میں کپاس،گیہوں ، چنا ،مکئی، مونگ ، جوار اور باجرہ کی پیداوار ہوتی تھی جبکہ پیاز کی پیداوار بہت مشہورتھی اس کے ساتھ ساتھ ریاست میں آم کے باغات بھی موجود تھے-ریاستی پیداوار بیرون ممالک میں بھجوائی جاتیں تاکہ موصول ہونے والے زرمبادلہ سے ریاست کے شعبہ زراعت کو مزید فروغ مل سکے- نواب مہابت خانجی نے زراعت کے فروغ کیلئے کسانوں کو بہت سی سہولیات بھی دے رکھیں تھیں -[23]
ریاست میں نظام ِتعلیم:
اس سے پہلے کہ ریاست جوناگڑھ کے نظامِ تعلیم کی بات کی جائے ، یہ ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ دنیا کے دیگر خطوں کی طرح گجرات کاخطہ بھی ایسے عظیم علمائے کرام کی پرورش گاہ رہا ہے جن کے اسمائے گرامی دنیا کی نظروں سے اوجھل نہیں ہیں - مگر یہاں صرف دو لوگوں کا نام برکت کیلئے لیا جاتا ہے ، ایک شیخ علی المتقی الہندی ہیں جن کا شہرہ اآفاق کام حدیث پاک پہ ’’کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال‘‘ ہے، مدھیہ پردیش اور گجرات کاٹھیاواڑ کی دھرتی ان کے مبارک قدموں سے جگمگاتی رہی ہے - دوسرا نام شیخ محمد بن طاہر پٹنی کا ہے جن کی ’’مجمع بحار الانوار‘‘ کو بہت شہرت حاصل ہوئی ، آپ حافظ الحدیث امام ابن حجر ہیتمی کے شاگردوں میں سے تھے اور گجرات کاٹھیاواڑ کے خطہ سے تعلق رکھتے تھے -
اب بات کرتے ہیں گجرات کاٹھیہ واڑ کی پریمیئر ریاست جوناگڑھ کے تعلیمی نظام کی -
نواب بہادر خانجی دوم کے دور حکومت میں شعبہ تعلیم کو باقاعدہ منظم انداز سے شروع کیا گیا - آپ تعلیم سے بہت لگاؤ رکھتے تھے-آپ نے اپنے دور حکومت میں ریاست کے نظم و نسق میں خوب بہتری لائی- محکمہ جات کھولے گئےاور تعلیم سے شغف ہونے کے باعث عوام کو تعلیمی سہولیات باہم پہنچانے کیلئے تعلیمی ادارے قائم کیے گئے- آپ کے فلاحی اداروں کے قیام اور عوامی خدمات کے اعتراف میں حکومت برطانیہ کی جانب سے آپ کو سر کا خطاب دیا گیا جو کہ آپ کے بعد آنے والے نوابوں کو بھی ملتا رہا -[24]
ریاست میں مفت تعلیم دی جاتی تھی جبکہ اہل طلباء کیلئے باقاعدہ سکالرشپس کا اجراء کیا گیا تھا- مغلیہ دور حکومت میں تعلیمی نظام دو طرح کے تعلیمی اداروں پر مشتمل تھا- اداروں کا نام مکتب اور مدرسہ رکھا گیا تھا- مکتب پرائمری کلاس تک جبکہ مدرسہ میں اس وقت میں رائج اعلیٰ تعلیم کی کلاسز پڑھائی جاتی تھیں - ایسا ہی نظام تعلیم جزیرہ نما کاٹھیاواڑ میں رائج تھا-
نواب مہابت خانجی دوم بہت علم دوست شخصیت تھے- ریاست میں تعلیم کے فروغ کیلئے 1854ء میں پہلا جدید محکمہ تعلیم قائم کیا جو کہ آپ کی علم دوستی کی واضح دلیل ہے- نواب صاحب کے دورِ اختتام تک 1881ء میں ریاست کے اندر 80 تعلیمی ادارے کام کر رہے تھے- شرح تعلیم کے مطابق ہندو 10 فیصدجبکہ 13 فیصد مسلمان پڑھے لکھے تھے-1854ء میں نواب صاحب نے کاٹھیاواڑ میں جدید علوم کی ترویج کیلئے مالی معاونت کی اور 17 مارچ 1854ء میں جونا گڑھ شہر میں اردو اور سنسکرت سکول قائم کیا- نواب مہابت خانجی دوم نے ریاست میں لڑکیوں کی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دی اور اس حوالے سے 4 ستمبر 1862ء میں لڑکیوں کیلئے جدید سکول قائم کیا جوکہ نواب صاحب کی بیگم لاڈلی بی بی کنیا شالہ کے نام سے موسوم کیا گیا- 14 جون 1881ء کو کاٹھیاواڑ پولیٹکل ایجنٹ کرنل بارٹن نے بہادر خانجی ہائی سکول کا افتتاح کیا- عوام میں جدید تعلیم کے رجحان کو فروغ دینے کیلئے 1867ء میں جوناگڑھ میں ولی عہد بہادر خانجی کے نام سے منسوب ایک لائبریری قائم کی گئی- اسی سال 1867 ء میں ہی ریاست کی جانب سے رسائل، کتب و اخبارات کی پرنٹنگ کیلئے پرنٹنگ پریس ادارہ کا قیام عمل میں لایا گیا- نواب مہابت خان ثانی اورممبئی بورڈ آف ایجوکیشن کے درمیان ریاست میں جدید طرز تعلیم پر سکول کھولنے کیلئے فنڈ اکٹھا کرنے پر اتفاق ہوا اور 1873ء میں نواب صاحب کی سرپرستی میں سکول کا افتتاح کیا گیا - سکول کو بہادر خانجی ہائی سکول کا نام دیا گیا یہ اس وقت ریاست کا واحد ہائی سکول تھا -[25]
نواب بہادر خانجی سوم یکم اکتوبر 1882ء میں تخت شاہی پر براجمان ہوئے- آپ کے دور حکومت میں ریاست جونا گڑھ نے مزید ترقی کی منازل طے کیں- آپ کے دور حکومت میں انتظامی لحاظ سے نئے سرے سے اقدامات اٹھائے گئے- نواب صاحب نے ریاست میں عوام کو علوم جدیدہ سے مستفید کرنے کیلئے 1882ء میں محمڈن انگلش اردو گجراتی سکول قائم کیا- سکول میں بچوں کو جدید سائنسی تعلیم بھی دی جاتی تھی [26] ریاست میں سر مہابت خانجی کی خدمات کے اعتراف میں مہابت مدرسہ قائم کرنے کیلئے 23 نومبر 1884ء کو بمبئی کے گورنر سر جیمز فرگیوسن کے ہاتھوں مدرسے کا سنگِ بنیاد رکھا گیا- دسمبر 1886ءکو مہابت مدرسہ کا افتتاح بھی گورنر صاحب نے کیا-
مدرسہ کی تعمیر میں کل 80 ہزار روپے کی لاگت آئی- مدرسہ میں ہی بچوں کی رہائش کیلئے ہاسٹل بھی تعمیر کیا گیا تھا- ریاست جونا گڑھ کے ذہین اور ضرورت مند طالب علموں کو سکول میں خصوصی طور پر سکالرشپس دی گئیں تھیں- اس مدرسہ میں طالبعلموں کو گجراتی، فارسی، اردو، عربی اور انگریزی زبان کی تعلیم دی جاتی تھی-[27] 1885ء میں برطانیہ میں جاکر تعلیم حاصل کرنے والے جونا گڑھ کے طلباء کیلئے ماہانہ دو سو روپیہ سکالرشپس کا اعلان بھی کیا گیا- نواب بہادر خانجی کے دور حکومت میں نواب مہابت خانجی کی خدمات کے اعتراف میں مہابت فیلو شپ مقرر کی گئی اس فیلو شپ کے تحت برصغیر میں قائم مختلف سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز کو ریاست جوناگڑھ کی جانب سے مالی امداد فراہم کی جاتی تھی تاکہ ریاست کے اداروں سے فارغ التحصیل طلباء دوسرے شہروں میں قائم اداروں میں کم فیس کے ساتھ تعلیم مکمل کر سکیں -[28] 1889ء میں گجرات کے کالج کیلئے 30 ہزار روپے کی رقم دی گئی- ملکہ وکٹوریہ کے 50 سال حکومت مکمل ہونے پر نواب صاحب نے وکٹوریہ جوبلی جونا گڑھ اسکالرشپ کا اعلان کیا-جس میں انگلستان جاکر تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کیلئے سالانہ 3000 روپیہ مقرر کیا گیا-
لائبریری کا قیام:
جوناگڑھ میں روایتی کتب خانوں کا تو شمار نہیں تھا مگر ریاستی سطح پہ پہلی جدید پبلک لائبریری 1867ء میں قائم ہوئی- عرصہ 30 سال بعد نواب رسول خانجی کے 1892ء سے 1911ء کے دور حکومت میں لائبریری کو دوبارہ وسعت دی گئی- لائبریری کیلئے شہر کے درمیان بڑے چوک پر خوبصورت 2 منزلہ عمارت قائم کی گئی اور ساتھ ایک عجائب گھر بھی تعمیر کیا گیا- عمارت کا سنگ بنیاد 1897ء میں بمبئی کے گورنر لارڈ سینڈ ہرسٹ نے رکھا تھا-1901ء میں بمبئی کے گورنر لارڈ نارتھ ہارٹ نے افتتاح کیا- لائبریری میں اردو، فارسی، عربی اور سنسکرت کے علاوہ دیگر کئی زبانوں کی 22 ہزار کتابیں موجود تھیں-جن میں کثیر کتب بہت نایاب تھیں- [29]
بہاؤالدین کالج کی بنیاد:
نواب رسول خانجی ہی کے دور کا ایک شاندار تاریخی اور نمایاں منصوبہ بہاؤ الدین کالج کا قیام بھی ہے- بہاؤ الدین کالج و ٹیکنیکل سکول ریاست کے تین نوابوں کے دور حکومت میں وزارت کے فرائض سرانجام دینے والے معتمد وزیر شیخ بہاؤ الدین کی خدمات کے اعتراف میں تعمیر کیا گیا - شیخ بہاؤ الدین کے 1897ء میں عمر کے 60 سال پورے ہونے پر ان کے ساتھیوں نے ان کی ریاست اور عوام کیلئے پرخلوص خدمات کے باعث ایک یادگار تعمیر کرنے کیلئے انہیں 60 ہزار روپے جمع کر کے دیئے - شیخ بہاؤ الدین نے اس میں اپنی جانب سے 20 ہزار روپے شامل کر کے رقم حکومت کے سپرد کر دی- حکومت نے اس میں ڈیڑھ لاکھ روپے کے اضافہ کے ساتھ اس فنڈ سے بہاؤ الدین کالج تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا- کالج کا سنگ بنیاد 1897ء میں رکھا گیا -[30]
3 سال میں کالج کی تعمیر مکمل ہوئی اور 3 نومبر 1900ء میں وائسرائے ہند لارڈ کرزن نے کالج کا باقاعدہ افتتاح کیا - یوں شیخ بہاؤ الدین نے اپنی آنکھوں سے کالج کو مکمل ہوتےاور ترقی کی منازل طے کرتے دیکھا - یہ کالج اپنی نوعیت کا منفرد کالج تھا جس کا شمار برصغیر کے اولین مسلم کالجز میں ہوتا تھا - کالج میں بیچلر آف سائنس ، ماسٹر آف سوشل سائنس اور قانون کی ڈگریاں کروائی جاتی تھیں- اس کالج میں پورے برصغیر سے لوگ پڑھنے کیلئے آتے تھے، حتی کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم میر بلخ شیر مزاری بھی اسی کالج سے پڑھے ہوئے تھے- کالج میں بیرون ریاست طلباء کیلئے رہائشی سہولیات مہیا کی گئیں تھیں- غریب و مستحق طلباء کو داخلہ اور رہائشی سہولیات مفت فراہم کی جاتی تھیں- ذہین طلباء کو باقاعدہ سکالرشپس بھی دی جاتی تھیں- بہاؤ الدین کالج کا بمبئی یونیورسٹی کے ساتھ الحاق تھا-[31]
نواب مہابت خانجی سوم کے دور حکومت میں بیسویں صدی میں ہونے والی جدت کے پیشِ نظر جدید طرز پر جونا گڑھ میں ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کیا گیا- سابقہ ادوار میں شروع کئے گئے منصوبوں کو مزید احسن انداز سے پایۂ تکمیل تک پہنچایاگیا- اس کے ساتھ ہی نواب صاحب نے ریاست میں بچوں کی جدید ٹیکنیکل تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دی اور اس ضمن میں ٹیکنیکل سکول کو 1914ء میں انجینئرنگ اپرنٹس سکول میں تبدیل کر دیا گیا- سکول میں بچوں کو مشین ڈرائنگ، کارپینٹری، بجلی کی فٹنگ، چمڑے کا کام اور دیگر دستکاری شعبوں کی انگلش میں تعلیم دی جاتی تھی -[32]تین لاکھ روپے کی لاگت سے تیار کردہ ایک وسیع عمارت میں جدید بہادر خانجی ہائی سکول کا 20 نومبر 1917ء میں افتتاح کیا گیا جبکہ 44 ہزار روپے کی لاگت سے تیار کردہ جدید مدرسہ کو گراسیہ کالج میں تبدیل کر دیا گیا- بہادر خانجی ہائی اسکول سے پہلی، دوسری اور تیسری جماعت کے طلباء کو الگ کر کے 1929ء میں جونا گڑھ اینگلو ورنیکیولرسکول کا آغاز کیاگیا-
نظامِ صحت:
نظامِ صحت کے حوالے سے مغلیہ دور میں صوبے کے ہر سرکار میں سرکاری مطب (ہسپتال) تھے-گجرات میں صرف دو سرکاری ہسپتال سورٹھ اور احمد آباد میں قائم تھے-چھوٹے قصبوں میں صحت کا روایتی نظام قائم تھا جس میں مقامی حکیم مریضوں کا علاج کرتے تھے- ریاست میں دواخانے قائم تھے جہاں حکومت کی جانب سے ماہر یونانی طبیبوں کو مقرر کیا گیا تھا- ان دواخانوں میں عوام کا مفت علاج کیا جاتا تھا-[33] ریاست جوناگڑھ میں روایتی نظام صحت ایک صدی تک چلتا رہا جبکہ جدید نظام صحت کی ترقی کا آغاز نواب مہابت خانجی دوم کے دور حکومت میں ہوا- نوابین نے فقط انتظامی شعبہ جات پر ہی توجہ مرکوز نہ رکھی بلکہ عوام کیلئے ریاست میں شعبہ صحت پر بھی خصوصی توجہ دی اور اس ضمن میں ریاست میں ہسپتال بنائے گئے تھے- 1878ء میں ریاست جوناگڑھ میں ایک وبائی بخار پھیلا اور اس میں کئی افراد نے جان کی بازی ہاری- اس وبائی بخار سے نجات پانے کیلئے 15دسمبر 1878ء میں ریاست میں ایک خیراتی ہسپتال بنایا گیا جہاں غریب مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا تھا- یہ سہرا بھی جونا گڑھ کے بابی نوابوں کے سر جاتا ہے جنہوں نے برصغیر میں اپنی نوعیت کا پہلا خیراتی ہسپتال قائم کیا -اس ہسپتال کا مکمل خرچ ریاستی وزیر شیخ بہاؤ الدین نے اٹھایا- ریاست میں عوام کے معالجے کیلئے چھوٹے پیمانے پر ڈسپنسریز اور دوا خانے بنائے گئے تھے- جبکہ بڑے پیمانے پر عوام کے معالجے کیلئے ہسپتال کی ضرورت درپیش تھی- لہٰذا نواب بہادر خانجی سوم کے دور حکومت میں 21 مارچ 1890ء میں جزام کےعلاج کیلئے پرنس البرٹ لپروسی ہسپتال قائم کیا گیا-جس کا سنگ بنیاد بھی پرنس البرٹ وکٹر کے ہاتھوں سے رکھا گیا جو کہ ملکہ وکٹوریہ کے پوتے اور بادشاہ جارج پنجم کے بھائی تھے - ہسپتال میں ریاست کے غریب عوام کیلئے علاج کی مفت سہولت فراہم کی گئی تھی -[34]
نواب رسول خانجی نے بھی سابقہ روایات کے مطابق ریاست کے انتظامی امور انتہائی احسن طریقے سے سرانجام دیئے- آپ کے دور حکومت میں رسول خانجی جنرل ہسپتال کا سنگ بنیاد 2 دسمبر 1896ء میں گورنر بمبئی لارڈ ہرسٹ کے ہاتھوں سے رکھا گیا -[35] اس کے ساتھ ہی ریاستی شہر راجکوٹ میں خواتین کے علاج معالجے کیلئے علیحدہ ہسپتال کا قیام عمل میں لایا گیا- جہاں مستحق اور غریب مریضوں کا مفت علاج کیاجاتا تھا- 22 نومبر 1896ء میں گورنر بمبئی لارڈ ہرسٹ نے ہسپتال کا افتتاح کیا- نواب مہابت خانجی سوم کے دور حکومت میں بھی شعبہ صحت کو فروغ دیا گیا اس ضمن میں خصوصی علاج برائے خواتین کیلئے ریاست میں ایک اور جدید ہسپتال کا اضافہ ہوا- 11 فروری 1913ء میں ایڈمنسٹریٹر رینڈال نے ہسپتال برائے خواتین کاباقاعدہ افتتاح کیا- آپ ہی کے دور حکومت میں کل رقم ایک لاکھ پچیس ہزار لاگت سے 1923ء میں خواتین کیلئے میٹرنٹی ہسپتال کا بھی قیام عمل میں لایا گیا -[36]
ریاست جونا گڑھ مذہبی اور ثقافتی تناظر میں انتظام:
جوناگڑھ ریاست ایک کثیر الثقافتی، کثیر النسل اور کثیر المذہبی ریاست تھی- مذہبی لحاظ سے ریاست میں مکمل منظم انتظامات کیے گئے تھے اور تمام عوام کو مذہبی اعتبار سے اپنی اپنی عبادت گاہوں میں جانے کیلئےمکمل آزادی حاصل تھی- نوابوں نے ریاست میں کثیر الثقافتی اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کےلئے خطے میں اہم کردار ادا کیا -ریاست میں مختلف پہاڑی چوٹیوں پر مسلمانوں کی مذہبی عبادت گاہیں زیارت گاہیں اور ہندوؤں کی تیرتھ گاہیں قائم تھیں- ان پہاڑی چوٹیوں تک پہنچنے کیلئے دشوار گزار راستوں سے گزرنا پڑتا تھا- اس صورتحال کے پیش نظر ان پہاڑیوں پر سیڑھیاں تعمیر کروائیں- ریاست کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر مسلمانوں کی خانقاہوں اور ہندوؤں کے مندروں کو خوراک اور ماہانہ رقم فراہم کی جاتی ہے-ریاست میں یہ رواداری اورمذہبی ہم آہنگی نوابوں کی صوفیاء سے قربت اور ان کی تعلیمات کا نتیجہ تھی - 1888 ء میں نواب بہادر خانجی سوم کے دور حکومت میں ہی ساڑھے تین لاکھ کی لاگت سے گورکھ ناتھ پہاڑی پر بارہ ہزار سیڑھیاں تعمیر کرائی گئیں -[37] گورکھ ناتھ پہاڑی پر تعمیراتی کام مکمل ہونے کے بعد داتار پہاڑی پر پہنچنے کےلئے 1894ء میں نواب رسول خانجی کے دور حکومت میں سیڑھیاں تعمیر کی گئیں- بمبئی کے گورنر ہیرس نے افتتاح کیا اسی طرح 1900ء میں مزید تین پہاڑی چوٹیوں پر سیڑھیاں تعمیر کی گئیں- جوناگڑھ میں ہندوؤں کی آبادی تقریباً 70 فیصد تھی- ریاست میں تاریخی اور ثقافتی مندر تھے جو ریاست اور امیر افراد کی مدد سے چلائے جاتے تھے- یہ مندر ہندوؤں کی تعلیم کے مراکز بھی تھے- یہی وجہ ہے کہ ہندوؤں کے لیے مذہبی تعلیم کے مراکز کثرت سے موجود تھے- نوابوں نے مسلمانوں کی تعلیمی اور مذہبی شعور کیلئے ریاست میں مساجد اور مدارس قائم کیے- نواب بہادرخانجی سوم کے دور حکومت میں ویراول شہر کے جوہریوں اور وہاں کے لڑکوں نے فنڈ اکٹھا کر کےمسلمانوں کی تعلیم و تربیت کیلئے مدرسہ تقویت الاسلام قائم کیا- نواب صاحب خصوصی طور پر ویراول گئے- 4مئی 1888ء کو مدرسہ کا افتتاح کیا اور فنڈ عطیہ کیا -[38]
نواب مہابت خانجی سوم کے دور حکومت میں مسلمان تاجروں نے مسلمان طلباء کیلئے ڈھائی لاکھ روپے کی کثیر رقم سے مدرسہ شوکت الاسلام تعمیر کیا اور ساتھ مسجد بھی تعمیر کی- 25 ستمبر 1919ء میں ایڈمنسٹریٹر ایچ ڈی رینڈال نے مدرسہ کا افتتاح کیا - نواب مہابت خانجی سوم نے 8 جنوری 1922 ءمیں جوناگڑھ شہر میں مسلمان بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے مدرسۃ المعلیٰ کا افتتاح کیا- اس مدرسہ میں بھی بچوں کیلئے مفت تعلیمی، رہائشی اور تفریحی سہولیات مہیا کی گئی تھیں -[39]
اس کے علاوہ ریاست میں تحقیقی بنیادوں پر بھی کام کیا جارہا تھا اس لحاظ سے حافظ عمادالدین ابن کثیر کی لکھی قرآن کی عربی میں تفسیر ابن کثیر کا اردو میں ترجمہ جونا گڑھ سے تعلق رکھنے والے مسلمان عالم دین مولانا محمد بن ابراہیم میمن جونا گڑھی نے کیا- یہ ترجمہ نواب مہابت خانجی سوئم کے دور حکومت میں مکمل ہوا اور 1928ء سے 1933ء تک ہر ماہ ایک ایک پارہ اقساط میں مسلسل شائع ہوتا رہا- 2500 صفحات پر مشتمل اردو ترجمہ تفسیر محمدی 8 سال میں مکمل ہوا- اس کےعلاوہ نواب مہابت خانجی سوئم کے دور میں ہی مشہور اسلامی کتب اعلام المواقعین، مختصر شعب الایمان، کتاب السنہ، شرف اصحاب الحدیث اور خلاصۃ السیر کا اردو ترجمہ کیا گیا - [40]
ثقافتی اصلاحات میں انتظام:
ریاست کے ہر نواب نے ثقافت اور تاریخی حیثیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ثقافتی اصلاحات کیں اس لحاظ سے ریاست جوناگڑھ کی تاریخ اور آثار قدیمہ پر تحقیق کرنے کے لئے 1916ء میں جونا گڑھ ہسٹری اینڈ آرکیالوجی سوسائٹی کا قیام عمل میں لایا گیا- ریاست جوناگڑھ میں 60 مربع میل رقبہ پر مشتمل گیر کا جنگل اپنی مثال آپ ہے جوکہ ایشیائی شیر کی آباد کاری کا آخری مسکن ہے- جنگل میں گائے، ہرن، شیر، چیتا کے علاوہ بہت سے جانور پائے جاتے تھے- محکمہ جنگلات کی زیر نگرانی اس جنگل کی حفاظت کیلئے وسیع پیمانے پر اقدامات اٹھائے گئے - [41]ریاست میں نوجوانوں کی اسکاؤٹ تربیت کی غرض سے اور چستی پیدا کرنے کیلئے نواب مہابت خانجی سوم نے 7 مارچ 1928ء میں بوائز اسکاؤٹ تحریک کا آغاز کیا جس میں بہاؤ الدین کالج، بہادر خانجی ہائی سکول، مہابت مدرسہ اور مدرسۃ المعلیٰ کے 108 طلباء کو اسکاؤٹ ٹریننگ دینے کا آغاز کیا- اسکاؤٹ یونیفارم اور باقی سب اخراجات ریاست نے خود ادا کیے-
تعمیروترقی کےامور:
نواب مہابت خانجی دوم نے ریاست کی تعمیراتی ترقی میں گہری دلچسپی لی- نواب رسول خانجی کے دور میں تعمیراتی کام عروج پر پہنچا اور آپ کے دورِ ریاست میں سکولز، کالجز، ہسپتال، ریلوے، پختہ شاہرات اور تجارتی مراکز بنائے گئے-
پوسٹل سروس کے انتظامات:
ریاست میں ایک شہر کا دوسرے شہر کے ساتھ رابطہ اور دوسری ریاستوں کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کیلئے 1864ء میں نواب مہابت خانجی دوم کے دور حکومت میں ’’جونا گڑھ پوسٹل سروس‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا- پوسٹل سروس کے قیام عمل میں آنے سے ریاست کی عوام بالخصوص تاجر برادری اور سرکاری شعبہ جات کا آپس میں رابطہ آسان ہو گیا تھا- جوناگڑھ پوسٹل سروس کو بعد میں انڈین پوسٹل سروس کے ساتھ ملحق کر دیا گیا تاکہ پورے برصغیر میں رابطہ قائم کیا جا سکے - [42]
جونا گڑھ سنٹرل جیل، بندر گاہیں، جونا گڑھ ریلوےاسٹیشن:
ریاست میں قیدیوں کیلئے ڈیڑھ لاکھ روپے کے خرچ سے ایک بڑا جیل خانہ 1885ء میں تعمیر کیا گیا- یہ جیل بڑی تعداد میں قیدیوں کو ٹھہرا سکتی تھی اور اتنی بڑی تھی کہ یہ کاٹھیاواڑ کی تمام ریاستوں میں سے کسی بھی ریاست کی سب سے بڑی جیل تھی جس کی پورے برصغیر میں نظیر نہیں ملتی -[43]
1866ء میں ہی برطانوی انجینئر بلیل اسکاٹ کی زیر نگرانی ویراول بندرگاہ کی درستگی کا کام شروع کیا- 4 لاکھ روپے کی لاگت سے 1846 فٹ طویل اور 11 فٹ بلند دیوار تعمیر کی گئی اور 50 فٹ بلند مینارہ روشنی قائم کیا گیا تاکہ بندرگاہ پربحری جہازوں اور کشتیوں کو لنگر انداز کرنے میں آسانی ہو[44]
1886ء میں ریلوے سسٹم کا سنگ بنیاد رکھا گیا ریلوے سسٹم کا کام تیزی سے ہوتا رہا- 1886ء میں ہی جیٹ السر 1888ء میں جوناگڑھ شہر اور 1889ء میں ویراول تک تعمیر مکمل کی گئی -[45]
13دسمبر 1886ء کو مہابت مقبرہ، جامع مسجد اور سرائے کا قیام عمل میں لایا گیا-
الیکٹرک پاور پلانٹ کاقیام:
بیسویں صدی کے اوائل میں برصغیر میں الیکٹرک پاور کی رسائی صرف چند مخصوص بڑے شہروں میں قائم اعلیٰ سرکاری افسران کے دفاتر تک تھی- جبکہ نواب مہابت خانجی کی سربراہی میں جوناگڑھ شہر کو روشنیوں کا شہر بنانے کا منصوبہ 26 اگست 1929ء میں مکمل کر لیا گیا- لیفٹیننٹ کرنل کیز نے الیکٹرک پاور پلانٹ کا افتتاح کیا- اس پلانٹ کا نام دیوان امیر شیخ محمد کی ریاست کےلئے خدمات کے اعتراف میں ان سے منسوب کر کے امیر شیخ محمد الیکٹرک پاور پلانٹ رکھا گیا -[46]
ڈیم کی تعمیر:
چھوٹے چھوٹے مصنوعی آبی ذخائر تو ریاست جوناگڑھ میں کئی مقامات پہ موجود تھے مگر کوئی بڑا ڈیم نہ تھا - اس لئے 26 مئی 1929ء میں ایک بڑے ڈیم کا سنگ بنیاد رکھا گیا- 8 لاکھ روپے کی لاگت سے 1936 ء میں ڈیم کا منصوبہ مکمل ہوا-[47]
ٹرانسپورٹ ، ذرائع ابلاغ کے انتظامات:
نواب مہابت خانجی سوم نے 1930ء میں جونا گڑھ ریاست کے گاؤں کیشود میں ایئر پورٹ بنوایا جو کہ اس وقت کابہت بڑا منصوبہ تھا- 1372 میٹر لمبائی پر مشتمل اس ہوائی اڈے کو خصوصی طور پر نواب صاحب نے تعمیر کروایا تھا-[48] ریاست میں ٹیلیفون سروس کا باقاعدہ سسٹم نصب کیا گیا تھا ٹوٹل 80 لائنیں بچھائی گئی تھیں جن میں سے 48 کا تعلق راج محل، ریاست کے سرکاری دفاتر اور سرکاری افسران کے گھروں سے منسلک کیا گیا تھا تاکہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں بروقت اطلاع پہنچائی جا سکے- مسافروں کیلئے ریاست میں آمد و رفت کیلئے بس سروس کا قیام عمل میں لایا گیا تھاتاکہ عوام کو سفری سہولیات باہم پہنچائی جاسکیں اس سلسلے میں ہر شہر کے اندر قیام و طعام کی سہولتوں سے لبریز بس سٹاپ بنائے گئے تھے-
حرف آخر:
ریاست جوناگڑھ کی انتظامی تاریخ کا بغور تحقیقی مطالعہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ریاست جوناگڑھ کئی باقی مشہور ریاستوں کے مقابلہ میں انتظامی لحاظ سے بہت مضبوط اور منظم ریاست تھی- ریاست کی انتظامی ترقی اور عوامی خوشحالی سے نوابین کے خلوص، خدمت خلق اور ذوق جدیدہ کا پتہ چلتا ہے- وہ دور جب باقی ریاستوں کے سربراہان اپنی رعایا پر بھاری ٹیکس لگا کر اپنی عیش و عشرت کا سامان پیدا کرنے میں مصروف تھے عین اسی دور میں ریاست جوناگڑھ میں عوام کو معاشی ، تعلیمی اور طبی سہولیات فراہم کی جارہی تھیں- المختصر! ریاست جوناگڑھ اپنے دور میں ایک درخشندہ اور مثالی ریاست کے نمونے کے طور پر پورے گجرات کاٹھیاواڑ میں نمایاں تھی-
٭٭٭
[1]Campbell, James M. (1884). History of Gujarat. Bombay: Bombay Central Press.
[2]MUSLIM Institute. (2021). Policy Brief Junagadh State, MUSLIM Institute
[3]الحاق جوناگڑھ ص 23/ مرآت مصطفےآباد ص374
[4]Watson, J. W. (1884). Statistical account of Junagadh. P.57.
[5]Watson, J. W. (1884). Statistical account of Junagadh: p.64 , Administration of the Junagadh State. (1914( p.19-20
[6]Ahmad, Sheikh Ghulam. (1934). Tareekh Mirrat-e-Mustafabad. Junagadh.p 379
[7]Ahmad, Sheikh Ghulam. (1934). Tareekh Mirrat-e-Mustafabad. Junagadh. P 172
[8]Ahmad, Sheikh Ghulam. (1934). Tareekh Mirrat-e-Mustafabad. Junagadh.p 381
[9]Watson, J. W. (1884). Statistical account of Junagadh:p.67.
[10]Ahmad, Sheikh Ghulam. (1934). Tareekh Mirrat-e-Mustafabad. Junagadh.p473
[11]Ahmad, Sheikh Ghulam. (1934). Tareekh Mirrat-e-Mustafabad. Junagadh.p 737
[12]Nadri, Ghulam. A. (2009). Eighteenth-century Gujarat: the dynamics of its political economy, 1750-1800. Leiden Boston: Brill.
[13]Ahmad, Sheikh Ghulam. (1934). Tareekh Mirrat-e-Mustafabad. Junagadh.p307.
[14]A marji, Ranchodji. (1882). Tarikh-i-sorath A History of The Provinces of Sorath and Halar in Kathiawad.P143
[15]Buyers, C. (2000). Junagadh State. Retrieved from The Royal Ark: www.royalark.net
[16]W atson, J. W. (1884). Statistical account of Junagadh:.P18
[17]Ahmad, Sheikh Ghulam. (1934). Tareekh Mirrat-e-Mustafabad. Junagadh.P350
[18]Ahmad, Sheikh Ghulam. (1934). Tareekh Mirrat-e-Mustafabad. Junagadh. P514
[19]L akhani, Habib. (1989). Ilhaq-e-Junagadh. (Shehnaz Lakhani, Tr.). Karachi: Lakhani Publication.P 29-34
[20]Ahmad, Sheikh Ghulam. (1934). Tareekh Mirrat-e-Mustafabad. Junagadh.P583
[21]Administration of the Junagadh State. (1914). P.34.
[22]W atson, J. W. (1884). Statistical account of Junagadh: P11
[23]Watson, J. W. (1884). Statistical account of Junagadh: Being the Junagadh contribution to the Kathiawar portion of the Bombay Gazetteer. Bombay: Printed at the Bombay gazette steam Press. P04
[24]Watson, J. W. (1884). Statistical account of Júnágadh p.58
[25]The Bahadurkhanji High School. (2021). British Library. Retrieved August 11, 2021, from:
http://www.bl.uk/onlinegallery/onlineex/apac/photocoll/t/019pho000430s38u00014 000.html
[26]British Library. (2021). Mahomedan, English, Urdu & Gujarati School.
http://www.bl.uk/onlinegallery/onlineex/apac/photocoll/m/019pho0000002s6u00019000.html
[27]مرآت مصطفے آباد ص: 445،447،457
[28]Bhalodia-Dhanani, A. (2012). Princes, diwans and merchants : education and reform in colonial India , p.139
[29]الحاق جوناگڑھ ص : 27
[30]British Libraray. (2021). The Bahauddin College Junagadh
http://www.bl.uk/onlinegallery/onlineex/apac/photocoll/t/019pho000430s38u00047000.html
[31]Edwardes.S.M. (1907). Ruling Princes of India: Junagadh. Bombay: Times of India. P.35
[32]Administration of the Junagadh State. (1914). p.45
[33]The political and statistical history of Gujarat. (1835)
[34]الحاق جونا گڑھ ص :24،مرآت مصطفے آباد ص:476
[35]مرآت مصطفے آباد ص:524
[36]مرآت مصطفے آباد ص:736
[37]Ilhaq-e-Junagadh. (1989).p.25.
[38]Tareekh Mirrat-e-Mustafabad. (1934).p,467.
[39]Tareekh Mirrat-e-Mustafabad. (1934).p,720.
[40]Tazkara Tu Al Nubala Fi Trajim Al-ulama [ تساجم فی النبالء ترکسۃ العلماء) [in Urdu). (2004).
[41]Junagadh State and its Lions: Conservation in Princely India, 1879–1947. Conservation and Society, 4(4), 522-540. Retrieved August 11, 2021, from http://www.jstor.org/stable/26392860
[42]Patel, Ilyas. Ahmad (2021). Peshawar Stamp Society-Postal History of Gujarat: Retrieved 11 August 2021, from: https://sites.google.com/a/stampsociety.org/peshawar-stamp-society2/articles/postal-history-of-gujarat
[43]British Libraray. (2021). View of th Junagadh Central Jail
http://www.bl.uk/onlinegallery/onlineex/apac/photocoll/other/019pho0000002s6u00013000.html
[44]British Library (2021). Verawal Lighthouse.
http://www.bl.uk/onlinegallery/onlineex/apac/photocoll/v/019pho000430s38u00060000.html
[45]British Libraray. (2021). Railway Station Junagadh
http://www.bl.uk/onlinegallery/onlineex/apac/photocoll/other/019pho0000002s6u00002000.html
[46]Tareekh Mirrat-e-Mustafabad. (1934).p,775.
[47]مرآت مصطفے آباد ص :774
[48]Keshod Airport. (2021). Airports Authority of India. Retrieved August 12 20201 from:
https://www.aai.aero/en/node/3681