ترکیہ و شام میں قدرتی آفات اور تاریخی وثقافتی ورثے کا تحفظ

ترکیہ و شام میں قدرتی آفات اور تاریخی وثقافتی ورثے کا تحفظ

ترکیہ و شام میں قدرتی آفات اور تاریخی وثقافتی ورثے کا تحفظ

مصنف: حسن رضا (آرکیٹیکٹ) اپریل 2023

ثقافتی ورثہ کیا ہوتا ہے؟ 

دنیا میں ہر معاشرہ اپنی مخصوص روایات، تہذیب و تمدن اور جداگانہ ثقافت رکھتا ہے جو کہ اسے اپنے آباؤ اجداد سے وراثت میں ملی ہوتی ہے- یہ تمام چیزیں ثقافتی ورثہ کہلاتی ہیں- ثقافتی ورثہ انسانی زندگی سے تعلق رکھنے والی تمام اشیاء کا احاطہ کرتا ہے-

اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم (یونیسکو) کے مطابق :

’’ثقافتی ورثے میں نوادرات، یادگاریں، عمارتیں اور مختلف مقامات کا گروہ اور عجائب گھر وغیرہ شامل ہیں، جن میں اقدار کا تنوع ہے، تاریخی، جمالیاتی، علامتی، نسلی، فنکارانہ، سائنسی اور سماجی اہمیت شامل ہیں‘‘-

ثقافتی ورثے کی مزید دو اقسام ہیں :

  1. 1.     مادی ورثہ: Tangible

وہ ورثہ جس کو دیکھا ، چھوا اور پرکھاجا سکے - ٹھوس ورثے کی مثالوں میں عمارتیں، یادگاریں، آثار قدیمہ کے مقامات، فن پارے، دستکاری اور روایتی ملبوسات شامل ہیں-

  1. 2.     غیر مادی: Intangible

وہ ورثہ جو اپنا جسمانی وجود نہیں رکھتا مگر نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے-غیر مادی ورثے میں فنِ موسیقی، رقص، قصہ گوئی، زبانی روایات، رسومات ، اقدار ، تمدنی روایات، تہوار اور روایتی علم شامل ہیں-[1]

جنگ عظیم دوئم میں ثقافتی ورثے کے مقامات، یادگاروں اور عمارتوں کی وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی، جس کے نتیجے میں ثقافتی ورثے کے تحفظ کی ضرورت کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا- یونیسکو1945ء میں قائم کی گئی تھی جس کا مقصد تعلیم، سائنس اور ثقافت کے شعبوں میں بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینا تھا- یونیسکو کے ابتدائی اقدامات میں سے ایک 1954ء میں مسلح تصادم کی صورت میں ثقافتی املاک کے تحفظ کے لیے کنونشن کو اپنانا تھا، جس کا مقصد جنگ کے دوران ثقافتی ورثے کی تباہی کو روکنا تھا- وقت گزرنے کے ساتھ، یونیسکو نے ثقافتی ورثے کے تحفظ کیلیے پالیسیاں اور اقدامات جاری رکھے، جس میں 1972ء میں عالمی ثقافتی ورثہ کنونشن کو اپنانا بھی شامل ہے، جس نے آفاقی قدر کے ثقافتی اور قدرتی ورثے کے مقامات کی شناخت اور تحفظ کے لیے ایک نظام قائم کیا- یونیسکو ثقافتی ورثے کی بحالی اور تحفظ کے شعبوں میں بین الاقوامی تعاون کو بھی فروغ دیتا ہےاور ثقافتی ورثے کے تحفظ کی خاطر بیداری پیدا کرنے اور تعاون کو متحرک کرنے کے لیے مختلف حکومتوں، این جی اوز اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے-[2]

مختلف قدرتی آفات اور انسانی پیدا کردہ آفات ثقافتی و قدرتی ورثے کے مقامات کی شناخت اور تحفظ کے لیے کئی طریقوں سے ایک اہم خطرہ بن سکتی ہیں جیسا کہ زلزلے، سیلاب، سمندری طوفان اور جنگل کی آگ جیسی آفات ثقافتی و قدرتی ورثے کے مقامات کو تباہ یا شدید نقصان پہنچا سکتی ہیں، جس سے انسانی تاریخ اور قدرتی ماحول کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے- قدرتی آفات کے دوران لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، جس سے ورثے کے مقامات کو لوٹ مار اور چوری کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے-اسی طرح آفات وسائل کو دبا دیتی ہیں اور مقامی لوگوں اور حکام کیلیے ثقافتی وقدرتی ورثے کے مقامات کے تحفظ کے لیے وسائل مختص کرنا مشکل ہوجاتا ہے- آفات کے دوران عوام الناس کے جان و مال کے تحفظ اور بحالی کے کاموں کی وجہ سے انتظامیہ اکثر ثقافتی و قدرتی ورثے کے مقامات کے تحفظ پر توجہ نہیں دیتی، جو وقت کے ساتھ ساتھ ان مقامات کو نظر انداز اور بگاڑ کا باعث بنتی ہیں- نامناسب منصوبہ بندی بھی ثقافتی و قدرتی ورثے کے مقامات پر آفات کے اثرات کو بڑھا دیتی ہے جس سے آفات سے ہونے والے نقصان کو مؤثر طریقے سے کم کرنا مشکل ہو جاتا ہے-

زلزلہ ایک قدرتی آفت ہے جو کسی بھی قسم کے نقصان کا سبب بن سکتا ہے- زلزلہ اس وقت آتا ہے جب زمین کی پرت میں اچانک حرکت شروع ہو، جو ٹیکٹونک پلیٹوں کی تبدیلی، آتش فشاں کی سرگرمی یا دیگر ارضیاتی عمل کی وجہ سے ہو سکتی ہے-

ترکیہ اور شام میں زلزلوں کا تاریخی جائزہ:

ترکیہ، شام اور اس کے ارد گرد علاقوں کی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہاں آنے والے زلزلوں کی تعداد بہت زیادہ ہے (اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ علاقہ ٹیکٹانکس پلیٹس کے اوپر موجود ہے) مثلاً 1900ء سے پہلے تک 24 زلزلے ریکارڈ کئے گئے تھے اس کے بعد 1900ء سے 1999ء تک زلزلوں کی تعداد 42 رہی ہے جس میں سب سے زیادہ 7.8 شدت کا زلزلہ دسمبر 1939ء کا ہے جو کہ ’ارزنکن‘ کے علاقے میں آیا جس میں 32ہزار سے زائد لوگوں کی اموات ہوئیں اور پھر اگست 1999ء کا زلزلہ جو کہ ’اِزمیت ‘ کے علاقے میں آیا جس کی شدت 7.6 ریکارڈ کی گئی اور اموات کی تعداد17ہزار سے بھی زیادہ تھی-2000 ء سے اب تک زلزلوں کی تعداد 21 سے زیادہ ہو چکی ہے-[3]

حالیہ زلزلہ:

6 فروری 2023ء کے شام کی شمالی سرحد کے قریب جنوبی ترکی میں 7.8 شدت کا زلزلہ آیا- اس زلزلے کے تقریبا 9 گھنٹے بعددوبارہ 7.5 کی شدت کا زلزلہ تقریبا 90 کلو میٹر شمال میں آیا -[4]

زلزلےکا مرکز جنوبی وسطی ترکی میں ’غازی انتیپ ‘کے قریب تھا، جہاں ہزاروں شامی پناہ گزیں اور بہت سی انسانی امدادی تنظیمیں بھی مقیم ہیں-یو ایس جیولوجیکل سروے کے مطابق پیر کے روز آنے والے زلزلے نے تقریبا 285 کلو میٹر لمبے علاقے میں لرزش پیدا کی اور فالٹ لائنوں کے ساتھ ساتھ 185 میل لمبائی میں زمینی شگاف پیدا ہوئے -[5]

مزید یہ کہ 6 فروری کو آنے والے پہلے بڑے زلزلے کے بعد سے اب تک اس علاقے میں ہزاروں آفٹر شاکس آچکے ہیں-[6]

منسٹری آف انٹیرئیر ترکیہ کے مطابق 45 ہزار سے زائد لوگوں کی اموات ہو چکی ہیں اور خبر رساں ادارے کے مطابق صدر طیب اردگان نے زلزلے کے متعلق بیان دیتے ہوئے بتایا کہ:

’’214000 عمارتوں (جن میں 60800 اپارٹمنٹس شامل ہیں) کو یا تو شدید نقصان پہنچا یا زلزلے کی شدت سے گر چکی ہیں‘‘اور اسی طرح ملکِ شام میں اموات کی تعداد 7000 تک تجاوز کر چکی ہے -[7]ترکی اور شام میں مجموعی طور پر 23 ملین لوگ بے گھر ہوئے ہیں-[8]

اس زلزلے میں جاں بحق ہونے والوں کی ناگہانی موت پہ جس قدر دکھ اور افسوس کیا جائے کم ہے - جو لوگ بچ گئے ہیں اُن کےلئے یہ ایک ناقابلِ فراموش غم اور ناقابلِ تلافی نقصان ہے -

حالیہ زلزلے کے زد میں آنے والے علاقے:

ترکیہ میں زلزلوں کی شدت کو ’’کہرامانمراس، ہتائے، عثمانیہ، ادیامان، غازی انتیپ، شالیعیرفا، ملاتیا، کلیس، پزارسک اور ادانا ‘‘کے علاقوں میں محسوس کیا گیا-[9]

اسی طرح شام میں الیپو، لٹاکیا، ٹورٹس،ہما اور ادلیب کے علاقوں میں بڑی شدت سے محسوس کیا گیا-[10]

حالیہ زلزلوں کی زد میں آنے والے علاقوں کا تاریخی پسِ منظر:

ترکی، شام اور اس کے ملحقہ علاقوں کی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ بات معلوم ہوگی کہ یہ علاقہ 2 ہزار قبل مسیح سے ہی بڑی اہمیت رکھتا ہے، یہاں انبیاء کرام تشریف لائےاور یہاں مختلف اقوام آئیں جنہوں نے یہاں حکومت کی ،کئی سپر پاورز یہاں حکومت کرتی رہیں-ان علاقوں میں آج بھی کئی مقدس ہستیوں کے مزارات بھی موجود ہیں- یہ علاقہ شروع سے ہی امن اور ترقی کی تلاش میں رہا کبھی یہاں ہٹیوں نے حکومت کی تو کبھی اسکندر اعظم نے، کبھی سلطنت روم نے کبھی سلطنت ایران، کبھی بازنطینی تو پھر مسلمان حکمرانوں نے حکومتیں قائم کیں - بازنطینی اور با لخصوص مسلمان حکمرانوں کے دور میں ان علاقوں میں ترقی بھی ہوئی اور امن بھی بحال ہوا، یہاں تجارتی مراکز قائم ہوئے، اسلامی فن تعمیر کے ذوق کے مطابق عمارتیں تعمیر کی گئیں، یہ علاقہ بغداد جانے کے لئے گزر گاہ کے طور پر بھی استعمال ہوتا رہا ہے-یہ علاقہ مسلمانوں کے بعد کچھ وقت کے لئے بازنطینیوں کے پاس بھی رہا پھر یہاں سلجوق بھی آئے، ترک بھی آئے، سلطان صلاح الدین ایوبی بھی اس علاقے میں آئے،حلب جیسے شہر کو خوب مضبوط کیا بعد ازاں ہلاکوخان اور پھر امیر تیمور بھی قابض رہے اور 1517ء میں یہ علاقہ عثمانی ترکوں کے قبضے میں آیا جو کہ سلطنت عثمانیہ کے اختتام تک ترکوں کے زیرِ اثر رہا-

یہاں کے اہم شہروں میں حلب انتہائی پرانا اور تاریخی لحاظ سے اہمیت کا حامل شہر ہے- اسی طرح غازی انتیپ( دنیا کے قدیم اور مسلسل آباد شہروں میں سے ایک شہر) ، ہتائے، عثمانیہ، انطاکیہ،کلیس، پزارسک بھی تاریخی طور پر بہت اہمیت کے حامل شہروں میں شمار کئے جاتے ہیں-

ترکیہ و شام میں تاریخی و ثقافتی ورثے کے نقصانات کا تدارک :

اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو نے کہا ہے کہ شام اور ترکیہ میں اس کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل دو مقامات کو تباہ کن زلزلے میں نقصان پہنچا ہے- اس زلزلے نے کرۂ ارض کے سب سے طویل مسلسل آباد علاقوں میں سے ایک کو متاثر کیا، جس نے ہٹیوں سے لے کر عثمانیوں تک مختلف تہذیبوں کے ظہور اورعروج و زوال کا مشاہدہ کیا ہے-

زلزلے کی شدت کی وجہ سے مختلف شہروں میں ہزاروں کی تعداد میں عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے جن میں حلب کا قدیم قلعہ، غازی انتیپ کا قدیم قلعہ دیاربکر کا قلعہ، ہیوسل گارڈن، نمروت ڈگ سائٹ بھی شامل ہیں-

حلب کا قلعہ:

شام میں واقع حلب کا قلعہ جس کو 13 ویں صدی میں تعمیر کیا گیا اور اقوام متحدہ نے اس کو عالمی ورثہ میں بھی شامل کیا ہو ا ہے،اس قلعے میں مسلمانوں نے مساجد،مدارس، حمام وغیرہ تعمیر کروائے اور قلعہ میں داخلے کے لئے واحد پل تعمیر کروایا جس میں کسی بھی داخل ہونے والے فرد کو تین دروازوں سے گزرنا پڑتا تھا اور قلعہ کے اطراف 22 میٹر گہری خندق نما کھدائی کی گئی تا کہ دشمن کے حملوں سے محفوظ رہا جائے- اس قلعے کو شدید نقصان پہنچا ہے، محراب کی چھت اور پتھروں سے بنائی گئی بیرونی دیواریں گر چکی ہیں، قلعے کے متعدد میناروں کے دروازے گر چکے ہیں، داخلی پل کی حالت خستہ ہو چکی ہے اور ایوبی مسجد کے صحن کی کارنیس اور مملوک ٹاور کے دروازوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے-[11]

قلعہ غازی انتیپ:

یہ قلعہ مقامی طور پر غازی انتیپ کلیسی کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ ترکی کے شہر غازی انتیپ کے مرکز میں واقع ہے، یہ دوسری صدی عیسوی کا قلعہ زلزلے میں جزوی طور پر تباہ ہو گیا ہے، اس کی بہت سی دیواریں اور واچ ٹاورز مکمل طور پر منہدم ہو گئے ہیں اور کئی دیگر حصوں کو نقصان پہنچا ہے- رومی سلطنت کے دوران تعمیر کیے گئے 2000 سال پرانے قلعے کے مشرقی، جنوب اور جنوب مشرقی حصوں میں کچھ بُرج زلزلے سے تباہ ہو گئے ہیں اور ان کا ملبہ سڑک پر بکھر گیا تھا- اس تعمیر کو ابتدائی طور پر مشاہداتی مقام کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا، پھر اسے رومیوں نے ایک مکمل قلعے کے طور پر تیار کیا- یہ قدیم قلعہ صدیوں کے دوران ترکی کے اس حصے کی طرف آنے والے زائرین اور فاتحین کے بے شمار ادوار کا شاہد ہے-[12]

قلعہ دیار بکر:

ترکی کے صوبے دیار بکر میں واقع تاریخی قلعہ اور ملحقہ ہیوسل کے باغات (آٹھ ہزار برس قدیم) کو 2015ء میں یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست کا حصہ قرار دیا گیا تھا-اقوام متحدہ کی ایجنسی نے کہا کہ دونوں کو زلزلے سے نقصان پہنچا ہے، یونیسکو کے مطابق قلعے میں متعدد عمارتیں منہدم ہو گئی ہیں-[13]

نئی مسجد، ملاطیہ:

ترکی کے جنوب مشرقی شہر ملاطیہ کے مرکز میں واقع تاریخی ’نئی مسجد‘ (Yeni Mosque) پیر کے روز آنے والے زلزلے میں تباہ ہو گئی ہے، اس یادگار مسجد کی کئی دیواریں منہدم ہو چکی ہیں- ترکی کے مشرقی اناطولیہ کے علاقے کے قدیم شہر ملاطیہ میں واقع یہ 17 ویں صدی کی مسجد بار بار زلزلوں سے نقصان کا سامنا کرتی رہی ہے- یہ 3 مارچ 1894ء کے زلزلے میں بھی تباہ ہو گئی تھی، جسے ملاطیہ نے عظیم زلزلہ کہا تھا، لیکن پھر اسے عوام نے سلطان عبد الحمید دوم کے تعاون سے دوبارہ تعمیر کیا- 1964ء کے زلزلے میں اسے دوبارہ نقصان پہنچا-[14]

صوبہ حما میں، آثار قدیمہ کے سروے سے پتا چلا ہے کہ بنیاس شہر میں ’’قدیم المرقاب قلعے کے اندر کی کچھ عمارتوں‘‘ کو نقصان پہنچا ہے، جبکہ قلعہ بندی کے کچھ حصے اور ایک مینار گر گیا ہے-[15]

تاریخی و ثقافتی ورثے کا قدرتی آفات سےتحفظ اورپیشگی اقدامات:

ثقافتی ورثے کی عمارتوں کو زلزلوں سے بچانے کے لیے ایسے اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے جو ہر عمارت کی ساخت اور بناوٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دئیے جائیں- یہاں کچھ اقدامات ہیں جن پر کام کر کے تاریخی و ثقافتی ورثہ کو بڑے نقصانات سے بچایا جا سکتا ہے-

عمارتوں کا تفصیلی جائزہ:

ثقافتی ورثے کی عمارت کا باقاعدہ تفصیلی جائزہ عمارت کی کمزوری کی نشاندہی کرنے میں مدد کر سکتا ہے جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے- ایک پیشہ ور انجینئر یا آرکیٹیکٹ جس کو سیسمک ریٹروفٹنگ (Seismic Retrofitting)میں مہارت ہے، اس تفصیلی جائزہ میں مدد کر سکتا ہے-

زلزلے سے متاثرہ آرٹ ورک کی بحالی:

زلزلے کے بعد عمارتوں میں قدیمی فنون (جیسا کہ اسلامی عمارتوں میں مقرنس،کاشی گری یا گنبد وغیرہ) کو بحال کرنا ایک نازک عمل ہوتا ہے جس کیلئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے نقصان کا جائزہ لیا جائے، پھر اس کو مستحکم کیا جائے، مستحکم کرنے کے بعد اس کے خراب حصوں کی مرمت کردی جائے اور اگر مرمت سے کام کی بحالی ممکن نہ ہو تو مٹیریل کے لحاظ سے اس حصے کو دوبارہ بنا دیا جائے اور آخر میں مرمت شدہ یا دوبارہ تعمیر شدہ حصوں کو صاف کر دیا جائے -

مضبوط کنکریٹ (آر سی سی )کے ڈھانچے:

مضبوط کنکریٹ کے ڈھانچے عمارتوں کےزلزلے سے بچنے کیلیے ایک مقبول انتخاب ہیں- کنکریٹ میں مضبوط اسٹیل بارز (سریوں)کو شامل کیا جاتا ہے تاکہ اس کی تناؤ کی طاقت اور زلزلہ کی سرگرمی کو برداشت کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہو سکے-

زلزلہ سے متعلق تجدید کاری کی منصوبہ بندی:

زلزلہ کی تشخیص کے نتائج کی بنیاد پر، عمارت کے ساختی عناصر کو مضبوط بنانے اور زلزلے کے دوران ہونے والے نقصان کو کم سے کم کرنے کے لیے ایک ریٹروفٹنگ منصوبہ تیار کیا جانا چاہیے- پلان کو عمارت کی تاریخی اور ثقافتی اہمیت کو مدنظر رکھ کر اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ کسی بھی ریٹروفٹنگ کے اقدامات سے عمارت کے اصل ڈیزائن کو نقصان نہ پہنچے اور ڈیزائن تبدیل بھی نہ ہو-

غیر جارحانہ تکنیکوں کا استعمال :

غیر جارحانہ تکنیکوں جیسے بیس آئسولیشن، ڈیمپرز اور فائبر سے تقویت یافتہ پولیمر ثقافتی ورثے کی عمارتوں کو ان کی ظاہری شکل کو تبدیل کیے بغیر یا ان کی ساخت کی سالمیت کو اور مضبوط بنانےکے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے-

 نگرانی اور باقاعدگی سے دیکھ بھال:

ثقافتی ورثہ کی باقاعدگی سے دیکھ بھال اور نگرانی کسی بھی مسئلے یا کمزوریوں کی نشاندہی کرنے میں مدد کر سکتی ہے اس سے پہلے کہ وہ بڑا مسئلہ بن جائیں- اس میں باقاعدہ معائنہ اور مرمت شامل ہو سکتی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ عمارت ساختی طور پر ٹھیک رہے اور ڈھانچے میں کسی بھی قسم کی کمزوری پیدا نہ ہو سکے-

 ہنگامی ردّعمل کی منصوبہ بندی:

زلزلے کی صورت میں، کسی بھی نقصان کا فوری جواب دینے اور عمارت کو ہونے والے مزید نقصان کو کم کرنے کے لیے ایک منصوبہ بنانا ضروری ہوتا ہے- اس میں ہنگامی استحکام کے اقدامات، عارضی امدادی ڈھانچے، انخلاء اور بچاؤ کے منصوبے شامل ہو سکتے ہیں تا کہ ہنگامی صورتحال میں کسی بھی قسم کے بڑے نقصان سے بچا جا سکے-

لوگوں کو زلزلے کی حفاظت کے بارے آگاہی:

لوگوں کو زلزلے کی حفاظت کے بارے میں تعلیم یا آگاہی دینے سے زلزلے کے دوران زخمی ہونے یا ہلاکتوں کے خطرے کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے- اس میں عمارت کو محفوظ طریقے سے خالی کرنے کے بارے میں معلومات فراہم کرنا، نیز زلزلے سے متعلق عمومی حفاظتی نکات شامل ہو سکتے ہیں-

مقامی کمیونٹی کے ساتھ تعاون:

 ثقافتی ورثے کی عمارتیں اکثر اہم نشانیاں اور مقامی شناخت کی علامت ہوتی ہیں-ان عمارتوں کی حفاظت کی اہمیت کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کیلیے مقامی کمیونٹی کے ساتھ مل کر کام کرنا اور انہیں ریٹروفٹنگ اور ہنگامی ردعمل کے عمل میں شامل کرنا آنے والی نسلوں کے لیے ان کے تحفظ کو یقینی بنانے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے-

٭٭٭



[1]https://uis.unesco.org/en/glossary-term/cultural-heritage

[2]https://en.wikipedia.org/wiki/UNESCO

[3]https://en.wikipedia.org/wiki/List_of_earthquakes_in_Turkey

[4]https://www.usgs.gov/programs/earthquake-hazards/news/new-interactive-geonarrative-explains-2023-turkey-earthquake

[5]https://www.reuters.com/graphics/TURKEY-QUAKE/zdvxdngmzvx/

[6]https://www.theguardian.com/world/2023/feb/20/thousands-dead-millions-displaced-the-earthquake-fallout-in-turkey-and-syria#:~:text=How%20many%20people%20have%20been,people%20are%20still%20unaccounted%20for.

[7]https://en.afad.gov.tr/press-bulletin-36-about-the-earthquake-in-kahramanmaras

[8]https://reliefweb.int/report/syrian-arab-republic/syria-earthquake-crisis-response-policy-brief

[9]https://en.afad.gov.tr/earthquake-campaign

[10]https://www.ifrc.org/emergency/syria-earthquakes

[11]https://www.arabnews.com/node/2245891/middle-east

[12]https://urdu.arynews.tv/earthquakes-turkey-syria-historical-monuments/

[13]https://urdu.arynews.tv/earthquakes-turkey-syria-historical-monuments/

[14]https://urdu.arynews.tv/earthquakes-turkey-syria-historical-monuments/

[15]https://www.arabnews.com/node/2245891/middle-east

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر