مسلم انسٹیٹیوٹ اور سنٹر فار انٹرنیشنل پیس اینڈ سٹیبلٹی(سی آئی پی ایس)، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی(نسٹ)، اسلام آباد کی جانب سے ۹نومبر سقوطِ جوناگڑھ کی مناسبت سے’’جوناگڑھ پر بھارتی قبضہ: پاکستان کیلئے پالیسی آپشنز ‘‘ کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد کیا گیا - وائس چانسلر ائیریونیورسٹی ائیروائس مارشل (ر) فائز عامر نے نشست کی صدارت کی جبکہ نواب آف جونا گڑھ عزت مآب نواب محمد جہانگیر خانجی نے بطور مہمان خصوصی شر کت کی-دیگر مقررین میں چیئر مین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی، ماہر بین الاقوامی قانون وسابق وزیر برائے قانون احمر بلال صوفی ،ایسوسی ایٹ ڈین سی آئی پی ایس نسٹ ڈاکٹر طغرل یامین ، لیفٹیننٹ جنرل (ر) سعید ظفر،سابق پرنسپل سی آئی پی ایس نسٹ میجر جنرل (ر)علی باز ، والی سوات و سابق ایم این اے پرنس عدنان اورنگزیب خان،قائداعظم یونیورسٹی شعبہ تاریخ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر فاروق احمد ڈار، بریگیڈیئر (ر) عبدالرحمٰن ، پریسٹن یونیورسٹی آئی آر کے پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار احمد قریشی اور ریسرچ سوسائٹی آف انٹرنیشنل لاء کے ریسرچ ایسوسی ایٹ عبیر مصطفیٰ شامل تھے-مسلم انسٹیٹوٹ کے ریسرچ ایسوسی ایٹ آصف تنویر اعوان ایڈووکیٹ نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دیے-سیمینار میں غیر ملکی وفود،طلبہ،اساتذہ،صحافی برادری اور مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سمیت لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی-
سیمینار میں مقررین کی گفتگوکا خلاصہ درج ذیل ہے -
ریاست جونا گڑھ ۱۷۳۰ء میں معرض وجود میں آئی اور اس پر نواب آف جونا گڑھ نے تقریبا دو سو سال حکومت کی-تقسیمِ ہند کے وقت اس وقت کے جونا گڑھ کے حکمران نواب مہابت خانجی نے قائد اعظم محمد علی جناح اور مسلم لیگ کی پالیسیوں اورخصوصی مراعات کی وجہ سے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا-کیونکہ ریاستوں سے متعلق قائد اعظم کی پالیسی میں کافی نرمی تھی قائد اعظم کی پالیسیوں سے کئی ہندو ریاستوں کے حکمران بھی خوش تھےمثلاً پاکستان سے الحاق کرنے والی ریاستوں کےحکمرانوں کو معزول نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی حکمرانوں کے اختیارات کو ختم کیا جائے گا اورقائد اعظم ریاستوں کو بڑی حد تک خود مختاری دینے کے لئےبھی تیار تھے اور ریاستوں کی آزاد حیثیت کے حق کو بھی تسلیم کیا تھا جبکہ اس کے برعکس نہرو اور گاندھی نے کسی ریاست کی جانب سے آزاد حیثیت کو جنگی اقدام قرار دیا- ان مراعات کے باعث اسٹیٹ کونسل سے مشورہ کے بعد 15 اگست کو نواب آف جوناگڑھ کی جانب سے اعلامیہ جاری کیاگیا جس میں نواب صاحب نے واضح طور پر پاکستان سے الحاق کی خواہش کا اظہار کیا اورپاکستان کے ساتھ ایک سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ پر دستخط ثبت کیے-۱۵ستمبر ۱۹۴۷ ءکو نواب آف جونا گڑھ نے پاکستان کے ساتھ باقاعدہ طور پر الحاقی دستاویز پر دستخط کیے-
بھارتی حکمران اس فیصلہ کو تسلیم کرنے پر تیار نہ تھے اور بھارت نے طاقت کے زور پہ ان کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا - اس فیصلہ کے ردِعمل میں بھارت نے سب سے پہلے ریاست کی اقتصادی ناکہ بندی کر دی - نواب صاحب پہلے ہی کراچی تشریف لے آئےتھے اور ۹نومبر ۱۹۴۷ء کو بھارتی فوج نے ریاست پر غاصبانہ قبضہ کر لیا اور پھر وہاں قابض فوج کی موجودگی میں ایک ڈھونگ ریفرنڈم رچایا-قائداعظم محمد علی جناح نے لارڈ ماونٹ بیٹن کو مطلع کیاتھاکہ جونا گڑھ کی علاقائی خودمختاری یا سالمیت پر کوئی حملہ ایک اشتعال انگیز قدم تصور کیا جائے گا- لیاقت علی خان نے جونا گڑھ پر بھارتی قبضے کے بارےمیں نہرو کو ٹیلی گرام میں کہا کہ آپ کا پاکستانی حکومت کی اجازت اور ہمارے علم میں لائے بغیر جوناگڑھ کی ریاستی مشینری پر بذریعہ بھارتی افواج قبضہ کا عمل واضح طور پر سرزمین پاکستان کی پامالی اور بین الاقوامی قوانین کو توڑنے کے مترادف ہے-
پنڈت نہرو، سردار پٹیل اور وی پی مینن نے پاکستان کو نقصان پہنچانے اور ریاستوں کو پاکستان سے الحاق سے روکنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی- مزید براں، ماونٹ بیٹن نے کھلم کھلابھارت کا ساتھ دیا- ۳ جون کے پلان کے مطابق انڈین ریاستوں کے مستقبل کا فیصلہ ۱۲ مئی ۱۹۴۶ کے کیبنٹ مشن کی یاداشت کے مطابق ہونا تھا- ریاستوں کو دو آپشن دیے گئے تھے- پہلا آپشن پاکستان یا انڈیا سے الحاق کا تھا- دوسرا آپشن آزادی کا تھا- مزید براں اہم ترین بات یہ ہے کہ جغرافیائی عنصر کا کہیں پر بھی تذکرہ نہیں تھا اور ہمیں جونا گڑھ کے مسئلہ کا تذکرہ کرتےہوئے اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے- پالیسی پر عمل درآمد کے وقت ماونٹ بیٹن نے ضوابط کی خلاف ورزی کی- جغرافیائی قیود کی پابندی نہ ہونے کے باوجود ماونٹ بیٹن نے نواب آف جونا گڑھ پر پاکستان سے الحاق نہ کرنے پر دباو ڈالا کہ جونا گڑھ پاکستان سے تین سو (۳۰۰)کلو میٹر کی دوری پر ہے(جبکہ سمندری سرحد ملتی تھی ) - اسی طرح ماونٹ بیٹن نے ریاستی حکمرانوں کو آزادی کا اعلان کرنے کی اجازت نہ دی جو کہ کانگریس کی مرضی کے عین مطابق تھا- اس نے قائداعظم کوبھی یہ بیان دینے پر مجبور کر دیا کہ وائسرائے اور کانگریس برطانوی حکومت کے بالکل برعکس پالیسی پرعمل پیرا ہیں-
حتیٰ کہ برطانیہ کے وزیر برائے ریاستی امور ،لسٹوو یل نے بھی ضوابط کی خلاف ورزی پر ماونٹ بیٹن پر کڑی تنقید کی-تقسیم ہند کے موقع پر جب باونڈری کمیشن پنجاب کی تقسیم میں سرگرم عمل تھا تو نقشہ میں تبدیلی کر کے بہت سارے علاقے جو کہ مسلم اکثریتی علاقے تھے بھارت میں شامل کر دیئے گئے- اگر ہم سندھ کی جغرافیائی حدود کا بغور مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ غیر قانوناً جنوب مشرقی پٹی کو جنوب مغرب میں دھکیل دیا گیا جو اسلام باغ سے آگے کا علاقہ بنتا ہے اگر یہ خط سیدھا ہوتا تو جونا گڑھ پاکستان کا حصہ ہوتا-اس کو جا ن بوجھ کر مغرب اور رَن آف کچھ کی جانب کھینچا گیا اور ایک مکمل صحرا بھارت کے حوالے کر دیا گیا تاکہ جونا گڑھ پر قبضہ کیا جا سکے -پانچ خلاف ورزیاں ایسی ہیں جن کے تحت قانوناً بھارت کو مورد الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے –
1) پہلی خلاف ورزی معاہدۂ الحاق کی خلاف ورزی ہے مزید براں یہ کیبنٹ مشن اور آزادی ایکٹ کی خلاف ورزی بھی ہے لہٰذا اس کو بین الاقوامی سطح پر چیلنج کیا جاسکتا ہے بلکہ کیا جانا چاہئے -
2) دوسرا یہ کہ ریاستوں کے الحاق سے متعلق کوئی یکساں پالیسی نہیں اپنائی گئی بلکہ من مانی پالیسی اپنائی گئی مثلاً کشمیر ، حیدر آباد اور جونا گڑھ اور دیگر ریاستوں کا الحاق مختلف غیر قانونی ہتکھنڈے استعمال کر کے کیا گیا- ماونٹ بیٹن کا مقصدہر مختلف ذریعے سے بھارت کو ویسے ویسے نوازنا تھا جیسے جیسے پنڈت نہرو چاہتے تھے -
3) تیسری خلاف ورزی ڈھونگ ریفرنڈم تھا- دوآزاد ریاستوں کے مابین تنازعہ کی صورت میں ریفرنڈم تیسری عالمی باڈی کے زیر نگرانی ہوتا ہے نہ کہ قابض /طاقتور ریاست اپنی مرضی سے ریفرنڈم کرائے -کیا بوقت ریفرنڈم وہاں کوئی عالمی نگران باڈی موجودتھی؟یا کوئی پاکستانی نمائندہ بحیثیت نگران موجود تھا- یقیناً نہیں-تو یہ ایک ڈھونگ ریفرنڈم تھا بالکل اُن انتخابات کی طرح جو مقبوضہ جموں و کشمیر میں کروائے جاتے ہیں - کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد دو لاکھ ایک ہزار چار سو ستاون (۲۰۱۴۵۷) تھی جن میں سےایک لاکھ نوے ہزار سات سو اسی(۱۹۰۷۸۰) ووٹرز نے ریفرنڈم میں حصہ لیا اور ایک لاکھ نوے ہزار سات سو اسی(۱۹۰۷۸۰)ووٹرز میں سے صرف اکانوے(۹۱) ووٹرز نے انڈیا سے الحاق کی مخالفت کی تو کیا یہ ریفرنڈم ایک آزاد ریفرنڈم تھا؟ یا پھر بندوق کے بل بوتے پر؟ مختصراً جونا گڑھ سے متعلق انڈیا کا ہر قدم غیر قانونی اور غیر اخلاقی تھا –
4) چوتھی خلاف ورزی عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے جوناگڑھ کا پاکستان کے ساتھ الحاق بین الاقوامی قانون کے عین مطابق ہے اور الحاقی دستاویز ’’ویانا کنونشن آن لاء آف ٹریٹیز‘‘کی تمام شرائط پر پوری اترتی ہے- بھارت کا جونا گڑھ پر قبضہ آرٹیکل چھبیس(۲۶) آف ویانا کنونشن آن لاء آف ٹریٹیز کی کھلی خلاف ورزی ہے-پاکستان نے بھارتی جارحیت کے خلاف اقوامِ متحدہ میں رجوع کیا ہے جہاں یہ مسئلہ آج بھی حل طلب ہے-
5) پانچویں خلاف ورزی انسانی حقوق کی پامالی ہے - جوناگڑھ پر قبضہ سے پہلے بھارت نے جونا گڑھ کی مکمل طور پہ اقتصادی ناقہ بندی کر دی تھی جس وجہ سے جوناگڑھ میں قحط کی صورتحال پیدا ہو گئی - لہٰذا یہ پانچ ایسی خلاف ورزیاں ہیں کہ جن کی بنیاد پر ہم بھارت کو بین الاقوامی عدالت یا اقوام متحدہ میں لےکر جا سکتے ہیں-
پاکستان کوتین طرفہ پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے - سب سے پہلے تو حکومت کو کوئی لا ئحہ عمل متعین کرنے کی ضرورت ہے بد قسمتی سے ہم اس معاملے کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے میں ناکام رہے ہیں اور خاص طور پہ اقوام متحدہ کے فورم پہ جب کہ پاکستان حکومت اقوام متحدہ کے آرٹیکل ننانوے(۹۹) کے تحت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو اس مسئلے پر نوٹس لینے کے لیے رسائی حاصل کر سکتا ہے- پاکستان کی جانب سے محض ایک اعتراض کا خط اقوام متحدہ میں جمع کرایا گیا اور اس کے بعد خاموشی اختیار کر لی گئی-ابتدا میں سیاسی، علمی،تحقیق و دیگر شعبہ جات میں مسئلہ جوناگڑھ شامل تھا اور پاکستان کے نقشہ میں بھی شامل تھا مگر بعد میں سب سے نکال دیا گیا-لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ اس مسئلہ کو دوبارہ بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرے - حکومتی اقدامات کا انتظار کیے بغیر ہمیں نوجوان نسل کو اس معاملہ سے متعلق آگاہ کرنا چاہیے اور سوشل و الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے باقی دنیا تک پھیلانا چاہیے- اس مسئلہ سے متعلق گاہے بگاہے سیمینار بھی منعقد کرنے کی ضرورت ہے اور ان سیمینارکی جو بھی کاروائی ہو اسے بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا جانا چاہیے-اسلام آباد میں جونا گڑھ ہاوس کا قیام عمل میں لایا جانا چاہیے جو کہ حکمت عملی کے تحت ہو گا - اس ہاؤس کے قیام کا مقصد کسی کا ذاتی مفاد نہیں بلکہ اس کیس کو زندہ رکھنے کے لیے ہوگا اور ایسا کرنے سے پاکستان کی طرف سے نواب آف جوناگڑھ اور ان کے خاندان کی پاکستان کے لیے گراں قدر خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جاسکتا ہے- بھارت نے 9 نومبر کو یوم آزادی جونا گڑھ (یومِ قیامِ عارضی حکومت) کے طور پہ منایا یہ وہ دن ہے کہ جب بھارت نے جوناگڑھ پہ اپناناجائز قبضہ کے لیے عارضی حکومت قائم کی تھی -ہمیں بھارتی جارحیت اور غاصبانہ قبضے کو عالمی سطح پر بے نقاب کرنا چاہئے -
وقفہ سوال وجوابات :
مسئلہ کشمیر اور مسئلہ جونا گڑھ الگ نوعیت کے مسائل ہیں اور دونوں کی قانونی دستاویزات میں فرق ہے - مسئلہ جونا گڑھ کو عالمی سطح پہ اجاگر کرنے کی ضرورت ہے - مسئلہ کشمیر اور جوناگڑھ میں دو بنیادی فرق ہیں اول یہ کہ جوناگڑھ کے معاملے میں نواب آف جونا گڑھ نے بقلم خود الحاقی دستاویز پہ دستخط کیے جس کو اس وقت کے گورنر جنرل آف پاکستان قائداعظم نے قبول کیا لہذا قانونی دستاویزات مکمل ہیں جبکہ کشمیر کے معاملے میں مہاراجہ ہری سنگھ کے الحاقی دستاویز پہ دستخط موجود نہیں،اگر آپ برطانوی ریکارڈ کے دفتر لندن میں جائیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اس دستاویز پہ کوئی دستخط موجود نہیں-دونوں معاملوں میں یہ ایک بہت بڑا فرق ہے کہ ایک پہ دستخط ہیں اور ایک پہ نہیں- پھر دوسرا بڑا فرق یہ ہے کہ کشمیر میں استصواب رائے اقوام متحدہ کی طرف سے تجویز کیا گیا کیونکہ یہ ایک متنازع مسئلہ تھا جبکہ جوناگڑھ میں اقوام متحدہ کی طرف سے کوئی ریفرنڈم تجویز نہ کیا گیا بلکہ بھارت نے اپنے طور ایک ڈھونگ ریفرنڈم رچایا- ایسا نہیں ہے کہ جو کچھ ستر سال پہلے وقوع پذیر ہوا ہو اُسے دوبارہ زندہ نہیں کیا جاسکتا بلکہ اگر ہم ایک مضبوط مقدمہ بنائیں تو اس کو جیتا جاسکتا ہے-پاکستان کوعلم اور تحقیق کے میدان میں بھی جوناگڑھ پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور بالخصوص نوجوان نسل کو جوناگڑھ کی تاریخ اور موجودہ صورت حال سے آگاہ رکھا جانا چاہیے- جونا گڑھ پہ بھارت بھی سب بھول چکا تھا مگر گزشتہ ایک ڈیڑھ برس میں مسلم انسٹیٹیوٹ کی جانب سے شروع کی جانے والی تحریک کا اثر یہ ہوا ہے کہ اس برس ۹ نومبر سے پہلے ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ نے بیانیہ شائع کیا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندرا موذی خود ’’یومِ قیامِ عارضی حکومت‘‘ کی تقریب میں شرکت کیلئے جوناگڑھ جائیں گے ، موذی تو نہ جا سکے پھر ان کی جگہ شدت پسند ہندو جماعت بی جے پی کے گجرات کے وزیر اعلیٰ وجے روپانی نے جلسہ کی صدارت کی – اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی سرکار اِسے دیکھے نہ دیکھے بھارت سرکار کی نظریں اِس مسئلہ پہ ہیں ، کیا ہی اچھا ہوتا کہ حکومتِ پاکستان سرکاری سطح پہ اس ایشو کو زندہ اور اجاگر رکھنے کی سعی کرتی –
٭٭٭