سرزمین بلوچستان سے مراد بلوچوں کے رہنے کی جگہ-
لفظ بلوچ کی لغوی تحقیق
فارسی لغت:
بُلُوچ - تاک عروس، مرغ کا تاج-[1]
عربی لغت:
بَلَجَ - بلوجًا و اَبلجَ تبلج و ابتلج صبح کا روشن ہونا، چمکنا-[2]
پنجابی لغت:
بلوچ مذکر بلوچڑ مونث بلوچن، بلوچنی شتر بان بلوچستان کا باشندہ ایک قوم-[3]
لفظ بلوچ کی وجہ تسمیہ:
رالنسن(Rolinson)کی تحقیق کے مطابق لفظ بلوچ کا مخرج لفظ بلوص ہے-سکنی اعتبار سے بلوچ وادی بلوص کے رہنے والے ہیں- یہ وادی شام میں حلب کے قریب ایران کی سرحد کے ساتھ واقع ہے- جب اسلامی تعلیم اور حکومت کا غلبہ ہوا تو ابو عبیدہ بن الجراح نے اپنے ایک سردار حبیب بن مسلمہ کی سرکردگی میں ایک لشکر وادی بلوص کی طرف روانہ کیا اس لشکر کے ہمراہ عربوں کی ایک ایسی جماعت بھی تھی جو ایک عرصہ سے شام میں آباد تھی- وادی بلوص کی فتح کے بعد یہ جماعت اسی وادی میں آباد ہوگئی- یہی لوگ پہلے بلوص اور بعد میں بلوچ کہلائے-[4]
بلوص کے متعلق ایک قدیم عربی شعر کا حوالہ بالعموم کیا جاتا ہے-
الشام شمامۃ وحلب مجمع الاحباب |
’’شام ایک باعظمت ملک ہےحلب دوستوں کا شہر ہے اور وادی بلوص تو فوجی چھاونی ہے جس میں سپاہی رہتے ہیں‘‘-
بعض اہل علم کے نزدیک’’بلوچ‘‘ سنسکرت زبان کا لفظ ہے- بل سے مراد بہادر جبکہ اوچ سے مراد اونچا ہے جس کا مطلب ہے نہایت بہادر قبیلہ اس عنوان سے لفظ بلوچ ادھر کیچ و مکران میں بطور لقب مشہور ہوگیا- جب بلوچوں نے وسیع و عریض علاقے فتح کئے اور وہیں بس گئے تو اس علاقہ کا نام بلوچستان پڑگیا-[6]
بلوچ کلچر و ثقافت:
بلوچ یوم ثقافت ہر سال 2 مارچ کو پاکستان، ایران، افغانستان، دوبئی، مسقط، بحرین، سعودی عرب اور بھارت میں بھرپور انداز سے منایا جاتا ہے- برطانوی اور فرانسیسی ماہرین آثار قدیمہ کی سروے ٹیموں نے بلوچ ثقافت کو دنیا میں ایک منفرد و مخصوص اور دوسری قدیم ثقافتوں کے مقابلے میں مضبوط ثقافت قرار دیا- بلوچ مرد، خواتین اور بچے اپنے روایتی رنگا رنگ لباس میں ملبوث ہوکر رنگ بکھیرتے ہیں- مختلف اجتماعات کا بندوبست ہوتا ہے- بلوچ لباس اپنی خوبصورت کڑھائی اور ڈیزائن کے باعث قیمتی اور مشہور ہیں بلوچی ثقافت دنیا کی توجہ کا مرکز ہے اور بلوچ یوم ثقافت اس کاآئینہ ہے- بلوچ دین اسلام کی پیروی کرتے ہیں اور ان کی ثقافت شناخت میں مذہب ایک اہم جز ہے جو ان کی روحانی تربیت و عبادت کے ساتھ ساتھ انہیں یکجا کرنے اور متحد رہنے میں مدد دیتا ہے-
صوبہ بلوچستان کی انفرادیت:
صوبہ بلوچستان پاکستان کے دوسرے صوبوں سے منفرد ہے اس میں گوادر، سی پیک اور معدنی وسائل جیسی چیزیں موجود ہیں یہ بانی پاکستان کا محبوب ترین صوبہ تھا-
بلوچستان عہد سیدنا صدیق اکبر (رض) 11 تا 13 ھ :
ارض بلوچستان میں صحابہ کرام (رض) کی آمد مبارکہ عہدِ سیدنا صدیق اکبر میں ہوئی- آپ (رض) نے حضرت عثمان بن ابی العاص کو بھیجا اور عبدالقیس کو آپ کے ساتھ مقرر کیا- آپ فوج کے ساتھ توج کی طرف گئے اور اسے فتح کیا- مکران اور اس کے قریبی علاقوں کو بھی فتح کیا- آپ نے حضرت العلاء بن الحضرمی کو ایک فوج کے ساتھ بھیجا اور آپ نے ارض بحرین سے الزارۃ اور اس کے نواح کو فتح کیا- آپ نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو مالِ غنیمت بھجوایا یہ پہلا مال تھا جسے لوگوں نے احمر و اسود آزاد غلام کے درمیان تقسیم کیا- ہر آدمی کو ایک ایک دینار دیا-[7]
علامہ جزری ’’اُسد الغابہ فی معرفت الصحابہ‘‘ میں عثمان بن ابی العاص کے ترجمہ کے تحت رقم طراز ہیں کہ:
’’یہ عثمان بن ابی العاص رسول اللہ(ﷺ) کی ظاہری زندگی مبارک اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی خلافت میں طائف کے عامل رہے اور حضرت عمر فاروق (رض) کے دورِ مبارک میں بھی دو سال طائف کے عامل رہے- پھر ان کو سیدنا عمر فاروق نے 15 ھ میں عمان اور بحرین کا عامل مقرر کیا- انہوں نے عمان کی طرف کوچ کیا اور اپنے بھائی حکم کو بحرین کی طرف روانہ کیا- عثمان بن ابی العاص شہر توج کی طرف روانہ ہوئے- اس کو فتح کیا اور وہاں کے بادشاہ کو قتل کیا- یہ واقعہ 21ھ کو ہوا -[8]
عہد سیدنا فاروق اعظم(رض) 13 تا 23ھ
خلافت سیدنا حضرت عمر فاروق (رض) میں ہندوستان سے اسلام اور مسلمانوں کے گونا گوں تعلقات، روابط قائم ہوئے- آپ (رض) کے دورِ حکومت میں مملکت اسلامیہ کی سرحدیں شمال میں افریقہ تک، جنوب میں کرمان تک، مشرق میں آرمینیا تک اور مغرب میں عدن تک پھیل گئی تھیں-[9]
علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں امراء کی عام لشکر کشی سے 23ھ میں حکم بن عمر و تغلبی نے مکران کا قصد کیا ان کےبعد شہاب بن مخاروق، سہیل بن عدی اور عبداللہ بن عبداللہ عتبان بھی روانہ ہوئے- سب نے دو دین پہنچ کراسلامی فوج کو صف بند کیا- والیِ مکران (راسل) نے نہر مکران کے کنارے بہت اہتمام سے صف آرائی کی اور اہل سندھ کی امدادی فوج لے کر مسلمانوں کے مقابلے پر آیا-اسلامی بہادروں نے ایک بہت بڑی جنگ کے بعد راسل کو شکست دے کر مکران کو فتح کرلیا تو حکم نے صحار عبدی کو دربار خلافت میں روانہ کیا تو سیدنا فاروق اعظم نے مکران کا حال پوچھا صحار عبدی نے عرض کیا:
ارض سھلھا جبلوماؤ ھا و شل و ثمرھا و قل وعد دھا |
’’وہ سر زمین جن کے میدان پہاڑ ہیں-اس کا پانی کم ہے پھل ردی ہے-اس کی تعداد باطل ہے-خیر کم ہے-شر زیادہ ہے اور آ بادی بہت کم ہے‘‘-
یاد رہے کہ یہ کلمات تب کے ہیں جب یہ علاقہ نُورِ اسلام سے منور نہیں ہوا تھا -مگر جب یہاں دلوں میں اسلام کا نور روشن ہوا تو خیر زیادہ ہوگئی اور شر ختم ہو گیا اور رحمت و برکت نے اس سرزمین کو اولیاء، علماء، شجاعوں اور نیکوں کی سرزمین بنا دیا-
مکران کی پہلی فتح:
مکران کی پہلی فتح 23ھ کو ہوئی- ان دنوں اسلامی افواج بصرہ کے امیر حضرت ابوموسیٰ اشعری اور بحرین کے امیر حضرت عثمان بن ابی العاص کی قیادت میں ایران میں جہاد کر رہی تھی- حضرت عثمان بن العاص نے اپنے بھائی کو حضرت حکم بن العاص کی قیادت میں ایک فوج کے ساتھ مکران روانہ کیا اس لشکر کو بہت بڑی کامیابی نصیب ہوئی- امام ذہبی نے 23ھ کے واقعات میں لکھا ہے اسی سال یعنی 23ھ میں مکران فتح ہوا- اس کا امیر حکم بن عثمان تھا -[11]
امام ابنِ کثیر نے 23ھ کے واقعات میں لکھا ہے کہ
’’اسی سال مکران فتح ہوا اس کے امیر عثمان کے بھائی حکم بن العاص تھے‘‘-[12]
عہد حضرت سیدنا عثمان غنی (رض) 24 تا 35ھ :
حضرت سیدنا عثمان غنی (رض) کے دور مبارک میں بلوچستان کا بہت سارا علاقہ فتح ہوا- آپ نے حضرت ربیع بن زیاد حارثی کو سجستان کی طرف روانہ کیا انہوں نے فہرج کے بعد مکران اور سندھ کے دیگر علاقوں میں شاندار فتوحات حاصل کیں- ان فتوحات کی مدح میں حضرت عمر بن معدیکرب نے 30 اشعار کہے:
و مغی ربیع بالجنود مشرفا |
ربیع بن زیاد فوجیوں کو لے کر بڑھتے چلے جاتے تھے- ان کی نیت جہاد اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت تھی-حتی کہ انہوں نے سواد عراق کے دیہاتوں اور فارس کو مکران کی نرم زمینوں اور دشوار و سخت پہاڑوں کو فتح کیا اور یاقوت حموی نے حضرت عمر بن معدیکرب کے قصیدے کے دو اشعار یوں نقل کیے-
قومھم ضربوا الجبائر از بغو |
’’انہوں نے بنی ساسان (شاہان ایران) کے جابروں کو جب انہوں نے سرکشی کی تو چمکتی ہوئی تلواروں سے مارا‘‘-
حتی استبیع قرٰی اسواد فارس |
’’یہاں تک کہ سواد عراق کے دیہات اور فارس کے مقامات اور مکران کے نرم و سخت علاقہ جات فتح کر لیے گئے ‘‘-
حضرت عثمان کے 12سالہ دورِ حکومت میں 29ھ سے 35ھ کے درمیان 6 برس کی مدت میں ہندوستان کی حدود میں 4 زبردست فتوحات ہوئیں اور یہاں آپ کی خلافت کی طرف سے نہایت اعلیٰ پیمانہ پر ملکی انتظامات کیے گئے- ان حدود میں مسلمانوں کی آبادیاں قائم ہوئیں اور کسی علاقہ میں بد عہدی اور بدنظمی نہیں ہونے پائی-[15]
عہد حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم 35 تا 40ھ :
حضرت عثمان (رض)کی شہادت کے بعد مکران اور بلوچستان کے حالات ابتر ہونا شروع ہوگئے- اہل مکران نے بغاوت کی اس لیے حضرت علی (رض)کے دور خلافت 38 تا 39ھ میں حارث بن مرۃ العبدی نے آپ کی اجازت سے لشکر جمع کرکے مکران میں جہاد کیا- اس جہاد میں گو کہ مکرانیوں نے پوری طاقت جمع کی تھی لیکن وہ اسلامی فوج کے سامنے نہ ٹھہر سکے اور مسلمانوں کو شاندار فتوحات حاصل ہوئیں- کئی جنگی قیدی بھی مسلمانوں کے ہاتھ آئے- ایک دن میں ایک ہزار قیدی مجاہدین میں تقسیم کیے گئے -[16]
محمد اسحاق بھٹی نے اپنی کتاب فقہائے ہند میں لکھا کہ اس علاقہ میں یہ جنگیں حارث بن مرۃ عبدی کی کمان میں لڑی گئیں- اہل قلات نے 20 ہزار فوج کے ساتھ مسلمانوں کا مقابلہ کیا لیکن ناکام رہے اور مسلمانوں کے زبردست حملے کی تاب نہ لاکر پہاڑوں کی گھاٹیوں اور غاروں میں جا چھپے- بعد ازاں قلات کے کفار کی منتشر فوجیں پھر جمع ہوئیں- مسلمانوں پر آمد و رفت کے دروازے بند کر کے ان کو چاروں طرف سے گھیرنے کی کوشش کی- لیکن جب اسلامی فوج کو ان کے اس ارادے کا علم ہوا تو اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر زور سے ان پر حملہ کیا- کفار خوف زدہ ہوکر بھاگ گئے- بعد ازاں ان میں سے اکثر مسلمان ہوگئے- یہ پہلا نعرہ تکبیر تھا جو اس نواح میں بلند ہوا جس سے کفر لرز اٹھا اور وادی قلات کی پہاڑیاں نعرہ تکبیر سے گونج اٹھیں اور لوگوں کے دلوں میں اسلام کا نور داخل ہوا -
اختتامیہ:
سرزمین بلوچستان کو اللہ پاک نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے- جب خلفائے راشدین جیسی مقدس ہستیوں کے دور میں یہ علاقے فتح ہوئے تو ہمارے لیے اس کی ایک روحانی اہمیت ہے- اس تاریخی منظر سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بلوچستان کا جغرافیائی اور تاریخی تعلق عرب اور ایران سے ہے نہ کہ ہند کے ساتھ-جیسا کہ مصورِ پاکستان علامہ محمد اقبال کا بھی یہی نقطہ ٔنظر تھا-مزید آکسفورڈ یونیورسٹی کے اشاعتی ادارے نے قلات کے بارے یہ تحقیق شائع کی ہے کہ اک عرصہ تک برطانیہ بلوچستان کی شاہی ریاستوں کو ’’غیر بھارتی ریاستیں‘‘ شمار کرتا رہا-ان تاریخی حقائق سے گاندھی اور کانگریسی ملاؤں کے ’’متحدہ ہندوستانی قومیت‘‘ کا نظریہ باطل ثابت ہو جاتا ہے-
اب ہماری حکومت کو اس صوبے کی نعمتوں سے تیل، گیس، قدرتی وسائل کو حاصل کرکے بلوچستان کے مسائل کا حل کرنا چاہیے- حکومت کو تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور بنیادی ڈھانچے پر توجہ دینے کے ساتھ خطے کی ترقی کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے- قدرتی وسائل کے شعبے میں سرمایہ کاری سے معاشی مواقع بھی مل سکتے ہیں- سلامتی کی صورتحال کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے-جس میں مسئلہ کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے پر توجہ دی جائے اور بلوچستان کے تاریخی اسلامی ورثہ کو دنیا کے سامنے اجاگر کیا جائے -
٭٭٭
[1](حسن اللغات جامع/فارسی اردو، ص:131)
[2](المنجد عربی اردو لغت، ص:98)
[3](تنویر اللغات، ص:155)
[4](اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ج:4 ،ص:861)
[5](بلوچ قوم اور اس کی تاریخ ،ص:75)
[6](بلوچی دنیا ستمبر 2005، ص:32)
[7](تاریخ الیعقوبی، ج: 2، ص: 213)
[8](اُسد الغابہ ، ج: 2، ص: 513)
[9](ڈاکٹر محمد سعد صدیقی، علم حدیث اور پاکستان میں اس کی خدمت، ص: 167)
[10](تاریخ ابن خلدون، ج :2، ص: 526)
[11](تاریخ الاسلام و طبقات المشاہیر الاعوام ج: 2، ص: 48 / بحوالہ بلوچستان میں عربوں کی فتوحات 14)
[12](البدایہ و النہایہ)
[13](خلافت راشدہ اور ہندوستان 111/ بحوالہ الامالی لابی علی قالی، ج: 3، ص: 46)
[14](خلافت راشدہ اور ہندوستان، 113 / بحوالہ معجم البلدان، ج: 8، ص: 132)
[15](خلافت راشدہ اور ہندوستان، ص: 116)
[16](فتوح البلدان، ص: 613)