پاکستان کے قیام کو 75برس گزر چُکے ہیں-اس میں کوئی شک نہیں کہ بانیانِ پاکستان نے مسلمانانِ ہند کیلیے ایک ایسی مملکت کا خواب دیکھا تھاجہاں وہ ایک آزاد قوم کی حیثیت سے اپنی زندگی گزار سکیں اور اِس آزاد وطن کے حصول کے لیے ہم نے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دیں- قدرت نے پاکستان کو کئی وسائل سے مالا مال کیا ہے- حصولِ آزادی کے ابتدائی دَور میں کم وسائل اور غیر ہنر مند افرادی قوت کے باوجود مُلک نے روز افزوں ترقی کی-پاکستان میں سرپلس بجٹ پیش کیے گئے ، حتیٰ کے پاکستان نے جرمنی جیسےمختلف ممالک کو قرض دیا- ابتدائی برسوں میں بھارت کے بر عکس، اپنی کرنسی ڈی ویلیو نہیں کی-پاکستان نے دنیا کی بڑی ائیر لائنز بنائیں اور ممالک کو ادارے بنانےاور چلانے کا ہنر سکھایا-
پاکستانی ثقافت اور اس کی سماجی اقدار بہت جان دار اور پُرکشش ہیں، چنانچہ پاکستانی دنیا میں کہیں بھی ہوں، اُن سے دلی طور پر جڑے رہتے ہیں- سب پاکستانی اپنی دھرتی سے والہانہ عشق کی وجہ سے پردیس میں بھی مُلک کی دامے، درمے، سخنے اور قدمے مدد کرتے اور اس سے محبّت کا دَم بَھرتے ہیں-البتہ اگر آج جب ہم اپنا محاسبہ کرتے ہیں، تو صورتِ حال کچھ اچھی دکھائی نہیں دیتی -ہر شعبہ ہائے زندگی میں اک زوال کی سی کیفیت ہے- ابتدا ہی سے پاکستان میں آئین کا کام التوا میں ڈال دیا گیا -1956ء تک آئین نہیں بن سکا اور جو آئین بنا اسے چلنے نہیں دیا گیا-نتیجتاً آج تک ملک میں آئینی کلچر پروان نہیں چڑھ سکا جو کسی بھی قوم کی ترقی کا اساس سمجھا جاتا ہے-پھر یکے بعد دیگرے کئی مارشل لاء نافذ ہوئے اور آج بھی جو نام نہاد جمہوریت ہے، عوام النّاس کی زبان میں’لولی لنگڑی‘ ہے-ملک میں وڈیرہ شاہی کا نظام قائم ہے جو نہ صرف غیر جمہوری ہے بلکہ غیر انسانی بھی ہے اور اسی نظام کی وجہ سے ملک میں سیاسی جماعتیں صحیح معنوں میں تشکیل نہیں پا سکیں اور سیاسی بصیرت ناپید ہے- عدلیہ کسی بھی ملک میں انصاف کے اصولوں پر فیصلے سناتی ہے مگر پاکستان میں عدلیہ نےاکثر حق و انصاف کی بجائے ضرورت کی بنیاد پر فیصلے دیے جس وجہ سے آج قومی سطح پر عدلیہ اپنا احترام و وقار کھو چکی ہے- ریاستی ادارے بالخصوص بیوروکریسی غیر مؤثر ہو تی نظر آ رہی ہے-مندرجہ ذیل چند اوراق میں پاکستان کی 75 سالہ معاشی زندگی پر مختصر تجزیہ پیش کیا گیا ہے تاکہ ہم اپنے ماضی کی اچھائیوں کو جاری رکھنے کا اعادہ اور تجدید عہد کریں اور گزشتہ غلطیوں سے سیکھ کر انہیں درست کرنے کی کوشش کریں -
پاکستان کی معاشی کار کردگی کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ملک خداداد چند برسوں کی مختصر حیات میں کئی عروج و زوال سے گزر چکا ہے-پاکستان کی 7 دہائیوں پر محیط معیشت کو دو بنیادی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے- 1950ء تا 1990 تک پہلے 40 برس پاکستان دنیا کے ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں اولین ممالک میں شامل تھا جہاں ترقی کی شرح کافی تیزی سے بڑھ رہی تھی-البتہ 1990ء کے بعد پاکستان کی معیشت بتدریج زوال کا شکار ہے اور اپنے ہمسایہ ممالک کی نسبت پاکستان میں معاشی ترقی کی شرح میں شدید کمی آئی ہے-نئے برس کے آغاز پر ہمیں ماضی کی غلطیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے بہتر مستقبل کے لیے مناسب حکمت عملی بنانا ہو گی تاکہ پاکستان دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے- ہمیں کسی اور ملک کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ ہمارا اپنا ماضی تابناک گزرا ہے جس کو سامنے رکھتے ہوئے آج کی خامیوں کو خوبیوں میں بدلا جا سکتا ہے-
بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پاکستان کی معاشی تنزلی کی بنیادی وجہ ملک میں دہشت گردی اور امن عامہ کا مسئلہ ہے- امن نہ ہونے کی وجہ سے کئی کاروباری لوگ پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کرتے اور اس وجہ سے ملک کی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں- لیکن اگر تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دہشتگردی کے آغاز سے قبل ہی معاشی زوال شروع ہو چکا تھا- 1980ء میں پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح 6.5 فیصد سالانہ تھی جبکہ 1990ء میں یہ شرح کم ہو کر 4.5 فیصد رہ گئی تھی-
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان کی معاشی ترقی میں بین الاقوامی امداد کا خاصا کردار ہے- ان کا ماننا ہے کہ 1960ء، 1980ء اور 2000 کی دہائی میں پاکستان ترقی کر رہا تھا جس ترقی کی بنیادی وجہ پاکستان میں امریکی و دیگر بین الاقوامی معاشی امداد تھی- لیکن معاشی اعداد و شمار اس دعوی کے دلیل نہیں- درج ذیل ٹیبل میں دئیے گئے اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ جن ادوار میں ملک میں معاشی ترقی کم ہوئی ہے ان ادوار میں بیرون ملک سے پاکستان میں آنے والے پیسے زیادہ تھے اور جن ادوار میں ملک میں معاشی ترقی زیادہ ہوئی ہے ان ادوار میں بیرون ملک سے پاکستان آنے والے پیسے کی مقدار کم تھی- اس لئے ملک میں معاشی ترقی یا زوال کی بنیادی وجہ بیرون ملک امداد نہیں بلکہ کچھ اور ہے- اسی طرح اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ ملٹری ڈکٹیٹرز کو بین الاقوامی امداد ملتی رہی جس وجہ سے ملٹری دور حکومت میں ترقی کی شرح زیادہ ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اکثر ملٹری ڈکٹیٹرز کے دور حکومت میں ہی پاکستان کی معاشی امداد ختم کر دی گئی تھی اور معاشی پابندیاں بھی لگائی گئی تھیں- مثلاً 1965ء کی جنگ میں پاکستان کی امداد روک لی گئی تھی، 1971ء میں امداد پر پابندی لگی اور مشرف کے وقت پر 1999ء میں معاشی پابندیاں لگائی گئیں -لہٰذا یہ کہنا مناسب نہیں کہ پاکستان کی معاشی ترقی کی وجہ صرف اور صرف بین الاقوامی امداد ہے- البتہ بین الاقوامی امداد کے اثر کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مگر اس کو کل وجہ قرار دینا بھی مناسب نہیں -
Foreign Capital Flows to Pakistan[1]
Period |
Government Type |
Growth Outcome |
Annual Average Flows ($ Million) |
1960 vs. 1970 |
Military
Democratic |
High Growth
Low Growth |
385
588 |
1980 vs. 1990 |
Military
Democratic |
High Growth
Low Growth |
870
1110 |
2000-08 vs. 2009-22 |
Military
Democratic |
High Growth
Low Growth |
1653
2851 |
علاوہ ازیں بعض محققین کے رائے میں پاکستان کی معاشی پست حالی میں خطے کی سکیورٹی صورتحال، ملک کو درپیش سکیورٹی سے متعلقہ مسائل اور بجٹ کے ایک بڑا حصہ ڈیفنس پر خرچ کرنا ہے- وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں GDP کا بڑا حصہ دفاعی بجٹ میں چلے جانے کی وجہ سے ملک کے پاس وسائل نہیں بچتے کہ وہ تعلیم، صحت اور ہیومن ڈیویلپمنٹ پر لگا سکیں- اگر معاشی اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کے ابتدائی 40 برس ملک کا دفاعی بجٹ موجودہ دفاعی بجٹ کی نسبت زیادہ ہوا کرتا تھا چونکہ اس وقت پاکستان نیوکلئیر ہتھیار بنا رہا تھا جس کے لیے زیادہ وسائل کی ضرورت تھی- مثلاً 1950ء تا 1990ء تک 40 برس پاکستان کا دفاعی بجٹ سالانہ 9 فیصد کی شرح سے بڑھ رہا تھا جبکہ سالانہ GDP بھی 5.9 فیصد کی شرح سے بڑھ رہی تھی- 1990ء کے بعد 2016ء تک دفاعی بجٹ میں سالانہ اضافے کی شرح صرف 3 فیصد رہی ہے -1960ء تا 1990ء پاکستان GDP کا اوسطاً 6 فیصد دفاع پر خرچ کرتا تھا جبکہ اب پاکستانGDP کا صرف 2.5 فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے- اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ دفاعی بجٹ کے زیادہ یا کم ہونے کا معاشی صورتحال پر خاطر خواہ اثر نہیں-درحقیقت ملک کی معیشت اور ترقی کو درپیش مسائل کچھ اور نوعیت کے ہیں -
کئی تحقیقات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی اور معاشی استحکام و عروج ملک میں گورننس پر منحصر ہوتا ہے- اگر ملک میں ادارے آزاد ہوں، گڈ گورننس ہو، سیاسی استحکام ہو، بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ہو اور قانون کی حکمرانی ہو تو وہ ملک چاہے کسی بھی طرز حکومت کے تحت چل رہا ہو، ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوگا- جمہوری امریکہ ہو یا کمیونسٹ روس، ملک میں حکومتی اداروں کی کارکردگی کا قومی ترقی میں نہایت اہم کردار ہوتا ہے- جتنی گورننس بہتر ہوتی جائے گی اتنا ہی معاشی ترقی میں اضافہ ہو گا- جن ممالک میں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے وہاں معاشی و معاشرتی ترقی ناگزیر ہے اور اگر قانون امیر کے گھر کی لونڈی ہو اور طاقتور طبقہ قانون پر عمل درآمد کی بجائے کھلے عام قانون و آئین کا مذاق اڑائے تو ایسے معاشروں میں ترقی ناممکن ہوتی ہے-ایسے معاشرے جہاں قانون کی بجائے انسان اہم ہوں اور فیصلے حق کی بجائے طاقتور کے خوف کی بنیاد پر ہوں وہاں معاشی و معاشرتی زوال ناگزیر
|
ہوجاتا ہے-وہ ممالک جہاں حکومتی ادارے چند افراد کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوں اور جہاں مفاد عامہ کی بجائے مخصوص طبقے کے مفاد کے تحفظ کیلئے قوانین و پالیسیز بنتی ہوں وہاں ترقی بہت مشکل ہوتی ہے- اگر گورننس سے متعلقہ بین الاقوامی رپورٹس کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 1980ء کی دہائی تک پاکستان میں گورننس نسبتاً بہتر تھی-
ملک کو ترقی کی راہ پر لانےکے لیے ماضی کی غلطیوں سے سیکھنا ہو گا اور انہیں درست کرنا ہوگا- پاکستان میں سیاسی استحکام کے بغیر معاشی ترقی ناممکن ہے- آئین پاکستان کی بنیاد اور اساس ہے- پاکستان میں آئین و قانون کی بالادستی ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے ناصرف ماضی کی غلطیوں کےمنفی اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے بلکہ مستقبل روشن کرنے کی ضمانت بھی اسی امر میں مضمر ہے- علاوہ ازیں پاکستان کو اپنے عوام پر خرچ کرنا چاہیئے-ہیومن ڈیویلپمنٹ کسی بھی معاشرے کی ترقی کی بنیاد ہے- عام عوام کی تعلیم و تربیت اور صحت پر خرچ کرنے سے ایک بہترین قوم کی تشکیل ممکن ہے جو بعد ازاں معاشی ترقی کی ضامن بنے گی- ان پڑھ لوگ ملک کیلئے بوجھ ہوتے ہیں جبکہ تعلیم یافتہ، صحت مند اور ہنر مند افراد قوم کی قسمت پلٹ سکتے ہیں -
پاکستان میں نوجوان اللہ تعالیٰ کی ایک رحمت ہے اگر ان کی تعلیم و تربیت نہ کی گئی تو یہ رب کے انعام و رحمت سے منہ موڑنے کے مترادف ہو گا اور نتیجتاً یہ رحمت زحمت کی شکل اختیار کر لے گی- ہمارے حکمرانوں کو چاہیئے کہ وہ جو بھی پالیسی بنائیں اسے وسیع تر قومی مفاد میں بنایا جائے اور حکومت میں تبدیلی ہونے کی صورت میں پالیسی کو تبدیل نہ کیا جائے-پالیسی کے عمل درآمد کا تسلسل ہی اس کے مثبت نتائج کا ضامن ہوتا ہے- لہٰذا پالیسیز کے تسلسل کو یقینی بنایا جائے-
اداروں کو مضبوط اور آزاد کرنے کی ضرورت ہے- افراد کی بجائے قانون کی بالا دستی ہونی چاہیئے-تمام امیر و غریب، طاقتور و کمزور قانون کے سامنے برابر ہوں تب ہی معاشرے ترقی کرتے ہیں اور قوموں کی قسمت میں عروج آتا ہے- چند اچھے فیصلے پاکستان کے مستقبل کو روشن بنا سکتے ہیں -1947ء میں پاکستان 30 ملین لوگوں کو خوراک مہیا نہیں کر سکتا تھا اور دوسرے ممالک پر منحصر تھا جبکہ آج پاکستان نا صرف 225 ملین کی ضروریات کو پورا کر رہا ہے بلکہ دوسرے ممالک کو بھی گندم اور چاول برآمد کرتا ہے-پاکستان دنیا کے ان تین ممالک میں ہے جہاں زرعی انقلاب آیا-1947ء میں پاکستان میں کوئی انڈسٹری نہیں تھی جبکہ آج پاکستان میں سیمنٹ، شوگر، فرٹیلائزر، کیمیکل، گھی، کپڑے اور آٹوموبائیلز کی انڈسٹریز موجود ہیں – 1947ء میں پاکستان میں فی بندہ بجلی کی پیداوار صرف kwh100 تھی جبکہ وہ آج kwh10000 سے بھی زیادہ ہے- آج پاکستان میں موٹرویز اور سڑکیں 1947ء کی نسبت 5 گنا زیادہ ہیں -ایسی بیشمار مثالیں دی جا سکتی ہیں جن میں پاکستان نے بہتری کی ہے- اگر یہ سب کچھ ماضی میں ممکن ہوا ہے تو آج کے حالات ماضی سے زیادہ خراب نہیں -صحیح فیصلوں سے پاکستان دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے -پاکستان ہمیشہ رہنے کے لیے بنا ہے اور یہ ہمیشہ رہے گا، کوئی آندھی و طوفان نہ اس چراغ کو بجھا سکا ہے اور نہ ہی بجھا سکے گا- پاکستا ن کی غیور عوام اس کی ترقی و کامرانی کی ضامن ہیں -
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے |
٭٭٭
[1]https://ishrathusain.iba.edu.pk/books/economic-highs-lows.pdf