فلسطینیوں کی نسل کُشی اور ساؤتھ افریقہ کا عالمی عدالتِ انصاف میں اسرائیل کے خلاف مقدمہ

فلسطینیوں کی  نسل کُشی اور ساؤتھ افریقہ کا عالمی عدالتِ انصاف میں اسرائیل کے خلاف مقدمہ

فلسطینیوں کی نسل کُشی اور ساؤتھ افریقہ کا عالمی عدالتِ انصاف میں اسرائیل کے خلاف مقدمہ

مصنف: محمد محبوب فروری 2024

ابتدائیہ:

آج ہم جس مہذب اور ترقی یافتہ معاشروں کے بنائے ہوئے اصولوں اور قواعد و ضوابط کے تحت زندگی گزار رہے ہیں وہ اصول پڑھنے پڑھانے اور لکھنے میں تو بہت اعلیٰ لگتے ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ اصول ان معاشروں پر یا ان سے وابستگان پر لاگو نہیں ہوتے ہیں- اگر اس بات کو آسان لفظوں میں بیان کیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ اصول و ضوابط بنانے والے خود ان سے ماوراء ہیں- یعنی طاقت کا کھیل ہی کھیلا جا رہا ہے- اگر وہ معاشرے اپنے اوپر اصول لاگو کرتے بھی ہیں تو لاگو کرتے وقت ایسی ایسی توجیہات نکال لیتے ہیں جس کی کوئی وجہ بھی سامنے نہیں آتی ہے- یہیں سے ان مہذب اقوام کے دوہرے معیارات کھل کر سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں- انہی اصولوں کے تحت ان معاشروں نے مختلف اداروں کا قیام عمل میں لایا- وہ ادارے اصولوں پر چلنے کی بجائے افراد اور اقوام کی خواہشات پر چل رہے ہیں- اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ہو، عالمی عدالت انصاف ہو یا ان کی طرز کے دیگر ادارے ہوں محض مفادات کے تحفظ کا ایک آلہ کار بن چکے ہیں- غیر تو دور کی بات اپنوں نے بھی جن قواعد و ضوابط کے تحت اداروں کا قیام عمل میں لایا تھا وہ بھی اسی روش پر چل پڑا ہے- اسلامی دنیا میں دہائیوں سے پیدا ہونے والے خلیج کی وجہ سے آج غزہ لہو لہان ہے- کشمیر سلگ رہا ہے- روہنگیائی مسلمان دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور اُمہ انتشار کا شکار ہے- او آئی سی محض لفظی کلامی باتوں اور قراردادوں کے علاوہ آگے بڑھنے میں ناکام ہے- گزشتہ تین مہینوں سے غزہ میں بسنے والے انسان سبزی اور پھل کی طرح کاٹے جا رہے ہیں- گولی ، بارود تو دور کی بات بھوک و افلاس اور غیر یقینی صورتحال بھی قیامت سے کم نہیں ہے- ایسی صورتحال میں جنوبی افریقہ کی طرف سے غزہ میں بسنے والے مظلوم فلسطینیوں کی ظالم اور جابر اسرائیلی افواج کے ہاتھوں نسل کشی کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کرنا مظلوم کیلئے ایک امید اور روشنی کی کرن بن کر سامنے آیا ہے-

زیر نظر مضمون میں ہم حالیہ چند دنوں میں مظلوم فلسطینیوں پر اسرائیلی قابض فوج کی نسل کشی، عالمی اداروں اور طاقتوں کی بے حسی اور جنوبی افریقہ کا دائر مقدمے کی اہمیت اور قانونی توجہات بیان کرنے کی کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ مرتب ہونے والے اثرات کا بھی جائزہ لیں گے -

اسرائیلیوں کی غزہ میں بسنے والوں کی حالیہ نسل کشی کے اعداد و شمار کا جائزہ:

7 اکتوبر 2023ء سے لے کر تا دم تحریر غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور جنگی کارروائیوں کے نتیجے میں 10 ہزار معصوم بچوں سمیت26422 افراد شہید جبکہ 65087 افراد زخمی ہو چکے ہیں- غزہ میں تشدد سے بچ جانے والے بچے ناقابل بیان ہولناکیوں کو برداشت کر رہے ہیں، جن میں زندگی بدل دینے والے زخم، جلنا، بیماری، ناکافی طبی دیکھ بھال اور اپنے والدین اور دیگر پیاروں کو کھونا شامل ہیں- یونیسیف کے مطابق غزہ میں 370 سکول تباہ جبکہ WHO کے مطابق، غزہ میں 94 ہسپتالوں اور صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات پر حملہ کیا گیا- یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق 1000 سے زیادہ فلسطینی بچوں کی ایک یا دونوں ٹانگیں ضائع ہوئیں- اسرائیلی اقدامات کیے باعث 85 فیصد سے زائد افراد دربدر ہو چکے ہیں- 100 سے کم دنوں میں ہزاروں افراد کی شہادت، اسرائیلی بربریت اور جارحیت کے نتیجے میں معصوم فلسطینیوں کی نسل کشی، واضح مثال ہے-

 برطانیہ میں قائم گروپ Oxfam کے مطابق :

“Gaza daily deaths exceed all other major conflicts in the 21st century”.

’’غزہ میں روزانہ ہونے والی اموات 21ویں صدی کے دیگر تمام بڑے تنازعات سے زیادہ ہیں‘‘-

“Israel’s military is killing Palestinians at an average rate of 250 people a day, which massively exceeds the daily death toll of any other major conflict of recent years”.

’’اسرائیلی فوج روزانہ اوسطاً 250 افراد کی شرح سے فلسطینیوں کو قتل کر رہی ہے، جو کہ حالیہ برسوں کے کسی بھی دوسرے بڑے تنازع میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد سے زیادہ ہے‘‘-

ہیومن رائٹس واچ کا یہ بھی کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کی کاروائیاں میں ’’اجتماعی سزاؤں کی کارروائیاں جو جنگی جرائم کے مترادف ہیں‘‘ شامل ہیں-

نسل کشی کی تعریف:

اقوام متحدہ کے 1948ء میں جاری کردہ نسل کشی کنونشن (The Genocide Convention) کے آرٹیکل 1 اور 2 کے مطابق، نسل کشی کی تعریف یہ ہے کہ

“Acts committed with intent to destroy, in whole or in part, a national, ethnic, racial or religious group.

’’کسی قومی، نسلی، نسلی یا مذہبی گروہ کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنے کے ارادے کے طور پر کیے جانے والے اقدامات نسل کشی ہیں ‘‘-

اقوام متحدہ کی تعریف کے مطابق درج ذیل اقدامات نسل کشی مترادف آتے ہیں:

  • گروپ کے ارکان کو قتل کرنا-
  • گروپ کے ارکان کو شدت کے ساتھ جسمانی یا نفسیاتی نقصان پہنچانا-
  • جان بوجھ کر گروپ کو زندگی کے ایسے حالات کے تابع کرنا جس کا مقصد اسے جسمانی طور پر، مکمل یا جزوی طور پر تباہ (Physical Destruction) کرنا ہے-
  • گروپ میں بچوں کی پیدائش کو روکنے کیلئے اقدامات نافذ کرنا-
  • بچوں کو گروپ سے دوسرے گروپ میں زبردستی منتقل کرنا-

ایسے اقدامات کو آرٹیکل 3 میں Genocide کے زمرے بیان کیا گیا ہے-

اگر 7 اکتوبر کے بعد سے اسرائیلی اقدامات کا بغور جائزہ لیا جائے تو واضح معلوم ہوتا ہے محض 10 ہزار سے زائد بچوں کی شہادت، ہزاروں کی تعداد میں سویلین کا قتل عام، اسرائیلی حکام کی جانب سے غزہ رہائشی بستیوں کا صفایا کرنے اور فلسطینیوں کو قتل کرنے کا مطالبہ کرنے والی عوامی تقاریر، اسرائیلی ’’ارادوں‘‘ کو واضح کرتی ہے جو فلسطینیوں کی نسل کشی کے مرتکب ہو رہے ہیں-

عالمی عدالت انصاف، مینڈیٹ اور اس کی ذمّہ داریاں:

عالمی عدالت انصاف، اقوام متحدہ کے چھ اہم حصوں میں سے ایک انتہائی حصہ یعنی عدالت ہے جو کہ نیدرلینڈ کے شہر ہیگ میں واقع ہے جس کا قیام دوسری عالمی جنگ کے بعد ہوا- اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 93 کے مطابق تمام ممالک اس عدالت کے رکن ہیں- اس عدالت کا مقصد ریاستوں کے درمیان تنازعات کا حل نکالنا اور قانونی معاملات میں قانونی مشورہ دینا ہے- عدالت کے دائرہ اختیار میں 1948ء کے نسل کشی کنونشن سے متعلق تنازعات پر غور کرنا ہے-کوئی بھی ملک عالمی عدالت انصاف کے سامنے مقدمہ لے جا سکتا ہے- یہ 15 ججوں پر مشتمل ہے، جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کے ذریعے نو سال کی مدت کے لیے منتخب کئے جاتے ہیں - عدالت کے ارکان اپنی حکومتوں کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ آزاد مجسٹریٹ ہوتے ہیں- ICJواحد بین الاقوامی عدالت ہے جو عالمی امن اور سلامتی میں اہم کردار ادا کرتا ہے، جس سے ممالک کو تنازعات کا سہارا لیے بغیر مسائل کو حل کرنے کا راستہ فراہم ہوتا ہے-

ساؤتھ افریقہ کا عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ:

 29 دسمبر 2023ء کو جنوبی افریقہ نے آرٹیکل 36، پیراگراف 36 کے تحت Statute of Court اور جینوسائیڈ کنونشن کے آرٹیکل 9 کے تحت اسرائیلی کو غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے عالمی عدالت انصاف میں 84 صفحات پر مشتمل درخواست دائر کی تھی- جس کی سماعت 11 اور 12 جنوری 2024ء کو ہوئی- اس درخواست میں ساؤتھ افریقہ نے کہا کہ:

“Israeli actions are genocidal in character because they are intended to bring about the destruction of a substantial part of the Palestinian national, racial and ethnical group”.

’’ اسرائیل کے اقدامات نسل کشی کے مترادف ہیں کیونکہ ان کا مقصد غزہ میں فلسطینیوں کے ایک اہم حصے کو تباہ کرنا ہے‘‘-

جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت انصاف سے عارضی اقدامات (یا عبوری احکامات) اٹھانے کی درخواست کی ہے جس میں اسرائیل کو غزہ میں اپنی فوجی کارروائیوں کو فوری طور پر معطل کرنا جیسے اقدامات اٹھانا شامل ہے- اس کے علاوہ خاص طور پر، جنوبی افریقہ کی درخواست میں اسرائیل کی طرف سے ’’ناکہ بندی کی وجہ سے محصور فلسطینیوں کے لیے ضروری خوراک، پانی، ادویات، ایندھن، پناہ گاہ اور دیگر انسانی امداد فراہم کرنے یا اس کو یقینی بنانے میں ناکامی کے ساتھ ساتھ ان پر مسلسل بمباری کی بھی تفصیلات دی گئی ہے‘‘- ان اسرائیلی اقدامات کے باعث 1.9 ملین افراد کا غزہ سے انخلاء یا 85 فیصد آبادی اپنے گھروں سے نکل کر انہیں چھوٹے علاقوں میں منتقل ہو چکی ہے، جو نامناسب پناہ گاہ کے بغیر کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں-جہاں ان پر اسرائیلی حملے، انہیں مارے جانے اور نقصان پہنچانے کا سلسلہ جاری ہے-

درخواست میں شامل کیے گئے دلائل کے مطابق، ’’اسرائیل کی غزہ میں کارروائیوں کا مقصد فلسطینیوں کو قتل کرنا، انہیں شدید جسمانی اور ذہنی اذیت پہنچانا ہے- جن کا مقصد ’’ایک گروہ کے طور پر ان کی جسمانی تباہی کو حاصل کرنا‘‘ہے- یہ کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکام کے ایسے عوامی بیانات منظر عام پر ہیں جن میں فلسطینیوں کی تباہی کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے-

ICJ جنوبی افریقہ کی طرف سے اسرائیل کی فوجی مہم کو معطل کرنے کی درخواست پر جلد فیصلہ کر سکتا ہے-

یہ اصولی طور پر فلسطینیوں کو اس سے بچائے گا جسے بالآخر نسل کشی قرار دیا جا سکتا ہے- لیکن اس بارے میں حتمی فیصلہ کہ آیا اسرائیل نسل کشی کر رہا ہے کئی سال لگ سکتے ہیں-

جنوبی افریقہ کے اقدام پر ردعمل :

 دنیا بھر میں مظلوم فلسطینیوں کے حق میں عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف نسل کشی کا مقدمہ دائر کرنے پر جنوبی افریقہ کے اقدام کو سراہا گیا- فلسطین میں حکومتی اور عوامی سطح پر ریلیوں کا انعقاد کیا گیا- اس کے علاوہ پاکستان سمیت OICکے ممبر ممالک نے اس اقدام کو سراہا- پاکستان کے دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ جنوبی افریقہ کی جانب سے عالمی عدالت انصاف کے سامنے درخواست کی مکمل حمایت کرتا ہے- ان کے مطابق پاکستان کو بھی یہی تحفظات ہیں جو درخواست میں بیان کیے گئے ہیں- امریکہ سمیت متعدد ممالک کے اسرائیل کی حمایت میں بیانات جاری کئے گئے اور اپنی حمایت کا اعادہ کیا گیا-

عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ کی سماعت اور رولنگ:

عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ کی سماعت 11 اور 12 جنوری 2024ء کو منعقد ہوئی- سماعت کے پہلے دن جنوبی افریقہ کے وکیل ٹیمبیکا نگوکیتوبی نے عدالت کو بتایا کہ اسرائیل کا غزہ کو ’’تباہ‘‘ کرنے کا منصوبہ ’’ریاست کے اعلیٰ حکام‘‘ کی جانب سے آیا-

Israel’s political leaders, military commanders and persons holding official positions have systematically and in explicit terms declared their genocidal intent.”

’’اسرائیل کے سیاسی رہنماؤں، فوجی کمانڈروں اور سرکاری عہدوں پر فائز افراد نے منظم طریقے سے اور واضح الفاظ میں اپنے نسل کشی کے ارادے کا اعلان کیا ہے‘‘-

وکیل عدیلہ حاسم نے عدالت کو بتایا کہ ’’ہر روز فلسطینی عوام کی جان، مال اور عزت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے- اس عدالت کے حکم کے علاوہ اس سب کو کوئی اور چیز نہیں روک سکتی‘‘-

سماعت کے دوسرے دن اسرائیل نے اپنے دفاع میں بیان دیتے جنوبی افریقہ کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا-

دو روزہ سماعت کے اختتام پر عالمی عدالت انصاف نے ایک نوٹیفیکیشن جاری کرتے ہوئے اعلان کیا کہ:

’’عدالت اب اس پر بحث شروع کرے گی- عدالت کا فیصلہ عوامی اجلاس میں سنایا جائے گا، جس کی تاریخ کا اعلان مناسب وقت میں کیا جائے گا‘‘-

عدالت کے باہر ہزاروں کی تعداد میں فلسطین حامی مظاہرین نے اسرائیل کی فوجی کارروائیاں بند کرنے کا مطالبہ کیا-

26 جنوری 2024ء کو عالمی عدالتِ انصاف نے اپنی رولنگ جاری کی- اس رولنگ میں عدالت نے اسرائیل کی، جنوبی افریقہ کا کیس نہ سننے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے یہ قرار دیا کہ اس کے پاس جنوبی افریقہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف غزہ میں مبینہ نسل کشی سے متعلق کیس سننے کا اختیار ہے- عدالت نے اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ اپنے اختیار میں موجود تمام اقدامات اٹھائے تاکہ غزہ میں نسل کشی کے مترادف واقعات سے بچا جا سکے اور نسل کشی پر اُکسانے والوں کو سزا دی جائے-عالمی عدالت انصاف کے اس فیصلے کی 15 ججوں نے حمایت جبکہ 2 ججوں نے مخالفت کی- یوں عالمی عدالت انصاف کے ہنگامی احکامات 2-15 کی اکثریت سے منظور ہوئے- یہاں یہ بات یاد رہے کہ عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو فورًا جنگ بندی کا حکم نہیں دیا ہے- عبوری احکامات کے لئے ساؤتھ افریقہ نے عالمی عدالت انصاف سے فورًا جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا- چونکہ حالیہ فیصلہ دونوں پارٹیز پر bindingہوتا ہے، لیکن عالمی عدالت انصاف کو اس فیصلے پہ مکمل عمل درآمد ہونے کا اختیار نہیں ہے- اس لئے یہ معاملہ سلامتی کونسل میں لے جایا جائے گا - اس لئے وہاں اگر کوئی قرارداد منظور نہ ہو سکی تو اسرائیلی فوج اپنے جارحیت کو برقرار رکھ سکتی ہے اور فلسطینی یونہی مظالم سہتے رہیں گے-

اختتامیہ:

جنوبی افریقہ کا اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ کئی حوالوں سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے- مغربی میڈیا میں صرف اسرائیلی بیانیہ چلنے کے باعث اب دو روزہ سماعت کے بعد پوری دنیا میں فلسطینیوں کا کیس سنا گیا جس پر عالمی عدالت انصاف نے بھی ابھی رولنگ دے دی ہے- غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے متعلق نہ صرف انسانی حقوق کی تنظیموں کو متنبہ کیا بلکہ اب باقاعدہ اسرائیلی رہنماؤں کے بیانات کی روشنی میں نسل کشی کیا گیا- یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ کیس جابر اور قابض طاقت کے خلاف ایک خود مختار ریاست کی جانب سے دائر کیا گیا ہے اس لئے Occupier اور Occupied کی تفریق واضح ہونی چاہیے- اس بات بھی میں کوئی شک نہیں ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف جاری جارحیت اور کارروائیاں جنگی جرائم ہیں جو انسانیت کے خلاف جرم اور نسل کشی کے مترادف ہے- فلسطینیوں کی نسل کشی سے متعلق عدالت کی رولنگ مکمل انصاف کی فراہمی کو یقینی نہیں بناتی کیونکہ فلسطینیوں کا قتل ویسے جاری ہے- اس لئے عالمی عدالت انصاف کو انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے غیر جانبدارانہ تحقیقات کرتے ہوئے اپنے فیصلے پر عملدرآمد کروا کر انصاف کی فراہمی یقینی بنانی چائیے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر