جغرافیہ :-
بوسنیا و ہرز یگوینا ﴿عرف عام میں بوسنیا﴾ جنوب مشرقی یورپ میں کروشیا، سربیا، مونٹینیگرواور Adriatic Seaکی حدود سے ملحقہ ا ٓزاد ریاست ہے جِس کا دارلحکومت سرائیوو ہے اور اِس کا کل رقبہ تقریباً اکاون ہزار ایک سو ستانوے مربع کلومیٹر ہے - کل زمینی سرحد پندرہ سو تنتالیس کلومیٹر ﴿سربیا، تین سو پنتالیس کلومیٹر، کروشیا، نو سو چھپن کلومیٹر ، مونٹینیگرو، دو سو بیالیس کلومیٹر ﴾ہے جبکہ اِ س کی بیس کلومیٹر لمبی ساحلی پٹی ہے- زمینی خدوخال پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں کا زیادہ تر علاقہ پہاڑوں اور سر سبز و دل موہ لینے والی وادیوں پر مشتمل ہے- ریا ست بوسنیا و ہرز یگوینا نے یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے پر 3 مارچ انیس سو بانوے کو آزادی حاصل کی-
ابتدائی تاریخ:-
معلوم شواہد کے مطابق اِس خطہِ زمین کو الیرینز ﴿Illyrians﴾ قبائل کے لوگوں نے تقریباً سات سو صدی قبل مسیح میں آباد کیا - تاریخ دان لکھتے ہیں کہ الیرینز اور سلطنتِ روم کے درمیان اِس خِطے کے حصول کے لیے پہلی لڑائی دو سو انتیس صدی قبل مسیح میں ہوئی جِس کے بعد یہ سلسلہ وقفہ وقفہ سے چلتا رہا اور دوسری صدی عیسوی میں دو بڑی لڑائیاں ہوئیں جِس کے بعد سلطنتِ روم کی افواج بادشاہ آگستس ﴿Emperor Augustus﴾ کی قیادت میںاِس خطہ کا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا- سلطنتِ روم کا حصہ بننے کے بعد رومن حکومت نے اِس خطہِ زمین کو رومن طرز پر ترقی دی جِس میں بوسنیا کے بنیادی ڈھانچے ﴿گزر گاہوں اور تعمیراتی کام ﴾وغیرہ پر کافی کام کیا- رومی سلطنت کے باشندوں کی آباد کاری نے اِس علاقے میں نئی جدید تہذیب کی بنیاد رکھی جو پہلے قبائل میںموجود نہ تھی- تین سو تیس عیسوی میں رومن سلطنت کے بادشاہ نے سلطنت کے امور کو بہتر طریقے سے سر انجام دینے کے لیے اسے دو حصوں میں تقسیم ﴿بازنطینہ Byzantium اور مغربی سلطنتِ روم Western Roman Empire میں﴾ کیا تو یہ خطہِ زمین ﴿بوسنیا و ہرز یگوینا﴾ مغربی سلطنتِ روم کا حصہ بنا - تین سو پچانوے صدی عیسوی میں سلطنتِ روم کے بادشاہ نے وفات سے پہلے ریاست کے دونوں حصوں کو اپنے دو بیٹوں میں تقسیم کر دیا جو پانچویں صدی عیسوی میں مغربی ریاست پر جرمن گوتھس قبائل کے قبضے کے بعد پھر کبھی یکجا نہ ہو سکی جبکہ مشرقی ریاست بازنطیم سلطنت کے نام سے مشہور ہوئی جس نے بوسنیا و ہرز یگوینا کوجرمن گوتھس سے جنگ کے بعد واپس لیا- بازنطینہ سلطنت دسویں صدی کے آغاز ہی سے کمزور ہونا شروع ہوئی تو بوسنیا و ہرز یگوینا پر حکومت کے لیے مقامی قبائل کے درمیان لڑائی شروع ہوئی اور اگلی پانچ صدیوں تک بیرونی طاقتوں ﴿ سربیا ﴿۰۶۹-۹۴۹﴾ کروشیا ﴿۰۹۹-۰۶۹﴾، بلغاریہ ﴿۰۸۰۱-۰۹۹﴾ ، بازنظینہ ﴿۰۴۰۱-۸۱۰۱﴾ اور ڈیوکیلیا Dioclea ﴿۲۰۱۱-۷۸۰۱﴾ وغیرہ﴾ اور مقامی لوگوں کے درمیان حکومت کی چھینا تانی چلتی رہی جِس کا اختتام خلافتِ عثمانیہ میں شمولیت پرہوا-
اسلام کی آمد :-
بوسنیا میں اسلام کی آمد 15 ویں صدی عیسوی میں مسلمان فاتحین کی آمد سے ہوئی - سلطان محمد فاتح ﴿30 مارچ 1432 ئ تا 3 مئی 1481 ئ﴾ نے بوسنیا کو فتح کیا اور یہ علاقہ خلافتِ عثمانیہ کا حصہ بنا اور مسلمانوں نے وہاں اسلام کی تبلیغ شروع کی، اُن لوگوں میں مسلمان فوجی اور تاجر نمایاں تھے - بعد ازاں 16 ویں صدی میں اسلام کی ترویج و اشاعت میں صوفیائے کرام نے نمایاں کردار ادا کیا جن میں سلسلہ قادری، سلسلہِ رومی ،سلسلہ نقشبندی ، اور سلسلہ بکتشی نمایاں رہے-
عہدِ اسلامی:-
بوسنیا میں خلافتِ عثمانیہ کی مثبت پالیسیوں نے بوسنیا کو معاشی، دفاعی اور سیاسی طور پر مضبوط کیا عہدِ خلافتِ عثمانیہ میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کے لوگوں کی زندگی پر بھی توجہ دی گئی - انتظامی، قانونی اور سیاسی نظام میں مثبت تبدیلیوں نے علاقہ کی ترقی میں خاص کردار ادا کیا - بوسنیا کے صوفیائ نے احترامِ انسانیت اور قرآن میں موجود امن کی تعلیمات کے ذریعے مختلف مکاتب کے مابین فاصلہ کو کم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا - بوسنیا کے لوگوں کا علم، روحانیت اور صوفیا سے لگائو آج بھی مغرب میں مشہورہے- مختلف المذاہب لوگوں کے مابین زندگی بسر کرتے ہوئے بوسنیا کے مسلمان آج بھی اِس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہاں اولیا ئ نے احترامِ ِانسانیت کا اور ِحلم کے درس کی بنیاد پر صدیوں تک پُر امن زندگی ممکن بنائی-
اسلامی مقامات:-
بوسنیا کے تاریخی مقامات میں اسلامی تہذیب و ثقافت چھلکتی ہے جس کی مثال غازی خسرو بیگ مسجد، مسجدِ سفید ، بادشاہی مسجد اور محمد پاشا مسجد ہیں - غازی خسرو جنگِ ہسپانیہ کا ہیرو تھا بعد ازاں 1521ئ میں بوسنین صوبہ کا گورنر بنا، اسی کے نام پر غازی خسرو بیگ مسجد 1557ئ میں تعمیر ہوئی جِس کے اندر کی کندہ کاری اور پچی کاری مسلمانوں کے عمدہ ذوق اور فنِ تعمیر کی عکاسی کرتی ہے - مسجدِ سفید اپنے طرزِ تعمیر کے لحاظ سے نہایت ہی منفرد ہے اور ایشیا کی اُس دور کی تعمیر کردہ دیگر مساجد کے فن تعمیر سے مختلف ہے- صوفیائے کرام کی خانقاہیں بھی رُوحانی و تاریخی مرکز ہیں جن میں سلسلہِ قادری سے تعلق رکھنے والے صوفی سنان کا مزار بوسنیا میں سب سے خوبصورت مانا جاتا ہے ، مزار کی دیواروں پر عمدہ خطاطی اور کلمہ طیب سے بنائی گئی حضرت سلمان(ع) کی مہر قابلِ دید ہے، یہ مزار 1640ئ میں تعمیر ہوا اور تصوف ، فارسی، عربی اور ترک ادب کے علوم کا گہوارہ رہا ہے -
جدید تاریخ :-
خلافتِ عُثمانیّہ کو جب انگریز نے مختلف سازشوں اور ہتھکنڈوں سے کمزور کروایا تو اُس ک اثرات یورپ میں خلافت کی شاخوں پر بھی پڑے اور چھوٹے چھوٹے خطے ایک ایک کر کے خلافت سے کاٹے جاتے رہے - 1918ئ میں بوسنیا ، کروشیائی سرب و سلون ریاست کا حصہ بنا، بعد میں جس کا نام تبدیل کر کے یوگوسلاویہ رکھا گیا- یوگو سلاویہ کے کمزور ہونے کے بعد یکم مارچ 1992ئ میں کیا جانے والا ریفرنڈم برائے آزادی مکمل ہوا اور 3 مارچ 1992ئ کو بوسنیا نے اپنی آزادی کا اعلان کیا جسے عالمی سطح پر تسلیم کر لیا گیا اور اس طرح بوسنیا آزاد مملکت کے طور پر وجود میں آیا - آزادی کے بعد بوسنیا نے کافی تیزی سے ترقی کی جس کے لیے لیے مختلف مسلم و غیر مسلم ممالک اور دوسرے بڑے عالمی اداروں کی کاوشیں قابلِ ستائش ہیں-
مظالم:-
یوگو سلاویہ میں بسنے والی چھ مختلف قوموں کے مابین 1990 میں قومی و نسلی اختلاف کی لہر نے سر اٹھایا - جس سے یوگوسلاویہ ٹوٹ گیا- پڑوسی ملک سربیا نے بوسنیا پر حکومت کرنے کے لیے نسلی اختلافات کو خوب ہوا دی ، جس نے خانہ جنگی کی صورت اختیار کر لی- 1992 تا 1995ئ تک جاری رہنے والی اس جنگ میں تقریبا 1,00,000 افراد لقمہِ اجل بنے جس میں کثیرتعداد مسلمانوں کی تھی- سربوں کے ہاتھوں ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کا قتلِ عام کیا گیا - 1992 میں شروع ہونے والی خانہ جنگی میں اقوامِ متحدہ نے سستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امن مشن دیر سے روانہ کیا، جس کی وجہ سے لاکھوں قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں- امن مشن بھیجنے میں تاخیر پر اقوامِ متحدہ کو عالمی برادری کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا- اقوامِ متحدہ کی اس غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے کہا:
'' The tragedy of Srebrenica will forever haunt the history of the United Nations. This day commemorates a massacre on a scale unprecedented in Europe since the second world war - a massacre of people who had been led to believe that the UN would ensure their safety.... Through error, misjudgment, and an inability to recognize the scope of the evil confronting us, we failed to do our part to help save the people of Srebrenica from the Serb campaign of mass murder."
’’ Srebrenica﴿بوسنیا کا شہر﴾ میں ہونے والا سانحہ﴿قتلِ عام﴾ ہمیشہ اقوامِ متحدہ کی تاریخ میں یاد رکھا رہے گا- یہ دن ﴿۱۱ جولائی ۵۹۹۱ جب Srebrenica میں سربوں کے ہاتھوں قتلِ عام ہوا تھا﴾ ہمیں اُس بڑے قتلِ عام کی یاد دلاتا رہے گا جس کی یورپ میں جنگ عظیم دوئم کے بعد کوئی مثال نہیں ملتی، اُن لوگوں کا قتلِ عام جو یہ سمجھتے رہے کہ اقوامِ متحدہ اُن کی حفاظت یقینی بنائے گی --- غلطی، درست فیصلہ نہ کرنے اور ہمارے مقابل آنے والے شر کا صحیح اندازہ نہ لگا نے کے باعث ہم Srebrenica کے لوگوں کو سربوں کے قتلِ عام سے محفوظ رکھنے میں ناکام ہوئے ‘‘-
بوسنیا میں اس قتلِ عام کے دوران قتل ہونے والے لوگوں کی کئی اجتماعی قبریں بھی دریافت ہوئی ہیں جو ترقی یافتہ مہذب دنیا کہلوانے والے مغرب کے ہاتھوں اُس کی اپنی سرزمین پر انسانیت کے ساتھ ہونے والے مظالم کی داستان بیان کرتی ہیں اور انسانی حقوق کی حفاظت کرنے کے دعوے کرنے والی دنیا پر سوالیہ نشان ہیں-
موجودہ دور:-
1995 میں طے پانے والے ڈیٹن امن معاہدہ سے تین سالہ خانہ جنگی کا اختتام ہوا ، اور یوں بوسنیا نے ترقی واستحکام کا سفر شروع کیا- 2013 ئ کے اعدادو شمار کے مطابق اِ س کی کل ا ٓبادی تقریباً اڑتیس لاکھ سڑسٹھ ہزار افراد پر مشتمل ہے جِن میں چالیس فیصد مسلمان ، تیس فیصد عیسائی اورباقی دیگر مذاہب کے لوگ شامل ہیں - یہاں کی دفتری زبانیں مختلف رنگ و نسل پر مشتمل آبادی کی وجہ سے تین یعنی بوسنین، کروشین اور سربین ہیں - یہاں آباد لوگوں کی شرح خواندگی تقریباً اٹھانوے فیصد ہے - بوسنیا اقوامِ متحدہ کا رکن اور او.آئی.سی کا observer رکن ہے- یہاں23مشہور یونیورسٹیاں ہیں-
پوٹینشل :-
بوسنیا کے قدرتی ،ثقافتی اور تاریخی مقامات سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں، بالخصوص دسمبر سے اپریل تک یہ علاقہ سیاحوں کی آماجگاہ بنا رہتا ہے- مشہور مقامات میں پل موستار، دریائے پلیاوا کی آبشار، انا نیشنل پارک، مسجد غازی خسروبیگ، نیشنل میوزیم آف بوسنیا ، برف پوش پہاڑ او رصاف پانی کی ندیاں شامل ہیں - نیز خانہ جنگی کے بعد لوگوں کا پُر امن زندگی کی جانب لوٹ آنا اور ترقی و استحکام کی منازل تیزی سے طے کرنا وہاں کی عوام کے پوٹینشل کو ظاہر کرتا ہے-
معیشت:-
1992 تا 1995 کے دوران جاری رہنے والی جنگ نے بوسنیا کی معیشت کو بہت نقصان پہنچایا لیکن اِن تمام نامساعد حالات کے باوجود بوسنیا میٹل، ٹیکسٹائل ، سیاحت اور فرنیچرکی صنعت کو فروغ دے کر معیشت کو مضبوط کرنے میں بڑی حد تک کامیاب رہا ہے - ایک رپورٹ کے مطابق بوسنیا نے 2008 میں سیاحت سے ساٹھ کروڑ اٹھہتر لاکھ روپے کمائے-
ّّ بوسنیا ان ممالک کی صف میںساتویں نمبر پر ہے جن کی شرح مہنگا ئی میں اضافہ نہیںہو رہا- بوسنیا کی مشہور برآمدات میں خام ایلومینیم ، پٹرولیم، چمڑے سے بنے جوتے اور گاڑیوں کے پرزہ جا ت شا مل ہیں - عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق صرف ۳۱۰۲ میں بوسنیا نے 299,878ملین ڈالر کا ایلومینیم فروخت کیا 2014 کے اعداد و شمار کے مطابق مجموعی ملکی پیداوار 38.29بلین ڈالر ، درآمدات 9.9بلین ڈالر اور برآمدات 4.5بلین ڈالر رہی- 2014 میں فی کس آمدنی9,900 ڈالر رہی-
پاکستان سے دوستانہ تعلقات:-
پاکستان اور بوسنیا کے تعلقات اچھے اور خوشگوار ہیں- بوسنیا کا سفارت خا نہ اسلام آباد اور پاکستان کا سفارت خا نہ سرائیوو میں واقع ہے- بوسنیا اور سرب کی جنگ کے دوران اِقوامِ متحدہ کے امن مشن میں پاکستان آرمی شامل تھی جس کا ذکر ISPR کے ڈائریکٹ شدہ پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈرامہ سیریل الفا براوو چارلی میں بھی ملتا ہے - پاکستان نے کئی بوسنین فوجی افسران اور نوجوانوں کو مفت تربیتی سہولیات فراہم کیں- 2012 میں بوسنیا کے صدر بکر عزت بیجوفیتش﴿Bakir Izetbegovic﴾نے پاکستان کا دورہ کیا- دونوں ممالک کے سربراہان نے اقتصادی، صنعتی، تعلیمی، ثقافتی اور دفاعی امور پر باہمی تعاون کو فروغ دینے پر دلچسپی ظاہر کی- 2014کے دوران بوسنیا میں آنے والے سیلاب کے وقت پاکستان نے 40 ٹن امدادی سامان بھی بھیجا ، جس میں کمبل، کپڑے، خیمے اور اشیائ خوردنوش شامل تھیں دونوں ممالک کی باہمی تجارت کا حجم 500 ملین ڈالرہے دونوں ممالک کے مابین باہمی تعاون کو مزید فروغ دینے کیلئے بے پناہ مواقع موجود ہیں- بوسنین اشیا جیسا کہ فرنیچر،میٹل اور بالخصوص ایلومینیم کی تجارت کے لیے پاکستان ایک بڑی منڈی ثابت ہو سکتا ہے، بوسنیا میں پاکستان سے چمڑا اورچمڑے سے بنی اشیائ، ٹیکسٹائل، معدنیات، کھیلوں کے سامان اور آلاتِ جراحی درآمد کرنے کی بڑی صلاحیت موجود ہے-
جغرافیہ :-
بوسنیا و ہرز یگوینا ﴿عرف عام میں بوسنیا﴾ جنوب مشرقی یورپ میں کروشیا، سربیا، مونٹینیگرواور Adriatic Seaکی حدود سے ملحقہ ا ٓزاد ریاست ہے جِس کا دارلحکومت سرائیوو ہے اور اِس کا کل رقبہ تقریباً اکاون ہزار ایک سو ستانوے مربع کلومیٹر ہے - کل زمینی سرحد پندرہ سو تنتالیس کلومیٹر ﴿سربیا، تین سو پنتالیس کلومیٹر، کروشیا، نو سو چھپن کلومیٹر ، مونٹینیگرو، دو سو بیالیس کلومیٹر ﴾ہے جبکہ اِ س کی بیس کلومیٹر لمبی ساحلی پٹی ہے- زمینی خدوخال پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں کا زیادہ تر علاقہ پہاڑوں اور سر سبز و دل موہ لینے والی وادیوں پر مشتمل ہے- ریا ست بوسنیا و ہرز یگوینا نے یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے پر 3 مارچ انیس سو بانوے کو آزادی حاصل کی-
ابتدائی تاریخ:-
معلوم شواہد کے مطابق اِس خطہِ زمین کو الیرینز ﴿Illyrians﴾ قبائل کے لوگوں نے تقریباً سات سو صدی قبل مسیح میں آباد کیا - تاریخ دان لکھتے ہیں کہ الیرینز اور سلطنتِ روم کے درمیان اِس خِطے کے حصول کے لیے پہلی لڑائی دو سو انتیس صدی قبل مسیح میں ہوئی جِس کے بعد یہ سلسلہ وقفہ وقفہ سے چلتا رہا اور دوسری صدی عیسوی میں دو بڑی لڑائیاں ہوئیں جِس کے بعد سلطنتِ روم کی افواج بادشاہ آگستس ﴿Emperor Augustus﴾ کی قیادت میںاِس خطہ کا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا- سلطنتِ روم کا حصہ بننے کے بعد رومن حکومت نے اِس خطہِ زمین کو رومن طرز پر ترقی دی جِس میں بوسنیا کے بنیادی ڈھانچے ﴿گزر گاہوں اور تعمیراتی کام ﴾وغیرہ پر کافی کام کیا- رومی سلطنت کے باشندوں کی آباد کاری نے اِس علاقے میں نئی جدید تہذیب کی بنیاد رکھی جو پہلے قبائل میںموجود نہ تھی- تین سو تیس عیسوی میں رومن سلطنت کے بادشاہ نے سلطنت کے امور کو بہتر طریقے سے سر انجام دینے کے لیے اسے دو حصوں میں تقسیم ﴿بازنطینہ Byzantium اور مغربی سلطنتِ روم Western Roman Empire میں﴾ کیا تو یہ خطہِ زمین ﴿بوسنیا و ہرز یگوینا﴾ مغربی سلطنتِ روم کا حصہ بنا - تین سو پچانوے صدی عیسوی میں سلطنتِ روم کے بادشاہ نے وفات سے پہلے ریاست کے دونوں حصوں کو اپنے دو بیٹوں میں تقسیم کر دیا جو پانچویں صدی عیسوی میں مغربی ریاست پر جرمن گوتھس قبائل کے قبضے کے بعد پھر کبھی یکجا نہ ہو سکی جبکہ مشرقی ریاست بازنطیم سلطنت کے نام سے مشہور ہوئی جس نے بوسنیا و ہرز یگوینا کوجرمن گوتھس سے جنگ کے بعد واپس لیا- بازنطینہ سلطنت دسویں صدی کے آغاز ہی سے کمزور ہونا شروع ہوئی تو بوسنیا و ہرز یگوینا پر حکومت کے لیے مقامی قبائل کے درمیان لڑائی شروع ہوئی اور اگلی پانچ صدیوں تک بیرونی طاقتوں ﴿ سربیا ﴿۰۶۹-۹۴۹﴾ کروشیا ﴿۰۹۹-۰۶۹﴾، بلغاریہ ﴿۰۸۰۱-۰۹۹﴾ ، بازنظینہ ﴿۰۴۰۱-۸۱۰۱﴾ اور ڈیوکیلیا Dioclea ﴿۲۰۱۱-۷۸۰۱﴾ وغیرہ﴾ اور مقامی لوگوں کے درمیان حکومت کی چھینا تانی چلتی رہی جِس کا اختتام خلافتِ عثمانیہ میں شمولیت پرہوا-
اسلام کی آمد :-
بوسنیا میں اسلام کی آمد 15 ویں صدی عیسوی میں مسلمان فاتحین کی آمد سے ہوئی - سلطان محمد فاتح ﴿30 مارچ 1432 ئ تا 3 مئی 1481 ئ﴾ نے بوسنیا کو فتح کیا اور یہ علاقہ خلافتِ عثمانیہ کا حصہ بنا اور مسلمانوں نے وہاں اسلام کی تبلیغ شروع کی، اُن لوگوں میں مسلمان فوجی اور تاجر نمایاں تھے - بعد ازاں 16 ویں صدی میں اسلام کی ترویج و اشاعت میں صوفیائے کرام نے نمایاں کردار ادا کیا جن میں سلسلہ قادری، سلسلہِ رومی ،سلسلہ نقشبندی ، اور سلسلہ بکتشی نمایاں رہے-
عہدِ اسلامی:-
بوسنیا میں خلافتِ عثمانیہ کی مثبت پالیسیوں نے بوسنیا کو معاشی، دفاعی اور سیاسی طور پر مضبوط کیا عہدِ خلافتِ عثمانیہ میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کے لوگوں کی زندگی پر بھی توجہ دی گئی - انتظامی، قانونی اور سیاسی نظام میں مثبت تبدیلیوں نے علاقہ کی ترقی میں خاص کردار ادا کیا - بوسنیا کے صوفیائ نے احترامِ انسانیت اور قرآن میں موجود امن کی تعلیمات کے ذریعے مختلف مکاتب کے مابین فاصلہ کو کم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا - بوسنیا کے لوگوں کا علم، روحانیت اور صوفیا سے لگائو آج بھی مغرب میں مشہورہے- مختلف المذاہب لوگوں کے مابین زندگی بسر کرتے ہوئے بوسنیا کے مسلمان آج بھی اِس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہاں اولیا ئ نے احترامِ ِانسانیت کا اور ِحلم کے درس کی بنیاد پر صدیوں تک پُر امن زندگی ممکن بنائی-
اسلامی مقامات:-
بوسنیا کے تاریخی مقامات میں اسلامی تہذیب و ثقافت چھلکتی ہے جس کی مثال غازی خسرو بیگ مسجد، مسجدِ سفید ، بادشاہی مسجد اور محمد پاشا مسجد ہیں - غازی خسرو جنگِ ہسپانیہ کا ہیرو تھا بعد ازاں 1521ئ میں بوسنین صوبہ کا گورنر بنا، اسی کے نام پر غازی خسرو بیگ مسجد 1557ئ میں تعمیر ہوئی جِس کے اندر کی کندہ کاری اور پچی کاری مسلمانوں کے عمدہ ذوق اور فنِ تعمیر کی عکاسی کرتی ہے - مسجدِ سفید اپنے طرزِ تعمیر کے لحاظ سے نہایت ہی منفرد ہے اور ایشیا کی اُس دور کی تعمیر کردہ دیگر مساجد کے فن تعمیر سے مختلف ہے- صوفیائے کرام کی خانقاہیں بھی رُوحانی و تاریخی مرکز ہیں جن میں سلسلہِ قادری سے تعلق رکھنے والے صوفی سنان کا مزار بوسنیا میں سب سے خوبصورت مانا جاتا ہے ، مزار کی دیواروں پر عمدہ خطاطی اور کلمہ طیب سے بنائی گئی حضرت سلمان(ع) کی مہر قابلِ دید ہے، یہ مزار 1640ئ میں تعمیر ہوا اور تصوف ، فارسی، عربی اور ترک ادب کے علوم کا گہوارہ رہا ہے -
جدید تاریخ :-
خلافتِ عُثمانیّہ کو جب انگریز نے مختلف سازشوں اور ہتھکنڈوں سے کمزور کروایا تو اُس ک اثرات یورپ میں خلافت کی شاخوں پر بھی پڑے اور چھوٹے چھوٹے خطے ایک ایک کر کے خلافت سے کاٹے جاتے رہے - 1918ئ میں بوسنیا ، کروشیائی سرب و سلون ریاست کا حصہ بنا، بعد میں جس کا نام تبدیل کر کے یوگوسلاویہ رکھا گیا- یوگو سلاویہ کے کمزور ہونے کے بعد یکم مارچ 1992ئ میں کیا جانے والا ریفرنڈم برائے آزادی مکمل ہوا اور 3 مارچ 1992ئ کو بوسنیا نے اپنی آزادی کا اعلان کیا جسے عالمی سطح پر تسلیم کر لیا گیا اور اس طرح بوسنیا آزاد مملکت کے طور پر وجود میں آیا - آزادی کے بعد بوسنیا نے کافی تیزی سے ترقی کی جس کے لیے لیے مختلف مسلم و غیر مسلم ممالک اور دوسرے بڑے عالمی اداروں کی کاوشیں قابلِ ستائش ہیں-
مظالم:-
یوگو سلاویہ میں بسنے والی چھ مختلف قوموں کے مابین 1990 میں قومی و نسلی اختلاف کی لہر نے سر اٹھایا - جس سے یوگوسلاویہ ٹوٹ گیا- پڑوسی ملک سربیا نے بوسنیا پر حکومت کرنے کے لیے نسلی اختلافات کو خوب ہوا دی ، جس نے خانہ جنگی کی صورت اختیار کر لی- 1992 تا 1995ئ تک جاری رہنے والی اس جنگ میں تقریبا 1,00,000 افراد لقمہِ اجل بنے جس میں کثیرتعداد مسلمانوں کی تھی- سربوں کے ہاتھوں ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کا قتلِ عام کیا گیا - 1992 میں شروع ہونے والی خانہ جنگی میں اقوامِ متحدہ نے سستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امن مشن دیر سے روانہ کیا، جس کی وجہ سے لاکھوں قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں- امن مشن بھیجنے میں تاخیر پر اقوامِ متحدہ کو عالمی برادری کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا- اقوامِ متحدہ کی اس غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے کہا:
'' The tragedy of Srebrenica will forever haunt the history of the United Nations. This day commemorates a massacre on a scale unprecedented in Europe since the second world war - a massacre of people who had been led to believe that the UN would ensure their safety.... Through error, misjudgment, and an inability to recognize the scope of the evil confronting us, we failed to do our part to help save the people of Srebrenica from the Serb campaign of mass murder."
’’ Srebrenica﴿بوسنیا کا شہر﴾ میں ہونے والا سانحہ﴿قتلِ عام﴾ ہمیشہ اقوامِ متحدہ کی تاریخ میں یاد رکھا رہے گا- یہ دن ﴿۱۱ جولائی ۵۹۹۱ جب Srebrenica میں سربوں کے ہاتھوں قتلِ عام ہوا تھا﴾ ہمیں اُس بڑے قتلِ عام کی یاد دلاتا رہے گا جس کی یورپ میں جنگ عظیم دوئم کے بعد کوئی مثال نہیں ملتی، اُن لوگوں کا قتلِ عام جو یہ سمجھتے رہے کہ اقوامِ متحدہ اُن کی حفاظت یقینی بنائے گی --- غلطی، درست فیصلہ نہ کرنے اور ہمارے مقابل آنے والے شر کا صحیح اندازہ نہ لگا نے کے باعث ہم Srebrenica کے لوگوں کو سربوں کے قتلِ عام سے محفوظ رکھنے میں ناکام ہوئے ‘‘-
بوسنیا میں اس قتلِ عام کے دوران قتل ہونے والے لوگوں کی کئی اجتماعی قبریں بھی دریافت ہوئی ہیں جو ترقی یافتہ مہذب دنیا کہلوانے والے مغرب کے ہاتھوں اُس کی اپنی سرزمین پر انسانیت کے ساتھ ہونے والے مظالم کی داستان بیان کرتی ہیں اور انسانی حقوق کی حفاظت کرنے کے دعوے کرنے والی دنیا پر سوالیہ نشان ہیں-
موجودہ دور:-
1995 میں طے پانے والے ڈیٹن امن معاہدہ سے تین سالہ خانہ جنگی کا اختتام ہوا ، اور یوں بوسنیا نے ترقی واستحکام کا سفر شروع کیا- 2013 ئ کے اعدادو شمار کے مطابق اِ س کی کل ا ٓبادی تقریباً اڑتیس لاکھ سڑسٹھ ہزار افراد پر مشتمل ہے جِن میں چالیس فیصد مسلمان ، تیس فیصد عیسائی اورباقی دیگر مذاہب کے لوگ شامل ہیں - یہاں کی دفتری زبانیں مختلف رنگ و نسل پر مشتمل آبادی کی وجہ سے تین یعنی بوسنین، کروشین اور سربین ہیں - یہاں آباد لوگوں کی شرح خواندگی تقریباً اٹھانوے فیصد ہے - بوسنیا اقوامِ متحدہ کا رکن اور او.آئی.سی کا observer رکن ہے- یہاں23مشہور یونیورسٹیاں ہیں-
پوٹینشل :-
بوسنیا کے قدرتی ،ثقافتی اور تاریخی مقامات سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں، بالخصوص دسمبر سے اپریل تک یہ علاقہ سیاحوں کی آماجگاہ بنا رہتا ہے- مشہور مقامات میں پل موستار، دریائے پلیاوا کی آبشار، انا نیشنل پارک، مسجد غازی خسروبیگ، نیشنل میوزیم آف بوسنیا ، برف پوش پہاڑ او رصاف پانی کی ندیاں شامل ہیں - نیز خانہ جنگی کے بعد لوگوں کا پُر امن زندگی کی جانب لوٹ آنا اور ترقی و استحکام کی منازل تیزی سے طے کرنا وہاں کی عوام کے پوٹینشل کو ظاہر کرتا ہے-
معیشت:-
1992 تا 1995 کے دوران جاری رہنے والی جنگ نے بوسنیا کی معیشت کو بہت نقصان پہنچایا لیکن اِن تمام نامساعد حالات کے باوجود بوسنیا میٹل، ٹیکسٹائل ، سیاحت اور فرنیچرکی صنعت کو فروغ دے کر معیشت کو مضبوط کرنے میں بڑی حد تک کامیاب رہا ہے - ایک رپورٹ کے مطابق بوسنیا نے 2008 میں سیاحت سے ساٹھ کروڑ اٹھہتر لاکھ روپے کمائے-
ّّ بوسنیا ان ممالک کی صف میںساتویں نمبر پر ہے جن کی شرح مہنگا ئی میں اضافہ نہیںہو رہا- بوسنیا کی مشہور برآمدات میں خام ایلومینیم ، پٹرولیم، چمڑے سے بنے جوتے اور گاڑیوں کے پرزہ جا ت شا مل ہیں - عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق صرف ۳۱۰۲
÷ میں بوسنیا نے 299,878ملین ڈالر کا ایلومینیم فروخت کیا 2014 کے اعداد و شمار کے مطابق مجموعی ملکی پیداوار 38.29بلین ڈالر ، درآمدات 9.9بلین ڈالر اور برآمدات 4.5بلین ڈالر رہی- 2014 میں فی کس آمدنی9,900 ڈالر رہی-
پاکستان سے دوستانہ تعلقات:-
پاکستان اور بوسنیا کے تعلقات اچھے اور خوشگوار ہیں- بوسنیا کا سفارت خا نہ اسلام آباد اور پاکستان کا سفارت خا نہ سرائیوو میں واقع ہے- بوسنیا اور سرب کی جنگ کے دوران اِقوامِ متحدہ کے امن مشن میں پاکستان آرمی شامل تھی جس کا ذکر ISPR کے ڈائریکٹ شدہ پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈرامہ سیریل الفا براوو چارلی میں بھی ملتا ہے - پاکستان نے کئی بوسنین فوجی افسران اور نوجوانوں کو مفت تربیتی سہولیات فراہم کیں- 2012 میں بوسنیا کے صدر بکر عزت بیجوفیتش﴿Bakir Izetbegovic﴾نے پاکستان کا دورہ کیا- دونوں ممالک کے سربراہان نے اقتصادی، صنعتی، تعلیمی، ثقافتی اور دفاعی امور پر باہمی تعاون کو فروغ دینے پر دلچسپی ظاہر کی- 2014کے دوران بوسنیا میں آنے والے سیلاب کے وقت پاکستان نے 40 ٹن امدادی سامان بھی بھیجا ، جس میں کمبل، کپڑے، خیمے اور اشیائ خوردنوش شامل تھیں دونوں ممالک کی باہمی تجارت کا حجم 500 ملین ڈالرہے دونوں ممالک کے مابین باہمی تعاون کو مزید فروغ دینے کیلئے بے پناہ مواقع موجود ہیں- بوسنین اشیا جیسا کہ فرنیچر،میٹل اور بالخصوص ایلومینیم کی تجارت کے لیے پاکستان ایک بڑی منڈی ثابت ہو سکتا ہے، بوسنیا میں پاکستان سے چمڑا اورچمڑے سے بنی اشیائ، ٹیکسٹائل، معدنیات، کھیلوں کے سامان اور آلاتِ جراحی درآمد کرنے کی بڑی صلاحیت موجود ہے-