ابتدائیہ:
پاکستان کا مشہور و مقبول انگریزی روزنامے ڈان کا اجراء بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کیا تھا-[1]برصغیر پاک و ہند کی تقسیم سے پہلے 1941ء میں ہفت روزہ کی حیثیت سے شائع ہوتا تھا جس کے بعد یہ 1942ء میں روزنامہ ہو گیا- اس روزنامے کی بنیاد رکھنے کی بنیادی وجہ علیحدہ ملک کی تشکیل کے لئے کام کرنا ، کانگریس اور انگریز کے جھوٹے پروپیگنڈے کا مؤثر جواب دینا اور جد و جہد کیلئے رائے عامہ کو ہموار کرنا تھا-1940ء کے عشرے میں قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد جب منزل کا تعین ہوا تو بانی پاکستان اور آل انڈیا مسلم لیگ کی ساری جدوجہد کا مقصد ’’حصولِ پاکستان‘‘ ٹھہرا-
اس عشرے کے آغاز ہی میں بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے عام عوام میں آگاہی پھیلانے کے لئے پریس کے اجراء کی اشد ضرورت محسوس کی جو مسلمانوں کی جد و جہد آزادی کے لئے صحیح معنوں میں آواز بن سکے- اس سلسلے میں آپ نے پورے ہندوستان کا دورہ کیا اور ’’لیگ پریس فنڈ‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا- مصنف حاجی موسیٰ لوائی کی تحقیقی کتاب ’’عکس بانٹوا‘‘ کے مطابق پریس کے اجراء کی چندہ سازی مہم کیلئے بانیٔ پاکستان 24 جنوری 1940ء کو ریاست جونا گڑھ کے تعلقہ دربار بانٹوا تشریف لائے-
کاٹھیاواڑ کے کسی بھی شہر میں یہ آپ کا پہلا دورہ تھا- آپ کے دورہ بانٹوا کے دوران عوام میں حصولِ پاکستان کیلئے جوش و ولولہ دیدنی تھا- شہر میں داخلے پر بانی پاکستان کا انتہائی فقید المثال استقبال کیا گیا- بانٹوا شہر کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا- قائد اعظم نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ بانٹوا، پریس فنڈ ریزنگ کے سلسلے میں تشریف لائے ہیں تو آپ کی ایک آواز پر لوگوں نے لبیک کہتے ہوئے خطیر رقم پیش کی جو آج کے کروڑوں روپے مالیت کے برابر تھی- بانٹوا کے لوگوں کا جوش و خروش کو دیکھتے ہوئے آپ نے گجرات اور کاٹھیاواڑ کے دیگر شہروں کا بھی دورہ کیا- بانٹوا میں قائد اعظم صاحب نے تین دن قیام فرمایا- مصنف حاجی موسیٰ لوائی کی تحقیق کے مطابق:
’’قائد اعظم کا دورہ بانٹوا تحریک پاکستان کا اہم موڑ ثابت ہوا- بانٹوا سے جمع کئے گئے فنڈ سے انگریزی اخبار ڈان کا اجراء ہوا-جو پورے ہندوستان میں مسلمانوں کی آواز بن گیا‘‘-[2]
ڈان اخبار کو پاکستان کے قیام سے قبل مسلم لیگ اور مسلمانوں کی آواز سمجھا جاتا تھا جبکہ قیام پاکستان کے بعد یہ اخبار نئی نویلی مملکت کو درپیش مسائل اور ریاستی سطح پر ہونے والے اقدامات کو اجاگر کرتا رہا-
جونا گڑھ کا الحاق پاکستان کے ابتدائی دنوں کا احوال
پاکستان کے قیام کے بعد ڈان اخبار میں شائع ہونے والی خبروں میں ریاست جونا گڑھ اور مملکت پاکستان کے درمیان الحاق کے متعلق ریاستی سطح پر ہونے والی ہر لمحہ کی گفت و شنید اور اپڈیٹس کو اخبار کے پہلے صفحہ کی شہ سرخیوں کے طور پر خصوصی کوریج دی جاتی تھی-
جب ریاست جونا گڑھ نے الحاق پاکستان کا اعلان کیا تو اس وقت بھارتی قیادت اور اس کی ایماء پر شرپسند عناصر نےیہ پروپیگنڈہ پھیلانا شروع کر دیا تھا کہ چونکہ جونا گڑھ کی اکثریت آبادی غیر مسلم ہے اس لئے اگر ریاست جونا گڑھ، پاکستان کے ساتھ الحاق کرتی ہےتو غیر مسلم آبادی ( یعنی ہندوؤں) کو خطرات لاحق ہونگے- بھارتی قیادت اور شرپسند عناصر کے یہ الزامات سراسر جھوٹ اور فریب پر مبنی تھے- پچھلے300 برس سے جونا گڑھ پر حکومت کرنے والا بابی خاندان اپنی رعایا کی خوشحالی اور فلاح و بہبود کے لیے جتنا مخلص تھا اس کا ثبوت ریاست کے خوشحالی اور ترقی سے واضح طور پر لگایا جاسکتا ہے- ریاست جونا گڑھ، شاہی ریاستوں کے سلسلے میں مجموعی طور پر پانچویں اور مسلم ریاستوں کے سلسلے میں دوسرے نمبر پر امیر ترین ریاست تھی- 11 ستمبر 1947ء کو ڈان اخبار میں چھپنے والی خبر میں دیوان آف جونا گڑھ سر شاہنواز بھٹو کی جانب سے کاٹھیاواڑ پولیٹیکل کانفرنس کے سیکریٹری یو- این ڈیھبار کے الزامات کی تردید کی گئی تھی کہ جونا گڑھ کے الحاق پاکستان کے فیصلے کے بعد ریاست میں غیر مسلم آبادی میں خوف ہراس پایا جاتا تھا-
دیوان آف جونا گڑھ نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ:
“There is generally sense of security and quite among all the people of Junagadh”.[3]
’’جونا گڑھ کے تمام لوگوں میں عام طور پر کافی حد تک تحفظ کا احساس ہے‘‘-
جونا گڑھ کے ہندو لیڈروں کا نواب آف جونا گڑھ ریاست سے وفاداری کا اظہار:
بھارتی قیادت اور شرپسند عناصر کی طرف سے ریاست جونا گڑھ اور نواب آف جونا گڑھ کے متعلق پھیلائے جانے والے منفی پروپیگنڈا کا پول اس وقت کھلتا ہے جب کئی ہندو لیڈروں نے دیوان آف جونا گڑھ کو خط لکھ کر ریاست اور نواب آف جونا گڑھ سے اپنی وفاداری کا اظہار کیا تھا- 21 ستمبر 1947ء کی خبر کے مطابق، ٹمبیڈی کے ہندو ملگراسیوں نے دیوان آف جونا گڑھ کو خط میں اپنی وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے الحاق پاکستان کے فیصلے کی تصدیق کی- انہوں نے خط میں واضح لکھا تھا کہ ریاست میں وہ عدم تحفظ کی وجہ نہیں دیکھتے ہیں- یہ محض گجراتی پریس اور مشتعل اور دھوکہ باز لوگوں کا پھیلایا پروپیگنڈا تھا کہ خوف و ہراس کے باعث جوناگڑھ سے بڑی تعداد میں لوگ ہجرت کر رہے تھے-[4]
جونا گڑھ کا الحاق پاکستان:
17 ستمبر 1947ء کو ڈان اخبار میں باقاعدہ ریاست جونا گڑھ کے پاکستان سے الحاق کے متعلق وزارت خارجہ کے پریس نوٹ کے حوالے سے خبر شائع ہوئی- خبر کے مطابق، الحاق کی دستاویز پر دستخط ہونے کے بعد ریاست جونا گڑھ کا پاکستان کے ساتھ باقاعدہ الحاق ہو گیا تھا- اسی طرح 18 ستمبر 1947ء کو Junagadh's Instrument of Accession: Pakistan to make laws for the State کے عنوان سے مکمل الحاق کی دستاویز کو شائع کیا گیا تھا- خبر کے مطابق حکمران کی خودمختاری unimpaired رہے گی جبکہ دفاع ، خارجہ امور اور مواصلات کو ڈومنین آف پاکستان کنٹرول کرے گا-[5]
گجراتی پریس کا پروپیگنڈا
یہاں یہ بات قابلِ ذکر رہے کہ کاٹھیاواڑ اور اس کے گردونواح میں چھپنے والی گجراتی پریس اور اخبارات جونا گڑھ کے الحاق پاکستان کے فیصلے کے خلاف ریاست میں بدامنی پھیلانے کے لئے مسلسل پروپیگنڈا پھیلا رہے تھے- 17 ستمبر 1947ء کی خبر کے مطابق، جونا گڑھ اتھارٹی نے اس پروپیگنڈا کے روک تھام کے لئے بمبئی اور احمد آباد سے آنے والے تین گجراتی روزناموں پر جونا گڑھ میں داخلے پر پابندی عائد کر دی تھی- نوٹیفیکیشن کے مطابق:
“Contain words and matter tending to bring into contempt the Government of Junagadh State and to stir up communal trouble”. [6]
ان پر پابندی عائد کی گئی ہے کیونکہ ان میں ریاست جوناگڑھ کی حکومت کی توہین کرنے اور فرقہ وارانہ فساد کو ہوا دینے کے لیے الفاظ اور معاملات شامل ہیں-
ان اخبارات میں بمبئی سے جنم بھومی (Janmabhumi) اور ویندے ماترم (Vandemataram) اور احمد آباد سے سندیش (Sandesh) شامل تھیں-
مہاجرین کی دیکھ بھال کیلئے کمیٹی کا قیام:
پاکستان سے الحاق کے بعد ہندوستان کے مختلف حصوں اور علاقوں سے متاثر شدہ مسلمان ہجرت کر کے جونا گڑھ پہنچ رہے تھے- 21 ستمبر 1947ء کی خبر کے مطابق، آفیشل اور غیر آفیشل افراد پر ایک کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جن کا بنیادی مقصد ہندوستان کے مختلف متاثرہ علاقوں سے آنے والے مہاجرین کی دیکھ بھال کرنا تھی-[7]
بھارتی قیادت کا جھوٹا پروپیگنڈا اور اس کا جواب
جونا گڑھ کا پاکستان سے باقاعدہ الحاق ہونے کے بعد بھارت کی طرف سے یہ پروپیگنڈہ پھیلایا گیا کہ ریاست جونا گڑھ کاپاکستان کے ساتھ شامل ہو گیا تو جونا گڑھ میں بسنے والی غیر مسلم آبادی کو خطرات لاحق ہونگے- حالانکہ یہ بات سراسر جھوٹ اور فریب تھا جسے پھیلانے کا واحد مقصد ریاست پر اپنا قبضہ جمانے کے لئے راستہ ہموار کرنا تھا- اعداد و شمار کے مطابق الحاق پاکستان کے وقت جونا گڑھ کی 80 فیصد آبادی غیر مسلم تھی جبکہ 20 فیصد مسلمان تھی- یہ سوال بجا طور پر اٹھتا ہے کہ 20 فیصد سے 80 فیصد آبادی کو کیا خطرات لاحق ہوسکتے تھے جبکہ صدیوں سے یہ پرامن طریقے سے اپنی زندگی بسر کر رہے تھے- 18 ستمبر 1947ء کو انڈین سٹیٹ منسٹری کے ترجمان کے حوالے سے ڈان میں چھپنے والی خبر کے مطابق، اقلیتوں کی حفاظت کیلئے راجکوٹ میں بھارتی فوجیوں کو بھیجا گیا- اس خبر کے مطابق بھارتی فوجیوں کو ان علاقوں میں بھیجا گیا جنہوں نے انڈین یونین کے ساتھ الحاق کیا تھا-
بھارتی سٹیٹ منسٹری نے اس بات کی تردید کی ’’وہ بھارتی فوج کو جونا گڑھ میں داخل کرنے کی غرض سے راجکوٹ میں بھیج رہے تھے‘‘- ترجمان کے مطابق :
“Our troops are going as a precautionary measure into our own territory or into territory of the States, who have acceded to the Union and have frontiers adjoining Junagadh”. [8]
’’ہمارے فوجی احتیاطی اقدام کے طور پر ہمارے اپنے علاقے یا ریاستوں کے علاقے میں جا رہے ہیں، جنہوں نے یونین سے الحاق کیا ہے اور جن کی سرحدیں جوناگڑھ سے ملحق ہیں‘‘-
اسی خبر کے مطابق ایڈیشنل سیکرٹری سٹیٹ منسٹری مسٹر سی سی ڈیسائی نے انہی دنوں بمبئی کا دورہ کرتے ہوئے جام صاحب آف نواں نگر سے ملاقات کی تھی- جونا گڑھ کے متعلق منفی اور جھوٹا پروپیگنڈا پھیلانے میں جام صاحب آف نواں نگر کا کردار رہا تھا جسے آئندہ مضامین میں تفصیلاً ذکر کیا جائے گا-
بھارتی سٹیٹ منسٹری کے ترجمان کی میڈیا رپورٹس میں چھپنے والی اس بات کی تردید کرنا کہ ’’راجکوٹ میں بھارتی فوجیوں کو جونا گڑھ میں داخل کرنے اور قبضہ کرنے کے لئے بھیجا جا رہا تھا‘‘ کے برعکس بھارتی گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن واضح طور پر یہ کہہ چکے تھے کہ 15 ستمبر 1947ء کو جونا گڑھ کا پاکستان سے باقاعدہ الحاق ہونے کے بعد 17 ستمبر 1947ء کو بھارتی کابینہ کی میٹنگ میں بھارتی قیادت پہلے ہی فیصلہ طے کر چکی تھی کہ جونا گڑھ کے مسئلہ کا واحد حل ’’ فوجی کاروائی‘‘ (Military Action) تھا- [9]
17 ستمبر 1947ء کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی صدارت میں ہونے والی کابینہ میٹنگ میں ریاست جونا گڑھ کے گرد فوجی محاصرہ اور کاروائی کا فیصلہ کیا گیا تھا-
’’بھارتی قیادت لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے میٹنگ سے پہلے ہی جونا گڑھ پر فوجی کاروائی کا فیصلہ کر چکی تھی اور وہ چاہتے تھے کہ گورنمنٹ آف انڈیا جونا گڑھ کے معاملے پر کوئی کمزوری نہ دکھائے‘‘-[10]
اس فیصلے کے بعد ریاستِ جونا گڑھ کے ارد گرد فوجی محاصرے کیلئے بھارتی افواج کو تعینات کر دیا گیا تھا-ایلن کیمبل-جانسن کے نوٹ کے مطابق بھارتی کابینہ 17 ستمبر 1947 کو ہی ملٹری ایکشن پلان ترتیب دے چکی تھی-
“The Cabinet had fully prepared itself to approve military measures”.[11]
’’کابینہ مکمل طور پر اپنے آپ کو(جونا گڑھ ) پر فوجی کاروائی کے لئے تیار کر چکی تھی‘‘-
بھارتی گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن نے برطانوی بادشاہ کے نام رپورٹ میں یہ بھی لکھا کہ وزیر اعظم نہرو اور ڈپٹی وزیر اعظم سردار پٹیل کے ذہنوں میں ریاست جونا گڑھ کے متعلق عسکریت پسندی (Militant frame of Mind) تھی-[12]
17 ستمبر 1947ء کو ہونے والی کابینہ کی میٹنگ کے مندرجات کا اگر مطالعہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ جونا گڑھ کے اردگرد فوجیں کھڑی کرنے کے علاوہ معاشی سپلائی لائن منقطع کرنے کا فیصلہ ہوا تھا-[13]
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح بھی جونا گڑھ کے قریب بھارتی فوجی محاصرے سے بخوبی واقف اور آگاہ تھے اور بھارتی قیادت کے مذموم مقاصد اور عزائم کو بھانپ چکے تھے- آپ نے بھارتی گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے سامنے جونا گڑھ کے قریب فوجی محاصرے پر تنبیہ کرتے ہوئے لکھا تھا :
’’اطلاع ملی ہے کہ پاکستان سے الحاق شدہ ریاست جونا گڑھ اور کاٹھیاواڑ کی دوسری ریاستوں کی سرحدوں پر ہندوستانی فوجوں کا اجتماع جمع ہو رہا ہے-----یہ اقدام جونا گڑھ کی خودمختاری یا اس کے علاقے میں خلل اندازی کو معاندانہ اقدام سمجھا جائے گا-----فوجیں کسی بہانے سے جونا گڑھ کے علاقے میں زبردستی داخل ہونے کی غلطی نہ کریں‘‘-[14]
ان تاریخی حوالہ جات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جونا گڑھ کے اردگرد فوج جمع کرنے کا بھارت کا قطعاً یہ مقصد نہیں تھا کہ وہ جونا گڑھ میں بسنے والی ہندو آبادی یا بھارت کے ساتھ الحاق کرنے والی ریاستوں کو تحفظ فراہم کرنا تھا بلکہ فوج کی تعیناتی سے جونا گڑھ کا فوجی محاصرہ اور قبضہ مقصود تھا-
٭٭٭
[1]Roger D. Long, Dawn Delhi I: Genesis of a Newspaper, https://www.dawn.com/news/1354278
[2]حاجی موسیٰ لوائی ، عکس بانٹوا۔ ڈیجیٹل ایڈیشن (جون ، 2010)
[3]Dawn, September 11, 1947.
[4]Dawn, September 21, 1947.
[5]Dawn, September 18, 1947.
[6]Dawn, September 17, 1947.
[7]Dawn, September 21, 1947.
[8]Dawn, September 18, 1947.
[9]H.V. Hodson, The Great Divide: Britain-India-Pakistan. London: Hutchinson & Co. 1969.
[10]Hodson, The Great Divide.
[11]Z. H. Zaidi, Quaid-i-Azam Papers Project. (1993). Vol 8.
[12]Hodson, The Great Divide.
[13]Avtar Singh Bhasin, India–Pakistan Relations 1947–2007 A Documentary Study. Published in Cooperation with Public Diplomacy Division Ministry of External Affairs of India. Vol, 6. Document No 1939.
[14]Jinnah Papers, Vol. 8.