زوالِ منطق

زوالِ منطق

ابتدائیہ:

اخلاقی اقدار کا دائرہ یوں تو بہت وسیع ہے لیکن ان میں سے سب سے اہم گفتگو کے اسلوب ہیں - جب لوگ ایک معاشرے میں باہم مل جل کر رہتے ہوں تو وہاں ان کا ایک دوسرے سے باہمی تعلق لازماً بات چیت کے ذریعے ہی پروان چڑھتا ہے- بات چیت کے ذریعے لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ اپنے خیالات اور نظریات کا تبادلہ کرتے ہیں- اب بات چیت کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے- عوامی گفتگو اور علمی گفتگو- عوامی گفتگو میں روز مرہ کے حالات زندگی پر بات ہوتی ہے جس میں لوگ معاشرتی اور بالخصوص معاشی معاملات پر تبادلہ خیال کرتے ہیں- عوامی گفتگو کے اسلوب بہت ہی بنیادی نوعیت کے ہوتے ہیں جس میں شائستگی اور لہجے کی نرمی پر زور دیا جاتا ہے تا کہ لوگوں کے درمیان باہمی محبت اور ہم آہنگی میں اضافہ ہو- مگرعلمی گفتگو کا معاملہ اس سے بہت الگ اور پیچیدہ ہے- علمی گفتگو کے ذریعے لوگ عموماً اپنے مذہبی، معاشی اور سیاسی نظریات پر ایک دوسرے سے بحث کرتے ہیں جس میں ہر کسی کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ اپنے نظریات کو حقیقی اور مؤثر ثابت کرے- لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک شخص کس طرح دوسروں کو قائل کر سکتا ہے کہ وہ اپنی رائے پر کسی دوسرے کی رائے کو بہتر یا سراسر غلط تسلیم کر لے- اس لیے علمی گفتگو میں گفتگو کے اسلوب کے ساتھ ساتھ ایک تسلی بخش اور عمدہ طریقہ کار بھی درکار ہے جس کے ذریعے سے دو لوگوں کے درمیان بہتر طریقے سے فیصلہ سازی کی جا سکے کہ کس کی بات زیادہ مؤثر اور حقیقت پر مبنی ہے وگرنہ گفتگو کا نتیجہ ہٹ دھرمی اور شدت پسندی کی صورت میں سامنے آئے گا اور معاشرے میں سچ اور جھوٹ کا معیار بھی باقی نہیں رہے گا-

علمی گفتگو کے اس طریقہ کار کی ضرورت پر ہر زمانے میں بات کی گئی ہے- سقراط کو اپنے زمانے میں جب یہ مسئلہ پیش آیا تو اس نے اس خطرے کو سامنے رکھتے ہوئے اور کسی بات کی حقیقت تک پہنچنے کے لئے اپنا ایک طریقِ تحقیق (Socratic Method)متعارف کروایا- اگر اس کے سامنے کوئی بات کی جاتی تھی تو وہ اس پر سوال کرتا تھا اور اتنے کڑے اور گہرے سوال کرتا تھا کہ سوال کرنے والے کی کم فہمی اور جہالت اس پر کھل کر واضح ہو جاتی تھی- اس منطقی طریقے کی سادہ سی مثال علامہ اقبال کی کتاب ’’Stary Refelction ‘‘سے لی جا سکتی ہے- کسی نے اقبال سے پوچھا کہ کیا آپ خدا کے وجود پہ یقین رکھتے ہیں تو اقبال نے جواب دیا کہ میں آپ کے سوال کا جواب ضرور دوں گا مگر مجھے صرف اتنا بتا دیں کہ آپ خدا، وجود اور یقین سے کیا مراد لیتے ہیں؟ اس بات سے اقبا ل نے علمی گفتگو کا طریقہ واضح کر دیا کہ کسی علمی سوال کا جواب دینے سے پہلے سوال کرنے والی کی علمی و فکری وسعت جان لینا ضروری ہے وگرنہ گفتگو کا نتیجہ بے جا بحث بازی اور الزام تراشی کی صورت میں سامنے آئے گا-

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں مختلف قسم کی قومیں آباد ہیں جن میں سے ہر کسی کی اپنی ایک منفرد تاریخی، ثقافتی اور سماجی شناخت ہے- یہ سب قومیں آپس میں ایک دینی شناخت کی بنیاد پر جڑی ہوئی ہیں جو کہ مزید کئی چھوٹے چھوٹے مسالک میں بٹی ہوئی ہیں- یہ بات نا ممکن ہے کہ پاکستان کی عوام کا ایک دوسرے کے ساتھ مذہبی، سیاسی و سماجی نظریات پر خیالات کا تبادلہ نہ ہو اور اس کی صورت میں کئی قسم کے علمی و فکری مسائل پیدا نہ ہوں- پاکستان کے وجود میں آتے ہی اسے عوامی و ملکی سطح پر کئی فکری مسائل کا سامنا درپیش تھا جن میں فتنہ قادیانیت، پاکستان کی قومی زبان کا مسئلہ، شیعہ سنی فسادات، صوبائی کشمکش بہت اہم ہیں- موجودہ دور میں سیاسی تقسیم، مذہبی انتہا پسندی، نسل و قوم پرستی، مذہبی فرقہ واریت اور اخلاقی پستی وہ نمایاں مسائل ہیں جن کی وجہ سے پورے ملک کا امن و امان خراب ہو چکا ہے- عوامی و ملکی دونوں سطحوں پر مذہبی و سیاسی نظریات کو لے کر ایک جنگ کا میدان سجا ہوا ہے جس میں نہ صرف عوام بلکہ مختلف سیاسی و مذہبی جماعتیں اپنے نظریات کی سچائی اور برتری کے لئے اپنے مخالفین کے ساتھ بحث مباحثے کرتے نظر آتے ہیں- لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس علمی و فکری دنگل میں سچ و یا جھوٹ کو جاننے کا معیار کیا ہے؟ ان مباحث کے حالات اور عوام کی اخلاقی گراوٹ سے ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان مباحث میں کسی منطقی طریقہ کار کو بالکل بھی استعمال نہیں کیا جاتا اور نہ ہی عوام میں منطقی شعور ہے-

آخر اس منطقی زوال کی وجہ کیا ہے؟ وہ کیا عناصر ہیں جن کی وجہ سے پاکستان میں منطق کا زوال آیا ہے؟ یہاں پر پاکستان کے تین اہم علمی طبقوں میں منطق کے استعمال اور اس کی ترویج پر بات کی جا سکتی ہے کہ انہوں نے پاکستان میں منطق کے فروغ اور استعمال کیلئے کوئی کوشش کی ہے یا نہیں-

تعلیمی اداروں کا کردار:

منطق چونکہ فلسفہ کی ایک شاخ ہے اس لیے منطق کی تعلیم کو فروغ دینے کیلئے تعلیمی اداروں میں فلسفے کے علم کو فروغ دینا انتہائی ناگزیر ہے- اس وقت پاکستان میں چار سو سے زائد گورنمنٹ اور پرائیوٹ جامعات ہیں-لیکن المیے کی بات یہ ہے کہ اکثر جامعات میں فلسفے کا شعبہ ہی نہیں ہے- حالانکہ ان میں کچھ جامعات بین الاقوامی  سطح پہ بھی مشہور ہیں اور چند ایک کی مشہوری کی وجہ بھی سوشل سائنسز کے مضامین ہیں مگر افسوس ان اداروں میں بھی سوشل سائنسز کی ماں کا درجہ رکھنے والا علم یعنی علمِ فلسفہ کا شعبہ ہی نہیں ہے-

پاکستان میں فلسفے کا شعبہ فقط گورنمنٹ کے تعلیمی اداروں میں ہے جن سے فقط پانچ جامعات میں فلسفہ کا شعبہ ہے جن میں یونیورسٹی آف دی پنجاب لاہور، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور، یونیورسٹی آف پشاور،  یونیورسٹی آف کراچی اور بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان شامل ہیں- ان یونیورسٹیز میں بھی فلسفہ پڑھنے والے طلباء کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور ان اداروں کی طرف سے علم فلسفہ کو فروغ دینے کیلئے علمی یا تشہیری مہم کا ثبوت بھی نہیں ملتا – اس کے علاوہ جو طلباء فلسفہ پڑھ رہے ہیں ان کی اکثریت کو یہ پریشانی لاحق ہے کہ اس تعلیم کو حاصل کرنے کے بعد ان کو کون نوکری دے گا- حتی کہ بعض طلباء نے یہاں تک انکشاف کیا کہ ان کے اردگرد کے لوگ اور بعض اساتذہ بھی ان کو یہ طعنے دیتے ہیں کہ آپ کو فلسفہ پڑھنے کا مشورہ کس نے دے دیا کیونکہ اس کو پڑھنے کے بعد آپ کی نوکری کے مواقع انتہائی کم ہیں-

پاکستان کے تعلیمی اداروں میں فلسفہ اور منطق کی زبوں حالی کا ذمہ دار کسے ٹھہرایا جا سکتا ہے؟

 سب سے پہلے تو پاکستان کے تعلیمی اداروں پر بہت بڑا اعتراض ہے کہ جنہوں نے اس علم کے فروغ کیلئے کوئی بھی کوشش نہیں کی- پاکستان بننے کے بعد سے اب تک، تعلیمی اداروں میں فلسفہ پڑھنے اور پڑھانے کا رجحان خطرناک حد تک کم ہوا ہے مگر پاکستان کی حکومت اور اس کے تعلیمی اداروں کے پاس اپنے دفاع کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ انہوں نے اس کمی کو روکنے اور فلسفہ و منطق کو فروغ دینے کیلئے کوئی کوشش کی ہو؟ شروع شروع کے عشروں میں پاکستان میں فلسفیانہ کانفرنس کے اجلاس منعقد ہوتے تھے اور مختلف جریدوں میں فلسفہ و منطق کو پروان چڑھانے کیلئے محققین اپنی رائے پیش کرتے تھے مگر اداروں کی غیر دلچسپی کی وجہ سے وہ کوششیں بھی بالآخر بند ہو گئیں-

 ان تعلیمی اداروں پر دوسرا اعتراض یہ ہے کہ انہوں نے دیگر علوم بالخصوص سائنس، ٹیکنالوجی اور معاشیات سے متعلق علوم کو فروغ دینے کیلئے تو ان تھک کوششیں کیں مگر فلسفہ جیسے انتہائی ضروری اور اہم علم پر کسی نے توجہ نہیں دی- اگر طلباء کی بات کی جائے تو بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ وہ ہوا کے رخ کو دیکھ کر اپنے تعلیمی مضمون کا چناؤ کرتے ہیں- تعلیمی اداروں نے ایسا ماحول بنا دیا کہ اداروں میں ایسے نوجوان پیدا کیے جائیں جو ایسا علم حاصل کریں جس سے ان کو سرکار کی یا کسی سرمایہ دار کی ملازمت مل جائے- سرمایہ دارانہ نظام تو کبھی بھی ایسے علم کو فروغ نہ دے جس سے ان کی آمدن میں اضافہ نہ ہو اور فلسفہ کی سرمایہ دارانہ نظام کو کیا ضرورت ہے؟ اس لیے ہمارے نوجوانوں کی اکثریت ڈاکٹر ، انجینئر یا بنک کے ملازم بننا چاہتی ہے- جس سے ان کو دو وقت کی روٹی کمانا نصیب ہو سکے- ملک و قوم کی سیاسی، سماجی، مذہبی اور اخلاقی ضروریات کی جب تعلیمی اداروں کو ہی نہیں فکر ہے طلباء پر الزام دینا تو بالکل بے جا ہی ہو گا-

مذہبی مدارس کا کردار:

دوسرا طبقہ مذہبی مدارس ہیں جہاں مذہبی تعلیم دی جاتی ہے اور معاشرے کیلئے علماء تیار کیے جاتے ہیں اگر تاریخی طور پر دیکھیں تو مذہبی معاشروں میں عوام کی فکری و اخلاقی تربیت میں علماء کا کردار بہت اہم رہا ہے- چونکہ علماء بغیر کسی واسطے کے عوام کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں اس لیے وہ عوام کی بہتر طریقے سے تربیت کر سکتے ہیں- پاکستانی معاشرہ چونکہ ایک مذہبی معاشرہ ہے اور اس لیے اس میں عوام کی تربیت میں علماء کرام کا کردار زیادہ اہم ہو جاتا ہے- پاکستان کے گلی محلے کے کونے کونے پر موجود مساجد اس بات کی دلالت کرتی ہیں کہ پاکستان کی عام عوام کے ساتھ سب سے زیادہ گہرا تعلق ان مساجد کے علماء کا ہے جو ان کو ان کی زندگی کے مختلف معاملات پر مشاورت بھی دیتے ہیں- لیکن اس کے باوجود عوام کے اندر آئے دن بڑھتی ہوئی  انتہا پسندی اور باہمی نفرت کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟

اس کی بنیادی وجہ بھی مدارس میں منطق کی تعلیم کا فقدان ہے- ایک وقت تھا کہ برصغیر کے مدارس میں علماء کو منطق پر کئی کتابیں پڑھائی جاتی تھیں جن میں صغرٰی، کبرٰی، ایسا غوجی، تہذیب، شرح تہذیب، قطبی مع میر قطبی، قاضی مبارک، حمد  اللہ، ملاحسن، سلم العلوم کے نام نمایاں ہیں- مگر اس وقت ان میں سے شرح تہذیب اور قطبی کے علاوہ کوئی کتاب نہیں پڑھائی جاتی-برصغیر منطق و معقولات میں ہمیشہ زرخیز اور سرسبز رہا ہے، حیرت و تعجب کے ساتھ تاسف بھی ہوتا ہے کہ جس خطے کے علمائے دین میں عبد الحق دہلوی، محب اللہ بہاری، عبد الحی لکھنوی، عبد العلی لکھنوی اور فضل حق خیر آبادی جیسے نابغۂ روزگار اساتذۂ منطق گزرے ہیں وہاں دینی درسگاہیں منطق و معقول کا متضاد ماحول لئے بیٹھی ہیں -اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو مسلم فلاسفہ اور متکلمین کا منطق پر بہت ہی اہم اور منفرد کام دیکھنے کو ملتا ہے-منطق کا بانی ارسطو کو کہا جاتا ہے اس لئے اسے ’’معلم اول‘‘ کہتے ہیں اور ’’معلم ثانی‘‘ محمد ابو نصر الفارابی کو کہا جاتا ہے (جسے لاطینی میں فرابیوس لکھا جاتا ہے) - ابونصر فارابی کی کتاب الجدول کا انگریزی ترجمہ کیمبرج یونیورسٹی نے شائع کیا ہے جس کے دیباچے میں ڈیوڈ دیپسقول نے بھی یہ بات دہرائی ہے کہ ارسطوئی منطق کی مغربی و مشرقی روایت میں ابو نصر الفارابی سے بڑا کوئی شخص پیدا نہیں ہوا- ابو نصر الفارابی سے لے کر امام فخرالدین رازی تک کئی فلاسفہ اور متکلمین نے نہ صرف یونانی منطق پر کتابیں لکھیں بلکہ ان منطقی اصول کی شروحات بھی پیش کیں تا کہ علمی مباحث کو بہتر طریقے سے سلجھا کر کسی بھی موضوع کی حتمی حقیقت تک پہنچا جا سکے جہاں جا کر سچ اور جھوٹ کھل کر واضح ہو جائے- لیکن یہاں بھی المیہ یہ ہے کہ مدارس میں منطق کی وہ نایاب کتب پڑھائی ہی نہیں جاتی کہ جس سے علماء میں منطقی گفتگو کی عادت پیدا ہو- اکثر و بیشتر یہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ علماء آپس میں بھی مناظرہ یا بحث کرتے ہیں تو ان میں شدت پسندی،جنونیت اور جذباتی پہلو نمایاں ہوتا ہے- اپنے مخالف کی بات کو اچھے سے سمجھ کر اس کو منطقی انداز میں جواب دینا تو جیسے ان کی عادت میں ہی شامل نہیں ہے- صرف اپنے نظریات اور اپنی رائے کو دوسرے پر برتر ثابت کرنے کیلیے منطق کی بجائے جذبات کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے-

اگر کوئی اس پر یہ اعتراض کرے کہ علماء منطق کو علماء سے مباحث کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں تو عوام کا منطق سے کیا تعلق ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب علماء کی گفتگو منطق پر مبنی ہوگی اور وہ منطقی اصولوں سے اپنے علمی مباحث کو طے کریں گے تو عوام میں یہ عادت خود بخود پیدا ہونا شروع ہو جائے گی- عوام کی عادت ہے کہ وہ اپنے سے بڑے علمی لوگوں اور بالخصوص مذہبی لوگوں سے اثر قبول کر رہے ہوتے ہیں اور ان کے گفتگو کے طریقے سے عوام میں بھی ویسی عادت پیدا ہو جاتی ہیں- مثال کے طور پر، لکھنؤ میں ادب اور شعر جب عام ہو گیا تو شعراء کا کلام سن سن کر عوام کے اندر شعر کو جانچنے اور زبان کے بہتر استعمال کا اتنا کمال پیدا ہو گیا تھا کہ میر ببر علی انیس جیسے شعراء بھی عوام کے سامنے اپنا کلام پیش کرتے ہوئے احتیاط برتتےتھے کہ عوام بھی اس ہنر سے واقف ہے اور کسی بھی وقت مجھے ٹوکا جا سکتا ہے-

اس لیے اگر علماء اپنی گفتگو کو منطقی طریقے سے کریں گے اور  منطق کو پروان چڑھائیں گے تو آہستہ آہستہ لوگوں میں بھی اس بات کا شعور پیدا ہوگا کہ ہمیں دوسروں کے ساتھ بات کرتے ہوئے سچائی یا جھوٹ کو جاننے کے لیے منطقی اصولوں کو سامنے رکھنا چاہیے- اگر ایسا نہ ہوگا تو عوام میں غیر منطقی گفتگو، جذباتیت اور شدت پسندی پروان چڑھے گی جس کے نتیجے میں  لوگوں کے درمیان اختلافات میں اضافہ ہوگا، دشمنی اور حسد جیسے جذبات پیدا ہوں گے جو کہ ہمیں پاکستان میں واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے-

قانون دانوں کا کردار:

تیسرا طبقہ قانون دانوں کا ہے جس میں وکلاء اور قاضی صاحبان شامل ہیں- اگر منطق کی اہمیت کی بات جائے تو یہ سب سے زیادہ قانون دان حضرات کےلئے اہم ہے جن کے شعبے کی بنیاد ہی منطق پر ہے- وکلاء حضرات دلائل کا سہارا لے کر اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں- کسی بھی جج کی عدالت میں ایک فیصلہ کسی وکیل کی ذاتی رائے یا نظریات کی بنیاد پر نہیں دیا جاتا بلکہ وہ فیصلہ اس وکیل کے دلائل کی بنیاد پر کیا جاتا ہے آیا کہ وہ جج صاحب کو اپنی منطق سے قائل کر سکتا ہے یا نہیں- منطقی طریق سے فیصلہ سازی کا طریقہ بہت ہی پرانا ہے جس کا استعمال یونانیوں اور رومیوں کے ہاں بہت ہی نمایاں نظر آتا ہے- منطقی بنیادوں پر قانون سازی اور فیصلہ سازی میں سب سے بنیادی کام سسرو (Cicero) اور سینیکا (Seneca) کا ملتا ہے جو قانون سازی میں فلسفہ اور منطق کے قوانین کو بروئے کار لائے- اس طرح سے منطق کی ترویج کے لیے قانون دانوں کا کردار بہت اہم بن جاتا ہے-

پاکستان کی بات کی جائے تو پاکستان کےقانون دانوں کی طرف سے بہتر قانون سازی کیلئے منطق کو پروان چڑھانے کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی- منطق کو عدالت کی حدوں تک محدود کر دیا گیا ہے اور شخصی زندگی میں اس کی اہمیت اور افادیت پر نہ تو کوئی بات کی جاتی ہے اور نہ ہی اس کیلئے کوئی عملی کوشش کی جاتی ہے- اگر قانون دان حضرات کے سماجی رویوں کی بات کریں تو وہاں بھی شدت پسندی اور جذبات نمایاں نظر آتے ہیں- اپنی بات کو دلیل کی بنیاد پر منوانے کی بجائے طاقت اور حیلہ بازی کا سہارا لیا جاتا ہے- منطقی طریقہ کار کے عام نہ ہونے کی وجہ سے قانون بھی ایک دستاویزی سطح تک محدود ہو گیا ہے جس میں جدت پسندی اور بہتری کی کوششیں بالکل نایاب ہیں-

قانون کے شعبہ میں منطق کے اس فقدان کی کئی وجوہات ممکن ہو سکتی ہیں لیکن ایک وجہ جو کہ بہت ہی المناک ہے وہ یہ کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں قانون پڑھنے والے طلباء کو پانچ سالہ ڈگری میں منطق پر فقط ایک مضمون Logic and Reasoning پڑھایا جاتا ہے- انہیں قانون پر تو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں اور قانون فہمی بھی سکھائی جاتی ہے لیکن ان قوانین کی بنیاد جن منطقی اصولوں پر ہے اورجس بنیاد پر قوانین تیار ہوتے ہیں، پرکھے جاتے ہیں اور ان میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، طلباء کو اس ہنر سے روشناس ہی نہیں کرایا جاتا- اگر قانون دانوں کو منطق نہیں پڑھائی جائے گی اور صرف قانون کی شقیں ہی یاد کرائی جائیں گی تو وہ قانون کے حافظ تو بن جائیں گے لیکن قانون کے ماہر نہیں بن سکیں گے- قانون کا ماہر بننے کے لیے ضروری ہے کہ قانون دان کو منطق اور اس کے قوانین پر عبور حاصل ہو- شاید اسی لیے قانون دانوں کی طرف سے منطق کی ترویج کے لیے بھی کوشش نظر نہیں آتی کیونکہ ایک علم جس سے وہ خود مکمل طور پر واقف نہیں ہیں اس کی اہمیت اور اس کے افادیت سے وہ کس طرح واقف ہو سکتے ہیں- اسی علم کے فقدان کا اثر ہمیں ان کی اشتعال انگیز ی اور جذباتی رویوں میں نظر آتا ہے-

حرفِ آخر:

موجودہ صدی مکالمے کی صدی ہے جس میں انسان منطق اور دلیل کی بنیاد پر ہی اپنی بات منوا سکتا ہے- اگر کوئی غیر منطقی یا شدت پسندانہ طریقے اختیار کرے گا تو اس کی سچی بات بھی دنیا کے سامنے جھوٹ اور ہٹ دھرمی کی صورت میں سامنے آئے گی- سقراط کا اپنے دور کے نام نہاد دانشوروں (Sophists)سے سب سے بڑا جھگڑا ہی اسی بات کا تھا کہ سقراط باہمی گفتگو میں منطق اور تحقیق کا حامی تھا- اس کے نزدیک کسی بات کی سچائی تک پہنچنے کیلئے کڑی فکری تحقیق لازمی ہے فقط لفظوں اور باتوں سے لوگوں کو بیوقوف بنا کر سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنا سقراط کے نزدیک ایک گھناؤنا جرم تھا جس سے معاشرے میں سچ اور جھوٹ کا معیار ہی ختم ہو جائے گا- اس کے برعکس سوفسٹ پورے شہر میں گھومتے پھرتے تھے اور اپنی لفاظی اور شعلہ بیانی سے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا دیتے تھے اور اس درمیان سچ اور جھوٹ کو پرکھنے کا کوئی پیمانہ باقی ہی نہیں رہتا تھا- کچھ یہی حال آج ہمارے معاشرے کا ہے جس میں آئے روز نئے نئے دانشور علمی دعوے کرتے رہتے ہیں اور اپنی لفاظی سے عوام کو بیوقوف بناتے ہیں- اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ پاکستانی عوام علمِ منطق سے کوسوں دور ہے- لہذاپاکستان میں آئے روز ایسے نام نہاد دانشور جنم لے رہے ہیں جو طرح طرح کے علمی دعوے کر کے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور معاشرے میں شدت پسندی اور نفرت پھیلاتے ہیں- اگر پاکستان کو امن کا گہوارہ اور علم و تحقیق کی تجربہ گاہ بنانا ہے تو پاکستان میں فلسفہ اور منطق کی تعلیم کو فروغ دینا لازمی ہے-

منطق، دلیل اور ریاضی کے کلچر کو فروغ دیں تاکہ:

v     شدت پسندی اور تشدد (گالی اور گولی) کا خاتمہ ہو

v     چیخنے چلانے کی بجائے عقلی گفتگو کی جائے

v     تعصب کی بجائے تدبر اور تذلیل کی بجائے دلیل کو جگہ ملے

v     اختلافِ رائے کو برداشت  کرنے، وسیع مکالمہ اور دوسروں کی بات کو سمجھنے کا ملکہ پیدا ہو

v     نجی و معاشرتی زندگی میں محض جذبات کی بجائے فہم و ادراک سے فیصلے کرنے میں مدد ملے

v     جستجو اور تحقیق کے نئے دروازے اور زاویے کھلیں

v     علمی و اخلاقی اقدار پہ قائم مہذب معاشرے کی تعمیر ہو سکے

v     استاد، محقق، عالم اور شیخ کے القابات دیئے جانے والی شخصیات کی ذہنی، علمی و فکری استعداد کی بلندی کو یقینی بنایا جا سکے

v     ذاتِ حق، کائنات، زندگی، شعور اور حتی کہ خود دین اور اس کے احکام کی معرفت اور شناسائی کیلئے ذہنی و عقلی تحرک و معیار مہیا کیا جا سکے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر