مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام، 26 فروری 2024ء کو نیشنل لائبریری، اسلام آباد میں ایک سیمینار بعنوان ’’خوجالے نسل کشی کی 32 ویں برسی: انصاف کا مطالبہ‘‘ کا انعقاد کیاگیا- مسلم انسٹیٹیوٹ کے پبلک ریلیشن آفیسر جناب آصف تنویر اعوان نے نظامت کے فرائض سرانجام دئیے جبکہ سیمینار میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی-
معزز مقررین کے خیالات کا خلاصہ درج ذیل ہے:
صاحبزادہ سلطان احمد علی (چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ )
آذربائیجان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی تاریخی اہمیت ہے- ہمارے مضبوط تعلقات صدیوں پرانی باہمی تاریخ، ثقافت، رسم و رواج، مذہب، جغرافیے اور مشترکہ مسائل کی بنیاد پہ استوار ہیں-1992ء خوجالے کی نسل کشی ایک گھناؤنا ظلم ہے جو آذربائیجان میں ہمارے بہن بھائیوں کو آرمینیا کے ہاتھوں برداشت کرنا پڑا- انسانیت کے خلاف اس طرح کی ظالمانہ کارروائیوں کو یاد رکھنا ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسانیت کے خلاف جرائم کے دستاویزی ریکارڈ اور اس طرح کی کارروائیوں کے خلاف دنیا بھر میں مذمت بھی انسانوں کو دوبارہ اسی طرح کے کام کرنے سے روکنے کے لیے کافی نہیں ہے- اسرائیلی افواج کی طرف سے بے بس فلسطینیوں کے خلاف غیر انسانی اور غیر قانونی کارروائیاں یا اسی طرح بے گناہ کشمیریوں کے خلاف بھارتی افواج کی کارروائیاں اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں- گزشتہ برس 7 اکتوبر سے اب تک 29 ہزار سے زائد فلسطینی اسرائیلیوں کے ہاتھوں نسل کشی کا شکار ہو چکے ہیں - جبکہ غیر قانونی مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فورسز نے گزشتہ ساڑھے تین دہائیوں میں ایک لاکھ کے قریب کشمیریوں کا قتلِ عام کیا ہے- ہمیں پالیسی ڈسکورس پیدا کرنے اور فیصلہ سازوں کو شامل کرنے کے لیے زیادہ فعال ہونا ہوگا جو خوجالے، غزہ اور کشمیر جیسے مظالم سے بچنے کے لیے ٹھوس اقدام کر سکیں -
عزت مآب خضر فرہادوف)پاکستان میں آذربائیجان کے سفیر(
26 فروری 2024ء آذر بائیجانیوں کے خلاف آرمینیائی مسلح افواج کی طرف سے کی گئی خوجالے نسل کشی کی 32 ویں برسی ہے- اس خونی سانحے میں ہزاروں آذربائیجانیوں کی ہلاکت یا گرفتاری شامل تھی- پورا شہر زمین بوس کر دیا گیا تھا- 25 سے 26 فروری 1992ء کی رات میں آرمینیائی مسلح افواج نے خوجالے پر قبضہ کر لیا- حملہ آوروں نے خوجالے کو تباہ کر دیا اور خاص طور پر اس کی پرامن آبادی پر ظلم و بربریت کا سلسلہ شروع کیا- خوجالے نسل کشی کے نتیجے میں شہر کے 5379 باشندوں کو زبردستی بے دخل کردیا گیا- 63 بچوں، 106 خواتین اور 70 بزرگ شہریوں سمیت 613 افراد کو بے دردی سے قتل کیا گیا- 1275 کو گرفتار کیا گیا، یرغمال بنایا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ 487 زخمی ہوئے-
آرمینیا کی طرف سے جمہوریہ آذربائیجان کے خلاف جارحیت کے دوران خوجالے کا قتل عام اور دیگر جرائم جن میں جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی شامل ہیں، بین الاقوامی انسانی اور انسانی حقوق کے قانون کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں- ان میں نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور سزا کے کنونشن کی خلاف ورزیاں شامل ہیں- آذربائیجان اس بات پہ یقین رکھتا ہے کہ قومی سطح پر اور موجودہ بین الاقوامی قانون کے فریم ورک کے ذریعے اٹھائے جانے والے اقدامات سے سنگین جرائم کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں مدد ملے گی-
پروفیسر ڈاکٹر تغرل یامین(مصنف اور تجزیہ کار)
پاکستان 12 دسمبر 1991ء کو آذربائیجان کی آزادی کو تسلیم کرنے والی پہلی ریاستوں میں سے ایک تھا اور اس وقت کے پاکستانی صدر فاروق لغاری کسی ریاست کے پہلے سربراہ تھے جنہوں نے آذربائیجان کا دورہ کیا- پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو آرمینیا کو تسلیم نہیں کرتا- آذربائیجان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت مسئلہ جموں و کشمیر کے پرامن حل کی حمایت کرتا ہے- پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان انتہائی قریبی فوجی تعلقات ہیں- پاکستان اب آذربائیجان کو جے ایف 17 تھنڈر طیارے فروخت کر رہا ہے- آج ہم خوجالےکے قتل عام کی 32 ویں برسی منا رہے ہیں- یہ وہی وقت تھا جب بوسنیا، سریبرینیکا میں ایک اور نسل کشی ہو رہی تھی جہاں ہزاروں نوجوان مسلمان مارے گئے تھے اور بہت سی خواتین کی عصمت دری کی گئی تھی اور آبادی کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کروائی گئی تھی- خوجالے قصبے میں سابق سوویت یونین کے کچھ فوجیوں کے ساتھ آرمینیائی افواج کے ذریعے آذربائیجان کے شہریوں کا قتل عام، پورے کاراباخ تنازعے میں سب سے بڑا واحد قتل عام بن گیا- آج غزہ میں ایک اور نسل کشی ہو رہی ہے، جو پچھلے سال 7 اکتوبر کو شروع ہوئی تھی اور یہ اب بھی پوری دنیا کی جانب سےمتعدد اپیلوں کے باوجود جاری ہے- اسرائیلی انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کے لیے تیار نہیں- تقریباً 30000 فلسطینی مارے جا چکے ہیں جن میں نصف سے زیادہ خواتین اور بچے ہیں- یہ نہ صرف انسانیت کے خلاف جرم ہے بلکہ ہم سب کیلئے باعث شرم ہے-
میجر جنرل (ر) خالد عامر جعفری(صدر CSAIS انسٹیٹیوٹ)
1991ءکے آخر میں اور1992 ء کے آغاز میں سمندر سے سمندر تک ایک ریاست بنانے کی آرمینیائی خواہش پر عمل درآمد شروع ہوا- آرمینیائی حکومت بین الاقوامی قانونی اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے، اپنے نظریے کی پیروی میں کسی بھی قسم کے جرائم اور بربریت کا سہارا لینے پر انحصار کا مظاہرہ کرتے ہوئے، کاراباخ کو ضم کرنا چاہتی تھی- خوجالے نسل کشی آذربائیجان کے خلاف آرمینیا کی جارحانہ جنگ کے دوران پرامن آذربائیجانیوں کے خلاف سب سے بڑا جرم ہے- خوجالے میں آرمینیائی مقصد اسٹریٹجک رکاوٹ (کاراباخ کے پہاڑی علاقوں میں آذربائیجان کے باشندوں)کو ختم کرنا تھا- اس کا ایک اور مقصد خوجالے کو زمین بوس کرنا تھا کیونکہ خوجالے قدیم زمانے سے آذربائیجان کی تاریخ اور روایات کی عکاسی کرتا تھا، اس الگ ثقافت کو آذربائیجان کی تاریخ میں خوجالےکے ابتدائی باب کے طور پہ مانا جاتا ہے ہے- ان تمام مادی اور ثقافتی یادگاروں اور خوجالے قبرستان کی تباہی جو کہ تاریخ کے قدیم ترین قبرستانوں میں سے ایک ہے، عالمی ثقافت کے خلاف بربریت اور جارحیت کی واضح مثالیں ہیں- خوجالے پر قبضہ کرکے، آرمینیا کا مقصد کاراباخ کے علاقے کے دیگر اضلاع پر حملہ کرنا، اسٹریٹجک بلندیوں کو حاصل کرنا اور سازگار مواقع حاصل کرنا تھا-
عزت مآب ڈاکٹر مہمت پیچاچی(پاکستان میں ترکیہ کے سفیر)
آج ہم تاریخ کے ایک تاریک لمحے کو یاد کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں جس نے بہت سے لوگوں کے دلوں پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں- 26 فروری 1992ء کو خوجالےکا قصبہ آرمینیائی مسلح افواج کے وحشیانہ حملے کا شکار ہو گیا- شہریوں کے خلاف یہ جرائم لامحالہ ہمیں پچھلی صدی کے آغاز میں آرمینیائی بنیاد پرست اور قوم پرست مسلح گروہوں کے ہاتھوں اناطولیہ اور قفقاز میں لاکھوں عثمانی شہریوں کے قتل عام کی یاد دلاتے ہیں- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خوجالےمیں کیا گیا وحشیانہ قتلِ عام اسی سابقہ قتل ِعام کا تسلسل تھا- ترکیہ اور آذربائیجان کے درمیان تعلقات کو ایک قوم کی حیثیت سے جانا جاتا ہے-
ہم فلسطین میں بچوں، خواتین کو نشانہ بنانے والے اسرائیل کے حملوں کے بارے میں بے حد فکر مند ہیں جو کہ تاریخی قتل عام کے تناسب سے ہیں- اس موقع پر غزہ میں جاری انسانی تباہی کو روکنا ضروری ہے- میں مسئلہ کشمیر کے حل کا بھی ذکر کرنا چاہوں گا جو جنوبی ایشیا میں دیرپا امن، استحکام اور خوشحالی کے لیے ناگزیر ہے-
سینیٹر ولید اقبال(علامہ محمد اقبال کے پوتے )
مَیں خوجالے نسل کشی کے 613 شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور لاشوں کے مسخ کرنے کی مذمت کرتا ہوں- مَیں اس قتل عام کو نسل کشی قرار دینے کے لیے 17 ممالک کی قیادت کرنے پر ترکیہ کی تعریف کرتا ہوں اور مَیں علامہ محمد اقبال کے نئے سال کے پیغام کے ساتھ انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں:
’’جدید دور علم میں اپنی ترقی اور اپنی بے مثال سائنسی ترقی پر فخر کرتا ہے- بلا شبہ فخر جائز ہے- لیکن ان تمام تر پیشرفت کے باوجود سامراج کا ظالم ملک جمہوریت، قوم پرستی، کمیونزم، فاشزم کے نقابوں میں اپنے چہرے کو ڈھانپے ہوئے ہے، اس کے علاوہ اور کیا ہے- ان نقابوں کے نیچے روئے زمین کے کونے کونے میں آزادی کے جذبے اور انسان کی عزت نفس کو اس طرح پامال کیا جا رہا ہے جس کی مثال انسانی تاریخ کے سیاہ ترین دور میں بھی نہیں ملتی-دنیا اس وقت تک شکاری درندوں کی جنگ کا میدان رہے گی جب تک پوری دنیا کی تعلیمی قوتیں انسانوں میں انسانیت کے لیے احترام پیدا کرنے کی ہدایت نہیں کرتیں-صرف ایک اتحاد قابل اعتبار ہے اور وہ اتحاد انسان کا بھائی چارہ ہے جو نسل، قومیت، رنگ یا زبان سے بالاتر ہے‘‘-
صدارتی کلمات
سینیٹر مشاہد حسین سید(چیئرمین، دفاعی کمیٹی سینیٹ )
مجھے اس حقیقت پر بہت فخر ہے کہ سینیٹ آف پاکستان نے سب سے پہلے خوجالےکے قتل عام کو نسل کشی قرار دیا- ہم کاراباخ کے مقصد کے لیے بہت مضبوط عزم رکھتے ہیں- یہ آذری آبادی کے خلاف آرمینیائی جارحیت اور نسلی انتہا پسندی کی ایک طویل تاریخ تھی- اکتوبر اور نومبر 1947ء میں مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلا قتل عام تھا- اس کے بعد افریقہ کے شہر روانڈا میں ایک اور ہولناک قتل عام ہوا جہاں 90 دنوں میں 10 لاکھ لوگ مارے گئے- مودی کے دور میں بھارت کی ریاست گجرات میں ہونے والا قتل عام بھی ایک نسل کشی تھا- روہنگیا میں، تقریباً 43 ہزار لوگ مارے جا چکے ہیں اور اب تک 10 لاکھ لوگوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کر دیا گیا-
جینوسائیڈ واچ کے مطابق، بھارتی مقبوضہ کشمیر اور آسام میں نسل کشی ہو رہی ہے- سب سے خوفناک صورتحال یہ ہے کہ اب ہم غزہ کے قتل عام کا مشاہدہ کر رہے ہیں جو کہ دنیا کی تاریخ کا پہلا ٹیلی وائزڈ قتل عام ہے- یہ بہت ضروری ہے کہ جب ہم خوجالے کے قتل عام اور نسل کشی کو یاد کرتے ہیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایسے واقعات دوبارہ کبھی نہیں ہونے چاہئیں-
وقفہ سوال و جواب
عالمی برادری کا مسلم کمیونٹی اور باقی دنیا کے لیے دوہرا معیار ہے- جب مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان میں تنازعات پیدا ہوئے تو فوراً ریفرنڈم کرائے گئے، جبکہ کشمیر، فلسطین اور کاراباخ میں ابھی تک کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا-
صدر الہام علیو نے آرمینیا کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی، انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اقوام متحدہ کی قرارداد ہے، ایسے اصول ہیں جو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ہیں کیونکہ آرمینیا نے نہ صرف اس علاقے پر غیر قانونی قبضہ کیا تھا بلکہ آذربائیجان کی آبادی کو قتل کر کے انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب بھی کیا تھا-پاکستان اور ترکیہ دونوں صدر الہام علیوکی حمایت کرتے ہیں-
صدر رجب طیب اردگان نے 26 اپریل 2024ء کو استنبول میں فلسطین پر بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے جو کہ قابل تعریف ہے-
حیدر علیو کو آذربائیجانی قوم کا رہنما سمجھا جاتا ہے- انہوں نے سوویت آذربائیجان کے آئین کو تبدیل کیا اور آذربائیجان کے مستقبل کے فوجی کیڈٹس کے لیے پہلا ملٹری اسکول قائم کیا- انہوں نے آذربائیجان میں صنعت کاری کا آغاز کیا جس سے ملک کی ترقی میں مدد مل رہی ہے- سیاسی اصلاحات کے ذریعے سیاسی استحکام اور اقتصادی ترقی آذربائیجان کیلیے حالات سے نمٹنے کے لیے مفید ثابت ہوئی-
پروگرام کے اختتام پہ مقررین کو لوح یادگار پیش کیے گئے-
٭٭٭