فلسطین میں جو انسانیت سوز سانحہ بپا ہوا ہے اسے تصور کرنا بھی مشکل ہے- غزہ میں اب تک 34 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے- اس کے بارے میں تھوڑا سوچیں کہ ہلاکتوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں- نسل کشی کے واقعات میں سے بھی یہ ایک انوکھا واقعہ ہے- اکیسویں صدی میں، جب دنیا سب کچھ دیکھ رہی ہے، ہر روز ہم اسرائیلی افواج کے ہاتھوں بے رحمانہ قتل کا مشاہدہ کر رہے ہیں-
نسل کشی کے ساتھ ساتھ، ہم نے دنیا بھر میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا بھی ایک قابل ذکر اظہار دیکھا ہے- مسلم دنیا اور خاص طور پر یہاں پاکستان میں، ہم فخر کے ساتھ ہمیشہ اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ کھڑے رہے ہیں- لیکن یہ امر بھی قابل دید اور قابل تعریف ہے کہ مغربی اقوام کے بہت سے لوگوں نے فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے- حکومتی نمائندگان کے علاوہ، ہم نے اسپین، ناروے، آئرلینڈ، برطانیہ، امریکہ، جنوبی افریقہ اور دیگر مغربی ممالک میں یکجہتی کا ناقابل یقین اظہار دیکھا ہے-
ایسے ہی افراد کا ایک گروپ، جس کی تعریف کی جانی چاہئے، وہ امریکہ کی جامعات (Universities) کے طلباء ہیں- غزہ میں فلسطینیوں پر اسرائیل کی نسل کشی کے آغاز کے بعد سے، امریکہ بھر کے طلباء باہر نکلے ہیں اور اپنے یونیورسٹی کیمپس میں فلسطینیوں کے ساتھ ناقابل یقین اظہارِ یکجہتی کیا ہے-آئیوی لیگ(Ivy League) کی بہت سی جامعات جن میں ہارورڈ، کولمبیا اور یونیورسٹی آف پنسلوانیا شامل ہیں، ان میں ہونے والے مظاہرے محض فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے نہیں کیے جا رہے- یقیناً یہ ایک اہم وجہ ہے، لیکن دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ یہ جامعات اسرائیل کے ساتھ اپنی سرمایہ کاری کو منظر عام پہ لائیں جس کیلئےانہیں جوابدہ ٹھہرایا جائے-اس کے علاوہ وہ جامعات سے یہ بھی مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ ایسی اسلحہ ساز کمپنیوں سے دستبردار ہو جائیں جو اسرائیل کو نسل کشی میں استعمال ہونے والے ہتھیار فراہم کرتی ہیں-
تاہم یہ افسوسناک ہے کہ یکجہتی کا یہ اظہار ساتھ میں کچھ مسائل بھی لایا ہے- طلباء کو اپنے پُرامن احتجاج کیلیے طاقت کے سخت استعمال اور تادیبی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے- اپریل 2024ء سے اب تک صرف امریکی کیمپسز میں 2900 سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جن میں فیکلٹی(faculty) بھی شامل ہے- نیویارک میں کولمبیا یونیورسٹی، جو کہ ایک آئیوی لیگ یونیورسٹی ہے، نے فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے احتجاج کرنے والے 217 افراد کو گرفتارکیا- دیگر جامعات جن میں زیادہ تعداد میں گرفتاریاں ہوئیں ان میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس (University of California in Los Angeles) میں 243 گرفتاریاں، یونیورسٹی آف میسا چوسٹس میں(University of Massachusetts) 130 گرفتاریاں، یونیورسٹی آف ٹیکساس آسٹن(University of Texas in Austin) میں 136 گرفتاریاں اور یونیورسٹی آف واشنگٹن (University of Washington) میں 100 گرفتاریاں ہوئیں- گرفتاریوں کے علاوہ کچھ طلباء کو احتجاج میں شرکت کی وجہ سے ڈگری مکمل کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے- مثال کے طور پر، ہارورڈ یونیورسٹی نے 13 طلباء کو گریجویشن سے روک دیا کیونکہ انہوں نے فلسطینیوں سے یکجہتی کے لیے احتجاج میں حصہ لیا تھا-
یہ کچھ ناقابل یقین حقائق ہیں- لاس اینجلس میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی طرح پرامن احتجاج کرتے ہوئے طلباء کو ہجوم کے ہاتھوں طاقت کے استعمال کا سامنا بھی کرنا پڑا جہاں 30 اپریل 2024ء کو رات کے وقت کیمپس میں ڈھکے ہوئے چہروں اور لاٹھی بردار افراد کے ایک گروپ نے احتجاج پر حملہ کیا- پولیس کو کیمپس اور اس مقام پر پہنچنے میں 3 گھنٹے لگ گئے جو بالکل ناقابل یقین ہے کیونکہ کیمپس پولیس نے کبھی بھی کیمپس میں کسی معاملے کیلئے پہنچنے میں اتنی دیر نہیں لگائی- کوئی بھی شخص جو مغرب کے کسی بھی یونیورسٹی کیمپس میں گیا ہے وہ جانتا ہے کہ ان کے اپنے پولیس محکمے اور ٹیمیں ہیں جو سیکیورٹی کی صورتحال خراب ہونے پر فوری حرکت میں آتے ہیں-
ایک اور اہم پیش رفت جس کا سہرا امریکی جامعات میں بلند حوصلہ طلباءکو جاتا ہے وہ ایسی جامعات میں اہم پوزیشن پر موجود بہت سے افراد کے استعفے ہیں-آئیوی لیگ جامعات کے صدور جیسا کہ ہارورڈ اور یونیورسٹی آف پینسلوینیا کے صدور کو اپنے عہدوں سے سبکدوش ہونا پڑا کیونکہ ان پہ امریکی حکومت کی جانب سے دباؤ تھا کہ ان کی جامعات میں ہونے والے مظاہروں کو کس طرح نمٹا گیا تھا- کولمبیا یونیورسٹی کے صدر کو بھی امریکی کانگریس میں حاضر ہونا پڑا اور اپنے کیمپس میں ہونے والے احتجاج کے حوالے سے سوالات کے جوابات دینے پڑے-
امریکی جامعات کے کیمپسز پر اس طرح کے مظاہروں نے امریکی حکومت کو متحرک کیا ہے جو اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ ایسے مظاہروں کا انعقاد طلبہ کے لیے اور عمومی طور پر امریکی افراد کے لیے مشکل سے مشکل تر ہو- امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے تحت اظہار رائے کی آزادی ایک تسلیم شدہ حق ہے اور احتجاج کا حق اسی زمرے میں آتا ہے اس لیے احتجاج کی بھی اجازت ہے- اس قانون میں کچھ چیزوں کو استثناء حاصل ہے جیسا کہ ایسے بیانات جو تشدد کو بھڑکاتے ہیں، یا ایسے بیانات جو قومی سلامتی کو خطرہ بناتے ہیں، یا جو بغیر ثبوت کے کسی کے خلاف بہتان تراشی کرتے ہیں- یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ پُرامن احتجاج ان میں سے کسی استثناء کے تحت نہیں آتا ہے- اس کے باوجود، اس طرح کے مظاہروں کو امریکہ کے مختلف کیمپسز میں پولیس کی وحشیانہ اور غیر قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا ہے جن میں نیویارک میں کولمبیا اور لاس اینجلس میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا بھی شامل ہیں-
شاید یہ امر زیادہ تشویشناک ہے کہ امریکی حکومت اس وقت اسرائیل سے متعلق کسی بھی احتجاج کو سنسر کرنے کی کوشش کر رہی ہے- یکم مئی 2024ء کو ایوان نمائندگان (House of Representatives)، جو کہ امریکی کانگریس کا ایوان زیریں ہے، نے ایک بل منظور کیا- یہ بل سام دشمنی (anti-semitism) کے معنی کو نئے سرے سے بیان کرتا ہے- اس نئی تعریف میں، اب اس میں کوئی بھی ایسا بیان یا فعل شامل ہے جو اسرائیل پر تنقید کرتا ہو- یہ بل اب امریکی کانگریس کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں بھیجا گیا ہے- اگر یہ سینیٹ سے منظور ہو جاتا ہے تو عملی طور پر اسرائیل پر کسی بھی قسم کی تنقید کو ایک غیر قانونی فعل تصور کیا جائے گا- ایسا قانون اظہارِ رائے کی آزادی کے لیے نقصان دہ ہوگا کیونکہ اس سے پہلے کبھی بھی کسی ریاست پر تنقید کو غیر قانونی قرار نہیں دیا گیا-ہمارے یہاں ایک عمومی سوچ یہ بھی موجود ہے کہ مغرب آزادی اور جمہوریت کا چیمپئن اور رول ماڈل ہے-
یہ سب معاملات ظاہر کرتے ہیں کہ ’’انصاف کی پاسداری‘‘ اور’’انسانی حقوق کا تحفظ‘‘ نہ صرف ایک فریب ہے بلکہ یہ مغربی جمہوریتوں کی منافقت کو سامنے لاتا ہے جو اپنی اقدار کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے قومی مفادات کی بنیاد پر اپنا فریق چنتے ہیں- ایسی دنیا میں جہاں ہر کوئی ہمارے خلاف ہے، مسلم ممالک کو اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر فلسطین میں اپنے مظلوم بھائیوں اور بہنوں کے تحفظ پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے-
٭٭٭