مسئلہ فلسطین : عالمی عدالتِ انصاف میں

مسئلہ فلسطین : عالمی عدالتِ انصاف میں

مسئلہ فلسطین : عالمی عدالتِ انصاف میں

مصنف: محمد محبوب جون 2024

ابتدائیہ:

گزشتہ برس ماہ اکتوبر سے لے کر تادم تحریر غزہ میں اسرائیلی جارحیت اور بربریت کے باعث 36 ہزار سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں جن میں 15000 سے زائد معصوم بچے اور 5000 سے زائد خواتین شامل ہیں- اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں 80 ہزار سے زائد افراد زخمی اور 10 ہزار سے زائد افراد گمشدہ ہو چکے ہیں- ابھی بھی ہزاروں افراد مٹی کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں-

 29 دسمبر 2023ء کو جنوبی افریقہ نے اسرائیلی بربریت کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں 84 صفحات پر مشتمل ایک قانونی درخواست جمع کروائی جس میں کہا گیا کہ اسرائیل کے اقدامات ’’نسل کشی کے مترادف‘‘ ہیں کیونکہ ان کا مقصد غزہ میں فلسطینیوں کے ایک اہم حصے کو تباہ کرنا ہے-

عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ کی سماعت 11 اور 12 جنوری 2024ء کو منعقد ہوئی- سماعت کے اختتام پر عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کی، جنوبی افریقہ کا کیس نہ سننے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے یہ قرار دیا کہ اس کے پاس جنوبی افریقہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف غزہ میں مبینہ نسل کشی سے متعلق کیس سننے کا اختیار ہے- عدالت نے اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ اپنے اختیار میں تمام ایسے اقدامات اٹھائے جن سے غزہ میں نسل کشی کے مترادف واقعات سے بچا جا سکے اور نسل کشی پر اُکسانے والوں کو سزا دی جائے-

زیر نظر مضمون میں ہم عالمی عدالت انصاف کی پہلی رولنگ کے بعد ہونے والی صورتحال کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے بلکہ جنوبی افریقہ کی طرف سے دائر کی جانے والی مزید درخواستوں کا بھی تذکرہ کیا جائے گا-

رفح پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف جنوبی افریقہ کا عالمی عدالتِ انصاف سے رجوع

عالمی عدالت انصاف کی پہلی رولنگ (جس میں اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی سے روکنے کا کہا گیا) پر عمل درآمد کے برعکس جارحیت میں مزید اضافہ ہوا- رفح، غزہ کی پٹی کے جنوبی حصے میں واقع تقریباً 55 مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط علاقہ ہے جو غزہ تک آخری رسائی کی نمائندگی سمجھا جاتا ہے- غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے باعث بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی وجہ سے رفح کی آبادی 2لاکھ 80 ہزار سے بڑھا کر تقریباً 14 لاکھ افراد تک پہنچ چکی ہے- بی بی سی اردو کے مطابق، ناروے کی پناہ گزینوں کی کونسل کے سربراہ، جان ایجلینڈ نے ’’اسے بے گھر ہونے والوں کا دنیا کا سب سے بڑا کیمپ‘‘ قرار دیا ہے- دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق رفح سے تقریباً 900000 لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں- اسرائیل نے ماہ مئی کے آغاز سے رفح میں زمینی حملہ شروع کرنے کا اعلان کیا-

 12 فروری 2024ء کو فلسطینی علاقے رفح پر ممکنہ اسرائیلی فوجی زمینی حملے سے قبل جمہوریہ جنوبی افریقہ نے عالمی عدالتِ انصاف رولز کے آرٹیکل 75(1) کے تحت فوری اضافی اقدامات کیلئے درخواست جمع کروائی- درخواست میں کہا گیا کہ:

’’جنوبی افریقہ کو اس بات پر سخت تشویش ہے کہ رفح کے خلاف غیرمعمولی فوجی کارروائی جیسا کہ اسرائیل کی ریاست نے اعلان کیا ہے، جینو سائیڈ کنونشن اور عالمی عدالت انصاف کے 26 جنوری 2024 ءکے حکم نامے کے تحت سنگین اور ناقابل تلافی خلاف ورزیوں میں مزید بڑے پیمانے پر ہلاکتوں، نقصانات اور تباہی کا باعث بنے گا‘‘-

 اسِ ہنگامی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے پہلے ہی جنوبی افریقہ نے آئی سی جے سے مطالبہ کیا کہ وہ اِ س معاملے پر غور وفکر کرے کہ آیا رفح میں بگڑتی صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی کہ عالمی عدالتِ انصاف رولز آرٹیکل 75(1) کے تحت اپنے اختیارات کا استعمال کرے تاکہ انسانی حقوق کی مزید خلاف ورزیوں کو روکا جا سکے- جنوبی افریقہ بھی غزہ میں فلسطینیوں کی صورتحال کے مدِ نظر مزید کارروائی کرنے کا اپنا حق محفوظ رکھتا ہے-

 16فروری 2024 ءکو عالمی عدالت انصاف نے جنوبی افریقہ کی جانب سے فلسطینیوں کی حفاظت کے لیے فوری اقدامات کرنے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ:

’’ غزہ کی صورتحال پرعدالت کی طرف سے 26 جنوری 2024 ء کے اپنے حکم نامے میں بتائے گئے عارضی اقدامات پر فوری اور مؤثر عمل درآمد کا مطالبہ کرتی ہے‘‘-

“The Court emphasizes that the State of Israel remains bound to fully comply with Its obligations under the Genocide Convention and with the said Order, including by ensuring the safety and security of the Palestinians in the Gaza Strip.”

عدالت اس بات پر زور دیتی ہے کہ:

’’ ریاست اسرائیل جینوسائیڈ کنونشن اور مذکورہ عدالتی حکم کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی مکمل تعمیل کرنے کی پابند ہے، بشمول غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی حفاظت اور سلامتی کو یقینی بنانے کے‘‘-

 6مارچ 2024ء کو جنوبی افریقہ نے عدالت سے مزید ہنگامی اقدامات کی نشاندہی کرنے اور 26 جنوری 2024ء کو بتائے گئے اپنے ہنگامی اقدامات میں ترمیم کرنے کی درخواست کی -اسی طرح 28 مارچ 2024ء کو عدالت نے اپنے 26 جنوری 2024 ء کے فیصلے میں بتائے گئے عبوری اقدامات کی توثیق کرتے ہوئے اضافی ہنگامی اقدامات کی نشاندہی کی-

10 مئی 2024ء کو، جنوبی افریقہ نے عدالت میں ایک فوری درخواست دائر کی تاکہ ہنگامی اقدامات کی نشاندہی اور عدالت کے ذریعہ پہلے تجویز کردہ ہنگامی اقدامات میں ترمیم کی جائے جو کہ غزہ میں نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور سزا سے متعلق کنونشن کے اطلاق سے متعلق ہے-

24مئی 2024 ءکو بین الاقوامی عدالت انصاف کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق، ترمیم کی درخواست اور جنوبی افریقہ کی طرف سے پیش کردہ ہنگامی اقدامات کی نشاندہی پر عدالت نے اپنا حکم جاری کیا-

24 مئی 2024ء کو غزہ کی پٹی (جنوبی افریقہ بمقابلہ اسرائیل) میں نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور سزا کے کنونشن کے اطلاق سے متعلق کیس میں عدالت نے واضح کیا کہ:

  1. عدالت اپنے 26 جنوری 2024ء اور 28 مارچ 2024ء کے احکامات میں بتائے گئے عارضی اقدامات کی توثیق کرتی ہے جنہیں فی الفور اور مؤثر طریقے سے نافذ کیا جانا چاہیے-
  2. ریاست اسرائیل نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور سزا کے کنونشن کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے رفح میں شہریوں کو درپیش بگڑتے حالاتِ زندگی کے پیش نظر درج ذیل عارضی اقدامات کی نشاندہی کرے-
  • اسرائیل رفح میں فوری طور پر اپنے فوجی حملے اور دوسری کارروائیوں کو روک دے جو غزہ میں فلسطینی گروہ کو نامساعد حالات میں مبتلا کر سکتی ہے جو اس کی مکمل یا جزوی طور پر جسمانی تباہی کا باعث بن سکتی ہے-
  • ہنگامی بنیادوں پر درکار بنیادی خدمات اور انسانی امداد کے پیمانے پر بلا روک ٹوک فراہمی کے لیے رفح کراسنگ کو کھول دے -
  • اسرائیل کسی بھی کمیشن آف انکوائری، تحقیقاتی مشن یا اقوام متحدہ کے مجاز اداروں کی طرف سے نسل کشی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے مقرر کردہ دیگر تحقیقاتی ادارے کی غزہ تک بلا روک ٹوک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے مؤ ثر اقدامات کرے-
  1. عدالت یہ بھی فیصلہ کرتی ہے کہ اسرائیل کی ریاست اس عدالتی فیصلے کی تاریخ سے ایک ماہ کے اندر اس حکم کو نافذ کرنے کے لیے کیے گئے تمام اقدامات کے بارے میں عدالت کو رپورٹ پیش کرے -

مغربی دنیا کا ردِ عمل:

18اپریل کو امریکہ نے فلسطین کے حق میں ایک مجوزہ قرارداد کو ویٹو کر دیا جس سے فلسطین اقوام متحدہ کا 194 واں رکن بن جا نا تھا- الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اقوامِ متحدہ کے 193 ممبرز میں سے 143 ممبر نے فلسطین کو ریاست مانا جبکہ مغربی ممالک جن میں امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، جاپان اور ساؤتھ کوریا نےفلسطین کوریاست تسلیم نہیں کیا-

جرمنی کے وائس چانسلر اور اقتصادی امور اور ماحولیاتی تحفظ کے وزیر رابرٹ ہیبیک نے حالیہ رولنگ کے بعداپنے بیان میں کہا کہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں اپنے اقدامات سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حد سے تجاوز کیا ہے-میڈیا کی جانب سے جب حکومت کی طرف سے اسرائیل کو فوجی مدد کے حوالے سے آخری حد ( Red line) کے بارے میں پوچھا گیاتو ہیبیک نے کہا کہ جرمنی نے بارہا کہا ہے کہ رفح پر حملہ غلط تھا اور اسرائیل کو یہ حملہ نہیں کرنا چاہیے تھا-

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اسرائیل کو بین الاقوامی قانون کی پاسداری کرنی چاہیے، ہیبیک نے کہا:

’’قحط، فلسطینی آبادی کا مصائب، غزہ کی پٹی میں حملے - جیسا کہ ہم اب عدالت میں دیکھ رہے ہیں- بین الاقوامی قانون سے مطابقت نہیں رکھتے‘‘-

بیلجیئم کی وزیر خارجہ حدجہ لہبیب نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ :

’’ بیلجیم عدالتی فیصلے پر فوری عمل درآمد کا مطالبہ کرتا ہے۔ غزہ میں تشدد اور انسانی مصائب کا سلسلہ بند ہونا چاہیے- ہم جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی اور دو ریاستوں کے لیے مذاکرات کا مطالبہ کرتے ہیں‘‘-

بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) کے فیصلے کی روشنی میں، ڈنمارک نے جنوبی غزہ کی پٹی کے شہر رفح میں تمام اسرائیلی فوجی کارروائیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا-سرکاری میڈیا آؤٹ لیٹ DR کے مطابق وزیر خارجہ لارس لوککے راسموسن (Lars Lokke Rasmussen) نے کہا کہ:

“I look at the ruling that has been made with extreme seriousness, and I hope that it is also a seriousness that descends in Israel”.

’’میں اس فیصلے کو دیکھ رہا ہوں جو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ جاری کیا گیا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ یہ سنجیدگی اسرائیل میں پیدا ہوگی ‘‘-

 انہوں نے مزید کہا کہ :

’’اب اس صورتحال کے بارے میں بین الاقوامی برادری کا قانونی جائزہ موجود ہے اور یہ اس سیاسی جائزے  کے بھی مطابق ہے جو ڈنمارک کی حکومت نے بھی ایک طویل عرصے سے اپنا رکھی ہے- یعنی ہمیں جنگ بندی کرنی چاہیے، نہ کہ زمینی کارروائی‘‘-

ناروے کے وزیر خارجہ ایسپن باتھ اید ے (Espen Bathe Eide)نے کہا کہ:

’’میں امید کرتا ہوں کہ اسرائیل ان اقدامات پر عمل کرے گا جن کا حکم دیا گیا ہے- عدالت اور اس کے فیصلوں کا احترام، بشمول عبوری اقدامات کا حکم دینے کے اختیار کے علاوہ بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی قانونی نظام کے استحکام کے لیے ناگزیر ہے‘‘-

 یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار جوزپ بوریل نے اس فیصلے کے جواب میں کہا:

’’ہمیں قانون کی حکمرانی کے بین الاقوامی اداروں کے لیے اپنی حمایت یا اسرائیل کی حمایت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا‘‘-

ہیومن رائٹس واچ (HRW) نے جمعہ کے روز بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) کی طرف سے اسرائیل کو غزہ کی پٹی کے جنوبی علاقے رفح میں فوری طور پر اپنا فوجی حملہ روکنے کے لیے جاری کیے گئے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے-

عدالت نے دیگر چیزوں کے علاوہ، اسرائیل کو انسانی امداد کے لیے رفح کراسنگ کھولنے کا حکم دیا اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ غزہ میں اس کے اقدامات شہریوں کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں- لہذا، ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں-

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو غزہ کی پٹی کے جنوبی علاقے رفح میں فوجی آپریشن فوری طور پر روکنے کے لیے بین الاقوامی عدالت انصاف کے حکم کی تعمیل کرنی چاہیے-

مسلم دنیا کا رد عمل:

مملکت سعودی عرب آئی سی جے کے فیصلے کو سراہتی ہے، جو فلسطینی عوام کے اخلاقی اور قانونی حق کی جانب ایک مثبت قدم ہے-

مملکت نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطینی عوام کے خلاف ہر قسم کی جارحیت کو روکنے کے لیے اپنی ذمہ داریاں ادا کرے-

ترکیہ کی وزارت خارجہ نے کہا کہ :

’’دنیا میں کوئی بھی ملک قانون سے بالاتر نہیں ہے-ہم توقع کرتے ہیں کہ عدالت کی طرف سے لیے گئے تمام فیصلوں پر اسرائیل کی جانب سے جلد عمل درآمد کیا جائے گا-اس کو یقینی بنانے کے لیے، ہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اپنا کردار ادا کرنے کی دعوت دیتے ہیں‘‘-

پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق:

’’پاکستان بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) کے اضافی عارضی اقدامات کا خیر مقدم کرتا ہے جس میں اسرائیل کو نسل کشی کنونشن کے تحت اپنی ذمہ داریوں اور شہریوں کو درپیش بگڑتے ہوئے انسانی حالات کے مطابق رفح میں فوجی کارروائی کو فوری طور پر روکنے کا حکم دیا گیا ہے‘‘-

پاکستان نے مزید مطالبہ کیا کہ :

’’جیسا کہ ICJ کے تازہ ترین فیصلے کے مطابق اسرائیلی قابض حکام کو چاہیے کہ وہ رفح کراسنگ کو انسانی امداد کی بلا روک ٹوک فراہمی کے لیے کھلا رکھیں اور کسی بھی کمیشن آف انکوائری، فیکٹ فائنڈنگ مشن یا دیگر تحقیقاتی ادارے کی غزہ پٹی تک بلا رکاوٹ رسائی کو یقینی بنائیں-اقوام متحدہ نسل کشی کے الزامات کی تحقیقات کرے‘‘-

مصری وزارت خارجہ کا کہنا تھاکہ:

’’مصر اسرائیل سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور سزا کے کنونشن اور بین الاقوامی انسانی قانون کے فریم ورک کے اندر اپنی قانونی ذمہ داریوں کی تعمیل کرے اور آئی سی جے کے جاری کردہ تمام عبوری اقدامات کو نافذ کرے، جو قانونی طور پر پابند اور قابل نفاذ تصور کیے جاتے ہیں، جیسا کہ وہ اعلیٰ ترین بین الاقوامی عدالتی ادارے کے ذریعے جاری کیے جاتے ہیں‘‘-

مزید کہا کہ:

’’مصر اس بات پر زور دیتا ہے کہ اسرائیل قابض طاقت کے طور پر غزہ کی پٹی میں بگڑتے ہوئے انسانی حالات کی مکمل قانونی ذمہ داری قبول کرے اور مصر اسرائیل سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے عالمی قوانین کی تمام دفعات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطینی عوام کو نشانہ بنانے، بھوک اور محاصرے پر مبنی اپنی منظم پالیسیاں بند کرے‘‘-

مالدیپ کے صدر محمد معیزو نے بھی اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ :

’’اسرائیل کو اس حکم پر عمل کرنا چاہیے اور رفح میں ناقابل بیان ظلم و بربریت کو فوری طور پر بند کرنا چاہیے-اسے انسانی امداد کے محفوظ راستے کی اجازت دینے کے لیے رفح کراسنگ کو بھی کھولنا چاہیے‘‘-

ملائیشیا کی وزارت خارجہ نے بھی آئی سی جے کے فیصلے پر ایک بیان جاری کیا:

’’ملائیشیا بین الاقوامی برادری پر زور دیتا ہے کہ وہ اضافی اقدامات کی تعمیل کیلیے اسرائیل پر دباؤ بڑھائے، کیونکہ ایسا کرنے میں ناکامی صرف بین الاقوامی قانون کے تقدس  کا مذاق اڑائے گی‘‘-

فلسطین کو تسلیم کرنے اور رملہ میں سفارت خانہ کھولنے کا اعلان:

جس دن اسپین، ناروے اور آئرلینڈ نے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کیا-اس سے قبل اکثر یورپی ممالک پہلے ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے تھے - ان میں ہنگری، پولینڈ،سویڈن، مالٹا، قبرص، رومانیہ، جمہوریہ چیک، سلوواکیہ اور بلغاریہ شامل ہیں-اسی دن کولمبیا کے صدر نے رملہ میں اپنا سفارتخانہ کھولنے کا اعلان کیا-

اختتامیہ:

عالمی عدالتِ انصاف کی بارہا مرتبہ رولنگ دینے کے باوجود مظلوم فلسطینیوں پر اسرائیلی جارحیت میں اضافہ انتہائی تشویش ناک ہے- اسرائیلی جارحیت میں بچوں، عورتوں، بزرگوں اور نوجوانوں کو کاٹا جا رہا ہے-بشمول غزہ اور رفح اکثر فلسطینی علاقے خاک کے ملبے بن چکے ہیں-اسرائیل کی اس کھلی جارحیت اور بربریت پر نام نہاد مہذب دنیا کی محض لفظی کلامی باتوں سے اسرائیل کے کانوں تک جوں بھی نہیں رینگتی ہے-عدل پر مبنی انصاف ہی اسرائیلی جارحیت کو روک سکتا ہے ورنہ انسانیت، یوگنڈا نسل کشی کے بعد کھلی آنکھوں سے  ایک بہت بڑی انسانی نسل کشی کی راہ دیکھ رہی ہے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر