یکم اگست 2024ءکومسلم انسٹیٹیوٹ نے نیشنل لائبریری، اسلام آباد میں ’’قومی ریاست، اسلام اور جمہوریت: پاکستان اور انڈونیشیا کے تناظر میں‘‘ کے عنوان سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا- چیئرمین نہضۃ العلماء انڈونیشیا، أولی الأبصار عبد الله نے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی- محققین، طلباء، دانشوروں، صحافیوں، سیاسی رہنماؤں، تھنک ٹینکس کے نمائندگان اور مختلف شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے سیمینار میں شرکت کی-
مقررین نے خیالات کا مختصر خلاصہ درج ذیل ہے:
آصف تنویر اعوان: مسلم انسٹیٹیوٹ، پبلک ریلیشنزآفیسر
اسلامی تعلیمات حکومت کی کسی خاص شکل کی بجائے ایک وسیع تر فلاحی ریاست کا خاکہ پیش کرتی ہیں- اسلام کے چاروں خلفائے راشدین کو مختلف طریقوں سے منتخب کیا گیا تھا- ان طریقوں کی بدولت معاشرے کی ضروریات کے مطابق نظام حکومت کےلیے مختلف اور متنوع ذرائع کو اختیار کیا گیا- اسلام نمائندگان کو اسلامی اقدار اور تعلیمات کے خلاف پالیسیاں بنانے کی اجازت نہیں دیتا- تاہم، خطرناک حالات میں اسلام حکام کو کچھ بنیادی قوانین پر رعایت کرنے کی اجازت دیتا ہے، لیکن یہ رعایت عام حالات میں نہیں دی جا سکتی- ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان اسلام کے دینی اصولوں پر قائم کی گئی، جو اس کے مختلف ثقافتوں، قبائل، ذاتوں اور نسلوں کے لیے متحد کرنے والی قوت کا کام کرتے ہوئے ایک قومی ریاست کی تشکیل ممکن بناتے ہیں- بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے جمہوریت کے تصور کو مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیا:
’’میرے ذہن میں ایک بنیادی اصول ہے، میری مراد مسلم جمہوریت کا اصول- میرا ماننا ہے کہ ہماری نجات ان سنہری اصولوں کی پیروی میں ہے، جوکہ ہمارے رویے کے متعلق ہم سب کے عظیم قانون ساز، پیغمبر اسلام حضرت محمد (ﷺ) نے مقرر کیے- آئیے ہم اپنی جمہوریت کی بنیاد ٹھوس اسلامی عقائد اور اصولوں پر رکھیں- ہمارے قادرِ مطلق نے ہمارے لیے تعلیم دی ہے کہ ’’حکومت کے معاملات میں ہمارے فیصلے بحث اور مشاورت سے طے ہونے چاہیں‘‘-
محترم رحمت ہندیارتا: انڈونیشیا کے قائم مقام سفیر
انڈونیشیا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریتوں میں سے ایک ہے، جس کی مستحکم معیشت ہے، جی 20 کی رکن ہے اور اس لیے ایک اہم سیاسی طاقت ہے جو معیشت اور تعاون کے ساتھ ساتھ امن اور سلامتی میں دنیا کیلئے اعلیٰ سطح کی خدمات سرانجام دینے کی جانب گامزن ہے- انڈونیشیا اور پاکستان دنیا کے سب سے بڑے مسلمان ممالک ہیں- دونوں برادر ملک جمہوریت کے بڑے خاندان کا حصہ بھی ہیں- دونوں ممالک کی اہم مماثلتیں مزید تعاون اور اشتراک عمل کا راستہ ہموار کرتی ہیں- ہمارے تعلقات ہمارے محترم بانیان صدر سوکارنو اور قائد اعظم محمد علی جناح کی عظیم وراثت پر مبنی ہیں- دو طرفہ تعلقات کی موجودہ جد و جہد دونوں ممالک کے لوگوں کیلیے فوری اور بڑھتی ہوئی اہمیت کی حامل ہے- ہماری تاریخی تعلقات کی لازوال داستان نوجوانوں کے لیے زیادہ پسندیدگی کا باعث ہوگی اگر ہم اسے اچھے اقتصادی تعلقات اور مضبوط عوامی روابط اور ٹھوس اقدامات کے ذریعے ان کیلیے مربوط بنائیں- انڈونیشیا دنیا میں امن پسند وجود اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنے والی تمام فریقین کا دوست ہے- اسی لیے انڈونیشیا کا سفارت خانہ پاکستان میں تمام فریقین کے ساتھ تعلقات اور تعاون بڑھانے کیلیے کھلا ہے- حال ہی میں، میں نے بلوچستان کا بھی دورہ کیا اور کوئٹہ میں مذہبی علماء سے ملاقات کی-
طارق عثمان حیدر: سابق سفیر
برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی کی تحریک، جس کی قیادت مسلم لیگ نے قائد اعظم محمد علی جناح کے زیر نگرانی کی، اس کی نظریاتی اساس نے پاکستان اور انڈونیشیا کے درمیان دوستی کی بنیاد رکھی- دوسری جنگ عظیم کے آخر میں، انڈونیشیا نیدرلینڈ کے قبضے میں تھا- مسلم لیگ نے برطانوی حکومت کو واضح کر دیا کہ مسلمان فوجیوں کو کسی بھی مسلمان ملک یا مسلمان لوگوں کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا- ڈچ حکومت نے برطانیہ سے انڈونیشیا کو دوبارہ فتح کرنے میں مدد کرنے کو کہا- برطانوی فوج میں تقریباً 700 مسلمان فوجیوں نے اپنی نوکریاں، خاندان اور پنشن انڈونیشیا کے لیے چھوڑ دی- یہ لوگ آزادی کی جنگ کے دوران انڈونیشیا میں موجود رہے- یہ مدد عوام سے عوام کی حمایت کے سطح کے ساتھ ساتھ قیادت کی سطح پر بھی قائم رہی، عظیم رہنما سوکارنو اور قائد اعظم محمد علی جناح کے درمیان قریبی دوستی تھی-
1965ء میں، صدر سوکارنو نے کراچی کی حفاظت کے لیے آبدوزیں اور ملک کی فضائی دفاع کو بھارت کے خلاف مضبوط کرنے کے لیے طیارے پیش کیے- یہ مثال انڈونیشیا کی پاکستان کے لیے حمایت اور محبت کی وسعت کو ظاہر کرتی ہے- سیاحت، تعلیم اور خاص طور پر تجارت، جو آج کے دو طرفہ تعلقات میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے، کے میدانوں میں ہمارے دو ممالک کے درمیان روابط کے بہت زیادہ امکانات ہیں- دونوں ممالک کے سفارت خانوں کو نئی نسل کے لیے مضامین شائع کرنے چاہئیں جن میں ان کو یاد کرایا جائے کہ دونوں ممالک کے درمیان کیا کام ہو رہا ہے اور ہمیں حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاکہ اس دوستی کی بنیادوں پر مزیدعلمی کام ہو سکے-
ڈاکٹر قبلہ ایاز:ایڈہاک ممبر شریعت اپیلٹ بنچ، سپریم کورٹ
انڈونیشیا میں قیام امن، تعلیم اور اخلاقی ترقی میں تعاون کے لحاظ سے نہضۃ العلماء کا نمایاں کردار ہے- سابق صدر اجوکو ودودو سمیت انڈونیشیا کے اسکالرز اور حکام کے ساتھ ذاتی بات چیت سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ انڈونیشیا کا افغانستان میں متضاد گروپوں کے درمیان خلیج کو ختم کرنے کا عزم قابل ستائش ہے- اس عزم کا اظہار انڈونیشیا کے رہنماؤں کی جانب سے اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کے ذریعے کیا گیا، جہاں پاکستان اور افغانستان کے اسکالرز نے علاقائی امن کے لیے انڈونیشیا کی لگن کو ظاہر کرتے ہوئے اپنے انڈونیشیا کے ہم منصبوں کے ساتھ بات چیت کی- ایک اہم لمحہ انڈونیشیا کی خواتین کی معروف یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی جانب سے افغان لڑکیوں کو اسلامی اور سماجی اصولوں میں تعلیم دینے کی پیشکش تھی، جس میں خواتین کی تعلیم پر انڈونیشیا کے ترقی پسند موقف کو اجاگر کیا گیا تھا-
نہضۃ العلماء تعلیم، صحت، بہبود، شہری احساس اور اخلاقی ترقی کو ترجیح دیتی ہے، خاص طور پر نوجوانوں میں- حکمرانی پر یہ بالواسطہ اثر نمایاں رہا ہے، جس کی مثال سابق صدر عبدالواحد جیسی شخصیات کی شمولیت سے ملتی ہے- مسلم دنیا کے تنازعات سے دور انڈونیشیا کی جغرافیائی حیثیت اسے امت کو متحد کرنے اور بین الاقوامی تنازعات کے حل میں منفرد اور فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی اجازت دیتی ہے- اپنے غیر جانبدارانہ موقف کے پیش نظر، انڈونیشیا مسلم ممالک کے درمیان اعتماد کا نام ہے، اسے مسلم دنیا کا ایک ممکنہ جنیوا قرار دیتا ہے، جو پورے خطے میں اتحاد اور امن کو فروغ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے-
احمر بلال صوفی:سابق وفاقی وزیر قانون، صدر قر آ ن کووننٹ ریسرچ سنٹر
قرآن حکیم میں ایسےمیثاق موجود ہیں جو نہ صرف تاریخی بلکہ روزمرہ اور بین الاقوامی معاہدات پر بھی راہنمائی کرتے ہیں جنہیں مسلمانوں کو برقرار رکھنا ضروری ہے اور قانون سازی کے عہد بھی شامل ہیں- زمین کا ہر قانون ریاست اور فرد کے درمیان ایک سماجی معاہدہ ہے جس کا احاطہ قرآن مجید میں الفاظ ’’میثاق‘‘ اور ’’اخوت‘‘ کی تعریف میں کیا گیا ہے- قرآن ان قواعد پر سختی سے زور دیتا ہے، مسلمانوں کے لیے مشترکات کی نشاندہی کرنے اور اپنے ملک میں قانون کو اپنے عقیدے کے ایک پہلو کے طور پر برقرار رکھنے کے لیے آسان بناتا ہے- ہر مسلمان پر یہ فرض ہے کہ وہ قرآن مجید کےحکم کے مطابق تمام ’’میثاق‘‘ کو برقرار رکھے، خواہ وہ تجارت کا نجی معاہدہ ہو یا کوئی اور- آقا کریم (ﷺ) نہ صرف قانون ساز تھے بلکہ بین الاقوامی قانون پر عمل کرنے والے بھی تھے، جیسا کہ انہوں نے اثر و رسوخ پیدا کرنے کیلیے معاہدوں کا مسودہ تیار کیا، ان پر عمل درآمد کیا اور استعمال کیا- بدقسمتی سے امت مسلمہ میں رسول اللہ (ﷺ) کی سنت کے اس پہلو کو نظر انداز کر دیا گیا ہے- ہم بین الاقوامی مذاکرات اور فورمز، جیسے کہ اقوام متحدہ، جہاں شوریٰ (مشاورت) ہوتی ہے، میں شرکت کرنے میں ناکام رہتے ہیں- یہ فورمز ارتکاز اورتبادلہ خیال کے مرکز بن چکے ہیں-
بحیثیت مسلمان، ہمیں ہوش مندی سے تعاون کرنے اور عالمی فورمز میں یکساں حکمت عملی کے ساتھ شرکت کرنے کی ضرورت ہے- ہمیں معاہدہ اور مذاکرات کے فن میں مہارت حاصل کرنی چاہیے اور ہمیں دیگر اقوام کے برابر آنے کے لیے مہارت پیدا کرنی چاہیے- اگر ہم قانون کے حکم کو پورا کرتے ہیں، تو ہم بالآخر قرآن مجید کے حکم کو پورا کرتے ہیں، اس لیے مسلمانوں کو ریاست کے لیے ’عمل صالح‘‘انجام دینے چاہییں-
مہمان خصوصی :
أولی الأبصار عبد الله: چیئرمین نہضتہ العلماء ، انڈونیشیا
اگرچہ ہم بہت دور ہیں، ہماری مشترکہ صوفی روایات ہمیں اکٹھا کر دیتی ہیں- ان روحانی طریقوں نے ہماری ثقافتوں اور مذاہب پر گہرا اثر ڈالا ہے- تصوف کی پاکیزگی اور حکمت کی تعلیمات پوری دنیا کے لوگوں کو چھوتی ہیں، سرحدوں کو عبور کرتی ہیں اور ہمیں ایک مشترکہ بصیرت کے ساتھ متحد کرتی ہیں- میں ان صوفی مبلغین کو بھی خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے انڈونیشیا میں اسلام پھیلایا- امن، رواداری اور روحانیت کو فروغ دینے میں ان کے کام کا انڈونیشیائی معاشرے پر دیرپا اثر پڑا ہے-
سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ممالک کی حیثیت سے پاکستان اور انڈونیشیا پر ایک بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے- ہمیں اسلام کی حقیقی تصویر کو برقرار رکھنا اور دکھانا چاہیے- گزشتہ دو دہائیوں میں، انڈونیشیا میں 6 پُر امن، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوئے ہیں- یہ انڈونیشیا کے سیاسی نظام کی مضبوطی اور پختگی کو ظاہر کرتا ہے- انڈونیشیا کا تجربہ ثابت کرتا ہے کہ اسلام اور جمہوریت ایک ساتھ رہ سکتے ہیں، یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسلامی اقدار جمہوری اصولوں کے ساتھ اچھی طرح چل سکتی ہیں- اکثر یہ سوال ہوتا ہے کہ کیا قومیت اور اسلام ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں؟ علماء اور رہنماؤں کی حکمت پر مبنی ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ کر سکتے ہیں- جب قومیت انصاف، مساوات اور ہمدردی پر مبنی ہو تو یہ اسلام سے مطابقت رکھتی ہے- ہمارے بانیوں اور روحانی رہنماؤں کی طرف سے ایک قومی ریاست کے وژن میں تنوع شامل ہے، اتحاد کو فروغ دیتا ہے اور تمام شہریوں کے لیے ربط کا احساس پیدا کرتا ہے- پاکستان اور انڈونیشیا مسلم دنیا اور اس سے آگے کیلیے اہم سبق پیش کرتے ہیں- ہمارا مشترکہ ورثہ، جمہوری اقدار سے وابستگی اور اسلام پر ایمان ایک منصفانہ اور خوشحال مستقبل کی مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے- بات چیت، باہمی احترام اور تعاون، مسائل پر قابو پانے اور ہر ایک کیلئے روشن مستقبل کی تعمیر کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں-
پروگرام کے اختتام پر شرکاء نے معزز مہمانانِ گرامی سے تبادلۂ خیال کیا اور ملک کاشف نے مسلم انسٹیٹیوٹ کی جانب سے، تمام معززین شرکاء کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا-
٭٭٭