پاکستان - افغانستان تعلقات موجودہ تناظر میں

پاکستان - افغانستان تعلقات موجودہ تناظر میں

پاکستان - افغانستان تعلقات موجودہ تناظر میں

مصنف: محمد محبوب اکتوبر 2024

ابتدائیہ:

کسی بھی ملک کی جیو سٹریٹیجک لوکیشن اس کی جیو پولیٹکل اور جیو اکنامک اہمیت کا باعث بنتی ہے- مملکت خداداد پاکستان کا جغرافیائی محلِ وقوع اس کی خطے اور عالمی دنیا میں اہمیت بڑھاتا ہے- پاکستان کے ہمسایہ ممالک میں افغانستان کی نہ صرف پاکستان کے ساتھ طویل مشترک سرحد ہے بلکہ اسے ایک اسلامی ملک اور جغرافیہ کے سبب خاصی اہمیت حاصل ہے- اس خطے میں بسنے والے لوگوں کے آپس میں صدیوں پرانے تاریخی، مذہبی، سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی اور ثقافتی تعلقات قائم ہیں- حتیٰ کہ قیامِ پاکستان کے بعد بھی لوگوں کے درمیان باآسانی سرحد پار آمد و رفت جاری ہے-دونوں ممالک کی بین الاقوامی سرحد تقریباً 2640 کلو میٹر طویل ہے اور یہاں سے روزانہ ہزاروں لوگ تجارت، ملازمت، صحت کی خدمات اور دیگر ضروریات کے لئے آر پار آتے جاتے ہیں- پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں کئی معاشی اور سماجی پہلو شامل ہیں جن کا تجزیہ مختلف زاویوں سے کیا جا سکتا ہے- زیر نظر مضمون میں ہم دو طرفہ تعلقات کی اہمیت اور اس میں حائل ہونے والے مسائل کے ساتھ ساتھ وسعت اور اشتراک کے امکانات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے-

پاکستان اور افغانستان کے مابین بارڈر کراسنگ پوائنٹس:

پاکستان اور افغانستان کے مابین 8 باضابطہ سرحدی گزر گاہیں موجود ہیں جن میں طورخم کے علاوہ چمن اور اسپن بولدک کو بین الاقوامی حیثیت حاصل ہے- باقی 6 کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دو طرفہ ہیں-جن میں ارندو، (چترال)، گرسال (باجوڑ)، ناوا پاس (مہمند)، خرلاچی (کرم)، غلام خان (شمالی وزیرستان)، انگور اڈا (جنوبی وزیرستان) اور چمن (بلوچستان)شامل ہیں-

روزانہ سرحد پار کرنے والے افراد:

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد روزانہ کی بنیاد پر بڑی تعداد میں لوگوں کی نقل و حرکت کا مشاہدہ کرتی ہے- تحقیق کے مطابق روزانہ ہزاروں افراد پاک افغان سرحد باقاعدہ طور پہ عبور کرتے ہیں اور ماہانہ یہ تعداد تقریباً 3 لاکھ 85ہزار تک چلی جاتی ہے-[1]مختلف ذرائع کے مطابق رسمی اور غیر رسمی سرحدی راستوں کو شامل کر کے چمن اور طورخم کے دو بڑے سرحدی مقامات سے اوسطاً روزانہ تقریباً 10,000 سے 20,000افراد سرحد پار کرتے ہیں- جن میں مریض، تاجر، سیاح اور ٹرانسپورٹرز شامل ہیں- اگر ہم انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف مائیگریشن کی گزشتہ دو سال( اگست 2021 تا اگست 2023) کی رپورٹ کا جائزہ لیں تو اس عرصہ میں لاکھوں لوگ افغانستان سے پاکستان میں آئے- انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف مائیگریشن کے اعداد و شمار کے مطابق دو سال کے دوران 6.68 ملین افراد نے افغانستان سے پاکستان کی طرف سرحد پار سفر کیا اور 6.13 ملین افراد نے پاکستان سے افغانستان میں سرحد پار سفر کیا- ان میں سے قریباً 79 فیصد افرادکی نقل و حرکت اسپن بولدک کے ذریعے ہوتی ہے-[2] اس کے مقابلے میں، پاکستان-ایران، پاکستان-چین اور بھارت-بنگلہ دیش جیسے بارڈرز پر سرحدی نقل و حرکت اتنی وسیع نہیں- بھارت-نیپال اور بھارت-بھوٹان جیسے ممالک کے درمیان بھی سرحد پر نقل و حرکت ہوتی ہے لیکن وہ بھی اتنی بڑی تعداد میں نہیں جتنی پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر ہوتی ہے-

یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے لوگوں کے درمیان گہرے معاشرتی اور تجارتی تعلقات ہیں- یہ تعلقات سیاسی اور عالمی سطح پہ موجود مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں-

افغانستان کی پاکستان کے ساتھ سالانہ تجارت کا تقابلی جائزہ :

افغانستان کے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ سالانہ تجارتی تعلقات اور حجم کو دیکھا جائے تو سال 2023ء میں افغانستان اور ترکمانستان کے درمیان 481 ملین ڈالر کی تجارت ہوئی-[3]اسی عرصہ کےدوران ازبکستان سے افغانستان کو درآمدات 239 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں، جبکہ افغانستان کی طرف سے 27 ملین ڈالر برآمدات ہوئی- دونوں ممالک کے درمیان مجموعی تجارتی حجم 266 ملین ڈالر رہا-[4]افغانستان کو ایران کی برآمدات کل تقریباً 2 بلین ڈالر سالانہ ہیں، اس کے برعکس ایران کو افغانستان کی سالانہ برآمدات صرف 30ملین ڈالر ہیں-[5]اسی طرح پاکستان، افغانستان کے سب سے بڑے تجارتی شراکت داروں میں شامل ہے اور مالی سال 2023ء میں دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت 1.86 بلین ڈالر تک پہنچ چکی تھی-[6] پاکستان اور افغانستان کے تجارتی تعلقات کو ایک عبوری انتظام کے ذریعے منظم کیا جاتا ہے جسے 2010ء میں افغانستان-پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ارینجمنٹ (APTTA) کے نام سے جانا جاتا ہے اگر پچھلے 10 سے 15 برس کا جائزہ لیں تو 2010ء اور 2020ء کے درمیان، پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی حجم کم ہوتے ہوئے 870 ملین ڈالر تک آگیا تھا-پاکستان اور افغانستان کی طویل مشترکہ سرحد اور لوگوں کی آمد و رفت کے سبب دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو وسیع کرنے کے بہت سے مواقع موجود ہیں- ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان (TDAP) کی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ، پاکستان کے لیے، افغانستان ایک ایسی مارکیٹ ہے جسے موجود مواقع کے مقابلے میں بہت کم استعمال کیا گیا ہے- تجارت کی مجموعی صلاحیت 20 بلین ڈالر سے کم نہیں ہے-[7]بلا واسطہ زمینی راستوں کی دستیابی کے سبب مال کی ترسیل نسبتاً سستی اور تیز ہوتی ہے- پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی تعلقات دونوں ممالک کے درمیان سیاسی اور سفارتی تعلقات کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں- معاشی ترقی اور خوشحالی کے ذریعے خطے میں امن و امان کو فروغ دیا جا سکتا ہے-مزیدبرآں پاکستان افغانستان کو سمندری راستے تک رسائی فراہم کرتا ہے- کراچی اور گوادر کی بندرگاہیں افغانستان کی درآمدات اور برآمدات کیلئے اہم ہیں- کامیاب تجارتی راستے دونوں ممالک کی معیشتوں کو فروغ دیتے ہیں- پاکستان کیلئے افغانستان وسطی ایشیاء تک پہنچنے کا دروازہ ہے، جبکہ افغانستان پاکستان کی بندرگاہوں تک رسائی حاصل کرتا ہے-تجارتی راستے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں اعتماد اور ہم آہنگی کو بڑھانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں، جو دونوں ممالک کے درمیان دیگر سیاسی و سماجی مسائل کے حل میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں-

تاپی گیس پائپ لائن منصوبہ:

تاپی گیس پائپ لائن منصوبہ (TAPI Pipeline Project) ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت کے درمیان قدرتی گیس کی فراہمی کے لیے ایک بین الاقوامی گیس پائپ لائن منصوبہ ہے- اس منصوبے کا مقصد ترکمانستان کے گیس کے ذخائر کو افغانستان، پاکستان اور بھارت تک پائپ لائن کے ذریعہ پہنچانا ہے- ایشین ڈویلپمنٹ بنک کی دستاویزات کے مطابق، تاپی منصوبے کے تحت آئندہ 30 برس میں ترکمانستان سے 33 ارب کیوبک میٹر قدرتی گیس افغانستان کے راستے سے پاکستان اور بھارت کو فراہم کی جائے گی-[8]

افغانستان اور پاکستان میں توانائی کی ضرورت معاشی ترقی میں ایک بڑا چیلنج ہے- یہ منصوبہ دونوں ممالک کی گیس کی ضروریات پوری کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے- افغانستان کی وزارت پیٹرولیم کے مطابق تاپی منصوبے کے تحت ابتدائی طور پر 400ملین ڈالر کی سرمایہ کاری آئے گی، جس سے ہزاروں لوگوں کو روزگار فراہم کیا جائے گا- افغان حکومت کے ترجمان کے مطابق پائپ لائن منصوبہ اور ذیلی منصوبوں سے افغانستان میں12000 ملازمتیں پیدا ہوں گی اور آمدنی  میں  ایک ارب ڈالر سے زیادہ  کا اضافہ ہوگا-[9]

پہلے 10 برس افغانستان کو منصوبے سے 500 ملین کیوبک فٹ گیس ملے گی، جبکہ اگلے 10 برس میں یہ مقدار بڑھ کر ایک ارب کیوبک فٹ ہو جائے گی- تیسری دہائی میں افغانستان کو ڈیڑھ ارب کیوبک فٹ گیس فراہم کی جائے گی جس سے گیس سے چلنے والی صنعتوں کو خاطر خواہ فائدہ ہوگا- اس سے صنعتی اور گھریلو صارفین کے لیے گیس کی فراہمی ممکن ہو گی جس سے اقتصادی ترقی میں بہتری آئے گی اور ملک کی معیشت اور ترقی پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے- اس منصوبے سے افغانستان میں اقتصادی ترقی کے نئے مواقع پیدا ہوں گے- پائپ لائن کی تعمیر اور دیکھ بھال کے لیے روزگار کے مواقع فراہم ہوں گے، جبکہ افغانستان کو ٹرانزٹ فیس بھی حاصل ہو گی- افغان میڈیا کے مطابق پاکستان اور بھارت گیس کی ترسیل کا 42 فیصد اور افغانستان 16فیصد خریدیں گے جبکہ کابل کو ہر سال ٹرانزٹ فیس سے تقریباً 50 کروڑ ڈالر کا فائدہ ہو گا- تاپی منصوبہ پاکستان افغانستان تعاون اور اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانے میں مدد دے گا- افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعاون سے امن اور استحکام میں بہتری آنے کی توقع کی جا سکتی ہے -

اس منصوبے سے پاکستان اور افغانستان کو تاپی منصوبے سے بین الاقوامی توانائی کی راہداریوں کا حصہ بننے کا موقع ملے گا، جو دونوں ممالک کے لیے عالمی سطح پر اہمیت کا حامل ہو سکتا ہے- پاکستان اور افغانستان میں بین الاقوامی سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں، کیونکہ توانائی کے شعبے میں بہتری سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھتا ہے-افغانستان اور ترکمانستان کے اعلیٰ حکام کی موجودگی میں ستمبر 2024ء میں تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کے افغانستان سیکشن کے تعمیراتی کام کا افتتاح کیا گیا ہے جو کہ خوش آئند ہے- تاپی منصوبہ مختلف ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون پہ انحصار پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ علاقائی کشیدگیوں میں کمی اور کشمیر و جوناگڑھ سمیت متنازعہ مسائل کے حل کا سبب بن سکتاہے- بھارتی دانشوروں اور پالیسی سازوں کو یہ ادراک کر لینا چاہیئے کہ پاکستان سے اچھے تعلقات اور دیرینہ مسائل کے حل کے بغیر وہ وسطی ایشیا میں موجود قدرتی وسائل تک آسان رسائی حاصل نہیں کر سکتے - چنانچہ تاپی منصوبہ پاکستان اور افغانستان کے لیے نہ صرف توانائی کے مسائل کے حل میں مددگار ثابت ہو گا بلکہ علاقائی استحکام کے لیے بھی ایک اہم منصوبہ سمجھا جا رہا ہے-

سلامتی اور امن و امان کا پہلو:

باہمی تعاون اور اشتراک کے وسیع تر امکانات ہونے کے باوجود بدقسمتی سے پاکستان اور افغانستان کے مابین سیاسی سطح پہ وقتاً فوقتاً مختلف مسائل سامنے آتے رہے ہیں- افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے سے قبل پاکستان اور افغانستان کے درمیان دہشتگردی خصوصاً بھارت کا افغانستان کی سرزمین کو دہشت گردانہ کاروائیاں کیلئے استعمال میں لانا باعثِ تشویش رہا ہے- چنانچہ طویل سرحد پہ نقل و حرکت کو باقاعدہ ریکارڈ پہ لانے اور غیر قانونی نقل و حرکت کو روکنے کیلئے حکومت اور افواج پاکستان نے اپنی کاوشوں سے افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحد پر باڑ لگانے کا عمل شروع کیا - ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق سرحد پر اپریل 2023ء تک، % 98باڑ اور 85% قلعہ بندی مکمل ہو ئی-[10]

 15 اگست 2021ء کو افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے پر پاکستان میں وسیع پیمانے پر یہ سوچ غالب تھی کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان کی سر زمین سے پاکستان کو درپیش خطرات میں کمی ہوگی جس سے پاکستان کی اندرونی سلامتی بہتر ہوگی اور طالبان حکومت کا قیام خطے میں امن و استحکام لائے گا- لیکن گزشتہ تین برسوں کے دوران یہ توقعات پوری نہیں ہو پائیں -اگرچہ بھارت کے نام نہاد قونصل خانے جو دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہے تھے، ان کی کارروائیاں اب پہلے کی طرح ممکن نہیں رہیں تاہم پاکستان میں دہشت گردی کے مسائل اب بھی جاری ہیں-

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں گزشتہ کچھ عرصہ میں اضافہ دیکھا گیا ہے-

یہ ایک حقیقت ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے لوگوں میں  عوامی سطح پہ اچھے تعلقات قائم ہیں- تاہم عالمی منظر نامے اور مختلف سیاسی وجوہات کے سبب یہ تعلقات دونوں ممالک میں سیاسی و سفارتی سطح پہ اچھے تعلقات میں نہیں ڈھل سکے- دونوں طرف کی قیادت کو اس بات کا ادراک کرنا ہو گا کہ افغانستان کا معاشی استحکام اور خطے میں امن و امان باہمی تعلقات میں بہتری کے بغیر ممکن نہیں-[11] چنانچہ پاکستان کو افغان پناہ گزینوں اور افغانستان کو پاکستان میں دہشت گردی جیسے مسائل کو باہمی افہام و تفہیم کے ذریعے حل کرنا چاہئے- ایسے میں دانشوروں، محققین اور میڈیا پہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ طرفین کے تعلقات کے مثبت پہلو اجاگر کریں جو اعتماد کی فضا پیدا کرنے مزید بہتر کردار ادا کریں-

اختتامیہ :

 دونوں ممالک کی عوام کے مابین تعلقات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ تمام تر مسائل اور عالمی منظر نامے کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں- پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہتر تعلقات دونوں ممالک کی ترقی اور امن کیلئے بھی ناگزیر ہیں- افغانستان کی ترقی پاکستان کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں، کیونکہ پاکستان افغانستان کو جغرافیائی اور تجارتی طور پر بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی فراہم کرتا ہے- اسی طرح، پاکستان کیلئے افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات امن کے قیام اور وسطی ایشیا کے قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانے کیلئے ضروری ہیں- افغانستان کے استحکام اور ترقی سے پاکستان کو بھی علاقائی استحکام اور اقتصادی فوائد حاصل ہوں گے-اگر دونوں ممالک کے درمیان سیاسی سطح پہ کشیدگی برقرار رہتی ہے، تو اس سے دہشت گردی، منشیات کی اسمگلنگ اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے دونوں ممالک کی معیشت اور سکیورٹی کو نقصان پہنچتا ہے-

٭٭٭


[1]Figures are quoted in article https://dunya.com.pk/index.php/author/dr.-talat-shabbir-/2023-04-01/43415/85676238

[2]Afghanistan Cross-Border Mobility Report, Two Years of Mixed Migration in Review 15 August 2021 - 15 August 2023 https://roasiapacific.iom.int/sites/g/files/tmzbdl671/files/documents/2024-02/05022023_afg_2y_cross-border-mobility-report.pdf

[3]Afghanistan-Turkmenistan Trade Reached $481M in 2023: Officialshttps://tolonews.com/business-186972

[4]Trade between Afghanistan and Uzbekistan in 2023 increased sixfold year-on-year https://eurasianet.org/afghanistan-reports-sixfold-increase-in-trade-with-uzbekistan

[5]https://caspiannews.com/news-detail/iran-afghanistan-discuss-expansion-of-trade-and-economic-ties-2024-3-15-0/

[6]https://mofa.gov.pk/afghanistan

[7]Trading For Stability: Why Pak-Afghan Ties Should Pivot to Economics

https://tribune.com.pk/story/2439928/trading-for-stability-why-pak-afghan-ties-should-pivot-to-economics

[8]https://www.independenturdu.com/node/175755

[9]https://amp.dw.com/ur

[10]https://www.dawnnews.tv/news/1201485

[11]https://www.nawaiwaqt.com.pk/06-Sep-2024/1822792

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر