برصغیر کی شاہی ریاستیں اور تاج برطانیہ کی پالیسیوں کا جائزہ (حصہ اول)

برصغیر کی شاہی ریاستیں اور تاج برطانیہ کی پالیسیوں کا جائزہ (حصہ اول)

برصغیر کی شاہی ریاستیں اور تاج برطانیہ کی پالیسیوں کا جائزہ (حصہ اول)

مصنف: محمد محبوب نومبر 2024

ابتدائیہ:

برصغیر کی شاہی ریاستیں اور ان کے متعلق بنائی گئی تاج برطانیہ کی پالیسیاں ایک پیچیدہ اور تاریخی اہمیت کا حامل موضوع ہے، جو کہ ہندوستانی تاریخ کے اہم دور کا احاطہ کرتا ہے- برصغیر کی شاہی ریاستیں، وہ خودمختار یا نیم خودمختار علاقے تھے جو مغل سلطنت کے زوال کے بعد وجود میں آئے- ان ریاستوں کے حکمران مختلف مذاہب، زبانوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی حکومتیں علاقائی نوعیت کی تھیں-

جب برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے اٹھارویں صدی میں ہندوستان پر قبضہ جمانا شروع کیا، تو انہوں نے ان شاہی ریاستوں کے ساتھ مختلف معاہدے کیے تاکہ اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کا تحفظ کیا جا سکے- ان معاہدوں کے تحت، ریاستوں کی داخلی خودمختاری کو محدود کر دیا گیا، جبکہ ان کی خارجی اور دفاعی امور پر برطانوی حکومت کا کنٹرول بڑھ گیا-

شاہی ریاستوں کے حکمرانوں کو برطانوی اعزازات، خطاب اور مالی امداد دی جاتی، جس سے ان کی وفاداری حاصل کی جاتی تھی- لیکن دوسری طرف، برطانوی حکومت ان ریاستوں کے معاملات میں مداخلت بھی کرتی تھی، خصوصاً جب کوئی حکمران برطانوی مفادات کے خلاف کام کرتا یا عوام میں بغاوت کی فضا پیدا ہوتی-

برطانوی پالیسیوں کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ انہوں نے ریاستوں کے حکمرانوں کو اپنے اقتدار میں برقرار رکھا، مگر انہیں اپنے قبضہ کو طول دینے کے لئے مفادات کے تابع کر دیا- اس طرح، برطانوی حکومت نے ان ریاستوں کو ایک حلیف کے طور پر استعمال کیا تاکہ برصغیر میں اپنی گرفت مضبوط رکھ سکے-

زیر نظر مضمون، مختلف اقساط پر مشتمل مضامین کا پہلا حصہ ہے جو برصغیر کی شاہی ریاستوں اور تاج برطانیہ کی پالیسیوں کے باہمی تعلقات اور ان کے ہندوستانی معاشرت، معیشت اور سیاست پر مرتب ہونے والے اثرات کا ایک جامع جائزہ فراہم کرے گا- آنے والی اقساط میں ہم برصغیر کی آزادی کے وقت برطانوی پالیسیوں کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ اور کانگریس کے ردّ عمل کا جائزہ بھی لیں گے- اس کے علاوہ برطانوی ہند میں آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی شاہی ریاستوں سے متعلق پالیسی کا جائزہ بھی پیش کریں گے-

شاہی ریاستوں کی تاریخ :

آخری طاقتور مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد 1707ء میں مغلیہ سلطنت کا زوال شروع ہوا- اس کے بعد اکثر معززین اور بااثر لوگوں نے ان علاقوں پر اپنی حاکمیت کا اعلان کر دیا جو ان کے زیر تسلط تھے-کچھ ریاستیں جنوبی ایشیا میں یورپی طاقتوں کی آمد سے بہت پرانی تھیں- زیادہ تر ریاستیں 18ویں صدی کے اوائل میں اپنی تاریخ کا سراغ لگاتی ہیں لیکن کچھ ریاستیں ان سب سے بھی زیادہ قدیم ہیں، جیسے میواڑ ریاست، جس کی تاریخ چھٹی صدی سے شروع ہوتی تھی- کچھ ریاستیں بالکل نئی بھی وجود میں آئیں جو قبل ازاں اس شناخت سے کبھی موجود نہیں تھیں جس طرح ریاست سوات کو 1926ء میں تسلیم کیا گیا تھا-

زیادہ تر ریاستیں ہندو اکثریت مثلاً جودھپور، مسلم اکثری مثلاً جموں و کشمیر اور سکھ اکثریتی آبادی پر مشتمل تھیں- تاہم، کچھ ریاستیں ایسی تھیں جہاں مسلمان حکمران، ہندو اکثریت پر حکومت کر رہے تھے اور اس کے برعکس- جیسے ، جوناگڑھ، بھوپال اورحیدرآباد وغیرہ- مغلیہ سلطنت کے ٹوٹنے کے بعد بتدریج یہ شاہی ریاستیں انگریزوں کے زیر تسلط اور بالادستی میں آئیں- [1]

برطانوی راج کے دوران شاہی ریاستوں کی حیثیت:

برطانوی نوآبادیاتی دور میں برصغیر کو بنیادی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا -[2] پہلا حصہ ان علاقوں پر مشتمل تھا جو براہ راست برطانوی راج کے ماتحت تھے- ان علاقوں پر برطانوی تاج کی حاکمیت تھی- یہ علاقے برطانوی ہندوستانی صوبے کہلاتے تھے جو کہ کل 11 کی تعداد میں تھے- دوسرا حصہ وہ قبائلی علاقہ تھا، جہاں انگریزوں نے ان علاقوں کے رہائشیوں کے ساتھ معاہدے کیے تھے- برطانوی ہند کا تیسرا حصہ بہت اہم تھا جو کہ 562 سے زیادہ چھوٹی بڑی شاہی ریاستوں پر مشتمل تھا-

برطانوی ہند[3] کے صوبے اور قبائلی علاقے برصغیر کا 60 فیصد حصہ بناتے تھے جبکہ شاہی ریاستیں کل علاقے کا 40 فیصد تھیں- اسی طرح ان کی آبادی کل آبادی کا ایک چوتھائی تھی- ان علاقوں کی یہ تقسیم انتظامی بنیادوں پر تھی-

شاہی ریاستیں (Princely States) وہ نیم خود مختار ریاستیں تھیں جو برطانوی ہند کے دور میں موجود تھیں- یہ ریاستیں عام طور پر برطانوی سلطنت کے تحت آتی تھیں لیکن اندرونی معاملات میں انہیں خودمختاری حاصل تھی- ان ریاستوں میں انگریز براہ راست حکومت میں نہیں تھے- ان ریاستوں کے حکمرانوں کو راجہ، نواب، مہاراجہ، یا دیگر القابات سے جانا جاتا تھا اور وہ برطانوی حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت اپنے علاقوں پر حکومت کرتے تھے- برطانوی راج کے دوران شاہی ریاستوں کے حکمرانوں کو ان کی وفاداری اور خدمات کے اعتراف میں مختلف القابات دیے جاتے تھے- موثر مسلمان شخصیات کو ’’خان بہادر‘‘ اور  سکھ یا ہندو شخصیات کو ’’رائے بہادر‘‘ اور اعلیٰ انتظامی خدمات پر ’’دیوان بہادر‘‘ کا لقب ملتا تھا- بڑی ریاستوں کے حکمرانوں کو ’’اعلیٰ حضرت‘‘ (His Highness) کے طور پر مخاطب کیا جاتا اور نمایاں شخصیات کو ’’سر‘‘ کا خطاب بھی دیا جاتا تھا- برطانوی سلطنت ان اعزازات کے ذریعے نہ صرف حکمرانوں کی عزت افزائی کرتی بلکہ اپنے سیاسی تعلقات کو مستحکم بھی کرتی تھی-

یہ ریاستیں برطانوی حکومت کے ساتھ تعلقات برقرار رکھتی تھیں اور بعض اوقات اپنے علاقوں کے دفاع اور دیگر امور میں برطانوی مدد حاصل کرتی تھیں- تاہم، خارجی امور اور دفاع جیسے اہم معاملات میں انہیں برطانوی حکومت کے زیر اثر رہنا پڑتا تھا- اٹھارہویں صدی میں مغل دور حکومت کے زوال کے بعد جب برصغیر پر ایسٹ انڈیا کمپنی نے قبضہ کیا تو ان ریاستوں نے سب سے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی اور پھر انگریزوں کے ساتھ معاہدے کیے- برصغیر پاک و ہند کی تقسیم سے پہلے ریاستوں کے تمام کاروبار اور معاملات انگریزوں کے ساتھ اور ریاستوں کے درمیان معاملات برطانوی ہند کے شعبہ سیاسیات کے ذریعے کیے جاتے تھے-

مؤرخ H.V Hodson کے مطابق ان ریاستوں کے شہری انگریزوں کے تابع نہیں تھے- بین الاقوامی سطح پر ان کی حیثیت برطانوی تحفظ یافتہ افراد ( British Protected Persons)  جیسی تھی-[4] دراصل، شاہی ریاستیں ایک مقامی یا علاقائی حکمران کے تحت بادشاہتیں تھیں- اس لئے یہ ریاستیں ہمیشہ کسی بڑی طاقت کے ساتھ ذیلی اتحاد( Subsidiary Alliance )کے تحت رہی ہیں- برصغیر میں انگریز کے آنے کے بعد ان ریاستوں کے حکمرانوں نے انگریزوں کے ساتھ معاہدات کر لئے-آہستہ آہستہ  یہ ریاستیں برطانوی طاقت اور ان کے زیر تسلط آگئیں-

برطانوی پالیسیوں کا بتدریج ارتقاء :

تاریخی طور پر، ان ریاستوں کے بارے میں برطانوی پالیسیاں چار مختلف مراحل میں تیار ہوئیں- پہلا مرحلہ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ابتدائی دور حکومت کا ہے- اس دوران نافذ کی جانے والی پالیسوں کا بنیادی مقصد کمپنی کی تجارت اور تجارتی راستوں کی حفاظت تھی-

پہلے مرحلے کے دوران :

British power did not pretend to any general Suzerainty, nor aim to extend its alliances with the indigenous monarchies beyond its immediate territorial and military needs”.[5]

’’برطانوی راج نے کسی بھی (ریاست پر) نہ تو عمومی تسلط کا اظہار کیا اور نہ ہی مقامی لوگوں اور بادشاہتوں کے ساتھ علاقائی اور فوجی ضروریات سے بالاتر اپنے اتحاد کو بڑھایا‘‘ -

جب مارکیسلے برطانوی ہندوستان کا گورنر جنرل بنا تو Pitt's India Act 1784  کے تحت اسے مکمل اختیارات سونپے گئے، بلکہ اسے مکمل طاقت حاصل تھی- اس دوران شاہی ریاستوں کے متعلق برطانوی پالیسی کا دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے- اس مرحلے کے دوران پورے ہندوستان میں برطانیہ ’’پیراماؤنٹ پاور‘‘ کے طور پر ابھرا-

تاہم، برطانوی کے ساتھ یہ ریاستیں مختلف معاہدوں میں داخل ہوئیں اور ذیلی اتحاد قائم کیا- ہندوستان میں برطانوی طاقت کا استحکام اور بحالی میں مقامی ریاستوں کے نوابین نے اہم کردار ادا کیا تھا- [6]

ان ذیلی اتحادوں کے مطابق، جن ریاستوں نے انگریزوں کے ساتھ اتحاد کو قبول کیا تھا، ان کو اس بات کی اجازت نہیں تھی کہ کمپنی کے علم میں لائے بغیر اور بغیر رضامندی کے جنگیں کریں اور غیر ملکی طاقتوں سے مذاکرات کریں- ریاستوں کے اندر امن عامہ کے تحفظ اور اس کو برقرار رکھنے کے لیے بڑی بڑی شاہی ریاستوں کو برطانوی افسران کے زیر کمان فوج رکھنے کی اجازت دی گئی تھی-

تاہم، چھوٹی ریاستوں کو بیرونی جارحیت اور اندرونی بغاوت سے تحفظ کے لیے برطانیہ کو خراج پیش کرنا ہوتا تھا- ہر ریاست کے دارالحکومت میں، ایک برطانوی  ریذیڈنٹ آفیسر لگایا گیا تھا جو گورنر جنرل اتھارٹی کی نمائندگی کرتا تھا- یہ پالیسی 1823ء تک جاری رہی- اس مرحلے کے دوران ریاستوں کی ایک بڑی تعداد برطانوی تسلط  میں داخل ہوئیں -[7]

ریاستوں کے حوالے سے برطانوی راج کی پالیسوں کا تیسرا مرحلہ بہت دلچسپ تھا- 1833ء کے چارٹر ایکٹ کے تحت کمپنی کا تجارتی کردار ختم کر دیا گیا اور انگریزوں نے حکومت ہند کے طور پر اس کے کام کرنے کی توثیق کی- تیسرے مرحلے کے دوران، انگریزوں نے نئے علاقوں کو فتح کیا اور اس پر منحصر ریاستوں کا بدانتظامی کا عذر پیش کر کے  ریاست کا قدرتی وارث نہ ہونے کی بنیاد پر الحاق کرلیا- جسے ’’Doctrine of Lapse‘‘ کا نام دیا گیا-

1857ء کی جنگ کے بعد یہ مرحلہ ختم ہوا-[8] لارڈ کیننگ نے 1857ء کی جنگ میں ریاستوں کے کردار کو بھی سراہا- 1857ء کی جنگ کے بعد جب بدامنی اور بے یقینی کی صورتحال تھی، چوتھے مرحلے کا آغاز ملکہ وکٹوریہ کے 1858 کا اعلان سے ہوا- جو اس طرح بیان کرتا ہے کہ:

“We desire no extension of our present territorial possessions; and while we will permit no aggression upon our dominions or our rights to be attempted with impunity, we shall sanction no encroachment on those of others. We shall respect the rights, dignity, and honour of Native Princes as our own; and we desire that they as well as our own subjects should enjoy that prosperity and that social advancement which can only be secured by internal peace and good government”.[9]

’’ہم اپنے موجودہ علاقائی املاک میں توسیع نہیں چاہتے ہیں اور ہمارے زیر تسلط ( ریاستوں ) پر جارحیت جب کہ ہم اجازت نہیں دیں گے- یا نہ ہی ہمارے حقوق کو استثنیٰ کے ساتھ استعمال کرنے کی کوشش کی جائے گی- دوسروں کو ہم ان پر کوئی تجاوزات کی منظوری نہیں دیں گے- ہم حقوق، وقار اور عزت کا احترام کریں گے- ہمارے اپنے طور پر مقامی نوابوں کا اعزاز؛ اور ہم چاہتے ہیں کہ وہ بھی ہمارے اپنے باشندوں کی طرح اس خوشحالی اور اس سماجی ترقی سے بہرہ مند ہونا چاہئے جو صرف داخلی امن اور اچھی حکومت سے حاصل ہو سکتی ہے‘‘-

برطانوی ہند میں فلاحی حکومت کے قیام کے لیے ایکٹ کی آخری شق یہ بھی فراہم کرتی ہے کہ ’’کمپنی کی طرف سے جو تمام معاہدے کیے گئےحکومت  اس کی پابند ہو گی ‘‘-[10]

دو بڑی عالمی جنگوں کے دوران، ہندوستان کے شاہی ریاستوں نے پورے دل سے برطانوی راج کو دفاع کے لئے فوجی اور مالی امداد فراہم کی-[11] مثلاً، پہلی جنگ عظیم کے موقع پر حیدر آباد کی ریاست نے اپنے خزانے سے خطیر رقم برطانوی حکومت کو فراہم کی اور جنگی اخراجات کے لیے چندہ دیا- دیگر ریاستوں، جیسے میسور اور پٹیالہ، نے بھی برطانوی فوج کی مدد کے لیے اپنی افواج فراہم کیں- اسی طرح دوسری جنگ عظیم میں ریاست جموں و کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنے فوجیوں کو برطانوی افواج میں شامل کیا، اور بیکانیر کے مہاراجہ نے بھی فوجی اور مالی امداد فراہم کی- اس کے علاوہ، شاہی ریاستوں نے برطانوی افواج کیلئے ہسپتال اور دیگر سہولیات بھی فراہم کیں-

1919ء کی مونٹیگو-چیمسفورڈ اصلاحات کا مقصد ہندوستان میں آئینی اصلاحات کے حوالے سے کام کرنے کے ساتھ ساتھ برطانوی ہندوستان اور شاہی ریاستوں کے درمیان تعلقات کو منظم کرتا تھا- 1919ء کی مونٹیگو-چیمسفورڈ اصلاحات ریاستوں میں جمہوریت لانا تھی- 1921ء کے دوران، ایک چیمبر آف پرنسز کے نام سے مشاورتی ادارہ قائم کیا گیا- سال میں ایک بار وائسرائے اور اس کی اپنی قائمہ کمیٹی کی صدارت میں سالانہ اجلاس ہوتا تھا-

اسی طرح 1928ء میں سر اسپینسر ہار کورٹ کے سرکردگی میں تین رکنی کمیٹی ریاستوں اور اعلیٰ طاقت کے درمیان تعلقات کی حیثیت جانچنے کے لیے تشکیل دی گئی- 1930ء کی دہائی کی اس پیچیدہ صورتحال کے دوران، یہ ہندوستانی ریاستوں کی قطعی حیثیت پر تازہ نظر ڈالنے کے لیے اس کا قیام ضروری سمجھا جاتا تھا-[12] بتدریج، گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء نے برطانوی ہندوستان کے صوبے میں ذمہ دار حکومت متعارف کرائی لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ شاہی ریاستیں اس مدار سے باہر رہیں- اس دوران شاہی ریاستیں اپنے داخلی معاملات میں اپنی خود مختاری کی طرح اپنی سابقہ حیثیت کو رکھتی رہیں- بٹلر کمیٹی کی سفارشات کے مطابق، ایکٹ نے گورنر کے طور پر وائسرائے کے اختیارات کو تقسیم کر دیا- وائسرائے کا کردار برطانوی ہند کے ساتھ تعلقات میں جنرل اور ریاستوں کے سلسلے میں شاہی نمائندہ تھا-

اختتامیہ:

زیر نظر مضمون میں مجموعی طور پر مختصراً ان پالیسیوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کے تحت شاہی ریاستوں کو اولاً اٹھارویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور بعد میں برطانوی راج کے زیر تسلط لایا گیا تھا- ان پالیسیوں کی وجہ سے ان ریاستوں کی عوام اور اس کے تشخص پر مختلف قسم کے اثرات مرتب ہوئے- اس ارتقائی مراحل کو پڑھنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے شاہی ریاستوں کی حیثیت ایک منفرد قسم کی تھی- برطانوی ہند سے الگ برطانوی راج اس کے معاملات کو دیکھا کرتا تھا- اس لئے تقسیم ہند کے دوران ان ریاستوں کے متعلق پالیسی بھی علیحدہ بنی تھی- جن کو آنے والے مضامین میں بیان کرنے کی سعی کی جائے گی- اس کے علاوہ ان پالیسیوں کے ارتقاء مراحل کا تذکرہ کرنے کے بعد اگلے مضامین میں تقسیمِ ہند کے وقت برطانوی پالیسیوں کا جائزہ پیش کیا جائے گا-

٭٭٭


[1]Yaqoob Khan Bangash, A Princely Affair The Accession And Integration Of The Princely States Of Pakistan 1947-1955, (Karachi: Oxford University Press).

[2]Farooq Ahmed Dar, Jinnah's Pakistan: Formation and Challenges of state, (Karachi: Oxford University press), 100.

[3]According to Interpretation Act 1889, the British Parliament adopted the following definitions of British India, (1) The expression  “British India” shall mean all territories and places within Her Majesty’s dominions which are for the time being Governed by Her Majesty through the Governor-General of India or through any governor or other officer Subordinate to the Governor-General of India.

(2) The expression “India” shall mean British India together with any territories of any native prince or chief under The suzerainty of Her Majesty exercised through the Governor-General of India, or through any governor or other Officer subordinate to the Governor-General of India.

[4]H.V. Hodson, The Great Decide: Britain-India-Pakistan, (London: Hutchinson & Co (publisher) LTD), 22.

[5]Hudson, The Great Divide, 23.

[6]S.M Burke and Salim Al-Din Quraishi, The British Raj in India: An historical review, (India: Oxford University

Press, 1994), 563.

[7]Burke and Quraishi, The British Raj in India: An historical review.

[8]I.b.i.d.

[9]Hodson, The Great Divide, 26.

[10]I.b.i.d.

[11]Burke and Quraishi, The British Raj in India: An historical review.

[12]Hodson, The Great Divide, 28.

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر