پاکستان نے 2017ء میں شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کی مکمل رکنیت حاصل کی اور 15اور 16 اکتوبر 2024ء کو شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے وزرائے اعظم کی کونسل کے 23واں اجلاس کی اسلام آباد میں میزبانی بھی کی- اس اجلاس میں بیلاروس کے وزیر اعظم رومان گولوفچینکو، بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر، ایران کے وزیر صنعت سید محمد آتابک، قازقستان کے وزیر اعظم علیخان بیکتنوف، چین کے اسٹیٹ کونسل کے وزیر اعظم لی کیانگ، کرغزستان کے وزیرِ اعظم آقلبیک جپاروف، پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف، روسی فیڈریشن کے وزرائے اعظم میخائل میشوسٹن، تاجکستان کے وزیر اعظم کوخیرا رسولزودا، اور ازبکستان کے وزیراعظم عبداللہ عاریپوف نے شرکت کی- ایس سی او کے سیکرٹری جنرل ژانگ منگ، ایس سی او کے علاقائی انسداد دہشت گردی کمیٹی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر آر ایس میرزوف اور پاکستان کی ایس سی او بزنس کونسل کے شیخ عاطف اکرام نے بھی اجلاس میں شرکت کی- اس کے علاوہ ایس سی او انٹربینک ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایم ٹی الی بائیف اور مختلف مبصر ریاستوں جیسے منگولیا اور ترکمانستان کے نمائندگان بھی اس اجلاس کا حصہ تھے -[1]
اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کثیر الجہتی مکالمے کو مضبوط کرنے اور پائیدار امن و خوشحالی کے فروغ پر زور دیا، جو شنگھائی سپرٹ کے باہمی اعتماد اور تعاون کی بنیاد پر ہے- وزیراعظم نے پاکستان کا مؤقف پیش کرتے ہوئے خطے میں اقتصادی تعاون (خاص طور پر توانائی اور نقل و حمل کے منصوبوں جیسے TAPI اور CASA-1000) کی صلاحیت کو اجاگر کیا - اس کے علاوہ، آرٹیکل 1 کے تحت دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی کے خلاف مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیا- انہوں نے دہشتگرد تنظیموں کے خطے پر اثرات اور افغانستان میں استحکام کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا- SCO کے علاقائی انسداد دہشت گردی ڈھانچے (RATS) کے کردار کا بھی ذکر کیا جو ان چیلنجز سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے -[2]
شنگھائی تعاون تنظیم:
شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) ایک بااثر بین الحکومتی تنظیم ہے جو 1996 ءمیں چین، روس، کرغزستان، تاجکستان اور قازقستان نے ’’شنگھائی فائیو‘‘ کے تحت قائم کی تھی-بالادیگر، 2001ء میں ازبکستان، 2017ء میں پاکستان اور بھارت، 2022ء میں بیلاروس اور 2023ء میں ایران شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن بنے- اس تنظیم کا مقصد سرحدی علاقوں میں امن، اسلحہ میں کمی اور علاقائی تعاون کو فروغ دینا تھا- 2001 میں SCO کے وزرائے اعظم کی پہلی میٹنگ میں ایک یادداشت پر دستخط کیے گئے تھے جس کا مقصد علاقائی اقتصادی تعاون، تجارت اور سرمایہ کاری کے بہتر حالات پیدا کرنا تھا -[3] آج ایس سی اوکا 80 فیصد یوریشین خطے، دنیا کی 40 فیصدآبادی اور تقریباً 30 فیصد عالمی جی ڈی پی کی نمائندگی کرتی ہے اور اس کے پاس تیل اور گیس کے بڑے ذخائر ہیں- اپنی اس اہمیت کے سبب یہ ایشیا اور یورپ کے درمیان ایک اہم رابطہ کاذریعہ بن سکتی ہے-SCO کے اہداف میں دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہاپسندی کا خاتمہ، غربت میں کمی، علاقائی امن، استحکام اور خوشحالی کو فروغ دینا شامل ہیں- یہ تنظیم اجتماعی سلامتی اور اقتصادی تعاون کے ذریعے یوریشیا کے خطے میں اہم کردار ادا کرتی ہے - [4]
وسطی ایشیائی ریاستیں اور پاکستان :
وسطی ایشیا کی نظریاتی اور جغرافیائی اہمیت پاکستان کے لیے علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد سے واضح ہوتی ہے، جس میں انہوں نے مصر کی مثال دی کہ جس طرح مصر کی پشت جغرافیائی طور پر افریقہ کی طرف اور چہرہ عرب دنیا کی طرف ہے، اسی طرح برصغیر کے شمال مغربی علاقے (جو آج پاکستان ہے) کی پشت بھارت کی طرف اور چہرہ اسلامی دنیا کی طرف ہے جو وسطی ایشیا تک پھیلی ہوئی ہے- مزید برآں اس خطے کے سماجی و ثقافتی حقائق وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ سے بہت مماثلت رکھتے ہیں- بقول علامہ اقبال:
“I have found my future in this legacy of Central Asia; you too may see your future from my eyes because the fire of those towering personalities burns inside my eyes”.
’’میں نے اپنے مستقبل کو وسطی ایشیا کی اس میراث میں پایا ہے، تم بھی میرے آنکھوں سے اپنا مستقبل دیکھ سکتے ہو کیونکہ ان بلند شخصیات کی آگ میری آنکھوں میں جل رہی ہے‘‘-
جب 23 مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان منظور ہوئی تو قائد اعظم نے لالہ لاجپت رائے کا ایک خط حوالہ کے طور پر پیش کیا جس میں لالہ لاجپت رائے نے کہا تھا کہ وہ برصغیر کے مسلمانوں سے خوفزدہ نہیں ہیں، لیکن اگر ان مسلمانوں کو متحد ہونے اور ایک ریاست بنانے کا موقع دیا گیا تو وہ وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے مسلمانوں کے ساتھ مل جائیں گے اور ان کے درمیان ہزار برس سے موجود تاریخی تعلقات دوبارہ بحال ہو جائیں گے-[5] قائد اعظم اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ جب پاکستان وجود میں آئے گا تو اس کی سمت وسطی ایشیا اور اسلامی دنیا کی طرف ہوگی، جو نئی ریاست کے مغرب میں پھیلی ہوگی-
بانیانِ پاکستان کے اس وژن کے تحت ای سی او کی اہمیت علاقائی روابط سے بھی کہیں بڑھ کر ہے- یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو پاکستان کو وسطی ایشیائی ریاستوں اور ساتھ ساتھ خطے میں موجود بڑی طاقتوں کے ساتھ روابط قائم کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے-
ایس سی او سربراہی اجلاس کے پرامن انعقاد میں پاکستان کی سفارتی کامیابی:
پاکستان میں ایس سی او سربراہی اجلاس کا انعقاد سیاسی اور سفارتی لحاظ سے ایک بڑی کامیابی تصور کیا جا رہا ہے کیونکہ اس کا انعقاد ایک بڑی سفارتی ذمہ داری کے طور پر دیکھا جا رہا تھا- خاص طور پر ایسے وقت میں جب ملک سیاسی اور تحفظاتی مسائل کا بھی شکار ہو- اجلاس میں شریک متعدد ممالک کے وزرائے اعظم کی موجودگی نے یہ واضح کیا کہ پاکستان بین الاقوامی سطح پر ایک اہم ملک ہے، جس کی حیثیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا- اس کانفرنس سے پاکستان کا یہ تشخص ابھر کر سامنے آیا کہ یہ عالمی مکالموں میں فعال شرکت کے ساتھ ساتھ علاقائی اہمیت کے معاملات میں قیادت کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے- اس پیچیدہ سفارتی ایونٹ کے کامیاب انعقاد نے پاکستان کی دنیا بھر میں مثبت تصویر پیش کی ہے اور اس کی سفارتی حیثیت کو تقویت بخشی ہے-ساتھ ہی ساتھ اس اجلاس نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کیلئے پاکستان کو ایک قابل اعتماد شراکت دار کے طور پر بھی پیش کیا-
سیاسی عدم استحکام اور اجلاس سے قبل دہشت گردی کے چند افسوسناک واقعات کے باوجود اس کا کامیاب انعقاد پاکستان کیلیے ایک بڑی علامتی کامیابی ہے- درجن بھر ممالک کے سربراہان اور نمائندگان کی آمد نے یہ تاثر زائل کیا کہ پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار ہے اور اس نے عالمی برادری کو یہ دکھایا کہ پاکستان کی خطے اور بین الاقوامی امور میں اہمیت ہے- [6]ماہرِ خارجہ امور ملیحہ لودھی کے مطابق پاکستان میں ایس سی او اجلاس کا انعقاد ایک بڑی سفارتی ذمہ داری تھی- وہ لکھتی ہیں:
“It does, however, help to elevate Pakistan's diplomatic standing and show that it is an active player in multilateral forums”.
’’یہ پاکستان کی سفارتی حیثیت کو بہتر کرنے اور یہ ظاہر کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے کہ یہ کثیرالجہتی فورمز میں (پاکستان) ایک فعال کھلاڑی ہے‘‘-
واشنگٹن میں واقع ووڈرو ولسن سینٹر برائے اسکالرز کے جنوبی ایشیا کے ماہر، مائیکل کوگلمین نے پاکستان کیلئے اس اجلاس کو نہایت اہم قرار دیا اور کہا:
“It’s sensitive about criticism that Pakistan isn’t safe for foreigners, and feels it has something to prove with this SCO meet — and especially with such high-level attendance from key countries in the neighborhood, including close ally China”.[7]
’’یہ حساس معاملہ ہے کہ پاکستان پر تنقید کی جاتی ہے کہ یہ غیر ملکیوں کیلئے محفوظ نہیں ہے، اور اس سربراہی اجلاس کے ذریعے پاکستان کچھ ثابت کرنا چاہتا ہے — خاص طور پر جب پڑوسی ممالک کے اہم رہنماؤں، جن میں قریبی اتحادی چین بھی شامل ہے، کی شرکت ہو رہی ہے‘‘-
اجلاس کے دوران، پاکستان نے چین اور روس کے ساتھ اہم دو طرفہ مذاکرات بھی کیے، جن میں اقتصادی تعلقات اور ترقیاتی منصوبوں پر بات چیت کی گئی- چین کے وزیراعظم کا دورہ خاص اہمیت کا حامل تھا کیونکہ یہ کسی چینی وزیراعظم کا گیارہ سال بعد پاکستان کا پہلا دورہ تھا- اس دورے کے دوران مختلف معاہدوں پر دستخط کیے گئے، جن میں گوادر میں ترقیاتی منصوبے اور تعلیم کے شعبے میں تعاون شامل ہیں- ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان اپنے داخلی مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو وہ خطے میں ایک اہم اقتصادی کردار ادا کر سکتا ہے اور اس اجلاس نے اس جانب ایک قدم بڑھایا ہے -[8]
اجلاس کے کامیاب انعقاد میں تمام متعلقہ اداروں اور سیکیورٹی فورسز کی کوششیں قابل تحسین ہیں- ان کی محنت اور عزم نے یہ ثابت کیا کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز ملک کی سلامتی اور بین الاقوامی تعلقات کیلئے ہمیشہ تیار رہتی ہیں -[9]
بھارتی مؤقف کی حیثیت:
ایس سی او سمٹ 2024ء کی تقریب کے انعقاد کے وقت بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں تناؤ قائم تھا جو 2019ء کے پلوامہ حملے کے بعد سے موجود ہے- 5 اگست 2019ء کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی غیر قانونی منسوخی اور اس علاقے کو دو مرکزی علاقوں میں تقسیم کرنے کے اقدامات نے تعلقات کو مزید بگاڑ دیا تھا- ایس سی او اجلاس میں بھارتی وزیراعظم کی بجائے وزیر خارجہ کی آمد اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ بھارتی حکومت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے اور مقبوضہ کشمیر سمیت دو طرفہ تعلقات کو بات چیت سے حل کرنے پہ تیار نہیں- بھارتی وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ ان کی شرکت کا مقصد صرف بھارت کی ایس سی او کے ساتھ وابستگی کو ظاہر کرنا ہے نہ کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنا-
اجلاس کے دوران، بھارتی وزیر خارجہ نے کہا کہ ایس سی او کے چارٹر میں موجود چیلنجز، جیسے دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی کے خلاف مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے-یہ بیان درحقیقت بھارتی حکومت کی اپنی ہی دوغلی پالیسیوں اور تضاد کو اجاگر کرتا ہے کیونکہ بھارت خود پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہے اور ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر کو علیحدگی پسندی سے جوڑنے کی مذموم کوششیں کر رہا ہے- حالانکہ مسئلہ کشمیر عالمی سطح پہ تسلیم شدہ متنازعہ مسئلہ ہے جس پہ اقوام متحدہ کی کئی قراردادیں موجود ہیں- بھارتی بیانات دراصل اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے، خاص طور پر جب بات کشمیر اور جوناگڑھ جیسے تنازعات کی بات ہو -[10]
اس تناظر میں، یہ بات واضح ہے کہ بھارت کی پالیسیوں میں تضاد اور دوہرے معیارات کی موجودگی اس کی بین الاقوامی ساکھ کو متاثر کر رہی ہے- ساتھ ساتھ یہ صورتحال اس بات کی عکاسی بھی کرتی ہے کہ بھارت اپنے مقاصد کے حصول کیلئے کس طرح دوہرے معیارات اپناتا ہے، خاص طور پر جب بات پاکستان اور کشمیر کی ہو- اس طرح کی منافقت نہ صرف بھارت کے بین الاقوامی سطح پر اس کے تعلقات کو متاثر کر رہی ہےبلکہ داخلی سیاست پہ بھی اثر انداز ہو رہی ہے- مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے حالیہ الیکشن اگرچہ کسی بھی اعتبار سے قانونی حیثیت نہیں رکھتے، تاہم کشمیری عوام نے اس میں واضح کیا ہے کہ وہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے فیصلے کو تسلیم کرنے پہ تیار نہیں-
بعض تجزیہ نگاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ ایس سی او کے اجلاس میں بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والے بیانات کا تبادلہ ایک مثبت پیشرفت ہو سکتی ہے- تاہم، دونوں ممالک کے مندوبین کے مابین مسکراہٹوں اور خوشگوار جملوں کا تبادلہ صرف مہمان نوازی کا حصہ تھا، جس کا کوئی اور مطلب نہیں نکالنا چاہیے-
ایس سی او کے ذریعے وسطی ایشیا، مشرقی ایشیا اور یورپ کے ساتھ تجارت :
اس اجلاس نے پاکستان کے اقتصادی اور جغرافیائی مقاصد کو عالمی سطح پر بڑھانے کے لیے ایک اہم موقع فراہم کیا ہے اور اس کے اصولی موقف کو بھی اجاگر کیا ہے- اس کی بدولت پاکستان کے لیے سرمایہ کاری کے نئے دروازے کھلنے کی توقع ہے- پاکستان کی بندرگاہیں، خصوصاً کراچی اور گوادر، اور اس کی بنیادی ڈھانچے، جیسے ہوائی اڈے اور موٹر ویز، وسطی ایشیائی ریاستوں کیلئے اہم تجارتی مواقع فراہم کر سکتی ہیں، جو کہ ان کیلئے سمندری راستوں تک رسائی کا ایک بہترین ذریعہ ہیں -[11]
وسطی ایشیا کے ممالک، جیسے قازقستان، ازبکستان اور ترکمانستان کو سمندر تک براہِ راست رسائی حاصل نہیں جس کی وجہ سے ان کے لیے عالمی مارکیٹ تک رسائی میں مشکلات پیش آتی ہیں- پاکستان کی جغرافیائی حیثیت ان ممالک کیلیے اہمیت رکھتی ہے، کیونکہ یہ انہیں بحرِ ہند تک رسائی فراہم کرتی ہے، جہاں وہ بین الاقوامی تجارت میں شرکت کر سکتے ہیں- یہ سہولیات نہ صرف ان کی تجارتی لاگت کو کم کر سکتی ہیں، بلکہ انہیں عالمی منڈیوں تک براہ راست رسائی بھی فراہم کر سکتی ہیں-
ایس سی او کے اجلاس کی میزبانی کے ذریعے، پاکستان کے موجودہ تعاون میں اضافہ ہوگا، خاص طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں کے حوالے سے- پاکستان کے قدرتی وسائل جیسے کوئلہ، گیس اور معدنیات کی دولت اسے غیر ملکی سرمایہ کاری کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں مدد دیتی ہے- اگر آزاد تجارت اور ٹیرف کی پالیسیاں نافذ کی جائیں تو پاکستان ایس سی او کے رکن ممالک کے لیے ایک ممکنہ مارکیٹ کے طور پر ابھر سکتا ہے- یہ اجلاس نہ صرف دوسرے شعبوں میں، جیسے ٹیکنالوجی، توانائی، اور زراعت میں سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرے گا، بلکہ وسطی ایشیا کے ساتھ تعلقات کو بھی بہتر بنا سکتا ہے، مثلاً TAP پائپ لائن جیسے منصوبوں کے ذریعے- اس طرح، پاکستان علاقائی تجارت اور لاجسٹکس کا مرکز بننے کی صلاحیت رکھتا ہے، جہاں ترکمانستان، قازقستان اور ازبکستان جیسے ممالک سرمایہ کاری کر سکیں گے، جس سے پاکستان کے اقتصادی مواقع میں اضافہ ہوگا اور بین الاقوامی تعلقات مستحکم ہوں گے - [12]
اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ:
سربراہانِ وفود نے عالمی سطح پر باہمی احترام، انصاف، برابری اور مشترکہ مفادات کی بنیاد پر بین الاقوامی تعلقات کی ایک نئی نوعیت کو فروغ دینے کی اہمیت کو تسلیم کیا- اس موقع پر انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ:
“One Earth, One Family, One Future”.
’’ایک زمین، ایک خاندان، ایک مستقبل‘‘-
اس تصور کو اجاگر کرتے ہوئے انسانیت کے مشترکہ مستقبل کے حوالے سے ایک جامع اور ہم آہنگ عالمی برادری کے قیام کی ضرورت پر زور دیا گیا- یہ تصور دنیا میں امن، ہم آہنگی اور ترقی کو فروغ دینے کی کوششوں کی علامت ہے، جس کا مقصد انسان اور فطرت کے درمیان ہم آہنگ بقائے باہمی کو یقینی بناناہے-
بیلاروس، ایران، قازقستان، کرغیزستان، پاکستان، روس، تاجکستان اور ازبکستان نے چین کے ’’ون بیلٹ، ون روڈ‘‘ منصوبے کی حمایت کا اعادہ کیا اور اس منصوبے پر مشترکہ عمل درآمد کے لیے جاری کام کا ذکر کیا، جس میں یوریشین اکنامک یونین اور OBOR کو ملانے کی کوششیں شامل ہیں- وفود کے سربراہان نے اس بات پر زور دیا کہ رکن ممالک بین الاقوامی قوانین اور قومی مفادات کا احترام کرتے ہوئے خطے میں باہمی مفادات پر مبنی تعاون کے وسیع اور کھلے مواقع پیدا کرنے کو اہم سمجھتے ہیں- انہوں نے اس تجویز کو بھی نوٹ کیا کہ ایس سی او، یوریشین اکنامک یونین، جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم (آسیان) اور دیگر دلچسپی رکھنے والی ریاستوں کے درمیان ایک وسیع تر یوریشین شراکت داری قائم کی جائے-
رکن ممالک کی پائیدار اور جامع اقتصادی ترقی کے لیے خطے کی صلاحیتوں کو سبز ترقی (Green Development) ڈیجیٹل معیشت(Digital Economy)، تجارت، ای کامرس، مالیات، سرمایہ کاری، ہائی ٹیکنالوجی اور غربت کے خاتمے جیسے غیر روایتی شعبوں میں بہتر بنانے پر زور دیا- اس میں روایتی و عوامی طب، زراعت، صنعت، توانائی اور مواصلاتی روابط بھی شامل ہیں- وفود نے اقتصادی ترقی کے لیے ڈیجیٹل معیشت اور سائنسی و تکنیکی جدتوں کو بروئے کار لانے کی اہمیت پر بھی زور دیا تاکہ SCO کے خطے میں مسابقتی برتری حاصل ہو اور نئی معاشی طاقت پیدا کی جا سکے-
مزید برآں، انفارمیشن سیکیورٹی کے میدان میں تعاون کو بہتر کرنے اور سرحد پار ڈیٹا کے تبادلے کے ایک مؤثر طریقہ کار کو تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا- سربراہان نے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے نفاذ اور ای گورنمنٹ، ای کامرس اور دیگر ڈیجیٹل کاروباروں کے فروغ پر بھی روشنی ڈالی تاکہ تکنیکی ترقی سے ہر کسی کو فائدہ پہنچایا جا سکے اور خطے میں مزید استحکام لایا جا سکے-
مندوبین نے قدرتی آفات کے انتظام، صحت کے نظام کی بہتری، زرعی تعاون، غربت کے خاتمے، کھیلوں اور ثقافتی تبادلے، نوجوانوں کی پالیسیوں، تعلیم اور عوامی سطح کے تعلقات میں تعاون کو مزید مضبوط کرنے پر زور دیا- انہوں نے پاکستان کی طرف سے 23ویں ایس سی او کونسل اجلاس کے کامیاب انعقاد پر شکریہ ادا کیا -[13]
اختتامیہ :
شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے وزرائے اعظم کی کونسل کے اجلاس کا کامیاب انعقاد پاکستان کی سفارتی صلاحیتوں اور سیکورٹی فورسز کی مستعدی کا ثبوت ہے- اس اجلاس نے دنیا کو یہ باور کرایا کہ پاکستان بین الاقوامی تعلقات میں باہمی احترام، انصاف اور مشترکہ مفادات کے اصولوں پر قائم رہتا ہے- اس کامیابی نے وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کے نئے امکانات پیدا کیے، جو علامہ اقبال اور قائداعظم کے خواب کی تعبیر ہے- تاہم، بھارت کی دوہری پالیسی خطے کی ترقی میں رکاوٹ بن سکتی ہے- مشترکہ اعلامیہ میں بھی عالمی امن، ترقی، ڈیجیٹل معیشت اور صحت و زراعت کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کی اہمیت پر زور دیا گیا-
٭٭٭
[1]Ministry of Foreign Affairs, "Joint Communique of the twenty-third Meeting of the Council of Heads of Government of Member States of the Shanghai Cooperation Organization", Government of Pakistan, 16 October 2024.
[2]Dr Zafar Nawaz Jaspal, "CHG-SCO Summit: Bolstering Pakistan’s image" Pakistan Observer, October 22, 2024.
[3]Porshneva, Olga S., and Sergey L. Razinkov. "Institutional Formation and Development of SCO Activities: Experience of Retrospective Analysis." Vestnik RUDN. International Relations 24, no. 2 (2024): 264-279.
[4]Qirat Mirza, " The 2024 SCO Summit in Pakistan: Outcomes and Challenges" Paradigm Shift, October 18, 2024.
[5]The Muslim Institute, "Pakistan's Relation with Central Asian States", Muslim Institute, August 28, 2024.
[6]فرحت جاوید، " ایس سی او اجلاس: کیا پاکستان ’سفارتی تنہائی‘ کا تاثر زائل کرنے میں کامیاب رہا؟" بی بی سی اردو، اکتوبر 2024
[7]Haroon Janjua, " Hosting SCO summit 'big deal' for Pakistan", DW, October 14, 2024.
[8]Baqir Sajjad Syed, "Analysis: SCO moot showcases Pakistan’s importance on global stage", DAWN, October 18, 2024.
[9]News Desk, "More than 1,200 security personnel deployed for SCO summit in Islamabad" Express Tribune, October 16, 2024.
[10]Haroon Janjua, " Hosting SCO summit 'big deal' for Pakistan", DW, October 14, 2024.
[11]APP, " SCO to boost Eurasian trade ties", The Express Tribune, October 16, 2024.
[12]Ezzah Abdul Hafeez, " PAKISTAN HOSTS 2024 SCO SUMMIT
STRATEGIC OPPORTUNITY OR A
DIPLOMATIC CHALLENGE" Institute of Strategic Studies, Islamabad, October 14, 2024.
[13]MOFA, Joint Communique of the twenty-third Meeting of the Council of Heads of Government of Member States of the Shanghai Cooperation Organization" Government of Pakistan, October 2024.