ابتدائیہ:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی عالمی منظر نامے میں جہاں چند بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں وہیں مسئلہ فلسطین پہ بھی اس کے اثرات کے حوالے سے عالمی سطح پہ مختلف تجزیہ نگار اپنی آراء کا اظہار کر رہے ہیں- 17 جنوری 2025ءکو ہونے والے سیز فائر معاہدے کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ غزہ میں جاری بدترین اسرائیلی مظالم میں شاید کچھ کمی ہو اور فلسطینی عوام کو وقتی طور کچھ سکون نصیب ہو- تاہم یہ مسئلہ اس معاہدے سے کہیں بڑا ہے اور زیرِ مضمون میں ہم اس کا کچھ جائزہ پیش کرنے کی کوشش کریں گے-
مسئلہ فلسطین، لیگ آف نیشنز اور اقوام متحدہ کے قیام سے قبل کا ایک مسئلہ ہے، جو آج تک بین الاقوامی سیاست کا مرکز ہے- اس تنازعہ کا باقاعدہ آغاز سلطان عبد الحمید ثانی کی تختِ خلافت سے معزولی کے بعد 1917ء میں برطانوی حکومت کے اعلانِ بالفور(Balfour Declaration) کے ذریعے فلسطینیوں کی سرزمینوں پر صہیونیوں کی زبردستی آبادکاری اور ریاست کے قیام کی حمایت سے ہوا-[1] اُس وقت کے بعد سے فلسطین میں صہیونی آبادکاری شروع کی گئی- دوسری جنگِ عظیم کے بعد 1948ء میں اقوام متحدہ کی زیر سرپرستی باقاعدہ طور پہ فلسطینیوں کی سر زمین کو تقسیم کر کے اسرائیل کے قیام کو عمل میں لایا گیا- اسرائيل نے فلسطینیوں کی سرزمینوں پر قبضے کے بعد 14 مئی 1948ء کو ریاست کے قیام کا اعلان کیا اوروہیں سے 15 ماہ تک جاری رہنے والی عرب اسرائیل جنگ کا آغاز ہوا جس کے دوران ساڑھے 7 لاکھ سے زیادہ فلسطینی اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور انہیں ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا تھا-اسے فلسطینی پہلی نکبہ کے نام سے یاد کرتے ہیں-[2] اس کے بعد سے، اسرائیل کی جابرانہ اور جارحانہ پالیسیوں نے فلسطینی عوام کی زمین، حقوق، شناخت اور وجود کو مسلسل خطرے میں ڈال رکھا ہے-
اُس کے بعد سے لے کر آج تک اسرائیل نے کسی نہ کسی طور نہ صرف اپنا قبضہ فلسطینی علاقوں پہ قائم رکھا ہے بلکہ آہستہ آہستہ اسے مزید پھیلایا ہے- اسرائیلی مظالم (خصوصاً اکتوبر 2023ء سے لے کر تادم تحریر) کی نوعیت وقت کے ساتھ مختلف صورتوں میں واضح ہوتی ہے، جن میں فلسطینی علاقوں پر غیر قانونی قبضہ، شہری آبادی، ہسپتالوں اور سکولوں پر فضائی حملے، بچوں اور خواتین کا قتلِ عام اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں شامل ہیں- غزہ کی ناکہ بندی اور مغربی کنارے میں غیر قانونی آبادکاری نے فلسطینی عوام کی زندگیوں کو مزید اجیرن بنا دیا ہے- ان مظالم کی شدت اس قدر ہے کہ بین الاقوامی ادارے انہیں نسل کشی کے زمرے میں شامل کر رہے ہیں-[3]
حالیہ اسرائیلی مظالم کا جائزہ:
اکتوبر 2023ء سے لے کر خصوصاً سال 2024ء میں اور تادمِ تحریرفلسطینی شہری علاقوں میں اسرائیلی مظالم اور بربریت میں نمایاں اضافہ ہوا، قابض اسرائیلی کی کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک 46788 فلسطینی شہید اور 110453 شدید زخمی ہوئے- (صرف سال 2024 کے دوران 23842 افراد شہید اور 51925 زخمی ہوئے)-[4] اس دوران، غزہ کی پٹی میں اسرائیلی بمباری اور زمینی حملوں میں شدت آئی- قابض فوج بلا تفریق یہ کاروائیاں کر رہی ہے- اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق (OHCHR) کے دفتر کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں شہید ہونےوالوں میں 70 فیصد خواتین اور بچے شامل ہیں-جس میں مجموعی طور پر، 44 فیصد متاثرین معصوم بچوں کی تعداد شامل ہے-ان اعداد و شمار میں سب سے چھوٹا ایک دن کا بچہ اور 97 برس کی بزرگ خاتون شامل تھی-[5] رپورٹ کے مطابق 88 فیصد واقعات میں، ایک ہی حملے میں پانچ یا اس سے زیادہ لوگ شہید ہوئے ہیں، جو کہ گنجان آباد علاقوں میں وسیع علاقوں کو متاثر کرنے والے اسرائیلی فوج کے ہر قسم کے ہتھیاروں کے استعمال کی طرف اشارہ کرتا ہے- ان کارروائیوں کے نتیجے میں 2 ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں- اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق تباہ ہونے والی عمارتوں میں غزہ میں 90 فیصد سے زائد رہائشی یونٹ شامل ہیں، جن میں سے 160،000 تباہ ہوئے اور مزید 276000 کو جزوی طور پر نقصان پہنچا-[6] دسمبر 2024ء میں، غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے دوران حملوں میں پناہ گزین کیمپوں اور ہسپتالوں کو بھی نشانہ بنایا گیا، نقل مکانی کرنے والے 110000 خیمے خراب ہو چکے ہیں اور اب زیادہ تر استعمال کے لیے موزوں بھی نہیں ہیں- جس سے بے گھر افراد کی مشکلات میں اضافہ ہوا- اسرائیلی پالیسیوں کے نتیجے میں فلسطینی عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا- غزہ کی ناکہ بندی اور مغربی کنارے میں غیر قانونی یہودی آبادکاری نے فلسطینیوں کی زندگی کو مزید دشوار بنا دیا- بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی، صحت کے مراکز کی تباہی اور تعلیمی اداروں پر حملوں نے فلسطینی معاشرے کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا- اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق 135 سکول اور یونیورسٹیاں تباہ اور 353 سکول اور یونیورسٹیاں جزوی طور پر تباہ ہو چکی ہیں-756 اساتذہ اور تعلیمی عملہ کے ساتھ ساتھ 148 اسکالرز، ماہرین تعلیم، یونیورسٹی کے پروفیسرز اور محققین کو شہید کیا گیا- اسرائیل بلا تفریق مذہبی مقامات کو نشانہ بنا رہا ہے- اب تک 3 گرجا گھروں سمیت 823 مساجد کو تباہ کیا گیا- اس کے علاوہ 158 مساجد کو شدید نقصان پہنچا ہے- فلسطینی علاقوں میں 60 میں سے 19 قبرستان مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہو گئے-[7]
اس کے علاوہ، اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں پر تشدد اور غیر انسانی سلوک کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں، جن میں برہنہ کرنا، جنسی زیادتی اور بجلی کے جھٹکے لگانا شامل ہیں- اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیموں نے 2024ء میں فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا- اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حملوں سے بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کے بارے میں شدید تشویش پیدا ہوئی ہے، کیونکہ ان میں ممکنہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا حوالہ دیا گیا ہے- ان رپورٹس کے باوجود، عالمی برادری کی جانب سے مؤثر اقدامات کا فقدان رہا، جس کے نتیجے میں فلسطینی عوام کی مشکلات میں کمی واقع نہیں ہوسکی-[8]
صحت عامہ کو درپیش مسائل :
شدید بمباری کے باعث ہسپتالوں کی تباہی، طبی امداد کی قلت اور ذہنی صحت پر مرتب ہونے والے گہرے اثرات شامل ہیں- صحت کے عالمی اداروں کے مطابق، غزہ کے 1.9 ملین بے گھر افراد کو غذائی قلت، فاقہ کشی اور متعدی بیماریوں کے پھیلاؤ کا خطرہ ہے- اسرائیلی حملوں میں فلسطینی طبی اداروں کو بارہا مرتبہ نشانہ بنایا گیا - 2024ء کے دوران، غزہ میں 34 ہسپتال اور 80 طبی مراکز مکمل طور پر تباہ کر دیے گئے، جبکہ متعدد دیگر جزوی طور پر ناکارہ ہو گئے- ان حملوں کے نتیجے میں ایمرجنسی سروسز بھی معطل ہو گئیں- ایمبولینسوں کو نشانہ بنانے اور ہسپتالوں کے قریب بمباری کے باعث طبی عملہ اپنی ذمہ داریاں انجام دینے سے قاصر رہا- ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) نے غزہ میں صحت کی دیکھ بھال کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے:
فضائی حملوں کے باعث طبی سامان، خوراک، پانی اور ایندھن کی کمی نے پہلے سے کم وسائل والے صحت کے نظام کو عملی طور پر ختم کر دیا ہے- مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ ساتھ پناہ کی تلاش میں بے گھر ہونے والے شہریوں کی وجہ سے ہسپتال اپنی صلاحیت سے کہیں زیادہ کام کر رہے ہیں- ہسپتالوں کے قریب رسائی کی کمی کی وجہ سے، زچگی اور نوزائیدہ بچوں کی دیکھ بھال، ضروری صحت کی خدمات کی فراہمی پر شدید سمجھوتہ کیا گیا ہے-[9]
15 نومبر 2024 کو اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے غزہ کی صورتحال پر ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ
’’ہسپتال تقریباً مکمل طور پر سپلائی سے منقطع ہو چکے ہیں اور حملے کی زد میں آ چکے ہیں، مریضوں کو ہلاک کر رہے ہیں، اہم آلات کو تباہ کر رہے ہیں اور زندگی بچانے والی خدمات میں خلل ڈال رہے ہیں- ہیلتھ ورکرز اور مریضوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے- اطلاعات کے مطابق اسپتالوں کے اندر بھی لڑائی ہوئی ہے‘‘- [10]
بیان میں اس بات پر زور دیا گیا کہ شمالی غزہ میں پوری فلسطینی آبادی بیماری، قحط اور تشدد سے مرنے کے خطرے سے دوچار ہے-
WHO نے کہا ہے کہ اسرائیلی فورسز شمالی غزہ میں ’’صحت کے نظام کو منظم طریقے سے ختم کرنے‘‘کا کام کر رہی ہیں-
اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق نے حملوں کا طریقہ کار بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کارروائی کا آغاز اسرائیلی فضائی حملوں سے شروع ہوتا ہے اور اس کے بعد زمینی چھاپے اور مریضوں اور عملے کو حراست میں لے لیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہسپتال غیر فعال ہو جاتے ہیں-[11]
اسرائیل کی جانب سے غزہ کی ناکہ بندی نے انسانی امداد کی فراہمی کو ناممکن بنا دیا ہے- ادویات، طبی آلات اور بنیادی صحت کی سہولیات کی شدید کمی ہے، جس سے مریضوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں- زخمیوں کو فوری طبی امداد نہ ملنے کے باعث ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے- سیلاب اور بمباری کے باعث بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد کو بنیادی طبی امداد بھی میسر نہیں، جبکہ حاملہ خواتین اور بچوں کو صحت کی سنگین مشکلات کا سامنا ہے- مسلسل جنگی حالات اور اسرائیلی جارحیت نے فلسطینی عوام کی ذہنی صحت کو بھی شدید متاثر کیا ہے- بمباری، گولہ باری اور روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے تشدد نے بچوں اور بڑوں دونوں کو شدید نفسیاتی مسائل کا شکار کر دیا ہے- بچوں میں خوف، اضطراب اور ڈپریشن کے واقعات عام ہو چکے ہیں، جبکہ بڑوں کو پی ٹی ایس ڈی (Post-Traumatic Stress Disorder) اور دیگر ذہنی بیماریوں کا سامنا ہے- ان مسائل کے باوجود، ذہنی صحت کی خدمات فراہم کرنے والے ادارے تباہی یا قلت کا شکار ہیں، اور ماہر نفسیات کی کمی نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے-
آزادانہ صحافت کو درپیش چیلنجز:
فلسطینیوں پر جاری اسرائیلی جارحیت کے خلاف آزادانہ صحافت کو ہمیشہ خطرناک چیلنجز کا سامنا رہا ہے اور حالیہ سال 2024ء میں یہ مسائل مزید سنگین ہوگئے ہیں- اسرائیلی مظالم کو عالمی برادری تک پہنچانے والے صحافیوں کو خاموش کرنے کیلئے انہیں نشانہ بنایا جاتا ہے، میڈیا پر سخت پابندیاں عائد کی جاتی ہیں اور جھوٹی خبریں اور پروپیگنڈہ کے ذریعے حقیقت کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے- کھلے عام شہری علاقوں پر بمباری کی وجہ سے صحافی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر رپورٹنگ کرتے ہیں، لیکن اسرائیلی افواج کی طرف سے ان پر حملے عام ہو چکے ہیں- 7 اکتوبر 2023ء سے 25 دسمبر 2024ء تک غزہ میں کم از کم 217 صحافی اور میڈیا ورکرز کو زندگی سے محروم کیا گیاہے-[12]
Reporters Without Borders (RSF) کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، اسرائیل کارروائیوں کے نتیجے میں فلسطین صحافیوں کے لئے خطرناک ملک ہے-
“Palestine is the most dangerous country for journalists, recording a higher death toll than any other country over the past five years”.[13]
’’فلسطین صحافیوں کیلئے سب سے خطرناک ملک ہے، جہاں گزشتہ 5برسوں کے دوران کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ اموات ریکارڈ کی گئی ہیں‘‘-
رپورٹ کے مطابق تنظیم نے ’’اسرائیلی فوج کی طرف سے صحافیوں کے خلاف جنگی جرائم‘‘کے لیے بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) میں چار شکایات درج کرائی ہیں-
انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (IFJ) نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ 2024ء میں دنیا بھر میں 104 صحافی مارے گئے جن میں سے نصف سے زیادہ غزہ میں تھے-[14]
مشہور صحافیوں کے قتل کے واقعات نے بین الاقوامی سطح پر غم و غصے کو جنم دیا، لیکن اس کے باوجود صحافیوں کے تحفظ کیلئے کوئی مؤثر اقدامات نہیں کیے گئے- جنگ زدہ علاقوں میں رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو گولہ باری، گرفتاری، اور حراست کے دوران تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے- ان ہتھکنڈوں کا مقصد زمینی حقائق کو عوام تک پہنچنے سے روکنا ہے- اسی طرح فلسطینی علاقوں میں میڈیا پر سخت پابندیاں عائد کی جاتی ہیں-
اسرائیل نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتھونی گوتریس کو سرکاری طور پر ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے انہیں ملک میں داخلے سے روک دیا تھا- اس سےقبل اسرائیل مختلف اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کی ان علاقوں میں داخلوں پر پابندی عائد کر چکا ہے-
اسرائیل کے قبضے والے علاقوں میں صحافیوں کو آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی اور انہیں سخت نگرانی میں رکھا جاتا ہے- اسرائیلی حکومت کی طرف سے جاری کردہ قوانین کے تحت میڈیا کو حساس علاقوں میں داخل ہونے سے روکا جاتا ہے اور وہاں سے نشر ہونے والی معلومات کو کنٹرول کیا جاتا ہے- آن لائن میڈیا پلیٹ فارمز کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے، جہاں فلسطینیوں کی آواز دبانے کیلئے ان کے اکاؤنٹس بند کیے جاتے ہیں یا مواد ہٹا دیا جاتا ہے- کچھ عرصہ قبل اسرائیل کی پارلیمنٹ نے اسرائیل میں الجزیرہ کے دفتر کو بند کرنے، اس کی ویب سائٹ کو بلاک کرنے اور مقامی چینلز کو اس کی کوریج کے استعمال پر پابندی لگانے کا بل منظور کیا-[15]
میڈیا پر اسرائیلی کنٹرول کے نتیجے میں جھوٹی خبریں اور پراپیگنڈہ عام ہو چکا ہے-بیروت کی امریکن یونیورسٹی کے ممتاز فیلو Rami G Khouri کے مطابق، اسرائیل فلسطین تنازع نہ صرف زمینی فوجوں اور جنگجوؤں کے درمیان لڑا جا رہا ہے، بلکہ میڈیا کے بیانیے کے درمیان بھی لڑا جا رہا ہے- یہ جعلی خبریں اور رپورٹیں ایسی ہوتی ہیں جن کو دنیا کے بڑے بڑے لیڈرز بھی سچ سمجھنے لگتے ہیں- ایک جعلی خبر اسرائیل نے عام کی کہ 40 بچوں کے سر قلم کر دبے گئے ہیں- امریکی صدر جو بائیڈن نے عوامی طور پر غم و غصے کا اظہار کیا- لرزہ خیز خبروں نے گھنٹوں میں دنیا کے میڈیا کو چھیڑ دیا- لیکن بعد میں آنے والی رپورٹس نے انکشاف کیا کہ کسی بھی اسرائیلی یا بین الاقوامی ذریعہ سے اس طرح کے سر قلم کرنے کی تصدیق نہیں کی گئی ہے- شاید اس لیے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا- یہ محض ایک ڈرامائی واقعہ تھا جس میں میڈیا کے ذریعے عوام میں جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں تاکہ اپنے مخالفین کو بدنام کیا جا سکے اور اپنے اتحادیوں کی حمایت حاصل کی جا سکے- اس طرح کی ہزاروں دوسری جھوٹی رپورٹیں روزانہ میڈیا میں گردش کرتی ہیں- اسرائیل کی جانب سے اپنے مظالم کو چھپانے اور عوامی رائے کو اپنے حق میں تبدیل کرنے کے لیے جھوٹے بیانیے گھڑے جاتے ہیں- عالمی میڈیا میں فلسطینیوں کی مزاحمت کو دہشت گردی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جبکہ اسرائیلی حملوں کو دفاعی کارروائی کے طور پر بیان کیا جاتا ہے- اس پراپیگنڈہ کا مقصد عوام کو حقیقت سے دور رکھنا اور بین الاقوامی دباؤ کو کم کرنا ہے-
اروا ڈیمن، سی این این کی سابق نامہ نگار اور اب اٹلانٹک کونسل، واشنگٹن، ڈی سی، تھنک ٹینک کی سینئر فیلو کے مطابق:
“These ‘double standards’ reflect a broader tendency of Western media organisations to portray Muslims and Arabs as “less than human”.[16]
یہ ’’دوہرے معیار‘‘ مغربی میڈیا اداروں کے مسلمانوں اور عربوں کو ’’انسان سے کم تر‘‘ کے طور پر پیش کرنے کے وسیع تر رجحان کی عکاسی کرتے ہیں-
اسرائیل کا متنازعہ نقشے کا اجراء:
حال ہی میں اسرائیل کے سرکاری عربی زبان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر متنازع نقشے شائع کیے گئے جس میں میں عرب ممالک کی زمینوں پر تاریخی علاقائی حقوق کا دعویٰ کیا گیا-اس نقشے میں فلسطین، شام، لبنان اور اردن کے کچھ حصوں کو اسرائیل کا حصہ قرار دیا گیا ہے-[17]اسرائیل کا متنازعہ نقشے کا اجراء نہ صرف فلسطینیوں بلکہ عالمی برادری خصوصاً عرب دنیا میں بھی شدید تشویش پیدا کی- او آئی سی ، عرب لیگ، سعودیہ عرب، متحدہ عرب امارات، فلسطین، قطر، اردن نے اسرائیلی حکومت کے سرکاری اکاؤنٹس پر شائع کیے گئے متنازع نقشے کی مذمت کی ہے- تمام ممالک نے اس اقدام کو اسرائیلی قبضے کو وسعت دینے کی دانستہ کوشش اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا- فلسطینی اتھارٹی کے ترجمان نبیل ابو ردینہ نے نقشے کو ’’تمام بین الاقوامی قراردادوں اور قوانین کی کھلی خلاف ورزی‘‘ قرار دیا-[18] سعودی عرب نے اپنے بیان میں کہا کہ ایسے انتہا پسندانہ دعوے قابض حکام کی نیت ظاہر کرتے ہیں، جو اپنے قبضے کو مضبوط کرنے، ریاستوں کی خودمختاری پر کھلے عام حملے جاری رکھنے اور بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی خلاف ورزی کرنے کی عکاسی کرتے ہیں-[19]
اقوام متحدہ، یورپی یونین اور او آئی سی نے اس اقدام کی سخت مذمت کی، لیکن عملی اقدامات کا فقدان نظر آیا-
حالیہ پیش رفت: جنگ بندی کا اعلان
حال ہی میں قطر، مصر اور امریکا کی مشترکہ ثالثی میں فریقین کے مابین جنگ بندی کا اعلان کیا گیا ہے جو کہ ایک اہم پیش رفت ہے- قطر کے وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمن الثانی کے مطابق یہ ایک عارضی فائر بندی ہے، جس پر ابتدائی طور پر ب42دنوں کے لیے عمل کیا جائے گا-[20] انہوں نے مزید بتایا کہ اس معاہدے پر اتوار 19 جنوری سے فریقین عمل درآمد کرنا شروع کر دیں گے-انہوں نے کہا کہ اسرائیلی فورسز غزہ کے شہری علاقوں سے سرحد پر واپس جائیں گی، قیدیوں اور لاشوں کا تبادلہ ہوگا، زخمیوں کو منتقل کرنے اور غزہ میں امداد فراہم کرنے کے اقدامات کیے جائیں گے- بے گھر افراد کی بحالی کیلئے مدد فراہم کی جائے گی-[21] پہلے مرحلے میں حماس 33 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرے گا، جس کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی ایک مخصوص تعداد آزاد کی جائے گی- باقی مراحل کی تفصیلات پہلے مرحلے کی تکمیل کے بعد طے ہوں گی اور معاہدے پر عمل کے لیے قطر، مصر اور امریکا تعاون کریں گے- میڈیا اطلاعات کے مطابق پہلے مرحلے میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کی جائے گی اور یرغمالیوں اور قیدیوں کی رہائی ممکن بنائی جائے گی- دوسرے مرحلے میں مستقل جنگ بندی کیلئے مذاکرات کیے جائیں گے- تیسرے مرحلے میں باقی ماندہ یرغمالیوں کو آزاد کیا جائے گا اور جنگ سے متاثرہ غزہ پٹی میں تعمیر نو کا آغاز کیا جائے گا- جنگ بندی کے معاہدے کے تحت دونوں فریقین نے حملے روکنے پر اتفاق کیا ہے-
اختتامیہ:
مسئلہ فلسطین ایک پیچیدہ تنازع ہے، جس کی جڑیں پچھلی 8 دہائیوں پر محیط ہیں- یہ مسئلہ عالمی برادری کے دوہرے معیار، اسرائیلی بربریت و سفاکیت اور انصاف کے عالمی اداروں کی ناکامی کا نتیجہ ہے، جو انسانی وقار سے زیادہ اپنے معاشی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں- خصوصاً گزشتہ ڈیڑھ سال میں 50 ہزار سے زائد معصوم فلسطینیوں کے قتل عام نے انسانی حقوق کے علمبرداروں کی خاموشی کو بے نقاب کر دیا ہے- حالیہ جنگ بندی وقتی سکون کا ذریعہ تو بن سکتی ہے، لیکن یہ مسئلے کا مستقل حل نہیں-اپنا عہدہ صدارت سنبھالنے کیلئے صدر ٹرمپ کا غزہ میں جنگ بندی کے متعلق بیان کہ ’’وہ پراعتماد نہیں ہیں، یہ ہماری جنگ نہیں ہے بلکہ ان کی جنگ ہے‘‘، ایک مایوس کن بیان ہے-ایک بڑی عالمی طاقت اور معاہدے کے ثالث کے طور معاہدے پر عمل درآمد کروانا امریکہ کی ذمہ داری ہے- انسانیت کے قتل عام سے یونہی پردہ پوشی کرنا مجرمانہ فعل ہے-
غزہ کے باسی اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں ناقابل بیان مصائب کا شکار ہیں- اقوام متحدہ کے ادارے انٹیگریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کلاسیفکیشن (IPC) کے مطابق، تقریباً 18 لاکھ افراد شدید غذائی عدم تحفظ سے دوچار ہیں، جن میں 1 لاکھ 33 ہزار افراد تباہ کن حالات میں زندگی گزار رہے ہیں- اسرائیلی کارروائیوں سے قبل ہی غزہ کی 80 فیصد آبادی انسانی امداد پر منحصر تھی- اقوام متحدہ کے مطابق، جنگ کے باعث ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 18.5 ارب ڈالر ہے، جو غزہ کی 2022 کی جی ڈی پی سے سات گنا زیادہ ہے- ایسے میں غزہ کی معیشت کو 2022ء کی سطح پر واپس لانے کے لیے 350 سال درکار ہوں گے-
ماحولیاتی نقصانات بھی شدید ہیں- اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کے مطابق، پانی اور صفائی کے نظام مکمل طور پر ناکارہ ہو چکے ہیں، جبکہ تباہ شدہ انفراسٹرکچر، گولہ بارود کے اثرات اور 50 ملین ٹن سے زائد ملبہ زمین اور پانی کو آلودہ کر رہے ہیں- ان اثرات کو صاف کرنے میں کم از کم دو دہائیاں درکار ہوں گی-
ان حالات میں عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی فلسطینیوں کے مصائب کو مزید بڑھا رہی ہے- یہ وقت ہے کہ حقیقی اور پائیدار حل کی جانب قدم بڑھایا جائے تاکہ نہ صرف فلسطین میں انسانی حقوق کا تحفظ ہو بلکہ خطے میں دیرپا امن کا قیام بھی ممکن ہو-
٭٭٭
[1]To see the Balfour declaration,
https://www1.udel.edu/History-old/figal/Hist104/assets/pdf/readings/14balfour.pdf
[2]More than 5.9 million Palestine refugees are registered by UNRWA,
https://www.unrwa.org/palestine-refugees
[3]Gaza: World Court Orders Israel to Prevent Genocide, https://www.hrw.org/news/2024/01/26/gaza-world-court-orders-israel-prevent-genocide
[4]Al Jazeera, https://www.aljazeera.com/gallery/2025/1/17/more-than-100-people-killed-in-gaza-since-truce-deal
[5]BBC, Nearly 70% of Gaza war dead verified by UN are women and children.
https://www.bbc.com/news/articles/cn5wel11pgdo.amp
[6]BBC Urdu, Figures quoted in https://www.bbc.com/urdu/articles/cj911l7prmpo
[7]Al Jazeera, https://www.aljazeera.com/news/liveblog/2024/12/28/live-israeli-soldiers-storm-set-fire-to-last-hospital-in-northern-gaza
[8]OHCHR, UN Commission finds war crimes and crimes against humanity in Israeli attacks on Gaza health facilities. https://www.ohchr.org/en/press-releases/2024/10/un-commission-finds-war-crimes-and-crimes-against-humanity-israeli-attacks
[9]World Health Organization, ‘Conflict in Israel and the Occupied Palestinian Territory and region
https://www.who.int/emergencies/situations/conflict-in-Israel-and-oPt
[10]World Health Organization, ‘Statement by principals of the Inter-Agency Standing Committee: Stop the assault on Palestinians in Gaza and on those trying to help them https://www.who.int/news/item/01-11-2024-statement-by-principals-of-the-inter-agency-standing-committee---stop-the-assault-on-palestinians-in-gaza-and-on-those-trying-to-help-them
[11]United Nations, ‘Security Council debates Israeli attacks on hospitals allegedly misused by Hamas, as UN rights chief urges independent probes. https://press.un.org/en/2025/sc15959.doc.htm
[12]Al Jazeera, https://www.aljazeera.com/features/longform/2024/12/31/know-their-names-the-palestinian-journalists-killed-by-israel-in-gaza
[13]Palestine has become the world’s most dangerous country for journalists: https://rsf.org/en/country/palestine
[14]104 journalists killed this year, according to the IFJ, https://www.ifj.org/media-centre/news/detail/category/press-releases/article/104-journalists-killed-this-year-according-to-the
[15]Israeli parliament passes law paving the way for Al Jazeera closure, https://www.aljazeera.com/news/2024/4/1/israeli-pm-netanyahu-revives-push-to-shut-down-al-jazeera
[16]Statement quoted in Al jazeera
https://www.aljazeera.com/news/2023/10/29/western-coverage-of-israels-war-on-gaza-bias-or-unprofessionalism
[17]India today, Israel's new 'Greater Israel' map sparks massive outrage in Arab world,
https://www.indiatoday.in/world/story/israel-new-greater-israel-map-massive-outrage-jordan-lebanon-syria-condemnation-2662953-2025-01-10
[18]Gulf countries condemn Israeli map claiming ‘historical territorial rights’ for Israelhttps://www.aa.com.tr/en/middle-east/gulf-countries-condemn-israeli-map-claiming-historical-territorial-rights-for-israel/3444635
[19]Saudi Arabia, Qatar, UAE condemn 'greater Israel' map
https://tribune.com.pk/story/2520995/saudi-arabia-qatar-uae-condemn-greater-israel-map
[20]Qatari PM details Gaza ceasefire implementation, monitoring,
https://www.aljazeera.com/program/newsfeed/2025/1/17/qatari-pm-details-gaza-ceasefire-implementation-monitoring
[21]Ibid.