مسلم انسٹیٹیوٹ نے ریاست جو نا گڑھ کے مسئلہ پرایک رائونڈ ٹیبل ڈسکشن کا اہتمام کیا- نامور دانشوروں، سیاستدانوں اور محققین نے بحث میں حصہ لیا اورگراں قدر خیالات کا اظہار کیا- لیڈر آف دی ہائوس سینٹ آف پاکستان جناب سینیٹر راجہ ظفر الحق نے نشست کی صدارت کی جبکہ نواب آف جونا گڑھ عزت مآب محمد جہانگیر خانجی نے بطور مہمان خصوصی شر کت کی ، دیگر معزز مہمانان گرامی میں سابق وزیر قانون جناب احمر بلال صوفی ، چیئر مین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی ، سابق صدر این ڈی یو (NDU) لیفٹینٹ جنرل ﴿ر ﴾ رضا محمد خان ، سابق سفیر جناب عامر انور شادانی، سابق ایم این اے و والیٔ ریاست سوات پرنس عدنان اورنگزیب، صدر نشین شعبہ تاریخ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ڈاکڑ ثمینہ اعوان ، شعبہ سیاسیات و بین الاقوامی امور قائداعظم یونیورسٹی ڈاکٹر نذیر حسین، شعبہ تاریخ قائداعظم یونیورسٹی ڈاکٹر فاروق احمد ڈار، ٹی وی اینکر فیصل رحمن ، شعبہ بین الاقوامی تعلُّقات قائداعظم یونیورسٹی ڈاکٹر شبانہ فیاض اور دیگر معززین نے اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا- ڈسکشن میں ہونے والی گفتگو کے اہم نکات درج ذیل ہیں-
تاریخی اعتبار سے جوناگڑھ بر صغیر کی ایک شاہی ریاست تھی نواب شیر خان بابی کے صاحبزادے بہادر خان بابی نے آخری عظیم مغل اورنگزیب کے عہد کے بعد 1734ئ میںجونا گڑھ کی آزاد ریاست کا اعلان کیا- انگریزوں کے بر صغیر پر قبضہ سے جوناگڑھ اور دیگر ریاستیں بر طانوی سامراج کے زیرِ تسلط آگئیں- یہ شاہی ریاستیں اپنے اندرونی معاملات کے نظم و نسق کے حوالے سے آزاد تھیں لیکن دفاع اور خارجی معاملات برطانوی حکومت کی ذمہ دار تھی- برٹش انڈیا کی 562 ریاستوں میں جو نا گڑھ آمدنی کے اعتبار سے پانچویںبڑی اور برٹش انڈیا کی مسلمان ریاستوں میں دوسری بڑی ریاست تھی -مزید برآں اسکی اپنی فوج اور حکومتی مشینری تھی ریاست کے پاس شاہی ریاستوں کی طرح تقریبًا تمام سہولیات اور ذرائع میسر تھے- 1947 کے تقسیمِ ہند کے قانون کے مطابق تمام ریاستوں کو تین آپشن دیئے گئے کہ پاکستان سے الحاق کرلیں یا بھارت کے ساتھ الحاق کر لیں اور چاہیں تو آزاد حیثیت میں رہیں- اس وقت جوناگڑھ کے نواب عالیجاہ مہابت خانجی نے اس وقت کے گورنر جنرل آف پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ الحاقی دستاویز ﴿Instrument of Accession﴾ پر دستخط کئے یہ نواب آف جوناگڑھ کا ذاتی فیصلہ نہ تھا بلکہ ریاست کی کونسل، جس میں مسلمان اورہندو سب شامل تھے، کی رضامندی سے کیا گیا، اورپندرہ ستمبر کو جوناگڑھ وہ پہلی ریاست تھی جس کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہو گیا اور پاکستان کا سبز ہلالی پرچم ایوانِ ریاست پر لہرا دیا گیا- چنانچہ جوناگڑھ باقاعدہ طور پر پاکستان کا حصہ بن گیا- تشکیلِ معاہدہ کے بعد عالیجاہ نواب آف جوناگڑھ نے کراچی کا دورہ کیا تاکہ الحاق کے قانونی اور دستاویزی معاملات کو باقاعدہ طور پر طے کیا جاسکے-لیکن نواب صاحب کی غیر موجودگی میں شامڑ داس گاندھی اور اسکے کارندوں نے ریاست میں بد نظمی اور انتشار پھیلادیا تاکہ بھارتی حملے کا جواز پیدا کیا جائے- 9 نومبر 1947ئ کو بھارتی فوج نے ریاست میں پیش قدمی کرتے ہوئے قبضہ جما لیا اور پاکستانی سبز ہلالی پرچم اتار کر بھارتی ترنگا لہرا دیا -
تقسیمِ ہند کے وقت لارڈ مائونٹ بیٹن نے ابتدائی طور پر اعلان کیا تھا کہ ریاستیں الحاق کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں چاہے جغرافیائی سرحدیں کسی بھی ملک کے ساتھ ملتی ہوں لیکن بعد ازاں اس نے اپنے فیصلے سے خود ہی پیٹھ پھیر لی- جغرافیائی حدود اربع﴿ یعنی ایک ریاست کی سرحدیں بھارت سے ملتی ہیں یا پاکستان سے ﴾ کو جواز بناتے ہوئے ریاست جونا گڑھ کے پاکستان کے ساتھ الحاق میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی گئی- ہندو رہنماوں نے اپنے نام نہاد اکھنڈ بھارت کے مذہبی اعتقادکو سیاسی روپ دے کر مائونٹ بیٹن سے گٹھ جوڑ کر لیا - اس بات کی پوری کوشش کی گئی کہ پاکستان کو جغرافیائی اور معاشی طور پر جتنا محدود کیا جاسکتا ہے، کیا جائے- تقسیم میں نہ صرف جغرافیائی بددیانتی کا مظاہرہ کیا گیا بلکہ اثاثہ جات کی تقسیم میں بھی نا انصافی کی گئی مثال کے طور پر فوج ، جنگی ہتھیاروں اور ٹر ینوں وغیرہ کے اثاثہ جات میں سے پاکستان کو اسکے جائز حصہ سے بہت کم حصہ دیا گیا- نوزائیدہ ریاست کے قیام کے بعد پاکستان کو مختلف مسائل کا سامنا تھا مثلاً غیر منظم فوج ، وسائل کی کمی اور بے شمار دیگر مسائل- ان مشکلات کے باعث پاکستان جونا گڑھ میں ہونے والی بھارتی جارحیت کو نہیں روک سکا جسکا ناجائز فائدہ بھارت نے اٹھایا اور ریاست جاناگڑھ پر قبضہ جما لیا- نواب آف جونا گڑھ جو اُس وقت پاکستان کے ساتھ الحاق سے مطلق قانونی معاملات طے کر رہے تھے، واپس نہ لو ٹ سکے - نہرو نے مقبوضہ ریاست میں فوج کی سر کردگی میں ڈھونگ استصواب رائے کروایا جو سرا سر یک طرفہ اور بین الاقوامی قوانین کے مکمل خِلاف تھا تھا کیو نکہ اسکے مطابق 99.9% لوگوں نے بھارت کے ساتھ الحاق کے حق میں ووٹ دیا- یہ ایسے ہی ہے کہ اگرموجودہ صورت حال میں سات لاکھ بھارتی فوجی کی موجودگی میں مقبوضہ کشمیر میں استصوا ب رائے کرایا جائے تو شاید ایسے ہی نتائج دیکھنے کو ملیں- جو نا گڑھ کیس کے معاملہ میں جب بھارتی فوج پہلے ہی سے وہاں قابض تھی اور بندوق کی نالی پہ عوام کو مکمل طور پہ خائف کرچکی تھی تو استصواب رائے کرانا بے معنی ہوا کیونکہ جوناگڑھ کی آبادی زیر عتاب تھی- بھارت نے کشمیر میں اس بہانے قابض فوج بھیجی کہ جیسے ہی ریاست میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہو گی تو فوج کا انخلائ ہو جائے گا- یہ بھارتی چال دیگر ریاستوں میں بھی اختیار کی گئی اور جو نا گڑھ اسکی ایک واضح مثال ہے-
بھارت نے جب انصاف کی دھجیاں بکھیریں تو قائد اعظم نے اقوام متحدہ سے رجوع کیا تاکہ اس مسئلہ کا قانونی حل نکالا جائے- پاکستان میں ابتدائً جو نا گڑھ کا مسئلہ سیاسی اور تعلیمی حلقوں میں زیر بحث رہا لیکن دارالخلافہ کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی اور وقت کی دھول میں یہ مسئلہ بھلا دیا گیا-جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گوںناگوں عوامل نے اس اہم مسئلہ کونظرانداز کر دیا اور آئینہ تاریخ میں اس کی اہمیت کودھندلا دیا - جونا گڑھ کا مسئلہ کتابوں میں تو پیش کیا گیا لیکن بین الاقوامی سطح پر اس مسئلے کو اجاگر کرنے کی خاطر خواہ کاوشیں نظر نہیں آتیں -بد قسمتی سے اس مقدمہ کو اس طر ح لڑاہی نہیں گیا جیسا اس کا حق تھا اب وقت آچکا ہے کہ اس مسئلے کا قانونی دعوے دار پیش رفت کرے اور کنٹرول سنبھالے-
مسئلہ جو نا گڑھ بین الاقوامی قا نون اور مفاد پرستانہ سیاست میں اٹک کر رہ گیا ہے کہ ایک جانب کشمیر پر بھارت کے پاس ایسی کوئی الحاقی دستاویز موجود نہیں جسکا لائبریری آف انڈیا یا انگلستان میں کوئی ثبوت ملتا ہو ، اس کے باوجود اس نے کشمیر پر جبراً قبضہ جما رکھا ہے لیکن ریاست جو نا گڑھ کے حوالہ سے پاکستان کے پاس واضح طور پر الحاقی دستاویز موجود ہے حتی کہ پاکستان اور جونا گڑھ کے مابین یہاں تک معاملات طے پا گئے تھے کہ ریاست کے امور خارجہ، دفاع اور مواصلات کے معاملات پاکستان کے سپرد ہوں گے لیکن پھر بھی جونا گڑھ پر بھارت نے غاصبانہ قبضہ جما لیا - یہ محض بھارت کے دوہرے معیارات کی وجہ سے ہے اور اکسیویں صدی میں یہ بھارتی "کالو نائزیشن" کا عملی ثبوت ہے-
ریاست جوناگڑھ اور اسکے خود مختار مگر جلاوطن نواب اب بھی انصاف کی راہ تک رہے ہیں - سر ظفر اللہ خان کے یو این میں کیس فائل کرنے کے بعد ابھی تک اس مسئلہ پر کوئی نمایاں پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی- اس کے بعد آنے والی حکومتیں جونا گڑھ کے مسئلہ کو پوری کاوش کے ساتھ اور حقیقی طور پر اُجاگر کرنے میں ناکام رہی ہیں مسئلہ کشمیر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ہمیشہ حصہ رہا ہے یقیناً وہاں کی نازک صورت حال اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے تر جیح دینی چاہیے لیکن اسکے ساتھ ساتھ جونا گڑھ ، مناوادر اور حیدر آباد کے مسائل نہ صرف اقوامِ متحدہ بلکہ میڈیا اور بین الاقوامی فورمز پر بھر پور طریقے سے پیش کیا جانا چاہیے تھا- بد قسمتی سے ہماری طرف سے وہ درکار کاوشیں ایک خواب بن کر رہ گئیں اور اس سبب جونا گڑھ کے لوگوں نے بھی کئی مشکلات کا سامنا کیا اور ابھی تک ان کے ساتھ نا مناسب رویہ اختیار کیا جاتا ہے- جناب نواب آف جونا گڑھ تن تنہا بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر اور اب پاکستان میں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے بر سرِپیکار ہیں- حکومت پاکستان کو یہ مسئلہ بین الاقوامی سطح پر لے جانا چاہیے کیونکہ یہ حقِ خود ارادیت کے منافی ہے کہ ریاست کے نمائندگان پاکستان کے حق میں فیصلہ دیں اور وہاں بھارت جبری قبضہ جما لے-
احمر بلال صوفی:-
قائداعظم اور نواب آف جوناگڑھ کے مابین طے پانے والی الحاقی دستاویز(instrument of accession) پر نواب صاحب کے دستخط بھی موجود ہیں اور یہ ایک انتہائی اہم قانونی دستاویز ہے یہ معاہدہ ’’ بین الاقوامی ٹریٹی‘‘ ہے اور عالمی قوانین کے تحت طے ہوا ہے - مسئلہ جوناگڑھ تب تک اپنی قانونی حیثیت رکھتا ہے جب تک الحاقی دستاویز کی قانونی حیثیت برقرار ہے - بین الاقوامی قانون میں عزت مآب نواب آف جوناگڑھ کی ایک منفرد حیثیت ہے۔ داخلی اور بین الاقوامی قوانین میں نواب آف جو نا گڑھ’’جلاوطن مگر خود مختار ‘‘ Sovereign in exile) ( کی حیثیت رکھتے ہیں جن کے اپنے حقوق ہیں یعنی ایک ایسا شخص جو اپنی ریاست کا اقتدار کھو چکا ہو لیکن اسکے پاس اس مقصد کیلئے قانونی دستاویزات موجود ہوں - اِس مسئلہ کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک اراضی کے قانونی مالک اس کے قانونی دستاویزات کے ساتھ کوئی اور ہیں جبکہ اس اراضی پہ ناجائز قبضہ کسی اور نے جما رکھّا ہے ، اِس لئے عالمی قوانین کے مطابق ریاست کے قانونی حکمران آج بھی نواب جونا گڑھ خود ہیں -لیکن ان کی قانونی حیثیت کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہم ان کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے ہیں- قانون کی سادہ زبان میں آپ کے پاس رجسٹری موجود ہے لیکن قبضہ نہیں ہے چنانچہ آپ کے پاس حق موجود ہے اور بین الاقوامی قانون میں اسے قبول بھی کیا جاتا ہے - اسی ضمن میں حکومت پاکستان نواب صاحب کومالی معاونت فراہم کیے ہوئے ہے جو ان کے ساتھ کیے گئے قانونی معائدہ کے تحت ہے- یہی وجہ ہے کہ جونا گڑھ کا علاقہ پاکستان کے نقشہ میں متنازع علاقہ کے طور پر موجود ہے-
سینیٹر راجہ ظفر الحق:-
کشمیر اور ریاست جو ناگڑھ کی اپنی جداگانہ حیثیت ہے اور دونوں کو عالمی برادری کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے اور الحاقی دستاویز ابھی تک اپنی قانونی حیثیت رکھتا ہے - آج کے مباحثہ میں پیش ہونے والی سفارشات کو حکومت پاکستان کے سامنے پیش کیا جائے گا اور اس کا جائزہ لیا جائے گا تا کہ مؤثر لائحہ عمل تر تیب دیا جا سکے- قائد اعظم کے اس الحاقی دستاویز پر دستخط کے بعد اب مزیدکوئی ایسی گنجائش باقی نہیں جو اس مسئلہ کی پیروی کے لیے ہمارے لیے حوصلہ افزا ہو - آخر میں مَیں کہنا چاہوں گا کہ اس مسئلہ پر ہمارا مو قف بہت شفاف ہے اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق ہے اس لیے اب نواب صاحب سے زیادہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس مقدمہ کی پیروی کریں اور اس مسئلہ کے حل کے لیے کا وشیں کریں-
وقفہ سوالات و جوابات:-
مقررین کے اظہار خیال کے بعد وقفہ سوال و جواب کا انعقاد کیا گیا جس میں شرکائ نے بھر پور حصہ لیا زیرِ بحث آنے والے اہم نکات درج ذیل ہیں :-
پاکستان کی آزادی کے بعد پندرہ دن انتہائی اہم تھے اور نواب آف جونا گڑھ اپنی عوام کے مستقبل کے حوالے سے بہت فکر مند تھے کہ انہیں کہیں بیرونی جارحیت کا سامنا نہ کر نا پڑے- نواب آف جو نا گڑھ نے اپنی سیاسی دوراندیشی سے خو ن ریزی کو روک لیا یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کے وہاں گڈ گورننس کا تصور پایا جاتا تھا چنانچہ یہ مسئلہ نہ صرف قانونی حیثیت رکھتا ہے بلکہ یہ ایک انسانی حقوق کا مسئلہ بھی ہے- نواب آف جونا گڑھ جب پاکستان تشریف لائے تو اپنے ساتھ کاروباری حضرات کو بھی لے آئے جسکے مثبت اثرات پاکستان کی صنعت و تجارت پر پڑے ، کراچی میں آباد ساری میمن کمیونٹی نواب صاحب کے ساتھ جونا گڑھ سے ہجرت کر کے آئی ہے -
ریاست جو نا گڑھ پر قبضہ کے فوری بعد جو ریاست کا جغرافیہ تھا اس کو انہوں نے تین صوبوں میں تقسیم کیا تاکہ وہاں جب استصواب رائے کی صورت حال بنے بھی تو ریاست کو دوبارہ جوڑا نہ جا سکے - مسئلہ جوناگڑھ انسانی حقوق کا مسئلہ بھی ہے اس لیے متعلقہ عالمی اداروں کواس کا نوٹس لینا چاہیے-جوناگڑھ کا مسئلہ بذریعہ میڈیا ، تعلیمی اور تحقیقی اداروں اور دیگر ذرائع سے دوبارہ اُجاگر ہو نا چاہیے-
جونا گڑھ کا مقدمہ ابھی بھی پاکستان کی گرفت میں ہے اور 1996ئ میںپاکستانی وزیر خارجہ نے قومی اسمبلی میں اپنے بیان میں کہا تھا کہ پاکستان جوناگڑھ کے مسئلہ کو ابھی بھی اپنا تصفیہ طلب مسئلہ سمجھتا ہے اور جو نا گڑھ کے لیے کاوش کرتا رہے گا-
سفارشات:-
سیمنار میں کی گئی بحث اور پیش کئے گئے دلائل کی روشنی میں مندرجہ ذیل سفارشات اخذ کی گئی ہیں-
-1جو نا گڑھ کا مسئلہ پاکستان کیلئے ناگزیر مسئلہ ہے اورریاست جونا گڑھ پاکستان کا قانونی حصہ ہے کیونکہ قائداعظم اور نواب آف جو نا گڑھ کی دستخط شدہ قانونی الحاقی دستاویز کی موجودگی میں ریاست پر بھارتی تسلط غیر آئینی ہے اور پاکستان کا دعویٰ بین الاقوامی سطح پر قانونی طور پر مسلم ہے اسلئے اس مسئلہ کے حل کے لیے پاکستان کو تمام بین الاقوامی فورمز کو استعمال کر نا چاہیے-
2 - حکومت پاکستان کو بھارت کے ساتھ تمام تنازعارت بشمول کشمیر ، جوناگڑھ ، مناوادر اور حیدر آباد کو بیک وقت ڈیل کرنا چاہیے-
3 -پاکستانی قوم بالخصوص میڈیا، تعلیمی حلقوں، سول سوسائٹی اور دیگر تمام ادارہ جات کی ذمہ داری ہے کہ وہ جونا گڑھ کے مسئلے کو زندہ رکھیں-
4 -پاکستان کی وزارت خارجہ میں ایک علیحدہ جوناگڑھ ڈیسک قائم کیا جانا چاہئے جیساکہ کشمیر ڈیسک اور پارلیمنٹ میںبھی اس حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دی جانی چاہیے-
5 -حکومت پاکستان کو اسلام آباد میں ایک جونا گڑھ ہائوس قائم کرنا چاہیے جسکی حیثیت کشمیر ہائوس اوردیگر صوبائی ہائوسزکی طرح ہو-
6-نواب آف جونا گڑھ کی پاکستان کے لیے دی گئی قربانیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت پاکستان کو نواب صاحب کو مہیا کی گئی سہولیات میں اضافہ کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنے مقدمہ کو احسن طریقے سے لڑ سکیں-
مسلم انسٹیٹیوٹ نے ریاست جو نا گڑھ کے مسئلہ پرایک رائونڈ ٹیبل ڈسکشن کا اہتمام کیا- نامور دانشوروں، سیاستدانوں اور محققین نے بحث میں حصہ لیا اورگراں قدر خیالات کا اظہار کیا- لیڈر آف دی ہائوس سینٹ آف پاکستان جناب سینیٹر راجہ ظفر الحق نے نشست کی صدارت کی جبکہ نواب آف جونا گڑھ عزت مآب محمد جہانگیر خانجی نے بطور مہمان خصوصی شر کت کی ، دیگر معزز مہمانان گرامی میں سابق وزیر قانون جناب احمر بلال صوفی ، چیئر مین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی ، سابق صدر این ڈی یو (NDU) لیفٹینٹ جنرل ﴿ر ﴾ رضا محمد خان ، سابق سفیر جناب عامر انور شادانی، سابق ایم این اے و والیٔ ریاست سوات پرنس عدنان اورنگزیب، صدر نشین شعبہ تاریخ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ڈاکڑ ثمینہ اعوان ، شعبہ سیاسیات و بین الاقوامی امور قائداعظم یونیورسٹی ڈاکٹر نذیر حسین، شعبہ تاریخ قائداعظم یونیورسٹی ڈاکٹر فاروق احمد ڈار، ٹی وی اینکر فیصل رحمن ، شعبہ بین الاقوامی تعلُّقات قائداعظم یونیورسٹی ڈاکٹر شبانہ فیاض اور دیگر معززین نے اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا- ڈسکشن میں ہونے والی گفتگو کے اہم نکات درج ذیل ہیں-
تاریخی اعتبار سے جوناگڑھ بر صغیر کی ایک شاہی ریاست تھی نواب شیر خان بابی کے صاحبزادے بہادر خان بابی نے آخری عظیم مغل اورنگزیب کے عہد کے بعد 1734ئ میںجونا گڑھ کی آزاد ریاست کا اعلان کیا- انگریزوں کے بر صغیر پر قبضہ سے جوناگڑھ اور دیگر ریاستیں بر طانوی سامراج کے زیرِ تسلط آگئیں- یہ شاہی ریاستیں اپنے اندرونی معاملات کے نظم و نسق کے حوالے سے آزاد تھیں لیکن دفاع اور خارجی معاملات برطانوی حکومت کی ذمہ دار تھی- برٹش انڈیا کی 562 ریاستوں میں جو نا گڑھ آمدنی کے اعتبار سے پانچویںبڑی اور برٹش انڈیا کی مسلمان ریاستوں میں دوسری بڑی ریاست تھی -مزید برآں اسکی اپنی فوج اور حکومتی مشینری تھی ریاست کے پاس شاہی ریاستوں کی طرح تقریبًا تمام سہولیات اور ذرائع میسر تھے- 1947 کے تقسیمِ ہند کے قانون کے مطابق تمام ریاستوں کو تین آپشن دیئے گئے کہ پاکستان سے الحاق کرلیں یا بھارت کے ساتھ الحاق کر لیں اور چاہیں تو آزاد حیثیت میں رہیں- اس وقت جوناگڑھ کے نواب عالیجاہ مہابت خانجی نے اس وقت کے گورنر جنرل آف پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ الحاقی دستاویز ﴿Instrument of Accession﴾ پر دستخط کئے یہ نواب آف جوناگڑھ کا ذاتی فیصلہ نہ تھا بلکہ ریاست کی کونسل، جس میں مسلمان اورہندو سب شامل تھے، کی رضامندی سے کیا گیا، اورپندرہ ستمبر کو جوناگڑھ وہ پہلی ریاست تھی جس کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہو گیا اور پاکستان کا سبز ہلالی پرچم ایوانِ ریاست پر لہرا دیا گیا- چنانچہ جوناگڑھ باقاعدہ طور پر پاکستان کا حصہ بن گیا- تشکیلِ معاہدہ کے بعد عالیجاہ نواب آف جوناگڑھ نے کراچی کا دورہ کیا تاکہ الحاق کے قانونی اور دستاویزی معاملات کو باقاعدہ طور پر طے کیا جاسکے-لیکن نواب صاحب کی غیر موجودگی میں شامڑ داس گاندھی اور اسکے کارندوں نے ریاست میں بد نظمی اور انتشار پھیلادیا تاکہ بھارتی حملے کا جواز پیدا کیا جائے- 9 نومبر 1947ئ کو بھارتی فوج نے ریاست میں پیش قدمی کرتے ہوئے قبضہ جما لیا اور پاکستانی سبز ہلالی پرچم اتار کر بھارتی ترنگا لہرا دیا -
تقسیمِ ہند کے وقت لارڈ مائونٹ بیٹن نے ابتدائی طور پر اعلان کیا تھا کہ ریاستیں الحاق کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں چاہے جغرافیائی سرحدیں کسی بھی ملک کے ساتھ ملتی ہوں لیکن بعد ازاں اس نے اپنے فیصلے سے خود ہی پیٹھ پھیر لی- جغرافیائی حدود اربع﴿ یعنی ایک ریاست کی سرحدیں بھارت سے ملتی ہیں یا پاکستان سے ﴾ کو جواز بناتے ہوئے ریاست جونا گڑھ کے پاکستان کے ساتھ الحاق میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی گئی- ہندو رہنماوں نے اپنے نام نہاد اکھنڈ بھارت کے مذہبی اعتقادکو سیاسی روپ دے کر مائونٹ بیٹن سے گٹھ جوڑ کر لیا - اس بات کی پوری کوشش کی گئی کہ پاکستان کو جغرافیائی اور معاشی طور پر جتنا محدود کیا جاسکتا ہے، کیا جائے- تقسیم میں نہ صرف جغرافیائی بددیانتی کا مظاہرہ کیا گیا بلکہ اثاثہ جات کی تقسیم میں بھی نا انصافی کی گئی مثال کے طور پر فوج ، جنگی ہتھیاروں اور ٹر ینوں وغیرہ کے اثاثہ جات میں سے پاکستان کو اسکے جائز حصہ سے بہت کم حصہ دیا گیا- نوزائیدہ ریاست کے قیام کے بعد پاکستان کو مختلف مسائل کا سامنا تھا مثلاً غیر منظم فوج ، وسائل کی کمی اور بے شمار دیگر مسائل- ان مشکلات کے باعث پاکستان جونا گڑھ میں ہونے والی بھارتی جارحیت کو نہیں روک سکا جسکا ناجائز فائدہ بھارت نے اٹھایا اور ریاست جاناگڑھ پر قبضہ جما لیا- نواب آف جونا گڑھ جو اُس وقت پاکستان کے ساتھ الحاق سے مطلق قانونی معاملات طے کر رہے تھے، واپس نہ لو ٹ سکے - نہرو نے مقبوضہ ریاست میں فوج کی سر کردگی میں ڈھونگ استصواب رائے کروایا جو سرا سر یک طرفہ اور بین الاقوامی قوانین کے مکمل خِلاف تھا تھا کیو نکہ اسکے مطابق 99.9% لوگوں نے بھارت کے ساتھ الحاق کے حق میں ووٹ دیا- یہ ایسے ہی ہے کہ اگرموجودہ صورت حال میں سات لاکھ بھارتی فوجی کی موجودگی میں مقبوضہ کشمیر میں استصوا ب رائے کرایا جائے تو شاید ایسے ہی نتائج دیکھنے کو ملیں- جو نا گڑھ کیس کے معاملہ میں جب بھارتی فوج پہلے ہی سے وہاں قابض تھی اور بندوق کی نالی پہ عوام کو مکمل طور پہ خائف کرچکی تھی تو استصواب رائے کرانا بے معنی ہوا کیونکہ جوناگڑھ کی آبادی زیر عتاب تھی- بھارت نے کشمیر میں اس بہانے قابض فوج بھیجی کہ جیسے ہی ریاست میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہو گی تو فوج کا انخلائ ہو جائے گا- یہ بھارتی چال دیگر ریاستوں میں بھی اختیار کی گئی اور جو نا گڑھ اسکی ایک واضح مثال ہے-
بھارت نے جب انصاف کی دھجیاں بکھیریں تو قائد اعظم نے اقوام متحدہ سے رجوع کیا تاکہ اس مسئلہ کا قانونی حل نکالا جائے- پاکستان میں ابتدائً جو نا گڑھ کا مسئلہ سیاسی اور تعلیمی حلقوں میں زیر بحث رہا لیکن دارالخلافہ کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی اور وقت کی دھول میں یہ مسئلہ بھلا دیا گیا-جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گوںناگوں عوامل نے اس اہم مسئلہ کونظرانداز کر دیا اور آئینہ تاریخ میں اس کی اہمیت کودھندلا دیا - جونا گڑھ کا مسئلہ کتابوں میں تو پیش کیا گیا لیکن بین الاقوامی سطح پر اس مسئلے کو اجاگر کرنے کی خاطر خواہ کاوشیں نظر نہیں آتیں -بد قسمتی سے اس مقدمہ کو اس طر ح لڑاہی نہیں گیا جیسا اس کا حق تھا اب وقت آچکا ہے کہ اس مسئلے کا قانونی دعوے دار پیش رفت کرے اور کنٹرول سنبھالے-
مسئلہ جو نا گڑھ بین الاقوامی قا نون اور مفاد پرستانہ سیاست میں اٹک کر رہ گیا ہے کہ ایک جانب کشمیر پر بھارت کے پاس ایسی کوئی الحاقی دستاویز موجود نہیں جسکا لائبریری آف انڈیا یا انگلستان میں کوئی ثبوت ملتا ہو ، اس کے باوجود اس نے کشمیر پر جبراً قبضہ جما رکھا ہے لیکن ریاست جو نا گڑھ کے حوالہ سے پاکستان کے پاس واضح طور پر الحاقی دستاویز موجود ہے حتی کہ پاکستان اور جونا گڑھ کے مابین یہاں تک معاملات طے پا گئے تھے کہ ریاست کے امور خارجہ، دفاع اور مواصلات کے معاملات پاکستان کے سپرد ہوں گے لیکن پھر بھی جونا گڑھ پر بھارت نے غاصبانہ قبضہ جما لیا - یہ محض بھارت کے دوہرے معیارات کی وجہ سے ہے اور اکسیویں صدی میں یہ بھارتی "کالو نائزیشن" کا عملی ثبوت ہے-
ریاست جوناگڑھ اور اسکے خود مختار مگر جلاوطن نواب اب بھی انصاف کی راہ تک رہے ہیں - سر ظفر اللہ خان کے یو این میں کیس فائل کرنے کے بعد ابھی تک اس مسئلہ پر کوئی نمایاں پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی- اس کے بعد آنے والی حکومتیں جونا گڑھ کے مسئلہ کو پوری کاوش کے ساتھ اور حقیقی طور پر اُجاگر کرنے میں ناکام رہی ہیں مسئلہ کشمیر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ہمیشہ حصہ رہا ہے یقیناً وہاں کی نازک صورت حال اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے تر جیح دینی چاہیے لیکن اسکے ساتھ ساتھ جونا گڑھ ، مناوادر اور حیدر آباد کے مسائل نہ صرف اقوامِ متحدہ بلکہ میڈیا اور بین الاقوامی فورمز پر بھر پور طریقے سے پیش کیا جانا چاہیے تھا- بد قسمتی سے ہماری طرف سے وہ درکار کاوشیں ایک خواب بن کر رہ گئیں اور اس سبب جونا گڑھ کے لوگوں نے بھی کئی مشکلات کا سامنا کیا اور ابھی تک ان کے ساتھ نا مناسب رویہ اختیار کیا جاتا ہے- جناب نواب آف جونا گڑھ تن تنہا بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر اور اب پاکستان میں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے بر سرِپیکار ہیں- حکومت پاکستان کو یہ مسئلہ بین الاقوامی سطح پر لے جانا چاہیے کیونکہ یہ حقِ خود ارادیت کے منافی ہے کہ ریاست کے نمائندگان پاکستان کے حق میں فیصلہ دیں اور وہاں بھارت جبری قبضہ جما لے-
احمر بلال صوفی:-
قائداعظم اور نواب آف جوناگڑھ کے مابین طے پانے والی الحاقی دستاویز(instrument of accession) پر نواب صاحب کے دستخط بھی موجود ہیں اور یہ ایک انتہائی اہم قانونی دستاویز ہے یہ معاہدہ ’’ بین الاقوامی ٹریٹی‘‘ ہے اور عالمی قوانین کے تحت طے ہوا ہے - مسئلہ جوناگڑھ تب تک اپنی قانونی حیثیت رکھتا ہے جب تک الحاقی دستاویز کی قانونی حیثیت برقرار ہے - بین الاقوامی قانون میں عزت مآب نواب آف جوناگڑھ کی ایک منفرد حیثیت ہے۔ داخلی اور بین الاقوامی قوانین میں نواب آف جو نا گڑھ’’جلاوطن مگر خود مختار ‘‘ Sovereign in exile) ( کی حیثیت رکھتے ہیں جن کے اپنے حقوق ہیں یعنی ایک ایسا شخص جو اپنی ریاست کا اقتدار کھو چکا ہو لیکن اسکے پاس اس مقصد کیلئے قانونی دستاویزات موجود ہوں - اِس مسئلہ کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک اراضی کے قانونی مالک اس کے قانونی دستاویزات کے ساتھ کوئی اور ہیں جبکہ اس اراضی پہ ناجائز قبضہ کسی اور نے جما رکھّا ہے ، اِس لئے عالمی قوانین کے مطابق ریاست کے قانونی حکمران آج بھی نواب جونا گڑھ خود ہیں -لیکن ان کی قانونی حیثیت کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہم ان کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے ہیں- قانون کی سادہ زبان میں آپ کے پاس رجسٹری موجود ہے لیکن قبضہ نہیں ہے چنانچہ آپ کے پاس حق موجود ہے اور بین الاقوامی قانون میں اسے قبول بھی کیا جاتا ہے - اسی ضمن میں حکومت پاکستان نواب صاحب کومالی معاونت فراہم کیے ہوئے ہے جو ان کے ساتھ کیے گئے قانونی معائدہ کے تحت ہے- یہی وجہ ہے کہ جونا گڑھ کا علاقہ پاکستان کے نقشہ میں متنازع علاقہ کے طور پر موجود ہے-
سینیٹر راجہ ظفر الحق:-
کشمیر اور ریاست جو ناگڑھ کی اپنی جداگانہ حیثیت ہے اور دونوں کو عالمی برادری کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے اور الحاقی دستاویز ابھی تک اپنی قانونی حیثیت رکھتا ہے - آج کے مباحثہ میں پیش ہونے والی سفارشات کو حکومت پاکستان کے سامنے پیش کیا جائے گا اور اس کا جائزہ لیا جائے گا تا کہ مؤثر لائحہ عمل تر تیب دیا جا سکے- قائد اعظم کے اس الحاقی دستاویز پر دستخط کے بعد اب مزیدکوئی ایسی گنجائش باقی نہیں جو اس مسئلہ کی پیروی کے لیے ہمارے لیے حوصلہ افزا ہو - آخر میں مَیں کہنا چاہوں گا کہ اس مسئلہ پر ہمارا مو قف بہت شفاف ہے اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق ہے اس لیے اب نواب صاحب سے زیادہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس مقدمہ کی پیروی کریں اور اس مسئلہ کے حل کے لیے کا وشیں کریں-
وقفہ سوالات و جوابات:-
مقررین کے اظہار خیال کے بعد وقفہ سوال و جواب کا انعقاد کیا گیا جس میں شرکائ نے بھر پور حصہ لیا زیرِ بحث آنے والے اہم نکات درج ذیل ہیں :-
پاکستان کی آزادی کے بعد پندرہ دن انتہائی اہم تھے اور نواب آف جونا گڑھ اپنی عوام کے مستقبل کے حوالے سے بہت فکر مند تھے کہ انہیں کہیں بیرونی جارحیت کا سامنا نہ کر نا پڑے- نواب آف جو نا گڑھ نے اپنی سیاسی دوراندیشی سے خو ن ریزی کو روک لیا یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کے وہاں گڈ گورننس کا تصور پایا جاتا تھا چنانچہ یہ مسئلہ نہ صرف قانونی حیثیت رکھتا ہے بلکہ یہ ایک انسانی حقوق کا مسئلہ بھی ہے- نواب آف جونا گڑھ جب پاکستان تشریف لائے تو اپنے ساتھ کاروباری حضرات کو بھی لے آئے جسکے مثبت اثرات پاکستان کی صنعت و تجارت پر پڑے ، کراچی میں آباد ساری میمن کمیونٹی نواب صاحب کے ساتھ جونا گڑھ سے ہجرت کر کے آئی ہے -
ریاست جو نا گڑھ پر قبضہ کے فوری بعد جو ریاست کا جغرافیہ تھا اس کو انہوں نے تین صوبوں میں تقسیم کیا تاکہ وہاں جب استصواب رائے کی صورت حال بنے بھی تو ریاست کو دوبارہ جوڑا نہ جا سکے - مسئلہ جوناگڑھ انسانی حقوق کا مسئلہ بھی ہے اس لیے متعلقہ عالمی اداروں کواس کا نوٹس لینا چاہیے-جوناگڑھ کا مسئلہ بذریعہ میڈیا ، تعلیمی اور تحقیقی اداروں اور دیگر ذرائع سے دوبارہ اُجاگر ہو نا چاہیے-
جونا گڑھ کا مقدمہ ابھی بھی پاکستان کی گرفت میں ہے اور 1996ئ میںپاکستانی وزیر خارجہ نے قومی اسمبلی میں اپنے بیان میں کہا تھا کہ پاکستان جوناگڑھ کے مسئلہ کو ابھی بھی اپنا تصفیہ طلب مسئلہ سمجھتا ہے اور جو نا گڑھ کے لیے کاوش کرتا رہے گا-
سفارشات:-
سیمنار میں کی گئی بحث اور پیش کئے گئے دلائل کی روشنی میں مندرجہ ذیل سفارشات اخذ کی گئی ہیں-
1 -جو نا گڑھ کا مسئلہ پاکستان کیلئے ناگزیر مسئلہ ہے اورریاست جونا گڑھ پاکستان کا قانونی حصہ ہے کیونکہ قائداعظم اور نواب آف جو نا گڑھ کی دستخط شدہ قانونی الحاقی دستاویز کی موجودگی میں ریاست پر بھارتی تسلط غیر آئینی ہے اور پاکستان کا دعویٰ بین الاقوامی سطح پر قانونی طور پر مسلم ہے اسلئے اس مسئلہ کے حل کے لیے پاکستان کو تمام بین الاقوامی فورمز کو استعمال کر نا چاہیے-
2 - حکومت پاکستان کو بھارت کے ساتھ تمام تنازعارت بشمول کشمیر ، جوناگڑھ ، مناوادر اور حیدر آباد کو بیک وقت ڈیل کرنا چاہیے-
3 -پاکستانی قوم بالخصوص میڈیا، تعلیمی حلقوں، سول سوسائٹی اور دیگر تمام ادارہ جات کی ذمہ داری ہے کہ وہ جونا گڑھ کے مسئلے کو زندہ رکھیں-
4 -پاکستان کی وزارت خارجہ میں ایک علیحدہ جوناگڑھ ڈیسک قائم کیا جانا چاہئے جیساکہ کشمیر ڈیسک اور پارلیمنٹ میںبھی اس حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دی جانی چاہیے-
5 -حکومت پاکستان کو اسلام آباد میں ایک جونا گڑھ ہائوس قائم کرنا چاہیے جسکی حیثیت کشمیر ہائوس اوردیگر صوبائی ہائوسزکی طرح ہو-
6-نواب آف جونا گڑھ کی پاکستان کے لیے دی گئی قربانیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت پاکستان کو نواب صاحب کو مہیا کی گئی سہولیات میں اضافہ کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنے مقدمہ کو احسن طریقے سے لڑ سکیں-