پوری کائنات میں جس جانب بھی نظر دوڑا لیں ہر شئے میں مکمل نظم و ضبط پایا جاتا ہے، ہر قدرتی نظام میں ایک توازن پایا جاتا ہے، انسان نے جب بھی اس توازن کو چھیڑنے کی کوشش کی اس کو منفی اثرات بھگتنے پڑے - ایسا ہی ایک توازن جِس کائنات میں ہم رہتے ہیں اس کی فضا میںموجود گیسوں میں ہے مگر انسانی سر گرمیوں بالخصوص صنعتی دھوئیں اور فضا آلود گیسوں کی وجہ سے اس توازن میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے - جس کی بڑی وجہ فضامیں گرین ہائوس گیسز کا بے دریغ اخراج ہے- گرین ہائوس گیسز میں کاربن ڈائی آکسائیڈکلورو فلورو کاربن اور دیگر گیسیں شامل ہیں-یہ گیسیںحرارت کو جذب کر لیتی ہیں اور خلا میں حرارت کے انخلا کے عمل کو کم کر دیتی ہیں اورسورج سے شدید حرارت کو زمین تک پہنچنے میں رکاوٹ نہیں دیتی ہیں - مگر رات کے وقت زمین کی حرارت واپس خلا میں جانے میں رکاوٹ بنتی ہیں جن کی فضا میں اضافی موجودگی کی وجہ سے زمین کے اوسط درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے -
صنعتی انقلاب کے بعد1750ئسے لے کر اب تک زمین کے اوسط درجہ حرارت میں1.4 ڈگری فارن ہایئٹ اضافہ ہوا ہے اور حالیہ صدی کے اختتام تک درجہ حرارت میں2-11.5 ڈگری فارن ہایئٹ اضافہ متوقع ہے جو کہ ایک نہایت تشویشناک صوررت حال ہے اس موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے دُنیا کے بڑے بڑے گلیشیرز پگھلنے شروع ہو گئے ہیں چونکہ گلیشیر برف ہے جس کے پگھلنے سے پانی بہتا ہے اُس کی مقدار اِس قدر زیادہ ہے کہ دُنیا بھر میں سطح سمندر میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان سمیت دُنیا کے کئی ساحلی علاقے زیرِ آب آنے کا خدشہ ہے مز ید برآں بارشوں کے سلسلے متأثر ہونے اور غیر متوقع تباہ کن و ہلاکت خیز طوفانوں کا خدشہ ہے-
موسمیاتی تبدیلی پہ تحقیق کنندگان نے کئی فہرستیں جاری کی ہیں جن کے مطابق بعض ممالک بُری طرح متاثر ہونگے اور بعض جزائر پہ مبنی ممالک تو شاید صفحۂ ہستی سے ہی مِٹ جائیں - بری طرح متاثر ہونے والے ممالک میں سرِ فہرست ہالینڈ ، ویتنام ، تھائی لینڈ ، جاپان ، برما ، بنگلہ دیش ، انڈونیشیا ، پاکستان ، چائنا ، بھارت اور دیگر بھی بہت سے ہیں- جبکہ صفحۂ ہستی سے مِٹ جانے جانے والے ممالک/ جزائر میں کیریباتی ، مالدیپ ، آبنائے ٹورس کے جزائر ، ٹیگویا اور کچھ دیگر بھی شامل ہیں -
موسمی تبدیلی کے حوالے سے کچھ ماہرین کی رائے مختلف بھی ہے جن کا ماننا یہ ہے کے یہ تبدیلی کرۂ ارض کے موسم میں ہزاروں سالوں سے جاری کبھی سرد اور کبھی گرم تبدیلی کی وجہ سے ہے- اس تبدیلی کا دورانیہ ہزاروں سالوں پہ محیط ہوتا ہے اور کرۂ ارض اس وقت چھوٹے دورانیہ کے برفانی دور(little ice age)سے پلٹ رہی ہے جس کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافہ فطری عمل ہے -مگر متعددماہرین اب اس بات پہ متفق ہیں کہ اس ’’فطری موسمی تبدیلی‘‘ سے ہٹ کے ’’غیر فطری موسمی تبدیلی‘‘ بھی رُونما ہورہی ہے اور یہ تبدیلی انسانی عوامل کی وجہ سے ہے اور اَن پلٹInreversible)﴾ ہے-
مندرجہ بالا خدشات کے علاوہ یہ خطرہ بھی ہے کہ اس موسمی تبدیلی کی وجہ سے مجبوراً ہجرت، صحت کے مسائل، خوراک کے مسا ئل ، جنگلی حیات کا ناپید ہونا، صاف پانی کی قلت، معاشی مسائل اور دیگر مسائل بھی جنم لے رہے ہیں - اس گلوبل وارمنگ کی موجب گرین ہاؤس گیسز ہیںجو فضا میں مختلف ذرائع سے شامل ہو رہی ہیں اس کا بڑا ماخذ نامیاتی ایندھن ﴿یعنی تیل ،گیس اور کوئلہ وغیرہ﴾ کو ذرائع آمدورفت اور صنعتی پیداوار کے لیے جلانا ہے نیز سیمنٹ کی پیداوار اور دیگر صنعتی پیداوار کے نتیجے میںخارج ہونے والی گیسز ہیںجو فضاکو آلودہ کر رہی ہیں - سالانہ ۰۴ ارب ٹن گرین ہائوس گیس فضا میں انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے شامل ہو رہی ہے-
اس چالیس ارب ٹن میں سب سے بڑا کردار ﴿کم و بیش ۷۴فیصد﴾ نامیاتی ایندھن سے بجلی کی پیداوار کا ہے اس کے بعد ﴿کم وبیش ۵۲فیصد﴾ ذرائع آمدورفت کی وجہ سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی وجہ سے ہے - دنیا میںایک فرداوسطا ًدس ﴿۰۱﴾ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا مُوجِب بنتا ہے جس میں سب سے بڑا عمل دخل گاڑیوں سے خارج ہونے والے دھوئیں کا ہے -
دوسری جانب درخت جو کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں اور ماحول کو خوشگوار بناتے ہیں ان کا بے دریغ کٹائو، آبادی کا تیزی سے بڑھنا، سر سبز علاقوں کو پختہ کنکریٹ کی عمارتوں اور سڑکوں میں بدلنا موسمیاتی تبدیلی پر بری طرح سے اثر انداز ہو رہے ہیں- کیونکہ عمارتوں اور سڑکوں میں استعمال ہونے والا مٹیریل ﴿مثلاً سریا ، سیمینٹ ، بجری وغیرہ﴾ سورج کی چمک سے حدّت پکڑتا ہے جس سے موسم کی گرمی میں بہت زیادہ اَضافہ ہوتا ہے - اِسی طرح آبادیوں کے بڑھنے سے مسلسل اور بے ہنگم انداز میں ٹرانسپورٹ بڑھ رہی ہے ، گھروں میں گیس کے استعمال میں بہت زیادہ اَضافہ ہورہا ہے ، ریسٹورنٹ بھی نئے سے نئے بن رہے رہے ہیں یہ سب چیزیں گو کہ تھوڑا تھوڑا اثر بڑھا رہی ہیں لیکن یہ بھی ذہن میں رہے کہ سمندر پانی کے چھوٹے چھوٹے قطروں کا اجتماع ہے - پھر صنعتوں اور کار خانوں کی گیسیں بھی ہیں- ایک تحقیق کے مطابق دُنیا بھر کے جنگلات میں لگنے والی آگ بھی اِس کا ایک مُوجب ہے -
کو ئی ملک بھی اپنے طور پہ موسمی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کی روک تھام نہیں کر سکتا بلکہ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے تمام ممالک کے باہمی تعاون کی ضرورت ہے موسمی تبدیلی کے تباہ کن نتائج کا سدِباب کرنے کے لیے عالمی سطح پر کافی اقدامات کیے گیے ہیں جس کی پہلی سنجیدہ کوشش 1992 ئ میں کی گئی جب ا قوام متحدہ میں اس چیلینج سے نمٹنے کے لیے (United Nations framework convention on climate change)کا معائدہ طے پایا اسی معا ئدہ کے تحت 1997 ئ میں کیوٹو پروٹوکول kyoto protocolکا معائدہ طے پایا- جو2005ئ میں سختی سے لاگو ہوا جس کے تحت تمام دستخط کرنے والے ممالک نے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پابندیوں کو مزید سخت کرنے اور فضامیں گرین ہائوس گیسس کے اخراج کی روک تھام اوررکازی ایندھن﴿Fossil fuel﴾ کے استعمال کی حوصلہ شکنی پر اتفاق کیا گیا -
حال ہی میں پیرس میں اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی پہ کانفرنس منعقد ہوئی جس میں متعدد ممالک کے سربراہان نے شرکت کی- ہر ملک نے موسمیاتی تبدیلی کے لیے کیے جانے والے اقدامات اور مستقبل میں اپنے منصوبہ جات کی دستاویزاتپیش کیں - 195 ممالک نے نامیاتی ایندھن ﴿یعنی تیل گیس اور کوئلہ﴾ کے استعمال اور گرین ہائوس گیسس کے اخراج میں کمی کا عہد کیاتاکہ صنعتی ترقی کے بعدسے درجہ حرارت میں جاری اضافہ کو 2 ڈگری سینٹی گریڈ تک کی حدسے زیادہ بڑھنے نہ دیا جائے اور اس حوالے سے ترقی پزیر ممالک کو تکنیکی سہولیات فراہم کرنے پر اتفاق ہوا مزید براں موسمیاتی تبدیلی اور اس کے تباہ کن اثرات سے نبرد آزما ہونے کے لیے عالمی فنڈ بھی قائم کیا گیا -
مگر کسی قسم کی ماحولیاتی پالیسی کا نفاذ بڑا مشکل کام ہے کیونکہ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس ملک میں ایندھن کی کھپت پہ ہوتا ہے- ایندھن کی کھپت میں کمی کا مطلب معاشی خسارہ ہے- روایتی ایندھن کے استعمال کو ترک کر کے ماحول دوست ایندھن کے لیے معاشی اور تکنیکی وسائل کی ضروررت ہے اور مختلف اقوام کی ایک دوسرے پر معاشی برتری کی جنگ ایسی پالیسیوں کے نفاذ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے- ترقی یافتہ ممالک اور بڑے صنعتی ممالک کو یہ ذمہ داری لینی چاہئے اور ترقی پذیر ممالک پر اس ضمن میں زیادہ بوجھ نہیں ڈالنا چاہئے کہ وہ پٹرولیم اور دیگر توانائی کے ذرائع کا استعمال ترک کریں - جن ممالک کی صنعتوں نے کرۂ ارض کو نقصان پہنچایا ہے، اس کا خمیازہ ابھی ترقی کے راستے پہ گامزن ممالک کو ان کے اپنے وسائل کے استعمال سے روک کر نہیں کرنا چاہئے-
پاکستان بھی پوری دُنیا میں ایسے دس ملکوں میں ہے جن کا شمار موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متا ثر ہ ممالک میں ہوتا ہے - حالیہ چند برسوں میںآنے والے سیلاب جنہوں نے سینکڑوں جانوں کو لقمہ اجل بنایا اور اَربوں روپے کے انفرا سٹرکچر کو نقصان پہنچا جو اس موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہے اس کے علاوہ موسموں میں غیر معمولی تبدیلی گرمی کی شدید لہریں مون سون کے موسم پہ اثرات اور طوفان قحط زدہ علاقے ان تمام تباہ کن عوامل کے پسِ پشت جو دشمن کارفرما ہے وہ بھی گلوبل وارمنگ ہے -حالانکہ دنیا میں گرین ہائوس گیس کے اخراج میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے جب کہ گزشتہ صدی میں ماحول کی آلودگی کو اس نہج تک پہچانے میںامریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کا بڑا ہاتھ ہے اور گزشتہ چند دہائیوں میں بھارت اور چین جیسے ممالک بھی اس آلودگی میں خاطر خواہ اضافہ کر رہے ہیں - ’’کرو تم بھریں ہم‘‘ - پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کی الگ سے وزارت بھی قائم ہے مگر حالیہ پیرس کانفرنس میں پاکستان کا کردار حوصلہ افزا نہ تھا- دیگر اقوام نے جس فورم پہ اپنے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے تفصیلی منصوبہ جات پیش کیے پاکستانی وفد عالمی دنیا کی توجہ اس جانب مبذول کرانے میں ناکام رہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے سنگین نتائج بھگت رہا ہے جس کے نقصان کے ازالے اور مستقبل میںخدانخواستہ ایسے ہولناک عوامل سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری کی معاونت کی ضرورت ہے اوردوسری جا نب قائد اعظم سولرپاور پراجیکٹ اور اس جیسے دیگر ماحول دوست توانائی کے منصوبوں کے لیے اوروسیع پیمانے پہ شجر کاری کے لیے خطیر رقم درکار ہے- عالمی فورم پاکستان اور اس جیسے دیگر ممالک کو بار بار تنبیہ کر رہے ہیں کہ اپنے اندرونی مافیاز کو ختم کریں خاص کر جو جنگلات کی کٹائی کر رہے ہیں ، اِس سلسلے میں ہماری صوبوں کی حکومتیں نہ صرف مافیاز کو روکنے میں بری طرح ناکام ہیں بلکہ اس جرم میں برابر کی شریک بھی ہیں - گزشتہ کئی عشروں سے پاکستان میں نئے جنگلات نہیں اُگائے گئے جو کہ نہایت ضروری ہیں کہ اُگائے جائیں -
تجاویز :
٭ عالمی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ ماحولیاتی آلودگی کا کیچڑ ایک دوسرے پر اچھالنے اور محض بڑے بڑے دعوںپہ اکتفا کرنے کے بجائے اس ضمن میں ٹھوس عملی اقدامات اٹھائیں اور ترقی یافتہ ممالک اپنے کیے کی سزا غریب ممالک پہ ڈالنے کی بجائے ان ممالک کو متبادل ماحول دوست مگر مہنگے توانائی کے ذرائع کے حصول کے لیے فنی اور مالی معاونت فراہم کریں-
٭عالمی برادری کو اس خوبصورت کرۂ ارض کو ماحولیاتی آلودگی کے بھیانک نتائج سے بچانے کے لیے متفقہ لائحہ عمل پر سختی سے کاربند ہونے کی ضرورت ہے-
٭تمام ممالک کو چاہیے کے وہ نامیاتی ایندھن کے استعمال کو کم سے کم کریں اور متبادل توانائی کے ذرائع جیسا کے ہائیڈرو پاور ، سولر پاور اور ونڈپاور کو ترجیح دیں -
میں یہاں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ ہر ذِمّہ داری حکومتوں کی نہیں ہوتی ایک قوم کے فرد کے طور پہ لوگوں کی بھی بہت ذِمّہ داریاں ہوتی ہیں - حکومتی سطح کے علاوہ فرد کی سطح پہ بھی یہ ذمہ داریاں عائدہوتی ہیں کہ:
٭انرجی ایفیشنٹ گاڑیوں کا استعمال کریں اور شمسی توانائی کو ترجیح دیں -
خاص کر نوجوان نسل کو چاہیے کے اپنے طرززندگی کو اس طرح بدلنے کی کوشش کریں کہ :
٭ کہیں آنے جانے کے لیے گاڑیوں کا استعمال کم سے کم کیا جائے -
٭ کم دوری کے فاصلوں کو پیدل یا سائیکل پر طے کیا جائے اور ماس ٹرانزٹ نظام کا استعمال کیا جائے
٭ جنگلات کے کٹاؤ کی عوامی سطح پہ روک تھام کی جانی چاہیے - اور نئے جنگلات لگانے اور شجر کاری مہمات تیز کرنے کی تدابیر اِختیار کی جائیں-
٭ حکومت پاکستان کو چاہیے کے مالبرداری اور مسافروں کے لیے ریلوے کے نظام کو بہتر بنائے کیونکہ ریل نہ صرف کم خرچ ہے بلکہ اوسطاًفی مسافر کاربن ڈائی آکسا ئیڈکا اخراج بھی کم کرتی ہے ۔
پوری کائنات میں جس جانب بھی نظر دوڑا لیں ہر شئے میں مکمل نظم و ضبط پایا جاتا ہے، ہر قدرتی نظام میں ایک توازن پایا جاتا ہے، انسان نے جب بھی اس توازن کو چھیڑنے کی کوشش کی اس کو منفی اثرات بھگتنے پڑے - ایسا ہی ایک توازن جِس کائنات میں ہم رہتے ہیں اس کی فضا میںموجود گیسوں میں ہے مگر انسانی سر گرمیوں بالخصوص صنعتی دھوئیں اور فضا آلود گیسوں کی وجہ سے اس توازن میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے - جس کی بڑی وجہ فضامیں گرین ہائوس گیسز کا بے دریغ اخراج ہے- گرین ہائوس گیسز میں کاربن ڈائی آکسائیڈکلورو فلورو کاربن اور دیگر گیسیں شامل ہیں-یہ گیسیںحرارت کو جذب کر لیتی ہیں اور خلا میں حرارت کے انخلا کے عمل کو کم کر دیتی ہیں اورسورج سے شدید حرارت کو زمین تک پہنچنے میں رکاوٹ نہیں دیتی ہیں - مگر رات کے وقت زمین کی حرارت واپس خلا میں جانے میں رکاوٹ بنتی ہیں جن کی فضا میں اضافی موجودگی کی وجہ سے زمین کے اوسط درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے-
صنعتی انقلاب کے بعد1750ئسے لے کر اب تک زمین کے اوسط درجہ حرارت میں1.4 ڈگری فارن ہایئٹ اضافہ ہوا ہے اور حالیہ صدی کے اختتام تک درجہ حرارت میں2-11.5 ڈگری فارن ہایئٹ اضافہ متوقع ہے جو کہ ایک نہایت تشویشناک صوررت حال ہے اس موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے دُنیا کے بڑے بڑے گلیشیرز پگھلنے شروع ہو گئے ہیں چونکہ گلیشیر برف ہے جس کے پگھلنے سے پانی بہتا ہے اُس کی مقدار اِس قدر زیادہ ہے کہ دُنیا بھر میں سطح سمندر میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان سمیت دُنیا کے کئی ساحلی علاقے زیرِ آب آنے کا خدشہ ہے مز ید برآں بارشوں کے سلسلے متأثر ہونے اور غیر متوقع تباہ کن و ہلاکت خیز طوفانوں کا خدشہ ہے-
موسمیاتی تبدیلی پہ تحقیق کنندگان نے کئی فہرستیں جاری کی ہیں جن کے مطابق بعض ممالک بُری طرح متاثر ہونگے اور بعض جزائر پہ مبنی ممالک تو شاید صفحۂ ہستی سے ہی مِٹ جائیں - بری طرح متاثر ہونے والے ممالک میں سرِ فہرست ہالینڈ ، ویتنام ، تھائی لینڈ ، جاپان ، برما ، بنگلہ دیش ، انڈونیشیا ، پاکستان ، چائنا ، بھارت اور دیگر بھی بہت سے ہیں- جبکہ صفحۂ ہستی سے مِٹ جانے جانے والے ممالک/ جزائر میں کیریباتی ، مالدیپ ، آبنائے ٹورس کے جزائر ، ٹیگویا اور کچھ دیگر بھی شامل ہیں -
موسمی تبدیلی کے حوالے سے کچھ ماہرین کی رائے مختلف بھی ہے جن کا ماننا یہ ہے کے یہ تبدیلی کرۂ ارض کے موسم میں ہزاروں سالوں سے جاری کبھی سرد اور کبھی گرم تبدیلی کی وجہ سے ہے- اس تبدیلی کا دورانیہ ہزاروں سالوں پہ محیط ہوتا ہے اور کرۂ ارض اس وقت چھوٹے دورانیہ کے برفانی دور(little ice age)سے پلٹ رہی ہے جس کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافہ فطری عمل ہے -مگر متعددماہرین اب اس بات پہ متفق ہیں کہ اس ’’فطری موسمی تبدیلی‘‘ سے ہٹ کے ’’غیر فطری موسمی تبدیلی‘‘ بھی رُونما ہورہی ہے اور یہ تبدیلی انسانی عوامل کی وجہ سے ہے اور اَن پلٹInreversible)﴾ ہے-
مندرجہ بالا خدشات کے علاوہ یہ خطرہ بھی ہے کہ اس موسمی تبدیلی کی وجہ سے مجبوراً ہجرت، صحت کے مسائل، خوراک کے مسا ئل ، جنگلی حیات کا ناپید ہونا، صاف پانی کی قلت، معاشی مسائل اور دیگر مسائل بھی جنم لے رہے ہیں - اس گلوبل وارمنگ کی موجب گرین ہاؤس گیسز ہیںجو فضا میں مختلف ذرائع سے شامل ہو رہی ہیں اس کا بڑا ماخذ نامیاتی ایندھن ﴿یعنی تیل ،گیس اور کوئلہ وغیرہ﴾ کو ذرائع آمدورفت اور صنعتی پیداوار کے لیے جلانا ہے نیز سیمنٹ کی پیداوار اور دیگر صنعتی پیداوار کے نتیجے میںخارج ہونے والی گیسز ہیںجو فضاکو آلودہ کر رہی ہیں - سالانہ ۰۴ ارب ٹن گرین ہائوس گیس فضا میں انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے شامل ہو رہی ہے-
اس چالیس ارب ٹن میں سب سے بڑا کردار ﴿کم و بیش ۷۴فیصد﴾ نامیاتی ایندھن سے بجلی کی پیداوار کا ہے اس کے بعد ﴿کم وبیش ۵۲فیصد﴾ ذرائع آمدورفت کی وجہ سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی وجہ سے ہے - دنیا میںایک فرداوسطا ًدس ﴿۰۱﴾ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا مُوجِب بنتا ہے جس میں سب سے بڑا عمل دخل گاڑیوں سے خارج ہونے والے دھوئیں کا ہے -
دوسری جانب درخت جو کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں اور ماحول کو خوشگوار بناتے ہیں ان کا بے دریغ کٹائو، آبادی کا تیزی سے بڑھنا، سر سبز علاقوں کو پختہ کنکریٹ کی عمارتوں اور سڑکوں میں بدلنا موسمیاتی تبدیلی پر بری طرح سے اثر انداز ہو رہے ہیں- کیونکہ عمارتوں اور سڑکوں میں استعمال ہونے والا مٹیریل ﴿مثلاً سریا ، سیمینٹ ، بجری وغیرہ﴾ سورج کی چمک سے حدّت پکڑتا ہے جس سے موسم کی گرمی میں بہت زیادہ اَضافہ ہوتا ہے - اِسی طرح آبادیوں کے بڑھنے سے مسلسل اور بے ہنگم انداز میں ٹرانسپورٹ بڑھ رہی ہے ، گھروں میں گیس کے استعمال میں بہت زیادہ اَضافہ ہورہا ہے ، ریسٹورنٹ بھی نئے سے نئے بن رہے رہے ہیں یہ سب چیزیں گو کہ تھوڑا تھوڑا اثر بڑھا رہی ہیں لیکن یہ بھی ذہن میں رہے کہ سمندر پانی کے چھوٹے چھوٹے قطروں کا اجتماع ہے - پھر صنعتوں اور کار خانوں کی گیسیں بھی ہیں- ایک تحقیق کے مطابق دُنیا بھر کے جنگلات میں لگنے والی آگ بھی اِس کا ایک مُوجب ہے -
کو ئی ملک بھی اپنے طور پہ موسمی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کی روک تھام نہیں کر سکتا بلکہ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے تمام ممالک کے باہمی تعاون کی ضرورت ہے موسمی تبدیلی کے تباہ کن نتائج کا سدِباب کرنے کے لیے عالمی سطح پر کافی اقدامات کیے گیے ہیں جس کی پہلی سنجیدہ کوشش 1992 ئ میں کی گئی جب ا قوام متحدہ میں اس چیلینج سے نمٹنے کے لیے (United Nations framework convention on climate change)کا معائدہ طے پایا اسی معا ئدہ کے تحت 1997 ئ میں کیوٹو پروٹوکول kyoto protocolکا معائدہ طے پایا- جو2005ئ میں سختی سے لاگو ہوا جس کے تحت تمام دستخط کرنے والے ممالک نے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پابندیوں کو مزید سخت کرنے اور فضامیں گرین ہائوس گیسس کے اخراج کی روک تھام اوررکازی ایندھن﴿Fossil fuel﴾ کے استعمال کی حوصلہ شکنی پر اتفاق کیا گیا -
حال ہی میں پیرس میں اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی پہ کانفرنس منعقد ہوئی جس میں متعدد ممالک کے سربراہان نے شرکت کی- ہر ملک نے موسمیاتی تبدیلی کے لیے کیے جانے والے اقدامات اور مستقبل میں اپنے منصوبہ جات کی دستاویزاتپیش کیں - 195 ممالک نے نامیاتی ایندھن ﴿یعنی تیل گیس اور کوئلہ﴾ کے استعمال اور گرین ہائوس گیسس کے اخراج میں کمی کا عہد کیاتاکہ صنعتی ترقی کے بعدسے درجہ حرارت میں جاری اضافہ کو 2 ڈگری سینٹی گریڈ تک کی حدسے زیادہ بڑھنے نہ دیا جائے اور اس حوالے سے ترقی پزیر ممالک کو تکنیکی سہولیات فراہم کرنے پر اتفاق ہوا مزید براں موسمیاتی تبدیلی اور اس کے تباہ کن اثرات سے نبرد آزما ہونے کے لیے عالمی فنڈ بھی قائم کیا گیا -
مگر کسی قسم کی ماحولیاتی پالیسی کا نفاذ بڑا مشکل کام ہے کیونکہ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس ملک میں ایندھن کی کھپت پہ ہوتا ہے- ایندھن کی کھپت میں کمی کا مطلب معاشی خسارہ ہے- روایتی ایندھن کے استعمال کو ترک کر کے ماحول دوست ایندھن کے لیے معاشی اور تکنیکی وسائل کی ضروررت ہے اور مختلف اقوام کی ایک دوسرے پر معاشی برتری کی جنگ ایسی پالیسیوں کے نفاذ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے- ترقی یافتہ ممالک اور بڑے صنعتی ممالک کو یہ ذمہ داری لینی چاہئے اور ترقی پذیر ممالک پر اس ضمن میں زیادہ بوجھ نہیں ڈالنا چاہئے کہ وہ پٹرولیم اور دیگر توانائی کے ذرائع کا استعمال ترک کریں - جن ممالک کی صنعتوں نے کرۂ ارض کو نقصان پہنچایا ہے، اس کا خمیازہ ابھی ترقی کے راستے پہ گامزن ممالک کو ان کے اپنے وسائل کے استعمال سے روک کر نہیں کرنا چاہئے-
پاکستان بھی پوری دُنیا میں ایسے دس ملکوں میں ہے جن کا شمار موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متا ثر ہ ممالک میں ہوتا ہے - حالیہ چند برسوں میںآنے والے سیلاب جنہوں نے سینکڑوں جانوں کو لقمہ اجل بنایا اور اَربوں روپے کے انفرا سٹرکچر کو نقصان پہنچا جو اس موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہے اس کے علاوہ موسموں میں غیر معمولی تبدیلی گرمی کی شدید لہریں مون سون کے موسم پہ اثرات اور طوفان قحط زدہ علاقے ان تمام تباہ کن عوامل کے پسِ پشت جو دشمن کارفرما ہے وہ بھی گلوبل وارمنگ ہے -حالانکہ دنیا میں گرین ہائوس گیس کے اخراج میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے جب کہ گزشتہ صدی میں ماحول کی آلودگی کو اس نہج تک پہچانے میںامریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کا بڑا ہاتھ ہے اور گزشتہ چند دہائیوں میں بھارت اور چین جیسے ممالک بھی اس آلودگی میں خاطر خواہ اضافہ کر رہے ہیں - ’’کرو تم بھریں ہم‘‘ - پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کی الگ سے وزارت بھی قائم ہے مگر حالیہ پیرس کانفرنس میں پاکستان کا کردار حوصلہ افزا نہ تھا- دیگر اقوام نے جس فورم پہ اپنے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے تفصیلی منصوبہ جات پیش کیے پاکستانی وفد عالمی دنیا کی توجہ اس جانب مبذول کرانے میں ناکام رہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے سنگین نتائج بھگت رہا ہے جس کے نقصان کے ازالے اور مستقبل میںخدانخواستہ ایسے ہولناک عوامل سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری کی معاونت کی ضرورت ہے اوردوسری جا نب قائد اعظم سولرپاور پراجیکٹ اور اس جیسے دیگر ماحول دوست توانائی کے منصوبوں کے لیے اوروسیع پیمانے پہ شجر کاری کے لیے خطیر رقم درکار ہے- عالمی فورم پاکستان اور اس جیسے دیگر ممالک کو بار بار تنبیہ کر رہے ہیں کہ اپنے اندرونی مافیاز کو ختم کریں خاص کر جو جنگلات کی کٹائی کر رہے ہیں ، اِس سلسلے میں ہماری صوبوں کی حکومتیں نہ صرف مافیاز کو روکنے میں بری طرح ناکام ہیں بلکہ اس جرم میں برابر کی شریک بھی ہیں - گزشتہ کئی عشروں سے پاکستان میں نئے جنگلات نہیں اُگائے گئے جو کہ نہایت ضروری ہیں کہ اُگائے جائیں -
تجاویز :
٭ عالمی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ ماحولیاتی آلودگی کا کیچڑ ایک دوسرے پر اچھالنے اور محض بڑے بڑے دعوںپہ اکتفا کرنے کے بجائے اس ضمن میں ٹھوس عملی اقدامات اٹھائیں اور ترقی یافتہ ممالک اپنے کیے کی سزا غریب ممالک پہ ڈالنے کی بجائے ان ممالک کو متبادل ماحول دوست مگر مہنگے توانائی کے ذرائع کے حصول کے لیے فنی اور مالی معاونت فراہم کریں-
٭عالمی برادری کو اس خوبصورت کرۂ ارض کو ماحولیاتی آلودگی کے بھیانک نتائج سے بچانے کے لیے متفقہ لائحہ عمل پر سختی سے کاربند ہونے کی ضرورت ہے-
٭تمام ممالک کو چاہیے کے وہ نامیاتی ایندھن کے استعمال کو کم سے کم کریں اور متبادل توانائی کے ذرائع جیسا کے ہائیڈرو پاور ، سولر پاور اور ونڈپاور کو ترجیح دیں -
میں یہاں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ ہر ذِمّہ داری حکومتوں کی نہیں ہوتی ایک قوم کے فرد کے طور پہ لوگوں کی بھی بہت ذِمّہ داریاں ہوتی ہیں - حکومتی سطح کے علاوہ فرد کی سطح پہ بھی یہ ذمہ داریاں عائدہوتی ہیں کہ:
٭انرجی ایفیشنٹ گاڑیوں کا استعمال کریں اور شمسی توانائی کو ترجیح دیں -
خاص کر نوجوان نسل کو چاہیے کے اپنے طرززندگی کو اس طرح بدلنے کی کوشش کریں کہ :
٭ کہیں آنے جانے کے لیے گاڑیوں کا استعمال کم سے کم کیا جائے -
٭ کم دوری کے فاصلوں کو پیدل یا سائیکل پر طے کیا جائے اور ماس ٹرانزٹ نظام کا استعمال کیا جائے
٭ جنگلات کے کٹاؤ کی عوامی سطح پہ روک تھام کی جانی چاہیے - اور نئے جنگلات لگانے اور شجر کاری مہمات تیز کرنے کی تدابیر اِختیار کی جائیں-
٭ حکومت پاکستان کو چاہیے کے مالبرداری اور مسافروں کے لیے ریلوے کے نظام کو بہتر بنائے کیونکہ ریل نہ صرف کم خرچ ہے بلکہ اوسطاًفی مسافر کاربن ڈائی آکسا ئیڈکا اخراج بھی کم کرتی ہے ۔