مشرق وسطی کی صورت حال پہلے کیا کم خراب تھی کے اب روس اور ترکی کے مابین نیا تنازعہ شروع ہو گیاجو عالمی امن کے لیے ایک بڑا خطرہ ثابت ہو سکتا ہے- ترکی اور روس کے تعلقات میں اتار چڑھائو آتا رہا ہے- اگر ان کے تعلقات کا مختصر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تر کی اور روس ہمسایہ ممالک ہیں جو قر ونِ وسطی کی عظیم سلطنتیں رہی ہیں- انا طو لیہ کے ترکوں اورروس کے درمیان بلیک سی ﴿بحیرہ اَسود﴾ بہتا ہے- دونوں سلطنتیں پہلی جنگ عظیم میں آخری مرتبہ ایک دوسرے کے خلاف منظر عام پر آئیںتھیںاور جنگ عظیم کا اختتام بد قسمتی سے دونوں سلطنتوں کا اختتام ثابت ہوا - ولادی میر لینن نے مصطفی کمال کی قوم پرست تحریک کو دیکھتے ہوئے مغربی آرمینیا اور آبنائو ں پر اپنے دعویٰ کو واپس لے لیا اور یو ںدونو ں مما لک کے تعلقات میںخا طر خواہ بہتری نمو دار ہونا شروع ہوئی-رشین سوویت فیڈریٹو سوشلسٹ ریپبلک تر کی میں مصطفی کمال کی مکمل حمایت کی جس کے نتیجہ میں 16 مارچ 1921ئ کو’’ گرینڈ نیشنل اسمبلی آف ترکی‘‘ اور بالشویک رشیا﴿روس﴾ کے درمیان ’’ معاہدہ ماسکو ‘‘ ﴿Treaty of Moscow ﴾ ہو ا جس میں لینن اور مصطفی کمال نے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کا عہد کیا- مزید 13 اکتوبر 1921 ئ کو’’ معاہد ہ قارص‘‘ ﴿Treaty of Kars ﴾ گرینڈ نیشنل اسمبلی آف ترکی ﴿جو بعد میں ری پبلک آف ترکی کہلائی ﴾ اور سوویت یونین کے درمیان ہوا جس پر ترکی کے مصطفی کمال کی حکومت ، سوویت آرمینیا ، سوویت آذربائیجان اور سوویت جارجیا نے دستخط کیے اور عارضی سرحدوں کے بارے میں معاہدات ہوئے- ایک ہی خطے کے اہم ممالک ہونے کے ناطے بعض معاملات پہ سخت و نرم اِختلافات چلتے رہے لیکن ’’اوور آل‘‘ تعلقات اچھے رہے - 1991ئ میں سوویت یونین کے منتشر ہونے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات قدرے مزیدبہتر ہوئے -
آپس کے بیشتر تنازعات و اختلافات کے باوجود دونوں ممالک اہم سٹرٹیجک پارٹنر رہے ہیں- 1992ئ میں تر ک وزیر اعظم’’ سلمان ڈیرل‘‘ کے دورہ ماسکو کے بعد 2009ئ میں’’ رجب طیب اردگان‘‘نے روس کا دورہ کیا-دونوں ممالک نے ماضی کے اختلافات کو نظر انداز کرتے ہوئے بہتر معاشی ، اقتصادی اور ثقافتی تعلقات کو پر وان چڑھانے کے لیے منصوبے طے پائے - 2010ئ میں روسی صدر’’ متری میرودیف‘‘ نے دورہ ترکی کے موقع پر دو طرفہ تجارت کا حجم آئندہ پانچ سالوں میں 38 ارب ڈالر سے 100 ارب ڈالر تک بڑھانے کا عہد کیا- بالخصوص توانائی کے شعبوں میں ہونے والا نیو کلئیر پاور پلانٹ کا معاہدہ سر فہر ست تھا جسے روسی کمپنی’’ ایٹم سٹوری ایکسپورٹ‘‘نے مکمل کرنا تھا مزید ترکی میں بجلی زیادہ تر روسی کمپنیوں کی مر ہونِ منت ہے - ترکی میں روس کا اہم منصوبہ’’ ٹرکش سٹریم پائپ لائن ‘‘ بھی ہے جس کے کارآمد ہوتے ہی روس کا یوکرائن پر انحصار کم ہو جائے گا-
24 نومبر 2015 ئ کو یہ خبر منظرِ عا م پر آئی کہ ترکی کے ایف سولہ (F-16) طیارہ نے روس کے سخوئی ایس یوچوبیس(Sukhoi SU-24) طیارے کو ترک شام سر حد کے قریب مار گرایا-تر کی کا کہنا ہے کہ وہ روسی طیارہ بشارالاسد کے مخالف ترکمان باغیوں کے ٹھکانوں پر حملہ کرتے ہوئے شام میں گھسی ہوئی 10 کلو میٹر ترک چونچ پر سے گزرتا تھا-مز ید یہ کہ پانچ منٹ میں روسی طیارہ کو دس مرتبہ وارننگ دی گئی کہ اپنا رُخ تبدیل کر کے جنوب کی جانب کر لے مگر پائلٹ کی لاپرواہی کی وجہ سے ترکی کے فضائیہ طیارے کو حرکت میں آنا پڑا - اِس کے بر عکس کچھ مبصر ین کا کہنا ہے کہ طیا رے نے فضا ئی سر حد و ں کی خلا ف ورزی نہیں کی -تا حا ل یہ معا ملہ تنازعہ کا شکا ر ہے-اس لیے حتمی طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا- مزید یہ کہ امریکی صدر اوباما نے ترکی کے عمل کو جائز قرار دیتے ہوئے ترکی کی حمایت کا اعلان کیا ہے - امریکی صدر کا کہنا ہے کہ اپنی فضائی سرحدوں کی حفاظت کر نا انقرہ کا قانونی حق ہے ، دوسری طرف روسی صدر ’’ ولادی میر پیوٹن‘‘ نے ترکی کے اس فیصلہ کی شدید مذمت کی ہے اور پیوٹن کا کہنا ہے کہ ترکی کی جانب سے روسی جہاز دہشت گرد تنظیموںسے اپنے تیل کی تجارت کو محفوظ رکھنے کے لیے گرایا گیا اور ترکی دانستہ طورپر روس سے اپنے تعلقات خراب کر رہا ہے- صدر پیوٹن کا مطالبہ ہے کہ انقرہ حکومت اپنی اقدا م پر معافی مانگے ورنہ ماسکو سود سمیت بدلہ لے گا دوسری طرف رجب طیب اردگان نے پیرس میں روس کی جانب سے لگائے جانے والے الزام کو یکسر رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر روس اپنا الزام ثابت کر دے تو تر کی کا وقار اس کا تقاضا کر تاہے کہ مَیں صدارت چھوڑ دوں-
ترکی نے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار ضرور کیا مگر معافی مانگنے سے انکار کر دیا ہے کہ غلطی روسی فضائیّہ کی ہے ترکی کیوں معافی مانگے - امریکی صدر نے نیٹو کی جانب سے کہا ہے کہ داعش رو س سمیت عالمی دنیا کا مشترکہ د شمن ہے-ترک صدر نے روسی صدر سے ملاقات کی پیش کش بھی کی تھی جسے پیوٹن کی جانب سے معافی کے ساتھ مشروط کر کے رد کر دیا گیا- ان تمام معاملات میں حالات مزید پیچیدہ ہو گئے ہیں-
روس نے ایران کی مُعاونت سے اپنا’’ا ئیرڈیفنس سسٹم‘‘ شام میں نصب کر دیا ہے- میزائل بردار روسی جہاز بھی طرطوس کی بندرگاہ کے قریب موجود ہے جو مستقبل میں کشیدگی کا باعث بن سکتے ہیں- اس واقعہ کے بعد حالات کی کشیدگی کے باعث روسی صدر نے ترکی کے خلاف پابندیاں لگانے کے حکم نامے پر بھی دستخط کر دئیے ہیں- ترکی نے اپنے باشندوں کو بلا ضرورت روس کے سفر سے روک دیا ہے-
ترکی پر لگائی جانے والی اقتصادی پابندیوں میں ترکی کی زرعی اجناس کی درآمد پر پابندی ، چارٹرڈ پروازوں پر پابندی اور روسی کمپنیوں میں ترک باشندوں کو ملازمت نہ دینے کا فیصلہ سر فہرست ہیں-روس کمپنیوں میں اس وقت دس ہزار سے زائد ترک باشندے کام کر رہے ہیں- روس کے کئی حکام موجودہ تنائو میں ترک خوراک کی خریداری کو حب الوطنی کے منہ پر طمانچہ قرار دیتے ہیں- روس میں ترک سبزیاں اور پھل عام نظر آتے ہیںجو روس پر یو ر پی اور مغربی مما لک کی طر ف سے لگنے والی پا بند یو ں کی و جہ سے بڑھنے والی تجارت اور بہتر تعلقا ت کی مر ہونِ منت ہیں- تر کی روس کومشر ق و سطیٰ کے گر م پا نی کے سمند ر تک رسا ئی فراہم کر نے میں اہم کر دار ادا کر سکتا ہے-مز ید مشر ق وسطیٰ سمیت تمام دنیا کے امن میں دونوں مما لک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں-مشر ق و مغر ب کی سر د جنگ کے اختتا م کے بعد حا لا ت بہتری کی جا نب گا مز ن ہیںجس میں دونو ں ممالک کو اپنا اپنا کر دار اد ا کر نا ہو گا- اگر توانائی کے شعبہ پر اَثرات کی بات کریں تو اَثرات بہت خطرناک ہو سکتے ہیں، ابھی تک نیو کلیئر پاور پلانٹ اور گیس پائپ لائن منصوبوں کو روکا نہیں گیا لیکن اگر حالات مزید تنائو کا شکار ہوئے تو یہ منصوبے بھی خطرہ میں ہیں- ’’ مرسین‘‘صوبہ میںنیو کلئیر پلانٹ پر روس تین ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے اور ترکی کو اس پلانٹ کی تکمیل سے توانائی کی مد میں سالانہ14 ارب ڈالر بچت ہو گی- لہٰذا یہ دونوں ممالک کے لئے خسارہ ہو گا کہ یہ منصوبے کسی آفت یا تاخیر کا شکار ہوں-ترکی میں گاڑیوںکی نقل و حمل کا چالیس فیصد دارومدارما ئع قدرتی گیس پر ہے جس کا پچپن فیصد حصہ روس سے در آمد شد ہ گیس پرمنحصر ہے لہٰذا تر کی کوا پنے اقتصا دی فوائد کو بھی مد نظر رکھنا چا ہیے- ایک سو سے زائد ترک کمپنیاں روس میں خوراک ، کیمیکل اور گارمنٹ انڈسٹری سمیت مختلف شعبہ جات میں کام کر رہی ہیںجو کہ خطرہ میں ہیں - جن کی حفا ظت کی ذمہ داری دونو ں مما لک پر عا ئد ہو تی ہے اور دونو ں ممالک کے با ہمی اقتصا دی مفادات بھی اپنی حیثیت رکھتے ہے- ترکی اور روس کے تعلقات میں سیاحت کو بہت اہمیت حاصل ہے- ترکی دُنیا بھر کے سیاحوں کی جنت ہے،وہاں پوری دُنیا سے لاکھوں ٹورسٹ آتے ہیں -روس سے ترکی آنے والے سیاحوں کی سالانہ تعداد45 لاکھ سے زائد بنتی ہے اس طرح جرمنی کے بعد روس ترکی کی سیاحت کرنے ولادوسرا بڑا ملک ہے -روس کی پروازوں پر پابندی عائد کرنے کے بعد ترکی کو سالانہ دو ارب ڈالر سے زائد کا خسارہ ہو سکتا ہے - ان تمام مسائل کے باوجود بھی دونوں ممالک کے سفار تی تعلقات قائم ہیں-
بہت سے مبصرین کا ماننا ہے اگر حالات اسی طرح تنا ئو کا شکار رہے اور بین الاقوامی برادری نے اپنا کلیدی کردار ادا نہ کیا اورصمٌبکمٌ بنی رہی تو یہ حالات تیسری جنگِ عظیم کی طرف پیش قدمی ثابت ہوںگے- بہت سے حلقوں کے نزدیک یہ جنگ پہلے ہی شروع ہو چکی ہے اور مشرق وسطیٰ اور خصوصاََ شام اور ایراق میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس کا پہلامرحلہ ہے -گذشتہ چار سالہ خانہ جنگی کی صورتحال میں نہ صرف لاکھوں شامی و ایراقی افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں بلکہ ان سے کہیں زیادہ ملک چھوڑ کرہجرت کر کے یورپی ممالک کی سرحدوں پر پناہ گزینوں کی حیثیت سے در بدر بھٹک رہے ہیں-
عالمی برادری کی مستقل نظر اندا زی یا سوچے سمجھے منصوبے کے با عث ایک بڑی جنگ کے تمام تر خد و خال مکمل ہوتے نظر آرہے ہیں پہلی دو عا لمی جنگوں کی طرح مختلف اتحادی گروپ تشکیل پا رہے ہیں- کہیں "بشار الاسد" کی صدارتی ضد اور روس و ایران کی حمایت ، کہیں نیٹو فورسز، ترکی اور آزاد فوج اور کہیں داعش اور عرب حمایت یافتہ باغی گروہ- اور کہیں بادشاہت حامی سُنی اور کہیں خلافت حامی سنی آمنے سامنے اور کہیں عرب ایران طویل عداوت و نفرت -
عین ممکن ہے کہ سب کا موقف اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہو مگر اِن تمام حا لا ت میں شام کی بے قصو ر عوام گا جر مو لی کی طر ح کٹ رہی ہے اور ان کے نعشے چیخ چیخ کر یہ سوال کر رہے ہیں کہ ہما را قصو ر کیا تھا؟ شام کی صورت حال کے صحیح ادراک کیلئے شام کی موجودہ حالت کو سمجھنا بہت ضروری ہے-شام واضح طور پر چار پانچ حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے - ایک حصے پر داعش قابض ہے وسطی شام کا کچھ حصہ النصرہ فرنٹ کے قبضہ میں ہے جو القاعدہ کی سوچ کے حامی ہیں -وسطی شام سے لے کر حلب کے شہر تک کا علاقہ آزاد فوج کے قبضہ میں ہے مزید اُردنی سرحد کے پاس ’’ درعا‘‘کا ضلع بھی آزاد فوج کے پاس ہے - دمشق سے لے کر لاذقیہ شہر تک بشارالاسد حکومت کے کنڑول میں ہے گویا واضح ہے کہ ملک کا بیشتر حصہ مختلف اقسام کے باغیوں کے پاس ہے - شمال مشرق میں کردعملاً خود مختار ہو چکے ہیں اور لاذقیہ صوبے کے شمال میں ترکمان اقلیت آباد ہے جسے ترک حکومت کی حمایت حاصل ہے گویا ’’سفاک بین الاقوامی تعلقات کی نفیس درفنطنی‘‘ کا سلسلہ جاری ہے-تمام بین الاقوامی طاقتیں شام کی انسانی شکل میں موجود بے جان بھیڑ بکریوں پر اپنے خطرناک ہتھیار آزمارہے ہیں اور انہیں دور جدید میں گڈا گڈی کی طرح ’’جنگ جنگ کھیلنے‘‘ کا بہترین میدان مفت میں ملا ہواہے-
اس تمام صورتحال میں یہ کہنا بجا ہو گا کہ شام کو وہ خونی دیگ بنا دیا گیا ہے جس میں بیشمار باورچیوں نے اپنے کف گیر پھنسائے ہوئے ہیںاور افراتفر ی میں کچھ پتا نہیں چل رہا کہ کھچڑی میں کس چاول کو کچلنا اور کسے ثابت رکھنا ہے- اس آپادھاپی میں روسی طیارہ تو گرنا ہی تھا مگر اب ترکی اور روس کواسے اَنا کامسئلہ بنائے بنا ہوش کے ناخن لینے چاہئیں- یواین او ﴿UNO﴾ ، او آئی سی ﴿OIC﴾ اور بین الاقوامی برادری کو کشیدہ حالات کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے - پاکستان سمیت دوسرے ایسے ممالک جن کے دونوں ملکوں سے اچھے تعلقات ہیں ان کو ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے حالات کو بہتر بنا نا چاہیے-روس اور ترکی دونوں ممالک کو چاہیے کہ بین الاقوامی قوانین اور اقدار کی مکمل پاسداری کریں-
خطے اور عالمی امن کے بہترین تر مفاد میں دونوں ملکوں کوکشیدگی کم کرنے کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے- امید ہے کہ عالمی برادری حالات کا بنظر عمیق جائزہ لیتے ہوئے دنیا کو تیسری متوقع عالمی و جوہری جنگ سے محفوظ رکھنے میں اپنا کردار اداکر ے گی اور ماضی کی طرح ’’دفعہ ٹرخانوے‘‘سے پرہیز کیاجائے گا -
مشرق وسطی کی صورت حال پہلے کیا کم خراب تھی کے اب روس اور ترکی کے مابین نیا تنازعہ شروع ہو گیاجو عالمی امن کے لیے ایک بڑا خطرہ ثابت ہو سکتا ہے- ترکی اور روس کے تعلقات میں اتار چڑھائو آتا رہا ہے- اگر ان کے تعلقات کا مختصر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تر کی اور روس ہمسایہ ممالک ہیں جو قر ونِ وسطی کی عظیم سلطنتیں رہی ہیں- انا طو لیہ کے ترکوں اورروس کے درمیان بلیک سی ﴿بحیرہ اَسود﴾ بہتا ہے- دونوں سلطنتیں پہلی جنگ عظیم میں آخری مرتبہ ایک دوسرے کے خلاف منظر عام پر آئیںتھیںاور جنگ عظیم کا اختتام بد قسمتی سے دونوں سلطنتوں کا اختتام ثابت ہوا - ولادی میر لینن نے مصطفی کمال کی قوم پرست تحریک کو دیکھتے ہوئے مغربی آرمینیا اور آبنائو ں پر اپنے دعویٰ کو واپس لے لیا اور یو ںدونو ں مما لک کے تعلقات میںخا طر خواہ بہتری نمو دار ہونا شروع ہوئی-رشین سوویت فیڈریٹو سوشلسٹ ریپبلک تر کی میں مصطفی کمال کی مکمل حمایت کی جس کے نتیجہ میں 16 مارچ 1921ئ کو’’ گرینڈ نیشنل اسمبلی آف ترکی‘‘ اور بالشویک رشیا﴿روس﴾ کے درمیان ’’ معاہدہ ماسکو‘‘ ﴿Treaty of Moscow ﴾ ہو ا جس میں لینن اور مصطفی کمال نے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کا عہد کیا- مزید 13 اکتوبر 1921 ئ کو’’ معاہد ہ قارص‘‘ ﴿Treaty of Kars ﴾ گرینڈ نیشنل اسمبلی آف ترکی ﴿جو بعد میں ری پبلک آف ترکی کہلائی ﴾ اور سوویت یونین کے درمیان ہوا جس پر ترکی کے مصطفی کمال کی حکومت ، سوویت آرمینیا ، سوویت آذربائیجان اور سوویت جارجیا نے دستخط کیے اور عارضی سرحدوں کے بارے میں معاہدات ہوئے- ایک ہی خطے کے اہم ممالک ہونے کے ناطے بعض معاملات پہ سخت و نرم اِختلافات چلتے رہے لیکن ’’اوور آل‘‘ تعلقات اچھے رہے - 1991ئ میں سوویت یونین کے منتشر ہونے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات قدرے مزیدبہتر ہوئے -
آپس کے بیشتر تنازعات و اختلافات کے باوجود دونوں ممالک اہم سٹرٹیجک پارٹنر رہے ہیں- 1992ئ میں تر ک وزیر اعظم’’ سلمان ڈیرل‘‘ کے دورہ ماسکو کے بعد 2009ئ میں’’ رجب طیب اردگان‘‘نے روس کا دورہ کیا-دونوں ممالک نے ماضی کے اختلافات کو نظر انداز کرتے ہوئے بہتر معاشی ، اقتصادی اور ثقافتی تعلقات کو پر وان چڑھانے کے لیے منصوبے طے پائے - 2010ئ میں روسی صدر’’ متری میرودیف‘‘ نے دورہ ترکی کے موقع پر دو طرفہ تجارت کا حجم آئندہ پانچ سالوں میں 38 ارب ڈالر سے 100 ارب ڈالر تک بڑھانے کا عہد کیا- بالخصوص توانائی کے شعبوں میں ہونے والا نیو کلئیر پاور پلانٹ کا معاہدہ سر فہر ست تھا جسے روسی کمپنی’’ ایٹم سٹوری ایکسپورٹ‘‘نے مکمل کرنا تھا مزید ترکی میں بجلی زیادہ تر روسی کمپنیوں کی مر ہونِ منت ہے - ترکی میں روس کا اہم منصوبہ’’ ٹرکش سٹریم پائپ لائن ‘‘ بھی ہے جس کے کارآمد ہوتے ہی روس کا یوکرائن پر انحصار کم ہو جائے گا-
24 نومبر 2015 ئ کو یہ خبر منظرِ عا م پر آئی کہ ترکی کے ایف سولہ (F-16) طیارہ نے روس کے سخوئی ایس یوچوبیس(Sukhoi SU-24) طیارے کو ترک شام سر حد کے قریب مار گرایا-تر کی کا کہنا ہے کہ وہ روسی طیارہ بشارالاسد کے مخالف ترکمان باغیوں کے ٹھکانوں پر حملہ کرتے ہوئے شام میں گھسی ہوئی 10 کلو میٹر ترک چونچ پر سے گزرتا تھا-مز ید یہ کہ پانچ منٹ میں روسی طیارہ کو دس مرتبہ وارننگ دی گئی کہ اپنا رُخ تبدیل کر کے جنوب کی جانب کر لے مگر پائلٹ کی لاپرواہی کی وجہ سے ترکی کے فضائیہ طیارے کو حرکت میں آنا پڑا - اِس کے بر عکس کچھ مبصر ین کا کہنا ہے کہ طیا رے نے فضا ئی سر حد و ں کی خلا ف ورزی نہیں کی -تا حا ل یہ معا ملہ تنازعہ کا شکا ر ہے-اس لیے حتمی طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا- مزید یہ کہ امریکی صدر اوباما نے ترکی کے عمل کو جائز قرار دیتے ہوئے ترکی کی حمایت کا اعلان کیا ہے - امریکی صدر کا کہنا ہے کہ اپنی فضائی سرحدوں کی حفاظت کر نا انقرہ کا قانونی حق ہے ، دوسری طرف روسی صدر ’’ ولادی میر پیوٹن‘‘ نے ترکی کے اس فیصلہ کی شدید مذمت کی ہے اور پیوٹن کا کہنا ہے کہ ترکی کی جانب سے روسی جہاز دہشت گرد تنظیموںسے اپنے تیل کی تجارت کو محفوظ رکھنے کے لیے گرایا گیا اور ترکی دانستہ طورپر روس سے اپنے تعلقات خراب کر رہا ہے- صدر پیوٹن کا مطالبہ ہے کہ انقرہ حکومت اپنی اقدا م پر معافی مانگے ورنہ ماسکو سود سمیت بدلہ لے گا دوسری طرف رجب طیب اردگان نے پیرس میں روس کی جانب سے لگائے جانے والے الزام کو یکسر رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر روس اپنا الزام ثابت کر دے تو تر کی کا وقار اس کا تقاضا کر تاہے کہ مَیں صدارت چھوڑ دوں-
ترکی نے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار ضرور کیا مگر معافی مانگنے سے انکار کر دیا ہے کہ غلطی روسی فضائیّہ کی ہے ترکی کیوں معافی مانگے - امریکی صدر نے نیٹو کی جانب سے کہا ہے کہ داعش رو س سمیت عالمی دنیا کا مشترکہ د شمن ہے-ترک صدر نے روسی صدر سے ملاقات کی پیش کش بھی کی تھی جسے پیوٹن کی جانب سے معافی کے ساتھ مشروط کر کے رد کر دیا گیا- ان تمام معاملات میں حالات مزید پیچیدہ ہو گئے ہیں-
روس نے ایران کی مُعاونت سے اپنا’’ا ئیرڈیفنس سسٹم‘‘ شام میں نصب کر دیا ہے- میزائل بردار روسی جہاز بھی طرطوس کی بندرگاہ کے قریب موجود ہے جو مستقبل میں کشیدگی کا باعث بن سکتے ہیں- اس واقعہ کے بعد حالات کی کشیدگی کے باعث روسی صدر نے ترکی کے خلاف پابندیاں لگانے کے حکم نامے پر بھی دستخط کر دئیے ہیں- ترکی نے اپنے باشندوں کو بلا ضرورت روس کے سفر سے روک دیا ہے-
ترکی پر لگائی جانے والی اقتصادی پابندیوں میں ترکی کی زرعی اجناس کی درآمد پر پابندی ، چارٹرڈ پروازوں پر پابندی اور روسی کمپنیوں میں ترک باشندوں کو ملازمت نہ دینے کا فیصلہ سر فہرست ہیں-روس کمپنیوں میں اس وقت دس ہزار سے زائد ترک باشندے کام کر رہے ہیں- روس کے کئی حکام موجودہ تنائو میں ترک خوراک کی خریداری کو حب الوطنی کے منہ پر طمانچہ قرار دیتے ہیں- روس میں ترک سبزیاں اور پھل عام نظر آتے ہیںجو روس پر یو ر پی اور مغربی مما لک کی طر ف سے لگنے والی پا بند یو ں کی و جہ سے بڑھنے والی تجارت اور بہتر تعلقا ت کی مر ہونِ منت ہیں- تر کی روس کومشر ق و سطیٰ کے گر م پا نی کے سمند ر تک رسا ئی فراہم کر نے میں اہم کر دار ادا کر سکتا ہے-مز ید مشر ق وسطیٰ سمیت تمام دنیا کے امن میں دونوں مما لک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں-مشر ق و مغر ب کی سر د جنگ کے اختتا م کے بعد حا لا ت بہتری کی جا نب گا مز ن ہیںجس میں دونو ں ممالک کو اپنا اپنا کر دار اد ا کر نا ہو گا- اگر توانائی کے شعبہ پر اَثرات کی بات کریں تو اَثرات بہت خطرناک ہو سکتے ہیں، ابھی تک نیو کلیئر پاور پلانٹ اور گیس پائپ لائن منصوبوں کو روکا نہیں گیا لیکن اگر حالات مزید تنائو کا شکار ہوئے تو یہ منصوبے بھی خطرہ میں ہیں- ’’ مرسین‘‘صوبہ میںنیو کلئیر پلانٹ پر روس تین ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے اور ترکی کو اس پلانٹ کی تکمیل سے توانائی کی مد میں سالانہ14 ارب ڈالر بچت ہو گی- لہٰذا یہ دونوں ممالک کے لئے خسارہ ہو گا کہ یہ منصوبے کسی آفت یا تاخیر کا شکار ہوں-ترکی میں گاڑیوںکی نقل و حمل کا چالیس فیصد دارومدارما ئع قدرتی گیس پر ہے جس کا پچپن فیصد حصہ روس سے در آمد شد ہ گیس پرمنحصر ہے لہٰذا تر کی کوا پنے اقتصا دی فوائد کو بھی مد نظر رکھنا چا ہیے- ایک سو سے زائد ترک کمپنیاں روس میں خوراک ، کیمیکل اور گارمنٹ انڈسٹری سمیت مختلف شعبہ جات میں کام کر رہی ہیںجو کہ خطرہ میں ہیں - جن کی حفا ظت کی ذمہ داری دونو ں مما لک پر عا ئد ہو تی ہے اور دونو ں ممالک کے با ہمی اقتصا دی مفادات بھی اپنی حیثیت رکھتے ہے- ترکی اور روس کے تعلقات میں سیاحت کو بہت اہمیت حاصل ہے- ترکی دُنیا بھر کے سیاحوں کی جنت ہے،وہاں پوری دُنیا سے لاکھوں ٹورسٹ آتے ہیں -روس سے ترکی آنے والے سیاحوں کی سالانہ تعداد45 لاکھ سے زائد بنتی ہے اس طرح جرمنی کے بعد روس ترکی کی سیاحت کرنے ولادوسرا بڑا ملک ہے -روس کی پروازوں پر پابندی عائد کرنے کے بعد ترکی کو سالانہ دو ارب ڈالر سے زائد کا خسارہ ہو سکتا ہے - ان تمام مسائل کے باوجود بھی دونوں ممالک کے سفار تی تعلقات قائم ہیں-
بہت سے مبصرین کا ماننا ہے اگر حالات اسی طرح تنا ئو کا شکار رہے اور بین الاقوامی برادری نے اپنا کلیدی کردار ادا نہ کیا اورصمٌبکمٌ بنی رہی تو یہ حالات تیسری جنگِ عظیم کی طرف پیش قدمی ثابت ہوںگے- بہت سے حلقوں کے نزدیک یہ جنگ پہلے ہی شروع ہو چکی ہے اور مشرق وسطیٰ اور خصوصاََ شام اور ایراق میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس کا پہلامرحلہ ہے -گذشتہ چار سالہ خانہ جنگی کی صورتحال میں نہ صرف لاکھوں شامی و ایراقی افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں بلکہ ان سے کہیں زیادہ ملک چھوڑ کرہجرت کر کے یورپی ممالک کی سرحدوں پر پناہ گزینوں کی حیثیت سے در بدر بھٹک رہے ہیں-
عالمی برادری کی مستقل نظر اندا زی یا سوچے سمجھے منصوبے کے با عث ایک بڑی جنگ کے تمام تر خد و خال مکمل ہوتے نظر آرہے ہیں پہلی دو عا لمی جنگوں کی طرح مختلف اتحادی گروپ تشکیل پا رہے ہیں- کہیں "بشار الاسد" کی صدارتی ضد اور روس و ایران کی حمایت ، کہیں نیٹو فورسز، ترکی اور آزاد فوج اور کہیں داعش اور عرب حمایت یافتہ باغی گروہ- اور کہیں بادشاہت حامی سُنی اور کہیں خلافت حامی سنی آمنے سامنے اور کہیں عرب ایران طویل عداوت و نفرت -
عین ممکن ہے کہ سب کا موقف اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہو مگر اِن تمام حا لا ت میں شام کی بے قصو ر عوام گا جر مو لی کی طر ح کٹ رہی ہے اور ان کے نعشے چیخ چیخ کر یہ سوال کر رہے ہیں کہ ہما را قصو ر کیا تھا؟ شام کی صورت حال کے صحیح ادراک کیلئے شام کی موجودہ حالت کو سمجھنا بہت ضروری ہے-شام واضح طور پر چار پانچ حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے - ایک حصے پر داعش قابض ہے وسطی شام کا کچھ حصہ النصرہ فرنٹ کے قبضہ میں ہے جو القاعدہ کی سوچ کے حامی ہیں -وسطی شام سے لے کر حلب کے شہر تک کا علاقہ آزاد فوج کے قبضہ میں ہے مزید اُردنی سرحد کے پاس ’’ درعا‘‘کا ضلع بھی آزاد فوج کے پاس ہے - دمشق سے لے کر لاذقیہ شہر تک بشارالاسد حکومت کے کنڑول میں ہے گویا واضح ہے کہ ملک کا بیشتر حصہ مختلف اقسام کے باغیوں کے پاس ہے - شمال مشرق میں کردعملاً خود مختار ہو چکے ہیں اور لاذقیہ صوبے کے شمال میں ترکمان اقلیت آباد ہے جسے ترک حکومت کی حمایت حاصل ہے گویا ’’سفاک بین الاقوامی تعلقات کی نفیس درفنطنی‘‘ کا سلسلہ جاری ہے-تمام بین الاقوامی طاقتیں شام کی انسانی شکل میں موجود بے جان بھیڑ بکریوں پر اپنے خطرناک ہتھیار آزمارہے ہیں اور انہیں دور جدید میں گڈا گڈی کی طرح ’’جنگ جنگ کھیلنے‘‘ کا بہترین میدان مفت میں ملا ہواہے-
اس تمام صورتحال میں یہ کہنا بجا ہو گا کہ شام کو وہ خونی دیگ بنا دیا گیا ہے جس میں بیشمار باورچیوں نے اپنے کف گیر پھنسائے ہوئے ہیںاور افراتفر ی میں کچھ پتا نہیں چل رہا کہ کھچڑی میں کس چاول کو کچلنا اور کسے ثابت رکھنا ہے- اس آپادھاپی میں روسی طیارہ تو گرنا ہی تھا مگر اب ترکی اور روس کواسے اَنا کامسئلہ بنائے بنا ہوش کے ناخن لینے چاہئیں- یواین او ﴿UNO﴾ ، او آئی سی ﴿OIC﴾ اور بین الاقوامی برادری کو کشیدہ حالات کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے - پاکستان سمیت دوسرے ایسے ممالک جن کے دونوں ملکوں سے اچھے تعلقات ہیں ان کو ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے حالات کو بہتر بنا نا چاہیے-روس اور ترکی دونوں ممالک کو چاہیے کہ بین الاقوامی قوانین اور اقدار کی مکمل پاسداری کریں-
خطے اور عالمی امن کے بہترین تر مفاد میں دونوں ملکوں کوکشیدگی کم کرنے کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے- امید ہے کہ عالمی برادری حالات کا بنظر عمیق جائزہ لیتے ہوئے دنیا کو تیسری متوقع عالمی و جوہری جنگ سے محفوظ رکھنے میں اپنا کردار اداکر ے گی اور ماضی کی طرح ’’دفعہ ٹرخانوے‘‘سے پرہیز کیاجائے گا -