تصورِمساوات اور حیاتِ معاشرہ

تصورِمساوات اور حیاتِ معاشرہ

تصورِمساوات اور حیاتِ معاشرہ

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی فروری 2017

برصغیر پاک وہند میں ذات پات اور دیگر معاشرتی و طبقاتی تقسیم کا ذمہ دار تاریخی حوالے سے رائج ہندو روایات کو تصورکیا جاتا ہے اور اکثر  اس طبقاتی تفریق کو جہالت کی روایات قرار دے دیا جاتا ہے اور بسا اوقات یہ دلیل دی جاتی ہے  کہ نئی نسل کو جدید تعلیم اور تربیت سے ہمکنار کر کے ہم ان معاملات سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں- اگر ایک لمحے کے لئے اس دلیل کو سچ سمجھ لیا جائے اور دنیا کے مختلف علاقوں میں نظر دوڑائی جائے تو حالات کچھ مختلف نظر آتے ہیں اور ’’آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا‘‘ کے مصداق معاملات دیکھنے کو ملتے ہیں-مگر افسوس !کہ جب تک اس بات کا علم اگلی آنے والی نسل کو ہوتا ہے اور تب تک نئی کھجور تیار ہو جاتی ہے اور پرانی تقسیم کوئی نیا رُوپ دھار کر سامنے آتی ہے-

بیسویں صدی کے چند بڑے ’’ایشوز‘‘ پرنظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جنگِ عظیم اول و دوم کا بنیادی مؤجب علاقائی قومیت(concept of nationality & territoriality ) کا نظریہ تھااور اس خوفناک جنگ کی ابتدا ءاُس وقت کی جدید علوم سے آراستہ اور انتہائی ترقی یافتہ قوموں کی جانب سے کی گئی-اگر دنیاوی تعلیم اورسائنس اور ٹیکنالوجی کُلی طور پر معاشرے کو امن کی راہ پر ڈال سکنے کی اہلیت رکھتے تو یقیناً یہ جنگیں کبھی شروع نہ ہوتیں اور کروڑوں لوگ لقمہ اجل نہ بنتے- اسی طرح اگر جدید علوم اور سائنسی تحقیق دنیا میں انصاف قائم کرنے اور بلا امتیاز حقِ خود ارادیت دینے کی اہلیت رکھتے تو  انتہا پسندانہ مذہبی جنونیت کے تحت اسرائیل کا وجود اس دنیا میں نہ ہوتا-اپنے تمام پڑوسی ممالک سے جنگیں کرنے والے اور سو سے زائد ایٹمی ہتھیار رکھنے والے اسرائیل کی بربریت کو روکنے کی بجائے پاکستان ایران اور شمالی کوریا کے ایٹمی پروگراموں کو زیر بحث نہ لایا جاتا-اگر فقط جدید علوم انسانی معاشرہ کو مساوات کی راہ پر ڈال سکنے کی اہلیت رکھتے تو مسلمان عورتوں کے حجاب اور سکارف پر پابندیاں نہ لگتیں- بعض اوقات جن ترقی یافتہ معاشروں کی ہمیں مثالیں دی جاتی ہیں، برابری کے لئے اُن کو مثالی قرار دیا جاتا ہے،مرد و عورت کےبرابر حقوق کے لئے مکمل معاشرہ تصور کیا جاتا ہے وہاں شرا ب خانوں اور فحاشی کے اڈوں کے باہر عورت کی تضحیک آمیز تصاویر ،بازاروں میں سر عام جسم فروشی، صنفی انصاف اور عورتوں کے حقوق کے دعویداروں کے منہ پر طمانچہ رسید کرتی نظر آتی ہیں-خیر یہ موضوع از خود ایک لمبی بحث طلب کرتا ہے،فی الحال اس کا ذکر کرنے کا مقصد فقط جدید معاشرے میں انسانیت کی تقسیم کی جانب توجہ مبذول کروانا ہے-

سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی سیدھی سادھی سی وجہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ قومیں بہتر معاشی حالت کی وجہ سے ترقی پذیر معاشروں کے کسی نہ کسی طبقہ کو  اپنے وسائل کی بنیاد پر نظریاتی غلام بنا لیتی ہیں اور پھر معاشیات اور سیاست کو بنیاد بنا کر دُنیا کو باور کرایا جاتا ہے کہ یہی نظریہ دراصل کامیاب نظریہ ہے- جب سوویت یونین کا ’’کمیونزم‘‘ پھیلا تو  دنیا کے مختلف حلقوں میں اسی نظام کا چرچہ کسی نہ کسی حلقہ نے ضرور کیا اور اس کی ترقی کی بنیاد پر لوگ اس معاشی نظام کو قبول کرنے لگے- مگر اُس کے ٹوٹنے کے بعد رحجان سرمایہ دارانہ نظام کی جانب بڑھ گیا- مگر یہ دونوں نظام سائنس اور ٹیکنالوجی سے لیس ہونے کے باوجود نہ تو انسانیت کے امن کے لئے کچھ کر سکے اور نہ ہی دنیا سے طبقاتی تقسیم ختم کر سکے-بلکہ انسانیت کی تباہی کے لئے انہی جدید نظاموں نے ایسے ہتھیاروں کو فروغ دیا کہ ساری عالم انسانیت کی بقاء کو خطرے میں ڈال رکھا ہے-

اگر کسی کو اِن تمام باتوں پہ یقین نہ ہو تو  چہرے پر  داڑھی،ٹوپی ، مشرقی لباس ،گرین پاسپورٹ اور گندمی رنگت کسی شخص کے لئے پڑھے لکھے اور نام نہاد  تہذیب یافتہ مغربی ممالک میں طبقاتی تقسیم کا مشاہدہ کرنے کے لئے کافی ہے- گیارہ ستمبر سے قبل اور اس کے بعد کے برتاؤ میں فرق یہ واضح کرتا ہے کہ فقط مادی تعلیم،طبقاتی تقسیم کو ختم کرنے میں کتنی بے بس ہے-البتہ یہ درست ہے کہ اس تعلیم کے باعث طبقاتی تقسیم کے دائرے اور زاویے تبدیل ہوتے رہے ہیں-دوسری جنگِ عظیم سے قبل یہودی اس کانشانہ بنے، پھر دنیا کو سرخ انقلاب سے ڈرایا گیا اور اب مسلمانوں کی جانب رخ موڑ دیا گیا-کبھی گورے اور کالے میں تفریق معاشرے کا محور بنتی ہے اور پھر جب معاشرہ اس کی جانچ کرتا ہے تو بزنس کلاس باقی کلاسز سے فرق کرتی ہے- حال ہی میں امریکہ کے صدارتی انتخابات اور برطانیہ کے ریفرنڈم میں قومیت پرستی کا ایک بار پھر سے بڑے پیمانے پر سیاست کا حصہ بننا یہ واضح کرتا ہے کہ فلسفہ و نفسیات کے جدید حربے بھی انسانوں کے مابین ان فروعی اختلافات کی بنیاد پر تفریق اور ایک دوسرے پر برتری کے نظریات کو ختم کرنے میں ناکام ہوئے ہیں-

اس مرض کا بنیادی سبب انسان کی انانیت ہے-انسان کی مادی خواہش ہے کہ وہ دوسروں پر فوقیت چاہتا ہےاور یہی خواہش معاشرے میں کسی نہ کسی طرح سرایت کرتی رہتی ہے اور کسی نہ کسی شکل میں سامنے آ جاتی ہے-یہی وجہ ہے کہ جو قوم بھی کسی وجہ سے دوسری قوم پر سبقت لیتی ہے تو وہ افکار میں بھی اپنے آپ کو بہترین ثابت کرنے کی کوشش  کرتی ہے اور اپنے وسائل کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو ذہنی غلام بنا لیتے ہیں-اس مرض کا علاج فقط اور فقط روحانی فطرت کو مادی فطرت پر حاوی کرنے میں ہے مادیت کے نظریات کے برعکس اسلامی مساوات نے ہر قسم کی تقسیم پر ضرب لگائی اور تمام انسانوں کو ایک صف میں کھڑا کیا-اسی لئے چاہے کوئی حبشی ہے یا کوئی سردار، سب کے لئے معاشرہ میں برابر ی ہے- روحانی معاشرہ کے اخلاق کی بہترین اور عملی مثال فتح مکہ کی ہے کہ جب بد ترین اور انسانیت سوز مظالم ڈھانے والے بے شمار لوگوں کے لئے عام معافی کا اعلان کیا گیا اور پھر تمام لوگوں سے ایک جیسا سلوک کیا گیا-اس سے قبل تاریخِ انسانی ایسے معاشرتی اقدام دیکھنے سے قاصر تھی اور اس کی وجہ یہی ہے کہ مسلمان معاشرے کی بنیاد روحانیت پر ہے اور اسی بنیاد پر ایسے عظیم برتاؤ اور قربانی کا تصور ممکن ہے وگرنہ افغانستان ہو،عراق ہو،کشمیر ہو، فلسطین ہو یا چیچنیا (Chechnya)، ہر طرف دنیا کی نام نہاد جمہوریتوں اور پڑھے لکھے معاشروں کی طرف سے قتل و غارت کا بازار گرم دکھائی دیتا ہے اور معاشرتی تقسیم کا یہ عالم ہے کہ مقتولین کے خون کی قیمت پانی سے بھی کم سمجھی جاتی ہے جبکہ دوسری طرف نام نہادانسانی حقوق کی تنظیمیں انہی ملکوں کی جانب سے سرگرم بھی دکھائی دیتی ہیں-مگر صد افسوس!کہ ہم میں سے یہ کچھ لوگ مرض کی اصل شناخت کرنے کی بجائے اُن کی مادی ترقی اور مادی علوم سے قائل ہو کر ہمیں اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں-جبکہ حقیقت واضح ہے کہ مادی علوم معاشرے میں مادی ترقی اور معیشت میں بہتری لانے کے لئے لازم ہیں مگر انسانوں کی تربیت اور بہترین پُر امن معاشرے کے قیام کے لئے یہ علوم کافی نہیں بلکہ روحانی استخلاص بہت ضروری ہے- جدید دنیاوی علوم کے ماہر معاشرے اپنی بھر پور تحقیق اور فرد و معاشرے کے انتہائی دقیق پہلوؤں پر تحقیق کرنے کے باوجود اسی لئے انسانوں کو تقسیم کرنے والی نِت نئی امراض کا تدارُک کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ جوں جوں علم پروان چڑھتا ہے اور گزشتہ مسائل کا حل تلاش کرنے کی سعی کی جاتی ہے، معاشرہ بھی توں توں پروان چڑھتا ہے اوراگر اس کے  اندر ابدی زندگی نہ ہو تو وہ امراض نِت نئی صورتوں میں سامنے آتی ہیں-

حقیقی اسلامی معاشرہ کے قیام کے لئے ایک اہم پہلو یہ بھی ہےکہ اسلام زندہ ہے اور زندہ معاشرے میں یہ اپنی معاشرتی پروان بھرتا ہے بالکل ویسے ہی جیسے اقبال نے بیان کیا ہے کہ خدا کی قربت کے لئے فرد کا اپنے اندر زندہ ہونا ضروری ہےکہ:

تنِ بے روح سے بیزار ہے حق
خدائے زندہ زندوں کا خدا ہے[1]

اسی طرح معاشرہ بھی زندہ ہو تو وہ آفاقی امن کی جانب پرواز کرتا ہے- اسلامی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ اسلام جب بھی کسی نئے معاشرے میں گیا، وہاں پر رائج تمام اقدار و رسومات کو ختم نہیں کیا گیا بلکہ اُن رسومات کو اسلام کی کسوٹی پر پرکھا گیا کہ کیا وہ اسلامی معاشرے کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب کریں گے یا منفی؟ اور جن جن امور نے اُس زندگی کو مزید رونق بخشی، انہیں ختم نہیں کیا گیا- بالکل ایسے ہی جب ہندوستان میں اسلام آیا تو صوفیا ء نے یہاں موجود روایات میں سے بھی انہی کو ختم کرنے کی سعی کی جو  زندہ معاشرے کی زندگی کی رونقیں  ماند کرنے کی متحمل  تھیں اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ ہر قسم کی ذات پات سے بالاتر ہو کر معاشرے کے تمام طبقات سے ایک جیسا سلوک کیا گیا جو کہ اسلام کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ تھی- مگر پھر تاریخ نے پانسہ پلٹا اور ہم نے معاشرے کی زندگی کو اہمیت دینا کم کر دی، جس پر رفتہ رفتہ وہی انسان مخالف رسومات جن کا مقابلہ ہمارے آباؤ اجداد نے کیا تھا، ایک بار پھر سے ہمیں انہوں نے گھیر لیا اور اب ہم ان میں اتنی بری طرح الجھ چکے ہیں کہ کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا- انسان کو اس بات کا ادراک کر لینا چاہئے کہ معاشرہ کو اس کے وہ اجزائے ترکیبی مہیا کرنے ضروری ہیں جو اس کی ابدی زندگی کے لئے ضروری ہیں، جن کی جانب علامہ اقبال(﷫) نے واضح کیا تھا کہ ہمیں عالمگیر نوعیت کے ایسے اصول درکار ہیں جن کی بنیادیں روحانیت پر ہوں اور اسی میں انسانیت کی بقا اور معاشرہ انسانی کی حیات کا راز پوشیدہ ہے-

٭٭٭


[1](بالِ جبریل)

 

 

برصغیر پاک وہند میں ذات پات اور دیگر معاشرتی و طبقاتی تقسیم کا ذمہ دار تاریخی حوالے سے رائج ہندو روایات کو تصورکیا جاتا ہے اور اکثر  اس طبقاتی تفریق کو جہالت کی روایات قرار دے دیا جاتا ہے اور بسا اوقات یہ دلیل دی جاتی ہے  کہ نئی نسل کو جدید تعلیم اور تربیت سے ہمکنار کر کے ہم ان معاملات سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں- اگر ایک لمحے کے لئے اس دلیل کو سچ سمجھ لیا جائے اور دنیا کے مختلف علاقوں میں نظر دوڑائی جائے تو حالات کچھ مختلف نظر آتے ہیں اور ’’آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا‘‘ کے مصداق معاملات دیکھنے کو ملتے ہیں-مگر افسوس !کہ جب تک اس بات کا علم اگلی آنے والی نسل کو ہوتا ہے اور تب تک نئی کھجور تیار ہو جاتی ہے اور پرانی تقسیم کوئی نیا رُوپ دھار کر سامنے آتی ہے-

بیسویں صدی کے چند بڑے ’’ایشوز‘‘ پرنظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جنگِ عظیم اول و دوم کا بنیادی مؤجب علاقائی قومیت(concept of nationality & territoriality) کا نظریہ تھااور اس خوفناک جنگ کی ابتدا ءاُس وقت کی جدید علوم سے آراستہ اور انتہائی ترقی یافتہ قوموں کی جانب سے کی گئی-اگر دنیاوی تعلیم اورسائنس اور ٹیکنالوجی کُلی طور پر معاشرے کو امن کی راہ پر ڈال سکنے کی اہلیت رکھتے تو یقیناً یہ جنگیں کبھی شروع نہ ہوتیں اور کروڑوں لوگ لقمہ اجل نہ بنتے- اسی طرح اگر جدید علوم اور سائنسی تحقیق دنیا میں انصاف قائم کرنے اور بلا امتیاز حقِ خود ارادیت دینے کی اہلیت رکھتے تو  انتہا پسندانہ مذہبی جنونیت کے تحت اسرائیل کا وجود اس دنیا میں نہ ہوتا-اپنے تمام پڑوسی ممالک سے جنگیں کرنے والے اور سو سے زائد ایٹمی ہتھیار رکھنے والے اسرائیل کی بربریت کو روکنے کی بجائے پاکستان ایران اور شمالی کوریا کے ایٹمی پروگراموں کو زیر بحث نہ لایا جاتا-اگر فقط جدید علوم انسانی معاشرہ کو مساوات کی راہ پر ڈال سکنے کی اہلیت رکھتے تو مسلمان عورتوں کے حجاب اور سکارف پر پابندیاں نہ لگتیں- بعض اوقات جن ترقی یافتہ معاشروں کی ہمیں مثالیں دی جاتی ہیں، برابری کے لئے اُن کو مثالی قرار دیا جاتا ہے،مرد و عورت کےبرابر حقوق کے لئے مکمل معاشرہ تصور کیا جاتا ہے وہاں شرا ب خانوں اور فحاشی کے اڈوں کے باہر عورت کی تضحیک آمیز تصاویر ،بازاروں میں سر عام جسم فروشی، صنفی انصاف اور عورتوں کے حقوق کے دعویداروں کے منہ پر طمانچہ رسید کرتی نظر آتی ہیں-خیر یہ موضوع از خود ایک لمبی بحث طلب کرتا ہے،فی الحال اس کا ذکر کرنے کا مقصد فقط جدید معاشرے میں انسانیت کی تقسیم کی جانب توجہ مبذول کروانا ہے-

سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی سیدھی سادھی سی وجہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ قومیں بہتر معاشی حالت کی وجہ سے ترقی پذیر معاشروں کے کسی نہ کسی طبقہ کو  اپنے وسائل کی بنیاد پر نظریاتی غلام بنا لیتی ہیں اور پھر معاشیات اور سیاست کو بنیاد بنا کر دُنیا کو باور کرایا جاتا ہے کہ یہی نظریہ دراصل کامیاب نظریہ ہے- جب سوویت یونین کا ’’کمیونزم‘‘ پھیلا تو  دنیا کے مختلف حلقوں میں اسی نظام کا چرچہ کسی نہ کسی حلقہ نے ضرور کیا اور اس کی ترقی کی بنیاد پر لوگ اس معاشی نظام کو قبول کرنے لگے- مگر اُس کے ٹوٹنے کے بعد رحجان سرمایہ دارانہ نظام کی جانب بڑھ گیا- مگر یہ دونوں نظام سائنس اور ٹیکنالوجی سے لیس ہونے کے باوجود نہ تو انسانیت کے امن کے لئے کچھ کر سکے اور نہ ہی دنیا سے طبقاتی تقسیم ختم کر سکے-بلکہ انسانیت کی تباہی کے لئے انہی جدید نظاموں نے ایسے ہتھیاروں کو فروغ دیا کہ ساری عالم انسانیت کی بقاء کو خطرے میں ڈال رکھا ہے-

اگر کسی کو اِن تمام باتوں پہ یقین نہ ہو تو  چہرے پر  داڑھی،ٹوپی ، مشرقی لباس ،گرین پاسپورٹ اور گندمی رنگت کسی شخص کے لئے پڑھے لکھے اور نام نہاد  تہذیب یافتہ مغربی ممالک میں طبقاتی تقسیم کا مشاہدہ کرنے کے لئے کافی ہے- گیارہ ستمبر سے قبل اور اس کے بعد کے برتاؤ میں فرق یہ واضح کرتا ہے کہ فقط مادی تعلیم،طبقاتی تقسیم کو ختم کرنے میں کتنی بے بس ہے-البتہ یہ درست ہے کہ اس تعلیم کے باعث طبقاتی تقسیم کے دائرے اور زاویے تبدیل ہوتے رہے ہیں-دوسری جنگِ عظیم سے قبل یہودی اس کانشانہ بنے، پھر دنیا کو سرخ انقلاب سے ڈرایا گیا اور اب مسلمانوں کی جانب رخ موڑ دیا گیا-کبھی گورے اور کالے میں تفریق معاشرے کا محور بنتی ہے اور پھر جب معاشرہ اس کی جانچ کرتا ہے تو بزنس کلاس باقی کلاسز سے فرق کرتی ہے- حال ہی میں امریکہ کے صدارتی انتخابات اور برطانیہ کے ریفرنڈم میں قومیت پرستی کا ایک بار پھر سے بڑے پیمانے پر سیاست کا حصہ بننا یہ واضح کرتا ہے کہ فلسفہ و نفسیات کے جدید حربے بھی انسانوں کے مابین ان فروعی اختلافات کی بنیاد پر تفریق اور ایک دوسرے پر برتری کے نظریات کو ختم کرنے میں ناکام ہوئے ہیں-

اس مرض کا بنیادی سبب انسان کی انانیت ہے-انسان کی مادی خواہش ہے کہ وہ دوسروں پر فوقیت چاہتا ہےاور یہی خواہش معاشرے میں کسی نہ کسی طرح سرایت کرتی رہتی ہے اور کسی نہ کسی شکل میں سامنے آ جاتی ہے-یہی وجہ ہے کہ جو قوم بھی کسی وجہ سے دوسری قوم پر سبقت لیتی ہے تو وہ افکار میں بھی اپنے آپ کو بہترین ثابت کرنے کی کوشش  کرتی ہے اور اپنے وسائل کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو ذہنی غلام بنا لیتے ہیں-اس مرض کا علاج فقط اور فقط روحانی فطرت کو مادی فطرت پر حاوی کرنے میں ہے مادیت کے نظریات کے برعکس اسلامی مساوات نے ہر قسم کی تقسیم پر ضرب لگائی اور تمام انسانوں کو ایک صف میں کھڑا کیا-اسی لئے چاہے کوئی حبشی ہے یا کوئی سردار، سب کے لئے معاشرہ میں برابر ی ہے- روحانی معاشرہ کے اخلاق کی بہترین اور عملی مثال فتح مکہ کی ہے کہ جب بد ترین اور انسانیت سوز مظالم ڈھانے والے بے شمار لوگوں کے لئے عام معافی کا اعلان کیا گیا اور پھر تمام لوگوں سے ایک جیسا سلوک کیا گیا-اس سے قبل تاریخِ انسانی ایسے معاشرتی اقدام دیکھنے سے قاصر تھی اور اس کی وجہ یہی ہے کہ مسلمان معاشرے کی بنیاد روحانیت پر ہے اور اسی بنیاد پر ایسے عظیم برتاؤ اور قربانی کا تصور ممکن ہے وگرنہ افغانستان ہو،عراق ہو،کشمیر ہو، فلسطین ہو یا چیچنیا (Chechnya)، ہر طرف دنیا کی نام نہاد جمہوریتوں اور پڑھے لکھے معاشروں کی طرف سے قتل و غارت کا بازار گرم دکھائی دیتا ہے اور معاشرتی تقسیم کا یہ عالم ہے کہ مقتولین کے خون کی قیمت پانی سے بھی کم سمجھی جاتی ہے جبکہ دوسری طرف نام نہادانسانی حقوق کی تنظیمیں انہی ملکوں کی جانب سے سرگرم بھی دکھائی دیتی ہیں-مگر صد افسوس!کہ ہم میں سے یہ کچھ لوگ مرض کی اصل شناخت کرنے کی بجائے اُن کی مادی ترقی اور مادی علوم سے قائل ہو کر ہمیں اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں-جبکہ حقیقت واضح ہے کہ مادی علوم معاشرے میں مادی ترقی اور معیشت میں بہتری لانے کے لئے لازم ہیں مگر انسانوں کی تربیت اور بہترین پُر امن معاشرے کے قیام کے لئے یہ علوم کافی نہیں بلکہ روحانی استخلاص بہت ضروری ہے- جدید دنیاوی علوم کے ماہر معاشرے اپنی بھر پور تحقیق اور فرد و معاشرے کے انتہائی دقیق پہلوؤں پر تحقیق کرنے کے باوجود اسی لئے انسانوں کو تقسیم کرنے والی نِت نئی امراض کا تدارُک کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ جوں جوں علم پروان چڑھتا ہے اور گزشتہ مسائل کا حل تلاش کرنے کی سعی کی جاتی ہے، معاشرہ بھی توں توں پروان چڑھتا ہے اوراگر اس کے  اندر ابدی زندگی نہ ہو تو وہ امراض نِت نئی صورتوں میں سامنے آتی ہیں-

حقیقی اسلامی معاشرہ کے قیام کے لئے ایک اہم پہلو یہ بھی ہےکہ اسلام زندہ ہے اور زندہ معاشرے میں یہ اپنی معاشرتی پروان بھرتا ہے بالکل ویسے ہی جیسے اقبال نے بیان کیا ہے کہ خدا کی قربت کے لئے فرد کا اپنے اندر زندہ ہونا ضروری ہےکہ:

تنِ بے روح سے بیزار ہے حق
خدائے زندہ زندوں کا خدا ہے[1]

اسی طرح معاشرہ بھی زندہ ہو تو وہ آفاقی امن کی جانب پرواز کرتا ہے- اسلامی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ اسلام جب بھی کسی نئے معاشرے میں گیا، وہاں پر رائج تمام اقدار و رسومات کو ختم نہیں کیا گیا بلکہ اُن رسومات کو اسلام کی کسوٹی پر پرکھا گیا کہ کیا وہ اسلامی معاشرے کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب کریں گے یا منفی؟ اور جن جن امور نے اُس زندگی کو مزید رونق بخشی، انہیں ختم نہیں کیا گیا- بالکل ایسے ہی جب ہندوستان میں اسلام آیا تو صوفیا ء نے یہاں موجود روایات میں سے بھی انہی کو ختم کرنے کی سعی کی جو  زندہ معاشرے کی زندگی کی رونقیں  ماند کرنے کی متحمل  تھیں اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ ہر قسم کی ذات پات سے بالاتر ہو کر معاشرے کے تمام طبقات سے ایک جیسا سلوک کیا گیا جو کہ اسلام کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ تھی- مگر پھر تاریخ نے پانسہ پلٹا اور ہم نے معاشرے کی زندگی کو اہمیت دینا کم کر دی، جس پر رفتہ رفتہ وہی انسان مخالف رسومات جن کا مقابلہ ہمارے آباؤ اجداد نے کیا تھا، ایک بار پھر سے ہمیں انہوں نے گھیر لیا اور اب ہم ان میں اتنی بری طرح الجھ چکے ہیں کہ کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا- انسان کو اس بات کا ادراک کر لینا چاہئے کہ معاشرہ کو اس کے وہ اجزائے ترکیبی مہیا کرنے ضروری ہیں جو اس کی ابدی زندگی کے لئے ضروری ہیں، جن کی جانب علامہ اقبال(﷫) نے واضح کیا تھا کہ ہمیں عالمگیر نوعیت کے ایسے اصول درکار ہیں جن کی بنیادیں روحانیت پر ہوں اور اسی میں انسانیت کی بقا اور معاشرہ انسانی کی حیات کا راز پوشیدہ ہے-

٭٭٭



[1](بالِ جبریل)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر