جدیدچین کے بانی ماوزے تنگ سے سوال کیا گیا کہ قومیں کیسے ترقی کرتی ہیں؟ماوزے نے کہا کہ قومیں بحرانوں مصیبتوں آفتوں اور پریشانیوں میں ترقی کرتی ہیں،سوال کرنے والے نے پوچھا ، کیسے؟ ماوزے نے کہا قوموں کو عام حالات میں اپنی صلاحیتوں کا ادراک اس طرح نہیں ہو پاتا جتنا،مصائب و پریشانیوں میں ہوتا ہے،مصائب و پریشانیاں قوموں کو ان کی خامیوں و کوتاہیوں کا ادراک بخشتی ہیں اور قومیں اپنی کوتاہیوں پر قابو پا کر ترقی کی شاہراہ پر چل پڑتی ہیں اور جو قومیں بحرانوں سے نہیں سیکھتیں اور اپنی غلطیوں کو دہرائے چلی جاتیں ہیں،ترقی نہیں کر سکتیں-
اب بات ملکِ عزیز کی،اس سے زیادہ دردشا(Plight ) کیا ہو گی کہ ملک میں معدنی ذخائر موجود ہیں لیکن زمین کا سینہ چیرنے کی،ان تک رسائی صاحل کرنے کی اہلیت ناپید، مجبوراً اغیار کے دروازے کھٹ کٹھانے پڑتے ہیں، یہ تو دھرتی پاٹنے کی بات تھی زمین کے اوپر حالات یہ ہیں کہ سیلاب ہر دو تین سال بعد آ جاتا ہے فصلیں تباہ ہوتی ہیں،باغ اجڑتے ہیں،غریبوں کے کچے گھر وندے سیلاب کی بھپری موجوں میں بہہ جاتے ہیں، لیکن افسوس !ہم بچاؤ کی ترکیب نہیں کرسکتے -
سیلاب فقط ایک مثال ہے، کیا ہم علمی بحران کا شکار نہیں؟ کیا ہم سماجی ڈیڈ لاک میں مبتلا نہیں؟ کیا پریشانیوں اور مصائب نے انفرادی و اجتماعی سطح پر ہمارا گھیراؤ نہیں کر رکھا؟ کیا ہم بحیثیت قوم اپنی مشکلات و مصائب کا ادراک کر رہے ہیں؟کیا نقصان سے بچاؤ کی کسی تدبیر کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں؟ کیا وقت ہمیں پیچھے کی جانب دھکیل نہیں رہا؟ اگر جواب ہاں!میں ہے تو ہم شاہراہ ترقی کے مسافر ہیں اور اگر جواب ناں !میں ہے تو ہمیں سوچنا ہو گا- میرا دل و ذہن تو جواب ناں! میں دے رہا ہے اور یہ یقینا پریشانی کا باعث ہے ’’لیکن مایوسی کا نہیں‘‘ ماؤ کے مطابق یہی وہ حالات ہیں جو ہمیں ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے سازگار ہیں -
تندی بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب!
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لئے
مادی ترقی بنا تعلیم کے ممکن نہیں یہ بات پتھر پر لکیر ہے- تعلیم نہ جاننے سے جاننے کے سفر کا نام ہےکیونکہ تعلیم ترقی کی راہوں کو ہموار کرتی ہے- تعلیم وہ واحد چیز ہے جس کی اہمیت سے کوئی ذی ہوش انکار نہیں کر سکتاکیونکہ اعلیٰ اور عمدہ تعلیم ہی شخصیت کی تکمیل کا ذریعہ ہے-فرد چونکہ معاشرے کی اکائی اور بنیاد ہے لہذا تعلیم یافتہ افراد ہی علم دوست معاشرے کی تشکیل اور ملکی ترقی میں معاون و مددگار ہو تے ہیں- اقوام عالم جو دنیا کی سربراہی کر رہی ہیں وہاں شرح خواندگی اور ذوقِ تعلیم بلند ہے اس کے برعکس وہ اقوام جو امداد کی بیساکھی کے سہارے چل رہی ہیں وہاں شرح خواندگی تو کم ہے ہی لیکن خواندہ افراد کا ذوقِ تعلیم،بے ذوقی کا طویل افسانہ ہے اور افسوس کہ ہمارا شمار ’’من حیث القوم‘‘ انہی اقوام میں ہوتا ہے جو امداد کی بیساکھی پر گزر بسر کر رہیں ہیں- ثبوت کے طور پر ہر سال پیش کیا جانے والا خسارے کا بجٹ ہے- ہمارے ہاں بھی حصول تعلیم کا مقصد ذریعہ معاش کی تلاش ہے- جب تک تعلیم کا مقصد حصولِ ذریعہ معاش رہے گا قوم ترقی نہیں کر سکے گی کیونکہ حصولِ معاش کے لئے حاصل کی گئی تعلیم اچھے ملازم تو پیدا کر سکتی ہے لیکن دانشور نہیں اور دانشور طبقہ ہی قوم کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، (افسوس کی بات یہ ہے کہ اب دانشوری بھی محض ذریعہ معاش بن کر رہ گئی ہے - کسی دانشور کی مجال نہیں کہ میڈیا مالکان کیخلاف ایک اصولی بات بھی کر سکے )- دانشور طبقے سے مراد صرف ادب و فن کے ماہرین نہیں بلکہ ہر شعبہ ہائے زندگی کے وہ عالی و رئیس دماغ ہیں جو تخلیقی علم کے ذریعے نئی راہیں تلاشیں، تاکہ قوم ان پر چل کر اقوام عالم کے سامنے سربلند ہو سکے-اگر کچھ نہ کر سکیں تو کم از کم اپنے وسائل کا درست استعمال کر کے اپنی ضروریات کو تو پورا کر سکیں-
تعلیمی ادارے،تعلیمی نظام اورتعلیمی ادارے وہ مراکز ہیں جو کسی بھی قوم کی ترقی کے عکاس ہوتے ہیں جیسا کہ پہلے بھی عرض کی جا چکی ہے کہ ہمارے ملک کی جامعات میں سے صرف ایک آدھی یونیورسٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ دنیا کی پہلی ہزار یونیورسٹیز میں شامل ہونے کی اہل ہے-ریسرچ اور اکیڈیمکس کا حال ، بے حالی کا نمونہ ہے- اگر طلباء کی بات کی جائے تو اکثریت کو’’ ماسٹرز‘‘ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ہماری دلچسپی کن مضامین میں تھی اور ہم کن مضامین میں ’’ماسٹرز‘‘ کر بیٹھے ہیں-مارکیٹ میں اتنی ’’جابز‘‘موجود نہیں ہوتیں جتنے ’’گریجویٹس‘‘ ہماری جامعات سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں-یونیورسٹیز اور مارکیٹ میں ’’کمیونی کیشن‘‘ نہیں، جابفئیرز نام پر یونیورسٹیز میں ’’ایکسپوز‘‘ تو ہوتےہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان میں کتنے طلباء کو روزگار کے مواقع میسر آتے ہیں؟ایک قلیل تعداد ہے جو قابل ذکر بھی نہیں،ایک بڑی تعداد بلکہ اکثریت طلباء بے روزگاری کا شکار ہوتے ہیں،سرمایہ ان کے پاس ہوتا نہیں،جس سے کاروبار شروع کر سکیں، چھوٹا موٹا کام کرنا ہمارے معاشرے میں تحقیر اور تضحیک کا نشانہ بننے کا موجب ہوتا ہےاور ہر کوئی یہی سوال کرتا ہے کہ اگر یہ چھوٹا موٹا کام کرنا ہی تھا تو اتنی پڑھائی کیوں کی؟حالانکہ محنت کرنا شرم کی نہیں اعزاز و افتخار کی بات ہوتی ہے -
بے روزگاری اور فارغ رہنے سے بہتر خیال کیا جاتا ہے کہ سٹڈیز کو آگے بڑھایا جائے لہذا ’’ایم ایس یا ایم فل‘‘ میں داخلہ لے لیا جاتا ہے-جب تک’’ا یم فل یا ایم ایس‘‘مکمل ہوتا ہے اس وقت تک حالات نے نہ بدلنا ہوتا ہےاورنہ بدلتے ہیں-اخراجات پورے کرنے کے لئے ’’ہوم ٹیوشن‘‘ کا سہارا لیا جاتا ہے، یقین نہ آئے تو پیدل چلتے ہوئے سڑکوں کے کناروں پر، بجلی کے ٹرانسفارمرز کے کھمبوں پر،چوکوں پر ’’ہوم ٹیوشن‘‘ کے اشتہارات لگے دیکھ لیں-یہ بات صرف یہاں تک نہیں ’’ہوم ٹیوٹر‘‘مہیا کرنا با قاعدہ ایک کاروبار ہے جس میں ٹیوشن دلوانے والا کسی بھی بروکر کی طرح باقاعدہ اپنا کمیشن وصول کرتا ہے کیونکہ ’’ایم فل‘‘انہی حالات میں مکمل ہوتا ہے-’’ایم فل‘‘ مکمل ہونے کے بعد کوشش ہوتی ہے کہ اسی یونیورسٹی میں ’’وزٹنگ فیکلٹی‘‘ میں شامل ہو جایا جائےاور ساتھ ہی ’’پی ایچ ڈی‘‘ بھی شروع ہو جاتی ہے،یوں صاحب جو کل تک سردی کے سخت موسم میں موٹر سائیکل پر سوار گھر گھر بچوں کو ٹیوشن پڑھاتے تھے اب یونیورسٹیز کے طلباء کو لیکچر دیتے ہیں-صاحب لیکچرار ہو گئے ہیں ان ہی دنوں میں سر پر افسر بننے کی دُھن سوار ہوتی ہے لہٰذا ’’سول سروسز جوائن‘‘ کرنے کا خیال ذہن میں راسخ ہوتا ہے اور اب سول سروس کے امتحان کی تیاری شروع ہو جاتی ہے-
مزید ہمارے تعلیمی نظام کا جو حال ہے اس کے مطابق پہلی مرتبہ طلباء سلیبس یا کورس سے ہٹ کر کتب بینی شروع کرتے ہیں اس طرح عمر عزیز کے پچیس (۲۵)سال تقریباً کتاب سے دوری کے ساتھ ضائع ہو جاتے ہیں-اس وقت بھی رسائی صرف سول سروس کا امتحان پاس کرنے کی ہوتی ہےعلم میں اضافہ کرنے کی نہیں، وسعتِ ذہن کے لئے نہیں-ان میں جو کامیاب ہو جاتے ہیں ان کی تو بات ہی کیا ہے ،ہنسی خوشی بابو بن کر بوٹ پٹخاتے پھرتے ہیں اور سرمایہ دارانہ ذہنیت کے دامِ فریب میں جا پھنستے ہیں،جب تک انہیں سمجھ آتی ہے کہ ہم سسٹم بدلنے کے تو کیا،اس میں ذرا سی بہتری لانے کے بھی سزاوار نہیں ہو سکتے تب تک باقی ماندہ دس برسوں کی نوکری عزت سے گزارنے کا غم لاحق ہو چکا ہوتا ہے - جو باقی بچ جاتے ہیں اسی علم کو انہی دنوں میں پڑھی ہوئی کتابوں کے حوالے ساری زندگی چلتے ہیں اور جو لوگ یونیورسٹیز میں بطور لیکچرار تعینات ہو جاتے ہیں اس علم کو اپنے طلباء پر آزماتے ہیں-پھر اس طرح کے لیکچرار و پروفیسر حضرات اپنے مخصوص مضامین کے چند ایک اچھے اور موثر لیکچر تیار کر لیتے ہیں اور ہر سمسٹر میں طلباء کو وہی لیکچر بار بار دیتے ہیں -نئی تحقیق اور نئی کتابیں نہ تو لیکچرار حضرات خود پڑھتے ہیں اور نہ ہی اپنے طلباء کو تحریک دیتے ہیں کہ کتب بینی کریں یا تحقیق کریں - اب آپ اندازہ لگا لیں کہ استاد یا پروفیسر ہونا معاشرے کی سب سے حساس ترین اور تعمیرِ نسل جیسے اہم فریضے کی جاب ہے،اس پہ ایک مایوس اور ذہنی طور پہ تھکا ہوا شخص مامور ہوگا تو کیا تعمیرِ نسل ہو گی ؟ پاکستان میں اسی(۸۰) فیصد سے زائد ایسے اساتذہ ہیں جو تعلیم کو مشن بنا کر اس شعبہ میں نہیں آئے بلکہ سچ یہ ہے کہ انہیں کوئی اور مواقع نہیں ملے-یونیورسٹیز میں زیادہ تر تحقیق صرف ڈگری حاصل کرنے کے لئے کی جاتی ہے لیکن یہ ایک الگ مسئلہ ہے جس کی وجہ سے جامعات میں تحقیق نہیں ہورہی،نئی اشاعت نہیں ہو رہیں، نئی تخلیقی کتب نہیں لکھی جا رہیں-ایسا بالکل نہیں کہ تحقیق نہیں ہو رہی یا ’’پیپرز یا ریسرچ آرٹیکلز‘‘ وغیرہ نہیں لکھے جا رہے بلکہ کام اس طرح نہیں ہو رہا جس طرح کہ ہونا چاہیئےکیونکہ ابھی بھی تحقیق کی بہت ہی زیادہ گنجائش باقی ہے ، خاص کر ’’کاپی پیسٹ‘‘ ریسرچ سے نجاتِ دائمی کی سخت ضرورت ہے –
یہ بات مایوسی کی نہیں،یہ بحران ہی ہمیں منزل کی جانب لے کر جائیں گےبقول ماؤ ’’ قومیں بحرانوں مصیبتوں آفتوں اور پریشانیوں میں ترقی کرتی ہیں‘‘-
٭٭٭
جدید چین کے بانی ماوزے تنگ سے سوال کیا گیا کہ قومیں کیسے ترقی کرتی ہیں؟ماوزے نے کہا کہ قومیں بحرانوں مصیبتوں آفتوں اور پریشانیوں میں ترقی کرتی ہیں،سوال کرنے والے نے پوچھا ، کیسے؟ ماوزے نے کہا قوموں کو عام حالات میں اپنی صلاحیتوں کا ادراک اس طرح نہیں ہو پاتا جتنا،مصائب و پریشانیوں میں ہوتا ہے،مصائب و پریشانیاں قوموں کو ان کی خامیوں و کوتاہیوں کا ادراک بخشتی ہیں اور قومیں اپنی کوتاہیوں پر قابو پا کر ترقی کی شاہراہ پر چل پڑتی ہیں اور جو قومیں بحرانوں سے نہیں سیکھتیں اور اپنی غلطیوں کو دہرائے چلی جاتیں ہیں،ترقی نہیں کر سکتیں-
اب بات ملکِ عزیز کی،اس سے زیادہ دردشا(Plight) کیا ہو گی کہ ملک میں معدنی ذخائر موجود ہیں لیکن زمین کا سینہ چیرنے کی،ان تک رسائی صاحل کرنے کی اہلیت ناپید، مجبوراً اغیار کے دروازے کھٹ کٹھانے پڑتے ہیں، یہ تو دھرتی پاٹنے کی بات تھی زمین کے اوپر حالات یہ ہیں کہ سیلاب ہر دو تین سال بعد آ جاتا ہے فصلیں تباہ ہوتی ہیں،باغ اجڑتے ہیں،غریبوں کے کچے گھر وندے سیلاب کی بھپری موجوں میں بہہ جاتے ہیں، لیکن افسوس !ہم بچاؤ کی ترکیب نہیں کرسکتے -
سیلاب فقط ایک مثال ہے، کیا ہم علمی بحران کا شکار نہیں؟ کیا ہم سماجی ڈیڈ لاک میں مبتلا نہیں؟ کیا پریشانیوں اور مصائب نے انفرادی و اجتماعی سطح پر ہمارا گھیراؤ نہیں کر رکھا؟ کیا ہم بحیثیت قوم اپنی مشکلات و مصائب کا ادراک کر رہے ہیں؟کیا نقصان سے بچاؤ کی کسی تدبیر کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں؟ کیا وقت ہمیں پیچھے کی جانب دھکیل نہیں رہا؟ اگر جواب ہاں!میں ہے تو ہم شاہراہ ترقی کے مسافر ہیں اور اگر جواب ناں !میں ہے تو ہمیں سوچنا ہو گا- میرا دل و ذہن تو جواب ناں! میں دے رہا ہے اور یہ یقینا پریشانی کا باعث ہے ’’لیکن مایوسی کا نہیں‘‘ ماؤ کے مطابق یہی وہ حالات ہیں جو ہمیں ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے سازگار ہیں -
تندی بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب! |
مادی ترقی بنا تعلیم کے ممکن نہیں یہ بات پتھر پر لکیر ہے- تعلیم نہ جاننے سے جاننے کے سفر کا نام ہےکیونکہ تعلیم ترقی کی راہوں کو ہموار کرتی ہے- تعلیم وہ واحد چیز ہے جس کی اہمیت سے کوئی ذی ہوش انکار نہیں کر سکتاکیونکہ اعلیٰ اور عمدہ تعلیم ہی شخصیت کی تکمیل کا ذریعہ ہے-فرد چونکہ معاشرے کی اکائی اور بنیاد ہے لہذا تعلیم یافتہ افراد ہی علم دوست معاشرے کی تشکیل اور ملکی ترقی میں معاون و مددگار ہو تے ہیں- اقوام عالم جو دنیا کی سربراہی کر رہی ہیں وہاں شرح خواندگی اور ذوقِ تعلیم بلند ہے اس کے برعکس وہ اقوام جو امداد کی بیساکھی کے سہارے چل رہی ہیں وہاں شرح خواندگی تو کم ہے ہی لیکن خواندہ افراد کا ذوقِ تعلیم،بے ذوقی کا طویل افسانہ ہے اور افسوس کہ ہمارا شمار ’’من حیث القوم‘‘ انہی اقوام میں ہوتا ہے جو امداد کی بیساکھی پر گزر بسر کر رہیں ہیں- ثبوت کے طور پر ہر سال پیش کیا جانے والا خسارے کا بجٹ ہے- ہمارے ہاں بھی حصول تعلیم کا مقصد ذریعہ معاش کی تلاش ہے- جب تک تعلیم کا مقصد حصولِ ذریعہ معاش رہے گا قوم ترقی نہیں کر سکے گی کیونکہ حصولِ معاش کے لئے حاصل کی گئی تعلیم اچھے ملازم تو پیدا کر سکتی ہے لیکن دانشور نہیں اور دانشور طبقہ ہی قوم کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، (افسوس کی بات یہ ہے کہ اب دانشوری بھی محض ذریعہ معاش بن کر رہ گئی ہے - کسی دانشور کی مجال نہیں کہ میڈیا مالکان کیخلاف ایک اصولی بات بھی کر سکے )- دانشور طبقے سے مراد صرف ادب و فن کے ماہرین نہیں بلکہ ہر شعبہ ہائے زندگی کے وہ عالی و رئیس دماغ ہیں جو تخلیقی علم کے ذریعے نئی راہیں تلاشیں، تاکہ قوم ان پر چل کر اقوام عالم کے سامنے سربلند ہو سکے-اگر کچھ نہ کر سکیں تو کم از کم اپنے وسائل کا درست استعمال کر کے اپنی ضروریات کو تو پورا کر سکیں-
تعلیمی ادارے،تعلیمی نظام اورتعلیمی ادارے وہ مراکز ہیں جو کسی بھی قوم کی ترقی کے عکاس ہوتے ہیں جیسا کہ پہلے بھی عرض کی جا چکی ہے کہ ہمارے ملک کی جامعات میں سے صرف ایک آدھی یونیورسٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ دنیا کی پہلی ہزار یونیورسٹیز میں شامل ہونے کی اہل ہے-ریسرچ اور اکیڈیمکس کا حال ، بے حالی کا نمونہ ہے- اگر طلباء کی بات کی جائے تو اکثریت کو’’ ماسٹرز‘‘ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ہماری دلچسپی کن مضامین میں تھی اور ہم کن مضامین میں ’’ماسٹرز‘‘ کر بیٹھے ہیں-مارکیٹ میں اتنی ’’جابز‘‘موجود نہیں ہوتیں جتنے ’’گریجویٹس‘‘ ہماری جامعات سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں-یونیورسٹیز اور مارکیٹ میں ’’کمیونی کیشن‘‘ نہیں، جاب فئیرز نام پر یونیورسٹیز میں ’’ایکسپوز‘‘ تو ہوتےہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان میں کتنے طلباء کو روزگار کے مواقع میسر آتے ہیں؟ایک قلیل تعداد ہے جو قابل ذکر بھی نہیں،ایک بڑی تعداد بلکہ اکثریت طلباء بے روزگاری کا شکار ہوتے ہیں،سرمایہ ان کے پاس ہوتا نہیں،جس سے کاروبار شروع کر سکیں، چھوٹا موٹا کام کرنا ہمارے معاشرے میں تحقیر اور تضحیک کا نشانہ بننے کا موجب ہوتا ہےاور ہر کوئی یہی سوال کرتا ہے کہ اگر یہ چھوٹا موٹا کام کرنا ہی تھا تو اتنی پڑھائی کیوں کی؟حالانکہ محنت کرنا شرم کی نہیں اعزاز و افتخار کی بات ہوتی ہے -
بے روزگاری اور فارغ رہنے سے بہتر خیال کیا جاتا ہے کہ سٹڈیز کو آگے بڑھایا جائے لہذا ’’ایم ایس یا ایم فل‘‘ میں داخلہ لے لیا جاتا ہے-جب تک’’ا یم فل یا ایم ایس‘‘مکمل ہوتا ہے اس وقت تک حالات نے نہ بدلنا ہوتا ہےاورنہ بدلتے ہیں-اخراجات پورے کرنے کے لئے ’’ہوم ٹیوشن‘‘ کا سہارا لیا جاتا ہے، یقین نہ آئے تو پیدل چلتے ہوئے سڑکوں کے کناروں پر، بجلی کے ٹرانسفارمرز کے کھمبوں پر،چوکوں پر ’’ہوم ٹیوشن‘‘ کے اشتہارات لگے دیکھ لیں-یہ بات صرف یہاں تک نہیں ’’ہوم ٹیوٹر‘‘مہیا کرنا با قاعدہ ایک کاروبار ہے جس میں ٹیوشن دلوانے والا کسی بھی بروکر کی طرح باقاعدہ اپنا کمیشن وصول کرتا ہے کیونکہ ’’ایم فل‘‘انہی حالات میں مکمل ہوتا ہے-’’ایم فل‘‘ مکمل ہونے کے بعد کوشش ہوتی ہے کہ اسی یونیورسٹی میں ’’وزٹنگ فیکلٹی‘‘ میں شامل ہو جایا جائےاور ساتھ ہی ’’پی ایچ ڈی‘‘ بھی شروع ہو جاتی ہے،یوں صاحب جو کل تک سردی کے سخت موسم میں موٹر سائیکل پر سوار گھر گھر بچوں کو ٹیوشن پڑھاتے تھے اب یونیورسٹیز کے طلباء کو لیکچر دیتے ہیں-صاحب لیکچرار ہو گئے ہیں ان ہی دنوں میں سر پر افسر بننے کی دُھن سوار ہوتی ہے لہٰذا ’’سول سروسز جوائن‘‘ کرنے کا خیال ذہن میں راسخ ہوتا ہے اور اب سول سروس کے امتحان کی تیاری شروع ہو جاتی ہے-
مزید ہمارے تعلیمی نظام کا جو حال ہے اس کے مطابق پہلی مرتبہ طلباء سلیبس یا کورس سے ہٹ کر کتب بینی شروع کرتے ہیں اس طرح عمر عزیز کے پچیس (۲۵)سال تقریباً کتاب سے دوری کے ساتھ ضائع ہو جاتے ہیں-اس وقت بھی رسائی صرف سول سروس کا امتحان پاس کرنے کی ہوتی ہےعلم میں اضافہ کرنے کی نہیں، وسعتِ ذہن کے لئے نہیں-ان میں جو کامیاب ہو جاتے ہیں ان کی تو بات ہی کیا ہے ،ہنسی خوشی بابو بن کر بوٹ پٹخاتے پھرتے ہیں اور سرمایہ دارانہ ذہنیت کے دامِ فریب میں جا پھنستے ہیں،جب تک انہیں سمجھ آتی ہے کہ ہم سسٹم بدلنے کے تو کیا،اس میں ذرا سی بہتری لانے کے بھی سزاوار نہیں ہو سکتے تب تک باقی ماندہ دس برسوں کی نوکری عزت سے گزارنے کا غم لاحق ہو چکا ہوتا ہے - جو باقی بچ جاتے ہیں اسی علم کو انہی دنوں میں پڑھی ہوئی کتابوں کے حوالے ساری زندگی چلتے ہیں اور جو لوگ یونیورسٹیز میں بطور لیکچرار تعینات ہو جاتے ہیں اس علم کو اپنے طلباء پر آزماتے ہیں-پھر اس طرح کے لیکچرار و پروفیسر حضرات اپنے مخصوص مضامین کے چند ایک اچھے اور موثر لیکچر تیار کر لیتے ہیں اور ہر سمسٹر میں طلباء کو وہی لیکچر بار بار دیتے ہیں -نئی تحقیق اور نئی کتابیں نہ تو لیکچرار حضرات خود پڑھتے ہیں اور نہ ہی اپنے طلباء کو تحریک دیتے ہیں کہ کتب بینی کریں یا تحقیق کریں - اب آپ اندازہ لگا لیں کہ استاد یا پروفیسر ہونا معاشرے کی سب سے حساس ترین اور تعمیرِ نسل جیسے اہم فریضے کی جاب ہے،اس پہ ایک مایوس اور ذہنی طور پہ تھکا ہوا شخص مامور ہوگا تو کیا تعمیرِ نسل ہو گی ؟ پاکستان میں اسی(۸۰) فیصد سے زائد ایسے اساتذہ ہیں جو تعلیم کو مشن بنا کر اس شعبہ میں نہیں آئے بلکہ سچ یہ ہے کہ انہیں کوئی اور مواقع نہیں ملے-یونیورسٹیز میں زیادہ تر تحقیق صرف ڈگری حاصل کرنے کے لئے کی جاتی ہے لیکن یہ ایک الگ مسئلہ ہے جس کی وجہ سے جامعات میں تحقیق نہیں ہورہی،نئی اشاعت نہیں ہو رہیں، نئی تخلیقی کتب نہیں لکھی جا رہیں-ایسا بالکل نہیں کہ تحقیق نہیں ہو رہی یا ’’پیپرز یا ریسرچ آرٹیکلز‘‘ وغیرہ نہیں لکھے جا رہے بلکہ کام اس طرح نہیں ہو رہا جس طرح کہ ہونا چاہیئےکیونکہ ابھی بھی تحقیق کی بہت ہی زیادہ گنجائش باقی ہے ، خاص کر ’’کاپی پیسٹ‘‘ ریسرچ سے نجاتِ دائمی کی سخت ضرورت ہے –
یہ بات مایوسی کی نہیں،یہ بحران ہی ہمیں منزل کی جانب لے کر جائیں گےبقول ماؤ ’’ قومیں بحرانوں مصیبتوں آفتوں اور پریشانیوں میں ترقی کرتی ہیں‘‘-
٭٭٭