مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیرِاہتمام ’’اسلام اور مغر ب:اُبھرتے مسائل اور مستقبل کا لائحہ عمل‘‘کے عنوان پہ سیمینار کا انعقاد کیا گیا-سیمینار کی صدارت و ائس چانسلر ائیریونیورسٹی،ائیر وائس مارشل فائز امیر نے کی جبکہ مقررین میں سابق سینیٹر اور سینئر سفارت کار جناب اکرم ذکی ، چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی، پاکستان میں اٹلی کے سفیر عزت مآب سٹیفانوپونٹیکورو پاکستان میں پرتگال کے سفیر عزت مآب جوپاولو سبیدو کوستا ، صدرانٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی،اسلام آباد ڈاکٹر احمد یوسف الدرویش ،سابق صدر نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد لیفٹیننٹ جنرل (ر) سعید الظفر،سنٹر فار انٹرنیشنل پیس اینڈ سٹیبلٹی نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد سے ڈاکٹر بکر نجم الدین، شامل تھے- جبکہ ملائشیا سے تعلق رکھنے والے عالمِ اسلام کے نامور معاصر مفکر و دانشور اور جسٹ انٹرنیشنل کے صدر پروفیسر چندرا مظفر، معروف امریکی تھنک ٹینک ’’مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ‘‘ کے وائس پریزیڈنٹ پاؤل سالم نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا-سابق ایڈیشنل سیکریٹری وزارت خارجہ و ایمبیسڈر جناب اشتیاق اندرابی، سنٹر فار انٹرنیشنل پیس اینڈ سٹیبلٹی ،نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے سابق پرنسپل جنرل (ر) شاہد حشمت،سابق وفاقی سیکرٹری جاوید ظفر،سابق ڈی جی آئی ایس آئی لفٹیننٹ جنرل (ر)اسد درانی، اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مسعود،ایڈمرل مختار جدون، والیٔ سوات پرنس عدنان اورنگزیب خان ، سابق سیکریٹری محمد فہیم اور فرخ خان نے بھی ڈسکشن میں حصہ لیا-سیمینار میں ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ احمد القادری نے ماڈریٹر کے فرائض سرانجام دیئے-سیمینار میں غیر ملکی مبصرین، یونیورسٹی پروفیسرز اور طلباء،محققین، دانشوروں،سماجی شخصیات اور صحافیوں سمیت بڑی تعداد میں افراد نے شرکت کی-
مقررین کے اظہار خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے:
گزشتہ دو دہایوں میں عالمی سیاسی پس منظربہت تیزی سے تبدیل ہوا ہےخصوصاً مغرب کے اعتبار سے اور ان چند افراد کے باعث جو اپنےآپ کو ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا نمائندہ ظاہر کرتے ہیں جن کی وجہ سے مغرب میں اسلام کے تشخص میں بگاڑ پیدا ہوا-نتیجتاً یہ نظریات جنم لینے لگے ہیں کہ اسلام اور مغرب آپس میں ہم آہنگ نہیں ہو سکتے اور مسلمان مغربی معاشروں میں نہیں رہ سکتے-جبکہ یہ نظریات اور تشخص مسلمانوں اور مغرب کی آپس میں تعاون کی تاریخ کو نظر انداز کردیتے ہیں-اسی کے ساتھ مسلمانوں کی ماضی میں عظیم علمی خدمات کو بھی نظر انداز کر دیا جاتا ہے-مسلمانوں کے علمی اور ادبی ورثہ کی مغرب میں منتقل ہونے کے بارے فرانسیسی مؤرخ رابرٹ برفالٹ نے اپنی کتاب ’THE MAKING OF HUMANITY ‘انسانیت کی ارتقاء میں سیر حاصل بحث کی ہے-
“What we call science arose in Europe as a result of a new spirit of inquiry, of new methods of investigation, of the method of experiment, observation, measurement, of the development of mathematics in a form unknown to the Greeks. That spirit and those methods were introduced into the European world by the Arabs”.
”جسے ہم سائنس کہتے ہیں جو تحقیق کی نئی روح، کھوج لگانے کے نئے طریقے، تجربات، مشاہدات، پیمائش کے نئے طریقوں اور ریاضی کی ایسی صورت جو یورپ میں پروان چڑھی جن سے یونانی نا واقف تھے، یہ روح اور طریقے یورپی دنیا کو عربوں نے متعارف کروائے‘‘-
مغربی و غیر مغربی معاشرے،پالیسی سازوں، ماہرینِ تعلیم،میڈیا اور سول سوسائٹی خواہ مسلم ہوں یا غیر مسلم کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ بین المذاہب اور بین الثقافت ہم آہنگی کو فروغ دیں اور مسلمانوں و مغرب کے مابین ایک دوسرے کے تجربات اور علوم سے سیکھنے کی تاریخ کو دنیا کے سامنے لائیں -بین المذاہب مکالمہ بہت اہمیت کا حامل ہے جیسا کہ ’’گلوبلائزیشن‘‘کے ذریعے آج ہمارے معاشرے ایک دوسرے سے جُڑتے جا رہے ہیں-یہ لوگوں میں باہمی امن پیدا کرنے میں بہت معاون ثابت ہوگا-مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ الحاد اور مذہب کی بنیاد پر تفریق کی بجائے انسانیت کی بنیاد پر متحد ہونا چاہیے-مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کو بھی اپنےمقامی معاشروں اور رہنماؤں کی مدد سے یہ شعور بیدار کرنا چاہیےاور مغرب کو بھی یورپ کی ترقی میں مسلمانوں کے کردار کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے-
یہ حقیقت ہے کہ مسلمان جوصدیوں سے یورپی ممالک میں مقیم ہیں اور وہاں کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں،اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلمانوں کےلئے یورپی باشندوں کے ساتھ پُر امن طور پر رہنا اور معاشرے کےلئے کردار ادا کرنا ایک حقیقت ہے-تاہم، ہم زمینی حقائق کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے-پیو ریسرچ سنٹر کے کیے گئے جائزہ کے مطابق ہنگری کی بہتّر (۷۲) فیصد،اٹلی کی اُنہتّر(۶۹) فیصد،پولینڈ کی چھیاسٹھ(۶۶) فیصداور یونان کی پینسٹھ (۶۵) فیصد عوام نے مسلمانوں کی اپنے ملک میں موجودگی کےبارے میں ناپسندیدگی کا اظہار کیا-اسلام اور مغرب کے خراب تعلقات کی ایک وجہ مغرب میں پائی جانے والی سامراجی سوچ بھی ہے- مسلم دنیا پر ان کے قابض ہوئے رہنے اور اثر رسوخ قائم رکھنے کی سوچ مسلمانوں کے لیے تکلیف کا باعث ہے جس پر وہ مضطرب رہتے ہیں اور اس وجہ سے بھی ان کے اندر غصہ پیدا ہوتا ہے-مزید برآں وسائل پر قبضہ کےلئے بننے والی پالیسیاں اور جنگیں مسلم دنیا میں ردِ عمل کو جنم دیتی ہیں-
موجودہ دور میں دنیا میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور نئی طاقتیں بھی سامنے آرہی ہیں-لہٰذا مسلمانوں کو اپنے شاندار ماضی اور تاریخ پہ یقین رکھتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے-اسلامی تہذیب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں انفرادی تشخص اور اختلافات کی گنجائش بھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس میں مقامی معاملات کو عالمی سطح پہ جوڑنے کی خصوصیت بھی ہے-مستقبل میں تمام انسانوں کو دنیا میں مثبت تبدیلی کےلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا جس کا تصور مفکر علامہ محمد اقبال ()نے پیش کیا تھا کہ ایک ایسا جہاں جس میں شہری اپنے مستقبل کے بارے میں خود فیصلہ کرسکیں گے، ایسا جہاں جس میں انصاف، وقار اور مساوات ہو گی-اقبال کا یہ تصور کسی خاص طبقہ کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہے اور ایسے میں پاکستان اپنے محل وقوع کی وجہ سے اہم کردار ادا کر سکتا ہے-
موجودہ دور کی سب سے بڑی ڈرامائی تبدیلی یہ رونما ہورہی ہے کہ ٹرمپ کی انتظامیہ امریکہ کا رخ کرنے والے تمام مسلمانوں پہ پابندی عائد کرنا چاہتی ہےجس کی پوری امریکی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی-یہ انتہائی تکلیف دہ امر ہے جو کہ ٹرمپ انتظامیہ کی مسلم دشمنی کو عیاں کرتی ہے-حتیٰ کہ ان کا اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنا خود اکثر ریپبلکنز کے لیے بھی تکلیف دہ ہے-ایسی صورتحال میں دہشت گردی کا ایک واقعہ بھی قہر برپا کر سکتا ہے- دنیا کے مختلف کونوں اور مختلف مکاتب فکر کے شدت پسند عناصر ایسی صورتحال کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں-مقررین نے ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیز اور ان کا مسلم دنیا پر اثرات کا جائزہ بھی لیا-انہوں نے کہا کہ انتظامیہ امریکا کے توانائی پر بڑھتے ہوئے انحصار پر تشویش رکھتی ہے جبکہ مشرقِ وسطیٰ توانائی کے لئے سب سے بڑی سپلائی لائن کی حیثیت رکھتا ہے-درحقیقت ٹرمپ ایک تاجر ہے اور وہ مصمم ارادےکا مالک نہیں ہے لیکن اس کی پس پشت طاقتیں اصل خطرہ ہیں-سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ ٹرمپ کو ایسے مشیر ملے ہیں جو اسلام کےدشمن مشہور ہیں- دنیا پہلے بھی اس بے اعتمادی کی فضا کا شکار بن چکی ہے ، مغربی دانشور خود انتہائی تشویش کا شکار ہیں کہ جس طرح مغرب میں فاشسٹ نسل پرست سیاسی جماعتوں کو مقبولیت حاصل ہو رہی ہے یہ اپنے نتائج کے اعتبار سے لازماً منفی اور تخریبی ثابت ہوگا - دُنیا نسلی و مذہبی جنگ کی جانب دھیرے دھیرے بڑھ رہی ہے - اس بگڑتی ہوئی صورتحال میں بنی نوع انسان کی بنیادی ضروریات جیسا کہ سکیورٹی، خوشحالی،امن و آشتی پر توجہ کا فقدان ہے-باوجودیہ کہ اسلام امن کا دین ہے، اسلام کو بدنام کرنے کی اندرونی و بیرونی سطح پر مذموم مہم چلائی جا رہی ہے اور اسلام کو دہشتگردی کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے-مغربی ممالک کےسیاستدانوں کو اقلیتی گروہوں جیسا کہ مسلمان،کو اس نہج پر نہیں لا کھڑا کرنا چاہیے جہاں وہ ملک اور مذہب میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں-
مغرب اور اسلام دنیا میں بسنے والی دو بڑی تہذیبیں ہیں ان کے مابین ٹکراؤ یا سرد رویے انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو مضطرب کرتے ہیں-اس اضطراب کا براہِ راست اثرمغرب میں بسنے والے مسلمانوں پر پڑتا ہے جبکہ بالواسطہ طور پر اسلامی دنیا میں رہنے والے بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں، زبان مذہب ، کلچر، تاریخ ، رسوم و رواج وغیرہ میں اختلاف کو برداشت کیا جانا چاہئے اگر انسانیت اور مشترکات کی بنیاد پر بات کی جائے تو تعصبات ختم کیے جاسکتے ہیں -بدقسمتی سے آج سیاسی اور سماجی رویوں میں شدت تعصبات کو ہوا دے رہی ہے-اگرچہ مغرب میں ایک بڑی تعداد مسلمانوں کے متعلق اچھی رائے نہیں رکھتی تاہم یہ بھی درست ہے کہ مسلمانوں پر پابندی کے بعد امریکی ائیرپورٹس پر پھنسے مسلمانوں کےلئے بڑی تعداد میں امریکی شہری نکلے اور اپنی بھرپور حمایت اور یکجہتی کا اظہار کیا اور اس کے ساتھ ساتھ کئی یورپی ممالک میں مسلمانوں پر پابندی کے خلاف مظاہرے کئے گئے-اسلام کی حقیقی تعلیمات سے آشنائی کے لیے مغرب میں لوگوں نے خود سے قرآن مجید کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا ہے جو کہ ایک انتہائی خوش آئند بات ہے-اسی طرح سول سوسائٹی، دانشور اور بہت سے لوگ اس مسئلہ پر کام کر رہے ہیں تاہم ابھی مزید کاشوں کی ضرورت ہے- حالیہ مہاجرین کے بحران کی وجہ سے مغرب میں سماجی طور پر ردِ عمل پیدا ہوا ہے مسلمان اور مغربی ممالک کے حکمرانوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان ابھرتے مسائل کے حل کےلئے اپنا بھر پور تعمیری کردار ادا کریں-
وقفہ سوال و جواب:
مسلمانوں کو درپیش مسائل کی نوعیت محض مذہبی نہیں بلکہ ان کی وجوہات عالمی سیاست اور عالمی معیشت بھی ہے- جب تک وسائل کو ہتھیانے کی شخصی و عالمی حرص موجود ہے تب تک حالات بہتر نہیں ہو سکتے- زندگی کا قانون یہ ہے کہ کوئی بھی کمزور اور بزدل کی عزت نہیں کرتا بعین اسی طرح مغرب مسلمانوں کی کیونکر سنے جبکہ انہوں نے سائنس اور فنون میں اپنا کردار ادا کرنا ترک کر دیا ہے-یہ عقل و دانش ہی ہے جس کےذریعےمسلمانوں کے خلاف منفی نقطہ ٔنظر کا خاطر خواہ جواب دیا جاسکتا ہے-
سفارشات:
ڈسکشن سے اخذ کی گئی بعض سفارشات مندرجہ ذیل ہیں-
1۔ حالیہ دور کے ابھرتے تناظر میں جب مغرب اور اسلام کے مابین خلیج بڑھ رہی ہے،دونوں اطراف کے حکمرانوں کی جانب سے سنجیدہ کاوشوں کی ضرورت ہے تاکہ ان بڑھتے فاصلوں کو کم کیا جائے اور حالات کو بہتری کی جانب لایا جایا-
2۔ بین المذاہب اور بین الثقافت مکالمہ کو فروغ دیا جانا چاہئے تاکہ لوگوں کے مابین ہم آہنگی بڑھے-
3۔ مغربی ممالک کےسیاستدانوں کومسلم مخالف پالیسیزنہیں اپنانی چاہئیں کہ مسلمان مذہب یا ریاست میں سےکسی ایک کےانتخاب کےلئےمجبورنہ ہوجائیں-
4۔ کثیر الثقافتی نظریے کو تسلیم کیا جانا چاہیے نہ کہ مسلمانوں کو مغربی معاشروں کے لئےاجنبی گردانا جانا چاہیے-مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کو بھی ان ممالک کے مقامی نمائندگان سے مل کر اسلام کے تشخص کو درست کرنے اورمعاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے-
5۔ سائنس اور جدید علوم کے لیے صدیوں پر محیط مسلمانوں کی عظیم خدمات اور اس حقیقت کو دنیا کے سامنے لانے کی ضرورت ہے کہ مغرب نے عظیم مسلم سائنسدانوں اور علماء کےکام کو اپنایا اور اس پہ مزید کام کیا-
6۔ دونوں جانب کے شدت پسندوں کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے اور کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں کرنے دینا چاہئے کہ وہ نفرتوں کی تجارت کرے یا فسادات کی جانب بڑھتی دُنیا میں نفرتوں کے شعلوں کو فروغ دے –
7۔ مہاجرین کے بحران اور مسلمانوں کی مغربی ممالک میں نقل مکانی کو زمینی حقائق اور ان ممالک کے وسائل اور استطاعت کی بنیاد پر پرکھنا چاہیے نہ کہ مذہب کی بنیاد پہ لوگوں کی تقسیم کی جانی چاہیے-
٭٭٭
مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیرِاہتمام ’’اسلام اور مغر ب:اُبھرتے مسائل اور مستقبل کا لائحہ عمل‘‘کے عنوان پہ سیمینار کا انعقاد کیا گیا-سیمینار کی صدارت و ائس چانسلر ائیریونیورسٹی،ائیر وائس مارشل فائز امیر نے کی جبکہ مقررین میں سابق سینیٹر اور سینئر سفارت کار جناب اکرم ذکی ، چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی، پاکستان میں اٹلی کے سفیر عزت مآب سٹیفانوپونٹیکورو پاکستان میں پرتگال کے سفیر عزت مآب جوپاولو سبیدو کوستا ، صدرانٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی،اسلام آباد ڈاکٹر احمد یوسف الدرویش ،سابق صدر نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد لیفٹیننٹ جنرل (ر) سعید الظفر،سنٹر فار انٹرنیشنل پیس اینڈ سٹیبلٹی نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد سے ڈاکٹر بکر نجم الدین، شامل تھے- جبکہ ملائشیا سے تعلق رکھنے والے عالمِ اسلام کے نامور معاصر مفکر و دانشور اور جسٹ انٹرنیشنل کے صدر پروفیسر چندرا مظفر، معروف امریکی تھنک ٹینک ’’مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ‘‘ کے وائس پریزیڈنٹ پاؤل سالم نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا-سابق ایڈیشنل سیکریٹری وزارت خارجہ و ایمبیسڈر جناب اشتیاق اندرابی، سنٹر فار انٹرنیشنل پیس اینڈ سٹیبلٹی ،نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے سابق پرنسپل جنرل (ر) شاہد حشمت،سابق وفاقی سیکرٹری جاوید ظفر،سابق ڈی جی آئی ایس آئی لفٹیننٹ جنرل (ر)اسد درانی، اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مسعود،ایڈمرل مختار جدون، والیٔ سوات پرنس عدنان اورنگزیب خان ، سابق سیکریٹری محمد فہیم اور فرخ خان نے بھی ڈسکشن میں حصہ لیا-سیمینار میں ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ احمد القادری نے ماڈریٹر کے فرائض سرانجام دیئے-سیمینار میں غیر ملکی مبصرین، یونیورسٹی پروفیسرز اور طلباء،محققین، دانشوروں،سماجی شخصیات اور صحافیوں سمیت بڑی تعداد میں افراد نے شرکت کی-
مقررین کے اظہار خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے:
گزشتہ دو دہایوں میں عالمی سیاسی پس منظربہت تیزی سے تبدیل ہوا ہےخصوصاً مغرب کے اعتبار سے اور ان چند افراد کے باعث جو اپنےآپ کو ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا نمائندہ ظاہر کرتے ہیں جن کی وجہ سے مغرب میں اسلام کے تشخص میں بگاڑ پیدا ہوا-نتیجتاً یہ نظریات جنم لینے لگے ہیں کہ اسلام اور مغرب آپس میں ہم آہنگ نہیں ہو سکتے اور مسلمان مغربی معاشروں میں نہیں رہ سکتے-جبکہ یہ نظریات اور تشخص مسلمانوں اور مغرب کی آپس میں تعاون کی تاریخ کو نظر انداز کردیتے ہیں-اسی کے ساتھ مسلمانوں کی ماضی میں عظیم علمی خدمات کو بھی نظر انداز کر دیا جاتا ہے-مسلمانوں کے علمی اور ادبی ورثہ کی مغرب میں منتقل ہونے کے بارے فرانسیسی مؤرخ رابرٹ برفالٹ نے اپنی کتاب ’THE MAKING OF HUMANITY‘انسانیت کی ارتقاء میں سیر حاصل بحث کی ہے-
“What we call science arose in Europe as a result of a new spirit of inquiry, of new methods of investigation, of the method of experiment, observation, measurement, of the development of mathematics in a form unknown to the Greeks. That spirit and those methods were introduced into the European world by the Arabs”.
”جسے ہم سائنس کہتے ہیں جو تحقیق کی نئی روح، کھوج لگانے کے نئے طریقے، تجربات، مشاہدات، پیمائش کے نئے طریقوں اور ریاضی کی ایسی صورت جو یورپ میں پروان چڑھی جن سے یونانی نا واقف تھے، یہ روح اور طریقے یورپی دنیا کو عربوں نے متعارف کروائے‘‘-
مغربی و غیر مغربی معاشرے،پالیسی سازوں، ماہرینِ تعلیم،میڈیا اور سول سوسائٹی خواہ مسلم ہوں یا غیر مسلم کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ بین المذاہب اور بین الثقافت ہم آہنگی کو فروغ دیں اور مسلمانوں و مغرب کے مابین ایک دوسرے کے تجربات اور علوم سے سیکھنے کی تاریخ کو دنیا کے سامنے لائیں -بین المذاہب مکالمہ بہت اہمیت کا حامل ہے جیسا کہ ’’گلوبلائزیشن‘‘کے ذریعے آج ہمارے معاشرے ایک دوسرے سے جُڑتے جا رہے ہیں-یہ لوگوں میں باہمی امن پیدا کرنے میں بہت معاون ثابت ہوگا-مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ الحاد اور مذہب کی بنیاد پر تفریق کی بجائے انسانیت کی بنیاد پر متحد ہونا چاہیے-مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کو بھی اپنےمقامی معاشروں اور رہنماؤں کی مدد سے یہ شعور بیدار کرنا چاہیےاور مغرب کو بھی یورپ کی ترقی میں مسلمانوں کے کردار کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے-
یہ حقیقت ہے کہ مسلمان جوصدیوں سے یورپی ممالک میں مقیم ہیں اور وہاں کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں،اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلمانوں کےلئے یورپی باشندوں کے ساتھ پُر امن طور پر رہنا اور معاشرے کےلئے کردار ادا کرنا ایک حقیقت ہے-تاہم، ہم زمینی حقائق کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے-پیو ریسرچ سنٹر کے کیے گئے جائزہ کے مطابق ہنگری کی بہتّر (۷۲) فیصد،اٹلی کی اُنہتّر(۶۹) فیصد،پولینڈ کی چھیاسٹھ(۶۶) فیصداور یونان کی پینسٹھ (۶۵) فیصد عوام نے مسلمانوں کی اپنے ملک میں موجودگی کےبارے میں ناپسندیدگی کا اظہار کیا-اسلام اور مغرب کے خراب تعلقات کی ایک وجہ مغرب میں پائی جانے والی سامراجی سوچ بھی ہے- مسلم دنیا پر ان کے قابض ہوئے رہنے اور اثر رسوخ قائم رکھنے کی سوچ مسلمانوں کے لیے تکلیف کا باعث ہے جس پر وہ مضطرب رہتے ہیں اور اس وجہ سے بھی ان کے اندر غصہ پیدا ہوتا ہے-مزید برآں وسائل پر قبضہ کےلئے بننے والی پالیسیاں اور جنگیں مسلم دنیا میں ردِ عمل کو جنم دیتی ہیں-
موجودہ دور میں دنیا میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور نئی طاقتیں بھی سامنے آرہی ہیں-لہٰذا مسلمانوں کو اپنے شاندار ماضی اور تاریخ پہ یقین رکھتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے-اسلامی تہذیب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں انفرادی تشخص اور اختلافات کی گنجائش بھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس میں مقامی معاملات کو عالمی سطح پہ جوڑنے کی خصوصیت بھی ہے-مستقبل میں تمام انسانوں کو دنیا میں مثبت تبدیلی کےلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا جس کا تصور مفکر علامہ محمد اقبال ()نے پیش کیا تھا کہ ایک ایسا جہاں جس میں شہری اپنے مستقبل کے بارے میں خود فیصلہ کرسکیں گے، ایسا جہاں جس میں انصاف، وقار اور مساوات ہو گی-اقبال کا یہ تصور کسی خاص طبقہ کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہے اور ایسے میں پاکستان اپنے محل وقوع کی وجہ سے اہم کردار ادا کر سکتا ہے-
موجودہ دور کی سب سے بڑی ڈرامائی تبدیلی یہ رونما ہورہی ہے کہ ٹرمپ کی انتظامیہ امریکہ کا رخ کرنے والے تمام مسلمانوں پہ پابندی عائد کرنا چاہتی ہےجس کی پوری امریکی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی-یہ انتہائی تکلیف دہ امر ہے جو کہ ٹرمپ انتظامیہ کی مسلم دشمنی کو عیاں کرتی ہے-حتیٰ کہ ان کا اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنا خود اکثر ریپبلکنز کے لیے بھی تکلیف دہ ہے-ایسی صورتحال میں دہشت گردی کا ایک واقعہ بھی قہر برپا کر سکتا ہے- دنیا کے مختلف کونوں اور مختلف مکاتب فکر کے شدت پسند عناصر ایسی صورتحال کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں-مقررین نے ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیز اور ان کا مسلم دنیا پر اثرات کا جائزہ بھی لیا-انہوں نے کہا کہ انتظامیہ امریکا کے توانائی پر بڑھتے ہوئے انحصار پر تشویش رکھتی ہے جبکہ مشرقِ وسطیٰ توانائی کے لئے سب سے بڑی سپلائی لائن کی حیثیت رکھتا ہے-درحقیقت ٹرمپ ایک تاجر ہے اور وہ مصمم ارادےکا مالک نہیں ہے لیکن اس کی پس پشت طاقتیں اصل خطرہ ہیں-سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ ٹرمپ کو ایسے مشیر ملے ہیں جو اسلام کےدشمن مشہور ہیں- دنیا پہلے بھی اس بے اعتمادی کی فضا کا شکار بن چکی ہے ، مغربی دانشور خود انتہائی تشویش کا شکار ہیں کہ جس طرح مغرب میں فاشسٹ نسل پرست سیاسی جماعتوں کو مقبولیت حاصل ہو رہی ہے یہ اپنے نتائج کے اعتبار سے لازماً منفی اور تخریبی ثابت ہوگا - دُنیا نسلی و مذہبی جنگ کی جانب دھیرے دھیرے بڑھ رہی ہے - اس بگڑتی ہوئی صورتحال میں بنی نوع انسان کی بنیادی ضروریات جیسا کہ سکیورٹی، خوشحالی،امن و آشتی پر توجہ کا فقدان ہے-باوجودیہ کہ اسلام امن کا دین ہے، اسلام کو بدنام کرنے کی اندرونی و بیرونی سطح پر مذموم مہم چلائی جا رہی ہے اور اسلام کو دہشتگردی کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے-مغربی ممالک کےسیاستدانوں کو اقلیتی گروہوں جیسا کہ مسلمان،کو اس نہج پر نہیں لا کھڑا کرنا چاہیے جہاں وہ ملک اور مذہب میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں-
مغرب اور اسلام دنیا میں بسنے والی دو بڑی تہذیبیں ہیں ان کے مابین ٹکراؤ یا سرد رویے انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو مضطرب کرتے ہیں-اس اضطراب کا براہِ راست اثرمغرب میں بسنے والے مسلمانوں پر پڑتا ہے جبکہ بالواسطہ طور پر اسلامی دنیا میں رہنے والے بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں، زبان مذہب ، کلچر، تاریخ ، رسوم و رواج وغیرہ میں اختلاف کو برداشت کیا جانا چاہئے اگر انسانیت اور مشترکات کی بنیاد پر بات کی جائے تو تعصبات ختم کیے جاسکتے ہیں -بدقسمتی سے آج سیاسی اور سماجی رویوں میں شدت تعصبات کو ہوا دے رہی ہے-اگرچہ مغرب میں ایک بڑی تعداد مسلمانوں کے متعلق اچھی رائے نہیں رکھتی تاہم یہ بھی درست ہے کہ مسلمانوں پر پابندی کے بعد امریکی ائیرپورٹس پر پھنسے مسلمانوں کےلئے بڑی تعداد میں امریکی شہری نکلے اور اپنی بھرپور حمایت اور یکجہتی کا اظہار کیا اور اس کے ساتھ ساتھ کئی یورپی ممالک میں مسلمانوں پر پابندی کے خلاف مظاہرے کئے گئے-اسلام کی حقیقی تعلیمات سے آشنائی کے لیے مغرب میں لوگوں نے خود سے قرآن مجید کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا ہے جو کہ ایک انتہائی خوش آئند بات ہے-اسی طرح سول سوسائٹی، دانشور اور بہت سے لوگ اس مسئلہ پر کام کر رہے ہیں تاہم ابھی مزید کاشوں کی ضرورت ہے- حالیہ مہاجرین کے بحران کی وجہ سے مغرب میں سماجی طور پر ردِ عمل پیدا ہوا ہے مسلمان اور مغربی ممالک کے حکمرانوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان ابھرتے مسائل کے حل کےلئے اپنا بھر پور تعمیری کردار ادا کریں-
وقفہ سوال و جواب:
مسلمانوں کو درپیش مسائل کی نوعیت محض مذہبی نہیں بلکہ ان کی وجوہات عالمی سیاست اور عالمی معیشت بھی ہے- جب تک وسائل کو ہتھیانے کی شخصی و عالمی حرص موجود ہے تب تک حالات بہتر نہیں ہو سکتے- زندگی کا قانون یہ ہے کہ کوئی بھی کمزور اور بزدل کی عزت نہیں کرتا بعین اسی طرح مغرب مسلمانوں کی کیونکر سنے جبکہ انہوں نے سائنس اور فنون میں اپنا کردار ادا کرنا ترک کر دیا ہے-یہ عقل و دانش ہی ہے جس کےذریعےمسلمانوں کے خلاف منفی نقطہ ٔنظر کا خاطر خواہ جواب دیا جاسکتا ہے-
سفارشات:
ڈسکشن سے اخذ کی گئی بعض سفارشات مندرجہ ذیل ہیں-
v حالیہ دور کے ابھرتے تناظر میں جب مغرب اور اسلام کے مابین خلیج بڑھ رہی ہے،دونوں اطراف کے حکمرانوں کی جانب سے سنجیدہ کاوشوں کی ضرورت ہے تاکہ ان بڑھتے فاصلوں کو کم کیا جائے اور حالات کو بہتری کی جانب لایا جایا-
v بین المذاہب اور بین الثقافت مکالمہ کو فروغ دیا جانا چاہئے تاکہ لوگوں کے مابین ہم آہنگی بڑھے-
v مغربی ممالک کےسیاستدانوں کومسلم مخالف پالیسیزنہیں اپنانی چاہئیں کہ مسلمان مذہب یا ریاست میں سےکسی ایک کےانتخاب کےلئےمجبورنہ ہوجائیں-
v کثیر الثقافتی نظریے کو تسلیم کیا جانا چاہیے نہ کہ مسلمانوں کو مغربی معاشروں کے لئےاجنبی گردانا جانا چاہیے-مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کو بھی ان ممالک کے مقامی نمائندگان سے مل کر اسلام کے تشخص کو درست کرنے اورمعاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے-
v سائنس اور جدید علوم کے لیے صدیوں پر محیط مسلمانوں کی عظیم خدمات اور اس حقیقت کو دنیا کے سامنے لانے کی ضرورت ہے کہ مغرب نے عظیم مسلم سائنسدانوں اور علماء کےکام کو اپنایا اور اس پہ مزید کام کیا-
v دونوں جانب کے شدت پسندوں کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے اور کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں کرنے دینا چاہئے کہ وہ نفرتوں کی تجارت کرے یا فسادات کی جانب بڑھتی دُنیا میں نفرتوں کے شعلوں کو فروغ دے –
v مہاجرین کے بحران اور مسلمانوں کی مغربی ممالک میں نقل مکانی کو زمینی حقائق اور ان ممالک کے وسائل اور استطاعت کی بنیاد پر پرکھنا چاہیے نہ کہ مذہب کی بنیاد پہ لوگوں کی تقسیم کی جانی چاہیے-
٭٭٭