پاکستان کی جوہری ترقی کے ملکی استحکام پر اثرات

پاکستان کی جوہری ترقی کے ملکی استحکام پر اثرات

پاکستان کی جوہری ترقی کے ملکی استحکام پر اثرات

مصنف: اُسامہ بن اشرف مئی 2017

تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ پاکستان کا ظہور اور قیام برصغیر کے غیور مسلمان عوام اور راہنماؤں کی طویل جدوجہد کا نتیجہ ہے-عشروں تک ہندوستان کے ساتھ پُرامن بقائے باہمی کے باوجود مسلمانان برصغیر ایک آزادانہ مملکت کا خواب دیکھتے رہے کیونکہ متحارب اکثریت کے ہاتھوں مسلمانوں کی دینی، ثقافتی اور سیاسی تشخص کو زبردست خطرات لاحق تھے-قائد اعظم (﷫)کے مطابق ’’ہم جانتے ہیں کہ گزشتہ بارہ صدیوں کی تاریخ ہم میں اتحاد پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے اس تمام عرصے میں ہندوستان  ہندو انڈیا اور مسلمان انڈیا میں تقسیم ہوتا رہا ہے-اس وقت جو مصنوعی اتحاد نظر آتا ہے وہ محض برطانوی اقتدار کا نتیجہ ہے‘‘-کئی عشروں پر محیط محنت و مشقت کا صلہ قیام پاکستان کی صورت میں ملا جو آج اپنے استحکام کی شاہراہ پر گامزن ہے -

کسی بھی ملک و ملت کی سالمیت اور استحکام کا بنیادی مرکز و محور اُس کا اندورنی و بیرونی خطرات سے دفاع ہوتا ہے -بدقسمتی سے پاکستان کو ابتدا ءہی سے مشرقی و مغربی سرحدوں سے شدید خطرات لاحق رہے ہیں- بھارت کے ساتھ تین جنگیں ، لاتعداد سرحدی جھڑپوں سے لے کر۱۹۷۱ء کی مشرقی پاکستان کی علیحدگی تک،توانائی کی کمی سے لے کر قومی امن و امان کی سلامتی تک  پاکستان کے وجود کی سالمیت دشمن کی للکار کے زیر اثر رہی ہے-بھارت کے ساتھ دشمنی،  افغانستان سے تلخ تعلقات ، توانائی کی کمی ،ملکی سالمیت اور وجود کو درپیش خطرات وہ تمام وجوہات ہیں جن  کی وجہ سے پاکستان نے جوہری ہتھیار حاصل کرنے کا فیصلہ کیا-

سکاٹ سیگن (Scott Sagan ) سمیت دیگر تمام محقیقین کے مطابق کوئی بھی ملک تین وجوہات کی بنیاد پر جوہری تونائی / ہتھیار حا صل کرتا  ہےجن میں ملکی تحفظ (Security) ، ملکی وقار (Prestige)اور نظریاتی سیاست(Ideology and Domestic Politics) شامل ہیں-پاکستان کے مشیرِ خارجہ جناب سرتاج عزیز کے مطابق:

Pakistan was [the] only dependent variable responding to India’s independent decision to exercise its nuclear option”. 

’’پاکستان صرف انڈیا کے جوہری آپشن /اختیار کو استعمال کرنے کے آزادانہ فیصلہ پر انحصار کر رہا تھا‘‘-

یعنی پاکستان نے جوہری اختیارات /آپشن انڈیا کے آزادانہ فیصلہ پر مجبورًا اپنایا-انڈیا نے بین الاقوامی دنیامیں نمایاں قد حاصل کرنے کےلئے جوہری ہتھیار بنانے کا فیصلہ کیا-ہندوستان کے جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے فیصلے میں ملکی وقار میں اضافہ،نظریاتی سیاست اور خطے کا چوہدری بننے کا خواب بنیادی وجوہات تھیں-جبکہ پاکستان اپنے بنیادی دشمن سے تین(۳) گنا چھوٹا ہونے کے باعث شدید خطرات میں گھرا  ہوا تھا- ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں   بھارت کے منافقانہ و دشمنانہ کردار اور  ۱۹۷۴ءمیں بھارت کے نام نہاد پُرامن جوہری دھماکوں نے پاکستان کی دفاعی  نفسیات پر شدید اثر ڈالا-معروف عالمی تھنک ٹینک ’’چیتھم ہاؤس‘‘میں انٹرنیشنل سکیورٹی پروگرام کے ہیڈ اور لندن کی وزارت دفاع کے اسسٹنٹ انڈر سیکرٹری-ویلیم ہوپ کنسن (William Hopkinson)کا کہنا ہے کہ :

The real driver has been India’s internal politics and a concern with image and status in the world

’’بھارت کی اندونی (نظریاتی) سیاست اور دنیا میں نمایاں قد حاصل کرنے کا خواب (بھارتی جوہری ترقی کی )بنیادی وجہ ہے‘‘-

حالانکہ پاکستان نے جنوبی ایشیاء میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ سے بچنے اور علاقائی سالمیت کے حصول کے لئےجنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیار سے آزادانہ خطہ (Nuclear Weapon Free Zone) ، جوہری ہتھیاروں کی تیاری یا حصول کے لئے ایک مشترکہ استرداد، جوہری تنصیبات کا باہمی معائنہ،  NPT (جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے) اورIAEA (International Atomic Energy Agency)کے حفاظتی اقدامات پرعمل ، دوطرفہ باہمی جوہری تجربات پر پابندی اور جنوبی ایشا میں میزائل فری زون وغیرہ  جسے حل تجویز کیے تھے جنہیں بھارت سمیت دنیا بھر میں نہ صرف نظر انداز کیا گیا بلکہ مسترد بھی کر دیا گیا- اِس لئے پاکستا ن نے مجبورًا اپنی دفاعی وجوہات کی بنا پر جوہری منصوبہ شروع کیا ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ :

If India builds the bomb, we will eat grass and leaves for a thousand years, even go hungry but we will get one of our own. The Christian have the bomb, the Jews have the bomb, and now the Hindus have the bomb, why not the Muslims too have the bomb?”

’’اگر انڈیا بم بنائے گا تو ہم بھی بم بنائیں گے، چاہے ہمیں ہزار سال تک گھاس اور پتے کھانے پڑیں حتی کہ بھوکا رہنا پڑے - عیسائیوں کے پاس جوہری بم ہے، یہودیوں کے پاس ہے تو مسلمانوں کے پاس کیوں نہیں؟ ‘‘

آخر کا ر ۲۸مئی۱۹۹۸ءکو پاکستان سائنسدانوں کی انتھک محنت کے باعث ’’3.15pm‘‘پرپانچ (۵)جوہری دھماکے کر کے دنیا کی پہلی اسلامی جوہری طاقت بن گیا-پاکستان کی ایٹمی پیداواری صلاحیت  ۱۹۹۸ءکے خوشاب کے ایک پلوٹونیم ری ایکٹر(Plutonium Reactor)سے بڑھ  کرچار(۴) ری ایکٹر تک پہنچ چکی ہے-پاکستان نے ڈیرہ غازی خان میں کیمیکل پلانٹ کمپلیلس(Chemical Plants Complex) میں یورینیم ہیگزا فلورائیڈ(Uranium Hexafluoride) کی پیداواری صلاحیت  میں اضافہ کے ساتھ ساتھ کہوٹہ میں P-3 اور P-4 گیس سنٹری فیوج بھی نصب کیے ہیں- شناوا یورینیم کان (Shanawa Uranium Mine)کی وجہ سے قدرتی یورینیم کی سالانہ پیداوارچھتیس(۳۶)میٹرک ٹن سے بڑھ کرچوون(۵۴) میٹرک ٹن ہو جائے گی-ایک اندازے کے مطابق ۲۰۱۲-۱۳ء میں پاکستان کے پاس تین(۳) میٹرک ٹن انتہائی افزودہ یورینیئم (Highly Enriched Uranium-HEU)اور ۱۵۰-۲۰۰کلوگرام پلوٹونیم  موجود تھی جس کے ساتھ تقریباً۱۵۰(HEU)  ہتھیار اورچالیس (۴۰)’’PU‘‘ہتھیار بنائے جا سکتے ہیں-ایک اور اندازے کے مطابق پاکستان کے پاس ۱۴۰ -۱۶۰ ہتھیار (Warheards) موجود ہیں جبکہ پاکستان سالانہ پانچ(۵) HEU ہتھیار اور’’ ۸ - ۱۰‘‘پلوٹونیم ہتھیار بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے -انڈیا کے جوہری اثاثہ جات اور ہتھیار بنانے کی صلاحیت پاکستان سے کہیں زیادہ ہے-کم از کم قابل اعتماد  تسدیدی قوت(Minimum Credible Deterrence) کےعزم کے باوجود دونوں ممالک کے جوہری ہتھیاروں میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور جنگی جنون ہے -

پاکستان کے جوہری ہتھیاروں  میں مختلف شارٹ اور میڈیم رینج (Short and Medium Range) بیلسٹک اور کروز(Ballistic & Cruise) میزائل شامل ہیں ان میں حتف- IA، حتف- II (ابدالی) ، حتف- III (غزنوی)، حتف- IV ،شاہین - I، (شاہین-IA )، حتف V- (غوری)،  حتف VI- (شاہین-2)، حتف- VII (بابر)، حتف- VIII(رعد)  اورحتف- IX (نصر) شامل ہیں-۹مارچ ۲۰۱۵ءکو پاکستان نے  ۲۷۵۰کلو میٹر رینج کے حامل شاہین- III  کا،  کامیاب تجربہ کیا  جو انڈیا کے انڈمان اور نکوبار جزیروں(Andaman and Nicobar Islands) تک وارکر سکتے ہیں- ۲۴جنوری ۲۰۱۷ءکو پاکستان نے ۲۲۰۰ کلومیٹر رینج پر محیط ایس ایس ایم     ابابیل (SSM Ababeel)  کا کامیاب  تجربہ کرنے  کے بعد  ایم آئی آر وی (MIRV) ٹیکنالوجی کا حامل چھٹا ملک بن گیا - ایس ایس ایم ابابیل کثیر الجہتی وار ہیڈ لےجانے کی صلاحیت رکھتا ہے جس کے ذریعے یہ دشمن کے رڈارز (Radars) پہ نمودار ہوئے بغیر اپنے ہدف کو ٹھیک نشانہ بنا سکتا ہے -دفاعی ماہرین کے مطابق اس سے ملکی دفاع ناقابل تسخیر ہوگا-

سی پیک منصوبہ اور گوادر کے مکمل آپریشنل بندر گاہ بن جانے کے بعد مستقبل میں بحری سرحدوں پہ بڑھتے ہوئے خطرات کے پیشِ نظر پاکستان سمندری ہتھیاروں کے تر سیلی نظام (Sea-based Delivery System) پر خاصی توجہ دے رہا ہے-پاکستان نے ۲۰۱۲ء میں نیول اسٹریٹیجک فورس کمانڈ  (Naval Strategic Force Command) کا بھی افتتاح کیا ہے-

ایک بات واضح ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ نیا ہتھیار ہندوستان کی طرف سے کی گئی پہل کے جواب میں دفاعی وجوہات پر بنایا-انڈیا کے کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن (Cold Start Doctrine)  کے جواب میں پاکستان نے ’’ٹیکٹیکل نیو کلیئر ویپن ‘‘۲۰۱۱ءمیں متعارف کروائے-تجزیہ نگاروں کے مطابق ٹیکٹیکل نیو کلئیر ویپنز انڈین کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن کا بھر پور جواب ہیں-مختصر یہ کہ پاکستانی دفاعی فورسز نے دشمن کی تمام اقسام کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا ہے- پچھلے چند سالوں سے بھارتی سائنسدان بلیسٹک میزائل ڈیفنس (Ballistic Missile Defense)بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں جس میں بھارت کو امریکہ،اسرائیل اور روس کی امداد بھی حاصل ہے-بیلسٹک میزائل ڈیفنس،بحرہند کی نیوکلئیرایزیشن اوربھارتی نیو کلئیر پاور ڈبلیسٹک میزائل آبدوز (Nuclear powered Ballistic Missile) ’’Submarine-Arihant‘‘  کی وجہ سے پاکستان کے دفاع کو  مسائل درپیش ہیں کیونکہ اس سے پاک بھارت سٹریٹیجک استحکام متاثر ہو گا جو کسی بھی قسم کے چھوٹے تنازعہ کو نیو کلئیر جنگ میں تبدیل کر سکتا ہے-البتہ پاکستان نیوی نے ایگوسٹا کلاس آبدوز (Agosta-Class Submarine) یا بحری جہاز کی سطح سے ایٹمی صلاحیت کے حامل’’بابر‘‘کروز میزائل (Babar Cruise Missile-Modified) وغیرہ لانچ کرنے کی صلاحیت حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے البتہ (سیاسی و حکومتی عہدیداروں کی شاہ خرچیوں اور اندھا دھند کرپشن کی وجہ سے) وسائل کی کمی کے باعث پاکستانی  نیو کلیئرآبدوز کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا ایک چیلنج ہے -یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ بھارت ایک بار پھر خطے کو جوہری ہتھیاروں کی دوڑ کے ایک نئے مرحلے میں دھکیل رہا ہے- بھارت کے مکروہانہ جنگی جنون کے باعث بحر ہند کی نیو کلئیرائزیشن علاقائی و عالمی سالمیت کے لئے شدید خطرہ ثابت ہو سکتی ہے- تا وقت حال پاکستان کا دفاع نا قابل تسخیر ہے- جوہری  طاقت کے حصول کے بعد پاکستان کے دفاعی بجٹ میں قابل غور کمی واقع ہوئی ہے اور دوسرے ممالک سے تعلقات میں بھی اضافہ ہوا ہے-جوہری ہتھیاروں کی وجہ سے پاکستان کے وجود کو لاحق خطرات توٹل چکے ہیں البتہ پاکستانی عسکری و سیاسی قیادت کو  مستقبل قریب میں ممکنہ مسائل کو سمجھتے ہوئے بروقت اقدامات کرنے ہونگے تاکہ ملک خداداد کا استحکام یقینی بنایا جاسکے-

ٹوبی ڈالٹن  (Toby Dalton) اور مائیکل کریپن(Michael krepon) کی نارمل نیوکلیئر پاکستان (A Normal Nuclear Pakistan) سمیت دیگر تمام تنقیدی رپورٹس پاکستانی جوہری پروگرام کو دنیا کا تیز ترین پروگرام قرار دینے کا پراپیگنڈہ کر رہی ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ تو پاکستان کو جوہری پروگرام دنیا کا تیز ترین پروگرام ہے اور نہ ہی پاکستان کے جوہری ہتھیار غیر محفوظ ہیں ڈالٹن اور کریپن کی رپورٹ میں پاکستان کو نارمل نیوکلیئر بننے کے لیے پانچ تجاویزات پیش کی گئی ہیں جو مستقبل میں نہ صرف پاکستان کےتحفظ کے لیے خطرہ ثابت ہونگی بلکہ ملک کے وجود کا دفاع بھی بہت کمزور ہو جائے گا- حکومتوں کی بین الاقوامی لابنگ میں عدمِ توجہ کی وجہ سے  بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے جوہری پروگرام کے خلاف پراپیگنڈا اور سازشیں  ہو رہیں ہیں  جس سے ملکی استحکام پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں-بیسویں صدی کے اختتامی عشرہ میں پاکستان پر لگنے والی امتیازی پابندیاں ، دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ  اور امریکہ بھارت سٹریٹیجک پارٹنر شپ (Indo-US Strategic Partnership) کی وجہ سے انڈیا کو روایتی اور جوہری طاقت میں بے انتہا فائدہ بہم پہنچایا گیا جس کا مقصد چائنہ کو کاؤنٹر کرنا ہے تاہم اس سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑا ہے کیونکہ بھارت اپنی طاقت کو پاکستان کے خلاف ہی استعمال کرنے کا مذموم ارادہ رکھتا ہے-پاکستانی فیصلہ سازوں کو ملکی خودمختاری اور دفاع کے لئے جوہری مسائل پر سخت فیصلہ کرنے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے پس پاکستان موجودہ حالات کو پس پشت نہیں ڈال سکتا -

آج پاکستان کی سالمیت کو مختلف الطرز خطرات  لاحق ہیں جن میں عسکریت پسندی و ’’فارن سپانسرڈ‘‘ بغاوت ، عد م استحکامِ  افغانستان ، پاک بھارت تنازعات اور امریکہ و بھارت میں مسلمان مخالف انتہاء پسند حکومتیں شامل ہیں-جوہری ہتھیار پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے  میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں مگر پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کو اپنے محدود اقتصادی وسائل کو دیکھتے ہوئے محتاط سرمایہ کاری کرنا ہوگی-چونکہ انڈیا پاکستان کی تسدیدی صلاحیت (Deterrence Capacity) کو ختم کرنا چاہتا ہے  لہذا پاکستان کو ٹیکنالوجی اور پرسین گائیڈڈ میونیشنز (Precision Guided Munitions) وغیرہ  پر کام کرنا ہو گا-

پاکستان کو قابل اعتماد استحکام کے لیے اپنی قومی قوت (National Strength) کو بڑھانا ہو گا جو اقتصادی خو شحالی سے ہی ممکن ہے- پاکستان کو حقیقی تحفظ،دفاع اور استحکام فراہم کرنے کے لیے طویل المیعاد معاشی، اقتصادی اور سیاسی منصوبہ بندی کرنا ہوگی-پاکستان کی مضبوط معاشی، معاشرتی،اقتصادی اور سیاسی قوت اور  جوہری ہتھیار اور توانائی پاکستان کے تحفظ اور دفاع کو یقینی بنا پائیں گے-پاک چائنہ اقتصادی راہ داری (CPEC)  اور گوادر بندرگاہ جیسے منصوبے ملکی و علاقائی حالات کے لیے یقینی گیم چینجر ثابت ہونگے ان کے ساتھ ساتھ قیادت کو تعلیم،صحت،امن و امان اور انصاف کی فراہمی وغیرہ پر خصوصی توجہ دینا ہوگی  تاکہ پاکستان ترقی و خو شحالی کی منازل طے کر سکے اور ہر شعبے میں جدید ٹیکنالوجی سے لیس رہے-اللہ پاک ہمارا حامی و ناصر ہو- آمین!

 

٭٭٭

تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ پاکستان کا ظہور اور قیام برصغیر کے غیور مسلمان عوام اور راہنماؤں کی طویل جدوجہد کا نتیجہ ہے-عشروں تک ہندوستان کے ساتھ پُرامن بقائے باہمی کے باوجود مسلمانان برصغیر ایک آزادانہ مملکت کا خواب دیکھتے رہے کیونکہ متحارب اکثریت کے ہاتھوں مسلمانوں کی دینی، ثقافتی اور سیاسی تشخص کو زبردست خطرات لاحق تھے-قائد اعظم (﷫)کے مطابق ’’ہم جانتے ہیں کہ گزشتہ بارہ صدیوں کی تاریخ ہم میں اتحاد پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے اس تمام عرصے میں ہندوستان  ہندو انڈیا اور مسلمان انڈیا میں تقسیم ہوتا رہا ہے-اس وقت جو مصنوعی اتحاد نظر آتا ہے وہ محض برطانوی اقتدار کا نتیجہ ہے‘‘-کئی عشروں پر محیط محنت و مشقت کا صلہ قیام پاکستان کی صورت میں ملا جو آج اپنے استحکام کی شاہراہ پر گامزن ہے -

کسی بھی ملک و ملت کی سالمیت اور استحکام کا بنیادی مرکز و محور اُس کا اندورنی و بیرونی خطرات سے دفاع ہوتا ہے -بدقسمتی سے پاکستان کو ابتدا ءہی سے مشرقی و مغربی سرحدوں سے شدید خطرات لاحق رہے ہیں- بھارت کے ساتھ تین جنگیں ، لاتعداد سرحدی جھڑپوں سے لے کر۱۹۷۱ء کی مشرقی پاکستان کی علیحدگی تک،توانائی کی کمی سے لے کر قومی امن و امان کی سلامتی تک  پاکستان کے وجود کی سالمیت دشمن کی للکار کے زیر اثر رہی ہے-بھارت کے ساتھ دشمنی،  افغانستان سے تلخ تعلقات ، توانائی کی کمی ،ملکی سالمیت اور وجود کو درپیش خطرات وہ تمام وجوہات ہیں جن  کی وجہ سے پاکستان نے جوہری ہتھیار حاصل کرنے کا فیصلہ کیا-

سکاٹ سیگن (Scott Sagan) سمیت دیگر تمام محقیقین کے مطابق کوئی بھی ملک تین وجوہات کی بنیاد پر جوہری تونائی / ہتھیار حا صل کرتا  ہےجن میں ملکی تحفظ (Security) ، ملکی وقار (Prestige)اور نظریاتی سیاست(Ideology and Domestic Politics) شامل ہیں-پاکستان کے مشیرِ خارجہ جناب سرتاج عزیز کے مطابق:

Pakistan was [the] only dependent variable responding to India’s independent decision to exercise its nuclear option”.

’’  پاکستان صرف انڈیا کے جوہری آپشن /اختیار کو استعمال کرنے کے آزادانہ فیصلہ پر انحصار کر رہا تھا‘‘-

یعنی پاکستان نے جوہری اختیارات /آپشن انڈیا کے آزادانہ فیصلہ پر مجبورًا اپنایا-انڈیا نے بین الاقوامی دنیامیں نمایاں قد حاصل کرنے کےلئے جوہری ہتھیار بنانے کا فیصلہ کیا-ہندوستان کے جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے فیصلے میں ملکی وقار میں اضافہ،نظریاتی سیاست اور خطے کا چوہدری بننے کا خواب بنیادی وجوہات تھیں-جبکہ پاکستان اپنے بنیادی دشمن سے تین(۳) گنا چھوٹا ہونے کے باعث شدید خطرات میں گھرا  ہوا تھا- ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں   بھارت کے منافقانہ و دشمنانہ کردار اور  ۱۹۷۴ءمیں بھارت کے نام نہاد پُرامن جوہری دھماکوں نے پاکستان کی دفاعی  نفسیات پر شدید اثر ڈالا-معروف عالمی تھنک ٹینک ’’چیتھم ہاؤس‘‘میں انٹرنیشنل سکیورٹی پروگرام کے ہیڈ اور لندن کی وزارت دفاع کے اسسٹنٹ انڈر سیکرٹری-ویلیم ہوپ کنسن (William Hopkinson)کا کہنا ہے کہ :

The real driver has been India’s internal politics and a concern with image and status in the world

’’بھارت کی اندونی (نظریاتی) سیاست اور دنیا میں نمایاں قد حاصل کرنے کا خواب (بھارتی جوہری ترقی کی )بنیادی وجہ ہے‘‘-

حالانکہ پاکستان نے جنوبی ایشیاء میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ سے بچنے اور علاقائی سالمیت کے حصول کے لئےجنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیار سے آزادانہ خطہ (Nuclear Weapon Free Zone) ، جوہری ہتھیاروں کی تیاری یا حصول کے لئے ایک مشترکہ استرداد، جوہری تنصیبات کا باہمی معائنہ،  NPT (جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے) اورIAEA (International Atomic Energy Agency)کے حفاظتی اقدامات پرعمل ، دوطرفہ باہمی جوہری تجربات پر پابندی اور جنوبی ایشا میں میزائل فری زون وغیرہ  جسے حل تجویز کیے تھے جنہیں بھارت سمیت دنیا بھر میں نہ صرف نظر انداز کیا گیا بلکہ مسترد بھی کر دیا گیا- اِس لئے پاکستا ن نے مجبورًا اپنی دفاعی وجوہات کی بنا پر جوہری منصوبہ شروع کیا ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ :

If India builds the bomb, we will eat grass and leaves for a thousand years, even go hungry but we will get one of our own. The Christian have the bomb, the Jews have the bomb, and now the Hindus have the bomb, why not the Muslims too have the bomb?”

’’اگر انڈیا بم بنائے گا تو ہم بھی بم بنائیں گے، چاہے ہمیں ہزار سال تک گھاس اور پتے کھانے پڑیں حتی کہ بھوکا رہنا پڑے - عیسائیوں کے پاس جوہری بم ہے، یہودیوں کے پاس ہے تو مسلمانوں کے پاس کیوں نہیں؟ ‘‘

آخر کا ر ۲۸مئی۱۹۹۸ءکو پاکستان سائنسدانوں کی انتھک محنت کے باعث ’’3.15pm‘‘پرپانچ (۵)جوہری دھماکے کر کے دنیا کی پہلی اسلامی جوہری طاقت بن گیا-پاکستان کی ایٹمی پیداواری صلاحیت  ۱۹۹۸ءکے خوشاب کے ایک پلوٹونیم ری ایکٹر(Plutonium Reactor)سے بڑھ  کرچار(۴) ری ایکٹر تک پہنچ چکی ہے-پاکستان نے ڈیرہ غازی خان میں کیمیکل پلانٹ کمپلیلس(Chemical Plants Complex) میں یورینیم ہیگزا فلورائیڈ(Uranium Hexafluoride) کی پیداواری صلاحیت  میں اضافہ کے ساتھ ساتھ کہوٹہ میں P-3 اور P-4 گیس سنٹری فیوج بھی نصب کیے ہیں- شناوا یورینیم کان (Shanawa Uranium Mine)کی وجہ سے قدرتی یورینیم کی سالانہ پیداوارچھتیس(۳۶)میٹرک ٹن سے بڑھ کرچوون(۵۴) میٹرک ٹن ہو جائے گی-ایک اندازے کے مطابق ۲۰۱۲-۱۳ء میں پاکستان کے پاس تین(۳) میٹرک ٹن انتہائی افزودہ یورینیئم (Highly Enriched Uranium-HEU)اور ۱۵۰-۲۰۰کلوگرام پلوٹونیم  موجود تھی جس کے ساتھ تقریباً۱۵۰(HEU)  ہتھیار اورچالیس (۴۰)’’PU‘‘ہتھیار بنائے جا سکتے ہیں-ایک اور اندازے کے مطابق پاکستان کے پاس ۱۴۰ -۱۶۰ ہتھیار (Warheards) موجود ہیں جبکہ پاکستان سالانہ پانچ(۵) HEU ہتھیار اور’’ ۸ - ۱۰‘‘پلوٹونیم ہتھیار بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے -انڈیا کے جوہری اثاثہ جات اور ہتھیار بنانے کی صلاحیت پاکستان سے کہیں زیادہ ہے-کم از کم قابل اعتماد  تسدیدی قوت(Minimum Credible Deterrence) کےعزم کے باوجود دونوں ممالک کے جوہری ہتھیاروں میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور جنگی جنون ہے -

پاکستان کے جوہری ہتھیاروں  میں مختلف شارٹ اور میڈیم رینج (Short and Medium Range) بیلسٹک اور کروز(Ballistic & Cruise) میزائل شامل ہیں ان میں حتف- IA، حتف- II (ابدالی) ، حتف- III (غزنوی)، حتف- IV ،شاہین - I، (شاہین-IA )، حتف V- (غوری)،  حتف VI- (شاہین-2)، حتف- VII (بابر)، حتف- VIII(رعد)  اورحتف- IX (نصر) شامل ہیں-۹مارچ ۲۰۱۵ءکو پاکستان نے  ۲۷۵۰کلو میٹر رینج کے حامل شاہین- III  کا،  کامیاب تجربہ کیا  جو انڈیا کے انڈمان اور نکوبار جزیروں(Andaman and Nicobar Islands) تک وارکر سکتے ہیں- ۲۴جنوری ۲۰۱۷ءکو پاکستان نے ۲۲۰۰ کلومیٹر رینج پر محیط ایس ایس ایم     ابابیل (SSM Ababeel)  کا کامیاب  تجربہ کرنے  کے بعد  ایم آئی آر وی (MIRV) ٹیکنالوجی کا حامل چھٹا ملک بن گیا - ایس ایس ایم ابابیل کثیر الجہتی وار ہیڈ لےجانے کی صلاحیت رکھتا ہے جس کے ذریعے یہ دشمن کے رڈارز (Radars) پہ نمودار ہوئے بغیر اپنے ہدف کو ٹھیک نشانہ بنا سکتا ہے -دفاعی ماہرین کے مطابق اس سے ملکی دفاع ناقابل تسخیر ہوگا-

سی پیک منصوبہ اور گوادر کے مکمل آپریشنل بندر گاہ بن جانے کے بعد مستقبل میں بحری سرحدوں پہ بڑھتے ہوئے خطرات کے پیشِ نظر پاکستان سمندری ہتھیاروں کے تر سیلی نظام (Sea-based Delivery System) پر خاصی توجہ دے رہا ہے-پاکستان نے ۲۰۱۲ء میں نیول اسٹریٹیجک فورس کمانڈ  (Naval Strategic Force Command) کا بھی افتتاح کیا ہے-

ایک بات واضح ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ نیا ہتھیار ہندوستان کی طرف سے کی گئی پہل کے جواب میں دفاعی وجوہات پر بنایا-انڈیا کے کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن (Cold Start Doctrine)  کے جواب میں پاکستان نے ’’ٹیکٹیکل نیو کلیئر ویپن ‘‘۲۰۱۱ءمیں متعارف کروائے-تجزیہ نگاروں کے مطابق ٹیکٹیکل نیو کلئیر ویپنز انڈین کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن کا بھر پور جواب ہیں-مختصر یہ کہ پاکستانی دفاعی فورسز نے دشمن کی تمام اقسام کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا ہے- پچھلے چند سالوں سے بھارتی سائنسدان بلیسٹک میزائل ڈیفنس (Ballistic Missile Defense)بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں جس میں بھارت کو امریکہ،اسرائیل اور روس کی امداد بھی حاصل ہے-بیلسٹک میزائل ڈیفنس،بحرہند کی نیوکلئیرایزیشن اوربھارتی نیو کلئیر پاور ڈبلیسٹک میزائل آبدوز (Nuclear powered Ballistic Missile) ’’Submarine-Arihant‘‘  کی وجہ سے پاکستان کے دفاع کو  مسائل درپیش ہیں کیونکہ اس سے پاک بھارت سٹریٹیجک استحکام متاثر ہو گا جو کسی بھی قسم کے چھوٹے تنازعہ کو نیو کلئیر جنگ میں تبدیل کر سکتا ہے-البتہ پاکستان نیوی نے ایگوسٹا کلاس آبدوز (Agosta-Class Submarine) یا بحری جہاز کی سطح سے ایٹمی صلاحیت کے حامل’’بابر‘‘کروز میزائل (Babar Cruise Missile-Modified) وغیرہ لانچ کرنے کی صلاحیت حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے البتہ (سیاسی و حکومتی عہدیداروں کی شاہ خرچیوں اور اندھا دھند کرپشن کی وجہ سے) وسائل کی کمی کے باعث پاکستانی  نیو کلیئرآبدوز کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا ایک چیلنج ہے -یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ بھارت ایک بار پھر خطے کو جوہری ہتھیاروں کی دوڑ کے ایک نئے مرحلے میں دھکیل رہا ہے- بھارت کے مکروہانہ جنگی جنون کے باعث بحر ہند کی نیو کلئیرائزیشن علاقائی و عالمی سالمیت کے لئے شدید خطرہ ثابت ہو سکتی ہے- تا وقت حال پاکستان کا دفاع نا قابل تسخیر ہے- جوہری  طاقت کے حصول کے بعد پاکستان کے دفاعی بجٹ میں قابل غور کمی واقع ہوئی ہے اور دوسرے ممالک سے تعلقات میں بھی اضافہ ہوا ہے-جوہری ہتھیاروں کی وجہ سے پاکستان کے وجود کو لاحق خطرات توٹل چکے ہیں البتہ پاکستانی عسکری و سیاسی قیادت کو  مستقبل قریب میں ممکنہ مسائل کو سمجھتے ہوئے بروقت اقدامات کرنے ہونگے تاکہ ملک خداداد کا استحکام یقینی بنایا جاسکے-

ٹوبی ڈالٹن  (Toby Dalton) اور مائیکل کریپن(Michael krepon) کی نارمل نیوکلیئر پاکستان (A Normal Nuclear Pakistan) سمیت دیگر تمام تنقیدی رپورٹس پاکستانی جوہری پروگرام کو دنیا کا تیز ترین پروگرام قرار دینے کا پراپیگنڈہ کر رہی ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ تو پاکستان کو جوہری پروگرام دنیا کا تیز ترین پروگرام ہے اور نہ ہی پاکستان کے جوہری ہتھیار غیر محفوظ ہیں ڈالٹن اور کریپن کی رپورٹ میں پاکستان کو نارمل نیوکلیئر بننے کے لیے پانچ تجاویزات پیش کی گئی ہیں جو مستقبل میں نہ صرف پاکستان کےتحفظ کے لیے خطرہ ثابت ہونگی بلکہ ملک کے وجود کا دفاع بھی بہت کمزور ہو جائے گا- حکومتوں کی بین الاقوامی لابنگ میں عدمِ توجہ کی وجہ سے  بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے جوہری پروگرام کے خلاف پراپیگنڈا اور سازشیں  ہو رہیں ہیں  جس سے ملکی استحکام پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں-بیسویں صدی کے اختتامی عشرہ میں پاکستان پر لگنے والی امتیازی پابندیاں ، دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ  اور امریکہ بھارت سٹریٹیجک پارٹنر شپ (Indo-US Strategic Partnership) کی وجہ سے انڈیا کو روایتی اور جوہری طاقت میں بے انتہا فائدہ بہم پہنچایا گیا جس کا مقصد چائنہ کو کاؤنٹر کرنا ہے تاہم اس سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑا ہے کیونکہ بھارت اپنی طاقت کو پاکستان کے خلاف ہی استعمال کرنے کا مذموم ارادہ رکھتا ہے-پاکستانی فیصلہ سازوں کو ملکی خودمختاری اور دفاع کے لئے جوہری مسائل پر سخت فیصلہ کرنے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے پس پاکستان موجودہ حالات کو پس پشت نہیں ڈال سکتا -

آج پاکستان کی سالمیت کو مختلف الطرز خطرات  لاحق ہیں جن میں عسکریت پسندی و ’’فارن سپانسرڈ‘‘ بغاوت ، عد م استحکامِ  افغانستان ، پاک بھارت تنازعات اور امریکہ و بھارت میں مسلمان مخالف انتہاء پسند حکومتیں شامل ہیں-جوہری ہتھیار پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے  میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں مگر پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کو اپنے محدود اقتصادی وسائل کو دیکھتے ہوئے محتاط سرمایہ کاری کرنا ہوگی-چونکہ انڈیا پاکستان کی تسدیدی صلاحیت (Deterrence Capacity) کو ختم کرنا چاہتا ہے  لہذا پاکستان کو ٹیکنالوجی اور پرسین گائیڈڈ میونیشنز (Precision Guided Munitions) وغیرہ  پر کام کرنا ہو گا-

پاکستان کو قابل اعتماد استحکام کے لیے اپنی قومی قوت (National Strength) کو بڑھانا ہو گا جو اقتصادی خو شحالی سے ہی ممکن ہے- پاکستان کو حقیقی تحفظ،دفاع اور استحکام فراہم کرنے کے لیے طویل المیعاد معاشی، اقتصادی اور سیاسی منصوبہ بندی کرنا ہوگی-پاکستان کی مضبوط معاشی، معاشرتی،اقتصادی اور سیاسی قوت اور  جوہری ہتھیار اور توانائی پاکستان کے تحفظ اور دفاع کو یقینی بنا پائیں گے-پاک چائنہ اقتصادی راہ داری (CPEC)  اور گوادر بندرگاہ جیسے منصوبے ملکی و علاقائی حالات کے لیے یقینی گیم چینجر ثابت ہونگے ان کے ساتھ ساتھ قیادت کو تعلیم،صحت،امن و امان اور انصاف کی فراہمی وغیرہ پر خصوصی توجہ دینا ہوگی  تاکہ پاکستان ترقی و خو شحالی کی منازل طے کر سکے اور ہر شعبے میں جدید ٹیکنالوجی سے لیس رہے-اللہ پاک ہمارا حامی و ناصر ہو- آمین!

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر