پاکستان میں ایک بحث بڑی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے کہ اس ملک میں پارلیمانی نظامِ حکومت کی بجائے صدارتی نظامِ حکومت ہونا چاہے - کچھ اس کے حق میں لکھ رہے ہیں ، کچھ اس کے خلاف اور کچھ درمیانی رائے کے حامل ہیں کہ نظام بدلنے سے کچھ ٹھیک نہیں ہوتا جب تک نیتیں نہ بدلی جائیں وغیرہ وغیرہ (بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی)-سبھی اپنی اپنی جگہ ٹھیک کہہ رہے ہیں کیونکہ دنیا میں کہیں پارلیمانی نظام کامیابی سے ہمکنار ہوا تو کہیں صدارتی اور اس کے برعکس کہیں پارلیمانی نظام میں پنپنے والوں نے آمرانہ رویے اختیار کر لئے تو کہیں صدارتی نظامِ حکومت آمریت کے روپ میں ڈھل گیا- لیکن پاکستان میں صدارتی نظامِ حکومت کی صدا بلند ہونا بذاتِ خود قابلِ توجہ ہے ، بقول ساغر صدیقی:
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی |
پاکستان کے حکمرانوں نے پاکستان میں جمہوریت کی اس حد تک دہائی دے ڈالی ہے کہ آخر عوام بھی سوچنے پر مجبور ہوئی کہ آخر یہ جمہوریت کیا ہے؟ پاکستان نے جمہوریت کے نام پر بہت کچھ برداشت کیا اور عوام نے جمہوریت کے نام پر بہت قربا نیاں دی ہیں – کہیں سنائی دیا کہ ہم نے جمہوریت کے لئے یہ کیا، وہ کیا- کہیں سے آواز آئی کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے- کہیں سے صدا بلند ہوئی ہم جمہوریت کو بچانے کی خاطر کرپٹ ترین حکمرانوں کا بھی ہر قیمت پر دفاع کریں گے-
عوام سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا جمہورlیت بذاتِ خود ایک نظام ہے یا نظام بنانے کا محض ایک طریقہ یا پھر سیاستدانوں کا جمہوریت کے نعرے میں خود کو چھپانے کا ایک ڈھونگ- پھر جمہوریت کی تعریف بھی مختلف انداز سے کی جاتی ہے- لمحہ فکر یہ ہے کہ ایک مذہبی سکالر جمہوریت سے کچھ مراد لیتا ہے اور سیاستدان کچھ اور-ایک دانشور کے نزدیک جمہوریت کا کیا تصور ہے ؟ اور جب ایک سیاستدان جمہوریت جمہوریت کی رٹ لگائے تو اس سے اس کی کیا مراد ہے؟ پھر یہ بھی ایک الجھن کہ مختلف ممالک میں جمہوریت مختلف صورتوں میں نافذ ہے اور ان میں بھی حالات و و اقعات کے مطابق ترامیم ہوتی رہتی ہیں، نظام بدلتے رہتے ہیں - اسی جمہوریت کے نام پر کہیں پارلیمانی نظام، اسی جمہوریت کے نام پر کہیں صدارتی نظام، اسی جمہوریت کے نام پر کہیں نیم پارلیمانی اور کہیں نیم صدارتی نظام اور کہیں یک جماعتی نظام ، کہیں دو جماعتی اور کہیں کثیر جماعتی جمہوریت اور … اسی جمہوریت کے نام پر کہیں لوٹ مار کا بازار گرم -
لیکن اگر امریکہ کے صدر ابراھام لنکن کے الفاظ میں جمہوریت کی سادہ ،عام فہم اور مشہور تعریف کی جائے کہ ’’لوگوں کے لئے، لوگوں کے ذریعے لوگوں کی حکومت‘‘ تو پھر اس کا مطلب یہ کہ عوام اپنے لئے جس طرح کا نظامِ حکومت پسند کریں وہی طرزِ حکومت ہی جمہوریت کہلائے گی- عوام اگر اپنے لئے پارلیمانی نظامِ حکومت پسند کریں تو یہی پارلیمانی نظامِ حکومت ہی جمہوریت ہوگا جیسا کہ پاکستان ، بھارت اور برطانیہ وغیرہ ممالک میں جمہوریت موجود ہے اور اگر عوام اپنے لئے صدارتی نظامِ حکومت پسند کریں تو پھر یہی صدارتی نظامِ حکومت ہی جمہوریت ہوگا جیسا کہ امریکہ ، افغانستان ، ایران وغیرہ ممالک میں جمہوریت قائم ہے - اس تعریف کے اعتبار سے تو اگر عوام رائے شماری (Referendum) کے ذریعے آرمڈ فورسز کی حکمرانی کی بھی تائید کر دیں تو پھر ان کی حکمرانی کو بھی جمہوریت ہی ماننا چاہیے کیونکہ لوگوں نے اپنے لئے ، ان لوگوں کے ذریعے ، ان کی حکمرانی کو منتخب کر لیا ہے-یہ ایک الگ بحث ہے کہ پاکستان میں بزورِ بازو حاصل کی گئی حکومت میں ریفرنڈم کا فیصلہ ہمیشہ قابضین کے حق میں ہی آیا ہے کبھی ان کے خلاف نہیں گیا-
ماہرینِ سیاست جمہوریت کی تین اقسام بیان کرتے ہیں-
v براہ راست جمہوریت
v صدارتی جمہوریت
v پارلیمانی جمہوریت
براہ راست جمہوریت سویٹزر لینڈ میں پائی جاتی ہے جہاں وفاقی وزراء متعین مدت کے لئے صدر کا انتخاب کرتے ہیں جبکہ وفاقی وزراء عوام سے منتخب ہوتے ہیں- صدارتی جمہوریت امریکہ اور فرانس میں پائی جاتی ہے جہاں صدر سربراہِ مملکت بھی ہوتا ہے اور سرپرستِ حکومت بھی- اس میں صدر عوام کے ذریعے منتخب ہوتا ہے اور پھر وفاقی وزراء میں اپنی اپنی فیلڈ کے ماہرین کو چن کر اپنی کابینہ بناتا ہے- پارلیمانی جمہوریت پاکستان ، بھارت اور برطانیہ وغیرہ ممالک میں پائی جاتی ہے ،اس میں وزیرِ اعظم سرپرستِ حکومت ہوتا ہے-
جرمنی میں پارلیمانی جمہوریت ہے جس کا ایک ہی ایوان ہوتا ہے جسے بنڈسٹیگ (Bundestag) کہا جاتا ہے جو کہ ایک وفاقی اسمبلی ہے جس کے ارکان چار سال کے لئے منتخب ہوتے ہیں- عوام پہلے حلقہ جات کی نمائندگی کرنے والوں کو ووٹ دیتے ہیں دوسری مرتبہ کسی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں – جرمنی میں صدر کا عہدہ نمائشی ہے جبکہ حکومت کا اصل سربراہ چانسلر کہلاتا ہے-جرمنی میں کثیر الجماعتی نظام ہے-
جمہوریت کا ایک چینی ماڈل بھی ہے جہاں کی پارلیمنٹ کو نیشنل پیپلز کانگرس (NPC) کہا جاتا ہے -اس میں سب سے اہم عہدہ چیئرمین یعنی صدر کا ہے اور تمام تر اختیارات صدر کے پاس ہیں-یہاں ایک جماعتی نظام ہے اور کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ (CPC) کی حکمرانی ہے جو ہر پانچ سال بعد منتخب ہوتی ہے - ٹاؤن اور ضلعی سطح کے انتخابات براہِ راست ہوتے ہیں اور عوام الناس اپنا حقِ رائے دہی ایک مرتبہ استعمال کرتے ہیں - نمائندگان کاؤنٹی یعنی ضلعی سطح سے ابھر کر ہی مرکز میں این پی سی کا حصہ بنتے ہیں پھر یہ نیشنل پیپلز کانگرس صدر اور ریاستی کونسل کا انتخاب کرتی ہے اور معزول کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہے-
کس ملک میں کونسا نظام اور کونسا طرزِ حکومت کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے اور کس قوم کو کس طرز کی جمہوریت راس آ سکتی ہے اس کو سمجھنے کے لئے اس قوم کے معروضی حالات اور اس ملک کی عوام کے مسائل کی چھان بین ضروری ہے- میرے خیال میں جس ملک نے بھی اپنے عوام کے تجزیاتی و مشاہداتی تجربہ سے گزر کر جو طرزِ حکومت بھی اپنایا اس سے عوام کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچا-اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو پاکستان کے تین بنیادی مسائل ایسے ہیں جن کا ایک دوسرے سے باہمی گٹھ جوڑ ہے-
v جاگیردار اور سرمایہ دار کی اجارہ داری-
v اس اجارہ داری کی بدولت عوام کی جہالت-
v سرمایہ دار حکمرانوں کے ہاتھوں تنگ ایک غیر موثر عدالتی نظام
یہی تین بنیادی اسباب ہیں جو دُنیاکے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان کو ترقی کی منازل طے نہیں کرنے دے رہے-اگر پاکستان میں پارلیمانی نظام کے مسائل کی بات کی جائے تو وزیر اعظم اپنی کابینہ بنانے کے لئے صرف پارلیمانی وزراء میں سے ہی انتخاب کر سکتا ہے(چاہے وہ وزراء مطلوبہ فیلڈ میں مہارت رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں) اور اگر اس میں اپوزیشن کمزور (یا خود کرپٹ)ہو تو پھر کرپشن، بد عنوانی کے خلاف چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے اور وزراء جتنا چاہیں گھپلے کر سکتے ہیں-
پاکستان میں اگر کوئی وزیر شذیر یہ کہے کہ وہ کرپشن نہیں کرتا تو وہ الا ما شاء اللہ جھوٹ بولتا ہے اور اگر وہ یہ کہے کہ وہ قانون کے دائرے سے باہر نہیں نکلتا تو وہ سچ بولتا ہے کیونکہ ہمارے سیاستدان قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کرپشن کے طور طریقوں پر نسل در نسل پی ایچ ڈی کر چکے ہیں-آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے اسلاف اور ان کے جانشینوں کو تختِ حکومت کانٹوں کی سیج لگتی تھی جبکہ ہمارے حکمران طبقات اور ان کے جانشینوں کو اقتدار پھولوں کا گلدستہ دکھائی دیتا ہے-تجربہ ہو نہ ہو، بولنے کا ڈھنگ آتا ہو یا نہ آتا ہو،چونکہ وہ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے والوں کا عزیز یا رشتہ دار ، بیٹا یا بیٹی ہے لہٰذا فقط اسی ایک نسبت کی بنیاد پر اس میں کوئی عیب نہیں اور وہ وزارتِ عظمیٰ کی سیٹ پر قبضہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں-جب میں تجربہ کار سیاستدانوں کو ناتجربہ کار نوخیزوں اور نومولودوں کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا دیکھتا ہو ں تو حیرانگی میں ڈوب جاتا ہوں کہ یہ جمہوریت کی کونسی قسم ہے ؟
پاکستان میں مروج پالیمانی نظام میں کئی خرابیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ تفتیشی و تحقیقاتی اداروں جیسے نیب اور اس طرح کے دیگر ادارے ہیں ان کے سربراہان کو اصحابِ اقتدار ہی منتخب کرتے ہیں جس سے خطرۂ بغاوت ہو یعنی جو پورا سچ اگلنے پہ تُل جائے اُس کو مختلف الزامات کی زَد میں ڈال کر پہلے متنازعہ بنایا جاتا ہے تاکہ اس کا اعتبار ختم ہو جائے اور پھر اُسے برطرف کر دیا جاتا ہے -
پاکستان میں موجود پارلیمانی جمہوریت میں سیاستدان میدانِ سیاست کو الا ماشاء اللہ خدمت کی نیت سے نہیں بلکہ بزنس کے طور پر اختیار کرتا ہے- امید وار کو اسمبلی کی سیٹ جیتنے کے لئے دس سے پندرہ کروڑ روپے کا خرچہ کرنا پڑتا ہے- بعض پارٹیوں میں کروڑ ڈیڑھ کروڑ روپے چندہ لینے کا دستور ہے - گویا یہ امیدوار کی طرف سے انوسٹمنٹ ہے -اگر وہ جیت جائے تو پھر گرانٹوں کی صورت میں ، بھرتیوں کی صورت میں، اسے اپنی رقم واپس ملنے کی امید پیدا ہو جاتی ہے اور اگر اسے کوئی وزارت بھی مل جائے تو یہ اس کا کامیاب بزنس کہلاتا ہے -یہاں سے اس کی انوسٹمنٹ کا منافع شروع ہو جاتا ہے- پھر عزت و وقار اور پروٹوکول وغیرہ اضافی سودے ہیں- اگر کوئی خود اس کاروبارِ حکومت میں سرمایہ کاری کرنے کی سکت نہ رکھتا ہو تو پھر جاگیر دار، سرمایہ دار اور صنعتکار امیدوار کی مقبولیت کے پیشِ نظر اس پر انوسٹمنٹ کرتے ہیں-اسی لئے اسمبلیوں میں ۹۵ فیصد وہ لوگ ہیں جو جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کی نمائندگی کرتے ہیں وہ کیسے عوام کی نمائندگی یا خدمت کر سکتے ہیں ؟ عوام بھی تو غربت ، جہالت اور سیاسی نظریات نہ ہونے کے باعث اپنا ووٹ چند روپوں میں بیچ دیتی ہے-
پاکستان میں جمہوریت کی حقیقت دیکھنے کے لئے ذرا مردم شماری کرائی جائے، پاکستان کے ووٹ دینے والے افراد کا شمار ہو اور اس کے مقابلے میں ووٹ نہ دینے والوں کو رکھا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ جمہوریت کی اکثریت نے تو ان حکمرانوں کو منتخب ہی نہیں کیا- مثال کے طور پر ایک حلقے میں ایک لاکھ کی آبادی ہے- اس میں بچوں کو نکال کر ستر ہزار ووٹ شمار کئے جائیں تو وہاں سے کل ووٹ تیس ہزار کاسٹ ہوئے باقی چالیس ہزار نے اپنے ووٹ کاسٹ ہی نہیں کئے تو تیس ہزار کے ووٹوں میں سے اگر کسی ایک امیدوار کو انیتس ہزار نو سو نناوے افراد نے بھی منتخب کر لیا ہو تو دوسری طرف چالیس ہزار نے اپنا ووٹ کسی کو نہ دے کر تمام امید واروں کو مسترد بھی تو کر دیا ہے یا کم از کم اس نظام سے بیزاری کا اظہار تو کر دیا اور اگر بالفرض بیلٹ پیپر پر مسترد کرنے کا آپشن بھی ہوتا تو اس چالیس ہزار افراد کی رائے کو ہم جمہوریت کی رائے شمار نہیں کر سکتے-یہ کیسی جمہوریت ہے جو صرف اپنے مفادات تک ہی محدود ہے-افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ وہ انتیس ہزار نو سو ننانوے افراد کی برتری والا پورے ایک لاکھ کا حکمران بن بیٹھا ہے اور ان کا ٹیکس بھی کھا رہا ہے لیکن اس کے ثمرات صرف ان انتیس ہزار نو سو ننانوے میں سے چند سرکردہ افراد تک ہی پہنچ پاتے ہیں-
کچھ لوگ بھارت میں کامیاب پارلیمانی نظام کی بات کرتے ہیں تو وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہاں تقسیم کے کچھ عرصہ بعد ہی جاگیرداری سسٹم ختم کر دیا گیا تھا - اگر برطانیہ میں پارلیمانی نظام کامیابی سے ہمکنار ہے تو وہاں کے وزراء اور عوام میں تعلیمی شعور زیادہ ہے اور وہاں کا عدالتی نظام بہت مضبوط ہے ، ان کے وزرائے اعظم و دیگر وزرا میں یہ اخلاقی جرأت بھی ہے کہ اگر عوام ان کی پالیسیوں کو مسترد کر دیں تو وہ مستعفی ہونے میں دیر نہیں لگاتے ، پچھلے ڈیڑھ عشرے سے کم مدت میں دو برطانوی وزرائے اعظم ٹونی بلیئر اور ڈیوڈ کیمرون مستعفی ہو چکے ہیں -
ایسا نہیں ہے کہ صدارتی نظامِ حکومت پاکستان کے لئے کوئی نیا طرزِ حکومت ہوگا- پاکستان میں صدارتی نظامِ جمہوریت کا تجربہ ہو چکا ہے- فیلڈ مارشل ایوب خان نے صدارتی نظام حکومت ہی نافذ کیا تھا- اس میں اختیارات نچلی سطح پر عوام کے نمائندوں کے پاس تھے اس میں عوام کے مسائل عمدہ طریقے سے حل بھی ہو رہے تھے-اپنے پرائے سبھی ایک بات تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان نے جتنی ترقی ایوب خان کے دور میں کی اتنی کسی دور میں نہ ہو سکی- یہ بات شاید کم لوگ ہی جانتے ہوں کہ ۱۹۶۳ء میں جب ایوب خان پاکستان کے صدر تھے تو پاکستان حکومت نے مغربی جرمنی کو ۱۲۰ ملین روپے کا قرضہ دیا تھا-اس دہائی میں امریکی ڈالر کا ریٹ 4.76 روپے تھا-
سبھی مانتے ہیں کہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں بے مثال ترقی ہوئی -وجہ یہ تھی کہ اختیارات صدر کے پاس تھے- البتہ یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں صدارتی جمہوریت کا تجربہ صرف فوجی حکمرانوں نے ہی کیا ہے اس لئے اِسے بعض لوگ طعنہ کسنے کے انداز میں آمریت کا نظام کہتے ہیں اور یہ غلط محاورہ ارشاد کرتے ہیں کہ ’’بد ترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے ‘‘ وہ اصحابِ دانش یہ بھول جاتے ہیں کہ جمہوریت آمریت اپنی جگہ مگر بدترین اور بہترین کا کوئی موازنہ ہی نہیں کیا جا سکتا لہٰذا جو بدترین ہے بالآخر وہ بد ترین ہی کہلائے گا -
صدارتی نظام میں صدر براہ راست عوام کے ذریعے منتخب ہوتا ہے اور اپنی شہرت اور قابلیت کی بنا پر منتخب ہوتا ہے-عوام کو اپنے نمائندگان منتخب کرنے کا بھی موقعہ ملتا ہے یوں عوام دو مرتبہ اپنا انتخابی حق استعمال کرسکتی ہے-پارلیمانی نظام کی سب سے بڑی خوبی مضبوط اپوزیشن ہے جو پاکستان میں نہیں اور فرینڈلی اپوزیشن کا جو کلچر پچھلے آٹھ سال میں متعارف کروایا جاچکا ہے اس نے پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کے مستقبل کو مخدوش کر دیا ہے- پارٹی سے وفاداری پارلیمنٹ اور مملکت سے وفاداری پر غالب رہتی ہے جبکہ صدارتی نظامِ حکومت میں طاقت کے دو الگ مراکز قائم ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کی نگرانی کرتے ہیں جس سے طاقت کے غلط استعمال کا احتمال کم رہ جاتا ہے-طاقتور صدر عوامی جذبات پر فوری رد عمل دے سکتا ہے- صدارتی جمہوریت میں صدر اپنی ٹیم میں ہر شعبے کے ماہر ، ٹیکنو کریٹ اور با صلاحیت افراد کو منتخب کرتا ہے جس سے ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے- سب سے اہم فائدہ یہ کہ سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ صدارتی جمہوریت میں اخراجات پارلیمانی جمہوریت کی نسبت کم ہوتے ہیں- اگر یہاں پاکستان میں صدارتی جمہوریت ہوتی تو کئی نابغہ روزگار بھی اقتدار میں آ سکتے ہیں لیکن پارلیمانی نظام میں یہاں مولانا عبد الستار خان نیازی ، نوابزادہ نصراللہ ، ، ستار ایدھی ، ڈاکٹر قدیر خان جیسے بھی کامیاب نہیں ہو سکتے -
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ()نے بھی محسوس کر لیا تھا کہ جاگیردار وں کے ہوتے ہوئے روایتی پارلیمانی سسٹم پاکستان میں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا- پارلیمانی جمہوریت میں سب سے مضبوط عہدہ وزیر اعظم کا ہوتا ہے لیکن آپ نے اس کے برعکس گورنر جنرل بننا پسند کیا - لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ۱۲ ، جولائی ، ۱۹۴۷ء کو ہندوستان کے امور کے وزیر لارڈ لسٹو ویل کو جو رپورٹ بھیجی تھی اس میں انہوں نے کہا تھا کہ محمد علی جناح ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کے ڈکٹیٹر بننا چاہتے ہیں اور تقسیم اور انتقال اقتدار کے حکم نامہ میں ترمیم کرنا چاہتے ہیں جس کے تحت گورنر جنرل کے اختیارات میں ، حکومت کے وزراء کے انتخاب ، نائب صدر کی تقرری اور حکومت کی برطرفی کا اختیار شامل کیا جائے- اس پر قائد اعظم کو جواب دیا گیا تھا کہ قیام پاکستان کے بعد وہ گورنر جنرل کی حیثیت سے یہ اختیار خود حاصل کر سکتے ہیں-[1]
ڈاکٹر عطا الرحمن ، سابق وفاقی وزیر اور ایچ ای سی کے سابق چیئرمین نے اپنے ایک مضمون میں قائد اعظم کے اپنے ہاتھ کے لکھے ایک نوٹ کا ذکر کیا کہ:
In a handwritten note dated July 10, 1947 Quaid-e-Azam Mohammed Ali Jinnah wrote: “Dangers of Parliamentary Form of Government: 1) Parliamentary form of government – it has worked satisfactorily so far in England nowhere else; 2) Presidential form of government (more suited to Pakistan)”.[2]
گو واضح طور قائد اعظم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ وہ پاکستان میں صدارتی نظامِ حکومت چاہتے ہیں لیکن آپ کے دورِ حکومت کے عملی اقدامات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ آپ بھی پاکستان میں روایتی پارلیمانی نظام کے حق میں نہیں تھے اور ایک وسیع اختیارات کے حامل صدرِ مملکت کے نظام کے حامی تھے- اس نقطہ نظر کو سمجھنے کے لئے قائدِ اعظم کے دورِ حکومت کا از سرِ نو مطالعہ کرکے ہمیں حتمی فیصلہ کرنا چاہیے کہ پاکستان کے مفاد میں کونسی جمہوریت زیادہ بہتر ہے-
ہمیں یعنی عوام کو سوچنا چاہئے کہ کرپشن کی اندھا دھند وارداتوں کے ہوتے ہوئے بھی اگر کچھ طبقات کرپشن کی بنیاد بننے والے نظام کا دفاع کرتے ہیں تو کس مفاد کے تحت ؟ کیوں اُن کو یہ پارلیمانی جمہوریت دل و جان سے زیادہ عزیز ہے ؟ کیوں وہ اِس فرسودہ و گمراہ کن نظام کے محافظ بنے ہوئے ہیں ؟ آخر کوئی وجہ تو ہوگی اس کی - وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ نظام دولت کی پوجا کا محافظ ہے ، غریب کو غریب تر کرنے اور امیر کو امیر تر کرنے کی سب سے بڑی وجہ ہے ، اقتدار صرف و صرف ایک خاص طبقے کی گردش میں ہی رکھتا ہے اقتدار میں ایک عام ورکر اور عام کارکن کو جگہ نہیں بنانے دیتا -
اقبال ()بھی فرماتے ہیں کہ :
صیدِ آہو با سگِ کورے نکرد[3] |
ہرن کا شکار اندھے کتے سے نہیں کیا جاسکتا- ہرن سے مراد ہماری قومی منزل ہے جس کا تعین مشاہیر پاکستان نے کیا اور قائدِ اعظم نے کہا کہ
“Pakistan is a bulwark of Islam”
یعنی پاکستان اسلام کا قلعہ ہے- اسے قلعہ بنانے کے لئے ہم نے اس ہرن کو حاصل کرنا ہے- ہمارے ہاں پارلیمانی جمہوریت سگِ کور بن چکی ہے جس سے ہرن کا شکار نہیں کیا جاسکتا ہے- اگر ہم نے اپنی ترقی کی منازل طے کرنی ہیں، اور اگر ہم حقیقی جمہوریت جو قائد اور اقبال کے افکار کی عملی تعبیر ہو، اس کو فروغ دینا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے ہم اپنا جمہوری ڈھانچہ تبدیل کریں اور کسی اور طرزِ جمہوریت کو اختیار کریں جس میں ملکی وحدت محفوظ رہے اور سرمایہ دار و جاگیر دار کا تسلط توڑا جائے اور عوام کو اس اقتدار میں شریکِ کار بنایا جائے -موجودہ نظام میں یہی خرابی ہے کہ اس میں سرمایہ دار اور جاگیردار بالادست ہے اور عوام صرف ایک غلام کا کردار ادا کر رہی ہے-
اس پارلیمانی جمہوری نظام کا سب سے بڑا نقصان پاکستان کی وحدت کو پہنچ رہا ہے اور ملک میں قومی سطح کی لیڈر شپ پیدا ہی نہیں ہو رہی بلکہ صحیح الفاظ یہ ہوں گے کہ قومی قیادت کے پیدا ہونے کے امکانات بھی معدوم ہوتے جا رہے ہیں - آپ یہ دیکھئے کہ کیا سندھ میں اکثریت لینے والی جماعتوں کے قائدین پختونخواہ ، بلوچستان اور پنجاب میں بھی اتنا ہی وقت اور ترجیح اپنے کارکنوں اور مقامی تنظیموں کو دیتے ہیں ؟ کیا پنجاب میں اکثریت لینے والی جماعتوں کے قائدین سندھ ، بلوچستان اور پختونخواہ کے کارکنوں اور اپنی مقامی تنظیموں کو اتنا وقت دیتے ہیں ؟ اِسی طرح باقی صوبوں میں اکثریت لینے والوں کا رویہ بھی دیکھ لیں کہ وہ اپنی ’’کانسی چؤنسی ‘‘یعنی اپنے صوبے سے باہر کتنا وقت اور ترجیح دیتے ہیں ؟ اِس پارلیمانی نظام کی برکات ہیں کہ صرف صوبائی و علاقائی قیادتیں پیدا ہو رہی ہیں ، لسانی تفریق کو ملک میں فروغ مل رہا ہے - اگر اس پارلیمانی جمہوریت کی بجائے صدارتی نظامِ جمہوریت کو رائج کیا جائے تو اُس سے پاکستان کی وحدت محفوظ ہو جائے گی ، لسانی و علاقائی تفرقہ پرستیاں ختم ہوں گی اور پاکستان میں قومی قیادت کا فقدان ختم ہو جائے گا اور سیاسی ماحول قومی قیادت و قومی ترجیحات کے حصول کےلئے ساز گار بن جائے گا نیز عوام کو خود یہ موقعہ میسر آئے گا کہ وہ مرضی کا حکمران منتخب کریں -
[1] (نیا زمانہ ، ۱۶مارچ، ۲۰۱۶ء، آصف جیلانی، کیا قائد اعظم پاکستان میں پارلیمانی نظام چاہتے تھے؟)
http://niazamana.com/2016/03/asif-jillani-on-mohammad-ali-jinnah/
[2](The News, Dr Atta ur Rahman, 23, Sep, 2015)
https://www.thenews.com.pk/print/64159-for-a-presidential-democracy
[3] (اقبال، ’’پس چہ باید کرد؟‘‘، سیاسیاتِ حاضرہ)