یورپ : بارِدگرنسل پرستی کے چنگل میں

یورپ : بارِدگرنسل پرستی کے چنگل میں

یورپ : بارِدگرنسل پرستی کے چنگل میں

مصنف: اُسامہ بن اشرف جولائی 2017

نسل پرستی لوگوں کو ان کے رنگ و نسل،جسمانی خدوخال، یا سماجی رویے کی بنیاد پر تقسیم کرنے کا نام ہے-نظریہ نسل پرستی اِس عمل  کا ملتمس ہے کہ جِس میں لوگوں کوتعصبانہ سوچ کی وجہ سےان کے سماجی رویوں اور رنگ و نسل کی بنیاد پر اعلیٰ و کمتر (نام نہاد ) گردانتے ہوئے  مختلف گروہوں اور درجہ بندی میں تقسیم کیا جاتا ہے-نسل پرستی کی ایک خاص قسم جبر ہے،جِس میں لوگوں  کو کچھ قدرتی خصوصیات مثلاً جلد کی رنگت وغیرہ  کی بنیاد پر کمتر ٹھہرا کے جبر کرناشامل  ہے- نظریہ نسل پرستی  زندگی کے کئی پہلوؤں میں عیاں ہو سکتا ہےجیسے انسان کےسماجی طرز زندگی واعمال، مستقل رویے، یا سیاسی نظام (جیسا کہ جنوبی افریقہ میں قانون نسل پرستی کی مثال عیاں ہے  )وغیرہ   جو نفرت و حسد  کےحقیر جذبات کو ابھارتاہے-اِس میں یا تو وراثتی، وہبی یا جبلی طور پردشمنی  (Nativism)،اجنبیوں سے نفرت(xenophobia)  ،دوسرا پن(Otherness)  ،سماجی علیحدگی پسندانہ سوچ (Segregation)،  تعظیمی(نام نہاد ) درجہ بندی(hierarchical ranking) اوردوسروں پر برتری (Supremacism) جیسےامتیازی  سماجی رویے ہو سکتے ہیں۔ 

یقیناً ہمارےمعاشرے میں کئی صدیوں پہلے تک غلامی کا تصور پایا جاتا تھا جس کا تانہ بانہ یونانیوں اور بعد میں زرعی انقلاب  کے دور سے ملتا ہے مگر نسل پرستی جِسے ہم آج جانتے ہیں اس کا آغاز سولہویں صدی عیسویں میں افریقہ میں  غلامی کی دور  سے ہوا-تاریخی شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ درجہ بندی پر مشتمل معاشرہ  خاص طور پر سرمایہ دارانہ نظام سے ہونے والی تقسیم سے  پہلے بھی موجود تھا-کلاسیکل یونان اور روم کے معاشرے چاہے جتنے بڑے بھی تھے یہ بات تاریخ میں عیاں ہے کہ یہ لوگ نسل  پرستی یا درجہ بندی کے چنگل  میں  نہ تھے البتہ غلامی کا تصور تب بھی پایا جاتا تھا -  غلاموں میں سفید و سیاہ فام باشندے دونوں  شامل تھے  بلکہ درحقیقت سفید فام  زیادہ تر  غلام ہوا کرتے تھے- موجودہ نسل پرستی نے نئی دنیا (موجودہ امریکہ و کینیڈا) کی آباد کاری اور وہاں مزدوروں کے لیے غلاموں کو پوری دنیا سے لائے  جانے کے عمل سے زور پکڑا-یہ بات کہنے میں کوئی عار نہ ہو گی کہ نسل پرستی  سرمایہ دارانہ نظام کی پیدوار ہے-اِس نظریہ کے متحمل  لوگوں  (خصوصاً مغرب کے سفید لوگوں) نے  اسے پوری دنیا میں نام نہاد جائز  حکمرانی کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا  اور آج بھی سفید  لوگوں کو مشرق و مغرب کےتمام مذاہب کے لوگوں خصوصاً مسلمانوں  ،سیاہ فام باشندوں ، مقامی افراد (رہائشی)،تارکین وطن اور سیاہ پناہ گزینوں سے تفریق کے لیے اِسے ایک تھیوری کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے-   

نسل پرستی کا سب سے پہلا اور واضح ثبوت  سولہویں صدی عیسوی سے ملتا ہے جب سیاہ فام غلاموں کی برطانیہ و امریکہ میں تجارت شروع ہوئی-جیسا کہ مشہور تاریخ دان ایرک ولیم  (Eric William)اپنی کتاب  سرمایہ دارانہ نظام ا ور غلامی (Capitalism and Slavery) میں لکھتے ہیں:

“Slavery was not born of racism; rather, racism was the consequence of slavery”.

’’غلامی نسل پرستی سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ غلامی کے اثرات سے نسل پرستی وجود میں آئی‘‘-

سی-ایل-آر جیمز (CLR James) اپنی کتاب جدید سیاست(Modern Politics) میں لکھتے ہیں:

The conception of dividing people by race begins with its slave trade. Thus this [the slave trade] was so shocking, so opposed to all the conceptions of society which religious and philosophers had . . .the only justifications by which humanity could face it was to divide people into races and decide that Africans were an inferior race.”

”لوگوں کو نسل کی بنیاد پر تقسیم کرنا غلاموں کی تجارت سے شروع ہوا-بہرحال یہ غلاموں کی تجارت مذہب اور فلسفہ کی بنیاد پر تخلیق  شدہ معاشروں کے لیے حیران کن اور اِن معاشروں کی اصطلاحات کے برعکس تھی...  انسانوں کو ان کی نسل کی بنیاد پر تقسیم کر کے یہ فیصلہ کرنا  کہ افریقہ کے لوگ کمتر نسل سے ہیں، وہ واحد توضیح تھی جس سے انسانیت ان مشکل کا سامنا کر سکتی تھی“ -

لہٰذا نسل پرستی  کو حرفِ عام میں  امیر اور طاقتور کی طرف سے  دولت کے نا جائز حصول کی خاطر  افریقہ کے باشندوں کے ساتھ غیر انسانی رویہ کو اخلاقی جواز کے طور پر ثابت کرنے کی کوشش کہا جا سکتا  ہے- مختصر یہ  کہ اصل میں غلاموں کی تجارت تھی جِس نے نسل پرستی کو ہوا دی نہ کہ کوئی اور چیز- اِس سے پہلے  جِسم کا رنگ، بنیادی طور  پر موجودہ نسل پرستی کے رویے  کی تشریحاتی وجہ نہ تھی-جیسا کہ  نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی  میں افریقن-امریکن سٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر بارنر ہیسے(Barnor Hesse) نئی دنیا کے ابتدائی یورپی نو آبادیاتی   لوگوں اور مقامی باشندوں پربحث سے واضح کرتے ہیں کہ:

The burgeoning trade in Africans, however, gave birth to the idea that different races of human beings existed, distinguished by the color of their skin.”

”افریقہ میں بڑھتی (غلاموں کی)تجارت  نے  جلد کی رنگت کی بنیاد پر اس نظریہ کو جنم دیا کہ انسان کی مختلف نسلیں موجود ہیں “-

اِس رویے کی  تبدیلی کو طاقتور ممالک اورترقی یافتہ  اقوام کی جانب سے  کی جانے والی  غلاموں کی تجارت کو جائز ثابت کرنے کے لیے ایک دلیل کے طور پر استعمال کیا جانے لگا-  یونیورسٹی آف یورک کے تاریخ    کے پروفیسر،۱۹۷۵ء میں اپنی کتاب’’ بلیک اینڈ وائٹ: نیگرو اور انگلش معاشرہ‘‘ (Black and White: The Negro and English Society) (جس پر انھوں نے   مارٹن لوتھر کنگ میموریل پرائزبھی جیتا تھا ) ، جیمز والوین (Professor James Walvin) وضاحت کرتے ہیں کہ:

“The British don't become slave traders and slavers because they are racist; they became racist because they use slaves for great profit in the Americas and devise a set of attitudes towards black people that justifies what they’ve done. The real engine behind the slave system is economics.”

’’برطانوی اِس لیے غلاموں کی تجارت کرنے والے یا غلاموں کے آقا نہیں بنے کہ وہ نسل پرست تھے بلکہ وہ نسل پرست اِس لیے بنے کہ انہوں نے غلاموں کو امریکہ میں اپنے فائدے   کے لیے استعمال  کیااور ان کے متعلق ایک خاص قسم کا رویہ اپنا کر اپنے عمل کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی- اس نظامِ غلامی کی اصل وجہ معاشی مقاصدتھے ‘‘-

یہ معیشت ہی کی وجہ تھی کہ افریقہ کے باشندوں کی تجارت اور نو آبادیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لیے  نسل پرستی کی بنیاد پر ان  کی تضحیک کو قانونی حیثیت دے دی گئی-انہیں  قوا نین کے تحت  نا صرف نسل پرستی کوسماجی رویوں میں عروج دیا گیا  بلکہ  تجارت کے نام پر افریقی باشندوں کے استحصال کو جائز اور  قانونی بھی قرار دیا گیا جس کی وجہ سے افریقی صدیوں سے اپنے بنیا دی حقوق تک حاصل نہیں کر سکے   -

انیسویں صدی عیسوی میں،نام نہاد سائنسی نظریات(Pseudo-scientific theories)  کی بنیاد پر نسل پرستی  اورانسانوں کی ان خصوصیات کی بنیاد پر اعلیٰ و کمتر کی  درجہ بندی نے زور پکڑا-انتہاء کی بات تو  یہ کہ (قابلِ افسوس  سائنسی نظریے )مثلاً قحف پیمائی  اور کپال بدیا  (Craniometry Phrenology and) اِس رائج شدہ نسل پرستی کی تفریق میں افریقی سیاہ فام باشندوں کو یورپی سفید انسانوں کی بجائے سیاہ بندروں سے ملاتے ہیں- یہ تصور کہ نیگرو کے باشندے کمتر ہیں، جیسا کہ  یہ لوگ صرف غلامی کے لیے پیدا کیے گئے ہیں،ریاستی طاقتوں کو کسی بھی جگہ پر قبضہ کر کے ان  کے راستے میں آنے والی کمتر نسل کے لوگوں پر اپنے قوانین ٹھونسنے کے لیے ایک قانونی و اخلاقی اجازت  فراہم کرتا رہا ہے-

بیسویں صدی عیسوی میں بھی رائج الوقت نسل پرستی کے نظریات  بیلجین حکومت کو کانگو (افریقہ میں )  میں نسل پرستی کی بنیاد پر مظالم ڈھانے  ،حتیٰ کہ نسل کشی کے ذریعے اپنا  راستہ ہموار کرنے کا قانونی و اخلاقی  جواز فراہم کرتے رہے ہیں  -  ظلم کی ا نتہا  تو دیکھیں  کی کا نگو میں ایسے لوگ جو یہاں اپنے ہدف کو پورا نہیں کر سکتےتھے ،ان مردوں،عورتوں یا بچوں کے یا تو ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جاتے  تھے یا تو معاشرے سے الگ رہنے پر مجبور کر دیا جاتاتھا   جہاں وہ بھوک و پیاس یا موسم کی شدت سے مر جاتے تھے -اِن مظالم ،جو دقیانوسی نسل پرست نظر یہ کی عکاسی کرتے ہیں، کے تحت تقریباً دس لاکھ افریقی بے دردی سے موت کی گھا ٹ اتار دیے گے-مزید یہ کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں رائج قوانین  جیسا کہ امریکہ میں جم کرو لاز(Jim Crow laws) اور جنوبی افریقہ میں قانونِ نسل پرستی(Apartheid Law)  ، برطانیہ اور جرمنی میں  اعلیٰ نسل  کا تصور وغیرہ  نےبھی   انسانیت کو تقسیم کیے رکھا ہے-

سترہویں صدی  کے اختتام تک نظریہ نسل پرستی بدترین غلامی کو جائز و مباح ثابت کرنے کی خاطر  ایک منظم،با ضمیر اور مطمئن کن  دلائل کے طور پر ابھر چکا تھا- عام لوگوں کو حقیر اور کمتر سمجھتے ہوئے ان کو انسانیت اور تہذیب سکھانے کو "سفید فام کا بوجھ" (White Man’s Burden) تصورکرنے کے نظریے کے تحت سفید فام اپنی دولت اور سہولیات کی خاطر مختلف  علاقوں پر قبضہ کرتے اور مقامی باشندوں کا استحصال کرتے–وائٹ مینز برڈن جیسے نظریات کی بنیاد پر یورپی سفید پوش نا صرف دنیا کے مختلف ممالک پر قابض رہے بلکہ وہاں موجود قدرتی وسائل کو اپنے مفاد میں استعمال کرتے رہے-برصغیر پاک و ہند میں نو آبادیاتی نظام اور  ایسٹ انڈیا کمپنی  کی تاریخ واضح مثال فراہم کرتی ہے-

جب یورپ کا سرمایہ دارنہ نظام اپنے عروج پر پہنچا، ایک نئی قسم کی نسل پرستی پنپنے لگی-جوتارکین وطن،عارضی مزدوراور   پناہ گزینوں کے مخالف امتیازی سلوک  کی صورت میں سامنے آیا جو کہ برطانیہ میں  آئرلینڈ سے آنے والے تارکین وطن اور پناہ گزینوں  کی روک تھام کے لیے نسل پرست استعمال کر رہے تھے- چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کی توسیع کے لیے دنیا کے بیرونی مزدوروں کی درآمد ضروری ہو گئی تھی( یہ شیوہ صنعتی ترقی والے یورپین ممالک ، امریکہ اور آسٹریلیا میں آج بھی   پایا جاتا ہے)جبکہ برطانوی سرمایہ دارنوآبادیاتی نظام کے ذریعے دنیا میں اپنی جڑیں مضبوط کر چکا تھا جِس کے نتیجے میں عالمی جنگ عظیم دوم کے بعد ویسٹ انڈیز اور ایشیاء کے باشندوں نے برطانیہ کا رخ کیا-ان بیرونی مزدوروں کو نظام میں شامل  کرنے کی خاطر (نسل پرستی  کے تحت)کمتر  نوکریاں دی گئیں-اِس طرح جرمنی میں ترکش مزدوروں کی نقل مکانی ہوئی  اوریہ سلسلہ کئی یورپی ممالک میں پھیل گیا اور آج نسل پرستی کا زیادہ رجحان بھی انہی ممالک میں ہے-کچھ موجودہ رپورٹس کے مطابق نسل پرستی کی بنیاد پرجرمنی اور برطانیہ میں غیرسفید فام لوگوں،تارکینِ وطن  اور مسافروں پر حملے روز کا معمول بن چکے ہیں اور اس تارکین وطن مخالف نسل پرستی میں معاشی بحران نے جلتی میں تیل کا کام کیا ہے جیسا کہ سرمایہ داروں نے مختلف بہانے ڈھونڈے،مثلاً بے روزگاری،گھروں کی کمی اورضروریاتِ زندگی کےمسائل  سے نئے پناہ گزینوں کو کو روکا گیا بلکہ اِسی تصور کے تحت تارکین وطن کے خلاف قوانین کی تخلیق کی گئی-کئی صنعتی ملکوں میں مالک یا افسر  مختلف نسل و قومیت کے مزدوروں کو ایک دوسرے کے خلاف، ہڑتالوں ،کم تنخواہ اور مزدوروں کی بدحالی کی وجہ سے  ملک کے خلاف مظاہروں کو روکنے کے لیے استعمال کررہے  ہیں-

بہت سی مشہور کتابوں کے مصنف اور یونیورسٹی آف ہاسٹن ، ہانر کالج  میں سپین کی تاریخ کے  مشہور   پروفیسر روبرٹ زرٹسکی (Robert Zaretsky)  عالمی شہرت کے حامل جریدہ خارجہ پالیسی (Foreign Policy)  میں موجودہ یورپین صورتحال پر  لکھتے ہیں کہ:

 “A United Europe was once a Racist and it could soon be again.”

”متحدہ یورپ ایک دفعہ (ماضی میں) نسل پرست تھا اور جلد وہ دوبارہ نسل پرست ہو جائے گا“-

نسل پرستی کے مخالف یورپی نیٹ ورک کی شیڈو رپورٹ2011-12  (Shadow Report 2011-12 of European Network against Racism) کے مطابق پولینڈ،یونان، بیلجیم، مالٹا اور اٹلی میں تارکین وطن ، خصوصاً سیاہ فام افریقی باشندے  نسل پرست تقسیم اور مظالم کا شکار ہورہے ہیں- برے حالات یا تشدد زدہ علاقوں سے ہجرت کرنے والے پناہ گزین اور تارکین وطن  یورپ میں نسل پرستانہ حملوں، کام کی زیادتی اور  نظام کی کٹھن سختیوں سے نکلنے میں کامیاب ہو  بھی جائیں  تو انہیں نوکریوں میں حقارت کا سامنا کرنا پڑتا ہے - دائیں بازو کی تنظیمیں اور سیاستدان انہیں مسلسل  یورپ کے لئے خطرہ گردان رہے  ہیں، یعنی 'وہ مجرم ، ڈاکو اور  ہوس پرست ہیں جِن کو یورپ میں داخلے سے ہر صورت  روکنا ہو گا'-

سول سوسائٹی کے مطابق پورے یورپ میں تارکین وطن  ،پناہ گزین  اور ان کی رہائشوں  پر  حملے دیکھے گئے ہیں-نسل پرستی کے مخالف یورپی نیٹ ورک کی  شیڈو رپورٹ۲۰۱۷ء کے مطا بق ،۲۰۱۶ءمیں جرمنی میں مہاجرین اور پناہ گزینوں پر تقریباً پینتیس سو (۳۵۰۰) حملے ہوئےیعنی اوسطً دس نفرت پرست حملے روزانہ ہوئے-۲۰۱۵ءمیں یونان میں پچہتر (۷۵)نسل پرست حملے دیکھے گئے ہیں جِن میں۲۰۱۴ءکے مقابلے میں ساٹھ (۶۰)فیصد اضافہ ہوا-دائیں بازو کی تنظیمیں مثلاً پیگیڈہ   (Pagida) اور  دوسری  تنظیموں کی  پورے یورپ میں مقبولیت اِس بات کی عکاس کرتی ہے کہ کس طرح یہ تنظیمیں تارکینِ وطن   خصوصاً مسلمان تارکین وطن اور پنا ہ گزینوں کے خلاف بحث کے لیے ایک خاص نظریہ بنانے میں کامیاب ہو چکی ہیں نتیجتاً ان کے  لائحہ عمل کو عوامی طور پر قبول کر لیا جاتا ہے-

تارکین وطن اور بے یار و مددگار پناہ گزینوں  کو یورپ کے لیے خطرہ قرار دینے کے بعد دہشت گردی کی روک تھام اور سرحدی حفاظت  کے لیے نئے لائحہ عمل   اور اقدامات کی وجہ سےا ن تارکین وطن کوشدید  قبائلی اور امتیازی تقسیم کا سامنا ہے – اسی طرح اپریل ۲۰۱۶ءمیں فن لینڈ میں پولیس اور سرحدی فوجوں کی جانب سے ملک کے کئی شہروں میں غیر ملکیوں کے خلاف آپریشنز کیے گئے-اٹلی میں چند مخصوص قوموں کو جیسا کہ نائیجیرینز کو منظم طریقے سے پناہ کے حصول سے جان بوجھ کر روکا جاتا ہے-آسٹریلیا، بیلجیم، فرانس ، سپین اور برطانیہ میں مسلمان تارکین وطن کی  ان کے مخصوص تصوراتی رویے کی بنیاد پر ہر آئے روز تلاشی لی جاتی ہےجو کہ انتہائی تضحیک و توہین  کے مترادف ہے۔ جیسا کہ ’’ای -این-اے -آر‘‘ کی انچارج  ایمل یاسف (ENAR Chair Amel Yacef)   کہتی  ہیں کہ:

Racialised migrants are bearing the brunt of increasingly restrictive migration policies and discourses. And this is having a destructive impact on their lives – from facing violent racist attacks to discrimination and exploitation in the labour market. The European Union and political leaders must stop the vicious circle of exclusion and hate and focus on long-term solutions to address hate crime and discrimination targeting migrants. At a deeper level, we need to question the racial biases underpinning European and national migration policies in order to ensure the real inclusion and participation of migrants in European society.”

’’نسل پرستی کی بنیاد پر امتیاز کردہ تارکین وطن ہی نفرت بھرے کلمات اور پناہ گزینوں کے متعلق مشکل پالیسیوں کا بوجھ برداشت کر رہے ہیں جس سے ان کی زندگیوں پر کام یا رہائش کی جگہوں پر نسل پرستانہ حملے اور امتیازی سلوک جیسے برتاؤ کے ذریعے تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں -یورپی یونین اور سیاسی رہنما پناہ گزینوں پر ہونے والے نفرت پرست حملوں اور امتیازی سلوک کی روک تھام کے لیے ٹھوس اور دیر پا حل کے لیے اقدامات کریں- مزید براں ہمیں نسل پرستی پر مبنی  یورپی اور ہجرت کے متعلق قومی پالیسی کو پرکھنے کی ضرورت ہے تاکہ یورپی معاشرے میں پناہ گزینوں(تارکینِ وطن) کی شمولیت کو یقینی بنایا جا سکے‘‘-

۲۰۱۶ءمیں فرانس پر ہونے والے تجزیہ میں، اقوام متحدہ کی کمیٹی  برائے خاتمہِ نسل پرستی  (UN Committee for the Elimination of Racial Discrimination)نے تارکین وطن اور غیر ملکی عارضی مزدوروں کے کام، رہائش، ثقافت،صحت  اور تعلیم کے حصول کے لیے مشکلات اور امتیازی سلوک پرشدید پریشانی کا اظہار کیا ہے-مئی  ۲۰۱۶ءمیں اقوام متحدہ کی اِسی کمیٹی نے  پولیس کی نسل پرستانہ حکمت عملی برائے تلاشی  پر ایک بڑا سوالیہ نشان (؟) بھی لگایا ۔ گزشتہ چار (۴)برس میں  غیر سرکاری تنظیموں نے تارکین وطن اور پناہ گزینوں پر تقریباً ساڑھے چار سو(۴۰۰) وا قعا ت  درج کیے ہیں -اکتوبر میں  ایتھنز کی ایک عدالت (Athens court)نے دو (۲)باشندوں کو ایک پاکستانی کو مارنے کی سزا کے طور پر عمر قید کا فیصلہ سنایا ہے-اِس کیس  میں  عدالت کے فیصلے کے مطابق یہ قتل نسل پرستی کی بنیاد پر کیا گیا جو کہ یونان میں نسل پرستی کا سب سے ہولناک واقعہ ہے-مئی ۲۰۱۶ءمیں اقوام متحدہ کے سپیشل مندوب (نمائندہ ) برائے موجودہ  نسل پرستی (UN special rapporteur on contemporary forms of racism)نے یونان کو نسل پرستی میں مظلوم کو انصاف تک رسائی اور مجرم کو سزا دینے کے لیے خاص اور ٹھوس اقدامات کرنے کی تاکید کی ہے-ان تمام واقعات و حقائق سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یورپ ایک دفعہ پھر نسل پرستی کے چنگل میں پھنس رہا ہے جس کے منفی اثرات نہ صرف یورپ بلکہ دوسری دنیا پر بھی مرتب ہوں گے-

ہیومن رائٹ واچ   (Human Right watch) کی ۲۰۱۶ءکی رپورٹس کے مطابق  اگست۲۰۱۶ءمیں اقوام متحدہ کی کمیٹی نے  ڈچ حکومت (Dutch government) کو پولیس کے اختیار کو نسل پرستانہ تلاشی سے دور رکھنے کے لیے اقدامات پر زور ڈالا ہے-مئی ۲۰۱۶ءمیں پولینڈ کے  ایک  وکیل نے نسل پرستی اور  اجنبیوں سے بیزاری کی بنیاد پر ہونے والے جرائم کے متعلق ایک  رپورٹ شائع کی جس کے مطابق   نسل پرستی کے متعلق جرائم کی شرح میں بے تحاشہ اضافہ کے باوجود مجرموں کو سزا کی شرح بہت کم رہی ہے-جون میں نسل پرستی کے خلاف یورپین کمیشن نے پولینڈ کو نسل پرست جرائم ،نفرت انگیز تقاریراور جنسی و جسمانی بنیاد پر امتیازی سلوک کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی تاکید کی ہے-مختصر یہ کہ  موجودہ حالات کے مختصر مطالعہ کے بعد یہ ک ہنا بجا ہو گا کہ یورپ بار دگر نسل پرستی کے چنگل میں بری طرح دھنستا چلا جا رہا ہے جو مستقبل میں کسی بھی بڑے حادثہ کا باعث بن سکتا ہے-مزید یہ کہ اب یہ خود کو ترقی یافتہ گرداننے والوں کے کڑے امتحا ن کا وقت ہےکہ وہ اس مسئلہ سے کیسے نبرد آزما ہوتے ہیں-  ایسے حالات میں بین الاقوامی برادری پر لازم ہے کہ وہ ایسے حالات کا بغور مشا ہدہ کریں اور موئثر  منصوبہ بندی کریں تاکہ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی قانون کی بالادستی قائم کی جا سکے کیو نکہ  اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کے مطابق،’’نسل پرستی اور شناخت کی بنیاد  پر امتیازی رویہ میں کوئی تفریق نہیں‘‘-یہ قرارداد مزید عیاں کرتی ہے کہ:

Superiority based on racial differentiation is scientifically false, morally condemnable, socially unjust and dangerous, and there is no justification for racial discrimination, anywhere, in theory or in practice.”

’’نسلی تفریق کی بنیاد پربرتری سائنسی اعتبار سے غلط ہے، اخلاقی طور پر قابلِ مذمت ہے، سماجی طور پر ناانصافی اور خطرناک ہےاور نسل پرستی کی بنیاد پر امتیاز کا نظریاتی اور عملی، کسی اعتبار سے کوئی جواز نہیں ہے‘‘-

لہٰذا بین الاقوامی برادری،عالمی طاقتوں اور با لخصوص یورپی قیادت  کو نسل پرستی کے خلا ف اپنا موئثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے-عالمی طاقتوں کو فیصلے معیشت،دولت،مادی فوائد اور تیل  سے نکل کر انسانی بنیادوں پر کرنا ہوں گے،بنیادی انسانی حقوق انسانوں تک پہنچانا ہوں گے، ورنہ انسان انسانوں کے ہاتھوں ہی تباہ و برباد ہوں گے-

 

٭٭٭

نسل پرستی لوگوں کو ان کے رنگ و نسل،جسمانی خدوخال، یا سماجی رویے کی بنیاد پر تقسیم کرنے کا نام ہے-نظریہ نسل پرستی اِس عمل  کا ملتمس ہے کہ جِس میں لوگوں کوتعصبانہ سوچ کی وجہ سےان کے سماجی رویوں اور رنگ و نسل کی بنیاد پر اعلیٰ و کمتر (نام نہاد ) گردانتے ہوئے  مختلف گروہوں اور درجہ بندی میں تقسیم کیا جاتا ہے-نسل پرستی کی ایک خاص قسم جبر ہے،جِس میں لوگوں  کو کچھ قدرتی خصوصیات مثلاً جلد کی رنگت وغیرہ  کی بنیاد پر کمتر ٹھہرا کے جبر کرناشامل  ہے- نظریہ نسل پرستی  زندگی کے کئی پہلوؤں میں عیاں ہو سکتا ہےجیسے انسان کےسماجی طرز زندگی واعمال، مستقل رویے، یا سیاسی نظام (جیسا کہ جنوبی افریقہ میں قانون نسل پرستی کی مثال عیاں ہے  )وغیرہ   جو نفرت و حسد  کےحقیر جذبات کو ابھارتاہے-اِس میں یا تو وراثتی، وہبی یا جبلی طور پردشمنی (Nativism)،اجنبیوں سے نفرت(xenophobia)  ،دوسرا پن(Otherness)  ،سماجی علیحدگی پسندانہ سوچ (Segregation)،  تعظیمی(نام نہاد ) درجہ بندی(hierarchical ranking) اوردوسروں پر برتری (Supremacism) جیسےامتیازی  سماجی رویے ہو سکتے ہیں۔

یقیناً ہمارےمعاشرے میں کئی صدیوں پہلے تک غلامی کا تصور پایا جاتا تھا جس کا تانہ بانہ یونانیوں اور بعد میں زرعی انقلاب  کے دور سے ملتا ہے مگر نسل پرستی جِسے ہم آج جانتے ہیں اس کا آغاز سولہویں صدی عیسویں میں افریقہ میں  غلامی کی دور  سے ہوا-تاریخی شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ درجہ بندی پر مشتمل معاشرہ  خاص طور پر سرمایہ دارانہ نظام سے ہونے والی تقسیم سے  پہلے بھی موجود تھا-کلاسیکل یونان اور روم کے معاشرے چاہے جتنے بڑے بھی تھے یہ بات تاریخ میں عیاں ہے کہ یہ لوگ نسل  پرستی یا درجہ بندی کے چنگل  میں  نہ تھے البتہ غلامی کا تصور تب بھی پایا جاتا تھا -  غلاموں میں سفید و سیاہ فام باشندے دونوں  شامل تھے  بلکہ درحقیقت سفید فام  زیادہ تر  غلام ہوا کرتے تھے- موجودہ نسل پرستی نے نئی دنیا (موجودہ امریکہ و کینیڈا) کی آباد کاری اور وہاں مزدوروں کے لیے غلاموں کو پوری دنیا سے لائے  جانے کے عمل سے زور پکڑا-یہ بات کہنے میں کوئی عار نہ ہو گی کہ نسل پرستی  سرمایہ دارانہ نظام کی پیدوار ہے-اِس نظریہ کے متحمل  لوگوں  (خصوصاً مغرب کے سفید لوگوں) نے  اسے پوری دنیا میں نام نہاد جائز  حکمرانی کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا  اور آج بھی سفید  لوگوں کو مشرق و مغرب کےتمام مذاہب کے لوگوں خصوصاً مسلمانوں  ،سیاہ فام باشندوں ، مقامی افراد (رہائشی)،تارکین وطن اور سیاہ پناہ گزینوں سے تفریق کے لیے اِسے ایک تھیوری کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے-   

نسل پرستی کا سب سے پہلا اور واضح ثبوت  سولہویں صدی عیسوی سے ملتا ہے جب سیاہ فام غلاموں کی برطانیہ و امریکہ میں تجارت شروع ہوئی-جیسا کہ مشہور تاریخ دان ایرک ولیم  (Eric William)اپنی کتاب  سرمایہ دارانہ نظام ا ور غلامی (Capitalism and Slavery) میں لکھتے ہیں:

“Slavery was not born of racism; rather, racism was the consequence of slavery”.

’’غلامی نسل پرستی سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ غلامی کے اثرات سے نسل پرستی وجود میں آئی‘‘-

سی-ایل-آر جیمز (CLR James) اپنی کتاب جدید سیاست(Modern Politics) میں لکھتے ہیں:

The conception of dividing people by race begins with its slave trade. Thus this [the slave trade] was so shocking, so opposed to all the conceptions of society which religious and philosophers had . . .the only justifications by which humanity could face it was to divide people into races and decide that Africans were an inferior race.”

”لوگوں کو نسل کی بنیاد پر تقسیم کرنا غلاموں کی تجارت سے شروع ہوا-بہرحال یہ غلاموں کی تجارت مذہب اور فلسفہ کی بنیاد پر تخلیق  شدہ معاشروں کے لیے حیران کن اور اِن معاشروں کی اصطلاحات کے برعکس تھی...  انسانوں کو ان کی نسل کی بنیاد پر تقسیم کر کے یہ فیصلہ کرنا  کہ افریقہ کے لوگ کمتر نسل سے ہیں، وہ واحد توضیح تھی جس سے انسانیت ان مشکل کا سامنا کر سکتی تھی“ -

لہٰذا نسل پرستی  کو حرفِ عام میں  امیر اور طاقتور کی طرف سے  دولت کے نا جائز حصول کی خاطر  افریقہ کے باشندوں کے ساتھ غیر انسانی رویہ کو اخلاقی جواز کے طور پر ثابت کرنے کی کوشش کہا جا سکتا  ہے- مختصر یہ  کہ اصل میں غلاموں کی تجارت تھی جِس نے نسل پرستی کو ہوا دی نہ کہ کوئی اور چیز- اِس سے پہلے  جِسم کا رنگ، بنیادی طور  پر موجودہ نسل پرستی کے رویے  کی تشریحاتی وجہ نہ تھی-جیسا کہ  نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی  میں افریقن-امریکن سٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر بارنر ہیسے(Barnor Hesse) نئی دنیا کے ابتدائی یورپی نو آبادیاتی   لوگوں اور مقامی باشندوں پربحث سے واضح کرتے ہیں کہ:

The burgeoning trade in Africans, however, gave birth to the idea that different races of human beings existed, distinguished by the color of their skin.”

”افریقہ میں بڑھتی (غلاموں کی)تجارت  نے  جلد کی رنگت کی بنیاد پر اس نظریہ کو جنم دیا کہ انسان کی مختلف نسلیں موجود ہیں “-

اِس رویے کی  تبدیلی کو طاقتور ممالک اورترقی یافتہ  اقوام کی جانب سے  کی جانے والی  غلاموں کی تجارت کو جائز ثابت کرنے کے لیے ایک دلیل کے طور پر استعمال کیا جانے لگا-  یونیورسٹی آف یورک کے تاریخ    کے پروفیسر،۱۹۷۵ء میں اپنی کتاب’’ بلیک اینڈ وائٹ: نیگرو اور انگلش معاشرہ‘‘ (Black and White: The Negro and English Society) (جس پر انھوں نے   مارٹن لوتھر کنگ میموریل پرائزبھی جیتا تھا ) ، جیمز والوین (Professor James Walvin) وضاحت کرتے ہیں کہ:

“The British don't become slave traders and slavers because they are racist; they became racist because they use slaves for great profit in the Americas and devise a set of attitudes towards black people that justifies what they’ve done. The real engine behind the slave system is economics.”

’’برطانوی اِس لیے غلاموں کی تجارت کرنے والے یا غلاموں کے آقا نہیں بنے کہ وہ نسل پرست تھے بلکہ وہ نسل پرست اِس لیے بنے کہ انہوں نے غلاموں کو امریکہ میں اپنے فائدے   کے لیے استعمال  کیااور ان کے متعلق ایک خاص قسم کا رویہ اپنا کر اپنے عمل کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی- اس نظامِ غلامی کی اصل وجہ معاشی مقاصدتھے ‘‘-

یہ معیشت ہی کی وجہ تھی کہ افریقہ کے باشندوں کی تجارت اور نو آبادیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لیے  نسل پرستی کی بنیاد پر ان  کی تضحیک کو قانونی حیثیت دے دی گئی-انہیں  قوا نین کے تحت  نا صرف نسل پرستی کوسماجی رویوں میں عروج دیا گیا  بلکہ  تجارت کے نام پر افریقی باشندوں کے استحصال کو جائز اور  قانونی بھی قرار دیا گیا جس کی وجہ سے افریقی صدیوں سے اپنے بنیا دی حقوق تک حاصل نہیں کر سکے   -

انیسویں صدی عیسوی میں،نام نہاد سائنسی نظریات(Pseudo-scientific theories)  کی بنیاد پر نسل پرستی  اورانسانوں کی ان خصوصیات کی بنیاد پر اعلیٰ و کمتر کی  درجہ بندی نے زور پکڑا-انتہاء کی بات تو  یہ کہ (قابلِ افسوس  سائنسی نظریے )مثلاً قحف پیمائی  اور کپال بدیا  (Craniometry Phrenology and) اِس رائج شدہ نسل پرستی کی تفریق میں افریقی سیاہ فام باشندوں کو یورپی سفید انسانوں کی بجائے سیاہ بندروں سے ملاتے ہیں- یہ تصور کہ نیگرو کے باشندے کمتر ہیں، جیسا کہ  یہ لوگ صرف غلامی کے لیے پیدا کیے گئے ہیں،ریاستی طاقتوں کو کسی بھی جگہ پر قبضہ کر کے ان  کے راستے میں آنے والی کمتر نسل کے لوگوں پر اپنے قوانین ٹھونسنے کے لیے ایک قانونی و اخلاقی اجازت  فراہم کرتا رہا ہے-

بیسویں صدی عیسوی میں بھی رائج الوقت نسل پرستی کے نظریات  بیلجین حکومت کو کانگو (افریقہ میں )  میں نسل پرستی کی بنیاد پر مظالم ڈھانے  ،حتیٰ کہ نسل کشی کے ذریعے اپنا  راستہ ہموار کرنے کا قانونی و اخلاقی  جواز فراہم کرتے رہے ہیں  -  ظلم کی ا نتہا  تو دیکھیں  کی کا نگو میں ایسے لوگ جو یہاں اپنے ہدف کو پورا نہیں کر سکتےتھے ،ان مردوں،عورتوں یا بچوں کے یا تو ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جاتے  تھے یا تو معاشرے سے الگ رہنے پر مجبور کر دیا جاتاتھا   جہاں وہ بھوک و پیاس یا موسم کی شدت سے مر جاتے تھے -اِن مظالم ،جو دقیانوسی نسل پرست نظر یہ کی عکاسی کرتے ہیں، کے تحت تقریباً دس لاکھ افریقی بے دردی سے موت کی گھا ٹ اتار دیے گے-مزید یہ کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں رائج قوانین  جیسا کہ امریکہ میں جم کرو لاز(Jim Crow laws) اور جنوبی افریقہ میں قانونِ نسل پرستی(Apartheid Law)  ، برطانیہ اور جرمنی میں  اعلیٰ نسل  کا تصور وغیرہ  نےبھی   انسانیت کو تقسیم کیے رکھا ہے-

سترہویں صدی  کے اختتام تک نظریہ نسل پرستی بدترین غلامی کو جائز و مباح ثابت کرنے کی خاطر  ایک منظم،با ضمیر اور مطمئن کن  دلائل کے طور پر ابھر چکا تھا- عام لوگوں کو حقیر اور کمتر سمجھتے ہوئے ان کو انسانیت اور تہذیب سکھانے کو "سفید فام کا بوجھ" (White Man’s Burden) تصورکرنے کے نظریے کے تحت سفید فام اپنی دولت اور سہولیات کی خاطر مختلف  علاقوں پر قبضہ کرتے اور مقامی باشندوں کا استحصال کرتے–وائٹ مینز برڈن جیسے نظریات کی بنیاد پر یورپی سفید پوش نا صرف دنیا کے مختلف ممالک پر قابض رہے بلکہ وہاں موجود قدرتی وسائل کو اپنے مفاد میں استعمال کرتے رہے-برصغیر پاک و ہند میں نو آبادیاتی نظام اور  ایسٹ انڈیا کمپنی  کی تاریخ واضح مثال فراہم کرتی ہے-

جب یورپ کا سرمایہ دارنہ نظام اپنے عروج پر پہنچا، ایک نئی قسم کی نسل پرستی پنپنے لگی-جوتارکین وطن،عارضی مزدوراور   پناہ گزینوں کے مخالف امتیازی سلوک  کی صورت میں سامنے آیا جو کہ برطانیہ میں  آئرلینڈ سے آنے والے تارکین وطن اور پناہ گزینوں  کی روک تھام کے لیے نسل پرست استعمال کر رہے تھے- چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کی توسیع کے لیے دنیا کے بیرونی مزدوروں کی درآمد ضروری ہو گئی تھی( یہ شیوہ صنعتی ترقی والے یورپین ممالک ، امریکہ اور آسٹریلیا میں آج بھی   پایا جاتا ہے)جبکہ برطانوی سرمایہ دارنوآبادیاتی نظام کے ذریعے دنیا میں اپنی جڑیں مضبوط کر چکا تھا جِس کے نتیجے میں عالمی جنگ عظیم دوم کے بعد ویسٹ انڈیز اور ایشیاء کے باشندوں نے برطانیہ کا رخ کیا-ان بیرونی مزدوروں کو نظام میں شامل  کرنے کی خاطر (نسل پرستی  کے تحت)کمتر  نوکریاں دی گئیں-اِس طرح جرمنی میں ترکش مزدوروں کی نقل مکانی ہوئی  اوریہ سلسلہ کئی یورپی ممالک میں پھیل گیا اور آج نسل پرستی کا زیادہ رجحان بھی انہی ممالک میں ہے-کچھ موجودہ رپورٹس کے مطابق نسل پرستی کی بنیاد پرجرمنی اور برطانیہ میں غیرسفید فام لوگوں،تارکینِ وطن  اور مسافروں پر حملے روز کا معمول بن چکے ہیں اور اس تارکین وطن مخالف نسل پرستی میں معاشی بحران نے جلتی میں تیل کا کام کیا ہے جیسا کہ سرمایہ داروں نے مختلف بہانے ڈھونڈے،مثلاً بے روزگاری،گھروں کی کمی اورضروریاتِ زندگی کےمسائل  سے نئے پناہ گزینوں کو کو روکا گیا بلکہ اِسی تصور کے تحت تارکین وطن کے خلاف قوانین کی تخلیق کی گئی-کئی صنعتی ملکوں میں مالک یا افسر  مختلف نسل و قومیت کے مزدوروں کو ایک دوسرے کے خلاف، ہڑتالوں ،کم تنخواہ اور مزدوروں کی بدحالی کی وجہ سے  ملک کے خلاف مظاہروں کو روکنے کے لیے استعمال کررہے  ہیں-

بہت سی مشہور کتابوں کے مصنف اور یونیورسٹی آف ہاسٹن ، ہانر کالج  میں سپین کی تاریخ کے  مشہور   پروفیسر روبرٹ زرٹسکی (Robert Zaretsky)  عالمی شہرت کے حامل جریدہ خارجہ پالیسی (Foreign Policy)  میں موجودہ یورپین صورتحال پر  لکھتے ہیں کہ:

 “A United Europe was once a Racist and it could soon be again.”

”متحدہ یورپ ایک دفعہ (ماضی میں) نسل پرست تھا اور جلد وہ دوبارہ نسل پرست ہو جائے گا“-

نسل پرستی کے مخالف یورپی نیٹ ورک کی شیڈو رپورٹ2011-12  (Shadow Report 2011-12 of European Network against Racism) کے مطابق پولینڈ،یونان، بیلجیم، مالٹا اور اٹلی میں تارکین وطن ، خصوصاً سیاہ فام افریقی باشندے  نسل پرست تقسیم اور مظالم کا شکار ہورہے ہیں- برے حالات یا تشدد زدہ علاقوں سے ہجرت کرنے والے پناہ گزین اور تارکین وطن  یورپ میں نسل پرستانہ حملوں، کام کی زیادتی اور  نظام کی کٹھن سختیوں سے نکلنے میں کامیاب ہو  بھی جائیں  تو انہیں نوکریوں میں حقارت کا سامنا کرنا پڑتا ہے - دائیں بازو کی تنظیمیں اور سیاستدان انہیں مسلسل  یورپ کے لئے خطرہ گردان رہے  ہیں، یعنی 'وہ مجرم ، ڈاکو اور  ہوس پرست ہیں جِن کو یورپ میں داخلے سے ہر صورت  روکنا ہو گا'-

سول سوسائٹی کے مطابق پورے یورپ میں تارکین وطن  ،پناہ گزین  اور ان کی رہائشوں  پر  حملے دیکھے گئے ہیں-نسل پرستی کے مخالف یورپی نیٹ ورک کی  شیڈو رپورٹ۲۰۱۷ء کے مطا بق ،۲۰۱۶ءمیں جرمنی میں مہاجرین اور پناہ گزینوں پر تقریباً پینتیس سو (۳۵۰۰) حملے ہوئےیعنی اوسطً دس نفرت پرست حملے روزانہ ہوئے-۲۰۱۵ءمیں یونان میں پچہتر (۷۵)نسل پرست حملے دیکھے گئے ہیں جِن میں۲۰۱۴ءکے مقابلے میں ساٹھ (۶۰)فیصد اضافہ ہوا-دائیں بازو کی تنظیمیں مثلاً پیگیڈہ   (Pagida) اور  دوسری  تنظیموں کی  پورے یورپ میں مقبولیت اِس بات کی عکاس کرتی ہے کہ کس طرح یہ تنظیمیں تارکینِ وطن   خصوصاً مسلمان تارکین وطن اور پنا ہ گزینوں کے خلاف بحث کے لیے ایک خاص نظریہ بنانے میں کامیاب ہو چکی ہیں نتیجتاً ان کے  لائحہ عمل کو عوامی طور پر قبول کر لیا جاتا ہے-

تارکین وطن اور بے یار و مددگار پناہ گزینوں  کو یورپ کے لیے خطرہ قرار دینے کے بعد دہشت گردی کی روک تھام اور سرحدی حفاظت  کے لیے نئے لائحہ عمل   اور اقدامات کی وجہ سےا ن تارکین وطن کوشدید  قبائلی اور امتیازی تقسیم کا سامنا ہے – اسی طرح اپریل ۲۰۱۶ءمیں فن لینڈ میں پولیس اور سرحدی فوجوں کی جانب سے ملک کے کئی شہروں میں غیر ملکیوں کے خلاف آپریشنز کیے گئے-اٹلی میں چند مخصوص قوموں کو جیسا کہ نائیجیرینز کو منظم طریقے سے پناہ کے حصول سے جان بوجھ کر روکا جاتا ہے-آسٹریلیا، بیلجیم، فرانس ، سپین اور برطانیہ میں مسلمان تارکین وطن کی  ان کے مخصوص تصوراتی رویے کی بنیاد پر ہر آئے روز تلاشی لی جاتی ہےجو کہ انتہائی تضحیک و توہین  کے مترادف ہے۔ جیسا کہ ’’ای -این-اے -آر‘‘ کی انچارج  ایمل یاسف (ENAR Chair Amel Yacef)   کہتی  ہیں کہ:

Racialised migrants are bearing the brunt of increasingly restrictive migration policies and discourses. And this is having a destructive impact on their lives – from facing violent racist attacks to discrimination and exploitation in the labour market. The European Union and political leaders must stop the vicious circle of exclusion and hate and focus on long-term solutions to address hate crime and discrimination targeting migrants. At a deeper level, we need to question the racial biases underpinning European and national migration policies in order to ensure the real inclusion and participation of migrants in European society.”

’’نسل پرستی کی بنیاد پر امتیاز کردہ تارکین وطن ہی نفرت بھرے کلمات اور پناہ گزینوں کے متعلق مشکل پالیسیوں کا بوجھ برداشت کر رہے ہیں جس سے ان کی زندگیوں پر کام یا رہائش کی جگہوں پر نسل پرستانہ حملے اور امتیازی سلوک جیسے برتاؤ کے ذریعے تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں -یورپی یونین اور سیاسی رہنما پناہ گزینوں پر ہونے والے نفرت پرست حملوں اور امتیازی سلوک کی روک تھام کے لیے ٹھوس اور دیر پا حل کے لیے اقدامات کریں- مزید براں ہمیں نسل پرستی پر مبنی  یورپی اور ہجرت کے متعلق قومی پالیسی کو پرکھنے کی ضرورت ہے تاکہ یورپی معاشرے میں پناہ گزینوں(تارکینِ وطن) کی شمولیت کو یقینی بنایا جا سکے‘‘-

۲۰۱۶ءمیں فرانس پر ہونے والے تجزیہ میں، اقوام متحدہ کی کمیٹی  برائے خاتمہِ نسل پرستی  (UN Committee for the Elimination of Racial Discrimination)نے تارکین وطن اور غیر ملکی عارضی مزدوروں کے کام، رہائش، ثقافت،صحت  اور تعلیم کے حصول کے لیے مشکلات اور امتیازی سلوک پرشدید پریشانی کا اظہار کیا ہے-مئی  ۲۰۱۶ءمیں اقوام متحدہ کی اِسی کمیٹی نے  پولیس کی نسل پرستانہ حکمت عملی برائے تلاشی  پر ایک بڑا سوالیہ نشان (؟) بھی لگایا ۔ گزشتہ چار (۴)برس میں  غیر سرکاری تنظیموں نے تارکین وطن اور پناہ گزینوں پر تقریباً ساڑھے چار سو(۴۰۰) وا قعا ت  درج کیے ہیں -اکتوبر میں  ایتھنز کی ایک عدالت (Athens court)نے دو (۲)باشندوں کو ایک پاکستانی کو مارنے کی سزا کے طور پر عمر قید کا فیصلہ سنایا ہے-اِس کیس  میں  عدالت کے فیصلے کے مطابق یہ قتل نسل پرستی کی بنیاد پر کیا گیا جو کہ یونان میں نسل پرستی کا سب سے ہولناک واقعہ ہے-مئی ۲۰۱۶ءمیں اقوام متحدہ کے سپیشل مندوب (نمائندہ ) برائے موجودہ  نسل پرستی (UN special rapporteur on contemporary forms of racism)نے یونان کو نسل پرستی میں مظلوم کو انصاف تک رسائی اور مجرم کو سزا دینے کے لیے خاص اور ٹھوس اقدامات کرنے کی تاکید کی ہے-ان تمام واقعات و حقائق سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یورپ ایک دفعہ پھر نسل پرستی کے چنگل میں پھنس رہا ہے جس کے منفی اثرات نہ صرف یورپ بلکہ دوسری دنیا پر بھی مرتب ہوں گے-

ہیومن رائٹ واچ   (Human Right watch) کی ۲۰۱۶ءکی رپورٹس کے مطابق  اگست۲۰۱۶ءمیں اقوام متحدہ کی کمیٹی نے  ڈچ حکومت (Dutch government) کو پولیس کے اختیار کو نسل پرستانہ تلاشی سے دور رکھنے کے لیے اقدامات پر زور ڈالا ہے-مئی ۲۰۱۶ءمیں پولینڈ کے  ایک  وکیل نے نسل پرستی اور  اجنبیوں سے بیزاری کی بنیاد پر ہونے والے جرائم کے متعلق ایک  رپورٹ شائع کی جس کے مطابق   نسل پرستی کے متعلق جرائم کی شرح میں بے تحاشہ اضافہ کے باوجود مجرموں کو سزا کی شرح بہت کم رہی ہے-جون میں نسل پرستی کے خلاف یورپین کمیشن نے پولینڈ کو نسل پرست جرائم ،نفرت انگیز تقاریراور جنسی و جسمانی بنیاد پر امتیازی سلوک کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی تاکید کی ہے-مختصر یہ کہ  موجودہ حالات کے مختصر مطالعہ کے بعد یہ ک ہنا بجا ہو گا کہ یورپ بار دگر نسل پرستی کے چنگل میں بری طرح دھنستا چلا جا رہا ہے جو مستقبل میں کسی بھی بڑے حادثہ کا باعث بن سکتا ہے-مزید یہ کہ اب یہ خود کو ترقی یافتہ گرداننے والوں کے کڑے امتحا ن کا وقت ہےکہ وہ اس مسئلہ سے کیسے نبرد آزما ہوتے ہیں-  ایسے حالات میں بین الاقوامی برادری پر لازم ہے کہ وہ ایسے حالات کا بغور مشا ہدہ کریں اور موئثر  منصوبہ بندی کریں تاکہ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی قانون کی بالادستی قائم کی جا سکے کیو نکہ  اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کے مطابق،’’نسل پرستی اور شناخت کی بنیاد  پر امتیازی رویہ میں کوئی تفریق نہیں‘‘-یہ قرارداد مزید عیاں کرتی ہے کہ:

Superiority based on racial differentiation is scientifically false, morally condemnable, socially unjust and dangerous, and there is no justification for racial discrimination, anywhere, in theory or in practice.”

’’نسلی تفریق کی بنیاد پربرتری سائنسی اعتبار سے غلط ہے، اخلاقی طور پر قابلِ مذمت ہے، سماجی طور پر ناانصافی اور خطرناک ہےاور نسل پرستی کی بنیاد پر امتیاز کا نظریاتی اور عملی، کسی اعتبار سے کوئی جواز نہیں ہے‘‘-

لہٰذا بین الاقوامی برادری،عالمی طاقتوں اور با لخصوص یورپی قیادت  کو نسل پرستی کے خلا ف اپنا موئثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے-عالمی طاقتوں کو فیصلے معیشت،دولت،مادی فوائد اور تیل  سے نکل کر انسانی بنیادوں پر کرنا ہوں گے،بنیادی انسانی حقوق انسانوں تک پہنچانا ہوں گے، ورنہ انسان انسانوں کے ہاتھوں ہی تباہ و برباد ہوں گے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر