قومیں عروج و زوال کے دائمی سفر میں ہر وقت رواں و دواں ہیں،تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو عروج کی سمت ِگامزن اقوام کی عادات و اطوار ،تنزلی اور زوال کی جانب روبہ سفر قوموں سے یکسر مختلف ہو تی ہیں، اقوام عالم میں بقاء اور سر اٹھا کر جینے کے لئے جو تگ و دو کرنی پڑتی ہے اس کے لئے محنت اور منزل کو پالینے کی لگن اور جستجو کا جذبہ چاہیئے تاکہ عزت و وقار اور خود مختاری کے ساتھ دنیا کے شانہ بشانہ اپنی شرائط اور اپنے قوانین کے ساتھ چلا جا سکے ،حصولِ پاکستان کا مقصد بھی یہی تھا -
عزت،خود مختاری اور عروج کے حصول کی خاطر جو عادات و اطوار درکار ہیں ان میں مسلسل اور بھرپور محنت،عزم،ہمت،چستی ،جذبہ ایمانی اور حقیقت پسندی شامل ہیں اور ان تمام عادات کو اپنا کر کام کرنا ضروری ہے تاکہ اقوام عالم میں اور اس سے بڑھ کر گھر یعنی ملک پاکستان میں خوشحالی اور امن ہو اور ہم عروج کی جانب بحیثیت قوم سفر کریں -بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ()جانتے تھے کہ اگر ہجوم کو قوم بنانا ہے،تواس کے لئے سمت کا تعین کرنا ہو گااور اس معین سمت کی جانب اس قوم کو کام پرلگا نا ہو گا، اس عظیم قائد نے اقبال کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی خاطر،مسلمانان برِصغیر کو ’’سوشل اکنامک جسٹس‘‘دینے کی خاطر اور پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنا نے کے لئے سفر کا آغاز کیا اور1947ء میں پاکستان کا حصول اس سفر کی جانب پہلا ،سب سے اہم اور ضروری سنگ میل عبور کر لیا ،ساتھ ہی داخلہ اور خارجہ امور کے تقریباً ہر پہلو پر، سماجی رویے سے معیشت تک اور دفاع سے خارجہ پالیسی تک رہنمائی بھی کر دی کہ یہ سمت درست ہے اس سمت چلیں اور اقوام عالم میں سر اٹھا کر چلنے کا کلیہ بھی ساتھ بتا دیا کہ ’’کام،کام اور صرف کام‘‘-قائد کا یہ فرمان پورا کرنے کے لئے دو چیزیں اشد ضروری ہیں،ایک سخت کوشی اور دوسرا چستی،سخت کوشی، سہل پسندی کو ختم کرنے کے بعد حاصل ہو گی اور چستی، سستی کے خاتمہ سے-
صد افسوس کہ سات دہائیاں گزرنے کو ہیں،یہ دو کام ہم نہ کر سکے اور ابھی آثار یہی بتاتے ہیں کہ ہم نے یہ دو کام کرنے بھی نہیں-ہاں! روز بروز، سستی،کاہلی،سہل پسندی،شارٹ کٹ کے ذریعے امیر سے امیر تر ہونے کی خواہش قوم کے مزاج اور عادات میں سرایت کر رہی ہے اور یہ عادات اتنی پختہ ہو رہی ہیں کہ ان کو نکالنے کے لئے بہت ہی بڑے کسی واقعہ کی ضرورت ہے-ملک دولخت ہوا ،یہ مست رہے،معاشرے میں شدت پسندی بڑھی یہ خوابِ غفلت سے نہ جاگے،غربت کا عفریت روز بروز بڑھ رہا ہے یہ بے پرواہ ہیں، مسائل بڑھ رہے ہیں،وسائل محدود ہو رہے ہیں ، لیکن قوم قائد کے فرمان ’’کام، کام،اور کام‘‘ کو نہ جانے کیا سمجھ کر صرف آبادی بڑھانے میں مصروف ہے-عملی کام جن سےدریافت،وسائل کو بروئے کار لا کر ترقی کی جانب سفر کے استعداد کار کو بڑھایا جا سکتا ہے اس سے صرِف نظر کر کے فارغ البال بیٹھی ہے اور اگر اس پر کوئی قوم کی، ان عادتوں و خصلتوں پر بات کرنے کی جسارت کر دے،تو وہ گالیاں اور طعنہ سننے کے لئے تیار رہے اور ساتھ ساتھ اسلاف کے کارنامے،کہ بھائی! آپ نے یہ کیا اور کیسے کَہ دیا؟ کیا آپ جانتے نہیں کہ ہم نے فلاں سن میں یہ کارنامہ سرانجام دیا تھا ؟ فلاں سن میں ہم نے فلاں جگہ جھنڈے گاڑ دیئے تھے؟ہم یہ بھی کر سکتے ہیں،ہم وہ بھی کر سکتے ہیں،ہم میں جذبہ موجود ہے ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں بس آپ مہربانی کر کے چپ رہیں اورقوم میں مایوسی نہ پھیلائیں،وغیرہ وغیرہ-ایسے لوگوں کے لئے ہی تو اقبال نے کہا تھا کہ:
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی، مگر تُم کیا ہو؟ |
لیکن یہ حقیقت ہے کہ اسلاف نے اپنے دور میں بہت کچھ کر کے دکھایا اور زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں جس طرح اسلاف نے پاکستان بنایا اور بے سروسامانی میں پاکستان کی بقاء کی جنگ لڑ کر پاکستان کو قائم و دائم رکھا- کیا اب ہمارا فرض نہیں؟، کیا یہ نئی نسل پر فرض نہیں کہ اس پاکستان کی ترقی کے لئے تعمیری کام کریں؟ ہم کیا کر رہے ہیں؟ سوائے گپیں ہانکنے،ویلے بیٹھنے اور آبادی بڑھانے کے-سروے اور مردم شماری کر کے دیکھ لیں کہ کون کتنا کام کرتا ہے؟ کون کون ہنر مند ہے؟ جواب میں ایک بہت بڑا طبقہ ملے گا جس کا کام صرف اولاد پیدا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں اور شاید صرف اس ایک کام میں ہم ترقی یافتہ ہیں-ہم نے ملک کی آدھی آبادی یعنی خواتین کو گھروں میں محض اسلئے بٹھا رکھا ہے جو سٹار پلس اور انڈین ڈرامے دیکھ کر اور ان پر اپنا تجزیہ کر کے اپنا وقت کاٹ رہیں ہیں-اسی طرح نوجوان! سمارٹ فون اور ان کے فیچرز پر گفتگو کرتے پائے جاتے ہیں- اگر سروے کروائے جائیں،یا مردم شماری کروائی جائے تو اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ کون کیا کیا کام کرتا ہے،کتنے افراد کماتے ہیں اور کتنے کھاتے ہیں، کتنے ہنر مند اور کتنے ایسے ہیں جو صرف ہاتھ پر ہاتھ دھرے نکمّےاور بے کار بیٹھے ہیں-
اس بے کار وں کے ٹولے کو جاننے اور پہچانے کے لئے شاید اتنی بڑی ایکسر سائز کی بھی ضرورت نہیں،صرف میڈیا پر چلنے والے اشتہارات کو ہی دیکھ کر اندازہ ہو جائے گا کہ یہ بے کاروں کا ٹولہ صرف فضول گپیں ہانکنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتا،اشتہارات کا ہی موازنہ کر لیتے ہیں اگر ٹیلی کمیونیکیشن کے اشتہارات پرنظر دوڑائیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ اشتہارات کس قسم کی اشتہا ٔو ترغیب دے رہے ہیں،ہر کمپنی کا دعویٰ ہے کہ فقط ہم سستے ریٹس مہیا کرنے میں اول ہیں اور اب سے نہیں جب سے ٹیلی کمیونیکیشن انڈسٹری پاکستان میں آئی ہے اس وقت سے آج تک کے اشتہارات میں تسلسل ہے فلاں پیکج سے اتنی دیر بات ہو سکتی ہے اور فلاں پیکج سے اتنے ایس ایم ایس ( مختصر برقی پیغام) ملیں گے-ہماری کمپنی بہتر ہے،ہمارا کنکشن استعمال کرنے سے آپ زیادہ دیر بات کر سکیں گے اور باتیں کرنا کیونکہ بہت ضروری ہیں لہذا اگر آپ کے اکاؤنٹ میں پیسے ختم ہو جائیں تو ہم آپ کو اتنا قرضہ ( جو اگلے ریچارج پر سود سمیت واپس کرنا ہوتا ہے) بھی دیں گے تاکہ آپ اپنے پیاروں سے باتیں کر سکیں ان سے جڑیں رہیں، وغیرہ وغیرہ- حالات یہ ہیں کہ ہر دوسرے آدمی کے پاس ایک سے بڑھ کر ایک موبائل اور کئی سمز (کنکشن) تھے جسے اب سیکیورٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف پانچ تک محدود کر دیا گیا ہے جس پر قوم ناراض ہے -
بات یہاں ختم نہیں ہوتی سوشل میڈیا کی طرف جائیں تو سوشل میڈیا کے ساتھ جو سلوک ہم نے کیا ہے ایک آدمی کے کئی کئی اکاؤنٹس مختلف ناموں اور مختلف تصاویر کے ساتھ ہیں ایسا کیوں ہے؟ خود ہی اندازہ کر لیں، انصاف خود کر لیں کہ کیا کسی تعمیری کام میں مصروف آدمی کے پاس اتنا وقت ہو گا کہ وہ ان پیکجز سے لطف اندوز ہوتے ہوئے گھنٹوں کسی سے بات کرے اور پھر ’’ایس ایم ایس‘‘ بھی الگ سے کرے،یہ صرف بے کاروں کا ٹولہ ہی کر سکتا ہے جس میں مرد بھی ہیں اور عورتیں بھی -حتی کہ بچے بھی ! اوریہ بے کاروں کا ٹولہ صنفی امتیاز سے بالا تر ہے-بات یہاں ختم نہیں ہوتی تنقید کا مقصد کسی پر انگلی اٹھانا نہیں بلکہ یہ ہے کہ ہم سنبھل جائیں،ہم سنبھلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یہ اشتہارات ہماری نفسیات کے عکاس ہوتے ہیں،کمیونیکیشن کے ہی دوسرے شعبے یعنی انٹرنیٹ کی بات کی جائے تو اشتہارات کا تسلسل کچھ اس طرح سے ملتا ہے کہ ہماری سروس کی ڈاؤن لوڈنگ کی رفتار اتنی تیز ہے کیونکہ کمپنیاں جانتی ہیں کہ اس بے کار اورسہل پسنداورمحنت سے عاری قوم نے انٹرنیٹ سے اپنے مطلب کی اشیاء ڈاؤن لوڈ ہی کرنی ہیں،انہوں نے کوئی تحقیق،کوئی تخلیق توکرنی نہیں جسے یہ اپ لوڈ کریں لہذا ان کو اپ لوڈ کی رفتار بتانے کی ضرورت ہی نہیں اور یہ بات چیلنج سے کہی جاسکتی ہے کہ ہمارے ہاں کے اشتہارات میں اپ لوڈ کی سپیڈ نہیں بتائی جاتی -
تربیت کا عالم یہ ہے کہ اگر انٹرنیٹ کی سہولت مہیا کرنے والی کمپنیوں کی رپورٹس پڑھ لی جائیں تو سر شرم سے صرف جھکتا نہیں،بلکہ انسان خود پانی پانی ہوجاتا ہے،اس کو تو چھوڑ دیں عمومی اخلاقیات کا حال دیکھیں صفائی کی طرف توجہ نہیں،ہماری گلیاں،ہماری سڑکیں،بڑے ڈرینز ،سب گندگی سے اٹے پڑے ہیں وہ تو شکر ہے کہ طہارت اور صفائی کو ہمارے مذہب میں پسند کیا گیا ،بلکہ نصف ایمان تک قرار دیا گیا ، ورنہ ہم کیا حالات پیدا کرتے سوچ کر ہی ’’الحفیظ،الاامان‘‘کی پکار نکل جاتی ہے-تعلیم کا عالم یہ ہے پہلے تو سکول نہیں،جہاں بڑے شہروں میں سکول ، کالجز اور جامعات ہیں ان میں سے صرف ایک ایسی ہے جو عالمی معیار کے اداروں کی رینکنگ میں پہلی ہزار جامعات کی لسٹ میں آتی ہے،باقی کا تجزیہ قارئین کے ذمے کہ وہ خود سوچیں کہ تعلیم کا عالم کیا ہے- ہمارے ملک کے باقی حصوں میں وہ تعلیم دی جاتی ہے کہ شاعر کی بات سچ ہی لگتی ہے کہ:
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی |
اب جو تعلیم دی جاتی ہے ،اس میں علم کا عنصرمفقود بلکہ ناپید ہے، بقول حکیم الامت:
اُٹھا مَیں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک |
ہمارے ہاں کی یونیورسٹیوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کا جو حشر کیا گیا ہے وہ شاید ہی کسی اور مہذب ملک میں کیا گیا ہو ، ابھی کچھ عرصہ سے ایچ ای سی کی سختی کیوجہ سے ’’پلیجر ازم‘‘ کم ہوا ہے وگرنہ تو ستر فیصد سے زیادہ مقالہ چوری شُدہ ہوتا تھا - ہمارے ہاں دی جانے والی تعلیم کا مقصد صرف ایک ہے ،حصول نوکری،کہیں ٹائپسٹ بھرتی ہو جائیں،کہیں ’’سٹینو‘‘لگ جائیں اور اگر کوئی افسری کی خواہش رکھتا بھی ہو تو یہ سن سن کر کہ پڑھ لکھ لے بڑا ہو کر افسر بن جائے گا زندگی آسان ہو جائے گی رشتہ بھی آسانی سے مل جائے گا، پیسہ بھی خوب ہوگا،افسری کا رعب بھی ہوگااور لوگ سلام بھی کیا کریں گے اور زندگی آسانی سے گزر جائے گی-اب خود سوچیں کیا زندگی اسی چیز کا نام ہے؟ کیا زندگی صرف اس لئے ہے کہ اسے آسانی سے گزار دیا جائے لیکن ہمارا نوجوان، اپنے بڑوں کے فرمودات پر عمل کر کے افسری کی خواہش دل میں لئے مقابلے کے امتحان میں جا بیٹھتا ہے، اسی سوچ کے خلاف حضرت علامہ اقبال()فرما تے ہیں کہ:
ترے صوفے ہیں افرنگی تیرے قالیں ہیں ایرانی |
یعنی محنت اور پڑھائی بھی اس شوق کے تحت کروائی جا رہی ہے کہ یہ تین چار سال دل لگا کر پڑھ لے پھر آگے عیش ہی عیش ہو گی، کام نہیں کرنا پڑے گا،پکی سرکاری نوکری ہوگی جو بہت اچھی ہوتی ہے،جب قوم کے محنت کرنے کا جذبہ اور مورال یہ ہو گا تو نااہل اور بیکار ہی ملیں گے-اب ان صاحب نے محنت کی مقابلے کا امتحان پاس کیا اور لگ گئے افسر،پوری عمر نوکری کی اور پھر ریٹائرمنٹ- اب یہ چونکہ سابق ’’بیوروکریٹ‘‘ ہیں لہذا ان کا سب سے پہلا حق ہے کہ شہر میں رہیں اور آنے جانے ،ملنے ملانے والو ں کو افسر شاہی کے قصے سنائیں کہ ہمارے ہاں اتنی خرابی ہے اتنی کرپشن ہے،سسٹم اتنا خراب ہے ،یہ ٹھیک نہیں ہو سکتا ، وغیرہ وغیرہ -کیا کوئی ان سے یہ سوال کرنے کی جرات کر سکتا ہے کہ آپ نے ان سب کو ٹھیک کرنے کے لئے کیا کیا؟، جواب صفر آئے گا یا اپنے منہ میاں مٹھو بننے کی ایک کہانی سنا دی جائے گی کہ ہم نے تو کوشش کی لیکن سسٹم ہی خراب ہے، ہماری چلی نہیں ورنہ ہم یہ بھی کر جاتے اور وہ بھی کرنے کی تمنا دل میں تھی وغیرہ وغیرہ -یہی حال ڈاکٹروں اور اساتذہ کا بھی ہے - انتہائی معزز و محترم سابق سول و باوردی افسر صاحبان کی خدمت میں عاجزانہ اپیل ہے کہ اس وقت آپ کی نہیں چلی لیکن اب آپ واپس اپنے گاؤں جائیں،جہاں سے آپ تشریف لائے، آپ پر اس گاؤں کی مٹی کا قرض ہے، وہ پکار پکارکر التجا کر رہی ہے کہ صاحب آؤ ایک سکول بناؤ یہاں، جو آپ کے تجربے کی روشنی کا فیض ہو،گاؤں کے نادار اورتعلیم سے بے بہرہ بچوں کو روشنی دو،علم دو اپنا قرض اتارو ،لیکن نہیں ایسا نہیں ہو گا، کیونکہ سوچ ہی یہی تھی کہ افسر بننے کے بعد آرام کرنا ہے اور گپوں کے گھوڑے دوڑانے ہیں ،اب یہ جناب بھی شامل ہو گئے ہیں اسی ٹولے میں جس کو مسدّسِ حالی میں بے کاروں کا ٹولہ کہا گیا ہے-اگر جو کوئی گاؤں واپس جائے گا وہ بڑا سا مکان بنا کر بیکار بیٹھا رہے گا ،قصہ خوانی کرے گا اور اپنے ماضی اور موجودہ دور کا تقابلی جائزہ لیتا رہے گا اورزبانی توبہ توبہ کرتا رہے گا کہ آج کی نوجوان نسل خراب ہو گئی ہے، دیدوں کا پانی ڈھل گیا ہے، انہیں تو کوئی شرم نہیں ،کوئی لحاظ نہیں ، بڑوں کا ادب کرنا تو یہ جانتے ہی نہیں اور بزرگوں کی بات کا پاس نہیں رکھتے وغیرہ وغیرہ –خود آگے نہیں بڑھے گا،اپنے حصے کا چراغ نہیں جلائے گا،کوئی تربیتی پروگرام،کوئی عملی کام جس سے اس علاقے کے لوگوں کی قسمت تبدیل ہوجائے،ان کے افکار میں تبدیلی پیدا ہو،نہیں شروع کرے گا- اگر ایسا کریں تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں ،عملی کام میں تیزی آسکتی ہے ،افکار بدل سکتے ہیں اور اس سے معاشرے میں مثبت تبدیلی آنے کے امکان روشن ہیں-آپ نے جہان بھر کو گھوم پھر کے دیکھاہے، تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں اسے قوم کے نونہالوں اور نوجوانوں تک پہنچائیں ،قوم کی فکری آبیاری کریں لیکن ایسا کرنے کے لئے جس جذبہ،جس امنگ کی ضرورت ہے وہ تو’’ زندگی آسانی سے گزرے گی ‘‘کے فلسفے میں کب کا سرد ہو چکا-
|
یہاں صرف ایک طبقہ نہیں بلکہ ’’آوے کا آوا‘‘ہی بگڑا ہوا ہے،جس کے احوال دیکھ لو سہل پسندی، سستی اور بے کار ہونے کے ایسے ایسے شاہکار ملیں گے کے عالمی ریکارڈز قائم ہو جائیں-اب آئیں کتاب کی جانب، کتاب معاشرے سے معدوم ہو تی جا رہی ہے لیکن مجال ہے جو کسی کو پرواہ ہو-لائبریریز اور کتابوں کی دکانیں ناپید ہوتی جارہی ہیں،کتاب پڑھنے کا کلچر ختم ہوتا جا رہا ہے،آج میڈیا کا دور ہے میڈیا کتاب پر توجہ نہیں دے رہا، بلکہ آجکل ایک موبائل کمپنی کا اشتہار چل رہا ہے جس میں ایک نوجوان سیڑھی کے ذریعے کتاب اُتار رہا ہے دوسرا آکے اُسے اپنی طرح کا نکما بناتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ دور گزر گیا آؤ اب انٹرنیٹ پہ سرچ کرو –اس طرح کےغیر مثبت اشتہار قوم کے مستقبل کو کدھر لے جا رہے ہیں- رِہ سَہ کر ٹی وی پہ ایک پروگرام کسی زمانے میں ’’آن ائیر‘‘ ہوتا تھا ،’’ کسوٹی‘‘ ، پھر’’ کتاب‘‘ کے نام سے غازی صلاح الدین نے پروگرام ترتیب دیا،علم،اہلِ علم اور کتاب سے محبت کرنے والوں کے لئے جو کہ حبس کے عالم میں ایک تازہ ہوا کے جھونکوں کی مانند تھے یہ پروگرام -اب کہاں گئے ؟ خبروں کی سنسنی،منفی پراپیگنڈے، ریٹنگ اور اشتہارات کے حصول کی نذر ہو گئے لہذا بند کر دیئے گئے، کتاب سے دوری کے باعث علم پھیلنا بند ہو گیا، جہاں تازہ کی کنجی تو افکار تازہ ہیں، بقول علامہ اقبال صاحب ():
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود |
نتیجہ! ہم ’’سنگ و خشت ‘‘کو ترقی سمجھ بیٹھے، آسمان کو کھرچتی عمارتیں بنانا ہمارا مقصد اور نصب العین ہو گیا ،افکار بانٹنے کے لئے میڈیا پر نام نہاد اسکالر،سستی شہرت کے حامل افراد مسلط ہو گئے تو میڈیا جس کی بنیاد ہی انفارم کرنا، یعنی معلومات فراہم کرنا، ایجوکیٹ کرنا، یعنی تعلیم دینا ، اور لطف اندوز کرنا یعنی جمالیاتی ذوق کی تسکین کی خاطر فنون لطیفہ سے قوم کو روشناس کروانا تھا ،آج کس ڈگر پر ہے ، بے مقصد معلومات ،سطحی تعلیم کا پرچار اور جمالیاتی ذوق کی تسکین کیا کرنی اس میڈیا نے ذوق کو تو پاتال میں دفنا دیا، فنون لطیفہ سے اس میڈیا نے کیا آشنا کروانا ہے؟،اس میڈیا نے قوم کے سر پر’’بھانڈ‘‘ مسلط کر دیئے ہیں ، یقین نہ آئے تو رات گئے کوئی بھی نیوز چینل دیکھ لیں جو مزاحیہ اور طنز سے بھرپور پروگرام کا دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں،ان میں فنکاروں کے نام پر موجود ٹولے کو دیکھیں ،جو طنز و مزاح کے نام پر انتہائی فحش جُگت بازی ، ننگی گالیاں اور تضحیک آمیز جملے ایک دوسرے پر اور بعض اوقات وہاں موجود ناظرین پر کستے ہیں ، وہ کسی بھی طرح کسی با شعور اور ذی وقار شخص کی تفریح ِطبع کا باعث نہیں ہو سکتے ،ہاں طبع پر گراں ضرور گزرتے ہیں- لیکن اس طرف کسی کی توجہ نہیں،یہ ’’بھانڈ‘‘ قوم کے اجتماعی شعور میں طنز و مزاح کے نام پر گالیوں اور یاوہ گوئی کو فروغ دے رہے ہیں-لہذا جیسی قوم ویسا انجام ، ان بھانڈوں کا جگت بازی کے علاوہ ’’فن ِعظیم ‘‘ انٹرنیٹ پر دیکھ لیں پھر فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گی کہ کہ ان کو قوم کے سر پر مسلط کرنا ٹھیک عمل ہے یا نہیں-
کیا یہ زندہ قوموں کی علامات ہیں؟، کیا زندہ قومیں ایسا کرتی ہیں؟ہم اپنے آپ کو نہ جانے کس ضمن میں زندہ گردانتے ہیں ہماری حالت تو مردوں سے بھی پرے ہے- ہاں! اگر زندگی چاہیے تو اسلاف کی طرف لوٹنا ہوگا ،ان سے نسبت کو بحال کرنا ہوگا،اپنے دامن کو ان کے دامن سے باندھنا ہو گا ورنہ یہ بے جان اور بے کار ہم ’’زندہ قوم ہیں، پائندہ قوم ہیں‘‘کا نعرہ بلند کرتے رہیں گے-ہمیں اپنے اسلاف سے سوائے ان کے مخصوص دنوں کے چھٹی مل جائے اور ہم وہ چھٹی سو کر گزار دیں، اس کے علاوہ شاید ہی کوئی خاص نسبت ہو-ہماری اسلاف سے نسبت کے منقطع ہو جانے پر عارف لاہوری حضرت علامہ اقبال ()نے درد کا اظہار کیا اور ساتھ میں تقابلی جائزہ بھی لیا کہ اگر زندوں میں شامل ہونا چاہتے ہو تو اسلاف کے کردار کو اپناؤ -
جیسا کہ حضرت علامہ اقبال ()فرماتے ہیں کہ:
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی |
|
کہ تُو گفتار،وہ کردار، تو ثابت، وہ سیارہ |
کیا زندہ قومیں ایسے ہوتیں ہیں؟ جو صرف گفتار کی غازی ہوں،جو صرف کھوکھلے نعروں سے اپنا لہو گرمائیں اورجو فقط جان نچھاور کر دینے کی باتیں کریں- کوئی تو ہو جو یہ سمجھائے کہ جناب ،جان نہیں چاہیے،تمہاری زندگی درکار ہے -عمل سے بھر پور زندگی ،تعلیم سے بہرمند ، ہنر و کمال سے آشنا زندگی ، تربیت سے مزین زندگی - دنیا میں اپنا لوہا منوانے کے لئے پر عزم، منزل پا لینے کی جستجو میں مضطرب ،جو ملک کی خاطر عملی بنیادوں پر کچھ کر گزرنے کا جذبہ و اہلیت رکھتے ہوں - اب یہ بھی جان لو کہ زندہ قومیں کیا ہوتی ہیں ہمارا ہمسایہ چین جس کی آبادی کا بہت بڑا حصہ ’’افیون‘‘ (نشہ کی ایک قسم) کا عادی تھا شاید ہی کوئی گھر ہو جس میں ایک افیونی نہ ہو،جب علامہ اقبال ()نے چینیوں کو سنبھلتے دیکھا ،ان کی آنکھوں میں اس عزم اور حوصلے کو موجود پایا جو منزل کی جستجو میں کسی مشکل کو خا طر میں نہیں لاتا تو گویا پیشن گوئی کر دی کہ :
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے |
تھوڑا غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ ہمالے کے چشمے کیسے اُبلے کہ ساری دنیا کو اپنی آغوش میں لے لیا،دنیا کی سپر پاور امریکہ، چین کی مقروض ہے، دنیا مختلف ممالک سے انڈسٹری اکھیڑ کر چین میں لگا رہی ہے،کیونکہ پروڈکشن پرلاگت کم آتی ہےاور ’’سکلڈ لیبر‘‘یعنی کم پیسوں میں ماہر ین دستیاب ہیں ،دنیا کا شاید کوئی ہی گھر ہو جس میں چین کی بنی مصنوعات موجود نہ ہوں-ایسا کیوں ہے؟کیونکہ وہ سہل پسندی اور سستی کو ترک کر چکے ہیں، چوبیس گھنٹے کام کرتے ہیں،آٹھ آٹھ گھنٹوں کی شفٹ، دن اور رات ایک کر دیئے ہیں تب جا کر زندہ قوم بنی ہے -چینی آزاد کب ہوئے؟ہم سے بھی دو سال بعد،ہماری حالت کیا ہے؟ آج ہم ان کے مرہون منت ہیں ،کوئی کام ہو چین کی جانب بھاگ پڑتے ہیں کہ جناب فلاں قراردادِ اقوامِ متحدہ میں ہمارے خلاف پیش ہو رہی ہے اس کو ویٹو کر دیں -آخر ایسا کب تک ہو گا ؟ زندہ قوم کی ایک اور مثال جاپان ہے جس نے اپنی زمین پر دو ایٹم بم سہے،معیشت تباہ ہو گئی اوراتنا نقصان ہوا کہ آج تک دوبارہ کسی قوم کو ایٹم بم چلانے کی ہمت نہیں ہوئی اس کے بعدساری دنیا یکسوئی کے ساتھ ایٹم بم نہ چلے اس پر کام کر رہی ہے-ان قوموں کی عادات کیا ہیں؟، کم سونا، زیادہ کام، اپنے پہلو بستر سے دور کر لئے اور نیند دورانِ سفر پوری کر لی ،اپنے کام پر ارتکاز یعنی فوکس ہو کر کام کرنا،نتیجہ آج خوشحالی اور کامیابی جاپانیوں کے قدم چومنے پر نازاں ہے-ترقی کی دوڑ میں جاپان صف اول کے ممالک میں کھڑا ہے، اب بہت ہو چکا،ہمیں جاگنا ہوگا، کام کرنا ہو گا،سستی ،سہل پسندی اور تعیش کو تین طلاقیں ایک ساتھ دینا ہوں گی،زندہ قوموں کی عادات اپنانا ہوں گی -
ورنہ بصد معذرت یہ کہنا چھوڑ دیں کہ ’’ ہم زندہ قوم ہیں‘‘ ، ’’ہم اقبال کی قوم ہیں‘‘ اور ’’ہم قائداعظم کی قوم ہیں‘‘-
٭٭٭