مسلم انسٹیٹیوٹ کے سہ ماہی تحقیقی جریدہ ’’مسلم پرسپیکٹوز‘‘کا دوسرا شمارہ شائع ہو گیا ہے-تحقیق کے اعلیٰ معیار پر پورا اُترنے کےلئے اس جریدہ میں شامل تحقیقی مقالہ جات دو سکالرز سے ریویو ہونے کے بعد شائع کئے جاتے ہیں-جدید سائنسی طریقہ کار کے ساتھ کی گئی تحقیق کےلئے ایسے موضوعات کو زیرِ بحث لایا جا رہا ہے جو عالمِ انسانیت بالعموم اور مسلم اُمہ بالخصوص کے مسائل سے نمٹنے کےلئے اہم ہیں-ساتھ ہی ساتھ مختلف علاقائی اور بین الاقوامی موضوعات کو بھی زیرِ بحث لایا جا رہا ہے-دوسرے شمارہ میں چار تحقیقی مقالہ جات،سہ ماہی راؤنڈ اپ،اظہارِ خیال،کتاب کا ریویو اور مسلم انسٹیٹیوٹ کے تحت منعقد ہونے والی دو تقریبات کی رپورٹس شامل ہیں-
شمارہ کا پہلا مقالہ ’’یلدرم بیازت یونیوسٹی‘‘کے پروفیسر اور انٹرنیشنل سٹریٹجک ریسرچ آرگنائزیشن انقرہ ترکی کے نائب صدر پروفیسر سیلکوک کول اوگلو اور انٹرنیشنل سٹریٹجک ریسرچ آرگنائزیشن انقرہ ترکی کے محقق ایمرے تنک سکا اوگلو نے Turkey-Pakistan Relations: Towards Multidimensional Regional Integration کے موضوع پر تحریر کیا ہے-انہوں نے پاکستان اور ترکی کے دو طرفہ تعلقات کو زیرِ بحث لایا ہے اور تاریخی پیرائے پر مختصر روشنی ڈالنے کےبعد علاقائی صورتحال بالخصوص وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال کے پیش نظر دونوں ممالک کی مشترکہ پالیسیوں کو زیرِ بحث لایا ہے-انہوں نے یہ بات واضح کی ہے کہ مختلف شعبہ جات بالخصوص دفاع اور معاشیات میں دونوں ملکوں کے تعلقات اب باقاعدہ اداروں کی تشکیل سے آگے بڑھ رہے ہیں اور ۲۰۰۰ء کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات بہت مضبوط ہوئے ہیں-ترکی پاکستان اور افغانستان کے مابین ہونے والے سہ ملکی سمٹ خطے کے حالات کی بہتری کےلئے اہم کوشش ہے جس کے آٹھ (۸)اجلاس ہو چکے ہیں-اسی طرح ترکی کی جانب سے شروع کی گئی ہارٹ آف ایشیاءمنسٹریل کانفرنس نے بھی افغانستان میں امن کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے اور خطے کے استحکام کے لئے اپنا کردار کیا ہے-انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ دونوں ممالک کے مابین تعاون میں ابھی مزید بہت گنجائش موجود ہے اور خطے کے نئے تجارتی و معاشی پراجیکٹ ون بیلٹ ون روڈ اور ایسے دیگر مواقعوں سے فائدہ اٹھایا جانا چاہئے اور پاکستان اور ترکی کے مابین لاجسٹک نیٹ ورک قائم ہونا چاہئے- اقتصادی تعاون تنظیم کو بھی وسطی ایشیائی ممالک اور افغانستان کی شمولیت سے مزید وسعت دی جا سکتی ہے-
دوسرا مقالہ درج ذیل موضوع پر انسٹیٹیوٹ آف لاجسٹک اینڈ ٹرانسپورٹیشن، یو کے کے چارٹرڈ ممبر ڈاکٹر حسن یاسر ملک نے تحریر کیا ہے:
‘‘ Indo - U.S Aspirations To Dominate Indian Ocean Region Mainly Through India And Its Implications On Regional And Extra Regional Powers۔’’
اس میں انہوں نے بیان کیا ہے کہ سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد سے امریکہ اپنے سمندری راستوں کو محفوظ بنانے،وسطی ایشیائی ریاستوں اور بحرِ ہند پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کےلئے کوششیں کر رہا ہے-امریکہ کاوسطی ایشیائی ریاستوں تک پہنچنے کےلئے سب سے موزوں اور کم ترین فاصلہ بذریعہ گوادر ہی ہے-ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ بحرِ ہند میں بھارت امریکہ کی مدد کرنے کےلئے بڑا کردار لینے جا رہا ہے کیونکہ بھارتی مفادات امریکہ کا اتحادی اور معاشی پارٹنر ہونے کے ناطے اس کے ساتھ وابستہ ہیں- بھارت اپنی نیوی کی طاقت کو بڑھا رہا ہے تاکہ بحرِ ہند میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکے--گوادر پورٹ کے ذریعے چین خلیج فارس تک رسائی حاصل کر لے گا جہاں سے دنیا کی چالیس (۴۰)فیصد تیل سپلائی گزرتی ہے-اس امر کو بھارت اور امریکہ باعث تشویش سمجھتے ہیں-بدلتی عالمی صورتحال میں روس بھی خطے میں اپنے تعلقات کو فروغ دے رہا ہے-ایسے حالات میں سرکریک،کشمیر اور سمندری قزاقوں جیسے معاملات کو جلد حل ہونا چاہئے-ایسے حالات میں پاکستانی نیوی کو اپنی پالیسی جارحانہ رکھنی چاہئے اور اپنی صلاحیتوں کو بڑھانا چاہئے- چین کو گوادر میں رسائی دے کر پاکستان بھارتی نیوی کی طاقت اور خلیج میں موجود پانچویں امریکی بیڑے کی موجودگی کو توازن دے سکتا ہے- پاکستان کو ایٹمی سب میرئین روس یا برطانیہ سے حاصل کرنی چاہئے-
جریدہ میں شامل تیسرا مقالہ پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم مظہر اور پنجاب یونیورسٹی کے سنٹر فار ایشئن سٹڈیز کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ناہید ایس گورایہ نے ’’47 Years Of Organization Of Islamic Cooperation (OIC): A Critique ‘‘کے موضوع پر تحریر کیا ہے جس میں تنظیم کے اغراض و مقاصد،اس کے اب تک کے حاصل کردہ مقاصد، ناکامیوں اور ان کی وجوہات اور مستقبل میں بہتر کارکردگی کےلئے تجاویز شامل ہیں-انہوں نے بیان کیا ہے کہ او آئی سی (OIC)،اقوامِ متحدہ کے بعد سب سے بڑی بین الاقوامی تنظیم ہے جس میں ستاون (۵۷) اسلامی ممالک شامل ہیں مگر یہ تنظیم مسلم دنیا کے بڑے مسائل مثلاً فلسطین اور کشمیر کو حل کروانے میں ناکام رہی ہے حالانکہ اس کے قیام کی بڑی وجہ بیت المقدس پر اسرائیلی قبضہ تھا-اسی طرح مشرقی پاکستان کا سانحہ،افغانستان میں سوویت یونین کا حملہ،ایران عراق جنگ، لبنان پر اسرائیلی حملہ، افغانستان پر امریکی حملہ،عراق پر امریکی قبضہ جیسے معاملات پر یہ تنظیم مجموعی طور پر کوئی خاطر خواہ کردار ادا نہیں کر پائی- کچھ معاملات پر اس تنظیم نے اچھا کردار بھی ادا کیا ہے مثلاً اسلامک سالیڈیریٹی فنڈ کا قیام، اسلامک ڈویلیپمنٹ بینک کا قیام، ترکی میں تحقیق اور ٹریننگ سنٹر کا قیام،اسلامک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا قیام اور اسی طرح کچھ دیگر پراجیکٹس کا قیام عمل میں آیا ہے تاہم سیاسی اور سٹریٹجک معاملات پر اس کو خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی-اس تنظیم کی ناکامی کی وجوہات میں اس کے بنیادی ڈھانچے میں مسائل،تنازعات کے حل میں ناکامی،تنظیم کے ممبر ممالک کے جغرافیائی مسائل،طاقت کی سیاست ،غیر ریاستی عناصر اور عسکری گروہوں کے اثرات شامل ہیں-اس کے بہتر مستقبل کےلئے تجاویز میں انہوں نے مشرق اور مغرب کے تعلقات میں بہتری، معاشی ٹارگٹ کے حصول، ممبر ممالک کا ایک دوسرے پر انحصار،عالمی و مسلم اُمہ کے چیلنجز پر مؤثر رد عمل، بین المذاہب ہم آہنگی اور آپس میں تعلقات کی بہتری کا ذکر کیا ہے-
ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ کے سابق وائس چانسلر اور سابق قائم مقام وائس چانسلر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد،پروفیسر ڈاکٹر محمد داؤد اعوان نے جریدہ کا چوتھا مقالہ ’’Hadhrat Sultan Bahoo’s Proposed Human Society ‘‘پر تحریر کیا ہے-انہوں نے حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)کے دور میں موجود معاشرتی و سماجی برائیوں کے خلاف اُن کے جہاد کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا موازنہ موجودہ دور کے ساتھ کیا ہے اور اس بات پر بحث کی ہے کہ آپ(قدس اللہ سرّہٗ)کی تعلیمات کس طرح کے معاشرے کی تخلیق کا درس دیتی ہیں-معرفتِ الٰہی،اپنے نفس کے خلاف جہاد،اپنی خواہشات پر کنٹرول، اپنے من کی دنیا میں غوطہ زنی کر کے اس میں آباد دنیا کی از سر نو دریافت اور پھر معاشرہ میں اس کا اطلاق اور اس طرح کے دیگر موضوعات کو انہوں نے زیرِ بحث لایا ہے-انہوں نے یہ بھی تحریر کیا ہے کہ حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ) کے مجوزہ، معاشرہ کی بنیادیں دراصل وہی ہیں جو قرآن کریم نے بیان کی ہیں-اسی طرح مسلم اُمہ کی سر بلندی کےلئے کسی اور کے نہیں بلکہ اسلامی اقدار اور تشخص کو اپنانے کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا ہے-حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ) نے ہر قسم کی فروعی تقسیم کی نفی کی ہے اور انسانیت کی بنیاد پر سب کو پُر امن معاشرے کے قیام کی جانب دعوت دی ہے-اپنی انانیت کی نفی اور تمام انسانوں کو حقیقی معنوں میں مساوی تسلیم کرنا ہی پُر امن معاشرے کی بنیاد ہے کیونکہ امت مسلمہ کا رول ماڈل معاشرہ دراصل یونیورسل معاشرہ ہے جس میں تمام انسانوں کی باعزت شمولیت کی گنجائش ہے اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب اپنی ذاتی خواہشات کی بجائے اللہ رب العزت کے احکامات پر کاربند ہوا جائے-
ایمبیسیڈر (ر) طارق عثمان حیدر نے سہ ماہی راؤنڈ اپ میں مقبوضہ کشمیر میں اڑی حملہ میں ہلاک ہونے والے سترہ(۱۷) بھارتی فوجیوں اور اس کے بعد کی صورتحال پر نظر ڈالی ہے-انہوں نے تجزیہ کیا ہے کہ یہ حملہ برہان وانی کی شہادت کے بعد وادی میں احتجاجی تحریک میں تیزی آنے کا حصہ ہے جس میں وادی نے طویل ترین کرفیو کا سامنا کیا ہے اور بہت سے مظاہرین کو پیلٹ گنز کے استعمال سے زخمی اور نابینا کیا گیا ہے-انہوں نے اس حملہ کے بعد بھارت کی جانب سے پاکستانی حدود میں’’سرجیکل سٹرائیک‘‘کے دعوےکو بھی بیان کیا ہے جسے پاک فوج نے یکسر مسترد کر دیا ہے-انہوں نے تجویز کیا ہے کہ اس مسئلہ کے حل کےلئے امریکہ اپنا کردار ادا کرے تاہم ایسا نہ ہونے کی صورت میں کشمیر اورافغانستان میں امن قائم کرنے میں رکاوٹ قائم رہے گی-
اظہارِ خیال کے حصہ میں چئیرمین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کی میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی جانب سے منعقدہ انٹرنیشنل کشمیر کانفرنس میں کی گئی تقریر بھی شامل کی گئی ہے جس میں انہوں نے بھارتی آئین کے آرٹیکل ’’370 ‘‘کے بذاتِ خود غیر قانونی ہونے کا ذکر کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتایا ہے کہ یہی آرٹیکل بھارت کو محدود کرتا ہے کہ اس کے شہری کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتے اور نہ ہی کشمیر کی شہریت لے سکتے ہیں- بی جے پی (BJP)کا الیکشن ایجنڈا تھا کہ اس آرٹیکل کو تبدیل کرے اور کشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی لائے - اگرچہ کشمیریوں نے پاکستان میں شمولیت کی مسلسل حمایت کی ہے اور بی جے پی (BJP)کے ایجنڈا کو یکسر مستردکیا ہے تاہم بی جے پی حکومت اپنے مذموم ارادوں میں لگی ہے اور اس کی نئی انڈسٹریل پالیسی بھی دراصل اسی آبادی کے تناسب میں تبدیلی کی کاوش ہے-تمام تر بھارتی مظالم اور پالیسیوں کے باوجود کشمیری بھارتی قبضے کیخلاف برسر پیکار ہیں-تاریخی، مذہبی، جغرافیائی،نظریاتی،گویا ہر اعتبار سے کشمیری اور پاکستانی عوام میں بہت گہرا رشتہ ہے جسے توڑا نہیں جا سکتا-اگرچہ مسئلہ کشمیر عالمی طاقتوں کےلئے کسی معاشی یا سٹریٹجک مفاد کا باعث نہیں ہے اور وہ اس کے حل کی جانب زیادہ دلچسپی نہیں رکھتیں-یہ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ اس مسئلہ کو انسانی بنیادوں پر حل کروایا جائے وگرنہ جنوبی ایشیا میں دیر پا امن ممکن نہیں-
شمارہ میں مارٹن لنگز(ابو بکر سراج الدین) کی کتاب’’ What Is Sufism? ‘‘پر مسلم پرسپیکٹوز کے ممبر ایڈیٹوریل بورڈ جناب شجاعت حسین ہاشمی کا لکھا گیا ریویو بھی شامل کیا گیا ہے-اس کے علاوہ مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیرِ اہتمام درج ذیل منعقدہ سیمینار کی مختصر رپورٹ کو بھی جریدہ کا حصہ بنایا گیا ہے-
v Western Perceptions About Islam & Muslims: A Case Of Hungary
v Bleeding Kashmir Seeks World Attention
امید ہے کہ جریدہ کا یہ شمارہ پالیسی سازوں، سکالرز،محققین اور طلباء کےلئے دلچسپی کا باعث ہو گا-جریدہ کا آن لائن مطالعہ کےلئے ویب سائٹ وزٹ کریں ’’www.muslim-perspectives.com ‘‘جریدہ حاصل کرنے یا سالانہ ممبر شپ کے حصول کےلئے اس ای میل پر رابطہ کریں-
’’journal@muslim-institute.org ‘‘
٭٭٭
مسلم انسٹیٹیوٹ کے سہ ماہی تحقیقی جریدہ ’’مسلم پرسپیکٹوز‘‘کا دوسرا شمارہ شائع ہو گیا ہے-تحقیق کے اعلیٰ معیار پر پورا اُترنے کےلئے اس جریدہ میں شامل تحقیقی مقالہ جات دو سکالرز سے ریویو ہونے کے بعد شائع کئے جاتے ہیں-جدید سائنسی طریقہ کار کے ساتھ کی گئی تحقیق کےلئے ایسے موضوعات کو زیرِ بحث لایا جا رہا ہے جو عالمِ انسانیت بالعموم اور مسلم اُمہ بالخصوص کے مسائل سے نمٹنے کےلئے اہم ہیں-ساتھ ہی ساتھ مختلف علاقائی اور بین الاقوامی موضوعات کو بھی زیرِ بحث لایا جا رہا ہے-دوسرے شمارہ میں چار تحقیقی مقالہ جات،سہ ماہی راؤنڈ اپ،اظہارِ خیال،کتاب کا ریویو اور مسلم انسٹیٹیوٹ کے تحت منعقد ہونے والی دو تقریبات کی رپورٹس شامل ہیں-
شمارہ کا پہلا مقالہ ’’یلدرم بیازت یونیوسٹی‘‘کے پروفیسر اور انٹرنیشنل سٹریٹجک ریسرچ آرگنائزیشن انقرہ ترکی کے نائب صدر پروفیسر سیلکوک کول اوگلو اور انٹرنیشنل سٹریٹجک ریسرچ آرگنائزیشن انقرہ ترکی کے محقق ایمرے تنک سکا اوگلو نے Turkey-Pakistan Relations: Towards Multidimensional Regional Integration کے موضوع پر تحریر کیا ہے-انہوں نے پاکستان اور ترکی کے دو طرفہ تعلقات کو زیرِ بحث لایا ہے اور تاریخی پیرائے پر مختصر روشنی ڈالنے کےبعد علاقائی صورتحال بالخصوص وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال کے پیش نظر دونوں ممالک کی مشترکہ پالیسیوں کو زیرِ بحث لایا ہے-انہوں نے یہ بات واضح کی ہے کہ مختلف شعبہ جات بالخصوص دفاع اور معاشیات میں دونوں ملکوں کے تعلقات اب باقاعدہ اداروں کی تشکیل سے آگے بڑھ رہے ہیں اور ۲۰۰۰ء کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات بہت مضبوط ہوئے ہیں-ترکی پاکستان اور افغانستان کے مابین ہونے والے سہ ملکی سمٹ خطے کے حالات کی بہتری کےلئے اہم کوشش ہے جس کے آٹھ (۸)اجلاس ہو چکے ہیں-اسی طرح ترکی کی جانب سے شروع کی گئی ہارٹ آف ایشیاءمنسٹریل کانفرنس نے بھی افغانستان میں امن کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے اور خطے کے استحکام کے لئے اپنا کردار کیا ہے-انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ دونوں ممالک کے مابین تعاون میں ابھی مزید بہت گنجائش موجود ہے اور خطے کے نئے تجارتی و معاشی پراجیکٹ ون بیلٹ ون روڈ اور ایسے دیگر مواقعوں سے فائدہ اٹھایا جانا چاہئے اور پاکستان اور ترکی کے مابین لاجسٹک نیٹ ورک قائم ہونا چاہئے- اقتصادی تعاون تنظیم کو بھی وسطی ایشیائی ممالک اور افغانستان کی شمولیت سے مزید وسعت دی جا سکتی ہے-
دوسرا مقالہ درج ذیل موضوع پر انسٹیٹیوٹ آف لاجسٹک اینڈ ٹرانسپورٹیشن، یو کے کے چارٹرڈ ممبر ڈاکٹر حسن یاسر ملک نے تحریر کیا ہے:
‘‘ Indo - U.S Aspirations To Dominate Indian Ocean Region Mainly Through India And Its Implications On Regional And Extra Regional Powers۔’’
اس میں انہوں نے بیان کیا ہے کہ سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد سے امریکہ اپنے سمندری راستوں کو محفوظ بنانے،وسطی ایشیائی ریاستوں اور بحرِ ہند پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کےلئے کوششیں کر رہا ہے-امریکہ کاوسطی ایشیائی ریاستوں تک پہنچنے کےلئے سب سے موزوں اور کم ترین فاصلہ بذریعہ گوادر ہی ہے-ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ بحرِ ہند میں بھارت امریکہ کی مدد کرنے کےلئے بڑا کردار لینے جا رہا ہے کیونکہ بھارتی مفادات امریکہ کا اتحادی اور معاشی پارٹنر ہونے کے ناطے اس کے ساتھ وابستہ ہیں- بھارت اپنی نیوی کی طاقت کو بڑھا رہا ہے تاکہ بحرِ ہند میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکے--گوادر پورٹ کے ذریعے چین خلیج فارس تک رسائی حاصل کر لے گا جہاں سے دنیا کی چالیس (۴۰)فیصد تیل سپلائی گزرتی ہے-اس امر کو بھارت اور امریکہ باعث تشویش سمجھتے ہیں-بدلتی عالمی صورتحال میں روس بھی خطے میں اپنے تعلقات کو فروغ دے رہا ہے-ایسے حالات میں سرکریک،کشمیر اور سمندری قزاقوں جیسے معاملات کو جلد حل ہونا چاہئے-ایسے حالات میں پاکستانی نیوی کو اپنی پالیسی جارحانہ رکھنی چاہئے اور اپنی صلاحیتوں کو بڑھانا چاہئے- چین کو گوادر میں رسائی دے کر پاکستان بھارتی نیوی کی طاقت اور خلیج میں موجود پانچویں امریکی بیڑے کی موجودگی کو توازن دے سکتا ہے- پاکستان کو ایٹمی سب میرئین روس یا برطانیہ سے حاصل کرنی چاہئے-
جریدہ میں شامل تیسرا مقالہ پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم مظہر اور پنجاب یونیورسٹی کے سنٹر فار ایشئن سٹڈیز کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ناہید ایس گورایہ نے ’’47 Years Of Organization Of Islamic Cooperation (OIC): A Critique ‘‘کے موضوع پر تحریر کیا ہے جس میں تنظیم کے اغراض و مقاصد،اس کے اب تک کے حاصل کردہ مقاصد، ناکامیوں اور ان کی وجوہات اور مستقبل میں بہتر کارکردگی کےلئے تجاویز شامل ہیں-انہوں نے بیان کیا ہے کہ او آئی سی (OIC)،اقوامِ متحدہ کے بعد سب سے بڑی بین الاقوامی تنظیم ہے جس میں ستاون (۵۷) اسلامی ممالک شامل ہیں مگر یہ تنظیم مسلم دنیا کے بڑے مسائل مثلاً فلسطین اور کشمیر کو حل کروانے میں ناکام رہی ہے حالانکہ اس کے قیام کی بڑی وجہ بیت المقدس پر اسرائیلی قبضہ تھا-اسی طرح مشرقی پاکستان کا سانحہ،افغانستان میں سوویت یونین کا حملہ،ایران عراق جنگ، لبنان پر اسرائیلی حملہ، افغانستان پر امریکی حملہ،عراق پر امریکی قبضہ جیسے معاملات پر یہ تنظیم مجموعی طور پر کوئی خاطر خواہ کردار ادا نہیں کر پائی- کچھ معاملات پر اس تنظیم نے اچھا کردار بھی ادا کیا ہے مثلاً اسلامک سالیڈیریٹی فنڈ کا قیام، اسلامک ڈویلیپمنٹ بینک کا قیام، ترکی میں تحقیق اور ٹریننگ سنٹر کا قیام،اسلامک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا قیام اور اسی طرح کچھ دیگر پراجیکٹس کا قیام عمل میں آیا ہے تاہم سیاسی اور سٹریٹجک معاملات پر اس کو خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی-اس تنظیم کی ناکامی کی وجوہات میں اس کے بنیادی ڈھانچے میں مسائل،تنازعات کے حل میں ناکامی،تنظیم کے ممبر ممالک کے جغرافیائی مسائل،طاقت کی سیاست ،غیر ریاستی عناصر اور عسکری گروہوں کے اثرات شامل ہیں-اس کے بہتر مستقبل کےلئے تجاویز میں انہوں نے مشرق اور مغرب کے تعلقات میں بہتری، معاشی ٹارگٹ کے حصول، ممبر ممالک کا ایک دوسرے پر انحصار،عالمی و مسلم اُمہ کے چیلنجز پر مؤثر رد عمل، بین المذاہب ہم آہنگی اور آپس میں تعلقات کی بہتری کا ذکر کیا ہے-
ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ کے سابق وائس چانسلر اور سابق قائم مقام وائس چانسلر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد،پروفیسر ڈاکٹر محمد داؤد اعوان نے جریدہ کا چوتھا مقالہ ’’Hadhrat Sultan Bahoo’s Proposed Human Society ‘‘پر تحریر کیا ہے-انہوں نے حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)کے دور میں موجود معاشرتی و سماجی برائیوں کے خلاف اُن کے جہاد کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا موازنہ موجودہ دور کے ساتھ کیا ہے اور اس بات پر بحث کی ہے کہ آپ(قدس اللہ سرّہٗ)کی تعلیمات کس طرح کے معاشرے کی تخلیق کا درس دیتی ہیں-معرفتِ الٰہی،اپنے نفس کے خلاف جہاد،اپنی خواہشات پر کنٹرول، اپنے من کی دنیا میں غوطہ زنی کر کے اس میں آباد دنیا کی از سر نو دریافت اور پھر معاشرہ میں اس کا اطلاق اور اس طرح کے دیگر موضوعات کو انہوں نے زیرِ بحث لایا ہے-انہوں نے یہ بھی تحریر کیا ہے کہ حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ) کے مجوزہ، معاشرہ کی بنیادیں دراصل وہی ہیں جو قرآن کریم نے بیان کی ہیں-اسی طرح مسلم اُمہ کی سر بلندی کےلئے کسی اور کے نہیں بلکہ اسلامی اقدار اور تشخص کو اپنانے کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا ہے-حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ) نے ہر قسم کی فروعی تقسیم کی نفی کی ہے اور انسانیت کی بنیاد پر سب کو پُر امن معاشرے کے قیام کی جانب دعوت دی ہے-اپنی انانیت کی نفی اور تمام انسانوں کو حقیقی معنوں میں مساوی تسلیم کرنا ہی پُر امن معاشرے کی بنیاد ہے کیونکہ امت مسلمہ کا رول ماڈل معاشرہ دراصل یونیورسل معاشرہ ہے جس میں تمام انسانوں کی باعزت شمولیت کی گنجائش ہے اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب اپنی ذاتی خواہشات کی بجائے اللہ رب العزت کے احکامات پر کاربند ہوا جائے-
ایمبیسیڈر (ر) طارق عثمان حیدر نے سہ ماہی راؤنڈ اپ میں مقبوضہ کشمیر میں اڑی حملہ میں ہلاک ہونے والے سترہ(۱۷) بھارتی فوجیوں اور اس کے بعد کی صورتحال پر نظر ڈالی ہے-انہوں نے تجزیہ کیا ہے کہ یہ حملہ برہان وانی کی شہادت کے بعد وادی میں احتجاجی تحریک میں تیزی آنے کا حصہ ہے جس میں وادی نے طویل ترین کرفیو کا سامنا کیا ہے اور بہت سے مظاہرین کو پیلٹ گنز کے استعمال سے زخمی اور نابینا کیا گیا ہے-انہوں نے اس حملہ کے بعد بھارت کی جانب سے پاکستانی حدود میں’’سرجیکل سٹرائیک‘‘کے دعوےکو بھی بیان کیا ہے جسے پاک فوج نے یکسر مسترد کر دیا ہے-انہوں نے تجویز کیا ہے کہ اس مسئلہ کے حل کےلئے امریکہ اپنا کردار ادا کرے تاہم ایسا نہ ہونے کی صورت میں کشمیر اورافغانستان میں امن قائم کرنے میں رکاوٹ قائم رہے گی-
اظہارِ خیال کے حصہ میں چئیرمین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کی میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی جانب سے منعقدہ انٹرنیشنل کشمیر کانفرنس میں کی گئی تقریر بھی شامل کی گئی ہے جس میں انہوں نے بھارتی آئین کے آرٹیکل ’’370 ‘‘کے بذاتِ خود غیر قانونی ہونے کا ذکر کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتایا ہے کہ یہی آرٹیکل بھارت کو محدود کرتا ہے کہ اس کے شہری کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتے اور نہ ہی کشمیر کی شہریت لے سکتے ہیں- بی جے پی (BJP)کا الیکشن ایجنڈا تھا کہ اس آرٹیکل کو تبدیل کرے اور کشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی لائے - اگرچہ کشمیریوں نے پاکستان میں شمولیت کی مسلسل حمایت کی ہے اور بی جے پی (BJP)کے ایجنڈا کو یکسر مستردکیا ہے تاہم بی جے پی حکومت اپنے مذموم ارادوں میں لگی ہے اور اس کی نئی انڈسٹریل پالیسی بھی دراصل اسی آبادی کے تناسب میں تبدیلی کی کاوش ہے-تمام تر بھارتی مظالم اور پالیسیوں کے باوجود کشمیری بھارتی قبضے کیخلاف برسر پیکار ہیں-تاریخی، مذہبی، جغرافیائی،نظریاتی،گویا ہر اعتبار سے کشمیری اور پاکستانی عوام میں بہت گہرا رشتہ ہے جسے توڑا نہیں جا سکتا-اگرچہ مسئلہ کشمیر عالمی طاقتوں کےلئے کسی معاشی یا سٹریٹجک مفاد کا باعث نہیں ہے اور وہ اس کے حل کی جانب زیادہ دلچسپی نہیں رکھتیں-یہ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ اس مسئلہ کو انسانی بنیادوں پر حل کروایا جائے وگرنہ جنوبی ایشیا میں دیر پا امن ممکن نہیں-
شمارہ میں مارٹن لنگز(ابو بکر سراج الدین) کی کتاب’’ What Is Sufism? ‘‘پر مسلم پرسپیکٹوز کے ممبر ایڈیٹوریل بورڈ جناب شجاعت حسین ہاشمی کا لکھا گیا ریویو بھی شامل کیا گیا ہے-اس کے علاوہ مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیرِ اہتمام درج ذیل منعقدہ سیمینار کی مختصر رپورٹ کو بھی جریدہ کا حصہ بنایا گیا ہے-
v Western Perceptions About Islam & Muslims: A Case Of Hungary
v Bleeding Kashmir Seeks World Attention
امید ہے کہ جریدہ کا یہ شمارہ پالیسی سازوں، سکالرز،محققین اور طلباء کےلئے دلچسپی کا باعث ہو گا-جریدہ کا آن لائن مطالعہ کےلئے ویب سائٹ وزٹ کریں ’’www.muslim-perspectives.com ‘‘جریدہ حاصل کرنے یا سالانہ ممبر شپ کے حصول کےلئے اس ای میل پر رابطہ کریں-
’’journal@muslim-institute.org ‘‘
٭٭٭