تھری ڈی پرنٹر

تھری ڈی پرنٹر

انسان کی ترقی کی ابتداء تو اُسی دن سے شروع ہوگئی تھی جب انسان نے پتھر سے آگ جلانے کا فن سیکھا اور پھر رفتہ رفتہ کائنات کو تسخیر کرنے نکل پڑا-ٹیکنالوجی میں ترقی کا آغاز ابیکس سے ہوا جس نے انسان کو اعداد و شمارکے عمل  میں مدد فراہم کی -مزید ٹیکنالوجی میں ترقی کا ایک باب  جیکرڈ لوم نے (1805ء) میں متعارف کروایا جس نے ہاتھ والی مشین سے چادر بُننے میں مدد فراہم کی-بعد ازاں چارلیس بابیخ (Charles Babbage’s ) نے (1834ء) میں انجن  دریافت کیا جو آج بھی استعمال ہو رہا ہے- کمپیوٹر کو جدید دور تک پہنچنے کے لیے بہت سےارتقاء کا سامنا کرنا پڑا-اس ارتقاء کو جنریشن آف کمپیوٹر(  Generations of Computer )کہا جاتاہے جس کو چھ (۶)نسلوں  (Generations)میں تقسیم کیا گیا ہے-

The Mechanical Era (1623 - 1900)

2.  Second Generation (1954 - 1962)

3.  Third Generation (1963 - 1972)

4.  Fourth Generation (1972 - 1984)

5.  Fifth Generation (1984 - 1990)

6.  Sixth Generation (1990 - till date)

کمپیوٹر کی فیلڈ میں بہت تیزی سے ایجادات ہوئیں جو کہ نہ صرف انسان کی سہولت کا باعث بنی بلکہ ملک کی حفاظت بھی اس سے ممکن ہوسکی-آج پوری دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے ایک دوسرے سے رابطہ کرنے کے لئے خطوط کا اانتظار نہیں صرف اپنے موبائل  فون سے نمبر ملائیں یا پھر سمال ایپس،سوشل میڈیا جیسا کہ ’’WhatsApp , IMO, Instagram, Skype, Facebook, Twitter ‘‘وغیرہ کو استعمال کریں-

۲۰۰۲ء کے بعد بہت سے پرنٹر ایجاد ہوئے جس کی اقسام شمار سے باہر ہیں-ہیوی انڈسٹریل پرنٹرز سے لے کر عام استعمال کے گاڑیوں میں پلگ ہو جانے والے پرنٹرز تک لاکھوں ورائیٹیاں موجود ہوئیں -اب پرنٹر کی دُنیا میں ایک ایسی انقلابی ٹیکنالوجی ایجاد ہوئی ہے جو کہ نہ صرف پرنٹرز اور کمپیوٹر بلکہ انسانی زندگی کے اکثر شعبوں کو بالکل نئی دُنیا میں داخل کر دے گی اور آج تک کے قائم تمام تصورات کو اگلے ایک عشرہ میں یکسر تبدیل کر دے گی-دُنیا کو یکسر بدل کے رکھ دینے والی وہ ٹیکنالوجی ’’تھری ڈی پرنٹر‘‘ہے-

تھری ڈی پرنٹر کیا ہوتا ہے؟

’’ٹو ڈی پرنٹر ‘‘تو آپ نے دیکھے ہی ہونگے یہ  حرف عام میں  استعمال ہوتےہیں   جو آپ کو اکثر دفتروں میں دکھائی دیتے ہیں جو کہ کمپیوٹر میں بنائی گئی فائل کو ایک صفحہ کے اوپر پرنٹ کردیتے ہیں یہ پرنٹ  شدہ صفحہ الفاظ  یا پھر تصاویر کا مجموعہ ہوتا ہے-یہ پرنٹ صرف کاغذ تک محدود ہیں جو کہ ظاہری چیز کی طرح عکاسی نہیں کر سکتا-آج کے دور میں عوام کی دلچسپی کا مرکز  بننے والی چیز کوئی عام نہیں بلکہ بہت ہی کم ٹائم میں مشہور ہونے والا تھری ڈی پرنٹر ہے-تھری ڈی ٹیکنالوجی کی ابتداء تو ۱۹۸۰ء کے بعد ہو ئی لیکن اُس وقت یہ کوئی نہیں جانتاتھا کہ مستقبل میں تھری ڈی پرنٹنگ بہت اہم کام سر انجام دےگی-چارلس ہل جو کہ تھری ڈی سسٹمز کا شریک بانی ٹھہرایا، اُس نے  تھری ڈی ٹیکنالوجی کو تصویر سے تھری ڈی ماڈل بنانے کے لئے استعمال کیا اور صارفین کو ایک بڑے کاروبار  میں سرمایہ کاری کرنے سے پہلے ایک ڈیزائن کو چیک کرنے کی سہولت دی-

تھری ڈی پرنٹر کیسے کام کرتا ہے؟

’’تھری ڈی پرنٹر‘‘،’’ٹوڈی پرنٹر‘‘کی طرح کام کرتا ہے لیکن سیاہی نہیں بلکہ زیادہ تر پلاسٹک، دھات ،سونا ،چاندی اور بڑے پرنٹر میں مختلف قسم کا ملاپ بھی استعمال ہوتاہے جو کمپیوٹر میں بنائی گئی فائل کو ظاہری شکل  میں پرنٹ کر کے ا ستعمال کرنے کے قابل بنا دیتا ہے-

تھری ڈی پرنٹنگ کا استعمال:

تھری ڈی پرنٹنگ کا استعمال دنیا کے ہر شعبے میں ہو رہا ہے جیسا کہ چینی کے ظروف، جوتے، کھلونے، ٹیکسٹائل، انڈسٹری، ائیرکرافٹ، کار، صحت، تعمیرات، ٹوائیز، فلم انڈسٹری،  سپیس اور حتی کہ جنگی سامان بھی اسی سے تیار ہورہا ہے-

صحت :

صحت کے شعبے میں ڈاکٹرز کی بہت زیادہ مدد دینے والا کوئی فرشتہ نہیں اور فرشتے سے کم بھی نہیں،وہ انسان کا خود تیار کردہ تھری ڈی پرنٹر ہے-تھری ڈی پرنٹر کی بدولت انسانی اعضاء بنائے جا رہے ہیں جیسا کان، ناک اور انگلیاں اور حتی کہ کچھ اعضا بھی بنائے گئے ہیں جو کہ ٹرا نسپلانٹیشن کیلئے استعمال ہو رہے ہیں-سپین میں کینسر کا مریض جس کی چھاتی میں کینسر تھا اُس کی زندگی بچانے کے لیے تھری ڈی پسلیاں لگا دی گیں-دھات کو پرنٹ کرنے کی ٹیکنالوجی کے باعث سپین کے سرجن اس قابل ہوئے کے اپنی مرضی کے مطابق اعضاء کو پرنٹ کر سکیں-ان پسلیوں کو آسٹریلیا کی ایک کمپنی نے پرنٹ کیا پسلیاں پرنٹ کرنے کے لیے سپین سے پہلے مریض کا ہائی ریزولوشن تھری ڈی سی ٹی سکین ڈیٹا لیا گیا-اس کےلیے انہوں نے مریض کی چھاتی کا ماڈل بھی دوبارہ بنایا-جس پرنٹر سے یہ اعضاء پرنٹ کیے ہیں اس کی مالیت تیرہ (۱۳)لاکھ ڈالر ہیں-

خون کی شریانیں :

تھری ڈی پرنٹر سے خون کی شریانیں بھی پرنٹ کی جاسکتی ہیں-ماہرین نے جو خون کی شریانیں پرنٹ کی ہیں وہ اس طرح کام کریں گی جیسے جسم میں موجود اصل انسانی شریانیں  ان کو پرنٹ کرنے کے لیے خلیے،مواد کو حیاتیاتی سیاہی اور دوسرے جسم دوست اجزاء کے ساتھ پرنٹ کیا جو کچھ وقت کے بعد قدرتی طور پر کام کرنے لگیں-ماہرین نے جو شریانیں پرنٹ کی ہیں وہ دیکھنے میں اصل شریانوں جیسی نہیں لگتی مگر ماہرین کو امید ہے کہ انہیں مستقبل میں انسانی شریانوں کی طرح بنا لیں گے-

دل:

ڈاکٹروں کےلیے دل کی سرجری اُس وقت بہت آسان ہوسکتی ہے جب وہ مریض کے دل کو آپریشن سے پہلے پرنٹ کر کے اُس کی جانچ کر سکیں-اس سلسلے میں ایم آئی ٹی(MIT) اور بوسٹن چلڈرن ہوسپیٹل نے اہم قدم اُٹھایا ہے-ایم آر آئی سکین کو بلیو پرنٹ کے طور پر استعمال کر تے ہوئے ڈاکٹر مریض کے آپریشن سے تین(۳) گھنٹے پہلے اس کے دل کا ماڈل پرنٹ کر سکتےہیں-یہاں تک ہی نہیں ماہرین نے اس کے ذریعے وہ انسانی اجزاء جو منتقل ہو سکتے ہیں جیسا کہ گردے،آنکھ ، دل، جگر اور پھیپھڑے پرنٹ کیے ہیں جن کی عطیہ کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے-

اگر صرف صحت کی شعبے پر تھری ڈی پرنٹر کی خدمات کا اندازہ لگایا جائے تو آج تک جو مصنوعی انسانی اعضاء بنائے جا رہے ہیں وہ تھری ڈی پرنٹر کی مرہون منت ہیں-تھری ڈی پرنٹر سے ایسے چھوٹے کیمرے بنائے جا چکے ہیں جو جسم میں کام کرسکتے ہیں- ماہرین چاہتے ہیں کہ مستقبل میں تھری ڈی پرنٹر سے دوا کی ترسیل کا کام لیا جائے-ایم آئی ٹی کے ریسرچرز نے تھری ڈی پرنٹر استعمال کرتے ہوئے ایسا سٹرکچر بنایا ہے جو مخصوص درجہ حرارت پر اپنی ہیت تبدیل کر کے مخصوص شکل اختیار کر لیتاہے-

تھری ڈی پرنٹر سے خلائی صنعت کو فروغ:

تھری ڈی پرنٹر سے کسی بھی چیز کا تھری ڈی ماڈل پرنٹ کیا جا سکتا ہے-تھری ڈی پرنٹر اب تک پلاسٹک، دھات اور شیشے کی چیزیں بنا سکتا تھا لیکن اب ’’ایچ آر ایل لیباریٹری‘‘نے اس حوالے سے اہم پیش رفت کی ہے کہ اب ’’3ڈی پرنٹر‘‘چینی کے ظروف اور ٹائلیں بھی پرنٹ کرے گا-اس پیشرفت سے خلائی صنعت کوبھی فائدہ ہو گا-خلائی صنعت میں بہت سی چیزوں کا انحصار سرامک کے پارٹس پر ہوتا ہے-سرامکس سے ہی مدار میں گردش کرنے والے راکٹ کے ونگ پینل اور ا ندرونی میکانزم بنایا جاتا ہے-ڈارپا نے ایچ ایل آر کی ٹیم کے ساتھ سرامک کا ائیرواشیل بنانے کا معاہد کر لیا ہے-اس کے لیے خاص طور پر ایسی ہیٹ شیلڈ  (Heat Sheild)  بنائی جائے گی جو جہاز کے مدار میں آتے وقت رگڑ کو آسانی سے برداشت کر سکے-ایچ آر ایل کی ٹیم کا بنایا ہوا سرامک موجودہ تجارتی پیمانے پر بنائے جانے والے سرامک فوم سے دس(۱۰)گنا زیادہ مضبوط ہے-

خواتین کے لیے متعارف کردہ تھری ڈی پرنٹر:

برطانیہ میں ایک نجی کمپنی نے خصوصی طور پر گھریلو خواتین کے لیے ایسا منفرد   تھری ڈی پرنٹر متعارف کروایا ہے جس کے ذریعے خواتین عام پہننے کی جیولری، کھلونے ، برتن اور ڈیکوریشن پیس گھر بیٹھے اپنی مرضی سے منٹوں میں تیار کرسکتی ہیں -کیوب نامی اس پرنٹر میں پلاسٹک کا کارٹریج استعمال کیا جاتا ہے جو کمپیوٹرسے  ملنے والی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے پرنٹ کرتا ہے-جس سے نہ صرف انہیں فائدہ ہوگا بلکہ ان کی فنکارانہ صلاحیتیں بھی سامنے آئیں گی-

تھری ڈی پرنٹر ریسٹورینٹ:

تھری ڈی پرنٹر صرف صحت،ٹیکنالوجی میں ہی نہیں بلکہ  ریسٹورنٹ میں بھی اپنی جگہ  بنا چکا ہے کنفیکشنری انڈسٹری میں تھری ڈی پرنٹر کی مدد سے چاکلیٹ اور کینڈیز کو پرنٹ کیا جا رہا ہے-کچھ کمپنیاں تھری ڈی پرنٹر کی مدد سے پودوں سے لیے گئے پروٹین کی مدد سے گوشت یا اس کے متبادل کو پرنٹ کرنے پر غور کر رہی ہے-دنیا میں چار مشہور ریسٹورینٹ جن میں فوڈ انک ریسٹورنٹ(Food Ink Restaurant)، ملیس ریسٹورینٹ  (Melies Restaurant)بار سیلونا میں لااینوٹیکا ہوٹل آرٹ (La Enoteca at Hotel Arts, Barcelona) اور لابوسکنا (La Boscana) شامل  ہیں جن میں آپ تھری ڈی پرنٹر کی مدد  سے مزے مزے کے کھانےکھاسکتے ہیں-یہ ریسٹورنٹس کھلے تو ہر کسی کے  لیے ہوتے ہیں مگر ان کی  بُکنگ  کرنا کوئی آسان کام نہیں-ان ریسٹورنٹس میں لامحدود قسم کے کھانے بنائے جاتے ہیں تھر ی ڈی پرنٹر کو ان ریسٹورینٹ میں شامل کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ بہت سے ایسی ڈشز جو ہاتھ سے تیار نہیں کی جاسکتی وہ تھری ڈی پرنٹر کی مدد سے تیار کی جاتی ہیں-جس کی تیاری کے مراحل کودیکھ کر کھانے والے بہت زیادہ حیران اور  خوش دکھائی ہوتے ہیں-

انسان کی آواز پر کام کرنے والا حیرت انگیز تھری ڈی پرنٹر:

تھری ڈی ٹیکنالوجی کی حامل فلمیں تو دنیا بھر میں متعارف ہو چکی ہیں لیکن اب جاپان میں ایسا منفرد تھری ڈی پرنٹر پیش کیا گیا ہے جو صر ف انسان کی آواز پر ہی حرکت میں آجاتا  ہے-اس کو خصوصی طور پر بچوں کے لئے تیار کیا گیا ہے جو اپنے اندر نصب کئے گئے سینسرز اور جدید سسٹم کی بدولت انسانی آواز کی صورت میں ملنے والی ہدایات پر عمل کرتا ہے-اس پرنٹر کو ذہنی و جسمانی معذور بچوں کی تربیتی اداروں اور سکولوں میں رکھا گیا ہے جہاں بچے اپنے من پسند کارٹون  ، کردار اور دیگر چیزوں کی 3ڈی ماڈل نکلوا کر خوش ہوتے اور ان سے کھیلتے ہیں-

فوج کے لیے تھری ڈی پرنٹر سے غذا کی تیاری:

امریکی فوج کے غذائی محقق اپنی افواج کےلئے روایتی کھانوں کی بجائے تھری ڈی پرنٹر سے پرنٹ  کیے کھانوں پر تحقیق میں مشغول ہیں اُن ماہرین کا کہنا ہے کہ میدان جنگ میں فو جیوں کے لیے تھری ڈی  پرنٹ سے تیار کھانا روایتی کھانے سے اچھا اور جلد تیار ہونے والا ہو گا اور فوجیوں کی غذائی ضروریات کے عین مطابق ہو گا-اس وقت امریکی فوج کے معیارات کے مطابق کھانے کو زیادہ سے زیادہ تین (۳)سال تک محفوظ کیا جا سکتا ہے-لیکن تھری ڈی پرنٹر سے مدت بڑھائی جا سکتی ہے-

تھری ڈی ائیر کرافٹس :

سائنسدانوں نے دنیا کے  تھری ڈی پرنٹر سے بنے جہاز کی کامیابی سے پرواز کی ہے-سائنسدانوں کی رپورٹ کی مطابق یہ مکمل طور پر پرنٹنگ ٹیکنالوجی کی مدد سے ممکن ہو سکاجس کو  مکمل ہونے تک ایک ہفتہ درکا ر ہے-یہ تمام کریڈٹ تھری ڈی پرنٹر بنانے والے کو جاتا ہے  اس میں کوئی جوڑ نہیں حتی کہ اس کے حرکت کرنے والے حصے بھی یک مشت پرنٹ کیے گئے-

تھری ڈی مکانات:

چائنہ میں تھری ڈی پرنٹر سے دس (۱۰)گھر تعمیر کئے گئے جس کو مکمل تعمیر کرنے کے لیے سال،مہینے،ہفتے نہیں بلکہ صر ف چوبیس گھنٹے درکار ہیں  اور اگلے ہی دن وہ گھر استعمال ہونے کے قابل بھی ہے-جس کی لاگت پانچ ہزار (۵۰۰۰)امریکن ڈالرہے-روس میں سخت سردی کے دنوں میں گھر تعمیر کرنا بہت مشکل ہوتا ہےروس کی کمپنی ایپس کور (Apis Cor) نے تھری  ڈی پرنٹر سے اس مشکل کو حل کر دیا-تھری ڈی پرنٹرنے چوبیس (۲۴) گھنٹوں میں گھر تعمیرکر کے سب کو حیران کر دیا جس کو تعمیر کرنے کی لاگت دس ہزار (۱۰۰۰۰)امریکی ڈالر آئی-

روز مرہ کی دیگر اشیا کیلئے تھری ڈی پرنٹر:

تھری ڈی پرنٹر کی انقلاب آفرینیوں میں جھانک کر انسان ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ ’’دُنیا کیا سے کیا ہو جائے گی‘‘-روز مرہ کی اشیاء کیلئے الگ سے تھری ڈی پرنٹر تیار کئے جا رہے ہیں جن سے ضرورت کی ہر چیز منٹوں سیکنڈوں میں آپ کو دستیاب ہو گی-مثلاً : آپ کو اب مارکیٹوں میں گھوم پھر کر ذلت اٹھانے کی بجائے کشتیوں اور گاڑیوں کے مختلف چھوٹے بڑے پرزے بنانے کی سہولت آپ کا پرنٹر مہیا کیا کرے گا ، کسی بھی طرح کا پرزہ آپ بنانا چاہتے ہیں صرف اس کا تھری ڈی ڈایا گرام بنائیں اور سیکنڈوں میں پرزہ آپ کے ہاتھ میں ہو گا-اگر آپ بی ایم ڈبلیو یا مرسڈیز کے مالک ہیں اور گاڑی کا سائیڈ شیشہ ٹوٹ گیا ہے تو آپ کو ہزاروں روپے بھرنے کی بجائے آپ کا پرنٹر بالکل اوریجنل کی مانند کا ’’سائیڈ مرر‘‘بنا کر دے گا-اِسی طرح آپ اپنی کسی بھی گاڑی کا  بونٹ، ڈگی اور کھڑکیاں وغیرہ گاڑیوں کے برینڈ کے ڈایا گرام پہ بھی اور اپنی مرضی کے ڈایا گرام پہ بھی بنا سکیں گے-وہ لوگ جو مختلف  ورکشاپس اور چھوٹی فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں وہ سیکنڈوں میں ضروری اوزار و ہتھیار تیار کر سکیں گے-حتیٰ کہ اگر لوگ چاہیں کہ ’’ری موو ایبل‘‘فرش ان کے گھر میں ہوں تو وہ بھی دستیاب ہوں گے کہ آپ ’’کمبی نیشن‘‘ کے مطابق ٹائلیں اور رگز وغیرہ پرنٹر پہ ہی نکال سکیں گے- اس کے علاوہ  وال پیپر ، میز،کرسیاں ، لیمپ غرضیکہ ضرورت کی ہر چیز محض سیکنڈوں میں بنائی جا سکے گی  -یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سوشل تقریبات کے ڈیکوریٹرز کا سب سے بڑا انحصار اب تھری ڈی پرنٹر پہ منتقل ہو جائے گا-

ٹیکنالوجی کی دنیا میں تھری ڈی نے ایک نیا قدم رکھا ہے اور مستقبل قریب میں یہ ہر گھر کی ایک اہم ضرورت ہوگا-ترقی پذیر ممالک جیسا کہ پاکستان میں اس انڈسٹری کو فروغ دینے کی ضرورت ہے-

 

٭٭٭

انسان کی ترقی کی ابتداء تو اُسی دن سے شروع ہوگئی تھی جب انسان نے پتھر سے آگ جلانے کا فن سیکھا اور پھر رفتہ رفتہ کائنات کو تسخیر کرنے نکل پڑا-ٹیکنالوجی میں ترقی کا آغاز ابیکس سے ہوا جس نے انسان کو اعداد و شمارکے عمل  میں مدد فراہم کی -مزید ٹیکنالوجی میں ترقی کا ایک باب  جیکرڈ لوم نے (1805ء) میں متعارف کروایا جس نے ہاتھ والی مشین سے چادر بُننے میں مدد فراہم کی-بعد ازاں چارلیس بابیخ (Charles Babbage’s) نے (1834ء) میں انجن  دریافت کیا جو آج بھی استعمال ہو رہا ہے- کمپیوٹر کو جدید دور تک پہنچنے کے لیے بہت سےارتقاء کا سامنا کرنا پڑا-اس ارتقاء کو جنریشن آف کمپیوٹر(  Generations of Computer )کہا جاتاہے جس کو چھ (۶)نسلوں  (Generations)میں تقسیم کیا گیا ہے-

The Mechanical Era (1962-1900)

Fourth Generation (1972-1984(

Fifth Generation (1984-1990)

Sixth Generation (1990 – till date)

 

First Generation Electronic Computers (1937-1953)

Second Generation (1954-1962(

Third Generation (1963-1972)

 

کمپیوٹر کی فیلڈ میں بہت تیزی سے ایجادات ہوئیں جو کہ نہ صرف انسان کی سہولت کا باعث بنی بلکہ ملک کی حفاظت بھی اس سے ممکن ہوسکی-آج پوری دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے ایک دوسرے سے رابطہ کرنے کے لئے خطوط کا اانتظار نہیں صرف اپنے موبائل  فون سے نمبر ملائیں یا پھر سمال ایپس،سوشل میڈیا جیسا کہ ’’WhatsApp , IMO, Instagram, Skype, Facebook, Twitter ‘‘وغیرہ کو استعمال کریں-

۲۰۰۲ء کے بعد بہت سے پرنٹر ایجاد ہوئے جس کی اقسام شمار سے باہر ہیں-ہیوی انڈسٹریل پرنٹرز سے لے کر عام استعمال کے گاڑیوں میں پلگ ہو جانے والے پرنٹرز تک لاکھوں ورائیٹیاں موجود ہوئیں -اب پرنٹر کی دُنیا میں ایک ایسی انقلابی ٹیکنالوجی ایجاد ہوئی ہے جو کہ نہ صرف پرنٹرز اور کمپیوٹر بلکہ انسانی زندگی کے اکثر شعبوں کو بالکل نئی دُنیا میں داخل کر دے گی اور آج تک کے قائم تمام تصورات کو اگلے ایک عشرہ میں یکسر تبدیل کر دے گی-دُنیا کو یکسر بدل کے رکھ دینے والی وہ ٹیکنالوجی ’’تھری ڈی پرنٹر‘‘ہے-

تھری ڈی پرنٹر کیا ہوتا ہے؟

’’ٹو ڈی پرنٹر ‘‘تو آپ نے دیکھے ہی ہونگے یہ  حرف عام میں  استعمال ہوتےہیں   جو آپ کو اکثر دفتروں میں دکھائی دیتے ہیں جو کہ کمپیوٹر میں بنائی گئی فائل کو ایک صفحہ کے اوپر پرنٹ کردیتے ہیں یہ پرنٹ  شدہ صفحہ الفاظ  یا پھر تصاویر کا مجموعہ ہوتا ہے-یہ پرنٹ صرف کاغذ تک محدود ہیں جو کہ ظاہری چیز کی طرح عکاسی نہیں کر سکتا-آج کے دور میں عوام کی دلچسپی کا مرکز  بننے والی چیز کوئی عام نہیں بلکہ بہت ہی کم ٹائم میں مشہور ہونے والا تھری ڈی پرنٹر ہے-تھری ڈی ٹیکنالوجی کی ابتداء تو ۱۹۸۰ء کے بعد ہو ئی لیکن اُس وقت یہ کوئی نہیں جانتاتھا کہ مستقبل میں تھری ڈی پرنٹنگ بہت اہم کام سر انجام دےگی-چارلس ہل جو کہ تھری ڈی سسٹمز کا شریک بانی ٹھہرایا، اُس نے  تھری ڈی ٹیکنالوجی کو تصویر سے تھری ڈی ماڈل بنانے کے لئے استعمال کیا اور صارفین کو ایک بڑے کاروبار  میں سرمایہ کاری کرنے سے پہلے ایک ڈیزائن کو چیک کرنے کی سہولت دی-

تھری ڈی پرنٹر کیسے کام کرتا ہے؟

’’تھری ڈی پرنٹر‘‘،’’ٹوڈی پرنٹر‘‘کی طرح کام کرتا ہے لیکن سیاہی نہیں بلکہ زیادہ تر پلاسٹک، دھات ،سونا ،چاندی اور بڑے پرنٹر میں مختلف قسم کا ملاپ بھی استعمال ہوتاہے جو کمپیوٹر میں بنائی گئی فائل کو ظاہری شکل  میں پرنٹ کر کے ا ستعمال کرنے کے قابل بنا دیتا ہے-

تھری ڈی پرنٹنگ کا استعمال:

تھری ڈی پرنٹنگ کا استعمال دنیا کے ہر شعبے میں ہو رہا ہے جیسا کہ چینی کے ظروف، جوتے، کھلونے، ٹیکسٹائل، انڈسٹری، ائیرکرافٹ، کار، صحت، تعمیرات، ٹوائیز، فلم انڈسٹری،  سپیس اور حتی کہ جنگی سامان بھی اسی سے تیار ہورہا ہے-

صحت :

صحت کے شعبے میں ڈاکٹرز کی بہت زیادہ مدد دینے والا کوئی فرشتہ نہیں اور فرشتے سے کم بھی نہیں،وہ انسان کا خود تیار کردہ تھری ڈی پرنٹر ہے-تھری ڈی پرنٹر کی بدولت انسانی اعضاء بنائے جا رہے ہیں جیسا کان، ناک اور انگلیاں اور حتی کہ کچھ اعضا بھی بنائے گئے ہیں جو کہ ٹرا نسپلانٹیشن کیلئے استعمال ہو رہے ہیں-سپین میں کینسر کا مریض جس کی چھاتی میں کینسر تھا اُس کی زندگی بچانے کے لیے تھری ڈی پسلیاں لگا دی گیں-دھات کو پرنٹ کرنے کی ٹیکنالوجی کے باعث سپین کے سرجن اس قابل ہوئے کے اپنی مرضی کے مطابق اعضاء کو پرنٹ کر سکیں-ان پسلیوں کو آسٹریلیا کی ایک کمپنی نے پرنٹ کیا پسلیاں پرنٹ کرنے کے لیے سپین سے پہلے مریض کا ہائی ریزولوشن تھری ڈی سی ٹی سکین ڈیٹا لیا گیا-اس کےلیے انہوں نے مریض کی چھاتی کا ماڈل بھی دوبارہ بنایا-جس پرنٹر سے یہ اعضاء پرنٹ کیے ہیں اس کی مالیت تیرہ (۱۳)لاکھ ڈالر ہیں-

خون کی شریانیں :

تھری ڈی پرنٹر سے خون کی شریانیں بھی پرنٹ کی جاسکتی ہیں-ماہرین نے جو خون کی شریانیں پرنٹ کی ہیں وہ اس طرح کام کریں گی جیسے جسم میں موجود اصل انسانی شریانیں  ان کو پرنٹ کرنے کے لیے خلیے،مواد کو حیاتیاتی سیاہی اور دوسرے جسم دوست اجزاء کے ساتھ پرنٹ کیا جو کچھ وقت کے بعد قدرتی طور پر کام کرنے لگیں-ماہرین نے جو شریانیں پرنٹ کی ہیں وہ دیکھنے میں اصل شریانوں جیسی نہیں لگتی مگر ماہرین کو امید ہے کہ انہیں مستقبل میں انسانی شریانوں کی طرح بنا لیں گے-

دل:

ڈاکٹروں کےلیے دل کی سرجری اُس وقت بہت آسان ہوسکتی ہے جب وہ مریض کے دل کو آپریشن سے پہلے پرنٹ کر کے اُس کی جانچ کر سکیں-اس سلسلے میں ایم آئی ٹی(MIT) اور بوسٹن چلڈرن ہوسپیٹل نے اہم قدم اُٹھایا ہے-ایم آر آئی سکین کو بلیو پرنٹ کے طور پر استعمال کر تے ہوئے ڈاکٹر مریض کے آپریشن سے تین(۳) گھنٹے پہلے اس کے دل کا ماڈل پرنٹ کر سکتےہیں-یہاں تک ہی نہیں ماہرین نے اس کے ذریعے وہ انسانی اجزاء جو منتقل ہو سکتے ہیں جیسا کہ گردے،آنکھ ، دل، جگر اور پھیپھڑے پرنٹ کیے ہیں جن کی عطیہ کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے-

اگر صرف صحت کی شعبے پر تھری ڈی پرنٹر کی خدمات کا اندازہ لگایا جائے تو آج تک جو مصنوعی انسانی اعضاء بنائے جا رہے ہیں وہ تھری ڈی پرنٹر کی مرہون منت ہیں-تھری ڈی پرنٹر سے ایسے چھوٹے کیمرے بنائے جا چکے ہیں جو جسم میں کام کرسکتے ہیں- ماہرین چاہتے ہیں کہ مستقبل میں تھری ڈی پرنٹر سے دوا کی ترسیل کا کام لیا جائے-ایم آئی ٹی کے ریسرچرز نے تھری ڈی پرنٹر استعمال کرتے ہوئے ایسا سٹرکچر بنایا ہے جو مخصوص درجہ حرارت پر اپنی ہیت تبدیل کر کے مخصوص شکل اختیار کر لیتاہے-

تھری ڈی پرنٹر سے خلائی صنعت کو فروغ:

تھری ڈی پرنٹر سے کسی بھی چیز کا تھری ڈی ماڈل پرنٹ کیا جا سکتا ہے-تھری ڈی پرنٹر اب تک پلاسٹک، دھات اور شیشے کی چیزیں بنا سکتا تھا لیکن اب ’’ایچ آر ایل لیباریٹری‘‘نے اس حوالے سے اہم پیش رفت کی ہے کہ اب ’’3ڈی پرنٹر‘‘چینی کے ظروف اور ٹائلیں بھی پرنٹ کرے گا-اس پیشرفت سے خلائی صنعت کوبھی فائدہ ہو گا-خلائی صنعت میں بہت سی چیزوں کا انحصار سرامک کے پارٹس پر ہوتا ہے-سرامکس سے ہی مدار میں گردش کرنے والے راکٹ کے ونگ پینل اور ا ندرونی میکانزم بنایا جاتا ہے-ڈارپا نے ایچ ایل آر کی ٹیم کے ساتھ سرامک کا ائیرواشیل بنانے کا معاہد کر لیا ہے-اس کے لیے خاص طور پر ایسی ہیٹ شیلڈ  (Heat Sheild)  بنائی جائے گی جو جہاز کے مدار میں آتے وقت رگڑ کو آسانی سے برداشت کر سکے-ایچ آر ایل کی ٹیم کا بنایا ہوا سرامک موجودہ تجارتی پیمانے پر بنائے جانے والے سرامک فوم سے دس(۱۰)گنا زیادہ مضبوط ہے-

خواتین کے لیے متعارف کردہ تھری ڈی پرنٹر:

برطانیہ میں ایک نجی کمپنی نے خصوصی طور پر گھریلو خواتین کے لیے ایسا منفرد   تھری ڈی پرنٹر متعارف کروایا ہے جس کے ذریعے خواتین عام پہننے کی جیولری، کھلونے ، برتن اور ڈیکوریشن پیس گھر بیٹھے اپنی مرضی سے منٹوں میں تیار کرسکتی ہیں -کیوب نامی اس پرنٹر میں پلاسٹک کا کارٹریج استعمال کیا جاتا ہے جو کمپیوٹرسے  ملنے والی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے پرنٹ کرتا ہے-جس سے نہ صرف انہیں فائدہ ہوگا بلکہ ان کی فنکارانہ صلاحیتیں بھی سامنے آئیں گی-

تھری ڈی پرنٹر ریسٹورینٹ:

تھری ڈی پرنٹر صرف صحت،ٹیکنالوجی میں ہی نہیں بلکہ  ریسٹورنٹ میں بھی اپنی جگہ  بنا چکا ہے کنفیکشنری انڈسٹری میں تھری ڈی پرنٹر کی مدد سے چاکلیٹ اور کینڈیز کو پرنٹ کیا جا رہا ہے-کچھ کمپنیاں تھری ڈی پرنٹر کی مدد سے پودوں سے لیے گئے پروٹین کی مدد سے گوشت یا اس کے متبادل کو پرنٹ کرنے پر غور کر رہی ہے-دنیا میں چار مشہور ریسٹورینٹ جن میں فوڈ انک ریسٹورنٹ(Food Ink Restaurant)، ملیس ریسٹورینٹ  (Melies Restaurant)بار سیلونا میں لااینوٹیکا ہوٹل آرٹ (La Enoteca at Hotel Arts, Barcelona) اور لابوسکنا (La Boscana) شامل  ہیں جن میں آپ تھری ڈی پرنٹر کی مدد  سے مزے مزے کے کھانےکھاسکتے ہیں-یہ ریسٹورنٹس کھلے تو ہر کسی کے  لیے ہوتے ہیں مگر ان کی  بُکنگ  کرنا کوئی آسان کام نہیں-ان ریسٹورنٹس میں لامحدود قسم کے کھانے بنائے جاتے ہیں تھر ی ڈی پرنٹر کو ان ریسٹورینٹ میں شامل کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ بہت سے ایسی ڈشز جو ہاتھ سے تیار نہیں کی جاسکتی وہ تھری ڈی پرنٹر کی مدد سے تیار کی جاتی ہیں-جس کی تیاری کے مراحل کودیکھ کر کھانے والے بہت زیادہ حیران اور  خوش دکھائی ہوتے ہیں-

انسان کی آواز پر کام کرنے والا حیرت انگیز تھری ڈی پرنٹر:

تھری ڈی ٹیکنالوجی کی حامل فلمیں تو دنیا بھر میں متعارف ہو چکی ہیں لیکن اب جاپان میں ایسا منفرد تھری ڈی پرنٹر پیش کیا گیا ہے جو صر ف انسان کی آواز پر ہی حرکت میں آجاتا  ہے-اس کو خصوصی طور پر بچوں کے لئے تیار کیا گیا ہے جو اپنے اندر نصب کئے گئے سینسرز اور جدید سسٹم کی بدولت انسانی آواز کی صورت میں ملنے والی ہدایات پر عمل کرتا ہے-اس پرنٹر کو ذہنی و جسمانی معذور بچوں کی تربیتی اداروں اور سکولوں میں رکھا گیا ہے جہاں بچے اپنے من پسند کارٹون  ، کردار اور دیگر چیزوں کی 3ڈی ماڈل نکلوا کر خوش ہوتے اور ان سے کھیلتے ہیں-

فوج کے لیے تھری ڈی پرنٹر سے غذا کی تیاری:

امریکی فوج کے غذائی محقق اپنی افواج کےلئے روایتی کھانوں کی بجائے تھری ڈی پرنٹر سے پرنٹ  کیے کھانوں پر تحقیق میں مشغول ہیں اُن ماہرین کا کہنا ہے کہ میدان جنگ میں فو جیوں کے لیے تھری ڈی  پرنٹ سے تیار کھانا روایتی کھانے سے اچھا اور جلد تیار ہونے والا ہو گا اور فوجیوں کی غذائی ضروریات کے عین مطابق ہو گا-اس وقت امریکی فوج کے معیارات کے مطابق کھانے کو زیادہ سے زیادہ تین (۳)سال تک محفوظ کیا جا سکتا ہے-لیکن تھری ڈی پرنٹر سے مدت بڑھائی جا سکتی ہے-

تھری ڈی ائیر کرافٹس :

سائنسدانوں نے دنیا کے  تھری ڈی پرنٹر سے بنے جہاز کی کامیابی سے پرواز کی ہے-سائنسدانوں کی رپورٹ کی مطابق یہ مکمل طور پر پرنٹنگ ٹیکنالوجی کی مدد سے ممکن ہو سکاجس کو  مکمل ہونے تک ایک ہفتہ درکا ر ہے-یہ تمام کریڈٹ تھری ڈی پرنٹر بنانے والے کو جاتا ہے  اس میں کوئی جوڑ نہیں حتی کہ اس کے حرکت کرنے والے حصے بھی یک مشت پرنٹ کیے گئے-

تھری ڈی مکانات:

چائنہ میں تھری ڈی پرنٹر سے دس (۱۰)گھر تعمیر کئے گئے جس کو مکمل تعمیر کرنے کے لیے سال،مہینے،ہفتے نہیں بلکہ صر ف چوبیس گھنٹے درکار ہیں  اور اگلے ہی دن وہ گھر استعمال ہونے کے قابل بھی ہے-جس کی لاگت پانچ ہزار (۵۰۰۰)امریکن ڈالرہے-روس میں سخت سردی کے دنوں میں گھر تعمیر کرنا بہت مشکل ہوتا ہےروس کی کمپنی ایپس کور (Apis Cor) نے تھری  ڈی پرنٹر سے اس مشکل کو حل کر دیا-تھری ڈی پرنٹرنے چوبیس (۲۴) گھنٹوں میں گھر تعمیرکر کے سب کو حیران کر دیا جس کو تعمیر کرنے کی لاگت دس ہزار (۱۰۰۰۰)امریکی ڈالر آئی-

روز مرہ کی دیگر اشیا کیلئے تھری ڈی پرنٹر:

تھری ڈی پرنٹر کی انقلاب آفرینیوں میں جھانک کر انسان ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ ’’دُنیا کیا سے کیا ہو جائے گی‘‘-روز مرہ کی اشیاء کیلئے الگ سے تھری ڈی پرنٹر تیار کئے جا رہے ہیں جن سے ضرورت کی ہر چیز منٹوں سیکنڈوں میں آپ کو دستیاب ہو گی-مثلاً : آپ کو اب مارکیٹوں میں گھوم پھر کر ذلت اٹھانے کی بجائے کشتیوں اور گاڑیوں کے مختلف چھوٹے بڑے پرزے بنانے کی سہولت آپ کا پرنٹر مہیا کیا کرے گا ، کسی بھی طرح کا پرزہ آپ بنانا چاہتے ہیں صرف اس کا تھری ڈی ڈایا گرام بنائیں اور سیکنڈوں میں پرزہ آپ کے ہاتھ میں ہو گا-اگر آپ بی ایم ڈبلیو یا مرسڈیز کے مالک ہیں اور گاڑی کا سائیڈ شیشہ ٹوٹ گیا ہے تو آپ کو ہزاروں روپے بھرنے کی بجائے آپ کا پرنٹر بالکل اوریجنل کی مانند کا ’’سائیڈ مرر‘‘بنا کر دے گا-اِسی طرح آپ اپنی کسی بھی گاڑی کا  بونٹ، ڈگی اور کھڑکیاں وغیرہ گاڑیوں کے برینڈ کے ڈایا گرام پہ بھی اور اپنی مرضی کے ڈایا گرام پہ بھی بنا سکیں گے-وہ لوگ جو مختلف  ورکشاپس اور چھوٹی فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں وہ سیکنڈوں میں ضروری اوزار و ہتھیار تیار کر سکیں گے-حتیٰ کہ اگر لوگ چاہیں کہ ’’ری موو ایبل‘‘فرش ان کے گھر میں ہوں تو وہ بھی دستیاب ہوں گے کہ آپ ’’کمبی نیشن‘‘ کے مطابق ٹائلیں اور رگز وغیرہ پرنٹر پہ ہی نکال سکیں گے- اس کے علاوہ  وال پیپر ، میز،کرسیاں ، لیمپ غرضیکہ ضرورت کی ہر چیز محض سیکنڈوں میں بنائی جا سکے گی  -یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سوشل تقریبات کے ڈیکوریٹرز کا سب سے بڑا انحصار اب تھری ڈی پرنٹر پہ منتقل ہو جائے گا-

ٹیکنالوجی کی دنیا میں تھری ڈی نے ایک نیا قدم رکھا ہے اور مستقبل قریب میں یہ ہر گھر کی ایک اہم ضرورت ہوگا-ترقی پذیر ممالک جیسا کہ پاکستان میں اس انڈسٹری کو فروغ دینے کی ضرورت ہے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر