افریقہ قدرتی وسائل سے مالا مال براعظم ہے مگر آج کی جدید دنیا میں بھی اس کے زیادہ تر ممالک ترقی کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں-ماضی میں اس کی کئی نسلیں انسانی لالچ،طاقت کے خمار،قدرتی وسائل پر قبضے اورنسل پرستی کی بھینٹ چڑھ گئیں-طاقت و معاشی کھینچاتانی میں براعظم افریقہ کے لوگ آج بھی دنیا میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کے سائے میں اپنی رنگت اور نسل کی وجہ سے مسائل سے دو چار ہیں-افریقہ کے ایک ایسے ہی ملک،جنوبی افریقہ کے باشندوں نے تقریباً پانچ صدیوں پر محیط آزادی کی ایک طویل جنگ لڑی ہے اور بالآخر اب عالمی برادری کے ساتھ ترقی کا سفر طے کر رہا ہے- جب بھی جنوبی افریقہ کا نام سامنے آتا ہے تو ذہن میں آنے والی چیزوں میں سے ایک قانونِ نسل پرستی( Law Apartheid) اور دوسرا نیلسن منڈیلا(Nelson Mandela)ہیں کیونکہ نیلسن منڈیلا کی قانونِ نسل پرستی کے خلاف جدوجہد سے افریقہ میں آنے والے انقلاب کو بیسویں صدی کا ایک عظیم انقلاب گردانا جاتا ہے-
جغرافیائی
دنیا کے خوبصورت ممالک کی فہرست میں شامل ملک جنوبی افریقہ ،بر اعظم افریقہ کے جنوب میں واقع ہے اور بارہ لاکھ انیس ہزار نوے(۱۲۱۹۰۹۰) مربع کلومیٹر پر محیط ہے جِس کے نو صوبے ہیں اور اس کی ساحلی پٹی ستائیس ہزار اٹھانوے (۲۷۰۹۸)کلومیٹر طویل ہے- اِس کی سرحدیں ’’بوٹسوانا‘‘ سے اُنیس سو (۱۹۰۰)کلومیٹر،زمبابوے سے دو سو تیس (۲۳۰)کلومیٹر, سوئیز لینڈ سے چار سو (۴۰۰)کلومیٹر ،نیمبیا سے ایک ہزار (۱۰۰۰)کلومیٹر،لیسوتھو سے گیارہ سو (۱۱۰۰)کلومیٹر اور موزمبیق سے تقریباً پانچ سو (۵۰۰)کلومیٹر ملتی ہیں-جنوبی افریقہ کے دارلحکومت کیپ ٹاؤن کے ساتھ ساتھ جوہانسبرگ، ڈربن،پریٹوریا اور پورٹ الزبتھ مشہور صنعتی شہر ہیں اور سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں-جنوبی افریقہ کو خطے میں جغرافیائی اور معاشی طور پر اہم ملک تصور کیا جاتا ہے-یہاں کی شرح ِ خواندگی تقریباً نوے فیصد (%۹۰)ہے-
اسلامی تاریخ:
براعظم افریقہ میں اسلام کی آمد ساتویں صدی میں اصحابہ کرام ()کی ہجرت سے ہوئی -جنوبی افریقہ میں اسلام کی آمد برطانیہ حکومت کے دوران ایشیاء(انڈونیشیا اور بر صغیر )سے گنے کی کاشت کے لیے لائے گئے غلاموں سے ہوئی جِن میں مشہور زمانہ آخری ’’ملاکن‘‘ سلطان شیخ عبداللہ مطب شاہ (Sheikh Abdul Rehman Matebe Shah) قابلِ ذکر ہیں جنہیں ڈچ حکومت نے سلطنتِ ملاکن پر قبضے کے بعد افریقہ میں غلام کے طور پر بھیج دیا جہاں آپ نے غلاموں میں اسلام کی تبلیغ کی اور آپ کا مزار کلائین کونستانتیا(Klein Constantia) میں واقع ہے -اسی طرح شخصیت،شیخ یوسف کی تعلیمات کی بدولت جنوبی افریقہ میں پہلے باقاعدہ اسلامی معاشرے کی بنیاد پڑی، آپ کا مزار فیور (Faure) میں واقع ہے-برطانوی راج کے دوران اور بعد ازاں قانونِ نسل پرستی کی وجہ سے مسلمانوں کو بھی مشکلات کا سامنا رہا جِس کی وجہ سے جنوبی افریقہ میں مسلمان کل آبادی کا صرف دو فیصد ہیں- انیس سو نوے سے موجودہ دور تک (یاد رہے اِسی وقت قانونِ نسل پرستی ختم ہوا تھا) جنوبی افریقہ میں تقریباً ایک لاکھ مسلمان تجارتی مقاصد کی غرض سے آباد ہوئے ہیں-
نوآ بادیاتی تاریخ:
افریقہ میں آبادکاری کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے جِس کا اندازہ وہاں سے ملنے والے انسانی ڈھانچوں سے لگایا گیا ہے- مگر افریقہ کی باقاعدہ لکھی ہوئی تاریخ کے تانے بانے ہمیں مغربی نو آبادیات کے آنے کے بعد خصوصاً ڈچ قابضین کے دور میں ملتے ہیں جِن کے مطابق جنوبی افریقہ کے مقامی باشندے (سیاہ فارم)’’کھوئسان‘‘ کے نام سے مشہور تھے-براعظم افریقہ کی طرح جنوبی افریقہ کی تاریخ بھی سیاہ بادلوں کے لبادہ میں لپٹی ہے جِس سے آج بھی وہاں قابضین کے ستائے ہوئے مظلوم انسانوں کی آہیں بلند ہو تی ہیں جو انسانیت پر لرزہ طاری کر دیتی ہیں -مغربی نو آبادیاتی دور میں جنوبی افریقہ پر سب سے پہلے قبضہ ’’ڈچ‘‘ حکومت نے کیا جو۱۶۵۲ء میں سمندری تجارتی راستے میں آرام گاہ بنانے کی غرض سے افریقہ کے ساحلی پٹی (جو اس وقت کیپ آف گڈ ہوپ (Cape of Good hope) کے نام سے جانی جاتی تھی) پر پہنچی اور ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی(Dutch East India Company) کے احکامات پر وہاں قلعہ تعمیر کیا اور آہستہ آہستہ تمام علاقے پرپھیلنا شروع ہو گئے انہوں نے مقامی باشندوں کو غلام بنا لیا جِن کے ساتھ انسانوں سے بھی بدترین سلوک کیا گیاجِن کی تفصیل جوزف کونراڈ کے مشہور ِزمانہ ناول،’’تاریکی کا مرکز‘‘(Heart of Darkness) میں درج ہیں کہ کِس طرح سفید فام باشندوں نے تجارت اور تہذیب کے نام پرافریقہ میں مظالم ڈھائے-پہلے وہاں کے لوگوں کو غلام بنایا جاتا اور انسانوں سے بد تر سلوک کیا جاتا،اگر کوئی غلام کام کے قابل نہ ہوتا تو اسے کھلے آسمان میں مرنے کے لیے پھینک دیا جاتا-جِس طرح جوزف کونراڈ لکھتے ہیں کہ:
‘‘They were dying slowly-it was clear. They were not enemies, they were not criminals and they were nothing earthly now,-nothing but Black shadows’’[1]
’’یہ واضح تھا کہ وہ مر رہے تھے- وہ دشمن نہ تھے، وہ مجرم نہ تھے اور وہ اب انسان نہیں تھے بلکہ سیاہ سائے کے سوا کچھ نہ تھے‘‘-
اس علاقے میں ڈچ فوج کے ساتھ ساتھ جرمن اور فرانسیسی باشندے بھی آباد ہونے لگے جو کہ افریقنار یا بوئرز( Afrikaner farmers, or Boers)کے نام سے پہچانے جانے لگے- ۱۷۹۵ء میں برطانوی سامراج باقی دنیا کی طرح افریقہ کی سر زمین پر پہنچا اور ڈچ قبضہ کا خاتمہ کر کے نئے قبضہ کی بنیاد رکھی- انیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں دو بڑے واقعات نے افریقہ کی قانونِ نسل پرستی(apartheid)کی بنیاد رکھی-
v برطانوی سامراج سے تنگ مقامی باشندوں (سیاہ فام )نے شاکا (Shaka) کی قیادت میں ذولو(Zulu) بادشاہت کا اعلان کر دیا –
v ڈچ قبضہ کے دورانیہ میں جنوبی افریقہ میں آباد ہونے والے یورپی باشندوں کی طرف سے افریقنار یا بوئرز( Afrikaner farmers, or Boers)کی گریٹ تریک تحریک(Movement The Great Trek) کا آغاز جِس کا مقصد بارہ ہزار (۱۲۰۰۰)سے زائد لوگوں کی آباد کاری کے لیے زمین کا حصول تھا-
۱۸۳۸ء کو ذولو (Zulu) فوج اور افریقنار یا بوئرز( Afrikaner farmers, or Boers) کے درمیان خونی جنگ ( The Battle of Blood River) ہوئی جِس میں افریقی نیزے اور چمڑے کی ڈھالیں بندوقوں کا مقابلہ نہ کر سکیں کیونکہ تقریباً پانچ سو (۵۰۰)بوئرز کے مقابلے میں دس ہزار زولو آرمی شکست کھا گئی اور بوئرز (Boers) ناتل (Natal )نامی علاقے، موجودہ ڈربن (Durban)میں ذولو باشندوں کو شکست دے کر رہائش پذیر ہو گئے - برطانوی سامراج نے اِس جنگ کے بعد بوئرز (Boers) کو ایک الگ ( The Orange Free State )کے نام سے مشہور علاقہ رہائش کے لیے دے دیا- بوئرز (Boers) نے برطانوی سامراج کے زیر اثر خودمختار علاقے میں آباد مقامی باشندوں کے علاقے پر قبضہ کی کوششیں شروع کر دی جو کہ اس وقت ( The Orange Free State ) کا حصہ تھا - اِس علاقے کے بادشاہ میوشیشو (King Moshoeshoe) نے برطانوی سامراج سے درخواست کی کہ ان کے علاقے کو (The Orange Free State )الگ کر دیا جائے جس کی بنیاد پر برطانوی سامراج نے اِس علاقے کو ۱۸۶۸ء کو (Lesotho) کے نام سے ایک الگ ریاست بنا دیاجِس نے بعد میں ۱۹۶۶ء کو افریقہ پر حکومت کرنے والے سفید فام برطانوی سامراج کی نمائندہ حکومت سے آزادی حاصل کی اور آج بھی جنوبی افریقہ کے اندر خود مختار ملک کی حیثیت سے قائم ہے-۱۸۶۷ء میں دریافت ہونے والے معدنیات (سونا اور ہیرے ) نے افریقہ میں آباد برطانوی سامراج کے زیر اثر ریاستوں کو برطانوی حکومت کے خلاف لا کھڑا کیا جِس پر برطانوی سامراج نے تمام کو شکست دے کر پورے کیپ آف گڈ ہوپ (Cape of Good hope) (موجودہ جنوبی افریقہ) پر قبضہ کر لیا-
۱۸۹۹ء میں جنوبی افریقہ میں آباد سفید فام باشندوں میں ایک بار پھر معاشی برتری کے لیے جنگ شروع ہو گئی جِس کو اینگلو- بوئر وار(The Anglo-Boer War) کہتے ہیں جِس میں برطانیہ کامیاب رہا مگر دونوں طرف سے افریقی غلاموں کو ایک دوسرے کے ساتھ لڑوایا گیا جِس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اِس جنگ میں جنوبی افریقہ کی کل آبادی کے پچاس فیصد (%۵۰)سیاہ فام بچے مارے گئے- لیکن ساتھ ساتھ اس جنگ نے سیاہ فام باشندوں کو خودمختاری کی شمع دی کیونکہ برطانوی سامراج مرکز میں حکومت کمزور ہونے کی وجہ سے اِس علاقے پر مزید حکومت کے اہل نہ رہے لیکن انہوں نے مقامی باشندوں کی امیدوں اور سڑسٹھ فیصد (%۶۷)سیاہ فام لوگوں کو ملحوظِ خاطر لائے بغیراُس وقت کی چار ریاستوں ’’ Cape Colony, Natal Colony, Transvaal Colony and Orange River Colon ‘‘ کو یکجا کر کے موجودہ جنوبی افریقہ کے حکومتی معاملات سفید فام لوگوں کے حوالے کر دیا اور سٹیچو آف ویسٹ منسٹر ایکٹ (Statute of Westminster act) کے تحت اپنے زیر اثر خودمختار ریاست کا اعلان کر تے ہوئے ۳۱ مئی ۱۹۱۰ءکو جنوبی افریقہ کو نوآبادیاتی نظام سے آزادی دے دی -اِس دِن کو ’’یونین آف افریقہ ڈے‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے - آزادی کے بعد سیاہ فام لوگوں کو اور بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ سفید فام لوگوں نے سیاہ فام لوگوں کے خلاف نت نئے قوانین(جِن کی تفصیلات آگے مضمون میں بیان ہیں) بنادیے - اس کے خلاف باقاعدہ طور پر جدوجہد کا آغاز ۸ جنوری ۱۹۱۲ءکو ساؤتھ افریقن نیٹو نیشنل کانگرس (South African Native National Congress) کی صورت میں کیا گیا جِسے بعد میں افریقن نیشنل کانگریس کا نام دیا گیا-
۱۹۱۴ء میں سفید فام باشندوں نے نیشنل پارٹی بنائی جِس کا مقصد جنوبی افریقہ کو صرف سفید فام لوگوں کی زمین (مطلب برطانوی حکومت کے اثرو رسوخ کو ختم کر کے بوئرز کے لیے آزادخودمختار ملک کا قیام)بنانا تھا-۱۱دسمبر۱۹۳۱ء میں نیشل پارٹی کی پارلیمنٹ میں اکثریت نے جماعت کو اپنا مقصد پورا کرنے کا موقع دیا جِس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جنوبی افریقہ کی پارلیمنٹ نے بیل فور ڈکلیریشن (Balfour Declaration of 1926)کے تحت یو نین ایکٹ پیش کرتے ہوئے آزاد خودمختار ریاست کا اعلان کردیا اور سٹیچو آف ویسٹ منسٹر ایکٹ (Statute of Westminster act) کو ختم کر دیا-اِس دن کو برطانوی راج سے یومِ آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے مگر ملک میں قومی تعطیل نہیں ہوتی - ۱۹۶۱ء کو جنوبی افریقہ کامن ویلتھ سے نکل گیا اور ریپبلک آف ساؤتھ افریقہ کا اعلان کر دیا -تیس لاکھ (۳۰۰۰۰۰۰)سیاہ فام لوگوں کو سفید فام باشندوں کے علاقے سے زبردستی نکالا گیا اور پرتشدد واقعات میں بہت سے لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے- افریقن نیشنل کانگریس پر پابندی لگا کر نیلسن منڈیلا کو عمر قید کی سزا دی گئی -۱۹۸۴ءمیں پورے ملک میں قانونِ نسل پرستی کے خلاف سیاہ فام باشندے اٹھ کھڑے ہوئے-۱۹۸۹ء میں ایف-ڈبلیو-ڈی -کلرک( F.W. de Klerk) ملک کے صدر بنے اور قانونِ نسل پرستی کا خاتمہ کرتے ہوئے۲۷ اپریل۱۹۹۴ءکو پہلے مکمل جمہوری الیکشن کا انعقاد ہوا جس میں نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر بنے -۲۷ اپریل کو جنوبی افریقہ میں یوم ِآزادی کے طور پر منایا جاتاہے-
قانونِ نسل پرستی( Law Apartheid):
نو آبادیات سے آزادی شائد صرف سفید فام لوگوں کے لیے تھی کیونکہ آزادی کے بعدسفید فام حکومت نے جنوبی افریقہ میں سفید فام اور سیاہ فام کے لیے الگ الگ قوانین اور طرزِ زندگی واضح کیے جِس کی مثال ہمیں مختلف قوانین سے ملتی ہیں- ۱۹۴۸ءکو سفید فام حکومتی باشندوں کی طرف سے جنوبی افریقہ میں باقاعدہ قانونِ نسل پرستی (Law Apartheid)بنایا گیاجس کے تحت سفید فام الگ، سیاہ فام الگ اور براؤن لوگ(ایشیاء کے لوگ) الگ الگ قانون کے تحت جیتے تھے- نیلسن منڈیلا اپنی کتاب ’’آزادی کا طویل سفر‘‘ (A Long Walk to Freedom ) میں تحریر کرتے ہیں کہ:
v قانونِ زمین ۱۹۱۳ء ( Land Act 1913 ) : جِس کے تحت جنوبی افریقہ کی نوے فیصد (%۹۰)زمین کی ملکیت سفید فام لوگوں کو دے دی گئی-
v قانونِ شہری علاقہ جات ۱۹۲۳ء( 1923 The Urban Area Act) : جِس کے تحت شہروں میں سفید فام اور سیاہ فام لوگوں کی الگ الگ رہائش گاہیں تعمیر کی گئیں-
v قانونِ مقامی انتظامی امور۱۹۲۷ء (Native Administrative Act 1927 )جِس کے تحت مقامی افراد کو حکومت کے انتظامی امور سے فارغ کر دیا گیا-
v قانونِ مقامی نمائندگیِ ۱۹۳۶ء (Representation of Native Act) :جِس کے تحت سیاہ فام لوگوں کو حکومت نہ کرنے حتیٰ کہ ووٹ کرنے کے حق سے بھی محروم کر دیا-[2]
مزید نیلسن منڈیلا نسلی تعصب کی انتہا کے بارے میں کچھ یوں لکھتے ہیں کہ:
An African child is born in an African hospital only, taken home in an African bus only, live in an African area only, and attend African school only, if he attended school at all[3].
’’ایک افریقی بچہ صرف افریقی ہسپتال میں پیدا ہوتا،صرف افریقی بس میں گھر لے جایا جاتا،صرف افریقی علاقہ میں رہتا اور صرف افریقی سکول میں جاتا،اگر وہ سکول جا پاتا‘‘-
یعنی ایک افریقی بچہ جس ہسپتال میں پیدا ہوتا اس کے دروازے پر لکھا ہوتا ہے صرف افریقی ، وہ جِس علاقے میں رہتا ہے ، جِس بس میں گھر جاتا ہے اور جِس سکول میں پڑھتا ہے اگر سکول میں داخل کرایا جاتا ہے تو ان سب پر صرف افریقی کا لیبل چسپاں ہوتا -اِن تمام باتوں کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے تو اِس بات کو کہنے میں کوئی عار نہیں کہ۱۹۱۰ء میں سفید فام افریقی باشندوں کی آزادی اور سیاہ فام باشندوں کی اپنے ہی ملک میں،اپنی ہی حکومت سے اپنے ہی حقوق کی مسلسل جدوجہد کو جلا ملی کیونکہ سیاہ فام افراد کو ۲۷ اپریل ۱۹۹۴ء میں ان کے حقوق دیے گئے اور تب سے جنوبی افریقہ میں یومِ آزادی ۲۷اپریل کو منایا جاتا ہے-
نیلسن منڈیلا(Nelson Mandela):
نسل پرستی قوانین کے خلاف اٹھنے والی آوازوں میں ایک آواز نیلسن منڈیلا کی تھی جو ۱۹۱۸ءکو پیدا ہوئے اور غلامی کی زندگی کے خلاف ایک مضبوط آواز بن کر ابھرے- غلامی کے خلاف بغاوت کی وجہ سے تئیس (۲۳)سال جیل میں گزاری ( اِس جیل کو۱۹۹۰ءکے بعد میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا) نیلسن منڈیلا کی جدوجہد۱۹۹۰ء میں رنگ لائی جب نیلسن منڈیلا کو آزادی دی گئی اور انہوں نے اُس وقت ملک کے صدر ایف-ڈبلیو-ڈی -کلرک( F.W. de Klerk) کے ساتھ مل کر نیا آئین تشکیل دیا-نئے آئین کی تشکیل سے قانونِ نسل پرستی کا اختتام ہوا اور انیس سو چورانوے میں ہونے والے انتخابات میں نیلسن منڈیلا افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر(۱۹۹۹-۱۹۹۴) بنے اور قانونِ نسل پرست کے بقیہ وجود کا بھی خاتمہ کیا - نیلسن منڈیلا کی شخصیت اور جدوجہد کی اہمیت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نیلسن منڈیلا کا مجسمہ جنوبی افریقہ کی یونین بلڈنگ(صدارتی ہاؤس) کے باہر رکھا گیا ہے اور پوری دنیا میں نیلسن مینڈیلا کو عزت و احترام سے دیکھا و سراہا جاتا ہے-نیلسن منڈیلا اپنی جدوجہد کی کامیابی کا سہرا قائد اعظم کو دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ قائد اعظم میرے ہیرو ہیں کیونکہ کہ میں نے اُن سے بہت رہنمائی لی ہے-۱۹۹۲ءمیں جب نیلسن منڈیلا پاکستان کے دورے پر آئے تو براہِ راست اسلام آباد آنے کی بجائے کراچی جانے کو ترجیح دی اور کہا کہ وہ پہلے کراچی جائیں گے اور اپنے ہیرو کے مزار پر جا کر اُن کو خراجِ تحسین پیش کر کے ہی کوئی اور کام کریں گے-
سیاحت :
جنوبی افریقہ دنیا میں خوبصورتی کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے –۲۰۱۵ءمیں جنوبی افریقہ کا شہر کیپ ٹاؤن (Cape Town) دنیا کابارہواں (۱۲)خوبصورت شہر قرار پایا- کیپ ٹاؤن اپنی مشہور بندرگاہ کے ساتھ مشہور پہاڑی چوٹیوں کا حامل ہے جِس میں لایئنزہیڈ (Lion's Head)اور ٹیبل ماؤنٹین (Table Mountain)زیادہ اہم ہیں-جنوبی افریقہ کا شہر جوہانسبرگ (Johannesburg) سونے کے شہر کے نام سے جانا جاتا ہے اور خوبصورتی میں اپنی مثال خود ہے- کروگر نیشنل پارک (Kruger National Park) دنیا کا وہ پارک ہے جو وسیع رقبے پر مشتمل ہونے کے ساتھ ساتھ بیک وقت کئی طرح کے قدرتی موسموں کی آغوش میں رہتا ہے-روبن آئی لینڈ (Robben Island) سترہویں صدی سے لے کر بیسیویں صدی تک افریقہ میں جیل کے طور استعمال کیا جاتا تھا-نیلسن منڈیلا کو بھی اِسی جیل میں بند کیا گیا اور اب یہ ایک میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا ہے-بلیڈ ریور کیون نیچر ریزور (Blyde River Canyon Nature Reserver) دنیا کی ایسی خوبصورت ترین وادی ہے جس کو قدرت کی کھڑکی(God's window) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے-یہ وادی ’’موپو ملنگا‘‘نامی شہر کے پاس واقع ہے- جنوبی افریقہ میں کئی خوبصورت مقام ہیں جہاں ہر سال لاکھوں سیاح لطف اندوز ہونے جاتے ہیں جن کی تعداد اگست دو ہزار سولہ میں آٹھ (۸)ملین تھی-جنوبی افریقہ کو ۲۰۱۵ءمیں سیاحت سے ایک سو اکسٹھ (ا۶ا)بلین ڈالر آمدنی ہوئی جو کہ جی ڈی پی کا سات فیصد (%۷) تھی-
معیشیت:
آزادی سے پہلے(Pre-Independence):
۱۸۷۰ءمیں جنوبی افریقہ میں آنے والے معدنیاتی انقلاب(Mineral Revolution) سے پہلے یہ خطہِ زمین صرف کاشت کاری اور ذرخیز زمین کی وجہ سے مشہور تھا - مگر ۱۸۶۷ءاور ۱۸۸۶ء میں کمبرلے (Kimberley) نامی علاقہ میں ہیروں اور وٹواٹرسینڈ(Witwatersrand)میں سونے کے ذخائر کی دریافت نے افریقہ میں صنعتی انقلاب برپا کرد یا- مگر شائد آزادی کی طرح یہ انقلاب بھی صرف سفید فام لوگوں کے لیے تھا کیونکہ جنوبی افریقہ میں لگائی گئی فیکٹریوں میں نہ صرف افریقہ کے سیاہ فام باشندوں بلکہ پوری دنیا سے لوگوں کو غلام بنا کرکام لیا گیا-اگر کوئی قبیلہ یا غلام اِن کے احکامات یا اقدامات کے خلاف مزاحمت کرتا تو ان پر حملہ کر دیا جاتا اور جدید اسلح کے مقابلے میں وہ قبائلی لکڑی کے بھالوں سے لڑنے پر مجبور ہوتے اور کئی ساتھیوں کا نذرانہ پیش کرنے کے بعد اگلی صبح پھر قابض افواج کی غلامی پر مجبور ہوتے - قابضین کے لیے صنعتی انقلاب کا اس وقت مطلب افریقہ سے قدرتی وسائل کو مقامی لوگوں سے چھین کر اپنے ملک میں لے جانا تھا کیونکہ آج اگر بر اعظم افریقہ کی حالت دیکھی جائے تو یہ بخوبی سمجھ آتی ہے-
آزادی کے بعد(Post-Independence ):
۱۹۹۰ءمیں قانونِ نسل پرستی کے خاتمے کے بعد جنوبی افریقہ پر لگی معاشی پابندیاں بھی ہٹا دی گئیں -پابندیاں ختم ہوتے ہی جنوبی افریقہ کے دنیا کے مختلف ممالک سے تجارتی تعلقات استوار ہوئے اور جنوبی افریقہ دنیا میں ایک ابھرتی معیشت کے طور پر سامنے آیا جِس کا اندازہ اِس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جنوبی افریقہ، براعظم افریقہ کے ممالک میں معاشی طور پر دوسرے نمبر پر موجود ہے اور دو ہزار چودہ میں ورلڈ بنک کے مطابق جنوبی افریقہ درمیانی آمدنی والے ممالک (upper middle-income country) کی فہرست میں ٹاپ پوزیشن میں اپنا مقام رکھتا ہے-۲۰۱۳ءمیں جنوبی افریقہ کی شرحِ جی -ڈی-پی تقریباً تین فیصد (%۳) رہی جبکہ ملک میں مسلسل دو سال سے توانائی خصوصاً پاور سپلائی کے مسائل کی وجہ سے ۲۰۱۵ءمیں شرحِ جی -ڈی-پی کم ہو کر تقریباً دو فیصد (%۲)رہی- جنوبی افریقہ میں دنیا کے سب بڑے پیمانے پہ سونے اور پلاٹینیم کی کان کنی کی جاتی ہے-اس کی برآمدات برائے سال ۲۰۱۵ء تقریباً نوے (۹۰)بلین امریکی ڈالر ہیں جِن میں سونا ، ہیرے اور پلاٹینیم سر فہرست ہیں جبکہ درآمدات برائے سال ۲۰۱۵ء بھی تقریبا نوے (۹۰)بلین امریکن ڈالر ہیں - جنوبی افریقہ میں ۲۰۱۲ءکے ایک محتاط اندازے کے مطابق پندرہ (۱۵)ملین بیرل آئل کے ذخائر اور گیس کے پندرہ (۱۵)بلین کیوبک فٹ کے ذخائر موجود ہیں - جنوبی افریقہ افریقن یونین،اقوامِ متحدہ اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشنز کا ممبر ہے-
پاکستان سے تعلقات:
جنوبی افریقہ پر قانونِ نسل پرستی کی وجہ سے کامن ویلتھ نے پابندیاں عائد کر رکھی تھیں- ۱۹۹۰ءمیں پابندیوں کے خاتمہ کے بعد سفارتی تعلقات کا آغاز ہوا- پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان تجارت،کھیل اور سفارتی تعلقات باقاعدہ طور پر ۱۹۹۴ء میں شروع ہوئے-پاکستان اور جنوبی افریقہ میں تجارت اپنے ابتدائی مراحل سے گزر رہی ہے جو کہ ایک بلین ڈالر کی سطح پر ہے مگر پاکستان چین کے ساتھ مل کر سی پیک کی مدد سے افریقہ کے ساتھ تجارت میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے کیونکہ جنوبی افریقہ کی سب سے زیادہ تجارت(تقریباً نو (۹)بلین ڈالر ) چین کے ساتھ ہے -پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف پہلے پاکستانی جنرل تھے جنہوں نے ۲۰۱۵ءمیں جنوبی افریقہ کا دورہ کیا اور دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون پر زور دیا گیا-جنوبی افریقہ نے پاکستان فوج کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں اور دہشتگردی کے خلاف کامیاب آپریشن ضربِ عضب کو سراہتے ہوئے اپنی فوج کی پاکستانی فوج کے ساتھ تربیتی مشقوں اور پیشہ وارانہ صلاحیت بڑھانے کی خواہش ظاہر کی- دونوں ممالک کے درمیان سفارتی سطح پر کئی حکومتی دورے ہوئے جِن کی مدد سے تعلقات میں بہتری اور تجارتی حجم بڑھانے کا عزم کیا گیا ہے-پاکستان کو سفارتی تعلقات استعمال کرتے ہوئے چاہیے کہ وہ جنوبی افریقہ کے مختلف کھیلوں کے دستوں،ثقافتی نمائندوں اور سکالرز کو پاکستان میں آنے کی دعوت دے نیز پاکستان کے جنوبی افریقہ میں ہائی کمیشن وہاں کی حکومت کے ساتھ مل کر جنوبی افریقی عوام و حکومتی نمائندوں کے ذہنوں میں پاکستان کے مثبت پہلوؤں کو اُجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں –
٭٭٭