مشرقِ وسطیٰ کی تزویراتی صورتحال

مشرقِ وسطیٰ کی تزویراتی صورتحال

مشرقِ وسطیٰ کی تزویراتی صورتحال

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ ستمبر 2017

مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیرِ اہتمام نیشنل لائبریری آف پاکستان، اسلام آباد میں ’’مشرقِ وسطیٰ کی تز ویراتی صورتحال‘‘ کے موضوع پر راؤنڈ ٹیبل ڈسکشن کا اہتمام کیا-سابق سفیر  جناب علی سرور نقوی نے سیشن کی صدارت کی جبکہ عزت مآب ولید ابو علی (سفیر فلسطین)، ڈاکٹر طغرل یامین (ڈین،سی آئی پی ایس،نسٹ)، عزت مآب جاؤپالو صبیدو کوسٹا (سفیر پرتگال)، لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی (سابق سیکریٹری ڈیفنس) ، ڈاکٹر ظفر اقبال چیمہ (صدر، سٹریٹیجک ویژن انسٹیٹیوٹ) اور عزت مآب ایم ایم الاصحابی (سفیر یمن)  نے ڈسکشن میں حصہ لیا-  

مقررین کی جانب سے کیے  گئے تبصروں کا مختصر خلاصہ ذیل میں ہے:

مشرقِ وسطیٰ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہیں پر تین (3)بڑے مذاہب اسلام، عیسائیت اور یہودیت کا ظہور ہوا-مسلمانوں کی دنیا میں کل آبادی ڈیڑھ ارب ہے جس میں سے تقریباً 20فیصد سر زمینِ عرب میں آباد ہےجبکہ یہودیوں اور عیسائیوں کی بھی ایک بڑی تعداد مشرق وسطیٰ میں آباد ہے- دوسرا اہم پہلومشرقِ وسطیٰ میں تیل کی موجودگی ہے- مشرقِ وسطیٰ کے ممالک ایران، عراق، کویت، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اوپیک کے ممبران ہیں جو کہ اندازاً دنیا کی تیل کی کل پیداوار کا  40 فیصد پیدا کرتے ہیں جس میں سعودی عرب سرِ فہرست ہے-    

مشرقِ وسطیٰ میں نا اتفاقی اور نظریاتی و سیاسی تقسیم پائی جاتی ہے- اس کے علاوہ یہاں  پر عوام اور حکومت کے درمیان فاصلے بہت زیادہ ہیں اور دہشت گردی کا شکار ہے-مشرقِ وسطیٰ میں حالیہ دور بلکہ تاریخ کا ایک بہت بڑا المیہ بہت بڑے پیمانے پر انسانی ہجرت کی صورت میں رونما ہوا ہے-اندرونی مسائل، تفرقات اور کھینچا تانی کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتیں بھی اپنے مفادات کے لئے اس آگ کو بھڑکانے کی ذمہ دار ہیں- 

مشرقِ وسطیٰ کے موجودہ اور مستقبل کے حالات میں  نو آبادیاتی اثرات کا واضح کردار ہے-نو آبادیاتی نظام کے اختتام پر ممالک کو اس طرح تقسیم کیا گیا کہ وہ  سامراجی طاقتوں کے دستِ نگر رہیں-وہ ممالک جنہوں نے خود مختاری کا راستہ اختیار کیا وہاں حکومتوں کی تبدیلی کی کوشش کی گئی-اس ضمن میں لیبیا،عراق اور شام کی مثالیں قابلِ ذکر ہیں-مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کی کشمکش میں عالمی طاقتوں کی جنگی قوت کی موجودگی کا اہم کردار ہے جو  خطے  کے مستقبل کا تعین اپنی مرضی سے چاہتی ہیں-غیر ریاستی عناصر اور دہشت گرد تنظیمیں بھی بہت اہمیت اختیار کر گئی ہیں  اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ بات واضح کی جائے کہ ان تنظیموں  کے مالی وسائل، اسلحہ اور تربیت کی فراہمی کا ذمہ دار کون ہے؟ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کوئی معمولی دہشت گرد تنظیمیں نہیں بلکہ ان  کا مشرقِ وسطیٰ کے آنے والے حالات  میں اہم کردار ہو سکتا ہے-سعودی عرب اور ایران کے اختلافات بہت سے تنازعات کا سبب بنے ہیں مشرقِ وسطیٰ کی پالیسیوں میں غیر علاقائی ممالک  کا بھی عمل دخل ہے-جیسا کہ  ایران اور شام  کو چین اور روس کی حمایت حاصل ہے جبکہ سعودی عرب کو امریکہ اور مغربی ممالک سپورٹ کر رہے ہیں-

علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر ہمیں عالمی برادری کےمشرقِ وسطیٰ میں مفادات کا جائزہ لینا ہو گا-سب سے پہلا مفاد اسرائیل کا تحفظ ہے جو کہ 1948ء میں مقبوضہ فلسطین کی زمین پر وجود میں لایا گیا-اسرائیل کا بطور جمہوریہ تشخص کا پرچار کیا گیا تاکہ مغربی طاقتیں مالی و فوجی امداد کے ذریعے خطے میں اسرائیل کی بالادستی قائم رکھ سکیں-مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال میں ایک اہم پہلو فلسطین اسرائیل تنازعہ ہے جس میں فلسطینیوں کی سرزمین پر قبضہ کے ساتھ ان کو بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے-اسرائیل کی جانب سے فلسطین میں ڈھائے جانے والے مظالم اور زیادتیاں انسانی سمجھ سے بالاتر ہیں-فلسطین اسرائیل تنازعہ کی موجودگی میں مشرقِ وسطیٰ کے مسائل کا حل بعید از قیاس ہے-عالمی برادری کو معصوم فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم میں معاون بننے کی بجائے اسرائیل پر بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کے لیے زور دینا چاہیے-      

  1973ء کی جنگ میں تیل کے بطور ہتھیار استعمال کے بعد مغرب کو عالمی سیاست میں تیل کی اہمیت کا اندازہ ہوا- پہلی اور دوسری خلیجی جنگ کا مقصد خطے میں تیل و گیس کی سپلائی کا کنٹرول تھا-اسی طرح تجارتی منڈی خواہ فوجی ہو یا سویلین ، ان کے کنٹرول کا حصول ہے-  عا لمی طاقتوں کے لیے مشرقِ وسطیٰ کی تجارتی منڈی کا تحفظ لازمی ہے تاکہ کسی بھی اقتصادی بحران سے نمٹ سکیں-مغربی دنیا تک تیل کی بلا تعطل  سپلائی کے لیے ان کے لیے  تجارتی منڈی کا کنٹرول ضروری ہے-ان مفادات کے حصول کے لیے مشرقِ وسطیٰ کو غیر مستحکم کیا جارہا ہے -

ہمیں سب سے پہلے ان عوامل کا تعین کرنا ہے جو انارکی کی بجائے خطے  میں امن کا قیام چاہتے ہیں- یہ سوال بھی قابل غور ہے کہ  اگر ہم وہاں کےاصل  حالات سے واقف ہیں، تو متاثرہ ممالک اور عوام بحرانی کیفیت سے نمٹنے کے قابل کیوں نہیں ہیں؟ اس بحران کے پاکستان پر ممکنہ اثرات کا بھی جائزہ لینا چاہیے ۔  یقیناً خطے میں بسنے والے لوگ وہاں  امن چاہتے ہیں- کچھ علاقائی حکمران بھی امن کے طلب گار ہیں جبکہ بعض کسی بھی قیمت پر پورے علاقے پر اپنی بالادستی چاہتے ہیں-اسلحہ ساز کارپوریشنز اپنے اسلحے کی مستقل فروخت کے لیے خطے میں بدامنی کی موجودہ فضا کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں- دوسرا سوال کہ علاقائی ممالک اور عوام بحران کے حل میں کامیاب کیوں نہیں ہو رہے؟  اس ضمن میں جان پرکن کی کتاب اکنامک ہٹ مین (Economic Hit Man) میں کیے جانے والے انکشافات یہ واضح کرتے ہیں کہ کس طرح بحران کے ذمہ دار بین الاقوامی عوامل عالمی معیشت کو کنٹرول کرتے ہیں اور کس طرح وہ میڈیا کے ذریعے لوگوں کے نظریات پر اثر انداز ہوتے ہیں-تیسرا، کس طرح متاثرہ ممالک اور عوام ان مسائل سے نکل سکتے ہیں؟ اس کے لیے انہیں عالمی طاقتوں کے ہتھکنڈوں کا عمیق جائزہ لینا ہوگا اور اسی حساب سے جوابی پالیسی تشکیل دینا ہو گی-آخر میں پاکستان کی کیا پالیسی ہونی چاہیے؟پاکستان کو اپنے اندرونی حالات کیوجہ سے اور فرقہ واریت کی  موجودہ صورتحال میں ’’دیکھو اور انتظار کرو‘‘کی پالیسی پر عمل کرنا چاہیے-

 وقفہ سوال وجوابات :

وقفہ سوال وجوابات کا مختصر جائزہ ذیل میں دیا گیا ہے:

موجودہ صورتحال میں مختلف وجوہات کی بناء پر پاکستان، سعودی عرب اور ایران کے مابین محدود کردار ہی ادا کر پا رہا ہے- پہلی داخلی وجہ یہ ہے کہ  پاکستان  فرقہ وارانہ تقسیم کا متحمل نہیں ہو سکتا-پاکستان زمینی اعتبار سے بھی مشرقِ وسطیٰ کے مسائل میں گھرے ممالک کے اتنا قریب نہیں ہے کہ براہ راست مداخلت کے ذریعے  کردار ادا کر سکے -

ایران کے روس اور چین کی حکومتوں کے ساتھ خوشگوار سیاسی تعلقات استوار ہیں- مشرقِ وسطیٰ کے ممالک ایران سے بڑی معیشتوں کے حامل ہیں لیکن ایران معاشی طور پر زیادہ آزاد ہے-تاریخی لحاظ سے، پاکستان کا کردار بین الاسلامی اور بین العرب تنازعات میں غیر جانبدار رہا ہے- پاکستان نے ہمیشہ معاون کے طور پر کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے- جب ساٹھ کی دہائی میں مصر اور شام کے مابین تنازعہ کھڑا ہوا اور اسی کی دہائی میں عراق ایران جنگ ہوئی تو حکومتِ پاکستان نے بحران کے حل کے لیے متعدد مصالحتی مشن روانہ کیے-  

صہیونیت  کا بنیادی عزم مسلمانوں میں انتشار پھیلانااور عظیم تر اسرائیل کا قیام ہے- دنیا عراق ، لیبیا ، شام، فلسطین اور یمن کے حالات سے اچھی طرح باخبر ہے-اس بہت بڑے پیمانے پر برپا ہونے والے انسانی بحران کے نتیجے میں ہر دس منٹ میں ایک بچے کی موت واقع ہو رہی ہے-بین الاقوامی قانون کی عملداری کہاں ہے؟دنیا نے اس بحران پر اپنے لب سی لیے ہیں-مشرق وسطیٰ کے موجودہ حالات کے تناظر میں  پاکستان اور ترکی معاشی اور دفاعی تعاون  سے مثبت  کردار ادا کر سکتے ہیں-

 

٭٭٭

مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیرِ اہتمام نیشنل لائبریری آف پاکستان، اسلام آباد میں ’’مشرقِ وسطیٰ کی تز ویراتی صورتحال‘‘ کے موضوع پر راؤنڈ ٹیبل ڈسکشن کا اہتمام کیا-سابق سفیر  جناب علی سرور نقوی نے سیشن کی صدارت کی جبکہ عزت مآب ولید ابو علی (سفیر فلسطین)، ڈاکٹر طغرل یامین (ڈین،سی آئی پی ایس،نسٹ)، عزت مآب جاؤپالو صبیدو کوسٹا (سفیر پرتگال)، لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی (سابق سیکریٹری ڈیفنس) ، ڈاکٹر ظفر اقبال چیمہ (صدر، سٹریٹیجک ویژن انسٹیٹیوٹ) اور عزت مآب ایم ایم الاصحابی (سفیر یمن)  نے ڈسکشن میں حصہ لیا-

مقررین کی جانب سے کیے  گئے تبصروں کا مختصر خلاصہ ذیل میں ہے:

مشرقِ وسطیٰ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہیں پر تین (3)بڑے مذاہب اسلام، عیسائیت اور یہودیت کا ظہور ہوا-مسلمانوں کی دنیا میں کل آبادی ڈیڑھ ارب ہے جس میں سے تقریباً 20فیصد سر زمینِ عرب میں آباد ہےجبکہ یہودیوں اور عیسائیوں کی بھی ایک بڑی تعداد مشرق وسطیٰ میں آباد ہے- دوسرا اہم پہلومشرقِ وسطیٰ میں تیل کی موجودگی ہے- مشرقِ وسطیٰ کے ممالک ایران، عراق، کویت، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اوپیک کے ممبران ہیں جو کہ اندازاً دنیا کی تیل کی کل پیداوار کا  40 فیصد پیدا کرتے ہیں جس میں سعودی عرب سرِ فہرست ہے-    

مشرقِ وسطیٰ میں نا اتفاقی اور نظریاتی و سیاسی تقسیم پائی جاتی ہے- اس کے علاوہ یہاں  پر عوام اور حکومت کے درمیان فاصلے بہت زیادہ ہیں اور دہشت گردی کا شکار ہے-مشرقِ وسطیٰ میں حالیہ دور بلکہ تاریخ کا ایک بہت بڑا المیہ بہت بڑے پیمانے پر انسانی ہجرت کی صورت میں رونما ہوا ہے-اندرونی مسائل، تفرقات اور کھینچا تانی کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتیں بھی اپنے مفادات کے لئے اس آگ کو بھڑکانے کی ذمہ دار ہیں- 

مشرقِ وسطیٰ کے موجودہ اور مستقبل کے حالات میں  نو آبادیاتی اثرات کا واضح کردار ہے-نو آبادیاتی نظام کے اختتام پر ممالک کو اس طرح تقسیم کیا گیا کہ وہ  سامراجی طاقتوں کے دستِ نگر رہیں-وہ ممالک جنہوں نے خود مختاری کا راستہ اختیار کیا وہاں حکومتوں کی تبدیلی کی کوشش کی گئی-اس ضمن میں لیبیا،عراق اور شام کی مثالیں قابلِ ذکر ہیں-مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کی کشمکش میں عالمی طاقتوں کی جنگی قوت کی موجودگی کا اہم کردار ہے جو  خطے  کے مستقبل کا تعین اپنی مرضی سے چاہتی ہیں-غیر ریاستی عناصر اور دہشت گرد تنظیمیں بھی بہت اہمیت اختیار کر گئی ہیں  اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ بات واضح کی جائے کہ ان تنظیموں  کے مالی وسائل، اسلحہ اور تربیت کی فراہمی کا ذمہ دار کون ہے؟ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کوئی معمولی دہشت گرد تنظیمیں نہیں بلکہ ان  کا مشرقِ وسطیٰ کے آنے والے حالات  میں اہم کردار ہو سکتا ہے-سعودی عرب اور ایران کے اختلافات بہت سے تنازعات کا سبب بنے ہیں مشرقِ وسطیٰ کی پالیسیوں میں غیر علاقائی ممالک  کا بھی عمل دخل ہے-جیسا کہ  ایران اور شام  کو چین اور روس کی حمایت حاصل ہے جبکہ سعودی عرب کو امریکہ اور مغربی ممالک سپورٹ کر رہے ہیں-

علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر ہمیں عالمی برادری کےمشرقِ وسطیٰ میں مفادات کا جائزہ لینا ہو گا-سب سے پہلا مفاد اسرائیل کا تحفظ ہے جو کہ 1948ء میں مقبوضہ فلسطین کی زمین پر وجود میں لایا گیا-اسرائیل کا بطور جمہوریہ تشخص کا پرچار کیا گیا تاکہ مغربی طاقتیں مالی و فوجی امداد کے ذریعے خطے میں اسرائیل کی بالادستی قائم رکھ سکیں-مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال میں ایک اہم پہلو فلسطین اسرائیل تنازعہ ہے جس میں فلسطینیوں کی سرزمین پر قبضہ کے ساتھ ان کو بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے-اسرائیل کی جانب سے فلسطین میں ڈھائے جانے والے مظالم اور زیادتیاں انسانی سمجھ سے بالاتر ہیں-فلسطین اسرائیل تنازعہ کی موجودگی میں مشرقِ وسطیٰ کے مسائل کا حل بعید از قیاس ہے-عالمی برادری کو معصوم فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم میں معاون بننے کی بجائے اسرائیل پر بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کے لیے زور دینا چاہیے-      

 1973ء کی جنگ میں تیل کے بطور ہتھیار استعمال کے بعد مغرب کو عالمی سیاست میں تیل کی اہمیت کا اندازہ ہوا- پہلی اور دوسری خلیجی جنگ کا مقصد خطے میں تیل و گیس کی سپلائی کا کنٹرول تھا-اسی طرح تجارتی منڈی خواہ فوجی ہو یا سویلین ، ان کے کنٹرول کا حصول ہے-  عا لمی طاقتوں کے لیے مشرقِ وسطیٰ کی تجارتی منڈی کا تحفظ لازمی ہے تاکہ کسی بھی اقتصادی بحران سے نمٹ سکیں-مغربی دنیا تک تیل کی بلا تعطل  سپلائی کے لیے ان کے لیے  تجارتی منڈی کا کنٹرول ضروری ہے-ان مفادات کے حصول کے لیے مشرقِ وسطیٰ کو غیر مستحکم کیا جارہا ہے -

ہمیں سب سے پہلے ان عوامل کا تعین کرنا ہے جو انارکی کی بجائے خطے  میں امن کا قیام چاہتے ہیں- یہ سوال بھی قابل غور ہے کہ  اگر ہم وہاں کےاصل  حالات سے واقف ہیں، تو متاثرہ ممالک اور عوام بحرانی کیفیت سے نمٹنے کے قابل کیوں نہیں ہیں؟ اس بحران کے پاکستان پر ممکنہ اثرات کا بھی جائزہ لینا چاہیے ۔  یقیناً خطے میں بسنے والے لوگ وہاں  امن چاہتے ہیں- کچھ علاقائی حکمران بھی امن کے طلب گار ہیں جبکہ بعض کسی بھی قیمت پر پورے علاقے پر اپنی بالادستی چاہتے ہیں-اسلحہ ساز کارپوریشنز اپنے اسلحے کی مستقل فروخت کے لیے خطے میں بدامنی کی موجودہ فضا کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں- دوسرا سوال کہ علاقائی ممالک اور عوام بحران کے حل میں کامیاب کیوں نہیں ہو رہے؟  اس ضمن میں جان پرکن کی کتاب اکنامک ہٹ مین (Economic Hit Man) میں کیے جانے والے انکشافات یہ واضح کرتے ہیں کہ کس طرح بحران کے ذمہ دار بین الاقوامی عوامل عالمی معیشت کو کنٹرول کرتے ہیں اور کس طرح وہ میڈیا کے ذریعے لوگوں کے نظریات پر اثر انداز ہوتے ہیں-تیسرا، کس طرح متاثرہ ممالک اور عوام ان مسائل سے نکل سکتے ہیں؟ اس کے لیے انہیں عالمی طاقتوں کے ہتھکنڈوں کا عمیق جائزہ لینا ہوگا اور اسی حساب سے جوابی پالیسی تشکیل دینا ہو گی-آخر میں پاکستان کی کیا پالیسی ہونی چاہیے؟پاکستان کو اپنے اندرونی حالات کیوجہ سے اور فرقہ واریت کی  موجودہ صورتحال میں ’’دیکھو اور انتظار کرو‘‘کی پالیسی پر عمل کرنا چاہیے-

 وقفہ سوال وجوابات :

وقفہ سوال وجوابات کا مختصر جائزہ ذیل میں دیا گیا ہے:

موجودہ صورتحال میں مختلف وجوہات کی بناء پر پاکستان، سعودی عرب اور ایران کے مابین محدود کردار ہی ادا کر پا رہا ہے- پہلی داخلی وجہ یہ ہے کہ  پاکستان  فرقہ وارانہ تقسیم کا متحمل نہیں ہو سکتا-پاکستان زمینی اعتبار سے بھی مشرقِ وسطیٰ کے مسائل میں گھرے ممالک کے اتنا قریب نہیں ہے کہ براہ راست مداخلت کے ذریعے  کردار ادا کر سکے -

ایران کے روس اور چین کی حکومتوں کے ساتھ خوشگوار سیاسی تعلقات استوار ہیں- مشرقِ وسطیٰ کے ممالک ایران سے بڑی معیشتوں کے حامل ہیں لیکن ایران معاشی طور پر زیادہ آزاد ہے-تاریخی لحاظ سے، پاکستان کا کردار بین الاسلامی اور بین العرب تنازعات میں غیر جانبدار رہا ہے- پاکستان نے ہمیشہ معاون کے طور پر کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے- جب ساٹھ کی دہائی میں مصر اور شام کے مابین تنازعہ کھڑا ہوا اور اسی کی دہائی میں عراق ایران جنگ ہوئی تو حکومتِ پاکستان نے بحران کے حل کے لیے متعدد مصالحتی مشن روانہ کیے-  

صہیونیت  کا بنیادی عزم مسلمانوں میں انتشار پھیلانااور عظیم تر اسرائیل کا قیام ہے- دنیا عراق ، لیبیا ، شام، فلسطین اور یمن کے حالات سے اچھی طرح باخبر ہے-اس بہت بڑے پیمانے پر برپا ہونے والے انسانی بحران کے نتیجے میں ہر دس منٹ میں ایک بچے کی موت واقع ہو رہی ہے-بین الاقوامی قانون کی عملداری کہاں ہے؟دنیا نے اس بحران پر اپنے لب سی لیے ہیں-مشرق وسطیٰ کے موجودہ حالات کے تناظر میں  پاکستان اور ترکی معاشی اور دفاعی تعاون  سے مثبت  کردار ادا کر سکتے ہیں-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر