صدام اور قذافی قتل کے چند حقائق

صدام اور قذافی قتل کے چند حقائق

صدام اور قذافی قتل کے چند حقائق

مصنف: توفیق الرحیم مہر ستمبر 2017

مشرقِ وسطیٰ کا خطہ اپنے قدرتی وسائل اور محلِ وقوع کے باعث تمام دنیا کے لئے اہمیت رکھتا ہے اور یہاں پر امن یا جنگ، دونوں سے تقریباً دنیا کے تمام ہی ممالک بلا واسطہ یا بالواسطہ متاثر ہوتے ہیں-مشرق وسطیٰ میں جاری حالیہ عدمِ استحکام کی لہر گزشتہ ڈیڑھ عشرہ سے جاری ہے اور اس کی ابتدا عراق پر بیرونی جارحیت سے ہوئی-اس کے بعد سے یہ خطہ استحکام کی جانب واپس نہیں لوٹ سکا اور کبھی عرب بہار، کبھی خانہ جنگی اور کبھی عالمی و علاقائی طاقتوں کے مابین کھینچا تانی نظر آتی ہے-اس تمام پس منظر نے آنے والی دنیا کے لیے مشرقِ وسطیٰ کی تصویر ہی بدل کر رکھ دی ہے-

اس ڈیڑھ عشرہ میں جہاں کئی نامور  حکومتوں کے تختے الٹے گئے ہیں وہیں مسلمان دنیا  کے دو بڑے حکمران  ’’صدام حسین اور’’معمر  قذافی‘‘ کو موت کی بھینٹ چڑھایا گیا-ان کی ایسی موت جس کا کسی نے چند سال قبل تک تصور بھی نہ کیا تھا،کچھ سوالات  کو جنم دے گئی ہے کہ دو بڑے عرب ڈکٹیٹرز پہ جو قیامت برپا ہوئی ہے  اس کے پس پردہ حقائق کیا تھے؟ صدام حسین اور معمر قذافی کو کیوں شہید کیا گیا؟ان کا قصور کیا تھا؟ اس ضمن میں بہت سی متضاد و متصادم باتیں (Conspiracies)بھی موجود  ہیں اور مختلف لوگ اس کی مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں-

زیرِ نظر مضمون میں  ہم چند مغربی دانشوروں اور جرائد کو دیکھتے ہیں کہ ان میں سے کچھ کی رائے کیا ہے -

صدام حسین کی شہادت کے پس پردہ چند حقائق:

معیشت کسی بھی ملک کی حیات ہوتی ہے کیونکہ ایک اچھی معیشت کےبغیر ملک ہمیشہ متزلزل و غیر مستحکم رہتا ہے-ملک کے استحکام، شرحِ جرائم، ثقافت، سائنس و ٹیکنالوجی ، غربت اور  ملکی ترقی کا براہِ راست تعلق اس کی معیشت کے  ساتھ ہوتا ہے- ڈاکٹر سٹیفن سی پیلیٹیری(Stephen C Pelletiere) جو سٹریٹجک سٹڈیز انسٹیٹیوٹ سے تعلق رکھتےہیں، 1988ءسے مشرقِ وسطیٰ کے ماہرکے طور پر جانے جاتے ہیں اور واشنگٹن میں انٹیلی جنس افسر کے طور پر ’’ایران-عراق‘‘جنگ کی نگرانی کے فرائض سر انجام دے چکے ہیں،وہ  اپنی کتاب’’Iraq and the International Oil System: Why America Went to War in the Gulf‘‘میں لکھتے ہیں :

“One of the main economic objectives is the Protection of oil wealth that will be useful for the reconstruction of the country and put an end to the large black market”. [1]

’’عراق جنگ کے پیچھے اہم معاشی مقاصد میں سے ایک تیل کی دولت پر قبضہ جو ملک (عراق )کی تعمیر نو کے لئے مفید ثابت ہو گا اور جس سے  بڑی بلیک مارکیٹ پراس کی  اجارہ داری مضبوط ہو گی ‘‘-

امریکی مصنف (Carl Kaysen)  کارل کیسن  اپنے آرٹیکل   ’’War with Iraq  ‘‘میں  لکھتے ہیں کہ:

“Iraq’s oil resources could satisfy current U.S. oil imports for almost a century”.[2]

’’عراق کے تیل کے وسائل تقریباً ایک صدی کیلئے موجودہ امریکی تیل کی درآمد کو پورا کر سکتے ہیں ‘‘-

امریکی مصنف  (David Hale)  ڈیوڈ حیل اپنے آرٹیکل    ’’Iraq: Long-Term Costs and Benefits ‘‘میں لکھتے ہیں کہ:

“The $100 billion spent in 2003 for the war against Saddam Hussein will result in substantial savings in the future”. [3]

’’2003ء میں صدام حسین کے خلاف جنگ میں خرچ  کیے  گئے100 ارب ڈالر مستقبل میں کافی بچت کا باعث بنیں  گے‘‘-

اسی طرح خطے میں اسرائیلی مفادات کے تحفظ اور اس ضمن میں صدام حسین اور صدام کے عراق کے متعلق مغربی پالیسیز کے حوالہ سے کچھ مصنفین کی رائے کا جائزہ لیتے ہیں-

امریکی مصنف Peter Schweizer اور Rochelle Schweizer اپنی  کتاب ’’The Bushes: Portrait of a Dynasty‘‘  میں لکھتے  ہیں:

Deeply devoted to the Israeli cause- An emotional visit to the Holy Land in 1998 linked his Christian faith with the fate of the Israeli people in a deeply personal way. [4]

’’(جارج بش جو اس وقت امریکی صدر تھے وہ) اسرائیلی کاز کے لئے مکمل وقف تھے-1998ء میں مقدس سر زمین کے ایک دورےمیں ان کے عیسائی عقائد اسرائیلی عوام کی قسمت کے ساتھ انتہائی ذاتی سطح پر منسلک ہوئے‘‘-

اسرائیل  میں مغرب کا بڑھتا اثر و رسوخ عراق کی  مرضی کے مخالف تھا اور صدام حسین مظلوم فلسطینی عوام کے ساتھ تھے- امریکی مصنفہ  Rita N- Renfrew اپنی کتاب ’’Sadam Hussain‘‘ میں لکھتی ہیں  کہ :

“Because of its strength and influence in the region, Iraq was the only Arab state capable of stopping Israel's gradual annexation of the occupied territories- Consequently, Israel had sought a way to neutralize Iraq's military might and concluded that one way to do this was to undermine Iraq's economic stability”. [5]

’’عراق وہ واحد عرب ملک تھا جو قوت اور خطے میں اثر و رسوخ کی وجہ سے  اسرائیل کی جانب سے  مقبوضہ علاقوں کی بتدریج اتصال کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے-اس کے نتیجے میں، اسرائیل نے عراق کی فوجی طاقت کو بے اثر کرنے کے لئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ایسا کرنے کے لیے ایک ہی راستہ  ہے، عراق کے معاشی استحکام کو کمزور کرنا ‘‘-

اسرائیل کی عرب ممالک کی سیاست  و اندرونی معاملات میں مداخلت  کی مغرب  کی طرف سے حمایت کی گئی  کیونکہ اسرائیلی ترقی پڑوسی ممالک کی تنزلی کے مرہونِ منت تھی جیسا کہ امریکی مصنف ، ڈانیل لیبر فیلڈ(Daniel Lieberfeld)اپنے آرٹیکل’’  Theories of Conflict and Iraq War ‘‘ میں لکھتے  ہیں:

“A secondary motive for the overthrow of the Iraqi regime, from a realist perspective, would be to increase the security of Israel, the main U-S- regional ally”. [6]

’’اسرائیل  جو امریکہ کا اہم اتحادی ہے  اس کی  سیکیورٹی کے بنیادی مقصد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے عراق کا انہدام ضروری  امر  تھا‘‘-

اسرائیلی جس کی توسیع کے لئے  امریکہ اور صیہونی اتحاد نے  کوششیں کیں اور اس مقصد کی خاطر بے پناہ مسلمانوں کو  اسرائیلیوں نے موت کے بھینٹ چڑھایا-صدام حسین کی شہادت  میں بھی اسرائیل کے قیام اور توسیع  بنیادی محرکات تھے کیونکہ صدام اسرائیل کے غیر قانونی قبضہ کے سخت خلاف تھا -برطانوی عوام کے شدید رد عمل اور شدید مطالبہ پر سر جان چلکاٹ کی نگرانی میں عراق جنگ پہ  بننے والے  انکوائری کمیشن نے ’’بش - بلیئر‘‘ سازش اور ہٹ دھرمی کو بے نقاب کر دیا ہے اور نتائج میں بتایا ہے کہ عراق جنگ کا کوئی جواز نہ تھا کیونکہ جن الزامات کی بُنیاد پہ صدام حسین پہ جنگ مسلط کی گئی وہ الزامات کسی بھی طور ثابت نہیں ہو سکے - صدام حسین کے متعلق   امریکی و برطانوی حکومتوں کے مؤقف جھوٹ کے پلندوں کے سوا کچھ نہ تھے - سر جان چلکاٹ انکوائری رپورٹ کے مطابق جنگ مسلط کرنے والے دونوں دوست (بش اور بلیئر) جنگی مجرم یعنی ’’war criminal‘‘  ہیں -

معمر محمد قذافی کی شہادت کے چند محرکات:

لیبیا کے مرحوم صدر معمر قذافی  جنہیں عام طور پر کرنل قذافی کے طور پر جانا جاتا تھا، جن کے بارے میں مصنف مارٹن ایسر  Martin Aiser   اپنے آرٹیکل’’ The Muammar Gaddafi story‘‘میں لکھتے ہیں کہ:

‘‘He memorably challenged foreign oil executives by telling them "people who have lived without oil for 5,000 years can live without it again for a few years in order to attain their legitimate rights”. [7]

’’انہوں نے تمام بین الاقوامی تیل انتظامیہ کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ جس قوم نے 5 ہزار سال بغیر تیل کے گزارے ہوں وہ  اپنے جائز حقوق حاصل کرنے کے لئے مزید چند سال بھی بغیر تیل کے گزار سکتی ہیں ‘‘-

 امریکی مصنف براڈہوف (Brad Hoff) اپنے  آرٹیکل’’Hillary Emails Reveal True Motive for Libya Intervention‘‘ میں لکھتے ہیں  کہ:

“Newly disclosed emails show that Libya’s plan to create a gold-backed currency to compete with the euro and dollar was a motive for NATO’s intervention”. [8]

’’(ہیلری کلنٹن کی) لیک ہونے والی  ای میلز سے واضح ہوتا  ہے کہ لیبیا میں نیٹو کی مداخلت کی وجہ لیبیا کا سونے پر بنیاد کردہ کرنسی کا پلان تھا  جویورو اور ڈالر کا مقابلہ کرسکتی تھی‘‘-

“An extremely sensitive source confirmed that British, French, and Egyptian special operations units were training Libyan militants along the Egyptian-Libyan border, as well as in Benghazi suburbs”.

’’انتہائی حساس ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ برطانوی، فرانسیسی اور مصری خصوصی آپریشنز لیبیا میں عسکریت پسندوں کو لیبیا اور مصری سرحد کے ساتھ اور بن غازی کے قریب تربیت دیتے رہے‘‘-

مصنف براڈ ہوف مزید  قذافی کی حکومت پر بحث کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ :

“The email identifies French President Nicholas Sarkozy as leading the attack on Libya with five specific purposes in mind:

                     I.            to obtain Libyan oil,

                    II.            ensure French influence in the region,

                   III.           increase Sarkozy’s reputation domestically,

                   IV.            assert French military power, and

                    V.            to prevent Gaddafi’s influence in what is considered Francophone Africa”.

’’(ہیلری کلنٹن کی لیک ہونے والی ) ای میل سے اس بات کا پتہ چلا کہ فرانس کے صدر ’’نکولس سر کوزی‘‘نے ذہن میں پانچ (5)مخصوص مقاصد کے حصول کیلئے لیبیا پر حملے کی  سنبھالی  اور وہ مقاصدتھے: (1) لیبیا کے تیل کا حصول، (2)  اس علاقے میں فرانسیسی اثر و رسوخ کو یقینی بنانا، (3) مقامی سطح پر سرکوزی کی اثرو رسوخ میں اضافہ، (4) فرانسیسی فوجی طاقت کا دعوی اور (5) افریقہ میں قذافی کے اثر و رسوخ کو ختم کر کے فرانس کے مطابق افریقہ  کی  قسمت طے کرنا‘‘-

مصنف گریکائی چنگو(Garikai Chengu)اپنے آرٹیکل ’’Gaddafi’s Libya was Africa’s Most Prosperous Democracy  ‘‘میں لکھتے ہیں کہ:

“Muammar Gaddafi inherited one of the poorest nations in Africa. However, by the time he was assassinated, Libya was unquestionably Africa’s most prosperous nation. Libya had the highest GDP per capita and life expectancy in Africa and less people lived below the poverty line than in the Netherlands. Libyans did not only enjoy free health care and free education, they also enjoyed free electricity and interest free loans. The price of petrol was around $0.14 per liter and 40 loaves of bread cost just $0.15. Consequently, the UN designated Libya the 53rd highest in the world in human development”. [9]

’’معمر قذافی افریقہ کے ایک غریب ملک کا مالک تھا-تاہم، جب وہ مارا گیا، لیبیا اس وقت  بلاشک و شبہ افریقہ کا سب سے زیادہ خوشحال ملک تھا-افریقہ میں لیبیا کی جی ڈی پی اور زندگی کی شرح سب سے زیادہ تھی  حتیٰ کہ نیدر لینڈ (ہالینڈ) کے مقابلے میں لیبیا کے  کم لوگ غربت کی لکیر سے نیچے رہتے تھے-لیبیا کے باشندے نہ صرف مفت صحت اور تعلیم سے لطف اندوز  ہوتے تھے بلکہ مفت بجلی اور سود سے پاک قرضے حاصل کر سکتے تھے-پٹرول کی قیمت  0.14  ڈالر فی لیٹرتھی،  40روٹیوں کی لاگت صرف 0.15  ڈالر تھی-ان تمام اقدامات کے  نتیجے میں اقوام متحدہ نے انسانی ترقی  کے انڈیکس میں دنیا بھر میں 53 ویں اعلیٰ ترین ریاست  کا اعزاز لیبیا کے نام کیا‘‘-

زمبابوے نژاد برطانوی وکیل لویڈ مسیپا (Lloyd Msipa) اپنے ایک آرٹیکل’’The Assassination of Mummar Gaddafi illegal under International  Law‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:

“The issue in Libya is not so much about Gaddafi, but that his murder symbolises the final occupation of Libya. The [this was] re-colonisation of Libya by America and NATO forces. It is now a question of America and Europe doing exactly what they please in that country. Not only do they have access to the large oil and gas reserves, but also something the media rarely covers the large water reserves under the Libyan soil. Under international law there is no rational for the assassination of Mummar Gaddafi. The original reason, which was resolution 1973 which authorised the protection of civilians, was turned into a regime change instrument. The assassination of Mummar Gaddafi is a blunt admission by America, France and Britain that this crusade was not about protecting civilians, but about regime change. This was a breach of the UN regulations. This was a NATO/US operation in a scramble for Libyan oil”. [10]

’’لیبیا میں مسئلہ قذافی نہیں بلکہ اس کا قتل لیبیا پر حتمی قبضہ اور  امریکہ اور نیٹو کی طرف سے لیبیا کو دوبارہ نو آبادی بنانے کے عنصر کو ظاہر کرتا ہے -اِس بات سے یہ واضح ہے کہ امریکہ اور یورپ یہاں (لیبیا) میں وہی کر رہے ہیں جس سے ان کا ذاتی مفادپورے ہورہے ہیں-نہ صرف تیل و گیس  کے ذخائر  بلکہ یہ لیبیاکی زمین میں دوسرے قدرتی وسائل پر قبضہ ہے جنہیں میڈیا شاذ و نادر ہی کوریج دیتا ہے- بین الاقوامی قانون میں ایسی کوئی وجہ نہیں تھی جِس کی بنیاد پر معمر قذافی  کو قتل کیا جاتا-اصل وجہ یہ ہے کہ قرارداد 1973ءجو کہ شہریوں کے تحفظ کا حق دیتی ہے، کو بطور آلہِ حکومت پلٹ استعمال کیا گیا-معمر قذافی کا قتل امریکہ، فرانس اور برطانیہ کی طرف سے احمقانہ عمل ہے اور یہ جنگ عام شہریوں کی حفاظت  کی بجائے  حکو مت کی تبدیلی کے لیے لڑی گئی-یہ اقوام متحدہ کے ضوابط کی خلاف ورزی تھی-یہ جنگ اصل میں نیٹو اور امریکہ کی لیبیا کے تیل کے لیے کی گئی جارحانہ کوشش تھی‘‘-

لویڈ مسیپا اپنی  قانونی رائے پیش کرتے ہوئےمزید لکھتے ہیں: 

“Gadaffi’s principle crime was that he refused to take any loans from institutions like the IMF etc. He refused to join the club of International bankers and decided to set up his own Pan-Africanist bank that would have provided loans to African countries. Gaddafi’s Libya was the only African/Arab country that did not owe any country or institution any money”.

’’قذافی کا اصل جرم یہ  تھا کہ انہوں نے آئی ایم ایف وغیرہ جیسے عالمی اداروں سے قرضہ لینے سے انکار کیا تھا-اس نے بین الاقوامی بینکاروں کے کلب میں شامل ہونے سے انکار کر دیا اور اپنے ’’پان-افریقی بینک‘‘ مرتب کرنے کا فیصلہ کیا جو افریقی ممالک کو قرضے فراہم کرے-قذافی کے دورِ حکومت میں  لیبیا افریقی/عرب  ممالک میں وہ واحد ملک تھا جو کسی بھی ملک یا ادارہ کا مقروض نہیں تھا‘‘-

مغربی مصنف ’’ایس آوان‘‘ اپنے آرٹیکل ’’THE LIBYA CONSPIRACY  ‘‘میں لکھتے ہیں کہ:

“Why Libya Was Targeted, Firstly, the primary reason for the overthrow of Gaddafi and the forced ending of Libyan society was almost certainly so that the Colonialist, globalist powers can seize control of Libya's resources - oil, water, gold”. [11]

’’لیبیا کو کیوں نشانہ بنایا گیا تھا؟سب سے پہلے،قذافی کا تختہ الٹنے اور لیبیا کی معاشرے کے جبری اختتام کی بنیادی وجہ وہ عالمی اور نو آبادیاتی طاقتیں تھیں جو لیبیا کے نظام پر کنٹرول اور لیبیا کے وسائل تیل، پانی،سونےپر قبضہ کر نا چاہتی تھیں‘‘-

ایس آوان اِن عناصر پر روشنی ڈالتے ہوئےمزید لکھتے ہیں کہ:

“Gadaffi's plans were underway to introduce the gold dinar, a single African currency made from gold. British activist Dr James Thring told RT at the time, "it's one of these things that you have to plan in secret; because as soon as you say you're going to change from the dollar to something else, you are going to be targeted..." It was an initiative that would've radically altered the balance of the world, with oil-rich nations selling only for these gold dinars; countries' 'wealth' (and therefore their ability buy the oil) would depend on how much gold they had and not on how many dollars or how much false 'money' they had the ability to move around in an abstract economy. The US, for the record, has *no* gold; the Federal Reserve owns absolutely no gold at all and hasn't since 1934.

Gaddafi's plans were an enormous and immediate threat to the multi-national leviathans, the world's central banking institutions, the Rothschild Zionists and other Elites, and in short the entire criminal mafia that owns and runs our societies. The French criminal Sarkosy called Gaddafi "a threat to the financial security of all mankind”.

’’قذافی کی منصوبہ بندی جاری تھی کہ سونے کے دینار سے بنی ہوئی ایک ہی  افریقی کرنسی متعارف کروائیں-برطانوی سماجی کارکن ڈاکٹر جیمز ترانگ آر ٹی کو  بتاتے ہیں کہ ’’یہ ایک ایسی چیز ہے جس کی منصوبہ بندی آپ کو خفیہ طریقےسے کرنی ہوتی ہے؛ کیونکہ جیسے ہی آپ نے کہنا ہے کہ آپ ڈالر کو کسی اور چیز سے تبدیل کرنے جا رہے ہیں، آپ نشانہ بنائے جائیں گے‘‘--یہ ایک ایسا منصوبہ تھا جس نے دنیا کا توازن تیزی سے تبدیل کرنا تھا  اور تیل سے مالا مال قوتیں صرف ان سونے کے دینار یعنی ملک کی دولت اس بات پر انحصار کرتی کہ آپ کے پاس کتنا سونا ہے نہ کہ اس پر کہ ان کے پاس کتنے ڈالر یا  کتنا نقلی زرِ مبادلہ(ڈالر)  دنیا میں پھیلانے کی اہلیت رکھتے ہیں-امریکہ کوئی سونا نہیں رکھتا، وفاقی زر مبادلہ میں بالکل کوئی سونا نہیں تھا اور 1934ء سے اب تک کوئی سونا نہیں-قذافی کے منصوبے،بین الااقوامی مافیا، دنیا کے سنٹرل بینکنگ کی اداروں، روتھس چائلڈ‌صہیونی خاندان اور دیگر ایلیٹ بلکہ مختصراً تمام جرائم پیشہ  مافیا جو ہمارے معاشرےکو چلاتے ہیں ان کے لئے ایک بہت بڑا اور فوری خطرہ تھا-فرانسیسی مجرم سرکوزی،قذافی کے لئے کہتے تھے کہ  ’’تمام بنی نوع انسان کے مالی تحفظ کے لیے ایک خطرہ ہے ‘‘-

بل وان اوکین(Bil Van Auken)’’سوشلسٹ ایکولیٹی‘‘ پارٹی کے لئے ایک سیاست دان اور 2004ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں صدارتی امیدوار تھے، وہ اپنے ایک آرٹیکل  US and NATO murder Muammar Gaddafi میں  لکھتے ہیں کہ:

“Among the principal concerns in Washington, London and Paris were the increasing Chinese and Russian economic interests in Libya and more generally Africa as a whole. China had developed $6.6 billion in bilateral trade, mainly in oil, while some 30,000 Chinese workers were employed in a wide range of infrastructure projects. Russia, meanwhile, had developed extensive oil deals, billions of dollars in arms sales and a $3 billion project to link Sirte and Benghazi by rail. There were also discussions on providing the Russian navy with a Mediterranean port near Benghazi”. [12]

’’واشنگٹن ،لندن اور پیرس میں اہم خدشات نے اس صورت میں جنم لیا کہ چینی اور روسی اقتصادی مفادات جو کہ لیبیا میں زیادہ اور عمومی طور پر افریقہ میں بڑھ رہے تھے- کچھ تیس ہزار چینی ملازمین وسیع انفراسٹرکچر کے منصوبوں میں کام کر رہے تھے جبکہ چین 6.6 ارب ڈالر کی دو طرفہ تجارت بھی لیبیا سے کر رہا تھا جو کہ بنیادی طور پر تیل پر مبنی تھی-اسی  اثناء میں  روس، وسیع پیمانے پر تیل کی تجارت ، اربوں ڈالر میں اسلحہ کی فروخت اور ساتھ ساتھ سارٹی اور بن غازی کو ریل سے ملانے کے لئے  3 بلین ڈالر کے منصوبہ پر بھی کام کر رہا تھا- بن غازی کے قریب بحیرہ روم کے ساتھ روس کو بحری فوج  کے لئے جگہ کی فراہمی پر بات چیت بھی چل رہی تھی‘‘-

ان تمام مصنفین کی تحاریر سے منکشف اور واضح  ہوتا ہے کہ صدام حسین اور معمرقذافی کا قتل دنیا کی بڑی طاقتوں نے اپنے ذاتی مفادات  کے لئے کیا تھا جس کو وہ انسانی بھلائی کی چادر اڑھا کر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں لیکن تاریخ کسی نہ کسی طرح سچ سامنے لی ہی آتی ہے کیونکہ ظلم کبھی چھپ نہیں سکتا-یہی وہ حکمران تھے جن سےیہی مغربی طاقتیں عزت و احترام سے پیش آیا کرتی تھیں لیکن جب انہوں نے ان کی  باتیں نہ مان کر ان کی معاشی و اقتصادی غلامی سے انکار کیا تو یہی عزت و احترام دشمنی میں بدل گیا اور دنیا میں امن  کے رکھوالے اقوام متحدہ نے بھی انہی ممالک پر سختیاں عائد کردی تا کہ یہ حکمران ہٹائے جاسکیں ،جنھیں ہٹایا بھی گیا-ان بادشاہوں کہ قتل سے یہی سبق دیا گیا ہے کہ اب کوئی بھی ’’ گلوبل سٹیٹس کو‘‘ سے ٹکر نہ لے ، گلوبل اکانومی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے ، ڈالر ، یورو اور پونڈ کا مقابلہ کرنے کی سوچ بھی پیدا نہ کرے -کیا کسی میں اتنی جرأت ہے کہ یہ بات بھی کر سکے؟ لیکن یہ واضح ہے کہ صدام کا عراق اور قذافی کا لیبیا بہت محفوظ تھے جو کہ اب نہیں ہیں-

’’عراق - لیبیا کانسپریسی ‘‘ کے طویل مطالعہ کے بعد میں اپنی ذاتی و انفرادی حیثیت میں یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ جب کبھی بھی موجودہ عالمی اقتصادی نظام کے باغیوں کو ہیرو مانا جائے گا صدر صدام حسین اور کرنل معمر قذافی کے نام سرِ فہرست ہونگے-

اسرائیل کی مدد،تیل کی دولت پر قبضہ اور مسلم اتحاد کے حامی ملک کے رہنما کا خاتمہ ان تمام عناصر کے بنا پر ایک عظیم شخصیت صدام حسین کو مورخہ 30 دسمبر 2006ءکو پھانسی اور کرنل قذافی کو 20 اکتوبر2011ء کو قتل کروا کر سامراجی طاقتیں اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو گئیں-اس دنیا میں مسلمان تب تک کامیاب نہیں ہوں گے جب تک وہ علامہ اقبال (﷫)کہ اس شعرکے مصداق  نہیں بن جاتے :

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر[13]

٭٭٭


[1]Stephen C. Pelletiere. Iraq and the International Oil System: Why America Went to War in the Gulf. Greenwood Publishing Group, 2001

[2] Carl Kaysen, Steven E. Miller, Martin B. Malin, William D. Nordhaus and John D. Steinbruner. War with Iraq: Costs, Consequences, and Alternatives. American Academy of Arts and Sciences,  Cambridge, MA 02138, 2002

[3]David Hale. Iraq: Long-Term Costs and Benefits. Accessed from https://www.theglobalist.com/iraq-long-term-costs-and-benefits/

[4] Peter Schweizer Rochelle Schweizer. The Bushes: Portrait of a Dynasty. Random House Audio, 2004. ISBN 10: 0739309358  ISBN 13: 9780739309353

[5] Nita M. Renfrew. Sadam Hussain, Chelsea House Pub (L),  ISBN-13: 978-0791017760

[6] Lieberfeld Daniel. 2005. “Theories of Conflict and the Iraq War.” International Journal of Peace Studies

[7]Martin Asser. The Muammar Gaddafi story. BBC News Accessed from  http://www.bbc.com/news/ 21 October 2011

[8]Brad Hoff. Hillary Emails Reveal True Motive for Libya Intervention. Foreign policy journal. Accessed from

https://www.foreignpolicyjournal.com/2016/01/06/new-hillary-emails-reveal-true-motive-for-libya-intervention

[9]Garikai Chengu. Gaddafi’s Libya was Africa’s Most Prosperous Democracy. Accessed from http://www.informationclearinghouse.info/article33613.htm

[10] Accessed from:http://www.jdsupra.com/post/fileServer.aspx?fName=511fcd5e-1234-466b-aa54-ece04eebdb24.pdf

[11]S. Awan  The Libya Conspiracy. The Burning Blogger of Bedlam. Copyright, S. Awan 2015

[12]Bill Van Auken. US and NATO murder Muammar Gaddafi. The International Committee of the Fourth International (ICFI). 21 October 2011

[13](بانگِ درا)

مشرقِ وسطیٰ کا خطہ اپنے قدرتی وسائل اور محلِ وقوع کے باعث تمام دنیا کے لئے اہمیت رکھتا ہے اور یہاں پر امن یا جنگ، دونوں سے تقریباً دنیا کے تمام ہی ممالک بلا واسطہ یا بالواسطہ متاثر ہوتے ہیں-مشرق وسطیٰ میں جاری حالیہ عدمِ استحکام کی لہر گزشتہ ڈیڑھ عشرہ سے جاری ہے اور اس کی ابتدا عراق پر بیرونی جارحیت سے ہوئی-اس کے بعد سے یہ خطہ استحکام کی جانب واپس نہیں لوٹ سکا اور کبھی عرب بہار، کبھی خانہ جنگی اور کبھی عالمی و علاقائی طاقتوں کے مابین کھینچا تانی نظر آتی ہے-اس تمام پس منظر نے آنے والی دنیا کے لیے مشرقِ وسطیٰ کی تصویر ہی بدل کر رکھ دی ہے-

اس ڈیڑھ عشرہ میں جہاں کئی نامور  حکومتوں کے تختے الٹے گئے ہیں وہیں مسلمان دنیا  کے دو بڑے حکمران  ’’صدام حسین اور’’معمر  قذافی‘‘ کو موت کی بھینٹ چڑھایا گیا-ان کی ایسی موت جس کا کسی نے چند سال قبل تک تصور بھی نہ کیا تھا،کچھ سوالات  کو جنم دے گئی ہے کہ دو بڑے عرب ڈکٹیٹرز پہ جو قیامت برپا ہوئی ہے  اس کے پس پردہ حقائق کیا تھے؟ صدام حسین اور معمر قذافی کو کیوں شہید کیا گیا؟ان کا قصور کیا تھا؟ اس ضمن میں بہت سی متضاد و متصادم باتیں (Conspiracies)بھی موجود  ہیں اور مختلف لوگ اس کی مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں-

زیرِ نظر مضمون میں  ہم چند مغربی دانشوروں اور جرائد کو دیکھتے ہیں کہ ان میں سے کچھ کی رائے کیا ہے -

صدام حسین کی شہادت کے پس پردہ چند حقائق:

معیشت کسی بھی ملک کی حیات ہوتی ہے کیونکہ ایک اچھی معیشت کےبغیر ملک ہمیشہ متزلزل و غیر مستحکم رہتا ہے-ملک کے استحکام، شرحِ جرائم، ثقافت، سائنس و ٹیکنالوجی ، غربت اور  ملکی ترقی کا براہِ راست تعلق اس کی معیشت کے  ساتھ ہوتا ہے- ڈاکٹر سٹیفن سی پیلیٹیری(Stephen C Pelletiere) جو سٹریٹجک سٹڈیز انسٹیٹیوٹ سے تعلق رکھتےہیں، 1988ءسے مشرقِ وسطیٰ کے ماہرکے طور پر جانے جاتے ہیں اور واشنگٹن میں انٹیلی جنس افسر کے طور پر ’’ایران-عراق‘‘جنگ کی نگرانی کے فرائض سر انجام دے چکے ہیں،وہ  اپنی کتاب’’Iraq and the International Oil System: Why America Went to War in the Gulf‘‘میں لکھتے ہیں :

“One of the main economic objectives is the Protection of oil wealth that will be useful for the reconstruction of the country and put an end to the large black market”. [1]

’’عراق جنگ کے پیچھے اہم معاشی مقاصد میں سے ایک تیل کی دولت پر قبضہ جو ملک (عراق )کی تعمیر نو کے لئے مفید ثابت ہو گا اور جس سے  بڑی بلیک مارکیٹ پراس کی  اجارہ داری مضبوط ہو گی ‘‘-

امریکی مصنف (Carl Kaysen)  کارل کیسن  اپنے آرٹیکل   ’’War with Iraq  ‘‘میں  لکھتے ہیں کہ:

“Iraq’s oil resources could satisfy current U.S. oil imports for almost a century”.[2]

’’عراق کے تیل کے وسائل تقریباً ایک صدی کیلئے موجودہ امریکی تیل کی درآمد کو پورا کر سکتے ہیں ‘‘-

امریکی مصنف  (David Hale)  ڈیوڈ حیل اپنے آرٹیکل    ’’Iraq: Long-Term Costs and Benefits ‘‘میں لکھتے ہیں کہ:

“The $100 billion spent in 2003 for the war against Saddam Hussein will result in substantial savings in the future”. [3]

’’2003ء میں صدام حسین کے خلاف جنگ میں خرچ  کیے  گئے100 ارب ڈالر مستقبل میں کافی بچت کا باعث بنیں  گے‘‘-

اسی طرح خطے میں اسرائیلی مفادات کے تحفظ اور اس ضمن میں صدام حسین اور صدام کے عراق کے متعلق مغربی پالیسیز کے حوالہ سے کچھ مصنفین کی رائے کا جائزہ لیتے ہیں-

امریکی مصنف Peter Schweizer اور Rochelle Schweizer اپنی  کتاب ’’The Bushes: Portrait of a Dynasty‘‘  میں لکھتے  ہیں:

Deeply devoted to the Israeli cause- An emotional visit to the Holy Land in 1998 linked his Christian faith with the fate of the Israeli people in a deeply personal way. [4]

’’(جارج بش جو اس وقت امریکی صدر تھے وہ) اسرائیلی کاز کے لئے مکمل وقف تھے-1998ء میں مقدس سر زمین کے ایک دورےمیں ان کے عیسائی عقائد اسرائیلی عوام کی قسمت کے ساتھ انتہائی ذاتی سطح پر منسلک ہوئے‘‘-

اسرائیل  میں مغرب کا بڑھتا اثر و رسوخ عراق کی  مرضی کے مخالف تھا اور صدام حسین مظلوم فلسطینی عوام کے ساتھ تھے- امریکی مصنفہ  Rita N- Renfrew اپنی کتاب ’’Sadam Hussain‘‘ میں لکھتی ہیں  کہ :

“Because of its strength and influence in the region, Iraq was the only Arab state capable of stopping Israel's gradual annexation of the occupied territories- Consequently, Israel had sought a way to neutralize Iraq's military might and concluded that one way to do this was to undermine Iraq's economic stability”. [5]

’’عراق وہ واحد عرب ملک تھا جو قوت اور خطے میں اثر و رسوخ کی وجہ سے  اسرائیل کی جانب سے  مقبوضہ علاقوں کی بتدریج اتصال کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے-اس کے نتیجے میں، اسرائیل نے عراق کی فوجی طاقت کو بے اثر کرنے کے لئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ایسا کرنے کے لیے ایک ہی راستہ  ہے، عراق کے معاشی استحکام کو کمزور کرنا ‘‘-

اسرائیل کی عرب ممالک کی سیاست  و اندرونی معاملات میں مداخلت  کی مغرب  کی طرف سے حمایت کی گئی  کیونکہ اسرائیلی ترقی پڑوسی ممالک کی تنزلی کے مرہونِ منت تھی جیسا کہ امریکی مصنف ، ڈانیل لیبر فیلڈ(Daniel Lieberfeld)اپنے آرٹیکل’’  Theories of Conflict and Iraq War ‘‘ میں لکھتے  ہیں:

“A secondary motive for the overthrow of the Iraqi regime, from a realist perspective, would be to increase the security of Israel, the main U-S- regional ally”. [6]

’’اسرائیل  جو امریکہ کا اہم اتحادی ہے  اس کی  سیکیورٹی کے بنیادی مقصد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے عراق کا انہدام ضروری  امر  تھا‘‘-

اسرائیلی جس کی توسیع کے لئے  امریکہ اور صیہونی اتحاد نے  کوششیں کیں اور اس مقصد کی خاطر بے پناہ مسلمانوں کو  اسرائیلیوں نے موت کے بھینٹ چڑھایا-صدام حسین کی شہادت  میں بھی اسرائیل کے قیام اور توسیع  بنیادی محرکات تھے کیونکہ صدام اسرائیل کے غیر قانونی قبضہ کے سخت خلاف تھا -برطانوی عوام کے شدید رد عمل اور شدید مطالبہ پر سر جان چلکاٹ کی نگرانی میں عراق جنگ پہ  بننے والے  انکوائری کمیشن نے ’’بش - بلیئر‘‘ سازش اور ہٹ دھرمی کو بے نقاب کر دیا ہے اور نتائج میں بتایا ہے کہ عراق جنگ کا کوئی جواز نہ تھا کیونکہ جن الزامات کی بُنیاد پہ صدام حسین پہ جنگ مسلط کی گئی وہ الزامات کسی بھی طور ثابت نہیں ہو سکے - صدام حسین کے متعلق   امریکی و برطانوی حکومتوں کے مؤقف جھوٹ کے پلندوں کے سوا کچھ نہ تھے - سر جان چلکاٹ انکوائری رپورٹ کے مطابق جنگ مسلط کرنے والے دونوں دوست (بش اور بلیئر) جنگی مجرم یعنی ’’war criminal‘‘  ہیں -

معمر محمد قذافی کی شہادت کے چند محرکات:

لیبیا کے مرحوم صدر معمر قذافی  جنہیں عام طور پر کرنل قذافی کے طور پر جانا جاتا تھا، جن کے بارے میں مصنف مارٹن ایسر  Martin Aiser   اپنے آرٹیکل’’ The Muammar Gaddafi story‘‘میں لکھتے ہیں کہ:

‘‘He memorably challenged foreign oil executives by telling them "people who have lived without oil for 5,000 years can live without it again for a few years in order to attain their legitimate rights”. [7]

’’انہوں نے تمام بین الاقوامی تیل انتظامیہ کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ جس قوم نے 5 ہزار سال بغیر تیل کے گزارے ہوں وہ  اپنے جائز حقوق حاصل کرنے کے لئے مزید چند سال بھی بغیر تیل کے گزار سکتی ہیں ‘‘-

 امریکی مصنف براڈہوف (Brad Hoff) اپنے  آرٹیکل’’Hillary Emails Reveal True Motive for Libya Intervention‘‘ میں لکھتے ہیں  کہ:

“Newly disclosed emails show that Libya’s plan to create a gold-backed currency to compete with the euro and dollar was a motive for NATO’s intervention”. [8]

’’(ہیلری کلنٹن کی) لیک ہونے والی  ای میلز سے واضح ہوتا  ہے کہ لیبیا میں نیٹو کی مداخلت کی وجہ لیبیا کا سونے پر بنیاد کردہ کرنسی کا پلان تھا  جویورو اور ڈالر کا مقابلہ کرسکتی تھی‘‘-

“An extremely sensitive source confirmed that British, French, and Egyptian special operations units were training Libyan militants along the Egyptian-Libyan border, as well as in Benghazi suburbs”.

’’انتہائی حساس ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ برطانوی، فرانسیسی اور مصری خصوصی آپریشنز لیبیا میں عسکریت پسندوں کو لیبیا اور مصری سرحد کے ساتھ اور بن غازی کے قریب تربیت دیتے رہے‘‘-

مصنف براڈ ہوف مزید  قذافی کی حکومت پر بحث کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ :

“The email identifies French President Nicholas Sarkozy as leading the attack on Libya with five specific purposes in mind:

                      I.            to obtain Libyan oil,

                    II.            ensure French influence in the region,

                 III.            increase Sarkozy’s reputation domestically,

                 IV.            assert French military power, and

                   V.            to prevent Gaddafi’s influence in what is considered Francophone Africa”.

’’(ہیلری کلنٹن کی لیک ہونے والی ) ای میل سے اس بات کا پتہ چلا کہ فرانس کے صدر ’’نکولس سر کوزی‘‘نے ذہن میں پانچ (5)مخصوص مقاصد کے حصول کیلئے لیبیا پر حملے کی  سنبھالی  اور وہ مقاصدتھے: (1) لیبیا کے تیل کا حصول، (2)  اس علاقے میں فرانسیسی اثر و رسوخ کو یقینی بنانا، (3) مقامی سطح پر سرکوزی کی اثرو رسوخ میں اضافہ، (4) فرانسیسی فوجی طاقت کا دعوی اور (5) افریقہ میں قذافی کے اثر و رسوخ کو ختم کر کے فرانس کے مطابق افریقہ  کی  قسمت طے کرنا‘‘-

مصنف گریکائی چنگو(Garikai Chengu)اپنے آرٹیکل ’’Gaddafi’s Libya was Africa’s Most Prosperous Democracy  ‘‘میں لکھتے ہیں کہ:

“Muammar Gaddafi inherited one of the poorest nations in Africa. However, by the time he was assassinated, Libya was unquestionably Africa’s most prosperous nation. Libya had the highest GDP per capita and life expectancy in Africa and less people lived below the poverty line than in the Netherlands. Libyans did not only enjoy free health care and free education, they also enjoyed free electricity and interest free loans. The price of petrol was around $0.14 per liter and 40 loaves of bread cost just $0.15. Consequently, the UN designated Libya the 53rd highest in the world in human development”. [9]

’’معمر قذافی افریقہ کے ایک غریب ملک کا مالک تھا-تاہم، جب وہ مارا گیا، لیبیا اس وقت  بلاشک و شبہ افریقہ کا سب سے زیادہ خوشحال ملک تھا-افریقہ میں لیبیا کی جی ڈی پی اور زندگی کی شرح سب سے زیادہ تھی  حتیٰ کہ نیدر لینڈ (ہالینڈ) کے مقابلے میں لیبیا کے  کم لوگ غربت کی لکیر سے نیچے رہتے تھے-لیبیا کے باشندے نہ صرف مفت صحت اور تعلیم سے لطف اندوز  ہوتے تھے بلکہ مفت بجلی اور سود سے پاک قرضے حاصل کر سکتے تھے-پٹرول کی قیمت  0.14  ڈالر فی لیٹرتھی،  40روٹیوں کی لاگت صرف 0.15  ڈالر تھی-ان تمام اقدامات کے  نتیجے میں اقوام متحدہ نے انسانی ترقی  کے انڈیکس میں دنیا بھر میں 53 ویں اعلیٰ ترین ریاست  کا اعزاز لیبیا کے نام کیا‘‘-

زمبابوے نژاد برطانوی وکیل لویڈ مسیپا (Lloyd Msipa) اپنے ایک آرٹیکل’’The Assassination of Mummar Gaddafi illegal under International  Law‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:

“The issue in Libya is not so much about Gaddafi, but that his murder symbolises the final occupation of Libya. The [this was] re-colonisation of Libya by America and NATO forces. It is now a question of America and Europe doing exactly what they please in that country. Not only do they have access to the large oil and gas reserves, but also something the media rarely covers the large water reserves under the Libyan soil. Under international law there is no rational for the assassination of Mummar Gaddafi. The original reason, which was resolution 1973 which authorised the protection of civilians, was turned into a regime change instrument. The assassination of Mummar Gaddafi is a blunt admission by America, France and Britain that this crusade was not about protecting civilians, but about regime change. This was a breach of the UN regulations. This was a NATO/US operation in a scramble for Libyan oil”. [10]

’’لیبیا میں مسئلہ قذافی نہیں بلکہ اس کا قتل لیبیا پر حتمی قبضہ اور  امریکہ اور نیٹو کی طرف سے لیبیا کو دوبارہ نو آبادی بنانے کے عنصر کو ظاہر کرتا ہے -اِس بات سے یہ واضح ہے کہ امریکہ اور یورپ یہاں (لیبیا) میں وہی کر رہے ہیں جس سے ان کا ذاتی مفادپورے ہورہے ہیں-نہ صرف تیل و گیس  کے ذخائر  بلکہ یہ لیبیاکی زمین میں دوسرے قدرتی وسائل پر قبضہ ہے جنہیں میڈیا شاذ و نادر ہی کوریج دیتا ہے- بین الاقوامی قانون میں ایسی کوئی وجہ نہیں تھی جِس کی بنیاد پر معمر قذافی  کو قتل کیا جاتا-اصل وجہ یہ ہے کہ قرارداد 1973ءجو کہ شہریوں کے تحفظ کا حق دیتی ہے، کو بطور آلہِ حکومت پلٹ استعمال کیا گیا-معمر قذافی کا قتل امریکہ، فرانس اور برطانیہ کی طرف سے احمقانہ عمل ہے اور یہ جنگ عام شہریوں کی حفاظت  کی بجائے  حکو مت کی تبدیلی کے لیے لڑی گئی-یہ اقوام متحدہ کے ضوابط کی خلاف ورزی تھی-یہ جنگ اصل میں نیٹو اور امریکہ کی لیبیا کے تیل کے لیے کی گئی جارحانہ کوشش تھی‘‘-

لویڈ مسیپا اپنی  قانونی رائے پیش کرتے ہوئےمزید لکھتے ہیں: 

“Gadaffi’s principle crime was that he refused to take any loans from institutions like the IMF etc. He refused to join the club of International bankers and decided to set up his own Pan-Africanist bank that would have provided loans to African countries. Gaddafi’s Libya was the only African/Arab country that did not owe any country or institution any money”.

’’قذافی کا اصل جرم یہ  تھا کہ انہوں نے آئی ایم ایف وغیرہ جیسے عالمی اداروں سے قرضہ لینے سے انکار کیا تھا-اس نے بین الاق

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر