جغرافیائی، مذہبی و ثقافتی اعتبار سے وسطیٰ ایشیائی ممالک کا مسلمانانِ پاک و ہند سے گہرا تعلق ہے-خشکی میں محصور وسطی ایشیائی ریاستوں میں سے تاجکستان، پاکستان کے قریب ترین واقع ہے- ایک مقام پر دونوں ممالک کی سرحد کو افغانستان کا فقط پندرہ (15) کلومیٹر پرمحیط علاقہ (واخان) جدا کرتا ہے- پاکستان کی بحیرہ عرب میں واقع بندر گاہیں تاجکستان کے لیے سمندری تجارت کا نزدیک ترین راستہ ہیں-تاجکستان کا دارالحکومت’’ دوشنبے‘‘ اسلام آباد سے صرف ایک گھنٹے کی ہوائی مسافت پرواقع ہے-دونوں ممالک کے مابین مضبوط روابط قائم ہیں جِن کی بنیادی وجہ برصغیر اور وسطی ایشیا کے مسلمانوں کے مابین اسلامی تہذیب و ثقافت کے گہرے تاریخی تعلقات ہیں[1]-اِسی لیے تو کامل الدین عبداللہ اور شہرام اکبر زیہہ (Kamoludin Abdullaev, Shahram Akbarzaheh) اپنی کتاب “Historical Dictionary of Tajikistan”میں شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال ؒ کے خطبہ الٰہ آباد کے حوالے سےلکھتے ہیں کہ:
“Pakistan may be located in South Asia but that it faces toward Central Asia”[2].
’’پاکستان جنوبی ایشیاء میں واقع ہے مگر اِس کا رخ وسطیٰ ایشیاء کی جانب ہے‘‘-
برصغیر میں تبلیغِ دین کیلئے تشریف لانے والے اکثر صوفیا کا تعلق بھی وسطی ایشیا اور بالخصوص تاجکستان سے تھا، خود حضرت داتا گنج بخش ؒ تاجکستان کے علاقہ خجند سے تعلق رکھتے تھے-برصغیر میں فقہ حنفی کا اس بڑے پیمانے پہ مقبولِ عام ہونے کے پیچھے بھی اِسی خطے کے اثرات شامل ہیں کیونکہ وسطی ایشیا کا یہ خطہ بھی مجموعی طور پہ احناف ہی پہ مشتمل ہے-اس لئے دفاعی و عسکری، تجارتی و معاشی اور تعلیمی و تحقیقی شعبہ جات میں تعلقات کے ساتھ ساتھ عوامی روابط بھی مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے جسے ڈپلومیٹک زبان میں ’’people to people contact‘‘ کہتے ہیں -
جغرافیائی قربت کے اعتبار سے پاکستان اور تاجکستان کے مابین معیشت، صنعت، توانائی، دفاع اور دیگر شعبہ جات میں تعاون کے لیے بہت مواقع موجود ہیں-پاکستان بطور واحد اسلامی ایٹمی طاقت کے بھر پور معاشی اور دفاعی صلاحیتیں رکھتا ہے- خطے میں عالمی طاقتوں کے بڑھتے اثر و رسوخ اور مذموم بھارتی عزائم پاکستان کی اہمیت کو کم کرنے کی ایک ناکام سازش کا حصہ ہیں-تاہم اس کی پالیسیوں اور چند دیگر وجوہات کی بنا پر پاکستان دنیا کے لیے شائد اتنی اہمیت نہیں رکھتا جتنی کہ اصل میں ہونی چاہیے اور جس کا یہ حقدار ہے-چاہے وہ چین امریکہ تعلقات کا معاملہ ہو، افغان وار ہو، امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو، چاہے چین کا ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ ہو، یا چین، روس اور خشکی میں گھرے وسطیٰ ایشیائی ممالک کی بحیرہ عرب کے گرم پانیوں تک پہنچنے کی کوشش ہو، خطے کی ہر بڑی پالیسی پاکستان کے گرد گھومتی ہے-دوسری طرف افغانستان کے بگڑتے حالات نے تاجکستان کو چین کے ذریعے وسطی ایشیاء میں تجارتی روٹ کے استعمال کے لئے بطور گیٹ وے کے ابھارا ہے-چین، پاکستان اور تاجکستان کے مابین سڑکوں اور ریل ٹریک کا ایسا جال ترتیب دیا جا رہا ہے جو خطے کے تمام ممالک کو ملا کراُن کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے-
پاکستان، تاجکستان کو اپنی سٹریٹجک ڈپتھ (Strategic Depth) پالیسی کے تناظر میں دیکھتا ہے-یہ مثبت منافع (Positive Sum) پالیسی ہے جِس سے دونوں ممالک فائدہ اٹھائیں گے-اِس پالیسی کے تحت پاکستان خطے کے دوسرے ممالک سے معاشی، سیاسی اور دفاعی تعلقات کو مزید مضبوط کر رہا ہے[3]- پاکستان تاجکستان اور دوسرے اسلامی ممالک سے پوری دنیا میں امن کے فروغ کے لیے مل کر کام کرنا چاہتا ہے- وسطی ایشیائی ممالک قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں تو پاکستان توانائی کے شعبے میں بحران کا سامنا کر رہا ہے-اس تناظر میں وسطیٰ ایشیائی ممالک خصوصاً تاجکستان کے ساتھ اچھے تعلقات اس بحران سے احسن انداز میں نمٹنے میں مدد دے سکتے ہیں-
پاکستان ان اوائل ممالک میں شامل ہے جنہوں نے تاجکستان کو سوویت یونین کے 1990ء میں ٹوٹنے کے بعد بطور آزاد ملک تسلیم کیا- 1993ء میں تاجکستان اور پاکستان کے درمیان باقاعدہ سفارتی تعلقات کا آغاز پاکستان میں تاجکستان کے سفارت خانےکے قیام سے ہوا[4]-پاکستان نے بھی اُسی سال اپنا سفارتخانہ تاجکستان میں قائم کیا - نومبر 2015ء میں تاجکستان کے صدر کا دورۂ پاکستان ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے-اِس دورے کے دوران ہونے والے معاہدے دونوں ممالک کے درمیان تاریخی و مضبوط تعلقات کے عکاس ہیں-اِس دورے کے دوران پاکستان اور تاجکستان کے درمیان عوامی روابط، دہشت گردی کے خلاف اکٹھے کام کرنے، خطے کے امن، مذہبی تفرقہ بازی اور انسانی و منشایات کی سمگلنگ کی روک تھام کے ساتھ ساتھ توانائی، سکیورٹی، تجارت، دفاع، ثقافت،انفراسٹرکچر اور مواصلات کے شعبوں میں تعاون کے مختلف معاہدوں پر دستخط کیے گئے-جن میں انٹر گورنمنٹ جوائنٹ اکنامک کمیشن (An inter-governmental Joint Economic Commission (JEC) کا قیام بھی شامل ہے- تاجکستان کے موجودہ صدر امام علی رحمانوف ذاتی طور پہ پاکستان میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں -اُن کی حکومت کی طرف سے پاکستان میں مقرر کردہ سفیر عزت مآب شیر علی جانانوف کی سفارتی کاوشوں سے دونوں طرف کے دفاترِ خارجہ میں خاطر خواہ گرم جوشی پیدا ہوئی ہے اور عوامی سطح پر روابط بھی فروغ پا رہے ہیں- خطے کے بدلتے حالات کے تناظر میں لازم ہے کہ ثقافتی و تہذیبی اور دیگر سفارتی رشتوں میں جڑے ممالک سے پاکستان اِس طرح کی گرم جوشی میں اضافہ کرے -
دونوں ممالک کے درمیان2000ءمیں باہمی تجارت صرف 15ملین ڈالر تھی جو 2014ءکے آخر میں بڑھ کر 90ملین ڈالر ہو گئی ہے-دونوں ممالک نے آئندہ چند سالوں میں اِس تجارت کو 500ملین ڈالر تک لے جانے کا عزم ظاہر کیا ہے[5]-دونوں ممالک کو مختلف روٹس سے ملایا جا سکتا ہے جیسا کہ :
v گوادر-پشاور-کابل-کندوز- دوشنبے روٹ (Gwadar-Peshawar-Kabul-Kunduz-Dushanbe route)
v خنجراب- کلاسو- مرغب روٹ (Khunjrab-Kalasu-Murghab route)
v چترال-ایشخاحیم-دوشنبے روٹ ( Chitral-Eshkhahim-Dushanbe route) [6]
افغانستان کے کشیدہ حالات کے باعث دونوں ممالک کا رحجان چین کے ون بیلٹ ون روڈ کی جانب ہوا ہے- ون بیلٹ ون روڈ کے دو رابطے کے منصوبے اِن دونوں ممالک کے لیے بہت اہمیت کے حامل ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
1) چین، پاکستان معاشی راہداری (CPEC)
2) چین-وسطی ایشیاء –مغربی ایشیاء راہداری (China–Central Asia–West Asia )
جیساکہ پہلے لکھا گیا کہ تاجکستان کے پاس قدرتی وسائل اور پاکستان کےقریب پاس گرم پانیوں تک پہنچنے کا راستہ تو اِن دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے لیے ایک گاڑی کے دو پہیوں کی مانند بنا دیا ہے- جیسا کہ وزیر اعظم پاکستان نے نومبر 2015ءمیں تاجک صدر سے ملاقات کے دوران کہا کہ:
“…regional connectivity with Tajikistan and CPEC projects would transform the economic outlook for the entire region.” [7]
’’ تاجکستان کے ساتھ علاقائی رابطہ اور سی پیک کا منصوبہ پورے خطے کی معاشی حالت کو بدل دیں گے‘‘-
افغانستان کے ریل منصوبے پر پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان اور تاجکستان Quadrilateral Traffic in Transit Agreement (QTTA) منصوبے پر کام کر رہے ہیں جو کہ پاکستان کو چین کے ذریعے وسطی ایشیاء سے ملائے گی- ’’کیو-ٹی-ٹی-اے‘‘ ایک گزر گاہ کا منصوبہ ہے جس پر پاکستان اور تاجکستان کے درمیان 1995ءمیں اسلام آباد (پاکستان) میں دستخط ہوئے- (یہ) خشکی میں محصور تاجکستان کو افغانستان پر انحصار کرنے کی بجائے پاکستان کی گوادر سمیت دوسری بندرگاہوں تک رسائی دے گا-یہ پاکستان اور تاجکستان کے تاجروں کو محفوظ راستہ مہیا کرے گا-[8]
بڑھتے زمینی رابطے اور دوسرے منصوبوں کی صورت میں دونوں ممالک آپس میں ایک دوسرے سے مختلف شعبوں میں فائدے اٹھا سکتے ہیں- یہاں یہ سمجھنا مناسب ہے کہ چین، پاکستان، یا تاجکستان دیگر ممالک کو تنہا نہیں چھوڑ رہے اور اگر وہ چاہیں تو اِن منصوبوں میں شامل ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ پراجیکٹس پورے خطے کے لئے اوپن قرار دیئے گئے ہیں- تاہم تمام تر بھارتی توانائیاں افغانستان کو ترقی کے ان پراجیکٹس کا حصہ بننے سے روکنے میں لگی ہیں-ایسے میں افغان قیادت پہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی قوم کے بہتر مستقبل کے لئے جرات مندانہ اور دور اندیش فیصلے کریں-
ایک طرف تو پاکستان بھارت کی آبی دہشت گردی کی وجہ سے متاثر ہو رہا ہے تو دوسری طرف اندرونی چیلنجز کے باعث پاکستان حقیقتاً پن بجلی کی وافر صلاحیت ہونے کے باوجود توانائی کے بحران کا شکار ہے- تاجکستان جو وسیع پہاڑی سلاسل جیسی قدرتی نعمت سے مالا مال ہے اور اس کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے پن بجلی پیدا کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے [9]-ایسے میں توانائی کے شعبہ میں تعاون اہمیت اختیار کر جاتا ہے-دونوں ممالک کے درمیان بجلی سپلائی کا ایک منصوبہ کاسا-1000 (CASA-1000 electricity transmission and trade project) طے پایا ہے-اِس منصوبے کے تحت تاجکستان اور پاکستان کے درمیان بجلی کی ترسیل کے لیے لائن بچھانے کے منصوبے پر کام شروع کیا گیا ہے-یہ منصوبہ پاکستان کو تقریباً 1300میگا واٹ بجلی مہیا کرے گا-اِسی منصوبے کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے کواِس شعبے میں ٹیکنیکل اور معاشی معاونت بھی فراہم کریں گے-اِس منصوبے نے دونوں ممالک کے لوگوں کو بہت سے مواقع فراہم کیے ہیں جِن سے بھر پور طریقے سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے-
تاجکستان میں شرح خواندگی تقریباً سو فیصد (٪100)ہے جو شعبہ تعلیم میں تعاون کے مواقع کی نشاندہی کرتا ہے- پاکستان میں اِس وقت تقریباً ایک ملین تاجک باشندے آباد ہیں جو افغانستان اور سوویت یونین کی جنگ کے دوران پاکستان میں ہجرت کر کے آباد ہوئے تھے-یہ لوگ پاکستان کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہیں جِن کے توسط سےپاکستان کے عام شہری تاجکستان میں تعلیم کے حصول کے لیے اچھے اور کم خرچ اداروں کے بارے میں معلومات اکٹھا کر کے اِن سے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں- دونوں ممالک کے تقریباً تین سو باشندے اِس شعبے سے وابستہ ہیں-
پاکستان کی زرعی پیدوار دنیا میں ایک خاص مقام رکھتی ہیں -پاکستان میں پیدا ہونے والی کاٹن، آم، سنگترے، چاول اور دوسری زرعی اجناس پوری دنیا کے ساتھ ساتھ تاجکستان میں سپلائی کی جاتی ہیں-دونوں ممالک کے درمیان زرعی اجناس و ادویات کے ساتھ ساتھ زرعی مشینری کی صنعت میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے جیسا کہ 2015ءمیں پاکستان کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھتے118نفوس پر مشتمل وفد نے تاجکستان کا دورہ کیا اور مختلف شعبہ جات خصوصاً زراعت کے شعبے پر توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا[10]-اِس کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان تجارت پر عائد ٹیکس کو کم ترین سطح پر لانے پر غور کیا گیا جِس سے چھوٹے تاجروں کیلئے تجارت کے مواقع بڑھیں گے اور مجموعی تجارتی حجم بھی بڑھے گا- دونوں ممالک معدنیات کی وافر مقدار رکھتے ہیں جِن کے لیے پاکستان وسطی ایشیائی ریاستوں کی طرف معدنیات کی تجارت کے شعبے میں کافی دلچسپی ظاہر کر رہا ہے- کیونکہ دونوں ممالک کم خرچ طریقہ تجارت سے وافر مقدار میں فائدہ اٹھا سکتے ہیں-
پاکستان دنیا کا واحد اسلامی ایٹمی ملک ہے جِس کے پاس دنیا کی بہترین تربیت یافتہ اور اعلیٰ کارکردگی کی حامل فوج موجود ہے جو جدید ہتھیاروں و ٹیکنالوجی سے لیس ہے- پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیز دنیا میں پہلے نمبر پر شمار ہوتی ہیں-پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابیوں نے دنیا کے سامنے پاکستان کی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے- تاجکستان کو پاکستان فوج کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے-جیسا کہ حال ہی میں پاکستان نے روس کے ساتھ مل کر فوجی مشقوں کا اہتمام کیا اِسی طرح تاجکستان اور دیگر ممالک کے ساتھ بھی مشقیں کی جا سکتی ہیں-
خطے میں اٹھنے والے نئے خطرات دونوں ممالک سے مزید تعاون کا تقاضا کرتے ہیں- خطے میں بڑھتے بھارتی مذموم مقاصد و مغربی اثر و رسوخ یہ تقاضا کرتے ہیں کہ پاکستان اپنے علاقائی دوستوں کے ساتھ مل کر ’’بیلنس آف پاور‘‘کی خارجہ پالیسی پر گامزن ہو-دونوں ممالک کو مل کر ہر شعبے میں ایک دوسرے ساتھ تعاون کرنا چاہیے اور خطے کی امن و ترقی کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے-یہ بات اب حقیقت ہے کہ یہ دونو ں ممالک ایک دوسرے کے تعاون کے بغیر عصرِ حاضر کے چیلنجز اور ان گنت مسائل کا خاتمہ نہیں کر سکتے-مگر اِس کے لیے دونوں ممالک کو اپنے اپنے مقامی ملکی ڈھانچے کو مضبوط کرنا ہو گا کیونکہ امن و ترقی مزید امن و ترقی کی پر اعتماد فضا قائم کر سکتی ہے-
٭٭٭
[1]Kamoludin Abdullaev, Shahram Akbarzaheh, Historical Dictionary of Tajikistan (Lanham: The Scarecrow Press, 2010) p. 264
[2] Ibid
[3] Ibid
[4]Adnan H Satti, Pak-Tajik Energy & Trade Cooperation, MUSLIM Institute, http://www.muslim-institute.org/PublicationDetail?publication=107/Pak-Tajik-Energy-&-Trade-Cooperation (Accessed August 15, 2017 )
[5] Pakistan–Tajikistan relations , IPRI, http://www.ipripak.org/pakistan-tajikistan-relations/ (Accessed August 15, 2017)
[6] Ibid
[7]Road projects linking Pakistan, Tajikistan approved, The Nation, http://nation.com.pk/national/14-Nov-2015/road-projects-linking-pakistan-tajikistan-approved (Accessed August 15, 2017)
[8] Zafar Bhutta, Tajikistan to join Pakistan road link bypassing Afghanistan, The Express Tribune, Pub. February 24, 2017, https://tribune.com.pk/story/1337274/tajikistan-join-pakistan-road-link-bypassing-afghanistan/ (Accessed 15 August 2017)
[9]Staff reporter, Pakistan-Tajikistan Relations, The Sialkot Chamber Of Commerce & Industry, file:///C:/Users/Win/Downloads/scci.pdf (accessed August 15, 2017)
جغرافیائی، مذہبی و ثقافتی اعتبار سے وسطیٰ ایشیائی ممالک کا مسلمانانِ پاک و ہند سے گہرا تعلق ہے-خشکی میں محصور وسطی ایشیائی ریاستوں میں سے تاجکستان، پاکستان کے قریب ترین واقع ہے- ایک مقام پر دونوں ممالک کی سرحد کو افغانستان کا فقط پندرہ (15) کلومیٹر پرمحیط علاقہ (واخان) جدا کرتا ہے- پاکستان کی بحیرہ عرب میں واقع بندر گاہیں تاجکستان کے لیے سمندری تجارت کا نزدیک ترین راستہ ہیں-تاجکستان کا دارالحکومت’’ دوشنبے‘‘ اسلام آباد سے صرف ایک گھنٹے کی ہوائی مسافت پرواقع ہے-دونوں ممالک کے مابین مضبوط روابط قائم ہیں جِن کی بنیادی وجہ برصغیر اور وسطی ایشیا کے مسلمانوں کے مابین اسلامی تہذیب و ثقافت کے گہرے تاریخی تعلقات ہیں[1]-اِسی لیے تو کامل الدین عبداللہ اور شہرام اکبر زیہہ (Kamoludin Abdullaev, Shahram Akbarzaheh) اپنی کتاب “Historical Dictionary of Tajikistan”میں شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال() کے خطبہ الٰہ آباد کے حوالے سےلکھتے ہیں کہ:
“Pakistan may be located in South Asia but that it faces toward Central Asia”[2].
’’پاکستان جنوبی ایشیاء میں واقع ہے مگر اِس کا رخ وسطیٰ ایشیاء کی جانب ہے‘‘-
برصغیر میں تبلیغِ دین کیلئے تشریف لانے والے اکثر صوفیا کا تعلق بھی وسطی ایشیا اور بالخصوص تاجکستان سے تھا، خود حضرت داتا گنج بخش ()تاجکستان کے علاقہ خجند سے تعلق رکھتے تھے-برصغیر میں فقہ حنفی کا اس بڑے پیمانے پہ مقبولِ عام ہونے کے پیچھے بھی اِسی خطے کے اثرات شامل ہیں کیونکہ وسطی ایشیا کا یہ خطہ بھی مجموعی طور پہ احناف ہی پہ مشتمل ہے-اس لئے دفاعی و عسکری، تجارتی و معاشی اور تعلیمی و تحقیقی شعبہ جات میں تعلقات کے ساتھ ساتھ عوامی روابط بھی مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے جسے ڈپلومیٹک زبان میں ’’people to people contact‘‘ کہتے ہیں -
جغرافیائی قربت کے اعتبار سے پاکستان اور تاجکستان کے مابین معیشت، صنعت، توانائی، دفاع اور دیگر شعبہ جات میں تعاون کے لیے بہت مواقع موجود ہیں-پاکستان بطور واحد اسلامی ایٹمی طاقت کے بھر پور معاشی اور دفاعی صلاحیتیں رکھتا ہے- خطے میں عالمی طاقتوں کے بڑھتے اثر و رسوخ اور مذموم بھارتی عزائم پاکستان کی اہمیت کو کم کرنے کی ایک ناکام سازش کا حصہ ہیں-تاہم اس کی پالیسیوں اور چند دیگر وجوہات کی بنا پر پاکستان دنیا کے لیے شائد اتنی اہمیت نہیں رکھتا جتنی کہ اصل میں ہونی چاہیے اور جس کا یہ حقدار ہے-چاہے وہ چین امریکہ تعلقات کا معاملہ ہو، افغان وار ہو، امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو، چاہے چین کا ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ ہو، یا چین، روس اور خشکی میں گھرے وسطیٰ ایشیائی ممالک کی بحیرہ عرب کے گرم پانیوں تک پہنچنے کی کوشش ہو، خطے کی ہر بڑی پالیسی پاکستان کے گرد گھومتی ہے-دوسری طرف افغانستان کے بگڑتے حالات نے تاجکستان کو چین کے ذریعے وسطی ایشیاء میں تجارتی روٹ کے استعمال کے لئے بطور گیٹ وے کے ابھارا ہے-چین، پاکستان اور تاجکستان کے مابین سڑکوں اور ریل ٹریک کا ایسا جال ترتیب دیا جا رہا ہے جو خطے کے تمام ممالک کو ملا کراُن کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے-
پاکستان، تاجکستان کو اپنی سٹریٹجک ڈپتھ (Strategic Depth) پالیسی کے تناظر میں دیکھتا ہے-یہ مثبت منافع (Positive Sum) پالیسی ہے جِس سے دونوں ممالک فائدہ اٹھائیں گے-اِس پالیسی کے تحت پاکستان خطے کے دوسرے ممالک سے معاشی، سیاسی اور دفاعی تعلقات کو مزید مضبوط کر رہا ہے[3]- پاکستان تاجکستان اور دوسرے اسلامی ممالک سے پوری دنیا میں امن کے فروغ کے لیے مل کر کام کرنا چاہتا ہے- وسطی ایشیائی ممالک قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں تو پاکستان توانائی کے شعبے میں بحران کا سامنا کر رہا ہے-اس تناظر میں وسطیٰ ایشیائی ممالک خصوصاً تاجکستان کے ساتھ اچھے تعلقات اس بحران سے احسن انداز میں نمٹنے میں مدد دے سکتے ہیں-
پاکستان ان اوائل ممالک میں شامل ہے جنہوں نے تاجکستان کو سوویت یونین کے 1990ء میں ٹوٹنے کے بعد بطور آزاد ملک تسلیم کیا- 1993ء میں تاجکستان اور پاکستان کے درمیان باقاعدہ سفارتی تعلقات کا آغاز پاکستان میں تاجکستان کے سفارت خانےکے قیام سے ہوا[4]-پاکستان نے بھی اُسی سال اپنا سفارتخانہ تاجکستان میں قائم کیا - نومبر 2015ء میں تاجکستان کے صدر کا دورۂ پاکستان ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے-اِس دورے کے دوران ہونے والے معاہدے دونوں ممالک کے درمیان تاریخی و مضبوط تعلقات کے عکاس ہیں-اِس دورے کے دوران پاکستان اور تاجکستان کے درمیان عوامی روابط، دہشت گردی کے خلاف اکٹھے کام کرنے، خطے کے امن، مذہبی تفرقہ بازی اور انسانی و منشایات کی سمگلنگ کی روک تھام کے ساتھ ساتھ توانائی، سکیورٹی، تجارت، دفاع، ثقافت،انفراسٹرکچر اور مواصلات کے شعبوں میں تعاون کے مختلف معاہدوں پر دستخط کیے گئے-جن میں انٹر گورنمنٹ جوائنٹ اکنامک کمیشن (An inter-governmental Joint Economic Commission (JEC) کا قیام بھی شامل ہے- تاجکستان کے موجودہ صدر امام علی رحمانوف ذاتی طور پہ پاکستان میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں -اُن کی حکومت کی طرف سے پاکستان میں مقرر کردہ سفیر عزت مآب شیر علی جانانوف کی سفارتی کاوشوں سے دونوں طرف کے دفاترِ خارجہ میں خاطر خواہ گرم جوشی پیدا ہوئی ہے اور عوامی سطح پر روابط بھی فروغ پا رہے ہیں- خطے کے بدلتے حالات کے تناظر میں لازم ہے کہ ثقافتی و تہذیبی اور دیگر سفارتی رشتوں میں جڑے ممالک سے پاکستان اِس طرح کی گرم جوشی میں اضافہ کرے -
دونوں ممالک کے درمیان2000ءمیں باہمی تجارت صرف 15ملین ڈالر تھی جو 2014ءکے آخر میں بڑھ کر 90ملین ڈالر ہو گئی ہے-دونوں ممالک نے آئندہ چند سالوں میں اِس تجارت کو 500ملین ڈالر تک لے جانے کا عزم ظاہر کیا ہے[5]-دونوں ممالک کو مختلف روٹس سے ملایا جا سکتا ہے جیسا کہ :
v گوادر-پشاور-کابل-کندوز- دوشنبے روٹ (Gwadar-Peshawar-Kabul-Kunduz-Dushanbe route)
v خنجراب- کلاسو- مرغب روٹ (Khunjrab-Kalasu-Murghab route)
v چترال-ایشخاحیم-دوشنبے روٹ ( Chitral-Eshkhahim-Dushanbe route) [6]
افغانستان کے کشیدہ حالات کے باعث دونوں ممالک کا رحجان چین کے ون بیلٹ ون روڈ کی جانب ہوا ہے- ون بیلٹ ون روڈ کے دو رابطے کے منصوبے اِن دونوں ممالک کے لیے بہت اہمیت کے حامل ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
1) چین، پاکستان معاشی راہداری (CPEC)
2) چین-وسطی ایشیاء –مغربی ایشیاء راہداری (China–Central Asia–West Asia )
جیساکہ پہلے لکھا گیا کہ تاجکستان کے پاس قدرتی وسائل اور پاکستان کےقریب پاس گرم پانیوں تک پہنچنے کا راستہ تو اِن دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے لیے ایک گاڑی کے دو پہیوں کی مانند بنا دیا ہے- جیسا کہ وزیر اعظم پاکستان نے نومبر 2015ءمیں تاجک صدر سے ملاقات کے دوران کہا کہ:
“…regional connectivity with Tajikistan and CPEC projects would transform the economic outlook for the entire region.” [7]
’’ تاجکستان کے ساتھ علاقائی رابطہ اور سی پیک کا منصوبہ پورے خطے کی معاشی حالت کو بدل دیں گے‘‘-
افغانستان کے ریل منصوبے پر پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان اور تاجکستان Quadrilateral Traffic in Transit Agreement (QTTA) منصوبے پر کام کر رہے ہیں جو کہ پاکستان کو چین کے ذریعے وسطی ایشیاء سے ملائے گی- ’’کیو-ٹی-ٹی-اے‘‘ ایک گزر گاہ کا منصوبہ ہے جس پر پاکستان اور تاجکستان کے درمیان 1995ءمیں اسلام آباد (پاکستان) میں دستخط ہوئے- (یہ) خشکی میں محصور تاجکستان کو افغانستان پر انحصار کرنے کی بجائے پاکستان کی گوادر سمیت دوسری بندرگاہوں تک رسائی دے گا-یہ پاکستان اور تاجکستان کے تاجروں کو محفوظ راستہ مہیا کرے گا-[8]
بڑھتے زمینی رابطے اور دوسرے منصوبوں کی صورت میں دونوں ممالک آپس میں ایک دوسرے سے مختلف شعبوں میں فائدے اٹھا سکتے ہیں- یہاں یہ سمجھنا مناسب ہے کہ چین، پاکستان، یا تاجکستان دیگر ممالک کو تنہا نہیں چھوڑ رہے اور اگر وہ چاہیں تو اِن منصوبوں میں شامل ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ پراجیکٹس پورے خطے کے لئے اوپن قرار دیئے گئے ہیں- تاہم تمام تر بھارتی توانائیاں افغانستان کو ترقی کے ان پراجیکٹس کا حصہ بننے سے روکنے میں لگی ہیں-ایسے میں افغان قیادت پہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی قوم کے بہتر مستقبل کے لئے جرات مندانہ اور دور اندیش فیصلے کریں-
ایک طرف تو پاکستان بھارت کی آبی دہشت گردی کی وجہ سے متاثر ہو رہا ہے تو دوسری طرف اندرونی چیلنجز کے باعث پاکستان حقیقتاً پن بجلی کی وافر صلاحیت ہونے کے باوجود توانائی کے بحران کا شکار ہے- تاجکستان جو وسیع پہاڑی سلاسل جیسی قدرتی نعمت سے مالا مال ہے اور اس کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے پن بجلی پیدا کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے [9]-ایسے میں توانائی کے شعبہ میں تعاون اہمیت اختیار کر جاتا ہے-دونوں ممالک کے درمیان بجلی سپلائی کا ایک منصوبہ کاسا-1000 (CASA-1000 electricity transmission and trade project) طے پایا ہے-اِس منصوبے کے تحت تاجکستان اور پاکستان کے درمیان بجلی کی ترسیل کے لیے لائن بچھانے کے منصوبے پر کام شروع کیا گیا ہے-یہ منصوبہ پاکستان کو تقریباً 1300میگا واٹ بجلی مہیا کرے گا-اِسی منصوبے کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے کواِس شعبے میں ٹیکنیکل اور معاشی معاونت بھی فراہم کریں گے-اِس منصوبے نے دونوں ممالک کے لوگوں کو بہت سے مواقع فراہم کیے ہیں جِن سے بھر پور طریقے سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے-
تاجکستان میں شرح خواندگی تقریباً سو فیصد (٪100)ہے جو شعبہ تعلیم میں تعاون کے مواقع کی نشاندہی کرتا ہے- پاکستان میں اِس وقت تقریباً ایک ملین تاجک باشندے آباد ہیں جو افغانستان اور سوویت یونین کی جنگ کے دوران پاکستان میں ہجرت کر کے آباد ہوئے تھے-یہ لوگ پاکستان کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہیں جِن کے توسط سےپاکستان کے عام شہری تاجکستان میں تعلیم کے حصول کے لیے اچھے اور کم خرچ اداروں کے بارے میں معلومات اکٹھا کر کے اِن سے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں- دونوں ممالک کے تقریباً تین سو باشندے اِس شعبے سے وابستہ ہیں-
پاکستان کی زرعی پیدوار دنیا میں ایک خاص مقام رکھتی ہیں -پاکستان میں پیدا ہونے والی کاٹن، آم، سنگترے، چاول اور دوسری زرعی اجناس پوری دنیا کے ساتھ ساتھ تاجکستان میں سپلائی کی جاتی ہیں-دونوں ممالک کے درمیان زرعی اجناس و ادویات کے ساتھ ساتھ زرعی مشینری کی صنعت میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے جیسا کہ 2015ءمیں پاکستان کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھتے118نفوس پر مشتمل وفد نے تاجکستان کا دورہ کیا اور مختلف شعبہ جات خصوصاً زراعت کے شعبے پر توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا[10]-اِس کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان تجارت پر عائد ٹیکس کو کم ترین سطح پر لانے پر غور کیا گیا جِس سے چھوٹے تاجروں کیلئے تجارت کے مواقع بڑھیں گے اور مجموعی تجارتی حجم بھی بڑھے گا- دونوں ممالک معدنیات کی وافر مقدار رکھتے ہیں جِن کے لیے پاکستان وسطی ایشیائی ریاستوں کی طرف معدنیات کی تجارت کے شعبے میں کافی دلچسپی ظاہر کر رہا ہے- کیونکہ دونوں ممالک کم خرچ طریقہ تجارت سے وافر مقدار میں فائدہ اٹھا سکتے ہیں-
پاکستان دنیا کا واحد اسلامی ایٹمی ملک ہے جِس کے پاس دنیا کی بہترین تربیت یافتہ اور اعلیٰ کارکردگی کی حامل فوج موجود ہے جو جدید ہتھیاروں و ٹیکنالوجی سے لیس ہے- پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیز دنیا میں پہلے نمبر پر شمار ہوتی ہیں-پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابیوں نے دنیا کے سامنے پاکستان کی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے- تاجکستان کو پاکستان فوج کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے-جیسا کہ حال ہی میں پاکستان نے روس کے ساتھ مل کر فوجی مشقوں کا اہتمام کیا اِسی طرح تاجکستان اور دیگر ممالک کے ساتھ بھی مشقیں کی جا سکتی ہیں-
خطے میں اٹھنے والے نئے خطرات دونوں ممالک سے مزید تعاون کا تقاضا کرتے ہیں- خطے میں بڑھتے بھارتی مذموم مقاصد و مغربی اثر و رسوخ یہ تقاضا کرتے ہیں کہ پاکستان اپنے علاقائی دوستوں کے ساتھ مل کر ’’بیلنس آف پاور‘‘کی خارجہ پالیسی پر گامزن ہو-دونوں ممالک کو مل کر ہر شعبے میں ایک دوسرے ساتھ تعاون کرنا چاہیے اور خطے کی امن و ترقی کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے-یہ بات اب حقیقت ہے کہ یہ دونو ں ممالک ایک دوسرے کے تعاون کے بغیر عصرِ حاضر کے چیلنجز اور ان گنت مسائل کا خاتمہ نہیں کر سکتے-مگر اِس کے لیے دونوں ممالک کو اپنے اپنے مقامی ملکی ڈھانچے کو مضبوط کرنا ہو گا کیونکہ امن و ترقی مزید امن و ترقی کی پر اعتماد فضا قائم کر سکتی ہے-
٭٭٭
[1]Kamoludin Abdullaev, Shahram Akbarzaheh, Historical Dictionary of Tajikistan (Lanham: The Scarecrow Press, 2010) p. 264
[2] Ibid
[3] Ibid
[4]Adnan H Satti, Pak-Tajik Energy & Trade Cooperation, MUSLIM Institute, http://www.muslim-institute.org/PublicationDetail?publication=107/Pak-Tajik-Energy-&-Trade-Cooperation (Accessed August 15, 2017 )
[5] Pakistan–Tajikistan relations , IPRI, http://www.ipripak.org/pakistan-tajikistan-relations/ (Accessed August 15, 2017)
[6] Ibid
[7]Road projects linking Pakistan, Tajikistan approved, The Nation, http://nation.com.pk/national/14-Nov-2015/road-projects-linking-pakistan-tajikistan-approved (Accessed August 15, 2017)
[8] Zafar Bhutta, Tajikistan to join Pakistan road link bypassing Afghanistan, The Express Tribune, Pub. February 24, 2017, https://tribune.com.pk/story/1337274/tajikistan-join-pakistan-road-link-bypassing-afghanistan/ (Accessed 15 August 2017)
[9]Staff reporter, Pakistan-Tajikistan Relations, The Sialkot Chamber Of Commerce & Industry, file:///C:/Users/Win/Downloads/scci.pdf (accessed August 15, 2017)