سلطان عبدالحمیدثانی (سلطنت عثمانیہ کے آخری بااختیار خلیفہ)

سلطان عبدالحمیدثانی (سلطنت عثمانیہ کے آخری بااختیار خلیفہ)

سلطان عبدالحمیدثانی (سلطنت عثمانیہ کے آخری بااختیار خلیفہ)

مصنف: ڈاکٹرعثمان حسن فروری 2018

تعارف:

سلطان عبد الحمید (ثانی) 21 ستمبر 1842ء کو استنبول میں پیدا ہوئے-وہ 1876ء سے 1909ء تک سلطنت عثمانیہ کے سلطان و خلیفہ کے منصب پر فائز رہے-تاریخ میں ان کا نام سلطنتِ عثمانیہ کے آخری با اثر اور با اختیار خلیفہ کے طور پر جانا جاتا ہے جو اپنا وژن، خارجہ پالیسی اور نظریات رکھتے تھے-اپنے اس منصب پر فائز ہونے سے قبل انہوں نے اپنے چچا سلطان عبدالعزیز کے ہمراہ کئی ممالک کا دورہ بھی کیا جن میں یورپ کے کئی اہم شہر شامل ہیں-کئی محققین اس دورہ کو ان کے آنے والے دورِ سلطنت کیلئے بہت اہم قرار دیتے ہیں کیونکہ اس دوران ان کے مشاہدات سلطنت کی پالیسیز کیلئے بہت اہم ثابت ہوئے-آپ نے عربی اور فارسی زبان کی تعلیم بھی حاصل کی اور دیگر علوم کے ساتھ ساتھ تصوف کے رموز سے بھی آگاہی حاصل کی-سلطان عبدالحمید اگست 1876ء میں سلطنت عثمانیہ کے حکمران بنے- 13 اگست 1876ء کو اُن کے ہاتھ پر بیعتِ امارَت و خلافت ہوئی اور انہیں باقاعدہ طور پر خلیفہ کے عہدہ پر تسلیم کیا گیا-

پس منظر و سلطنت کی مشکلات:

انیسویں صدی میں سلطنت عثمانیہ کمزور ہو رہی تھی اور اندرونی و بیرونی محاذوں پر مختلف چیلنجز سے نبرد آزما تھی- 1870ء کی دہائی میں سلطنتِ عثمانیہ میں لبرل گروپس نے خاصی طاقت پکڑی اور سلطان مراد پنجم جو لبرل نظریات رکھتے تھے انہوں نے حکومت کی بھاگ ڈور سنبھالی- تاہم ان کی ذہنی حالت میں خرابی کے باعث سلطان عبدالحمید سلطنت عثمانیہ کے حکمران بنے-یہ وہ دور تھا جب سلطنت عثمانیہ کی طاقت میں بتدریج کمی واقع ہو رہی تھی-مختلف محاذوں پر روس کی جانب سے مسائل درپیش تھے-قومیت کے مغربی تصورات مختلف علاقوں میں سرایت کر رہے تھے،نتیجتاً مختلف علاقوں میں بغاوت اور علیحدگی کی تحریکیں چل رہی تھیں اور بالخصوص بالکان میں مرکز کے خلاف بغاوتیں اٹھ رہی تھیں-ساتھ ساتھ فرانسیسی انقلاب اور مغربی سامراجی طاقتوں کے نوآبادیاتی اثرات پوری مسلم دنیا کو متاثر کر رہے تھے-سلطان عبدالحمید کے اقتدار سنبھالنے سے قبل سلطنت میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی جا رہی تھیں جنہیں تنظیمات (Tanzimat) کے نام سے جانا جاتا ہے-اس کے تحت مختلف علاقوں میں قومیت کے نظریات سے نمٹنے کیلئے عثمانوی شناخت پر زور دیا جا رہا تھا-تاہم اس تمام سلسلہ کے باوجود سلطنت کے اتحاد کو قائم رکھنا مشکل ہو رہا تھا اور قومیت پسندی کی تحریکیں بدستور اٹھتی رہیں -

مسلم تشخص و اتحاد امت:

سلطان عبد الحمید کے حکومت میں آنے کے بعد لبرل گروپس کے زور پر1867ء میں سلطنت میں آئین نافذ کیا گیا تاہم روس کے ساتھ 1877ء-1878ء کی جنگ میں سلطنت عثمانیہ کو شکست کا سامنا پڑا-تاہم اس کے باوجود سلطان عبدالحمید نے اپنی افواج کو دوبارہ منظم کیا اور سلطنت کو سہارا دیا-روس کے ساتھ جنگ کے بعد وہ اس بات پر قائل ہوئے کہ یورپی اتحادی سلطنت پر مشکل وقت میں کام نہیں آئیں گے چنانچہ انہوں نے نئی قائم کردہ اسمبلی اور آئین تحلیل کر دیئے-سلطان نے تنظیمات کے سلسلہ کو منقطع کیا اور سلطنت میں عثمانوی کی بجائے اولین شناخت کے طور پر اسلام پر زور دیا- کیونکہ تنظیمات کے تحت سلطنت کے زوال کو روکنا ممکن نہیں ہوا تھا البتہ اسلامی شناخت پر توجہ کم کرنے کے باعث قومیت پسندی کو زیادہ تقویت ملی تھی-سُلطان نے اِس بات کا اندازہ لگا لیا تھا کہ مغرب کو ترکی سے کم ہی خار ہے مغربی طاقتوں کا اصل ہدف ’’اسلامی شناخت کا طرزِ حکومت‘‘ہے - سلطان عبدالحمید اس بات پر قائل ہو گئے تھے کہ مسلمانوں کے اتحاد اور مرکز کو قائم رکھنے کیلئے مسلمانوں کو نظریاتی طور پر مسلم شناخت کی جانب قائل کرنا ہو گا اور یہی سلطنت کی طاقت کا بھی راز ہے-اس کا یہ مطلب نہ تھا کہ انہوں نے جدت کے سلسلہ کو ترک کیا بلکہ انہوں نے تمام تر جدت کی پالیسیز کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ کئی نئے پراجیکٹ بھی شروع کئے مگر اس مرتبہ ان کیلئے رہنما اصول اسلام سے اخذ کئے جا رہے تھے -[1]

جیسا کہ اوپر بیان ہو اہے کہ انیسویں صدی دنیا بھر میں یورپی قومیت کے نظریات کی لپیٹ میں تھی اور سلطنت عثمانیہ کے اکثر حصے بھی ان نظریات سے متاثر ہوئے ایسے میں عرب کی صورتحال بھی زیادہ مختلف نہ تھی اور وہاں بھی کئی علاقوں میں اسلامی شناخت کی بجائے عرب قومیت کے نظریات فروغ پا رہے تھے- انیسویں صدی کے اواخر میں ’’النحدہ‘‘ کے نام سے تحریک شروع ہوئی جو مغربی تصورات سے متاثر تھی اور اصلاحات کے ساتھ ساتھ عرب قومیت پر مرکوز تھی-ابتدا میں یہ تحریک مصر اور شام سے شروع ہوئی جس کی بنیادیں فرانس کے مصر پر قبضہ سے ملتی ہیں کیونکہ اسی دوران وہاں قومیت کے مغربی تصورات کو پھیلایا گیا-تاہم عرب میں قومیت پرستی کی تحریک کو اقلیت کی ہی حمایت حاصل تھی اور پہلی جنگِ عظیم تک اسے خاص پذیرائی حاصل نہ ہوئی - [2]

1881ء میں فرانس نے تیونس اور 1882ء میں برطانیہ نے مصر پر قبضہ کر لیا تھا اور انیسویں صدی کی آخری دہائی میں برطانوی اخبارات میں مختلف تجاویز شائع ہوتی رہیں کہ برطانیہ کو جزیرہ نمائے عرب میں اپنا کنٹرول بڑھانا چاہئے اور یہ بھی کہ خلیفہ عبدالحمید چونکہ سادات میں سے نہیں اس لئے انہیں سلطنت کا حق نہیں ہے چنانچہ عرب کیلئے خلیفہ عرب میں سے ہی ہو اور سادات میں سے ہونا چاہئے-ان حالات میں عرب نیشنل ازم کو مزید فروغ ملا اور بیرونی محاذوں میں مسائل کا سامنا کرنے والی سلطنت کو اندرونی سطح پر زیادہ چیلنجز کا سامنا ہونے لگا-خلیفہ عبد الحمید نے صورتحال کو بھانپتے ہوئے 1881ء میں حجاز مقدس کی جانب بھی دستے روانہ کئے تاکہ حالات کو کنٹرول میں رکھا جائے اور سلطنت کی وحدت قائم رہے-انیسویں صدی کے اواخر میں السعود خاندان کی جانب سے بھی مختلف علاقوں میں کنٹرول کیلئے سلطنت کے ساتھ جھڑپیں ہوتی رہیں-1902ء میں ملک عبد العزیز ابن سعود نے ریاض کا کنٹرول حاصل کیا اور یہی تحریک بعد میں سودی عرب کے قیام کا باعث بھی بنی-

انیسویں صدی کے اواخر میں سلطنت عثمانیہ کے عیسائی اکثریت والے کئی یورپی علاقے سلطنت سے علیحدگی اختیار کر چکے تھے اور اب سلطنت واضح مسلم اکثریت پر مشتمل تھی-نیز دنیا بھر کے مسلمان نوآبادیاتی یلغار کی لپیٹ میں تھے چنانچہ ایک ایسے نظریہ کی ضرورت تھی جو حریت اور آزادی کی تڑپ کو ہر مسلمان میں جگا سکے-سلطان عبدالحمید کی نظر میں سلطنت کی مضبوطی مسلم امہ کے اتحاد، دنیا میں ان کے حقوق و مفادات کے تحفظ اور سامراجی ہتھکنڈوں سے نمٹنے کیلئے ناگزیر تھی-وہ سمجھتے تھے کہ اس ضمن میں سلطنت عثمانیہ مسلم امہ کو حریت کی جانب گامزن کر سکتی ہے-وہ اس بات سے بھی آشنا تھے کے اس دور میں مغربی اسکالزر کی جانب سے اسلام پر کیا تنقید ہو رہی ہے-انہوں نے اس پر کچھ مغربی سکالرز کے ساتھ تبادلہ خیال بھی کیا اور وہ اس نقطہ نظر کے حامی تھے کہ اسلام کسی جامد نظام کا نظریہ نہیں دیتا بلکہ اپنے بنیادی اصولوں کے ساتھ جدت کا حامی ہے-وہ سلطنت عثمانیہ میں صدیوں سے آباد غیر مسلموں کو بطور ثبوت پیش کرتے تھے کہ اسلام ان کے ساتھ بردباری، برداشت، تحمل اور احترام کے سلوک کا درس دیتا ہے اور اسی لئے یہ لوگ سلطنت میں لمبے عرصے سے مقیم ہیں[3]-سلطان عبد الحمید کے نظریات کا صحیح اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ مسلم اتحاد کے داعی انیسویں صدی کے معروف سکالر جمال الدین افغانی کئی سال تک ان کے مشیر رہے-

سلطان عبدالحمید کا مسلم اتحادکا نظریہ فقط سلطنت عثمانیہ تک محدود نہ تھا بلکہ وہ تمام دنیا کے مسلمانوں کے مابین اتحاد و یگانگی کی فضا دیکھنا چاہتے تھے-انہوں نے اس ضمن میں مختلف مسلم علاقوں میں اپنے وفود بھیجے[4]-انہوں نے افریقہ کے مسلمان علاقوں میں تحائف کے ساتھ وفود بھیجے تاکہ وہ انہیں مغربی سامراجی طاقتوں کے خلاف اپنا محافظ کے طور پر تسلیم کریں-اسی طرح چین اور روس کے مسلم علاقوں میں بھی انہوں نے وفود بھیجے-چین میں انور پاشا کی قیادت میں بھیجے گئے وفد کو بہت پذیرائی ملی اور 1908ء میں بیجنگ حمیدیہ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا[5] جس پر سلطنت عثمانیہ کا جھنڈا لہرایا گیا جو چینی مسلمانوں کی جانب سے خلیفہ کے لئے عزت اور احترام کی علامت تھا[6]-حتیٰ کہ برٹش انڈیا اور چین میں جمعہ کے خطبات میں انہیں خلیفہ تسلیم کیا جاتا تھا[7]-

روس کے ساتھ 1877ء کی جنگ کے بعد سلطان عبدالحمید کی جانب سے افغانستان میں بھی اعلیٰ سطحی سفارتی وفد بھیجا گیا جس کا ایک مقصد مشترکہ دشمن کے خلاف متحد ہو کر لڑنا بھی تھا-انہوں نے انڈیا، سنگاپور، جنوبی افریقہ اور دیگر ایسے کئی علاقوں میں سلطنت عثمانیہ کے نئے قونصل خانے قائم کئے اور بیرونی دنیا بالخصوص مسلمانوں سے تعلقات کو فروغ دیا اور ساتھ ہی ساتھ نو آبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد کیلئے انہیں آمادہ کیا، چاہے وہ برطانوی نو آبادیات تھیں، ڈچ یا دیگر-

نظامِ سلطنت میں اصلاحات:

فرانس اور برطانیہ اُس وقت سلطنت کے مختلف علاقوں پر قابض ہو رہے تھے،روس کے ساتھ بھی مختلف محاذوں پر جنگیں لڑی گئیں جبکہ جرمنی ان کے مقابلے میں ایک اُبھرتی ہوئی طاقت تھی-سلطان عبدالحمید نے جرمنی کے ساتھ اچھے تعلقات کو فروغ دیا-انہوں نے اُس دور کے تقاضوں کے مطابق نظامِ سلطنت میں مختلف اصلاحات کیں جو ان کی جدت پسندی کو ظاہر کرتا ہے-انہوں نے نظامِ دفاع میں بھی اصلاحات کیں اور اس ضمن میں جرمنی سے بھی استفادہ کیا-سلطنت میں مختلف کلاک ٹاورز قائم کئے گئے جن کا مقصد ایک جانب حکومتی رِٹ کو برقرار رکھنا تھا تو دوسری جانب عوام میں وقت کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا انہوں نے سلطنت کی مضبوطی کیلئے ٹیلی گراف کا استعمال کیا اور ان کے دور میں ٹیلی گراف لائینز کی لمبائی پہلے سے موجود کے مقابلے میں دوگنی ہو گئی تھی[8]-ٹیلی گراف کے ذریعے انہیں مؤثر انداز میں نظامِ حکومت چلانے میں مدد ملی- سلطان عبد الحمید نے سلطنت میں جاری نظام تعلیم میں اصلاحات کیں اور فقہ، تفسیر، اخلاقیات اور اسلامی تاریخ جیسے موضوعات پر زیادہ توجہ مرکوز کی[9]-انہوں نے کئی دینی مدارس بھی قائم کئے اور ان کی خصوصی نگرانی کی-سلطان عبد الحمید نے حرمین شریفین پر خصوصی توجہ دی اور وہاں ہسپتال، انفراسٹرکچر اور بیرکس بنانے کا کام ہوا-اسی دوران خانہ کعبہ اور مسجد حرام میں پانی کا جدید نظام لایا گیا[10]-

انیسویں صدی میں دنیا بھر میں تیز ترین حرکت کیلئے ٹرینوں کا استعمال ہو رہا تھا ایسے میں سلطان عبدالحمید کی توجہ بھی ریلوے ٹریکس کی جانب تھی-انیسویں صدی عیسوی کے اواخر میں جرمنی کے تعاون سے سلطنتِ عثمانیہ میں کچھ ریل کے منصوبے مکمل کئے گئے اور 1897ء میں سلطنت عثمانیہ کے یونان کیخلاف جنگ جیتنے میں ان ٹریکس نے اہم کردار ادا کیا-دیگر چھوٹے ٹریکس کے علاوہ سلطان عبدالحمید کی جانب سے ریل کے دو بہت اہم منصوبے شروع کئے گئے جو تاریخی اہمیت کے حامل ہیں-

1- حجاز ریلوے

حجاز ریلوے کا منصوبہ اگرچہ سلطان عبدالحمید کے حکومت سنبھالنے سے قبل ہی زیرِ غور تھا تاہم اس پر کام 1900ء میں شروع ہوا-انیسویں صدی کی آخری دہائی میں سلطان کو اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ حجاز مقدس کے اردگرد سکیورٹی صورتحال، معاشی استحکام، حجاج کرام کی آسانی اور دفاعی اعتبار سے اس ریلوے کا قیام ناگزیر تھا-چنانچہ دمشق سے مدینہ منورہ کی جانب ریلوے لائن بچھانے کا کام شروع کیا گیا-یہ ٹریک شام، فلسطین، عرب کے صحرا سے ہوتا ہوا مدینہ منورہ تک آنا تھا جس کیلئے بہت بڑی رقم درکار تھی-سلطنت کے مالی حالات اس ٹریک کی تعمیر کیلئے کافی نہ تھے چنانچہ اس میں رضا کارانہ طور پر چندہ جمع کرنے کا سلسلہ شروع ہوا-سلطان نے سب سے پہلے اس مقصد کیلئے اپنے ذاتی مال سے حصہ ڈالا اور اسی طرح کئی وزراء کی جانب سے بھی اس میں حصہ ڈالا گیا-اس کے بعد عوامی سطح پر اور سلطنت عثمانیہ کے علاوہ دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں کی جانب سے اس میں حصہ لیا گیا-یہ ریلوے مسلمانوں کے فنڈز سے تعمیر کی گئی اور مسلمان مزدور ہی اس کا حصہ بنے اور یہ واحد ریلوے ٹریک تھا جس کا منصوبہ، تعمیر، ملکیت اور نظم و نسق سلطنت کی جانب سے کیا گیا تھا-برصغیر کے مسلمانوں نے بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ایران کے بادشاہ کی جانب سے بھی اس میں حصہ پیش کیا گیا[11]- اگرچہ برصغیر کے حجاج کیلئے براہ راست اس کے استعمال کا امکان نہ تھا کیونکہ یہ ان کے روٹ میں نہیں آتی تھی تاہم ان کی جانب سے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ایک جانب مسلم اتحاد اور سلطنت کے حق میں کاوش تھی اور دوسری جانب برطانوی نو آبادیات کے خلاف بھی ایک قسم کا ردّ عمل تھا کیونکہ اس وقت مسلمانوں کیلئے عالمی سطح پر نو آبادیاتی اور سامراجی نظام کے خلاف سلطنت عثمانیہ ہی سب سے بڑی اور مؤثر آواز تھی-ان تمام کاوشوں کے باعث 1908ء میں ریلوے کی تکمیل ہوئی اور پہلے سال 250,000 مسافروں نے اس کے ذریعے سفر کیا[12]- اس کے ذریعے اسلام کے بنیادی مراکز تک رسائی انتہائی آسانی سے ممکن ہوئی-تاہم سلطان عبدالحمید کے سبکدوش ہونے کے بعد مکہ مکرمہ تک اس کی توسیع نہ ہوسکی-

2- بغداد ریلوے

انیسویں صدی میں سلطنت عثمانیہ اور اس وقت کی اُبھرتی عالمی طاقت جرمنی کے مابین جرمنی کے شہر برلن تا بغداد1600 کلومیٹر طویل بغداد ریلوے کے نام سے ریل ٹریک بچھانے کا منصوبہ بنایا گیا جس پر 1903ء میں کام شروع ہوا-یہ ریل ٹریک اُس دور کے تناظر میں انتہائی اہم تھا کیونکہ اس وقت یورپ تا ایشیاء اور مشرقی افریقہ کی زیادہ تر بحری تجارت پر برطانیہ اور فرانس کی اجارہ داری تھی اور مختلف اہم تجارتی شاہراہوں کے ساتھ ساتھ انتہائی اہم نہر سویز برطانوی کنٹرول میں تھی-ساتھ ہی ساتھ سلطنت عثمانیہ قرضوں کے بوجھ تلے دبی تھی اور اس کے روس کے ساتھ تعلقات بھی کشیدہ تھے- اس سارے تناظر میں اس ریل ٹریک کی تعمیر سے نہ صرف سلطنت عثمانیہ کی معاشی و دفاعی حالت بہتر ہو جاتی بلکہ جرمنی کو خلیج فارس تک با آسانی رسائی حاصل ہو جاتی اور بحری راستوں پر موجود برطانیہ اور فرانس کی اجارہ داری میں کمی آ جاتی-چنانچہ یہ مجوزہ ریل ٹریک تجارت و معیشت کے ساتھ ساتھ دفاعی نقطہ نظر سے بھی خاصی اہمیت اختیار کر گیا تھا- اُس وقت سلطنتِ عثمانیہ میں دیگر معدنی وسائل کے علاوہ پٹرولیم کے ذخائر کی رپورٹس بھی سامنے آئیں تھیں اور اُن پر کام جاری تھا مگر اُس وقت کے موجود انفراسٹرکچر کے ساتھ عالمی منڈی میں اس کی سپلائی مناسب ریٹ پر ممکن نہ تھی اس حوالے سے بھی یہ ریل ٹریک اہمیت رکھتا تھا -اس ریل ٹریک کی تیاری 1903ء میں شروع ہوئی تاہم فنڈز کی کمی اور دیگر فنی مسائل کی وجہ سے اس کی تکمیل تاخیر کا شکار رہی- بعد ازاں پہلی جنگ عظیم کے باعث یہ منصوبہ سست روی کا شکار ہوا اور پھر 1940ء میں تکمیل تک پہنچا(جب سلطنت عثمانیہ ٹوٹ چکی تھی اور مسلم دنیا بھی مختلف ممالک میں تقسیم ہو گئی تھی یا نوآبادیات کا شکار تھی)-یہ منصوبہ بھی سلطان عبدالحمید کی دور اندیشی اور ترقی پسندانہ پالیسیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے-

مسئلہ فلسطین اور سلطان عبدالحمید ثانی:

سلطان عبد الحمید ثانی کا نام تاریخ میں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا-انیسوی صدی میں سلطنت عثمانیہ کے دیگر علاقوں کے ساتھ ساتھ عیسائیت، اسلام اور یہودی، تینوں مذاہب کیلئے اہم سرزمینِ فلسطین میں بھی برطانیہ اپنے قدم جمانے کی کوششوں میں مصروف تھا- 1882ء میں مصر پر قبضہ کے بعد نہر سویز بھی برطانوی کنٹرول میں تھی اور اس کی مشرق وسطیٰ میں دلچسپی اور مداخلت بڑھ رہی تھی-ساتھ ہی ساتھ عرب قومیت کے نام پر اٹھنے والی تحریکیں بھی سرگرم تھیں[13]- تاہم اُس وقت تک فلسطین میں مذہبی تنوع بھی قائم تھااور مذہبی ہم آہنگی بھی-

 اگست 1897ء میں بیسل، سویزرلینڈ میں پہلی عالمی صہیونی کانگریس کے موقع پر تھیوڈر ہرزل نے عالمی صہیونی تحریک (World Zionist Organization) کی بنیاد رکھی جس کے مقاصد میں اولین فلسطین میں یہودیوں کو بسانا تھا- تھیوڈر ہرزل مغربی طاقتوں کی کچھ تائید کے بعد خلیفہ عبدالحمید ثانی سے ملاقات کیلئے کوششیں کرنے لگا اور 1896ء سے 1902ء کے درمیان پانچ مرتبہ استنبول آیا اور ابتدا میں اس بات کا اظہار کیا کہ اگر سلطنت عثمانیہ یہودی مہاجرین کو پناہ دے تو وہ سلطنت کے ماتحت رہیں گے اور اپنے کاروبار کے ذریعے بڑی رقم ٹیکس کی مد میں دیں گے(مہاجرین کی مدد مغرب میں بسنے والے امیر اور کاروبار کے مالک یہودی کریں گے) سلطان عبدالحمید نے یورپ میں مظالم سہنے والے یہودی مہاجرین کے سلطنت میں آنے پر آمادگی ظاہر کی مگر ساتھ یہ شرط رکھی کہ ان تمام کو کسی ایک جگہ پر نہیں رکھا جائے گا بلکہ مختلف جگہوں پر رہیں گے- تاہم تھیوڈر ہرزل چاہتا تھا کہ ایسی شرائط رکھی جائیں کہ یہودیوں کی ایک بڑی کمپنی کا قیام ممکن ہو جو ضرورت پڑنے پر جتنی چاہے زمین خرید سکے تاکہ ان کے خفیہ ارادوں کی تکمیل ہو چنانچہ ہرزل اور سلطان کے مابین معاہدہ طے نہ پایا-سلطان نے یہودی مہاجرین کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت نہ دی [14]کیونکہ وہ صہیونی عزائم سے آگاہ تھا اور کسی طور پر بھی بیت المقدس کے شماریات میں تبدیلی کے مخالف تھا-سلطان نے واضح طور پر فلسطین کا علاقہ صہیونیوں کو دینے سے انکار کیا اور ساتھ ہی ساتھ وہاں اس خطرے کے پیش نظر کہ یہودی اپنے قدم جمانے شروع کر دیں گے، فلسطین میں صہیونیوں کے زمین خریدنے پر بھی پابندی لگا دی-خلیفہ کا نظریہ تھا کہ وہاں پر عربی تفوق قائم رہنا چاہئے[15]-سلطان کے اجازت نہ دینے کے باوجود غیر قانونی طریقے سے یہودیوں نے کچھ نہ کچھ آبادکاری فلسطین کے مختلف علاقوں میں شروع کی-ہرزل کی جانب سے سلطان کو خطیر رقم کی پیشکش کی گئی اُس وقت سلطنت عثمانیہ معاشی بحران کا شکار تھی اور قرضوں کے بوجھ تلے دبی تھی اور بڑی رقم کی پیشکش اس کی معاشی صورتحال میں بہتری اور قرضوں کی ادائیگی کے لئے بڑی اہمیت رکھتی تھی اور سلطان کی اولین ترجیحات میں سے ایک سلطنت کی معاشی حالت کو بہتر کرنا بھی تھا مگر سلطان عبد الحمید نے صہیونیوں کے عزائم بھانپتے ہوئے اس پیشکش کو رد کر دیا اور کہا:

“I cannot sell even a foot of land, for it does not belong to me, but to my people. My people have won this empire by fighting for it with their blood and have fertilized it with their blood. We will again cover it with our blood before we allow it to be wrested away from us”.[16]

’’میں زمین کا ایک فٹ ٹکڑا بھی نہیں بیچ سکتا کیونکہ یہ میری نہیں بلکہ عوام کی ملکیت ہے-میری رعایا نے یہ سلطنت اپنے خون سے حاصل کی ہے اور خون ہی سے اس کی آبیاری کی ہے-اس سے پہلے کہ ہم اسے اپنے ہاتھ سے جانے دیں، ہم دوبارہ اسے اپنے خون سے ڈھانپ لیں گے‘‘-

اسرائیل کے قیام کے منصوبہ میں رکاوٹ ہونا سلطنت عثمانیہ کے زوال کے پس منظر میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے- کیونکہ سلطان عبد الحمید کے سبکدوش ہونے کے کچھ عرصہ بعد فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری تیز ہوئی اور پھر بیلفور ڈیکلیریشن اور اس کے بعد دوسری جنگ عظیم تک تمام تر ہونے والی تبدیلیاں اسرائیل کے قیام کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرتی چلی گئیں-یہ سوال تاریخ میں بہر طور موجود ہے کہ اگر ایک جانب مغرب میں یہودی کمیونٹی پر انتہائی درجے کے مظالم ڈھائے جا رہے تھے تو دوسری جانب صہیونی لابی کیلئے کیسے ممکن ہوا کہ وہ تسلسل کے ساتھ اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہناتے رہے حتیٰ کہ ’’ہولوکاسٹ‘‘ کے باوجود بھی وہ اپنے مذموم مقصد میں کامیاب رہے!!!

تصوف سے لگاؤ:

سلطان عبدالحمید خود بھی تصوف سے لگاؤ رکھتے تھے اور انہوں نے مسلمانوں کے مابین اتحاد و یگانگی اور مختلف امور میں مشاورت کیلئے مختلف سلاسلِ طریقت کے ساتھ مضبوط روابط قائم کئے-انیسویں صدی میں مجموعی طور پر مسلم دنیا مغربی نو آبادیات کا شکار ہو رہی تھی اور شمالی افریقہ میں بھی سلطنت عثمانیہ کو فرانسیسی یلغار کا سامنا تھا چنانچہ وہاں سلطان عبد الحمید نے مختلف سلاسل کے ساتھ گہرے روابط قائم کئے تاکہ تمام بیرونی خطرات اور اندرونی خلفشار کا مقابلہ کیا جا سکے اور مسلم امہ کے اتحاد کو قائم رکھا جائے- 1881ء میں تیونس پر فرانسیسی حملے کے پیش نظر انہوں نے شمالی افریقہ میں جہا ں اپنی عسکری موجودگی کو بڑھایا تو وہیں تصوف کے مختلف سلاسل سے اپیل کی کہ وہ عوامی سطح پر سلطنت کے دفاع کیلئے آگاہی مہم چلائیں اور نیٹورک قائم کریں-دارلخلافہ میں ایک مرکزی کمیٹی بھی بنائی گئی جس میں علماء و مشائخ شامل تھے اور سلطان کے مشیر کی حیثیت سے کام کرتے تھے[17]-مک گِل یونیورسٹی کینیڈاکے راشد چوہدری اس حوالہ سے لکھتے ہیں:

“Abdülhamid was, according to Ayşe, a Muslim who possessed a strong sense of faith, who prayed five times a day and regularly read the Qur‘an. Additionally, the Sultan was, according to his daughter, a spiritual man, who belonged to at least two Sufi brotherhoods, the Shadhiliyya and the Qadiriyya”.[18]

’’عائشہ (سلطان عبدالحمید ثانی کی بیٹی) کے مطابق سلطان عبد الحمید مضبوط عقیدہ رکھنے والے مسلمان تھے جو پنجگانہ نماز پڑھتے تھے اور باقاعدگی سے قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے-مزید برآں ان کی بیٹی کے مطابق سلطان ایک روحانی شخصیت تھے جو کم از کم دو صوفی سلاسل سے وابستہ تھے، شاذلیہ اور قادریہ‘‘-

اختتامیہ:

1908ء میں لبرل گروپ ینگ ترکس نے ایک بار پھر پُر زور تحریک چلائی-سلطان عبدالحمید نے پارلیمنٹ اور 1876ء کے آئین کو بحال کر دیا- آئین میں تبدیلیاں لائی گئیں اور خلیفہ کے اختیارات کو مزید محدود کیا گیا-تاہم1909ء میں سلطنت میں عدم استحکام اور حالات خراب ہونے پر خلیفہ سلطان عبدالحمید کو سبکدوش ہونا پڑا-بعض مؤرخین کے مطابق اگرچہ خلیفہ ان حالات کے ذمہ دار نہ تھے تاہم یہ ان کے دورِ حکومت کے اختتام کا باعث بنے[19]- ان کے بھائی محمد راشد کو ینگ ترکس کی جانب سے نیا سلطان منتخب کیا گیا-

یہ درست ہے کہ سلطان عبدالحمید بحیثیت مجموعی سلطنت کے زوال کو نہ روک سکے تاہم انہوں نے اس کی گرتی دیواروں کو ایک بار پھر سے مضبوط کیا اور سامراجی طاقتوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوئے ، یہ سُلطان عبد الحمید ثانی ہی کی کاوشوں کا ثمر تھا کہ سخت ترین سیکولر انقلاب کے باوجود ترکی کی اسلامی شناخت کو ختم نہیں کیا جا سکا -مغربی قومیت کے اثرات کے باعث آنے والے سالوں میں سلطنت عثمانیہ کے ٹوٹنے کے بعد نہ صرف ملت اسلامیہ تقسیم در تقسیم ہوئی بلکہ آج تک دنیا میں حقیقی آزادی و حریت حاصل نہیں کر پائی-

سلطان عبدالحمید ثانی نے 10 فروری 1918ء کو 75 سال کی عمر میں ترکی میں وفات پائی-ان کا مزار استنبول میں ہے-

٭٭٭


[1])Rashed Chowdhury. Pan-Islamism and modernisation during the reign of Sultan Abdülhamid II, 1876-1909. Master's thesis, 2011. Montreal, Canada: McGill University. P 17(

[2]C. Ernest Dawn. "The Formation of Pan-Arab Ideology in the Interwar Years." International Journal of Middle East Studies 20, no. 1 (1988): 67-91. http://www.jstor.org/stable/163586(

[3])Rashed Chowdhury. Pan-Islamism and modernisation during the reign of Sultan Abdülhamid II, 1876-1909. P 166(

[4])Firas Alkhateeb. "The Last Great Caliph: Abdülhamid II." Lost Islamic History(

[5]Ibid P 183(

[6])Idris Bal. Turkish Foreign Policy in Post Cold War Era. Universal-Publishers, 2004. P 406(

[7])Firas Alkhateeb. "The Last Great Caliph: Abdülhamid II." Lost Islamic History(

[8])Rashed Chowdhury. Pan-Islamism and modernisation during the reign of Sultan Abdülhamid II, 1876-1909. P 293(

[9](علامہ محمد ظفر اقبال کلیار (مترجم) سلطنتِ عثمانیہ، ضیاء القرآن پبلیکیشنز پاکستان 2008- ص:475)

[10])Firas Alkhateeb. "The Last Great Caliph: Abdülhamid II." Lost Islamic History. October 30, 2017.

[11](علامہ محمد ظفر اقبال کلیار (مترجم) سلطنتِ عثمانیہ - ص:480)

[12])Rashed Chowdhury. Pan-Islamism and modernisation during the reign of Sultan Abdülhamid II, 1876-1909. P 334(

[13])Roy S Fischel and Ruth Kark. "Sultan Abdülhamid II and Palestine: Private lands and imperial policy." New Perspectives on Turkey 39 (2008): 129-166.(

[14](Şakir Batmaz. "ILLEGAL JEWISH-IMMIGRATION POLICY IN PALESTINE (PERIODS OF 1 st and 2 nd CONSTITUTIONAL MONARCHY)." Electronic Turkish Studies 3, no. 1 (2008).

[15](علامہ محمد ظفر اقبال کلیار (مترجم) سلطنتِ عثمانیہ- ص:495)

[16])Mim Kemal Öke. "The Ottoman empire, Zionism, and the question of Palestine (1880–1908)." International Journal of Middle East Studies 14, no. 3 (1982): 329-341.(

[17](علامہ محمد ظفر اقبال کلیار (مترجم) سلطنتِ عثمانیہ- ص:471)

[18](Rashed Chowdhury. Pan-Islamism and modernisation during the reign of Sultan Abdülhamid II, 1876-1909. P 163)

[19]( علامہ محمد ظفر اقبال کلیار (مترجم) سلطنتِ عثمانیہ- ص:505)

تعارف:

سلطان عبد الحمید (ثانی) 21 ستمبر 1842ء کو استنبول میں پیدا ہوئے-وہ 1876ء سے 1909ء تک سلطنت عثمانیہ کے سلطان و خلیفہ کے منصب پر فائز رہے-تاریخ میں ان کا نام سلطنتِ عثمانیہ کے آخری با اثر اور با اختیار خلیفہ کے طور پر جانا جاتا ہے جو اپنا وژن، خارجہ پالیسی اور نظریات رکھتے تھے-اپنے اس منصب پر فائز ہونے سے قبل انہوں نے اپنے چچا سلطان عبدالعزیز کے ہمراہ کئی ممالک کا دورہ بھی کیا جن میں یورپ کے کئی اہم شہر شامل ہیں-کئی محققین اس دورہ کو ان کے آنے والے دورِ سلطنت کیلئے بہت اہم قرار دیتے ہیں کیونکہ اس دوران ان کے مشاہدات سلطنت کی پالیسیز کیلئے بہت اہم ثابت ہوئے-آپ نے عربی اور فارسی زبان کی تعلیم بھی حاصل کی اور دیگر علوم کے ساتھ ساتھ تصوف کے رموز سے بھی آگاہی حاصل کی-سلطان عبدالحمید اگست 1876ء میں سلطنت عثمانیہ کے حکمران بنے- 13 اگست 1876ء کو اُن کے ہاتھ پر بیعتِ امارَت و خلافت ہوئی اور انہیں باقاعدہ طور پر خلیفہ کے عہدہ پر تسلیم کیا گیا-

پس منظر و سلطنت کی مشکلات:

انیسویں صدی میں سلطنت عثمانیہ کمزور ہو رہی تھی اور اندرونی و بیرونی محاذوں پر مختلف چیلنجز سے نبرد آزما تھی- 1870ء کی دہائی میں سلطنتِ عثمانیہ میں لبرل گروپس نے خاصی طاقت پکڑی اور سلطان مراد پنجم جو لبرل نظریات رکھتے تھے انہوں نے حکومت کی بھاگ ڈور سنبھالی- تاہم ان کی ذہنی حالت میں خرابی کے باعث سلطان عبدالحمید سلطنت عثمانیہ کے حکمران بنے-یہ وہ دور تھا جب سلطنت عثمانیہ کی طاقت میں بتدریج کمی واقع ہو رہی تھی-مختلف محاذوں پر روس کی جانب سے مسائل درپیش تھے-قومیت کے مغربی تصورات مختلف علاقوں میں سرایت کر رہے تھے،نتیجتاً مختلف علاقوں میں بغاوت اور علیحدگی کی تحریکیں چل رہی تھیں اور بالخصوص بالکان میں مرکز کے خلاف بغاوتیں اٹھ رہی تھیں-ساتھ ساتھ فرانسیسی انقلاب اور مغربی سامراجی طاقتوں کے نوآبادیاتی اثرات پوری مسلم دنیا کو متاثر کر رہے تھے-سلطان عبدالحمید کے اقتدار سنبھالنے سے قبل سلطنت میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی جا رہی تھیں جنہیں تنظیمات (Tanzimat) کے نام سے جانا جاتا ہے-اس کے تحت مختلف علاقوں میں قومیت کے نظریات سے نمٹنے کیلئے عثمانوی شناخت پر زور دیا جا رہا تھا-تاہم اس تمام سلسلہ کے باوجود سلطنت کے اتحاد کو قائم رکھنا مشکل ہو رہا تھا اور قومیت پسندی کی تحریکیں بدستور اٹھتی رہیں -

مسلم تشخص و اتحاد امت:

سلطان عبد الحمید کے حکومت میں آنے کے بعد لبرل گروپس کے زور پر1867ء میں سلطنت میں آئین نافذ کیا گیا تاہم روس کے ساتھ 1877ء-1878ء کی جنگ میں سلطنت عثمانیہ کو شکست کا سامنا پڑا-تاہم اس کے باوجود سلطان عبدالحمید نے اپنی افواج کو دوبارہ منظم کیا اور سلطنت کو سہارا دیا-روس کے ساتھ جنگ کے بعد وہ اس بات پر قائل ہوئے کہ یورپی اتحادی سلطنت پر مشکل وقت میں کام نہیں آئیں گے چنانچہ انہوں نے نئی قائم کردہ اسمبلی اور آئین تحلیل کر دیئے-سلطان نے تنظیمات کے سلسلہ کو منقطع کیا اور سلطنت میں عثمانوی کی بجائے اولین شناخت کے طور پر اسلام پر زور دیا- کیونکہ تنظیمات کے تحت سلطنت کے زوال کو روکنا ممکن نہیں ہوا تھا البتہ اسلامی شناخت پر توجہ کم کرنے کے باعث قومیت پسندی کو زیادہ تقویت ملی تھی-سُلطان نے اِس بات کا اندازہ لگا لیا تھا کہ مغرب کو ترکی سے کم ہی خار ہے مغربی طاقتوں کا اصل ہدف ’’اسلامی شناخت کا طرزِ حکومت‘‘ہے - سلطان عبدالحمید اس بات پر قائل ہو گئے تھے کہ مسلمانوں کے اتحاد اور مرکز کو قائم رکھنے کیلئے مسلمانوں کو نظریاتی طور پر مسلم شناخت کی جانب قائل کرنا ہو گا اور یہی سلطنت کی طاقت کا بھی راز ہے-اس کا یہ مطلب نہ تھا کہ انہوں نے جدت کے سلسلہ کو ترک کیا بلکہ انہوں نے تمام تر جدت کی پالیسیز کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ کئی نئے پراجیکٹ بھی شروع کئے مگر اس مرتبہ ان کیلئے رہنما اصول اسلام سے اخذ کئے جا رہے تھے -[1]

جیسا کہ اوپر بیان ہو اہے کہ انیسویں صدی دنیا بھر میں یورپی قومیت کے نظریات کی لپیٹ میں تھی اور سلطنت عثمانیہ کے اکثر حصے بھی ان نظریات سے متاثر ہوئے ایسے میں عرب کی صورتحال بھی زیادہ مختلف نہ تھی اور وہاں بھی کئی علاقوں میں اسلامی شناخت کی بجائے عرب قومیت کے نظریات فروغ پا رہے تھے- انیسویں صدی کے اواخر میں ’’النحدہ‘‘ کے نام سے تحریک شروع ہوئی جو مغربی تصورات سے متاثر تھی اور اصلاحات کے ساتھ ساتھ عرب قومیت پر مرکوز تھی-ابتدا میں یہ تحریک مصر اور شام سے شروع ہوئی جس کی بنیادیں فرانس کے مصر پر قبضہ سے ملتی ہیں کیونکہ اسی دوران وہاں قومیت کے مغربی تصورات کو پھیلایا گیا-تاہم عرب میں قومیت پرستی کی تحریک کو اقلیت کی ہی حمایت حاصل تھی اور پہلی جنگِ عظیم تک اسے خاص پذیرائی حاصل نہ ہوئی - [2]

1881ء میں فرانس نے تیونس اور 1882ء میں برطانیہ نے مصر پر قبضہ کر لیا تھا اور انیسویں صدی کی آخری دہائی میں برطانوی اخبارات میں مختلف تجاویز شائع ہوتی رہیں کہ برطانیہ کو جزیرہ نمائے عرب میں اپنا کنٹرول بڑھانا چاہئے اور یہ بھی کہ خلیفہ عبدالحمید چونکہ سادات میں سے نہیں اس لئے انہیں سلطنت کا حق نہیں ہے چنانچہ عرب کیلئے خلیفہ عرب میں سے ہی ہو اور سادات میں سے ہونا چاہئے-ان حالات میں عرب نیشنل ازم کو مزید فروغ ملا اور بیرونی محاذوں میں مسائل کا سامنا کرنے والی سلطنت کو اندرونی سطح پر زیادہ چیلنجز کا سامنا ہونے لگا-خلیفہ عبد الحمید نے صورتحال کو بھانپتے ہوئے 1881ء میں حجاز مقدس کی جانب بھی دستے روانہ کئے تاکہ حالات کو کنٹرول میں رکھا جائے اور سلطنت کی وحدت قائم رہے-انیسویں صدی کے اواخر میں السعود خاندان کی جانب سے بھی مختلف علاقوں میں کنٹرول کیلئے سلطنت کے ساتھ جھڑپیں ہوتی رہیں-1902ء میں ملک عبد العزیز ابن سعود نے ریاض کا کنٹرول حاصل کیا اور یہی تحریک بعد میں سودی عرب کے قیام کا باعث بھی بنی-

انیسویں صدی کے اواخر میں سلطنت عثمانیہ کے عیسائی اکثریت والے کئی یورپی علاقے سلطنت سے علیحدگی اختیار کر چکے تھے اور اب سلطنت واضح مسلم اکثریت پر مشتمل تھی-نیز دنیا بھر کے مسلمان نوآبادیاتی یلغار کی لپیٹ میں تھے چنانچہ ایک ایسے نظریہ کی ضرورت تھی جو حریت اور آزادی کی تڑپ کو ہر مسلمان میں جگا سکے-سلطان عبدالحمید کی نظر میں سلطنت کی مضبوطی مسلم امہ کے اتحاد، دنیا میں ان کے حقوق و مفادات کے تحفظ اور سامراجی ہتھکنڈوں سے نمٹنے کیلئے ناگزیر تھی-وہ سمجھتے تھے کہ اس ضمن میں سلطنت عثمانیہ مسلم امہ کو حریت کی جانب گامزن کر سکتی ہے-وہ اس بات سے بھی آشنا تھے کے اس دور میں مغربی اسکالزر کی جانب سے اسلام پر کیا تنقید ہو رہی ہے-انہوں نے اس پر کچھ مغربی سکالرز کے ساتھ تبادلہ خیال بھی کیا اور وہ اس نقطہ نظر کے حامی تھے کہ اسلام کسی جامد نظام کا نظریہ نہیں دیتا بلکہ اپنے بنیادی اصولوں کے ساتھ جدت کا حامی ہے-وہ سلطنت عثمانیہ میں صدیوں سے آباد غیر مسلموں کو بطور ثبوت پیش کرتے تھے کہ اسلام ان کے ساتھ بردباری، برداشت، تحمل اور احترام کے سلوک کا درس دیتا ہے اور اسی لئے یہ لوگ سلطنت میں لمبے عرصے سے مقیم ہیں[3]-سلطان عبد الحمید کے نظریات کا صحیح اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ مسلم اتحاد کے داعی انیسویں صدی کے معروف سکالر جمال الدین افغانی کئی سال تک ان کے مشیر رہے-

سلطان عبدالحمید کا مسلم اتحادکا نظریہ فقط سلطنت عثمانیہ تک محدود نہ تھا بلکہ وہ تمام دنیا کے مسلمانوں کے مابین اتحاد و یگانگی کی فضا دیکھنا چاہتے تھے-انہوں نے اس ضمن میں مختلف مسلم علاقوں میں اپنے وفود بھیجے[4]-انہوں نے افریقہ کے مسلمان علاقوں میں تحائف کے ساتھ وفود بھیجے تاکہ وہ انہیں مغربی سامراجی طاقتوں کے خلاف اپنا محافظ کے طور پر تسلیم کریں-اسی طرح چین اور روس کے مسلم علاقوں میں بھی انہوں نے وفود بھیجے-چین میں انور پاشا کی قیادت میں بھیجے گئے وفد کو بہت پذیرائی ملی اور 1908ء میں بیجنگ حمیدیہ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا[5] جس پر سلطنت عثمانیہ کا جھنڈا لہرایا گیا جو چینی مسلمانوں کی جانب سے خلیفہ کے لئے عزت اور احترام کی علامت تھا[6]-حتیٰ کہ برٹش انڈیا اور چین میں جمعہ کے خطبات میں انہیں خلیفہ تسلیم کیا جاتا تھا[7]-

روس کے ساتھ 1877ء کی جنگ کے بعد سلطان عبدالحمید کی جانب سے افغانستان میں بھی اعلیٰ سطحی سفارتی وفد بھیجا گیا جس کا ایک مقصد مشترکہ دشمن کے خلاف متحد ہو کر لڑنا بھی تھا-انہوں نے انڈیا، سنگاپور، جنوبی افریقہ اور دیگر ایسے کئی علاقوں میں سلطنت عثمانیہ کے نئے قونصل خانے قائم کئے اور بیرونی دنیا بالخصوص مسلمانوں سے تعلقات کو فروغ دیا اور ساتھ ہی ساتھ نو آبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد کیلئے انہیں آمادہ کیا، چاہے وہ برطانوی نو آبادیات تھیں، ڈچ یا دیگر-

نظامِ سلطنت میں اصلاحات:

فرانس اور برطانیہ اُس وقت سلطنت کے مختلف علاقوں پر قابض ہو رہے تھے،روس کے ساتھ بھی مختلف محاذوں پر جنگیں لڑی گئیں جبکہ جرمنی ان کے مقابلے میں ایک اُبھرتی ہوئی طاقت تھی-سلطان عبدالحمید نے جرمنی کے ساتھ اچھے تعلقات کو فروغ دیا-انہوں نے اُس دور کے تقاضوں کے مطابق نظامِ سلطنت میں مختلف اصلاحات کیں جو ان کی جدت پسندی کو ظاہر کرتا ہے-انہوں نے نظامِ دفاع میں بھی اصلاحات کیں اور اس ضمن میں جرمنی سے بھی استفادہ کیا-سلطنت میں مختلف کلاک ٹاورز قائم کئے گئے جن کا مقصد ایک جانب حکومتی رِٹ کو برقرار رکھنا تھا تو دوسری جانب عوام میں وقت کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا انہوں نے سلطنت کی مضبوطی کیلئے ٹیلی گراف کا استعمال کیا اور ان کے دور میں ٹیلی گراف لائینز کی لمبائی پہلے سے موجود کے مقابلے میں دوگنی ہو گئی تھی[8]-ٹیلی گراف کے ذریعے انہیں مؤثر انداز میں نظامِ حکومت چلانے میں مدد ملی- سلطان عبد الحمید نے سلطنت میں جاری نظام تعلیم میں اصلاحات کیں اور فقہ، تفسیر، اخلاقیات اور اسلامی تاریخ جیسے موضوعات پر زیادہ توجہ مرکوز کی[9]-انہوں نے کئی دینی مدارس بھی قائم کئے اور ان کی خصوصی نگرانی کی-سلطان عبد الحمید نے حرمین شریفین پر خصوصی توجہ دی اور وہاں ہسپتال، انفراسٹرکچر اور بیرکس بنانے کا کام ہوا-اسی دوران خانہ کعبہ اور مسجد حرام میں پانی کا جدید نظام لایا گیا[10]-

انیسویں صدی میں دنیا بھر میں تیز ترین حرکت کیلئے ٹرینوں کا استعمال ہو رہا تھا ایسے میں سلطان عبدالحمید کی توجہ بھی ریلوے ٹریکس کی جانب تھی-انیسویں صدی عیسوی کے اواخر میں جرمنی کے تعاون سے سلطنتِ عثمانیہ میں کچھ ریل کے منصوبے مکمل کئے گئے اور 1897ء میں سلطنت عثمانیہ کے یونان کیخلاف جنگ جیتنے میں ان ٹریکس نے اہم کردار ادا کیا-دیگر چھوٹے ٹریکس کے علاوہ سلطان عبدالحمید کی جانب سے ریل کے دو بہت اہم منصوبے شروع کئے گئے جو تاریخی اہمیت کے حامل ہیں-

1- حجاز ریلوے

حجاز ریلوے کا منصوبہ اگرچہ سلطان عبدالحمید کے حکومت سنبھالنے سے قبل ہی زیرِ غور تھا تاہم اس پر کام 1900ء میں شروع ہوا-انیسویں صدی کی آخری دہائی میں سلطان کو اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ حجاز مقدس کے اردگرد سکیورٹی صورتحال، معاشی استحکام، حجاج کرام کی آسانی اور دفاعی اعتبار سے اس ریلوے کا قیام ناگزیر تھا-چنانچہ دمشق سے مدینہ منورہ کی جانب ریلوے لائن بچھانے کا کام شروع کیا گیا-یہ ٹریک شام، فلسطین، عرب کے صحرا سے ہوتا ہوا مدینہ منورہ تک آنا تھا جس کیلئے بہت بڑی رقم درکار تھی-سلطنت کے مالی حالات اس ٹریک کی تعمیر کیلئے کافی نہ تھے چنانچہ اس میں رضا کارانہ طور پر چندہ جمع کرنے کا سلسلہ شروع ہوا-سلطان نے سب سے پہلے اس مقصد کیلئے اپنے ذاتی مال سے حصہ ڈالا اور اسی طرح کئی وزراء کی جانب سے بھی اس میں حصہ ڈالا گیا-اس کے بعد عوامی سطح پر اور سلطنت عثمانیہ کے علاوہ دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں کی جانب سے اس میں حصہ لیا گیا-یہ ریلوے مسلمانوں کے فنڈز سے تعمیر کی گئی اور مسلمان مزدور ہی اس کا حصہ بنے اور یہ واحد ریلوے ٹریک تھا جس کا منصوبہ، تعمیر، ملکیت اور نظم و نسق سلطنت کی جانب سے کیا گیا تھا-برصغیر کے مسلمانوں نے بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ایران کے بادشاہ کی جانب سے بھی اس میں حصہ پیش کیا گیا[11]- اگرچہ برصغیر کے حجاج کیلئے براہ راست اس کے استعمال کا امکان نہ تھا کیونکہ یہ ان کے روٹ میں نہیں آتی تھی تاہم ان کی جانب سے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ایک جانب مسلم اتحاد اور سلطنت کے حق میں کاوش تھی اور دوسری جانب برطانوی نو آبادیات کے خلاف بھی ایک قسم کا ردّ عمل تھا کیونکہ اس وقت مسلمانوں کیلئے عالمی سطح پر نو آبادیاتی اور سامراجی نظام کے خلاف سلطنت عثمانیہ ہی سب سے بڑی اور مؤثر آواز تھی-ان تمام کاوشوں کے باعث 1908ء میں ریلوے کی تکمیل ہوئی اور پہلے سال 250,000 مسافروں نے اس کے ذریعے سفر کیا[12]- اس کے ذریعے اسلام کے بنیادی مراکز تک رسائی انتہائی آسانی سے

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر