مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیرِ اہتمام اسلام آباد میں 6-8 نومبر 2017ء تین روزہ بین الاقوامی علامہ محمد اقبال کانفرنس کا انعقاد کیا گیا- اقبالیات کی تاریخ میں اپنی نوعیّت کی مُنفرد کانفرنس تھی، جس میں دُنیا کے چار برِاعظموں کے اٹھارہ (18)مختلف ممالک کے وفُود نے شرکت کی-جن میں سوڈان کے سابق وزیرِ اعظم، کئی ممالک کے سابقہ و موجودہ وفاقی وزراء، سابق سفراء اور اعلیٰ سطحی علمی و ادبی شخصیات اور دانشوروں نے شرکت کی-پاکستان کے چاروں صوبوں سے دانشور مدعو کئے گئے تھے-پاکستان سے بھی یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز، ڈین صاحبان اور علمی و تحقیقاتی ادارہ جات کے سر براہان نے اپنے مقالات پیش کئے- کانفرنس کل نو (9) مختلف سیشنز میں تقسیم کی گئی تھی جن میں سات اکیڈیمک سیشن تھے، ایک اختتامی سیشن تھا اور ایک ’’پیامِ اقبال‘‘ کے عُنوان سے کلام کا سیشن تھا جس میں اُستاد حامد علی خان نے کلامِ اقبال پیش کیا- کانفرنس میں حضرت علامہ اقبال کی شخصیت کے بین الاقوامی پہلو اور آپ کی فکر کے عالمی اثرات پہ بہت سیر حاصل گفتگو ہوئی- کئی ایسے موضوعات پہ تحقیقی مقالہ جات پیش کئے گئے جن پہ اس سے پہلے تحقیق نہیں کی گئی تھی- یونیورسٹی طلباء و اساتذہ، محققین، ممبرانِ پارلیمینٹ، غیر ملکی مبصرین، میڈیا اور سوشل سیکٹر سے لوگوں کی بڑی تعداد نے کانفرنس میں شرکت کی-مسلم انسٹیٹیوٹ کے ریسرچ ایسوسی ایٹ جناب باسط ضیاء شیخ نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دیئے-
کانفرنس کے پہلے روز غیر ملکی مقررین کے اعزاز میں راولپنڈی چیمبر آف کامرس نے ظہرانہ دیا-حضرت سلطان محمد علی صاحب کی طرف سے معزز مہمانوں کے اعزاز میں اعشایہ کا انعقاد کیا گیا-کانفرنس کے تیسرے روز غیر ملکی مقررین کے اعزاز میں کنگسٹن ریسورس گروپ کی جانب سے اعشایہ دیا گیا-مقررین کے مقالہ جات و اظہارِ خیال کی مختصر رپورٹ درج ذیل ہے-
سیشن اول: افتاحی سیشن :Welcome Remarks
جناب صاحبزادہ سلطان احمد علی:(چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ)
مَیں ذاتی طور پر تمام معززمہمان گرامی کا مشکور ہوں کہ وہ ہماری دعوت پر اپنی قیمتی مصروفیات میں سے وقت نکال کر اس کانفرنس میں شریک ہوئے- ہم نے قومی و بین الاقوامی دانشوروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ وہ علامہ اقبال کے بارے میں اپنے علم، تحقیق اور خیالات کا اظہار کر سکیں اور نوجوان نسل اور مستقبل کے رہنما، محققین، طلباء اور دانشور ان سے استفادہ کر سکیں-اقبال محض شاعر، فلسفی یا ماہرِ سیاست ہی نہیں بلکہ اقبال ایک تڑپ، امید اور جذبے کا نام ہے جو ہر حریت پسند اور نیک دل انسان کے دل میں بسیرا کیے ہوئے ہے- اقبال جوش اور انقلاب کی امید ہے- اقبال کے تخیل کا ہر ذرہ ایک نئی قوم کی تشکیل کی امید لیے ہوئے ہے-
Guest of Honour - 1
جناب ولید اقبال ایڈووکیٹ:(علامہ اقبال کے پوتے)
مَیں علامہ اقبال کی زندگی اور کام کی پذیرائی کے سلسلے میں منعقد کی جانے والی اس عظیم الشان کانفرنس کے انعقاد پر مسلم انسٹیٹیوٹ کا انتہائی مشکور ہوں- علامہ اقبال کا فلسفہ خودی انسانی فطرت کو منور کرتا ہے اور انسان کو تسخیرِ کائنات کے قابل بناتا ہے- اقبال کی شاعری انسان کو نیابتِ الٰہی کے قابل بناتی ہے - اقبال نے ’’شاہین‘‘سے مماثلت دے کر نوجوان نسل کے لیے ایک شاندار پیغام دیا ہے- نوجوانوں کو شاہین کی مثل ہونا چاہیے جو کہ بلند پرواز اور تنہائی پسند ہے جس سے تخیل کی بلندی اور مادیت کی نفی کا خیال ابھرتا ہے-اسی طرح شاہین اپنا شکار خود کرتا ہے اور دوسرے پرندوں یا جانوروں کا شکارنہیں کھاتا-اقبال ایک ایسے معاشرے کا تصور پیش کرتے ہیں جو توحید الٰہی کا قائل ہو اور یہ وحدت انسانی اقدار، اخوت اور برابری میں جھلکتی ہو-
Guest of Honour – 2
عزت مآب ڈاکٹر محمد گورمیز:(سابق صدر، صدارت مذہبی امور ، ترکی)
بلا شک و شبہ، علامہ محمد اقبال اس صدی کے سب سے بلند تخیل فلسفی ہیں-وہ بیسویں صدی میں اسلام کو درپیش مغربی ثقافتی یلغار کا سب سے موزوں ردِ عمل تھے-آپ کے اسلامی وراثت بارے عمیق جائزے نے آپ کو امتیازی مقام عطاء کیا- دوسروں کے مقابل، اقبال نے اسلامی روایات اور جدت کا تفصیلی موازنہ کیا-آپ نے اجتہاد، اسلام اور جمہوریت جیسے اہم معاملات پر اپنا تجزیہ پیش کیا جس کی اہمیت آج بھی قائم ہے-اقبال کے معاشرے کے بارے میں خیالات کے تین پہلو ہیں-
1. پہلا آپ کی نثری تصانیف جو کہ مغربی جدت کا تفصیلی اور فلسفیانہ جواب ہیں، ان میں ’’تجدید فکریات اسلام‘‘ قابلِ ذکر ہے-
2. دوسرا پہلو، آپ کا اردو اور فارسی کا منظوم کلام ہے جو روشن خیالی اور شاعرانہ تخیل کی ہم آہنگی کی اسلامی ادب میں اہم مثال ہے-
3. تیسرا پہلو تاریخ کے اہم موڑ پر آپ کا سیاسی اور معاشرتی اصلاحات کے لیے لازوال کردار ہے-
Guest of Honour -3
عزت مآب جناب صادق عبد الرحمٰن المہدی(سوڈان کے معروف قائدِ حریت مہدی سوڈانی کے پوتے اور سابق وزیرِ اعظم، جمہوریہ سوڈان)
علامہ اقبال بلاشبہ جرمن شاعر گوئٹے، برطانوی شاعر شیکسپیئر، اور فارسی شاعر فردوسی کےہم پلہ ہیں- اقبال ،محمد بن نبی اور علی شریعتی کی مانند ان شعراء میں شامل ہیں جو اسلامی اور مغربی دونوں ثقافتوں پر عبور رکھتے ہیں-اقبال کے مطابق، نبوت کا اختتام انسانیت کے لیے ولایت اور روحانیت کا دروازہ کھولتا ہے- اسی کے پیشِ نظر، اقبال نے ’’اسلام میں روحانیت کی تشکیلِ نو‘‘ کے عنوان کے تحت ایک حساس موضوع پر قلم اٹھایا ہے-آپ نے ایک ایسے نظریے کے حق میں دلائل دیے جو اسلام کی محض روایتی شکل کو مسترد کرتا ہے- اقبال کے مطابق لوگ اپنی سوچ کے تعین کے بارے میں آزاد ہیں- آپ جمود کی شکار روحانیت کے انکاری ہیں-روحانی آگاہی اور معاشرتی انصاف کا آپس میں گہرا تعلق ہے جو کہ ظلم کی شکار انسانیت کے لیے آزادی کا پیام ہے-اقبال نے عقلیت پسندی اور تصوف دونوں کی وکالت کی-علامہ اقبال نے اپنے کلام میں تمام حریت پسندوں بشمول مہدی سوڈانی کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے-
Chief Guest Speech
جناب راجہ ظفر الحق: (قائدِ ایوان، سینٹ، اسلامی جمہوریہ پاکستان، سیکریٹری جنرل، مؤتر العالمی الاسلامی)
اقبال کا نظریہ آخری الہامی کتاب قرآنِ حکیم کی تعلیمات پر مبنی تھا- اقبال مسلم حریت اور انسانی مساوات کی لازوال نشانی ہے-آپ طاقتور کے ہاتھوں کمزور کی معاشی اور سیاسی استحصال کے سب سے بڑے نقاد تھے-آپ کا کلام محض لفاظی نہیں بلکہ اسلام کی نشاطِ ثانیہ کے پیغام سے لبریز تھا جس نے لوگوں کے دلوں میں استعماری طاقتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ہمت پیدا کی-اس لیے، آپ کو نہ صرف تاریخ کا عظیم مفکر مانا جاتا ہے بلکہ آپ کی ذات فلسفہ اور ادب میں جدا مضمون ہے-یہ اقبال کا اپنے کام سے خلوص تھا جس نے آپ کو علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر شہرت عطا کی-آج تک، برِصغیر کی سر زمین میں اقبال جیسا فلسفی، مفکر اور شاعر پیدا نہیں ہوا- اقبال کو عالمی سطح پر عظیم مفکر کی حیثیت حاصل ہے جس کے اعتراف میں ایران، جرمنی، مصر اور ترکی میں نہ صرف کانفرنسز میں اقبال کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا بلکہ آپ کے مجسمے بھی نصب کیے گئے-
Remarks by Founding Father
عزت مآب حضرت سلطان محمد علی :(بانی، مسلم انسٹیٹیوٹ )
قبال صرف ایک شخص یا محض ایک شاعر ہی نہیں بلکہ اقبال ایک عہد کا نام ہے جس سے کئی نئے عہد نے جنم لیا- اقبال علم و ادب کی کہکشاں کا ایسا آفتاب صفت سیارہ ہے جس سے ہزاروں قمر روشنی مستعار لیتے ہیں-ہر وہ مرحلہ جہاں عقل و خرد کی پُر پیچ وادیوں میں قدم ڈگمگانے لگیں، اقبال کی فکر مسافر کا ہاتھ تھامنے کو موجود ہوتی ہے-گو کہ ان کی بنیاد ادب و فلسفہ ہیں لیکن مذہب، سیاسیات، قومیت، معاشرت، نفسیات سمیت دیگر کئی جہات پر اقبال کے افکار پھیلے ہوئے ہیں-اقبال کی فکر نہ صرف عالمگیر ہے بلکہ اقبال نے عالمگیریت کے تصور کا دفاع کیا ہے-
اقبال کی فکر ہمیں اپنی سوچ کے ارتقا پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہے کہ کیا ہم تنہائی اور انفرادیت کا شکار ہونا چاہتے ہیں اور اپنی زندگی کو بلا مقصد سمجھ کر گزارنا چاہتے ہیں یا ایک عالمگیر فکر اور عالمگیر مقصد کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑنا چاہتے ہیں-اقبال کے نزدیک فرد کا مقصدِ حیات اُس عالمگیریت میں اپنے وجود کی اہمیت کا ادراک کرنا اور اُس عالمگیریت کا سب سے تابندہ حصہ ہونا ہے -
سیشن دوم : اقبال اور روحانی دنیا
“Teaching Mystical Experience: Didactic Structures of Allama Iqbal Ghazals”
ڈاکٹر حلیم تنویر: ) سابق ڈی جی، نیشنل آرکائیوز اینڈ انٹرنیشنل پریس ڈیپارٹمنٹ، افغانستان (
بدقسمتی سے آج کل اقبال کے فلسفیانہ پیغامات پر کم توجہ دی جا رہی ہے اور لوگ ایسے پیچیدہ نظریات میں الجھ چکے ہیں جو نہ تو اسلام اور نہ ہی خطے کی ثقافت کے لیے مفید ہیں-میں پُر امید ہوں کہ دری، فارسی اور اردو بولنے والے لوگ اقبال کے عظیم خیالات کی جانب راغب ہوں گے-علامہ اقبال علمی طور پر بلخ، ہرات، سمرقند، بخارا اور غزنہ سے تعلق رکھنے والے خراسانی مسلم سکالرز سے متاثر تھے اور انہی شہروں کو فارسی زبان، ثقافت اور ادب کی جائے پیدائش سمجھا جاتا ہے-فارسی شاعری میں انڈین، وسط ایشیائی اور یورپین خیالات کی آمیزش سے آپ نے اپنے فلسفیانہ نظریات کو لطیف اور خوبصورت شاعرانہ اصناف میں پیش کیا- مزید،آپ کی اسلامی سوچ نے فارسی اور اردو بولنے والے مسلمانوں کے مابین تفہیم پیدا کی اور ان کے باہمی تعلقات مضبوط ہوئے-
“Epistemological Dimensions: The Realms of Reason, Intellect, eart and the Question of the Mystic nd Prophetic Consciousness”
ڈاکٹر سہیل عمر:(سابق ڈائریکٹر، اقبال اکیڈمی، پاکستان)
اقبال کیلئے صوفی ازم دور جدید کی آلائشوں سے نجات کا ذریعہ ہے-اقبال بذاتِ خود ایک بہت بڑے صوفی تھے اور آپ کی صوفی ازم پر تنقید اس میں موجود نقائص کی نشاندہی اور تصحیح کے لیے تھی-حتیٰ کہ اُن دنوں جب ’’اسرارِ خودی‘‘پر گرما گرم مباحثہ جاری تھا، آپ نے صوفی ازم حتیٰ کہ ’’ابنِ عربی‘‘ کو بھی زبردست خراجِ تحسین پیش کیا- صوفیانہ ما بعد الطبیعات کے نظریہ جس سے اقبال متاثر تھے کے مطابق، اس دنیا میں شعور کی موجودگی ایک آفاقی شعور کا نتیجہ ہے- انسانی عقل و دانش آفاقی شعور کا ایک کامل مظاہرہ ہے- اسی طرح، صرف انسان کو کلام کی خصوصیت حاصل ہے کیونکہ انسان تمام مخلوقات میں سے ایسی مخلوق ہے جو ذاتِ باری تعالیٰ کا عکس ہے- یہ انسانی عقل و شعور کی تکمیل ہے-
“The Role of Quran and Hadith in the Asrar-e-Khodi and Romuz-e-Bekhodi”
ڈاکٹر ایلن گڈ لاس: (ایسوسی ایٹ پروفیسر، ڈیپارٹمنٹ آف ریلیجن، یونیورسٹی آف جارجیا، امریکہ)
اقبال نےاپنے قلم کی نوک سے قرآنی آیات اور احادیث کو الفاظ کی لڑی میں پرو یا جو دورِ جدید میں مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے ضروری ہیں- ’’رموزِ بیخودی ‘‘ میں اقبال نے وحدتِ الٰہی پر زور دیا جبکہ بنی نوع انسان کو خدا کا پروردہ قرار دیا-
اقبال کے نظریہ الٰہیات کے مطابق، آیاتِ الٰہی خدا کی نشانیاں ہیں اور عشقِ حقیقی کی تلقین کرتی ہیں-اقبال نے بشریات کی بحث میں پانچ بنیادی نکات اٹھائے ہیں- آپ کا پہلا بشری نظریہ ’’خودی‘‘ ہے جو کہ انسان کے وجود میں ایک نور کی مثل ہے-دوسرا انسان کی ذات ہے جو کہ نورِ محمدی (ﷺ) کا صدقہ ہے-اقبال کے تیسرے بشری نظریہ کے مطابق انسان میں چھپا نورِ محمدی (ﷺ) خدا کا عکس ہے اور اس لیے انسان ذاتِ باری تعالیٰ کا مظہر ہے-چوتھے بشری نظریے کے مطابق حضرت محمد (ﷺ) کی ذات سے محبت ہر مسلمان کے ایمان کا جزو ہے- اقبال کا پانچواں بشری نظریہ اس بات کو بیان کرتا ہے کہ ہر مسلمان کا باطن محبت و الفت سے لبریز ہے- اس لیے اپنی پہچان کے لیے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) سے محبت لازم و ملزوم ہے-
“Iqbal and Ḥallāj: Islam and the Martyr of Išhq in the Javednama”
پروفیسر ڈاکٹر ہگ وآن سکائی ہاک :(یونیورسٹی آف بیسل، سویٹزر لینڈ)
سر علامہ محمد اقبال کی تصنیف ’’جاوید نامہ‘‘میں، اینی میری شمل نے برصغیر میں اہم صوفی روایت کے پروان چڑھنے کا مطالعہ کیا جو کہ آفاقی محبت کا نقطہ عروج حاصل کرنے والے منصور بن حلاج کی صورت میں تھی-منصور کا نام اسلامی اقوام کی ترقی پسند شاعری میں بار بار ابھرتا ہے اور اقبال اپنے فارسی کلام میں ’’شہیدِ حب الٰہی‘‘ منصور بن حلاج کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچتے ہیں:
’’جو میں نے کیا وہ تم بھی کرتےہو! تم پھر زندہ ہونے کو موت کے بعد تصور کرتے ہو‘‘-
یہ زندہ ہونا محض ایک حقیقی انسان کا کردار ادا کرنا ہے جس کے بارے میں قرآن مجید میں فرمایا گیا کہ ہم نے انسان کو عزت بخشی اور انسان کو اپنی ایک قیمتی امانت سے نوازا- پاکستان کے مصور ، سر علامہ محمد اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے اسلام کی جدید تشریح پیش کی جو برٹش انڈیا میں مقبولِ خاص و عام تھی-اس کی وجہ یہ تھی کہ شاعرانہ کلام یاد کرنا آسان تھا اور نا خواندہ عوام بھی اس سے مستفید ہو سکتی تھی-
Remarks by the Chair
پروفیسر احسان اکبر:(معروف شاعر و ادیب)
اقبال نے دور حاضر میں مسلم اُمہ کو درپیش مادی مسائل پہ بہت توجہ دی لیکن انہوں نے مادیت کی برائیوں کا علاج مادیت نہیں تجویز کیا-اقبال نے مادیت کے مسائل کا حل روحانیت پہ زور دیا-اقبال پہ روحانیت کا اثر بچپن ہی سے تھا-آپ ایک صوفی گھرانے میں پیدا ہوئے اور آپ نے یورپ کا سفر کرنے سے پہلے حضرت نظام الدینؒ کے مزار پہ حاضری دی-جوانی میں آپ مولوی میر جیسے استاد کے شاگرد رہے-شروع میں آپ نے نوجوانوں اور مسلمانوں سے مخاطب ہو کر شاعری کی جیسے کہ بانگ درا سے ثابت ہے- نہ صرف برصغیر بلکہ دیگر خطوں کی اقوام میں بھی اقبا ل کی مقبولیت ہے-اقبال نے خودی کی تعمیر کو انسانیت کی ترقی قرار دیا- اقبال اس نتیجہ پہ پہنچے کہ مادی ترقی کہ ساتھ روحانی ترقی کا ہونا بہت ضروری ہے-
سیشن سوم : اقبال کے سماجی اور سیاسی نظریات
“Emancipation from Psychological Slavery through Iqbal's Teachings”
ڈاکٹر طالب حسین سیال: (سابق ڈائریکٹر ، اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق ومکالمہ ، اسلام آباد)
نفسیاتی یا ذہنی غلامی کے ماحول میں صرف طابع فرمان ہی جنم لیتے ہیں راہنما نہیں-علامہ اقبال انسانی عظمت اور انسانی آزادی کے قائل ہیں-ان کا تصورِ خودی دراصل انسانی حقوق کا تصور ہے-اقبال اپنے خطبات میں فرماتے ہیں کہ زندگی بہت سے کاموں کے مواقع فراہم کرتی ہے، خودی کی بقا اس بات میں مضمر ہے کہ نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی خودی کا بھی احترام کیا جائے-نفسیاتی غلامی کی نشانی یہ ہے کہ افراد اور اقوام اپنے آقاؤں کے اصول و قوانین کی پیروی اندھا دھند کرتے ہیں- وہ اپنے فیصلے لینے کی ہمت اور جرات نہیں کرتے اور اپنی قدرتی صلاحیتیں کھو بیٹھتے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ:
بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر |
وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ سیاسی غلامی نے مسلمانوں کو کس طرح متاثر کیا-اقبال کا ماننا ہے کہ اقتصادی طور پر ایک مضبوط قوم ہی نفسیاتی غلامی سے چھٹکارہ پا سکتی ہے-
“Rejection of Colonial Approaches and Conduct in Iqbal's Poetry”
ڈاکٹر محمد معروف شاہ : (مصنف ، کالم نگار ، سری نگر، مقبوضہ کشمیر )
استعماریت کا مطلب کسی خطہ زمین پر غاصبانہ قبضہ کرنا یا ایک سوچی سمجھی سوچ مسلط کرنا ہے جو کہ ایک منفی عمل ہے جس کو ہیڈیگر نے زمین کو یورپنائز کرنا قرار دیا-
اقبال مسلم دنیا کے وہ پہلے فلاسفر تھے جنہوں نے اس حقیقت کو جانچا اور روایتی ثقافت اور جدیدیت کے نئے تصورات متعارف کروائے جو محض مغربی نوآبادیاتی اسلامی مباحث سے ماوراء تھے- اقبال کا خودی، مذہب، کلاسیکل روحانیت، صوفی ازم، ختم نبوت کی تشریحات اور دلائل، سائنس اور ٹیکنالوجی کی اہمیت کا دفاع اور ان کا مؤقف کہ مسلم دنیا کو ایک نئے سیاسی نظام کی ضرورت ہے، یہ سب کچھ دراصل استعماری نوآبادیت کا ہی ایک ردعمل تھا-
“Iqbal as Great Political Thinker of Twentieth Century and Review of Modern Political Thoughts & Challenges”
ڈاکٹر اعجاز اکرم :(نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی ، اسلام آباد )
مغرب ایک غلط فہمی کا شکار ہے اور مشرق اپنے سچ سے غافل ہے-روایات کا تمسخر اڑانے کے باعث روایات سکھلانے والے استاد ناپید ہوتے جا رہے ہیں-معاشرتی اصول جو کہ ہماری زندگی کا بنیادی جزو ہوا کرتا تھا وہ اب نظر نہیں آتا-مغرب میں حاکم اعلیٰ عوام ہے جب کہ مشرق میں ایسا نہیں ہے- اگر مسلمان کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو ان کو اپنی ہی روایات کو زندہ کرنا ہوگا، چین ،جاپان یا کسی دوسرے ملک کی نقل کرنا ان کے مسائل کا حل نہیں ہے-جدیدیت کے عمل نے خود جدیدیت کو ہی فرسودہ ثابت کر دیا ہے کیونکہ روایتی سوچ پھرسے زورپکڑ رہی ہے- اب جدیدیت کا استاد بھی روایات سے ہی راہنمائی لے رہا ہے-اگر اقبال آج زندہ ہوتے تو وہ غالباً مسلمانوں کو یہ ہی راہنمائی دیتے کہ جدیدیت کی ڈگر پہ چلنا ہمارے مسائل کا حل نہیں اور ہمیں اپنی اسلامی روایات پر کاربند رہ کر جدیدیت کے عمل کو استعمال کرتے ہوئے اپنی روایات کو مضبوط کرنا ہوگا-
“Nature and Values of Iqbal’s Ideal Society”
جناب ولید اقبال ایڈووکیٹ:(علامہ اقبال کے پوتے)
اقبال اپنے فلسفے اور شاعرانہ کلام میں ہمیشہ انسان کو نقطہ عروج تک پہنچنے کی تلقین کرتے ہی-اس کے لیے ہر فرد کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر خود شناسی کے لیے کاوش کرنی چاہیے-یہی اقبال کا فلسفہ خودی ہے- آپ کی تعلیمات اس بات کو اجاگر کرتی ہیں کہ کیسے ایک شخص اپنی خودی کی شناخت کرے اور اسے محکم کرے-آپ نے ان عوامل پر بھی روشنی ڈالی جو خودی پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں- سب سے پہلے اقبال اس رائے کے قائل تھے کہ وحدتِ الٰہی کا اظہار انسانی وحدت، برابری اور آزادی میں ہونا چاہیے-دوسرا، اقبال کے نقطہ نظر میں کسی معاشرے کا عروج و زوال کا دار و مدار ان افراد پر ہے جو اس کو لیڈ کرتے ہیں-تیسرا، اقبال کا اس بات پر کامل یقین تھا کہ ایک منظم نظامِ تعلیم ہی مسلم دنیا میں جذبہ تحرک اور سوچ کا انقلاب برپا کر سکتا ہے-چوتھا، اقبال کے خیال میں ایک مثالی معاشرے کو امن کا گہوارہ ہونا چاہیے-
Chief Guest Speech
ڈاکٹر محمد خدابکس:(سوشل ڈیموکریٹک پارٹی، ماریشس)
اقبال نے حصولِ تعلیم اور نوجوان نسل کو بہت اہمیت دی کیونکہ آپ جانتے تھے کہ علم اور دانش کے بغیر ان کا مستقبل تاریک اور غمناک ہو گا-آپ کے مطابق فرد کی بقا معاشرے سے جڑے رہنے میں ہے جس طرح موج دریا میں قائم رہتی ہے دریا سے باہر نہیں-یہ اقبال ہی تھے جنہوں نے جناح کو برِ صغیر کےمسلمانوں کی قیادت کے لیے قائل کیا کیونکہ آپ جانتے تھے کہ جناح جیسا ایماندار اور پر عزم شخص ہی آزادی کے مشن کو آگے بڑھا سکتا ہے-اقبال کو اس بات کا واضح ادراک تھا کہ انڈیا میں بسنے والے مسلمان غلامی میں اپنی ثقافت نہیں اپنا سکتے-اس لیے آپ نے مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا تصور پیش کیا-اگرچہ اقبال کو الگ وطن کا تصور پیش کرنے پر مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ اپنے ارادے پر مصمم رہے-اگر آج ہم اسلام آباد میں آزادی کا سانس لے رہے ہیں تو اس کے لیے ہم اقبال کو خراجِ تحسین پیش کر تے ہیں-
Remarks by the Chair
ڈاکٹرظفر معین نصر:(وائس چانسلر، جامعہ پنجاب لاہور)
مَیں اس کانفرنس کے آرگنا ئزرز کو مبارکباد پیش کرنا چاہوں گا-آج ہمیں اقبال کے افکار کی روشنی میں معاشرتی نظریات کا جائزہ لینا ہو گا-جب ایک قوم دوسری قوم کی برابری کا تہیہ کرتی ہے تو مقابلے کا صحت مند ماحول پیدا ہوتا ہے-مسلمان قوم کو اپنے نظریاتی، ثقافتی اور قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانا چاہیے-
اس ضمن میں چائنا کی بہت اچھی مثال ہے جس نے مغرب سے قرض لینے کی بجائے اپنے بل بوتے پر ترقی کی-تیس سے چالیس سال پہلے وہ ہماری طرح تھے لیکن آج وہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہیں-وہ نت نئے نظریات ایجاد کر رہے ہیں جس کے لیے انہوں نے اپنا سسٹم ڈویلپ کر رکھا ہے-ان کے لیڈرز نے ان کو سوچ دی ہے کہ ہمارا نظام سب سے زیادہ شاندار ہے-اسی طرح جاپان نے بھی مستعار لینے کی بجائے ترقی کے لیے اپنا ماڈل تخلیق کیا-
وقفہ سوال و جوا ب :
معزز مہمان سپیکرز کے مقالہ جات کے بعد وقفہ سوال و جواب منعقد ہوا جس میں حاضرین بالخصوص نوجوان طلباء نے بھرپور حصہ لیا- جناب ولید اقبال نے اقبال کا جمہوری نظام کے متعلق نظریہ پر کئے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اقبال اپنے خطبہ نمبر چھ (6)میں روحانی جمہوریت کی بات کرتے ہیں جہاں اجتہاد کا اطلاق ممکن ہو اور نظام خلافت ایک منتخب شدہ اسمبلی کے ممبران کی صورت میں قائم ہو-آپ خود 1926ءسے 1930ءتک پنجاب کی قانون ساز اسمبلی کا حصہ رہے-ہم اقبال اور قائداعظم کہ تصور حکومت سے بہت دور جا چکے ہیں آپ دونوں جدید انتخابات کے نظام کے قائل تھے-
سیشن چہارم : اقبال – فنون و افکار
“Iqbal's Perspective on the Science-Religion Splice”
جناب ادریس آزاد: ( اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی، اسلام آباد)
اقبال نے بجا طور پر اس بات کا اظہار کیا ہے کہ وہ بنیادی طور پر غزالی کے نظریات کے قائل ہیں جنہوں نے حقیقت کے متعلق یونانی فلسفیوں کے مباحث اور قرآنی تعلیمات میں فرق کا ادراک کیا-بنیادی طور پر یہ اختلاف مفروضہ اور استدلال کی بناء پر دلائل کا ہے-اقبال نے واضح طور پر،اسلام کی ابتدا کو استقرائی شعور کی ابتدا قرار دیا- چونکہ استقرائی استدلال کی پیدائش سائنس کی پیدائش ہے، اس لیے ہم مندرجہ ذیل مفروضہ بنا سکتے ہیں-
مفروضہ 1: اسلام کا آغاز استقرائی استدلال کا آغاز ہے-
مفروضہ2 : استقرائی استدلال کا آغاز سائنس کی ابتداءہے-
نتیجہ: پس، اسلام کا آغاز سائنس کی ابتداء ہے-
اقبال نے اس نتیجے کو علمی طور پر اخذ کرنے کی بجائے کانٹ کے نظریات کی بنیاد پر اخذ کیا-پس اقبال نے امام غزالی کی تعلیمات کی بناء پر مابعدالطبیعات کو عقلی دلائل کی بجائے قرآنی احکامات کی روشنی میں سمجھا اور مذہب کا مطالعہ کیا-
“Iqbal's Wisdom — Dimensions of His Persian and Urdu Poetry”
ڈاکٹر سلیم مظہر :( ڈین ، فیکللٹی آف اورینٹل لینگوئجز، جامعہ پنجاب لاہور)
حضرت علامہ جب اپنے کلام میں انسان ِکامل کی بات کرتے ہیں تو وہ اپنے دل، دماغ و روح میں اس سے مراد اکمل الکاملین آقا پاک (ﷺ)کی ذات کو بطور آئیڈئل رکھتے ہیں-اس میں مبالغہ نہیں کہ علامہ نے فارسی زبان میں سب سے بہترین نعت کہی ہے جو درحقیقت غالب اور جامی کی نعتوں سے ہر اعتبار سے زیادہ موثر اور جامع ہیں-اقبال نے صوفیاء میں سے بھی انتہائی کامل صوفیا کو اپنا آئیڈیل بنایا اور ان کی تعلیمات کو عوام الناس تک پہنچایا ہے-اپنی زندگی کے آخری ایام میں اقبال ہمیں گلہ کرتے نظر آتے ہیں کہ میرے جانے کے بعد سب لوگ یہ کہیں گئے کہ یہ اقبال ہمارا دوست تھا جو اس دارِ فانی سے رخصت ہو گیا لیکن کوئی بھی یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرے گا کہ یہ کون تھا؟ کہاں سے آیا تھا؟ اور اس نے کیا کہا؟
“The Didactic Value of Poems by the Great Poet of the East Allama Muhammad Iqbal”
ڈاکٹر گیلدی مائرت محمد: (سربراہ شعبہ تاریخ، انسٹیٹیوٹ آف مینو سکرپٹ، اکیڈمی آف سائنسز،ترکمانستان)
علامہ اقبال ایک نامور سکالر تھے جنہوں نے مشرق کے سائنسی، روحانی، ادبی اور ثقافتی ورثہ کا بنظرِ غائر مطالعہ کیا اور آپ مغرب کے تعلیمی اداروں کا بھی وسیع تجربہ رکھتے تھے-ایک شاعر اپنے کلام کے ذریعے قیمتی خیالات اور تعلیمات کا اظہار کر تا ہے-علامہ محمد اقبال نے نوجوانی سے ہی شعر کہنے اور شاعروں کی محافل میں شامل ہونا شروع کر دیا تھا-آپ کے اساتذہ نے شاعری میں آپ کی کامیابیوں میں اہم کردار ادا کیا-آپ نے شاعری میں اپنا نام پیدا کر لیا جبکہ آپ کی عمر محض تیس (30)برس بھی نہ تھی-آپ کی شاعری حب الوطنی، صوفی ازم اور فلسفہ سے لبریز تھی اور اس کی اشاعت مختلف جگہوں سے ہوئی- علامہ اقبال کا منظوم کلام اپنے اندر گہرے اسباق سموئے ہوئے ہے جو نوجوان نسل کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے-
Remarks by the Chair
پروفیسر ڈاکٹر ہگ وآن سکائی ہاک :(یونیورسٹی آف بیسل، سویٹزر لینڈ)
اقبال نے اپنے کلام کو تمام زبانوں کی سردار عربی سے اخذ کیا- انہوں نے اپنے خیا لات کا اظہار پنجابی،اردو اور فارسی میں بھی کیا جو آپ کی تخلیقی سوچ کا عکاس ہے-اینی میری شمل کے مطابق سائنس اور شاعری کے طریقہ عمل ایک جیسے ہیں جبکہ جرنلزم اور سیاست میں مماثلت پائی جاتی ہے لیکن ان سب میں ’’لفظ‘‘ کی مرکزی اہمیت ہے- یہ اقبال ہی تھا جس نے ہمارے معاشرے اور زندگیوں میں لفظ آزادی کی حمایت کی-انسان کی مادری زبان میں شاعری دنیا کے افراد کا آپس میں تعلق استوار کرتی ہے - وہ چیز جو میرے دل کے لیے انتہائی خوش کن ہے وہ ’’سورۃ النحل‘‘ہے جس میں قدرت کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے-
وقفہ سوال و جواب:
علامہ اقبال کی شاعری میں مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست کی تجویز سے متعلق سوال پر جناب سلیم مظہر نے کہا کہ مسلمان اور ہندو برصغیر میں اکھٹے آباد تھے لیکن ان کے اتنے اختلافات تھے کہ مسلمانوں نے اپنے لیے الگ ملک کی جدوجہد کی-اسلام میں قیاسی استدلال کی اہمیت کے متعلق جواب دیتے ہوئے جناب ادریس آزاد نے کہا کہ امام غزالی نے قیاسی استدلال اور استقرائی استدلال میں فرق کو واضح کیا اور دنیا کو بتایا کہ اسلام کی بنیاد استقرئی استدلال ہے کیونکہ قرآن مجید انسان کو مشاہدہ کی دعوت دیتا ہے-قیاس محض انسانی فہم کا استدلال ہے اور استقراء کی بنیاد مشاہدہ ہے جس کا تعلق حواس خمسہ سے ہے-قرآن مجید جابجا انسان کو زمین، آسمان ستاوروں کے مشاہدہ کی دعوت دیتا ہے-
سیشن پنجم : اقبال اور دیگر مفکرین /
فلاسفر کا تقابلی جائزہ
“A Perfect Human Being as Described by Sultan Bahoo, Abulmaani Bedil and Muhammad Iqbal Lahori”
ڈاکٹر نور علی نورزاد: (فیکلٹی آف پر شین لٹریچر، خوجند اسٹیٹ یونیورسٹی، تاجکستان)
سلطان باھُو،عبدالقادر بیدل اور اقبال شاعر ہونے کے ساتھ جغرافیائی اور زبان کے اعتبار سے بھی مشترکہ خصوصیات کے حامل تھے اور ان تینوں نے انسانِ کامل کی تلاش کےلیے اہم نکات بیان کیے-
حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)نے اپنی تصانیف ’’محک الفقر‘‘، ’’عین الفقر‘‘ اور ’’امیرالکونین‘‘ میں انسانِ کامل کی تفصیل سے وضاحت کی ہے جبکہ ان کتب کے ٹائٹل اپنی جگہ انسانِ کامل کی بہترین تشریحات ہیں-انسانِ کامل نورِ الٰہی کا حامل ہوتا ہے اور اسی سے قدرت کا مطالعہ کرتا ہے-وہ کائنات کے رازوں میں سب سے اہم راز ہے-مرزا عبد القادر بیدل بھی انہی خیالات کے حامل تھے-اسی طرح اقبال نے بھی انسان کامل کے خواص بیان کیے-
“Muhammad Iqbal & Muhammad Asad Cultural Discussion in the Changing World”
جناب یووہن ریوتوو :(سینیئر لیکچرر، کیو نیشنل لینگوسٹک یونیورسٹی ، یوکرائن)
محمد اسد (12جولائی 1900- 20فروری 1992) یہودی النسل آسٹرو-ہنگیرین صحافی، سیاح، لکھاری، ماہرِ سیاسیات، سفارت کار اور مسلم سکالر تھے- اسد بیسویں صدی کے با اثر ترین یورپین مسلمان افراد میں سے تھے-عرب دنیا کی سیاحت کے بعد، 1926ء میں آپ نے اسلام قبول کیا-دورہ برصغیر کے دوران آپ کی ملاقات علامہ اقبال سے ہوئی جنہوں نے آپ کو برصغیر میں قیام کرنے اور مستقبل کی اسلامی ریاست کے نظریاتی خدوخال پر غور و فکر کی ترغیب دی-اس وقت سے اسد مسلمان دانشور کے طور پر سامنے آئے جنہوں نے اسلامی ثقافت اور قانون کی ترویج کے لیے لیکچرز اور تحاریر کے ذریعہ کام کیا-محمد علی جناح کی درخواست پر، جناب محمد اسد نے مسلم ریاست میں اسلامی آئین کے نفاذکے لیے کتابچہ تحریر کیا-
“Analysis of Ideological Harmony in Rumi's Message and Iqbal's Philosophy”
پروفیسر بغائی مکان: (سابق پروفیسر ، ایران ثقافتی ورثہ ، ایران)
اقبال ایک جدت پسند فلسفی تھے جنہوں نے اپنے کلام میں دورِ جدید کے اہم موضوعات پر روشنی ڈالی جس میں ایک اہم معاملہ شدت پسندی ہے، اقبال کے بقول یہ ایک بیماری کی مانند ہے جو مسلم قوم کو کمزور کر رہی ہے-جب ایران کے ناقد اقبال اور رومی کے کلام کا تقابلی جائزہ لیتے ہیں تو وہ اقبال کو بیسویں صدی کا رومی قرار دیتے ہیں-اقبال ایک عظیم فلسفی، شاعر، مصلح، ماہرِ سماج اور معلم تھے-انہوں نے ایک ملک کی نظریاتی بنیاد رکھی اور آپ مغربی اور مشرقی دونوں فلاسفی پر مکمل عبور رکھتے تھے-اقبال اور رومی کے خیالات میں سب سے اہم نکتہ ان کے انسان کے بارے خیالات ہیں-اقبال کے مطابق خدا انسانِ کامل کی تلاش میں ہے- جیسا کہ حدیث میں بھی آیا ہے کہ خدا کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جن کی مرضی پر خدا اپنی مرضی چھوڑ دیتا ہے-
Remarks by the Chair
ڈاکٹر سہیل عمر:(سابق ڈائریکٹر، اقبال اکیڈمی پاکستان)
اقبال پنجابی صوفیانہ کلام کے بہت بڑے مداح تھے-اقبال اور پنجابی صوفی شعراء میاں محمد بخش اور خواجہ غلام فرید پر تقابلی جائزے بھی موجود ہیں-تاہم ابھی اقبال اور پنجابی شاعری کے تقابلی جائزہ کی مختلف جہتوں پر بہت سا کام ہونا باقی ہے-ایک ابتدائی تقریر میں، حضرت سلطان باھُو، عبدالقادر بیدل اور اقبال کی تعلیمات سے انسانِ کامل کا درجہ حاصل کرنے کے لیے تین نکات پر بحث کی گئی-حضرت سلطان باھُو کے مطابق، ایک گمراہ انسانی روح تزکیہ، اخلاق اور مرشدِ کامل کی رہنمائی کی بدولت اعلیٰ روحانی صفات حاصل کر سکتی ہے-اس دوران، تمام خصائصِ رزیلہ کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور لطیف خواص انسانی روح و جسم پر غالب آ جاتے ہیں-جس سے ایک مثالی انسان سامنے آتا ہے-اسی طرح بیدل کی تعلیمات میں تنظیم، تربیت اور تزکیہ پر زور دیا گیا ہے-اقبال نے بھی اپنی تعلیمات میں تربیت اور ضبطِ نفس کے انہی مراحل کی تشریح کی-
سیشن ششم : پیام اقبال
کانفرنس کے دوسرے روز کے اختتام پہ ’’پیامِ اقبال‘‘ کے عُنوان پہ کلام کے سیشن کا انعقاد کیا گیاجس میں اُستاد حامد علی خان نے کلامِ اقبال پیش کیا اور مندرجہ ذیل مقررین نے اظہار خیال کیا-
ڈاکٹر ارینا سری آنکو :(سینئر ریسرچ سکالر ، اکیڈمی آف سائنسز ، روس )
عظیم فلاسفر اور شاعر، ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے ہمیں ایک دوسرے کی ثقافت کو جاننے اور سمجھنے کا موقع فراہم کیا ہے تاکہ ہم پرامن بقائے باہمی کے ساتھ ساتھ عالمی امن کو درپیش خطرات سے نمٹ سکیں -
پروفیسر بغائی مکان:(سابق پروفیسر ، ایران ثقافتی ورثہ ، ایران)
یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ میں اس کانفرنس میں شریک ہوں-ہمیں دیگر فلاسفرز، مفکر اور سکالرز کے متعلق بھی اسی نوعیت کی کانفرنسز کروانے کی ضرورت ہے-اقبال اُس آسمان میں ایک تابندہ و چمکدارچاند کی مثل ہیں جہاں دیگر فلاسفرز اور مفکرین کو ستاروں سے تشبیہ دی جا سکتی ہے -
سیشن ہفتم : اقبال اور دور حاضر
“Iqbal's Concept of Ijtihad: Modern Issues of Implementation”
ڈاکٹر عبدالروف رفیقی :(یونیورسٹی آف بلوچستان کوئٹہ )
اقبال کے عصر میں اسلامی اُمہ پر جمود طاری تھا لیکن اقبال کے مشہور خطبہ الاجتہاد فی الاسلام سے بہت پہلے ان کی شاعری میں اجتہاد کی بازگشت سنائی دیتی ہے-اقبال نے اپنے اس مشہور خطبہ کا آغاز اس نئے انکشاف سے کیا ہے کہ از روئے اسلام کائنات ساکن نہیں ہے-ان کے نزدیک ملت اسلامیہ کی آزادی اور احیاء کے لیےاولاً سیاسی غلامی کی زنجیروں کو توڑنا ہوگا اور پھر نو آزاد مملکتوں کی تعمیر کے لیے انفرادی درجے کے اجتہاد کے بجائے اجتماعی اجتہاد کے ادارے قائم کرنا ہوں گے-وہ اس اجتہاد کا وجود اور مرکز پارلیمنٹ کوقرار دیتے ہیں جسے علمائے دین کی رہنمائی میسر ہو-اقبال خطے میں اسلامی سلطنت کے ساتھ ساتھ پوری اسلامی دنیا میں ایک منظم اور نئی سوچ کو پروان چڑھتے دیکھ رہے تھے-لہذا مستقبل میں اسلامی ریاستوں کے آئینی تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے سب سے پہلے 13 دسمبر 1924ء کو لاہور میں اپنا مشہور مقالہ الاجتہاد فی الاسلام پیش کیا تاکہ مسلم اُمہ کے اجتماعی اجتہادی ادارے اس سے مستفید ہو سکیں-
“A Review of research on Iqbal in Tajikistan”
پروفیسر ڈاکٹر عبدالشکور عبدالستار: ) سربراہ شعبہ فارسی ، نیشنل یونیورسٹی آف تاجکستان (
اقبال کے کلام کی محبوبیت اور عالمگیریت پاکستان سے نکل کر دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچی اور دوسری اقوام کے دلوں کی دھڑکن بنی- ان ممالک میں تاجکستان بھی ایک ہے-تاجکستان میں اقبال شناسی کا آغاز 1958ء میں ہوا جب میر شکر نے پاکستان کا سفر کیا اور اقبال کے کلیات اپنے ساتھ لائے-مختلف سکالرز نے اقبالیات پر مقالے بھی لکھے ان میں عبد اللہ جان کا کام قابل ذکر ہے جو انہوں نے بنام اقبال شائع کیا اور اس کے بعد برصغیر پاک و ہند کے فارسی ادب کا ایک تحقیقی جائزہ پیش کیا جس میں اقبال کے آثار و افکار پر تحقیق شامل ہے-1991ء کے بعد تاجکستان میں اقبال شناسی کا بڑا اہم دور ہے سویت یونین سے آزادی حاصل کرنے کے لئے تاجکستان کے نوجوانوں کو ایک فکری قبلہ کی ضرورت تھی ایک امید اور ولولہ کے ساتھ یہ ضروت اقبال نے پوری کی اور اقبال کی فکر جاوداں اور اقبال کی فکر خودی نے تاجکستان کے نوجوانوں میں ایک روح پھونک دی-
“Test of Reading in the Thought of the Intellectual Guide and Reforming Muhammad Iqbal Through His Work “The Reconstruction of Religious Thought in Islam”
ڈاکٹر کریم احمد افراک:(قومی ادارہ برائے سائنسی تحقیق، فرانس )
’’تجدید فکریات اسلام‘‘ بلاشبہ اقبال کا عقلی اور علمی سرمایہ ہے- یہ سات خطبات پر مشتمل سیریز ہے جو آپ نے 1928ء سے 1932ء کے دوران مدراس، حیدر آباد، علی گڑھ اور لندن کی کانفرنسز میں دئیے اور ان میں آپ نے مسلم فلاسفی کے موجودہ سائنسی دور تک ارتقاء کا جائزہ لیا-اقبال نے جدت کا سہارا لیتے ہوئے دو بالکل مختلف شعبوں اور طرز خیال کے مابین پُل کا کردار ادا کیا اور نظریہ الوہیت، فلسفہ سماج، فلسفہ قانون اور سائنسی نظریات کے ساتھ کمال انصاف کیا-
آپ نے اپنی عظیم علمی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مختلف زمانوں کے مغربی سائنس دانوں اور مسلمان مفکرین کی تھیوریز کا تقابلی جائزہ لیا- اس میں اقبال کے دو مقاصد تھے-پہلا اسلام کے بارے میں پیدا کردہ منفی نظریات کی تردید اور دوسرا اسلام کے پوشیدہ پہلوؤں کو اجاگر کرنا تھا-آپ کے انتقال کے بعد بھی یہ جدت آمیز دانشورانہ فکر مسلم مفکرین اور طلباء پر اپنا اثر رکھتی ہے-
“Current Issues of Pakistan and Importance of Iqbal's Philosophical Thoughts”
پروفیسر ایوب صابر:(مصنف و ماہر اقبالیات )
پاکستان کے موجودہ مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ کرپشن کا ہے-دوسرا بڑا مسئلہ غربت کا ہے یہ بات تو تصور پاکستان میں بھی شامل تھی کہ غربت کا خاتمہ کیا جائے گا-موجودہ مسئلہ دہشت گردی کا ہے-مسئلہ کشمیر بہت بڑا مسئلہ ہے-ان مسائل کو فکر اقبال کی روشنی میں حل کرنے کے لئے اقبال کی فکر کی ’’الف ب‘‘ کو سمجھنے کی ضرورت ہے فکر اقبال کی ’’الف ب‘‘ کیا ہے-’’الف‘‘اسرار خودی تصور خودی یا تصور نائب حق تصور انسان کامل یا تصور مسلمان یہ تصورات اقبال نے اسرار خودی میں بیان کیے ہیں اور دوسرا تصور بے خودی یا تصور ملت ہے -بے یقینی جو ہے اقبال کے نزدیک یہ محکومی سے بد تر ہے-
سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار |
وقفہ سوال و جواب :
بلوچی زبان میں اقبال کے کلام پر کام کے متعلق جواب دیتے ہوئے جناب ڈاکٹر عبد الروف رفیقی نے کہا کہ اقبال کا پورا کلام بلوچی زبان میں ترجمہ کرنے کی ضرورت ہے-اشتراکی اور سرمایہ دارانہ نظام کے متعلق سوال پہ پروفیسر ایوب صابر نے کہا کہ آزادی کا سلب کیا جانا ابلیس کا سب سے بڑا کارنامہ ہے-اقبال کی نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں مختلف سیاسی اور معاشی نظام زیر بحث آتے ہیں جن میں ابلیس اپنے مشیروں کو بتاتا ہے کہ یہ اشتراکی اور سرمایہ دارانہ نظام میرا ہے ہی لایا ہوا ہے-اقبال فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کو آئین محمدی (ﷺ) پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے جو ان کا سیاسی و معاشی نظام ہے اور ابلیس اس نظام سے ڈرتا ہے کہ یہ آشکارہ نہ ہو جائے وگرنہ دنیا اس کی طرف راغب ہو جائے گی-اقبال پہ تنقید کے متعلق جواب دیتے ہوئے جناب سلطان احمد علی صاحب نے کہا کہ اقبال کے خطبات پہ بہت تحقیق اور عرق ریزی کی ضرورت ہے اور اقبال کی شاعری کو خطبات کے تناظر میں دیکھا اور سمجھا جانا چاہیے- نوجوان محققین کو چاہیے کہ وہ خطبا ت کا غیر جانبدارانہ مطالعہ کریں اور خطبات کو اقبال کے تناظر میں پڑھیں نہ کہ خود ساختہ ملاؤں کے تناظر میں -
سیشن ہشتم : اقبال عالمی تناظر میں
Allama Muhammad Iqbal & Azerbaijan
ڈاکٹر بصیرہ عزیز عالیہ : ) ایسوسی ایٹ پروفیسر، آذربائیجان نیشنل اکیڈمی آف سائنسز (
محمد اقبال پاکستانی شاعر، اسلامی مفکر، فلاسفر اور مقبولِ عام شخصیت ہیں اور آپ کے ادبی کام کو ہمیشہ آذربائیجان میں پذیرائی ملی ہے-اب بھی اقبال کا ادبی ورثہ آذربائیجانی محققین کے زیرِ تحقیق ہے- آذر بائیجان میں اقبال پر تحقیق کے تین نمایاں پہلو ہیں؛ اقبال کے کام کا آذربائیجانی زبان میں ترجمہ، اقبال کے باقی ماندہ ادبی کام بالخصوص منظوم کلام پر مزید تحقیق اور اقبال کے فلسفیانہ اور مذہبی خیالات پر تحقیق- تمام ذکر کردہ جہتوں پر بڑی تعداد میں مقالہ جات اور کتب لکھی جا چکی ہیں-حالیہ برسوں میں اقبال کی ادبی،نظریاتی، سماجی،سیاسی اور مذہبی کاوشوں پر بہت کام ہو چکا ہے جن میں’’محمد اقبال اور ان کے مذہبی خیالات‘‘ اور پروفیسر رمیض عسکر کا ’’محمد اقبال، پاکستان کے روحانی بانی‘‘ قابلِ ذکر ہیں-
“Allama Muhammad Iqbal in China: A Brief Review”
ڈاکٹر ژو چوآن بن:(لنزاو یونیورسٹی ، چین)
استعماری قوتوں کے قبضے کے دوران چائنیز اور اسلامی تہذیبوں میں قریبی تعلقات استوار نہیں ہو سکے- جنگ عظیم دوئم کے بعد، چین اور پاکستان معرضِ وجود میں آئے-دونوں استعمار کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور آزادی حاصل کی-اس پسِ منظر میں اقبال کی نظمیں پہلی دفعہ چین میں متعارف ہوئیں-چین میں اقبال کی شاعری کے ترجمہ کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے- پہلا دور 1950ءسے 1970ءاور دوسرا 1980ء سے 1990ءتک کا ہے-مارکسزم سے متاثر چائنیز سکالرز نے اقبال کی فلاسفی کو آئیڈیل سمجھا اور وہ اقبال کے دور کے بارے بہت اچھی تفہیم رکھتے ہیں-چینی سکالرز اقبال کے سیاسی فلسفے پر بھی بحث کرتے ہیں جیسا کہ اقبال نے ہندوستانی قومیت کی بجائے مسلم قومیت کے نظریے کو اپنایا-تیسرا دور اکیسویں صدی کی پہلی دو دہائیاں ہیں جس میں اقبال کے تین اہم مسودات چین میں شائع ہو چکے ہیں- میں پر امید ہوں کہ اقبال کی فکر چین میں مزید پذیرائی حاصل کرے گی-
“Muhammad Iqbal`s Legacy in Russia-Pakistan Socio-Cultural Relations”
ڈاکٹر ارینا سری آنکو :(سینئر ریسرچ سکالر ، اکیڈمی آف سائنسز ، روس)
اقبال کا ادبی ورثہ بین الاقوامی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس کا تعلق صرف پاکستان اور مسلمانوں سےنہیں بلکہ پوری دنیا میں پھیلی ہوئی انسانیت سے ہے-آپ کی امن، محبت اور انسانی اخوت سے لبریز شاعری اور فلاسفی مغرب اور مشرق کے مابین پل کا کردار ادا کر رہی ہے-ہم آپ کو مصور پاکستان کے ساتھ روس اور پاکستان کے باہمی ثقافتی تعلقات کے بانی ہونے کا درجہ بھی دیتے ہیں- 70 برس قبل جب پاکستان دنیا کے نقشےپر ابھرا، آپ کی عظیم شخصیت اور ورثہ روس کے لیے اس نو زائیدہ مملکت کے ساتھ نتھی ہو گئی-آپ کے فلسفیانہ اور شاعرانہ افکار کا سوویت سکالرز نے ماسکو، دوشنبے، سمرقند اور دیگر ادبی مراکز