بحیرہ مردار کے دستاویزات

بحیرہ مردار کے دستاویزات

بحیرہ مردار (Dead Sea) سر زمینِ فلسطین اور اردن کے درمیان واقع جھیل نما سمندر ہے-یہ سمندر 67 کلومیٹر طویل، 15 کلومیٹر عریض اور  306 میٹر گہرا ہے-یہ زمین پر سطح سمندر سے سب سے نچلا مقام ہے- جمہوریہ جبوتی میں پائی جانے والی جھیل اسال کے بعد یہ دنیا کا نمکین ترین ذخیرہ آب ہے[1]-اس کا پانی سمندر سے 800 فیصد زیادہ نمکین ہے-بہت زیادہ نمکین اور منرلز (minerals)پائے جانے کے باعث اس میں آبی حیوانات اور پودے نہیں پائے جاتے- اسی لیے اس کا نام بحیرہ مردار پڑ گیا ہے- زیادہ نمکیات کے سبب اس میں کوئی انسان ڈوبتابھی نہیں کیونکہ اس پانی کی کثافت انسانی جسم سے زیادہ ہے-

بحیرہ مردار کے قریب بے شمار پہاڑی سلسلے موجود ہیں-140 سال قبل از مسیح میں کچھ قبائل کا مسکن ان پہاڑوں کےقریب تھا-ان پہاڑوں میں بہت سی غاریں موجود ہیں-تاریخی حوالہ جات کے مطابق یہ قومیں بعد میں زلزلہ کے باعث تباہ ہوئیں-شاید 1947ء میں بارشیں کافی مقدار میں ہوئی تھیں کہ بیت اللحم (فلسطین کی ایک بستی)سے تین چرواہے اپنی بھیڑ بکریاں چرانے بحیرہ مردار کے کنارے آئے-ایک روایت یہ بھی ہے کہ ایک چرواہا اپنی بھیڑ کی تلاش میں بحیرہ مردار کے قرب میں واقع پہاڑوں میں آ نکلا- پہاڑ میں موجود غار نے اس کی توجہ حاصل کی تو اس نے ایک پتھر پھینکا جو غار میں موجود مٹی کے ظروف سے ٹکرایا اور کچھ ٹوٹنے کی آواز پیدا ہوئی-اگلے روز دو خانہ بدوش اُسی غار کا بغور جائزہ لینے کی نیت سے آئے اور جب وہ غار میں پہنچے تو وہاں مٹی کے ظروف دیکھے جن میں سے کچھ پر ڈھکن تھے، کچھ ظروف ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے تھے، کچھ ظروف خالی تھے جبکہ ایک صراحی میں چار دستاویزات کے بنڈل لینن میں بندھے تھے-

 جن میں سے ایک، عیسایہ (Isaiah) دوسری، ہبباکک (The Habakkuk) اور تیسری دستاویز نظم و ضبط (The Manual of Discipline) تھی- جب کہ چوتھی دستاویز بے احتیاطی کے باعث پھٹنے سے ضائع ہو گئی-عجیب بات یہ ہے کہ چمڑے پر مشتمل قدیم دستاویزات کا نہ تو نمی پر مشتمل آب و ہوا میں باقی رہنا ممکن تھا نہ ہی خشک ترین فضا میں-بحرحال ان دستاویزات کا ہزاروں برس تک محفوظ رہنے کا سبب، غار میں معتدل آب و ہوا، چمڑے کی خاص حالت اور مخصوص سیاہی کا استعمال بتایا جاتا ہے لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود ہزاروں برس گزرنے کے باعث دستاویزات میں توڑ پھوڑ کا عمل آہستہ آہستہ بدستور جاری رہا-

پہلی بار یہ دستاویزات 1947ءمیں بحیرہ مردار کے قرب میں واقع غار سے دریافت ہوئے،یہ دستاویزات جن غاروں سے دریافت ہوئے وہ چونکہ بحیرہ مردار کے قرب میں واقع ہیں اسی نسبت سے ان کا نام ’’بحیرہ مردار کے دستاویزات ‘‘یعنی (Dead Sea Scrolls) پڑ گیا-

خانہ بدوش ان دستاویزات کو شام کے تاجر خلیل سکندر شاہین المعروف کاندو[2] کے پاس لائے جو بعد ازاں ان دستاویزات کا نمایاں اور مستند تاجر کے طور پر ابھر کے سامنے آیا-’’Athanasius Yeshue Samuel ‘‘نامی شخص نے جب ان دستاویزات کو دیکھا تو اسے معلوم ہوا کہ یہ دستاویزات عبرانی زبان میں درج ہیں-وہ انہیں کاندو سے خریدنا چاہتا تھا-اسی دوران اُن خانہ بدوش چرواہوں نے غار سے چار مزید دستاویزات دریافت کر لیں جن میں (The Second Isaiah Scroll) ، (The War Scroll) ، (The Thanksgiving Scroll)  اور (The Genesis Apocryphon) شامل ہیں- [3]

یکم جون 1954ء میں ’’Wall Street Journal‘‘ میں ایک اشتہار چھپا جو کہ کچھ یوں تھا:

’’بحیرہ مردار کے چار دستاویزات (مقدس مسودات) فروخت کے لیے موجود ہیں-یہ مذہبی اور تعلیمی اداروں کے لیے نادر تحفہ ہے‘‘-

یہ دستاویزات وادیٔ قمران میں بسنے والے لوگوں سے منسوب کیے جاتے ہیں-اس کی ایک وجہ نہ صرف یہ کہ اس قبیلہ کا اِن غاروں کے قرب میں رہائش پذیر ہونا تھا بلکہ ان میں آثارِ قدیمہ کے ظروف سازی کے نمونوں میں مماثلت تھی جو قمران قبیلے میں اور غاروں میں پائی گئی-غاروں میں خزانہ (قیمتی سکے)اور دستاویزات کا ایک ساتھ چھپائے جانا اس بات کی دلیل ہے کہ وادیٔ قمر ان کے لوگوں کی نگاہ میں کتابیں اتنی ہی اہم تھیں جتنا کہ خزانہ-وہ کتابوں کو خزانے کے مترادف جانتے اور ان کے محفوظ رہنے کا اہتمام کرتے-یہ دستاویزات  250 سال قبل از مسیح سے 70 عیسوی کے درمیان لکھے گئے- ان کی تاریخ کا اندازہ ’’علم قدیم نگارشات‘‘ (Paleography) کے ذریعے لگایا گیا- یہ ایسا علم ہے جس میں قدیم دستاویزات کو اُن کی لکھائی کے طرز سے تاریخ معلوم کی جاتی ہے کہ اس سے ملتی جلتی لکھائی کس عہد میں رائج تھی-

ایک خانہ بدوش نے کچھ دستاویزات ایک آرمینین نوادرات کے تاجر کو فروخت کیں- وہ تاجر، عبرانی یونیورسٹی کے ماہر آثار قدیمہ پروفیسر سوکینک (Professor E.L. Sukenik) کا دوست تھا- وہ چاہتا تھا کہ اس کا دوست سوکینک ان نودارت کی تصدیق کرنے کے بعد اپنی یونیورسٹی کے عجائب خانہ کے لیے خرید لے-سوکینک ان نودرات کا معائنہ کر ہی رہا تھا کہ اس کے بیٹے یا گئیل یڈن (Yigael Yadin) نے آ کر خبر دی کہ اقوامِ متحدہ (United Nations)نے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ صادر کیا ہے- ایک ریاست فلسطین کی اور دوسری یہودیوں کی ہوگی-یہ دستاویزات یہودیوں کے لیے کچھ اس لحاظ سے بھی اہم ہیں کہ اِن کی دریافت کے ساتھ ہی یہودیوں کو اسرائیلی ریاست حاصل ہوئی-

دوسری طرف غاروں کی تلاش اور دستاویزات کے ڈھونڈنے کا عمل جاری رہا-خانہ بدوشوں نے مزید دستاویزات کے چھوٹے ٹکڑے ڈھونڈے- کاندو نے غارِ اول سے برآمد پارچاجات فلسطینی آثاریاتی عجائب گھر کے سیکرٹری کو بیچے- بعد ازاں حکومت نے کھدائی میں دلچسپی لی اور سینکڑوں دستاویزات کے ٹکڑے، تیس کے قریب ظروف اور دستاویزات کو باندھنے کے کپڑے دریافت ہوئے-غیر قانونی کھدائی اور دستاویزات کو چور بازاروں میں فروخت ہونے سے روکنے کے لیے بھر پور اقدامات کیے گئے- کچھ دستاویزات کو بیچنے کے لیے امریکہ بھیجا گیا جو کہ موجودہ اڑھائی (2.5)لاکھ ڈالر میں فروخت ہوئے-

نئی وجود میں آنی والی غیر قانونی ریاست اسرائیل نے ان دستاویزات کی واپسی کا مطالبہ شروع کیا گو کہ یہ دستاویزات اُس وقت دریافت ہوئے تھے جب کہ اسرائیلی ریاست ابھی وجود پذیر نہ تھی[4]-بھاری قیمت پر فروخت ہونے والی دستاویزات کی تلاش مزید تیز ہوگئی- مقتدران جہاں ان دستاویزات کو کم قیمت پر خریدنے کے خواہاں تھے وہیں وہ ان نوادرات کو کھونا بھی نہیں چاہتے تھے- جبکہ کاندو جیسے لوگوں کو درمیان سے ہٹا کر مکمل قیمت حاصل کرنا چاہتے تھے- جبکہ کاندو جیسے لوگ خود کو اس کاروبار کے حاکم کے طور پر برقرار رکھنے کے خواہشمند تھے- خانہ بدوشوں نے زیادہ قیمت کے حصول کے لیے دستاویزات کو پھاڑ کر ہر ایک ٹکڑے کی الگ قیمت وصول کرنا شروع کر دی- جبکہ انتظامیہ نے اس نقصان اور توڑ پھوڑ کے عمل کو روکنے کے لیے ہر مربع سینٹی میٹر کے حساب سے دستاویزات خریدنے کی تدبیر اختیار کی تاکہ خانہ بدوشوں کو دستاویزات پھاڑنے سے روکا جائے- کیونکہ اب ہر ٹکڑے کی الگ قیمت کی بجائے ہر مربع سینٹی میٹر ٹکڑے کے حساب سے قیمت ملتی اور اب دستاویزات کو پھاڑنے سے کوئی خاطر خواہ نفع نہ ہوتا-

 1951ء میں غار دوم دریافت ہوا- جوکہ قمران کے غار اول سے 18 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا- قمران سے چار کلومیٹر کے فاصلے پر غار سوم دریافت ہوا جس میں تانبے پر کندہ تحاریر دستاویزات کی صورت میں سامنے آئیں-1952ء میں غار چہارم کی دریافت ہوئی، جس سے ملنے والی دستاویزات کی خریداری کے لیے اردن کی حکومت نے جامعہ ہایئڈل برگ (University of Hiedelberg)، جامعہ مانچسٹر (University of Manchester)اور ویٹیکن لائبریری (Vatican Library) جیسے تعلیمی اداروں سے فنڈ اکٹھا کیا- اردن نے غار چہارم کے دستاویزات خریدنے کے لیے جو رقم ادا کی وہ آج کی موجودہ مالیت 42000 ڈالر کے برابر ہے[5]- یہ غار 600 دستاویزات کے 16000 چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پر مشتمل تھا-[6] ان بےشمار چھوٹے ٹکڑوں کو صیح طور پر جوڑنا یقیناً ایک انتھک اور کٹھن مرحلہ تھا- بعد ازاں غار پنجم اور غار ششم کی دریافت سامنے آئی- 1955 میں قمران کے قریب غار ہفتم، غار ہشتم، غار نہم اور غار دہم بھی دریافت ہوئے-

1956ء میں گیارہواں غار دریافت ہوا- ہر غار سے دستاویزات دریافت نہ ہوتیں بلکہ تقریبا 200 غاروں میں ڈھونڈنے کے بعد گیاراں ایسے غار دریافت ہوئے جن میں دستاویزات موجود تھیں-تمام دستاویزات عبرانی زبان میں نہیں ہیں-اس تحقیق پر اخراجات کے ساتھ ساتھ کافی محنت اور وقت صرف کیا گیا- 1953ء میں اردن نے عالمی سکالرز کی جماعت تشکیل دی جو کہ ان دستاویزات کی درست اشاعت پر معمور کی گئی -1961ء میں اردن نے بحیرہ مردار کے دستاویزات کو قومی اثاثہ قرار دیا- 1967ء کی عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے اردن کے کچھ حصے ’’Jordanian west bank ‘‘، بیت اللحم اور مشرقی پروشلم پر قبضہ کر لیا جس کے باعث روک فیلر عجائب گھر بھی اسرائیلی قبضے میں چلا گیا- اس عجائب گھر میں غار دوم تا غار گیاراں (Cave 2 to Cave 11) کے دستاویزات محفوظ تھے[7]- جیسے ہی مشرقی یروشلم اسرائیل کے قبضہ میں آیا، یا گئیل یڈن (Yigael Yadin) نے کاندو سے ٹیمپل سکرول حاصل کی اور کاندو کو موجودہ 105000 ڈالر دیے تاکہ وہ مزید دستاویزات اکٹھے کر کے انہیں دے سکے-اردن کی طرف سے قائم کردہ بین الاقوامی دستاویزات کمیٹی (International Scroll Committee) کی افادیت کو یہ کَہ کر کم کیا جانا شروع کر دیا گیا کہ دستاویزات کی اشاعت بہت سست ہے (گو کہ اسے احتیاط کا پہلو بھی کہا جا سکتا تھا)-

کاربن 14 [Carbon-14 Method (discovered in 1947 by W.F. Lib)] کے ٹیسٹ کے دوران بہت سا مواد ضائع ہوتا ہے اسی بات کے پیشِ نظر کسی بھی دستاویز پر یہ ٹیسٹ نہیں کیا گیا بلکہ ان دستاویزات کے ساتھ دریافت ہونے والے چمڑے اور کپڑوں کی ڈوریوں پر ٹیسٹ کیا گیا-بہت سی دستاویزات عبرانی زبان میں تورات مقدس کی نقلیں ہیں- تورات کے علاوہ کئی دستاویزات یہودی انشاء پردازی پر مشتمل ہیں- جو کہ اُسی دور میں ہی لکھا گیا-ایک تہائی دستاویزات مختلف یہودی فرقوں سے متعلق ہیں-ان دستاویزات میں خیر کی قوتوں اور شر کی قوتوں کے درمیان جاری جنگ کا تذکرہ ہے- وادیِ قمران کے لوگ خود کو (Son of Light) ’’روشنی کا بیٹا‘‘ کہتے اور خدا تعالی کے احکامات پر عمل پیرا رہنے کو ضروری سمجھتے تھے-

یہ دستاویزات بنیادی طور پر تین طرح کے موضوعات سے متعلق ہیں-

1.       عبرانی زبان میں درج مقدس کتاب تورات سے متعلق

2.       وہ چیزیں جو تورات سے حذف کر دی گئیں

3.       تقویٰ اور عبادات سے متعلق

ایک روایت کے مطابق ان مقدس دستاویزات میں ہمارے آقا و مولا سیدنا احمد مجتبی (ﷺ)کا نام مبارک اور قرآن مجید کا ذکر بھی شامل ہے[8]-لیکن بعد ازاں دانستہ طور پر اس نام مبارک (ﷺ) اور قرآن کے ذکر کو حذف کر دیا گیا-تعلیماتِ اسلامی کے مطابق تورات، زبور اور انجیل مبارک میں حضور (ﷺ) کا نام مبارک درج تھا اور آخری نبی (ﷺ) کی آمد کا پیغام بھی تھا، ہر نبی اپنی امت کو یہ بشارت سنا کر جاتا کہ وہ نبی المحترم (ﷺ) تشریف لائیں گے-لیکن حق و باطل کی جنگ میں کئی لوگوں نے ذاتی مفادات اور مادیت پسندی کے باعث حق سے منہ موڑ کرباطل کا ساتھ دیا-انہی لوگوں سے متعلق قرآن کریم میں ارشاد ہے:

’’اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآئَہُمْ وَاِنَّ فَرِیْقًا مِّنْہُمْ لَیَکْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ‘‘[9]

’’اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب عطا فرمائی ہے وہ اس رسول (آخر الزماں حضرت محمد(ﷺ)اور ان کی شان و عظمت) کو اسی طرح پہچانتے ہیں جیسا کہ بلاشبہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اور یقینا انہی میں سے ایک طبقہ حق کو جان بوجھ کر چھپا رہا ہے‘‘-

حضرت عبداللہ بن سلام (رضی اللہ عنہ) نے حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) سے کہا کہ جب میں نے آنحضور(ﷺ)کو دیکھا تو آپ (ﷺ)کو اسی طرح پہچان لیا جس طرح میں اپنے بیٹے کو پہچانتا ہوں بلکہ مجھے سیدنا محمد الرسول اللہ(ﷺ) کی معرفت اپنے بیٹے سے زیادہ تھی کیونکہ ہماری کتاب میں اللہ تعالی نے ان کی صفات بیان کی ہیں-تو میں نے دیکھتے ہی پہچان لیا کہ آپ (ﷺ)برحق نبی ہیں [10]-

’’وَلَمَّا جَآءَ ھُمْ کِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللہِ  مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَھُمْ وَکَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَلَمَّا جَآءَ ھُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہٖ فَلَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ‘‘[11]

’’اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے وہ کتاب (قرآن) آئی جو اس کتاب (تورات) کی (اصلاً) تصدیق کرنے والی ہے جو ان کے پاس موجود تھی، حالاں کہ اس سے پہلے وہ خود (نبی آخر الزماں حضرت محمد (ﷺ) اور ان پر اترنے والی کتاب ’’قرآن‘‘ کے وسیلے سے) کافروں پر فتح یابی (کی دعا) مانگتے تھے،سو جب ان کے پاس وہی نبی (حضرت محمد(ﷺ)اپنے اوپر نازل ہونے والی کتاب ’’قرآن‘‘ کے ساتھ) تشریف لے آیا جسے وہ (پہلے ہی سے) پہچانتے تھے تو اسی کے منکر ہو گئے،پس (ایسے دانستہ) انکار کرنے والوں پر اللہ کی لعنت ہے‘‘-

حضور نبی کریم (ﷺ)کے زمانہ میں یہودی یہ جانتے تھے کہ تورات میں حضرت محمد الرسول اللہ (ﷺ)کے مبعوث ہونے کی بشارت موجود ہے-حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) بیان فرماتے ہیں کہ آقا کریم (ﷺ) کی بعثت سے قبل یہودی، اوس و خزرج کے خلاف جنگ میں سید الانبیاء محمد مصطفےٰ (ﷺ) کے وسیلہ سے فتح کی دعا طلب کرتے تھے-لیکن آپ(ﷺ) کی بعثت کے بعد انہوں نے انکار کردیا ان کی خواہش تھی کہ بنی اسرائیل ہی میں سے وہ نبی مبعوث ہو- [12]

یہی بشارت حضرت عیسی (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو سنائی جس کوقرآن پاک میں بھی بیان فرمایا گیا ہے:

’’وَاِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یٰـبَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰۃِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْ بَعْدِیْ اسْمُہٗٓ اَحْمَدُ فَلَمَّا جَآئَ ہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا ہٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ‘‘[13]

’’اور (وہ وقت بھی یاد کیجیے) جب عیسیٰ بن مریم (علیھا السلام) نے کہا: اے بنی اسرائیل! بے شک میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا (رسول) ہوں، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اُس رسولِ (معظّم (ﷺ)کی آمد آمد) کی بشارت سنانے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت) احمد (ﷺ)ہے، پھر جب وہ (رسولِ آخر الزماں(ﷺ) واضح نشانیاں لے کر اُن کے پاس تشریف لے آئے تو وہ کہنے لگے: یہ تو کھلا جادو ہے‘‘-

یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ ایک روایت یہ بھی ہے کہ قمران نامی کوئی وادی نہیں تھی بلکہ قمران نامی ایک قلعہ تھا اور اس قلعے کے باسیوں کا ان دستاویزات کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا-اس قلعہ کا ان غاروں کے قرب میں واقع ہونا محض حسنِ اتفاق تھا- حقیقتاً یہ دستاویزات یروشلم کے لوگوں نے یہودی بغاوت کے وقت رومن فوجوں کے خوف سے یہاں چھپائے تھے-لہذا یہ دستاویزات کسی ایک قبیلہ سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ یہ کئی اقوام کے مختلف عقائد کی عکاس ہیں-

1991ء میں چھوٹے پارچاجات کو جوڑنے کے لیے ایک کمپیوٹر پروگرام تیار کر لیا گیا-ان دستاویزات کے ذریعے قدیم تورات کو سمجھنے میں کافی مدد میسر آئی ہے-ان دستاویزات کی دریافت سے قبل قدیم ترین تورات جو میسر تھی وہ صرف 1000 عیسوی کے وقت کی تھی جبکہ قمران کی دستاویزات موجودہ تورات سے ایک ہزار برس زیادہ قدیم ہیں-

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دریافت شدہ دستاویزات اور مٹی کے ظروف کی تاریخِ تخلیق میں واضح اختلاف ہے-

Argument from paleography is as little decisive for dating as is the argument from the date of the jars found with the manuscripts in the cave.” [14]

’’علم قدیم نگارشات سے (دستاویزات کے متعلق) معلوم شدہ تاریخ اتنی ہی کم فیصلہ کن ہے جتنی کہ غار سے دریافت شدہ ظروف کی ہے‘‘-

ان دستاویزات سے متعلق محققین کی مختلف آراء موجود ہیں جو کہ ایک دوسرے سے واضح تضاد رکھتی ہیں مزید یہ کہ تمام دریافت شدہ دستاویزات کو شائع بھی نہیں کیا گیا-

Paleographical, orthographical, archaeological, linguistic, interpretative and other problems involved will not easily or quickly be solved. In the meantime, we shall be well advised to be slow to accept as final any view concerning them that may be advanced.” [15]

’’ان دستاویزات سے متعلق علمِ قدیم نگارشات، علمِ رسم الخط، علم ِآثارِ قدیمہ، علم ِلسانیات، علمِ تشریح اور دیگر حائل مسائل کا حل جلد ممکن نہیں ہے- تاہم ان دستاویزات سے متعلق کسی بھی رائے کو حتمی تسلیم کرنے میں توقف اختیار کرنا بہتر ہے‘‘-

’’Wacholder, Abegg اور Moffett‘‘نے اردن کی قائم کردہ کمیٹی کو غیر ضروری اور بے وجہ قرار دیتے ہوئے اسے ختم کیا اور کہا کہ بحیرہ مردار کے دستاویزات کسی ایک ملک کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے فائدہ کے لیے ہیں[16]-اس جواز کے پسِ پشت وجہ یہ تھی کہ اردن کو اس ملکیت سے محروم کیا جائے- ہر وہ چیز جس پہ مسلمان ممالک کی ملکیت ثابت ہو اور یہ ملکیت مسلمانوں کے لیے بے حد فائدہ مند اور اس اہمیت کی حامل ہو کہ اگر اسے دشمن عناصر پر روک دیا جائے تو ان کی بقا ممکن نہ رہے تو مسلم ممالک کو ان کی ملکیت سے یہ کَہ کر محروم رکھا جاتا رہا ہے کہ یہ اثاثے پوری دنیا کے مشترکہ ہیں نہ کہ کسی خاص ملک کے-بعینہ یہ حال مصر کی سوئز کینال کا ہے-

1990ء میں دستاویزات کے چیف ایڈیٹر کو محض اس وجہ سے مستعفی ہونا پڑا کہ اس نے اسرائیلی صحافی کو انٹرویو دیا تھا جسے ’’Anti-Semitic‘‘ قرار دیا گیا-گزشتہ 60 برس میں بحیرہ مردار کے دستاویزات پر تحقیق کے لیے بے شمار اسکالرشپ دیے گئے، ہزاروں کی تعداد میں اس موضوع پر کام اور تحقیق کی گئی-وادیٔ قمران میں بسنے والے لوگوں سے متعلق مختلف مباحث آج بھی جاری ہیں کہ اُن کے عقائد کیا تھے؟ ان کا طرزِ حیات کیسا تھا؟ ان لوگوں کا ان دستاویزات کے ساتھ کیا تعلق تھا؟ ان دستاویزات کو کس نے تحریر کیا؟ یہ بھی کہا جاتا ہے یہ غار وادی قمران کے کتب خانے تھے جہاں سے یہ دستاویزات آج کثیر تعداد میں دریافت ہو رہے ہیں-رومن (Romans) کے ہاتھوں قمران کی تباہی کے وقت اِن دستاویزات کو غاروں میں چھپا دیا گیا-یہ بات سچ ہے کہ اقوام کا حقیقی خزانہ علم ہے-

یہ پراسرار دستاویزات جہاں قدیم اقوام اور مقدس کتب کا پتہ دیتے ہیں وہیں ہمیں اس بات کو بھی سوچنے پر مجبور کر تے ہیں کہ ان دستاویزات سے آقا کریم (ﷺ)کا نام مبارک حذف کرنے کے پس پشت مقاصد کیا ہیں؟مسلمانانِ اسلام کے اپنے تاریخی حقیقی دستاویزات آج کہاں ہیں؟ ان کی تلاش کیسے ممکن ہے؟ حضور پاک (ﷺ)کی خط و کتابت، صحابہ کرام کی دستاویزات آج کہاں ہیں؟ جو چند مقدس دستاویزات دنیائے اسلام کے پاس موجود ہیں اُس سرمائے کو ہمیشہ کے لیے محفوظ رکھنے کا بندوبست کیا ہے؟اگر تین ہزار برس قدیم دستاویزات کی دریافت ممکن ہے تو ایک ہزار برس دیرینہ دستاویزات کا حصول بھی ناممکن نہیں ہے-ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ اس عظیم تلاش کی امنگ کو بیدار رکھتے ہوئے تحقیق و تلاش کے سفر کا آغاز کیا جائے-

٭٭٭


[1](https://www.cia.gov/library/publications/resources/the-world-factbook/geos/print_is.html)

[2](Fields, The Dead Sea Scrolls, 26–28. Shahin was his family surname and Kando was what he was called. However, due to the notoriety he gained, his family has used Kando as their surname ever since.)

[3](Fields, The Dead Sea Scrolls, 28–29.)

[4](A.Y. Samuel, Treasure of Qumran (Philadelphia: Westminster, 1966), 173–76, quoted in Fields, The Dead Sea Scrolls, 98–99, 533n27.)

[5](Magnes, Archaeology of Qumran, 29. Cave 4 was actually two caves closely adjacent to one another. Since these scroll fragments were mixed by the Bedouin all are considered to be from Cave 4 though these caves are designated 4a and 4b.)

[6](Hanan Eshel, The Dead Sea Scrolls and the Hasmonean State (Grand Rapids: Eerdmans, 2008), 1.)

[7](Brooke and Shiffman, The Past, 16.)

[8](The Dead Sea Scrolls, by Misheal Al-Kadhi)

[9](البقرۃ:146)

[10](تفسیر تبیان القرآن، مصنفِ تصنیف علامہ غلام رسول سعیدی، جلد اول صفحہ 580)

[11](البقرۃ:89)

[12](تفسیر تبیان القرآن، مصنفِ تصنیف علامہ غلام رسول سعیدی، جلد اول صفحہ 449)

[13](الصف:6)

[14](D. Winton Thomas: The Dead Sea Scrolls)

[15](D. Winton Thomas: The Dead Sea Scrolls)

[16](John Noble Wilford, “William A. Moffett, 62, Is Dead: Opened Door to Dead Sea Scrolls,” New York Times, 22 February 1995.)

بحیرہ مردار

(Dead Sea) سر زمینِ فلسطین اور اردن کے درمیان واقع جھیل نما سمندر ہے-یہ سمندر 67 کلومیٹر طویل، 15 کلومیٹر عریض اور  306 میٹر گہرا ہے-یہ زمین پر سطح سمندر سے سب سے نچلا مقام ہے- جمہوریہ جبوتی میں پائی جانے والی جھیل اسال کے بعد یہ دنیا کا نمکین ترین ذخیرہ آب ہے[1]-اس کا پانی سمندر سے 800 فیصد زیادہ نمکین ہے-بہت زیادہ نمکین اور منرلز (minerals)پائے جانے کے باعث اس میں آبی حیوانات اور پودے نہیں پائے جاتے- اسی لیے اس کا نام بحیرہ مردار پڑ گیا ہے- زیادہ نمکیات کے سبب اس میں کوئی انسان ڈوبتابھی نہیں کیونکہ اس پانی کی کثافت انسانی جسم سے زیادہ ہے-

بحیرہ مردار کے قریب بے شمار پہاڑی سلسلے موجود ہیں-140 سال قبل از مسیح میں کچھ قبائل کا مسکن ان پہاڑوں کےقریب تھا-ان پہاڑوں میں بہت سی غاریں موجود ہیں-تاریخی حوالہ جات کے مطابق یہ قومیں بعد میں زلزلہ کے باعث تباہ ہوئیں-شاید 1947ء میں بارشیں کافی مقدار میں ہوئی تھیں کہ بیت اللحم (فلسطین کی ایک بستی)سے تین چرواہے اپنی بھیڑ بکریاں چرانے بحیرہ مردار کے کنارے آئے-ایک روایت یہ بھی ہے کہ ایک چرواہا اپنی بھیڑ کی تلاش میں بحیرہ مردار کے قرب میں واقع پہاڑوں میں آ نکلا- پہاڑ میں موجود غار نے اس کی توجہ حاصل کی تو اس نے ایک پتھر پھینکا جو غار میں موجود مٹی کے ظروف سے ٹکرایا اور کچھ ٹوٹنے کی آواز پیدا ہوئی-اگلے روز دو خانہ بدوش اُسی غار کا بغور جائزہ لینے کی نیت سے آئے اور جب وہ غار میں پہنچے تو وہاں مٹی کے ظروف دیکھے جن میں سے کچھ پر ڈھکن تھے، کچھ ظروف ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے تھے، کچھ ظروف خالی تھے جبکہ ایک صراحی میں چار دستاویزات کے بنڈل لینن میں بندھے تھے-

 جن میں سے ایک، عیسایہ (Isaiah) دوسری، ہبباکک (The Habakkuk) اور تیسری دستاویز نظم و ضبط (The Manual of Discipline) تھی- جب کہ چوتھی دستاویز بے احتیاطی کے باعث پھٹنے سے ضائع ہو گئی-عجیب بات یہ ہے کہ چمڑے پر مشتمل قدیم دستاویزات کا نہ تو نمی پر مشتمل آب و ہوا میں باقی رہنا ممکن تھا نہ ہی خشک ترین فضا میں-بحرحال ان دستاویزات کا ہزاروں برس تک محفوظ رہنے کا سبب، غار میں معتدل آب و ہوا، چمڑے کی خاص حالت اور مخصوص سیاہی کا استعمال بتایا جاتا ہے لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود ہزاروں برس گزرنے کے باعث دستاویزات میں توڑ پھوڑ کا عمل آہستہ آہستہ بدستور جاری رہا-

پہلی بار یہ دستاویزات 1947ءمیں بحیرہ مردار کے قرب میں واقع غار سے دریافت ہوئے،یہ دستاویزات جن غاروں سے دریافت ہوئے وہ چونکہ بحیرہ مردار کے قرب میں واقع ہیں اسی نسبت سے ان کا نام ’’بحیرہ مردار کے دستاویزات ‘‘یعنی (Dead Sea Scrolls) پڑ گیا-

خانہ بدوش ان دستاویزات کو شام کے تاجر خلیل سکندر شاہین المعروف کاندو[2] کے پاس لائے جو بعد ازاں ان دستاویزات کا نمایاں اور مستند تاجر کے طور پر ابھر کے سامنے آیا-’’Athanasius Yeshue Samuel ‘‘نامی شخص نے جب ان دستاویزات کو دیکھا تو اسے معلوم ہوا کہ یہ دستاویزات عبرانی زبان میں درج ہیں-وہ انہیں کاندو سے خریدنا چاہتا تھا-اسی دوران اُن خانہ بدوش چرواہوں نے غار سے چار مزید دستاویزات دریافت کر لیں جن میں (The Second Isaiah Scroll) ، (The War Scroll) ، (The Thanksgiving Scroll)  اور (The Genesis Apocryphon) شامل ہیں- [3]

یکم جون 1954ء میں ’’Wall Street Journal‘‘ میں ایک اشتہار چھپا جو کہ کچھ یوں تھا:

’’بحیرہ مردار کے چار دستاویزات (مقدس مسودات) فروخت کے لیے موجود ہیں-یہ مذہبی اور تعلیمی اداروں کے لیے نادر تحفہ ہے‘‘-

یہ دستاویزات وادیٔ قمران میں بسنے والے لوگوں سے منسوب کیے جاتے ہیں-اس کی ایک وجہ نہ صرف یہ کہ اس قبیلہ کا اِن غاروں کے قرب میں رہائش پذیر ہونا تھا بلکہ ان میں آثارِ قدیمہ کے ظروف سازی کے نمونوں میں مماثلت تھی جو قمران قبیلے میں اور غاروں میں پائی گئی-غاروں میں خزانہ (قیمتی سکے)اور دستاویزات کا ایک ساتھ چھپائے جانا اس بات کی دلیل ہے کہ وادیٔ قمر ان کے لوگوں کی نگاہ میں کتابیں اتنی ہی اہم تھیں جتنا کہ خزانہ-وہ کتابوں کو خزانے کے مترادف جانتے اور ان کے محفوظ رہنے کا اہتمام کرتے-یہ دستاویزات  250 سال قبل از مسیح سے 70 عیسوی کے درمیان لکھے گئے- ان کی تاریخ کا اندازہ ’’علم قدیم نگارشات‘‘ (Paleography) کے ذریعے لگایا گیا- یہ ایسا علم ہے جس میں قدیم دستاویزات کو اُن کی لکھائی کے طرز سے تاریخ معلوم کی جاتی ہے کہ اس سے ملتی جلتی لکھائی کس عہد میں رائج تھی-

ایک خانہ بدوش نے کچھ دستاویزات ایک آرمینین نوادرات کے تاجر کو فروخت کیں- وہ تاجر، عبرانی یونیورسٹی کے ماہر آثار قدیمہ پروفیسر سوکینک (Professor E.L. Sukenik) کا دوست تھا- وہ چاہتا تھا کہ اس کا دوست سوکینک ان نودارت کی تصدیق کرنے کے بعد اپنی یونیورسٹی کے عجائب خانہ کے لیے خرید لے-سوکینک ان نودرات کا معائنہ کر ہی رہا تھا کہ اس کے بیٹے یا گئیل یڈن (Yigael Yadin) نے آ کر خبر دی کہ اقوامِ متحدہ (United Nations)نے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ صادر کیا ہے- ایک ریاست فلسطین کی اور دوسری یہودیوں کی ہوگی-یہ دستاویزات یہودیوں کے لیے کچھ اس لحاظ سے بھی اہم ہیں کہ اِن کی دریافت کے ساتھ ہی یہودیوں کو اسرائیلی ریاست حاصل ہوئی-

دوسری طرف غاروں کی تلاش اور دستاویزات کے ڈھونڈنے کا عمل جاری رہا-خانہ بدوشوں نے مزید دستاویزات کے چھوٹے ٹکڑے ڈھونڈے- کاندو نے غارِ اول سے برآمد پارچاجات فلسطینی آثاریاتی عجائب گھر کے سیکرٹری کو بیچے- بعد ازاں حکومت نے کھدائی میں دلچسپی لی اور سینکڑوں دستاویزات کے ٹکڑے، تیس کے قریب ظروف اور دستاویزات کو باندھنے کے کپڑے دریافت ہوئے-غیر قانونی کھدائی اور دستاویزات کو چور بازاروں میں فروخت ہونے سے روکنے کے لیے بھر پور اقدامات کیے گئے- کچھ دستاویزات کو بیچنے کے لیے امریکہ بھیجا گیا جو کہ موجودہ اڑھائی (2.5)لاکھ ڈالر میں فروخت ہوئے-

نئی وجود میں آنی والی غیر قانونی ریاست اسرائیل نے ان دستاویزات کی واپسی کا مطالبہ شروع کیا گو کہ یہ دستاویزات اُس وقت دریافت ہوئے تھے جب کہ اسرائیلی ریاست ابھی وجود پذیر نہ تھی[4]-بھاری قیمت پر فروخت ہونے والی دستاویزات کی تلاش مزید تیز ہوگئی- مقتدران جہاں ان دستاویزات کو کم قیمت پر خریدنے کے خواہاں تھے وہیں وہ ان نوادرات کو کھونا بھی نہیں چاہتے تھے- جبکہ کاندو جیسے لوگوں کو درمیان سے ہٹا کر مکمل قیمت حاصل کرنا چاہتے تھے- جبکہ کاندو جیسے لوگ خود کو اس کاروبار کے حاکم کے طور پر برقرار رکھنے کے خواہشمند تھے- خانہ بدوشوں نے زیادہ قیمت کے حصول کے لیے دستاویزات کو پھاڑ کر ہر ایک ٹکڑے کی الگ قیمت وصول کرنا شروع کر دی- جبکہ انتظامیہ نے اس نقصان اور توڑ پھوڑ کے عمل کو روکنے کے لیے ہر مربع سینٹی میٹر کے حساب سے دستاویزات خریدنے کی تدبیر اختیار کی تاکہ خانہ بدوشوں کو دستاویزات پھاڑنے سے روکا جائے- کیونکہ اب ہر ٹکڑے کی الگ قیمت کی بجائے ہر مربع سینٹی میٹر ٹکڑے کے حساب سے قیمت ملتی اور اب دستاویزات کو پھاڑنے سے کوئی خاطر خواہ نفع نہ ہوتا-

 1951ء میں غار دوم دریافت ہوا- جوکہ قمران کے غار اول سے 18 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا- قمران سے چار کلومیٹر کے فاصلے پر غار سوم دریافت ہوا جس میں تانبے پر کندہ تحاریر دستاویزات کی صورت میں سامنے آئیں-1952ء میں غار چہارم کی دریافت ہوئی، جس سے ملنے والی دستاویزات کی خریداری کے لیے اردن کی حکومت نے جامعہ ہایئڈل برگ (University of Hiedelberg)، جامعہ مانچسٹر (University of Manchester)اور ویٹیکن لائبریری (Vatican Library) جیسے تعلیمی اداروں سے فنڈ اکٹھا کیا- اردن نے غار چہارم کے دستاویزات خریدنے کے لیے جو رقم ادا کی وہ آج کی موجودہ مالیت 42000 ڈالر کے برابر ہے[5]- یہ غار 600 دستاویزات کے 16000 چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پر مشتمل تھا-[6] ان بےشمار چھوٹے ٹکڑوں کو صیح طور پر جوڑنا یقیناً ایک انتھک اور کٹھن مرحلہ تھا- بعد ازاں غار پنجم اور غار ششم کی دریافت سامنے آئی- 1955 میں قمران کے قریب غار ہفتم، غار ہشتم، غار نہم اور غار دہم بھی دریافت ہوئے-

1956ء میں گیارہواں غار دریافت ہوا- ہر غار سے دستاویزات دریافت نہ ہوتیں بلکہ تقریبا 200 غاروں میں ڈھونڈنے کے بعد گیاراں ایسے غار دریافت ہوئے جن میں دستاویزات موجود تھیں-تمام دستاویزات عبرانی زبان میں نہیں ہیں-اس تحقیق پر اخراجات کے ساتھ ساتھ کافی محنت اور وقت صرف کیا گیا- 1953ء میں اردن نے عالمی سکالرز کی جماعت تشکیل دی جو کہ ان دستاویزات کی درست اشاعت پر معمور کی گئی -1961ء میں اردن نے بحیرہ مردار کے دستاویزات کو قومی اثاثہ قرار دیا- 1967ء کی عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے اردن کے کچھ حصے ’’Jordanian west bank ‘‘، بیت اللحم اور مشرقی پروشلم پر قبضہ کر لیا جس کے باعث روک فیلر عجائب گھر بھی اسرائیلی قبضے میں چلا گیا- اس عجائب گھر میں غار دوم تا غار گیاراں (Cave 2 to Cave 11) کے دستاویزات محفوظ تھے[7]- جیسے ہی مشرقی یروشلم اسرائیل کے قبضہ میں آیا، یا گئیل یڈن (Yigael Yadin) نے کاندو سے ٹیمپل سکرول حاصل کی اور کاندو کو موجودہ 105000 ڈالر دیے تاکہ وہ مزید دستاویزات اکٹھے کر کے انہیں دے سکے-اردن کی طرف سے قائم کردہ بین الاقوامی دستاویزات کمیٹی (International Scroll Committee) کی افادیت کو یہ کَہ کر کم کیا جانا شروع کر دیا گیا کہ دستاویزات کی اشاعت بہت سست ہے (گو کہ اسے احتیاط کا پہلو بھی کہا جا سکتا تھا)-

کاربن 14 [Carbon-14 Method (discovered in 1947 by W.F. Lib)] کے ٹیسٹ کے دوران بہت سا مواد ضائع ہوتا ہے اسی بات کے پیشِ نظر کسی بھی دستاویز پر یہ ٹیسٹ نہیں کیا گیا بلکہ ان دستاویزات کے ساتھ دریافت ہونے والے چمڑے اور کپڑوں کی ڈوریوں پر ٹیسٹ کیا گیا-بہت سی دستاویزات عبرانی زبان میں تورات مقدس کی نقلیں ہیں- تورات کے علاوہ کئی دستاویزات یہودی انشاء پردازی پر مشتمل ہیں- جو کہ اُسی دور میں ہی لکھا گیا-ایک تہائی دستاویزات مختلف یہودی فرقوں سے متعلق ہیں-ان دستاویزات میں خیر کی قوتوں اور شر کی قوتوں کے درمیان جاری جنگ کا تذکرہ ہے- وادیِ قمران کے لوگ خود کو (Son of Light) ’’روشنی کا بیٹا‘‘ کہتے اور خدا تعالی کے احکامات پر عمل پیرا رہنے کو ضروری سمجھتے تھے-

یہ دستاویزات بنیادی طور پر تین طرح کے موضوعات سے متعلق ہیں-

1.       عبرانی زبان میں درج مقدس کتاب تورات سے متعلق

2.       وہ چیزیں جو تورات سے حذف کر دی گئیں

3.       تقویٰ اور عبادات سے متعلق

ایک روایت کے مطابق ان مقدس دستاویزات میں ہمارے آقا و مولا سیدنا احمد مجتبی (ﷺ)کا نام مبارک اور قرآن مجید کا ذکر بھی شامل ہے[8]-لیکن بعد ازاں دانستہ طور پر اس نام مبارک (ﷺ) اور قرآن کے ذکر کو حذف کر دیا گیا-تعلیماتِ اسلامی کے مطابق تورات، زبور اور انجیل مبارک میں حضور (ﷺ) کا نام مبارک درج تھا اور آخری نبی (ﷺ) کی آمد کا پیغام بھی تھا، ہر نبی اپنی امت کو یہ بشارت سنا کر جاتا کہ وہ نبی المحترم (ﷺ) تشریف لائیں گے-لیکن حق و باطل کی جنگ میں کئی لوگوں نے ذاتی مفادات اور مادیت پسندی کے باعث حق سے منہ موڑ کرباطل کا ساتھ دیا-انہی لوگوں سے متعلق قرآن کریم میں ارشاد ہے:

’’اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآئَہُمْ وَاِنَّ فَرِیْقًا مِّنْہُمْ لَیَکْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ‘‘[9]

’’اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب عطا فرمائی ہے وہ اس رسول (آخر الزماں حضرت محمد(ﷺ)اور ان کی شان و عظمت) کو اسی طرح پہچانتے ہیں جیسا کہ بلاشبہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اور یقینا انہی میں سے ایک طبقہ حق کو جان بوجھ کر چھپا رہا ہے‘‘-

حضرت عبداللہ بن سلام (﷜) نے حضرت عمر فاروق (﷜) سے کہا کہ جب میں نے آنحضور(ﷺ)کو دیکھا تو آپ (ﷺ)کو اسی طرح پہچان لیا جس طرح میں اپنے بیٹے کو پہچانتا ہوں بلکہ مجھے سیدنا محمد الرسول اللہ(ﷺ) کی معرفت اپنے بیٹے سے زیادہ تھی کیونکہ ہماری کتاب میں اللہ تعالی نے ان کی صفات بیان کی ہیں-تو میں نے دیکھتے ہی پہچان لیا کہ آپ (ﷺ)برحق نبی ہیں [10]-

’’وَلَمَّا جَآءَ ھُمْ کِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللہِ  مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَھُمْ وَکَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَلَمَّا جَآءَ ھُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہٖ فَلَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ‘‘[11]

’’اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے وہ کتاب (قرآن) آئی جو اس کتاب (تورات) کی (اصلاً) تصدیق کرنے والی ہے جو ان کے پاس موجود تھی، حالاں کہ اس سے پہلے وہ خود (نبی آخر الزماں حضرت محمد (ﷺ) اور ان پر اترنے والی کتاب ’’قرآن‘‘ کے وسیلے سے) کافروں پر فتح یابی (کی دعا) مانگتے تھے،سو جب ان کے پاس وہی نبی (حضرت محمد(ﷺ)اپنے اوپر نازل ہونے والی کتاب ’’قرآن‘‘ کے ساتھ) تشریف لے آیا جسے وہ (پہلے ہی سے) پہچانتے تھے تو اسی کے منکر ہو گئے،پس (ایسے دانستہ) انکار کرنے والوں پر اللہ کی لعنت ہے‘‘-

حضور نبی کریم (ﷺ)کے زمانہ میں یہودی یہ جانتے تھے کہ تورات میں حضرت محمد الرسول اللہ (ﷺ)کے مبعوث ہونے کی بشارت موجود ہے-حضرت ابن عباس (﷠) بیان فرماتے ہیں کہ آقا کریم (ﷺ) کی بعثت سے قبل یہودی، اوس و خزرج کے خلاف جنگ میں سید الانبیاء محمد مصطفےٰ (ﷺ) کے وسیلہ سے فتح کی دعا طلب کرتے تھے-لیکن آپ(ﷺ) کی بعثت کے بعد انہوں نے انکار کردیا ان کی خواہش تھی کہ بنی اسرائیل ہی میں سے وہ نبی مبعوث ہو- [12]

یہی بشارت حضرت عیسی (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو سنائی جس کوقرآن پاک میں بھی بیان فرمایا گیا ہے:

’’وَاِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یٰـبَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰۃِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْ بَعْدِیْ اسْمُہٗٓ اَحْمَدُ فَلَمَّا جَآئَ ہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا ہٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ‘‘[13]

’’اور (وہ وقت بھی یاد کیجیے) جب عیسیٰ بن مریم (﷥) نے کہا: اے بنی اسرائیل! بے شک میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا (رسول) ہوں، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اُس رسولِ (معظّم (ﷺ)کی آمد آمد) کی بشارت سنانے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت) احمد (ﷺ)ہے، پھر جب وہ (رسولِ آخر الزماں(ﷺ) واضح نشانیاں لے کر اُن کے پاس تشریف لے آئے تو وہ کہنے لگے: یہ تو کھلا جادو ہے‘‘-

یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ ایک روایت یہ ب?

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر