یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ فلسطینی مسلمان عالم اسلام کے لیڈروں کی بے غیرتی کی قیمت اپنے خون سے ادا کر رہے ہیں- پانچ (5)سال کے بچے سے ستر (70)سال کے بزرگ تک ہاتھوں پیروں والے مکمل انسانوں سے ہاتھوں پاؤں سے معذور بے بس اور بے کس انسانوں تک کوئی ایسا فلسطینی نہیں جو اپنے مسلمان ہونے کا خراج اپنے خون سے ادا نہ کر رہا ہو-عرب کے بادشاہ تو ان سے کبھی کا منہ موڑ چکے اور ان سے توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے-اعلیٰ حضرت ؒ کی نعت کا وہ مصرعہ بار بار زبان پر آتا ہےکہ:
نجدیو کلمہ پڑھانے کا بھی احسان گیا |
ماضی میں اتنا تو ہوتا تھا کہ مردہ گھوڑا ہی سہی کبھی کبھی او- آئی- سی (OIC )فلسطینیوں کی اسرائیلی درندوں کے ہاتھوں نسل کشی پر احتجاج بھی کر دیا کرتی تھی-اب تو وہ بھی مسئلہ نہیں رہا- اسرائیلی وحشیوں کی طرف سے ساری انسانیت کو چڑھانے کے لیے ایسے ایسے ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں کہ خدا کی پناہ---لیکن کسی کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی- غزہ کو اسرائیل کی عملاً مستقل بنا دیا ہے- جب اس کا جی چاہے یہاں انسانی جانوں کو شکار کرے اور اس کے خلاف معمولی احتجاج کو امریکہ سلامتی کونسل میں ویٹو کر دیتا ہے- تازہ واقعات نے تو پاپائے روم کو بھی دِہلا کر رکھ دیا انہوں نے اس کی مذمت کر دی لیکن افسوس سوائے اردگان کے کسی مسلم حکمران کو اس بھی توفیق نہیں ہوئی- سوال یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی سفارت خانے کو مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان ایسے موقعے پر ہی کیوں کیا کہ جب فلسطینی تنازع کو 70سال اور ارض فلسطین پر برطانوی قبضے کو 100سال مکمل ہوئے؟ شاید اس کا جواب یہ ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس میں امریکی سفارتخانے کی نصف ارضی مشرقی بیت المقدس پر مشتمل ہے- یعنی یہ زمین کے اس حصے پر قائم ہوا ہے جو مستقبل میں قیام امن کے بعد عالمی قوانین کے تحت فلسطینی ریاست کا دارالحکومتی علاقہ ہو گا- فلسطینی صدر محمود عباس نے امریکی صدر کے اس فیصلے کو فلسطینیوں اور عرب دنیا کے چہرے پر تھپڑ سے تعبیر کیا ہے-اگرچہ نئے تحریر شدہ عالمی ضابطوں میں تشدد کی کوئی بھی صورت جائز نہیں ہے اور مغربی دنیا نے تحریک آزادی اور دہشت گردی کا فرق محکوم مسلم خطوں میں تو عملاً ختم کر دیا ہے- پھر بھی اس نام نہاد تاریخی دن کے موقعے پر غزہ کی سرحد پر فلسطینی مظاہرین کے قتل عام کی ذمہ داری اسرائیل کی قابض حکومت کے ساتھ ہر ہر لحاظ سے امریکی رپبلکن صدر اور انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے-
جس وقت امریکہ اور اسرائیل بارڈر کے ایک طرف خوشیاں منا رہے تھے، وہیں بارڈر کی دوسری طرف ظلم و زیادتی کا ایسا بازار گرم تھا کہ محض چند گھنٹوں میں 70سے زائد فلسطینیوں کو سانس لینے کے حق سے محروم کر دیا گیا جبکہ زخمیوں کی تعداد 2700 سے زائد زندگی اور موت کے درمیان کشمکش کی جنگ لڑ رہے ہیں-یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب اسرائیل نے بنیادی حق کے حصول کے لیے کیے جانے والے احتجاج کو روکنے کے لیے فلسطینی شہریوں کا قتل عام کیا ہو-سال2000ء سے لے کر اب تک خود اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیلی افواج کی کارروائیوں کے دوران9600فلسطینی شہری جاں بحق ہو چکے ہیں- ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی امریکہ نے اسرائیلی افواج کی جانب سے وحشیانہ طاقت کے استعمال کی آزادانہ تحقیقات کروائے جانے کے عالمی مطالبے کو ویٹو کے ذریعے روک دیا- نئی تبدیلی نہ صرف سفارتخانے کی منتقلی ہے بلکہ یہ بھی کہ اب امریکی انتظامیہ اسرائیلی افواج کی جانب سے فلسطینی قتل عام کا ذمہ دار بھی خود فلسطینیوں کو ہی قرار دیتی ہے-امریکی صدر کے داماد کا بیان شرمناک ہے، جنہوں نے سفارتخانے کی منتقلی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فلسطینی احتجاج کو ’امن دشمن‘ اور اسرائیلی افواج کے وحشیانہ تشدد کو ’امن کی کوشش‘ قرار دیا- امریکہ کی جانب سے فلسطین اسرائیل تنازعے کے پس منظر میں ٹرمپ کا حالیہ فیصلہ نہایت پریشان کن اس لیے بھی ہے کہ اب فلسطینی اپنے حق کے لیے صرف اسرائیل سے ہی نہیں لڑیں گے بلکہ امریکہ کی بھی مخالفت مول لیں گے- صدر محمود عباس کی پچھلے 20سال سے جاری امن کوششیں محض اس لیے کامیاب نہیں ہو سکیں کہ اسرائیل نے ہمیشہ کسی بھی ایسے مذاکراتی عمل میں شرکت سے انکار کیا ہے جس میں 2ریاستی حل کی بات چیت کا امکان ہو-امریکہ نے ہر سطح پر اسرائیل کی ہی حمایت کی ہے اور فلسطینیوں کو مذاکرات میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے- امریکہ نے آج تک فلسطینیوں سمیت پوری دنیا کو اس دھوکے میں رکھا ہے کہ وہ اس تنازعے کے حل کے لیے کسی قسم کا مصالحتی کردار ادا کرنے کا خواہش مند ہے- صدر عباس نے یہ خوب کہا ہے کہ موجودہ امریکی انتظامیہ کے اس فیصلے سے امریکہ کے چہرے پر سے نقاب اتر گیا ہے اور اب وہ امریکہ کی جانب سے آئندہ کسی بھی مصالحتی کردار کے دھوکے میں نہیں آئیں گے-
اگرچہ ٹرمپ کی جانب سے امریکی سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کیے جانے کے عمل سے فلسطینیوں کے اس دیرینہ موقف کو شدید زک پہنچا ہے کہ بیت المقدس کا مسئلہ ’اسرائیل- فلسطین‘ تنازع کا بنیادی جزو ہے اور یہ مشرقی بیت المقدس آئندہ فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہو گا- تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اب فلسطینیوں کے اپنے دوست دشمن میں تفریق کی آسانی ہو گئی ہے- ٹرمپ کے فیصلے کے بڑے ناقدین میں مغربی یورپی ممالک بالخصوص برطانیہ، فرانس اور جرمنی ہیں- اس کے ساتھ عالمی ادارے اور مسلم اُمہ بھی ٹرمپ کے فیصلے کی مخالفت کر رہے ہیں-لیکن مسلم اُمہ کی مخالفت سے موجودہ امریکی صدر اس لیے خوفزدہ نہیں کہ انہیں ان ممالک کے ساتھ محض کاروباری تعلقات کی پروا ہے، لیکن اس حوالے سے بھی زیادہ ضرورت مسلم ممالک کو ہی ہے، جبکہ عالمی ادارے سے بھی امریکی انتظامیہ اس لیے خائف نہیں کہ وہ کوئی تادیبی کارروائی کے مجاز نہیں ہیں- تاہم مغربی یورپی ممالک امریکی اتحادی ہیں اور چین اور روس کی جانب سے عالمی سطح پر امریکی اجارہ داری کو چیلنج کیے جانے کے عمل پر امریکہ کے ساتھ کھڑے ہیں اور امریکہ کو یہ ساتھ از حد عزیز ہے-
صدر محمود عباس کے پاس مغربی یورپی ممالک کی جانب سے کسی مصالحتی کردار کی کوشش کے علاوہ اور کوئی راستہ باقی نہیں بچتا- مسجد اقصی ٹرسٹ کے وارث ہونے کی حیثیت سے اردن کے شاہ عبد اللہ وہ واحد مسلم رہنما ہیں جن سے فلسطینی انتظامیہ اس معاملے پر حقیقی حساسیت کی توقع کر سکتی ہے- جس ممکنہ رد عمل سے امریکی و مغربی دنیا خائف ہو سکتی ہے وہ یہ کہ کہیں فلسطینی انتظامیہ ریاست اسرائیل کے وجود کو ہی تسلیم کرنے سے انکار کر دے اور فلسطینی علاقوں میں انتظامی عملداری کے حالیہ بندوبست سے مستعفی ہو جائے- نتیجے کے طور پر اسرائیل کو اپنی موجودہ آبادی کے لگ بھگ تعداد میں ایسی آبادی کا انتظامی اختیار بھی سنبھالنا پڑ جائے گا جو درحقیقت اسرائیلی ریاست سے حالت جنگ میں ہے- اسرائیلی افواج اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ گوریلا جنگوں میں فلسطینی تنظیمیں اسرائیل کو پہلے بھی کافی نقصان پہنچا چکی ہیں- ایسی صورت میں باہمی تشدد کا ایسا دروازہ کھل جائے گا جسے روکنا شاید عالمی دنیا کے لیے بہت مشکل ہو جائے- فلسطینی انتظامیہ اس حساس کارڈ کے ساتھ عالمی عدالت جرائم میں جا سکتی ہے، جہاں وہ اس سے پہلے محض اس لیے نہیں گئے کہ امریکہ کی جانب سے انہیں مصالحت کے جھوٹے وعدے کیے جاتے رہے ہیں- فلسطینی انتظامیہ اس ادارے کی 2015ء سے ممبر ہے اور یہ ادارہ انفرادی حیثیت میں ملوث ایسے افراد کے خلاف کارروائی کا مجاز ہے جو نسل کشی یا جنگی جرائم میں ملوث ہوں- اگرچہ امریکہ، روس اور چین اس ادارے کے رکن نہیں ہیں، تاہم یورپی یونین سمیت 123ممالک اس ادارے کی ممبر ہیں، لہٰذا یہاں فلسطینی انتظامیہ کو امریکی اثر و رسوخ کی تکلیف برداشت نہیں کرنی ہو گی- صائب اراکات جو کہ سینئر فلسطینی رہنما اور فلسطینی انتظامیہ کی جانب سے چیف مذاکرات کار ہیں، کا کہنا ہے کہ میں فلسطینیوں کو یہ نصیحت کروں گا کہ وہ اس تکلیف کی گھڑی میں تشدد کا راستہ اختیار نہ کریں بلکہ مہذب قانونی طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے اپنے جائز حقوق کے لیے کوشش کریں کیونکہ عالمی قوانین کے احترام کے نتیجے میں ہی مستقبل کی آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام ممکن ہے- فرمان الٰہی ہے کہ امت مسلمہ کی مثال جسد واحد کی ہے، اگر ایک حصے کو تکلیف ہو تو پورا جسم دکھتا ہے- نہ معلوم کیا وجہ ہے کہ جدید تاریخ کے سب سے ظالمانہ قبضے پر امت مسلمہ کو وہ تکلیف کیوں لاحق نہیں جسے بیان کیا گیا ہے-تمام مہذب دنیا ماسوائے امریکہ اس ظلم پر احتجاج کناں ہے- جنوبی افریقہ اور ترکی نے اپنے سفراء اسرائیل سے واپس بلا لیے ہیں- تاہم مسلم امہ کے لیے ترکی اس لیے ایک مثال ہے کہ اس نے اس ظلم کے بنیادی گھر امریکہ تک سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیاہے- اگر 56مسلم ممالک امریکہ سے اپنے سفارتی تعلقات چاہے مختصر مدت اور علامتی طور پر ہی سہی ختم کر لیں تو بلاشبہ اسرائیلی ریاست کا غاصبانہ قبضہ ختم ہو سکتا ہے- ہمیں اپنے اقدامات کو اور آواز کو معمولی اور غیر اہم نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ ہر ممکنہ حد تک مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھائی چاہے- غزہ کے مظلوم ہماری معاونت کے منتظر ہیں-
آئیے مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور دنیا کے کسی بھی کونے میں مسلمانوں پر ٹوٹنے والے مظالم کے خلاف بنیان مرصوص بن جائیں-
٭٭٭
یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ فلسطینی مسلمان عالم اسلام کے لیڈروں کی بے غیرتی کی قیمت اپنے خون سے ادا کر رہے ہیں- پانچ (5)سال کے بچے سے ستر (70)سال کے بزرگ تک ہاتھوں پیروں والے مکمل انسانوں سے ہاتھوں پاؤں سے معذور بے بس اور بے کس انسانوں تک کوئی ایسا فلسطینی نہیں جو اپنے مسلمان ہونے کا خراج اپنے خون سے ادا نہ کر رہا ہو-عرب کے بادشاہ تو ان سے کبھی کا منہ موڑ چکے اور ان سے توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے-اعلیٰ حضرت () کی نعت کا وہ مصرعہ بار بار زبان پر آتا ہےکہ:
نجدیو کلمہ پڑھانے کا بھی احسان گیا |
ماضی میں اتنا تو ہوتا تھا کہ مردہ گھوڑا ہی سہی کبھی کبھی او- آئی- سی (OIC)فلسطینیوں کی اسرائیلی درندوں کے ہاتھوں نسل کشی پر احتجاج بھی کر دیا کرتی تھی-اب تو وہ بھی مسئلہ نہیں رہا- اسرائیلی وحشیوں کی طرف سے ساری انسانیت کو چڑھانے کے لیے ایسے ایسے ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں کہ خدا کی پناہ---لیکن کسی کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی- غزہ کو اسرائیل کی عملاً مستقل بنا دیا ہے- جب اس کا جی چاہے یہاں انسانی جانوں کو شکار کرے اور اس کے خلاف معمولی احتجاج کو امریکہ سلامتی کونسل میں ویٹو کر دیتا ہے- تازہ واقعات نے تو پاپائے روم کو بھی دِہلا کر رکھ دیا انہوں نے اس کی مذمت کر دی لیکن افسوس سوائے اردگان کے کسی مسلم حکمران کو اس بھی توفیق نہیں ہوئی- سوال یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی سفارت خانے کو مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان ایسے موقعے پر ہی کیوں کیا کہ جب فلسطینی تنازع کو 70سال اور ارض فلسطین پر برطانوی قبضے کو 100سال مکمل ہوئے؟ شاید اس کا جواب یہ ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس میں امریکی سفارتخانے کی نصف ارضی مشرقی بیت المقدس پر مشتمل ہے- یعنی یہ زمین کے اس حصے پر قائم ہوا ہے جو مستقبل میں قیام امن کے بعد عالمی قوانین کے تحت فلسطینی ریاست کا دارالحکومتی علاقہ ہو گا- فلسطینی صدر محمود عباس نے امریکی صدر کے اس فیصلے کو فلسطینیوں اور عرب دنیا کے چہرے پر تھپڑ سے تعبیر کیا ہے-اگرچہ نئے تحریر شدہ عالمی ضابطوں میں تشدد کی کوئی بھی صورت جائز نہیں ہے اور مغربی دنیا نے تحریک آزادی اور دہشت گردی کا فرق محکوم مسلم خطوں میں تو عملاً ختم کر دیا ہے- پھر بھی اس نام نہاد تاریخی دن کے موقعے پر غزہ کی سرحد پر فلسطینی مظاہرین کے قتل عام کی ذمہ داری اسرائیل کی قابض حکومت کے ساتھ ہر ہر لحاظ سے امریکی رپبلکن صدر اور انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے-
جس وقت امریکہ اور اسرائیل بارڈر کے ایک طرف خوشیاں منا رہے تھے، وہیں بارڈر کی دوسری طرف ظلم و زیادتی کا ایسا بازار گرم تھا کہ محض چند گھنٹوں میں 70سے زائد فلسطینیوں کو سانس لینے کے حق سے محروم کر دیا گیا جبکہ زخمیوں کی تعداد 2700 سے زائد زندگی اور موت کے درمیان کشمکش کی جنگ لڑ رہے ہیں-یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب اسرائیل نے بنیادی حق کے حصول کے لیے کیے جانے والے احتجاج کو روکنے کے لیے فلسطینی شہریوں کا قتل عام کیا ہو-سال2000ء سے لے کر اب تک خود اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیلی افواج کی کارروائیوں کے دوران9600فلسطینی شہری جاں بحق ہو چکے ہیں- ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی امریکہ نے اسرائیلی افواج کی جانب سے وحشیانہ طاقت کے استعمال کی آزادانہ تحقیقات کروائے جانے کے عالمی مطالبے کو ویٹو کے ذریعے روک دیا- نئی تبدیلی نہ صرف سفارتخانے کی منتقلی ہے بلکہ یہ بھی کہ اب امریکی انتظامیہ اسرائیلی افواج کی جانب سے فلسطینی قتل عام کا ذمہ دار بھی خود فلسطینیوں کو ہی قرار دیتی ہے-امریکی صدر کے داماد کا بیان شرمناک ہے، جنہوں نے سفارتخانے کی منتقلی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فلسطینی احتجاج کو ’امن دشمن‘ اور اسرائیلی افواج کے وحشیانہ تشدد کو ’امن کی کوشش‘ قرار دیا- امریکہ کی جانب سے فلسطین اسرائیل تنازعے کے پس منظر میں ٹرمپ کا حالیہ فیصلہ نہایت پریشان کن اس لیے بھی ہے کہ اب فلسطینی اپنے حق کے لیے صرف اسرائیل سے ہی نہیں لڑیں گے بلکہ امریکہ کی بھی مخالفت مول لیں گے- صدر محمود عباس کی پچھلے 20سال سے جاری امن کوششیں محض اس لیے کامیاب نہیں ہو سکیں کہ اسرائیل نے ہمیشہ کسی بھی ایسے مذاکراتی عمل میں شرکت سے انکار کیا ہے جس میں 2ریاستی حل کی بات چیت کا امکان ہو-امریکہ نے ہر سطح پر اسرائیل کی ہی حمایت کی ہے اور فلسطینیوں کو مذاکرات میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے- امریکہ نے آج تک فلسطینیوں سمیت پوری دنیا کو اس دھوکے میں رکھا ہے کہ وہ اس تنازعے کے حل کے لیے کسی قسم کا مصالحتی کردار ادا کرنے کا خواہش مند ہے- صدر عباس نے یہ خوب کہا ہے کہ موجودہ امریکی انتظامیہ کے اس فیصلے سے امریکہ کے چہرے پر سے نقاب اتر گیا ہے اور اب وہ امریکہ کی جانب سے آئندہ کسی بھی مصالحتی کردار کے دھوکے میں نہیں آئیں گے-
اگرچہ ٹرمپ کی جانب سے امریکی سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کیے جانے کے عمل سے فلسطینیوں کے اس دیرینہ موقف کو شدید زک پہنچا ہے کہ بیت المقدس کا مسئلہ ’اسرائیل- فلسطین‘ تنازع کا بنیادی جزو ہے اور یہ مشرقی بیت المقدس آئندہ فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہو گا- تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اب فلسطینیوں کے اپنے دوست دشمن میں تفریق کی آسانی ہو گئی ہے- ٹرمپ کے فیصلے کے بڑے ناقدین میں مغربی یورپی ممالک بالخصوص برطانیہ، فرانس اور جرمنی ہیں- اس کے ساتھ عالمی ادارے اور مسلم اُمہ بھی ٹرمپ کے فیصلے کی مخالفت کر رہے ہیں-لیکن مسلم اُمہ کی مخالفت سے موجودہ امریکی صدر اس لیے خوفزدہ نہیں کہ انہیں ان ممالک کے ساتھ محض کاروباری تعلقات کی پروا ہے، لیکن اس حوالے سے بھی زیادہ ضرورت مسلم ممالک کو ہی ہے، جبکہ عالمی ادارے سے بھی امریکی انتظامیہ اس لیے خائف نہیں کہ وہ کوئی تادیبی کارروائی کے مجاز نہیں ہیں- تاہم مغربی یورپی ممالک امریکی اتحادی ہیں اور چین اور روس کی جانب سے عالمی سطح پر امریکی اجارہ داری کو چیلنج کیے جانے کے عمل پر امریکہ کے ساتھ کھڑے ہیں اور امریکہ کو یہ ساتھ از حد عزیز ہے-
صدر محمود عباس کے پاس مغربی یورپی ممالک کی جانب سے کسی مصالحتی کردار کی کوشش کے علاوہ اور کوئی راستہ باقی نہیں بچتا- مسجد اقصی ٹرسٹ کے وارث ہونے کی حیثیت سے اردن کے شاہ عبد اللہ وہ واحد مسلم رہنما ہیں جن سے فلسطینی انتظامیہ اس معاملے پر حقیقی حساسیت کی توقع کر سکتی ہے- جس ممکنہ رد عمل سے امریکی و مغربی دنیا خائف ہو سکتی ہے وہ یہ کہ کہیں فلسطینی انتظامیہ ریاست اسرائیل کے وجود کو ہی تسلیم کرنے سے انکار کر دے اور فلسطینی علاقوں میں انتظامی عملداری کے حالیہ بندوبست سے مستعفی ہو جائے- نتیجے کے طور پر اسرائیل کو اپنی موجودہ آبادی کے لگ بھگ تعداد میں ایسی آبادی کا انتظامی اختیار بھی سنبھالنا پڑ جائے گا جو درحقیقت اسرائیلی ریاست سے حالت جنگ میں ہے- اسرائیلی افواج اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ گوریلا جنگوں میں فلسطینی تنظیمیں اسرائیل کو پہلے بھی کافی نقصان پہنچا چکی ہیں- ایسی صورت میں باہمی تشدد کا ایسا دروازہ کھل جائے گا جسے روکنا شاید عالمی دنیا کے لیے بہت مشکل ہو جائے- فلسطینی انتظامیہ اس حساس کارڈ کے ساتھ عالمی عدالت جرائم میں جا سکتی ہے، جہاں وہ اس سے پہلے محض اس لیے نہیں گئے کہ امریکہ کی جانب سے انہیں مصالحت کے جھوٹے وعدے کیے جاتے رہے ہیں- فلسطینی انتظامیہ اس ادارے کی 2015ء سے ممبر ہے اور یہ ادارہ انفرادی حیثیت میں ملوث ایسے افراد کے خلاف کارروائی کا مجاز ہے جو نسل کشی یا جنگی جرائم میں ملوث ہوں- اگرچہ امریکہ، روس اور چین اس ادارے کے رکن نہیں ہیں، تاہم یورپی یونین سمیت 123ممالک اس ادارے کی ممبر ہیں، لہٰذا یہاں فلسطینی انتظامیہ کو امریکی اثر و رسوخ کی تکلیف برداشت نہیں کرنی ہو گی- صائب اراکات جو کہ سینئر فلسطینی رہنما اور فلسطینی انتظامیہ کی جانب سے چیف مذاکرات کار ہیں، کا کہنا ہے کہ میں فلسطینیوں کو یہ نصیحت کروں گا کہ وہ اس تکلیف کی گھڑی میں تشدد کا راستہ اختیار نہ کریں بلکہ مہذب قانونی طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے اپنے جائز حقوق کے لیے کوشش کریں کیونکہ عالمی قوانین کے احترام کے نتیجے میں ہی مستقبل کی آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام ممکن ہے- فرمان الٰہی ہے کہ امت مسلمہ کی مثال جسد واحد کی ہے، اگر ایک حصے کو تکلیف ہو تو پورا جسم دکھتا ہے- نہ معلوم کیا وجہ ہے کہ جدید تاریخ کے سب سے ظالمانہ قبضے پر امت مسلمہ کو وہ تکلیف کیوں لاحق نہیں جسے بیان کیا گیا ہے-تمام مہذب دنیا ماسوائے امریکہ اس ظلم پر احتجاج کناں ہے- جنوبی افریقہ اور ترکی نے اپنے سفراء اسرائیل سے واپس بلا لیے ہیں- تاہم مسلم امہ کے لیے ترکی اس لیے ایک مثال ہے کہ اس نے اس ظلم کے بنیادی گھر امریکہ تک سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیاہے- اگر 56مسلم ممالک امریکہ سے اپنے سفارتی تعلقات چاہے مختصر مدت اور علامتی طور پر ہی سہی ختم کر لیں تو بلاشبہ اسرائیلی ریاست کا غاصبانہ قبضہ ختم ہو سکتا ہے- ہمیں اپنے اقدامات کو اور آواز کو معمولی اور غیر اہم نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ ہر ممکنہ حد تک مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھائی چاہے- غزہ کے مظلوم ہماری معاونت کے منتظر ہیں-
آئیے مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور دنیا کے کسی بھی کونے میں مسلمانوں پر ٹوٹنے والے مظالم کے خلاف بنیان مرصوص بن جائیں-
٭٭٭