تحقیقی ادارہ مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیرِ اہتمام یومِ الحاقِ جونا گڑھ( 15 ستمبر 1947) کی مناسبت سے 22 ستمبر 2016ء ، نیشنل لائبریری آف پاکستان اسلام آباد میں'جونا گڑ ھ کا پاکستان سے الحاق: ایک تجزیہ' کے عنوان سے راؤنڈ ٹیبل ڈسکشن منعقد کی گئی- سابق وفاقی وزیرِ قانون جناب احمر بلال صوفی نے نشست کی صدارت کی جبکہ نواب آف جونا گڑھ عزت مآب محمد جہانگیر خانجی نے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کیا- دیگر مقررین میں چیئر مین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی، اسسٹنٹ پروفیسر آئی آر قائد اعظم یونیورسٹی ڈاکٹرنذیر حسین، ایسوسی ایٹ ڈین ،NUST ڈاکٹر طغرل یامین ، پاکستان کے سابق سفیر اشتیاق اندرابی، سابق سفیر عامر انور شادانی، ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈیپارٹمنٹ آف ہسٹری ،قائد اعظم یونیورسٹی ڈاکٹر فاروق احمد ڈار، ریسرچ ایسوسی ایٹ ،ریسرچ سوسائٹی آف انٹرنیشنل لاء عبیر مصطفیٰ شامل تھے-راؤنڈ ٹیبل ڈسکشن میں محققین، تجزیہ نگاروں، مختلف ممالک کے سفارتکاروں ، یونیورسٹیز کے اساتذہ و طلباء، دانشور حضرات اور صحافیوں نے بھی حصہ لیا-
مقررین و مندوبین کی ڈسکشن میں ہونے والی گفتگو کے اہم نکات درج ذیل ہیں-
تاریخی اعتبار سے جوناگڑھ برصغیر کی پانچ سو باسٹھ (۵۶۲) ریاستوں میں سے ایک تھی جو انگریزوں کے برصغیر پر قبضہ سے برطانوی سامراج کے زیرِ تسلط آگئیں- یہ شاہی ریاستیں اپنے اندرونی معاملات کے نظم و نسق کے حوالے سے آزاد تھیں لیکن دفاع اور خارجی معاملات برطانوی حکومت کی ذمہ داری تھی- برٹش انڈیا کی 562 ریاستوں میں جو نا گڑھ آمدنی کے اعتبار سے پانچویں بڑی ریاست تھی جبکہ مسلمان ریاستوں میں دوسرے نمبر پہ تھی - 1947 کے تقسیمِ ہند کے قانون کے مطابق تمام ریاستوں کو تین آپشن دیئے گئے کہ پاکستان سے الحاق کر لیں یا بھارت کے ساتھ الحاق کر لیں یا پھر چاہیں تو آزاد حیثیت میں رہیں- اس وقت جوناگڑھ کے نواب سر مہابت خانجی نے گورنر جنرل آف پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے ساتھ الحاقی دستاویز Instrument of Accession پر دستخط کئے اور 15 ستمبر 1947 کو جوناگڑھ باقاعدہ طور پر پاکستان کا حصہ بن گیا اور سٹیٹ ہاؤس آف جوناگڑھ پہ پاکستانی پرچم لہرا دیا گیا - نواب آف جوناگڑھ جناب نواب مہابت خانجی نے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ ریاست کی کونسل، جس میں مسلمان اورہندو سب شامل تھے، کی رضامندی سے کیاتھا-
جیسا کہ بھارت نے برطانوی حکومت کی ملی بھگت سے ہر جگہ پاور پایلیٹکس کو اپناتے ہوئے عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیریں اور جارحانہ اقدامات کئے اِسی طرح جوناگڑھ پہ بھی عالمی قوانین کے خلاف جارحانہ اقدام کیا اور 9 نومبر 1947ء کو بھارت نے مختلف افواہیں پھیلاتے ہوئے جونا گڑھ پر غیر قانونی فوج کشی کے ذریعے قبضہ کر لیا- جونا گڑھ پر غیر قانونی فوج کشی اور مظالم کے سبب بہت سے مسلمان ہجرت کر کے کراچی آ گئے- تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان نے میجر کے- ایم- اظہر کو جونا گڑھ بھیجا مگر ان کا سامنا پہلے سے موجود قابض بھارتی افواج سے ہوا- محدود وسائل کے سبب پاکستان وہاں زیادہ فوج نہیں بھیج سکتا تھا کیونکہ کشمیر میں بھارتی قبضے کے باعث پہلے ہی پاک بھارت جنگ چل رہی تھی- یہ ایک تاریخی امر ہے کہ بھارت کا ان ریاستوں پر قبضہ پہلے سے طے شدہ تھااور اس عمل میں انگریز وائسرائے ماؤنٹ بیٹن اور اُن کی اہلیہ کا کردار بھی اہم تھا جبکہ رہی سہی کسر بھارت نے پاکستان کے محدود وسائل اور انگریز جرنیل کے ماتحت فوج کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاستوں پر قبضہ کر کے نکال دی- ریاست جوناگڑھ پر بھارتی قبضہ بھارتی توسیع پسندانہ اور جارحانہ عزائم (اکھنڈ بھارت) کو ظاہر کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ابتدا ہی سے پاکستان کے وجود کو تسلیم نہ کرنے کا بھی ثبوت ہے یہ حقیقت حیدر آباد دکن اور جموں و کشمیر پر بھی غیر قانونی قبضے سے واضح ہوتی ہے-مزید برآں مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں کردار پر بھارتی وزیر اعظم کے اعترافی بیان سے بھارت کی اینٹی پاکستان پالیسی کا تسلسل واضح ہوتا ہے-
بد قسمتی سے ابتدا میں پاکستان نے جوناگڑھ کا مقدمہ لڑا لیکن جوں جوں وقت گزرا، یہ مسئلہ محض کتابوں تک محدود ہوتا گیا اور اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اب کتابوں میں بھی اس مسئلہ کا ذکر ناپید ہوتا جا رہا ہے اور نوجوان نسل اس مسئلہ سے آگاہ نہیں ہو رہی- عالمی نظام میں سر اٹھا کر جینے کے لئے قوموں کی خودداری بہت اہمیت رکھتی ہے اور اس لئے ہمیں ہر قیمت پر اپنے قانونی حصے جونا گڑھ اور شہ رگ جموں و کشمیر کا مقدمہ لڑنا ہے اور انہیں بھارتی غیر قانونی و غیر اخلاقی تسلط سے نکالنا ہے-
قائد اعظم خود ایک قانون دان تھے اور قانون کی عملداری پر یقین رکھتے تھے- نواب آف جوناگڑھ کے پاکستان کی طرف جھکاؤ اور الحاق کی وجہ قائداعظم کا ریاستوں کے حکمرانوں کو آزادانہ فیصلے کرنے کے حق دینا بھی تھا- جبکہ دوسری طرف بھارت ریاستوں کے حکمرانوں کو دھمکا کراپنے ساتھ الحاق پر مجبورکر رہاتھا- لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کئی ریاستوں کو مختلف طریقوں سے مجبور کیا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کریں- ماؤنٹ بیٹن نے آن دی ریکارڈ یہ بات کی کہ ’’اگر میں 15 اگست کو ریاستوں کی ایک ٹوکری لے آؤں تو کانگریس ہر وہ قیمت دینے کو تیارہو گی جو میں لینا چاہوں گا ‘‘۔ اسی لیے کانگرس نے ماؤنٹ بیٹن کو گورنر جنرل آف انڈیا تسلیم کر لیا تھا -
کشمیر اور جونا گڑھ کا موازنہ کرنے سے معلوم ہوتا ہےکہ کشمیر کے بھارت سے نام نہاد الحاق کے وقت مہاراجہ ہری سنگھ اپنی ریاست کا دارلحکومت چھوڑ کر بھاگ چکا تھا اور عملاً ریاست پر کنٹرول کھو چکا تھا اور عوام اس کے خلاف تھی مزید یہ کہ آج تک بھارت نے کشمیر کی الحاقی دستاویز کو بھی ظاہر نہیں کیا جبکہ جونا گڑھ کے نواب نے ریاستی کونسل کی رضا مندی کے ساتھ پاکستان کےساتھ الحاق کا فیصلہ کیا اورباقاعد ہ دستخط شدہ الحاقی دستاویز پاکستانی حکومت کے حوالے کی جس پہ دو خود مختار ریاستوں (پاکستان و جوناگڑھ) کے قانونی سربراہان (گورنر جنرل آف پاکستان و نواب آف جوناگڑھ) کے دستخط ہیں -
الحاقی دستاویز ایک قانونی معاہدہ ہےجو دو ریاستوں کے مابین طے پاتا ہے اور کسی بھی علاقہ پہ کنٹرول کے لیے قانونی حیثیت رکھتا ہے- یہ الحاقی دستاویز بین الاقوامی قانون کے تحت ایک معاہدہ (Treaty) کی حیثیت رکھتا ہے- اگرجونا گڑھ کی قانونی حیثیت کا بین الاقوامی قوانین کی نظر سے جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ جونا گڑھ پاکستان کا حصہ ہے- ویانا کنونشن آن لاء آف ٹریٹیز کے مطابق’ معاہدہ‘ (Treaty) سے مراد دو یا دو سے زائد ریاستوں کے مابین طے پایا جانے والا ایسا معاہدہ ہے جو تحریری شکل میں بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہو ۔ پھر ویانا کنونشن آن لأ آف ٹریٹیز یہ بھی کہتا ہے کہ وہ معاہدہ جو مذکورہ فریقین کے مابین ہوگا اس کی حیثیت’’عالمی‘‘ ہوگی اگرچہ وہ ایک دستاویز پہ مشتمل ہو یا متعدد ضمنی و متعلقہ دستاویزات پہ مشتمل ہو -
جونا گڑھ کی الحاقی دستاویز:
(۱) ایک عالمی معاہدہ ہے-
(۲) دو ریاستوں کے مابین طے پایا گیا ہے-
(۳) تحریری صورت میں موجود ہے-
(۴) بین الاقوامی قانون کے مطابق طے پایا-
(۵) ایک مستند و تاحال قابلِ عمل دستاویز کی صورت میں ہے -
لہٰذا جونا گڑھ کا الحاقی دستاویز ایک بین الاقوامی معاہدہ 'Treaty' کی تمام شرائط پہ پورا اترتا ہے-مسئلہ جوناگڑھ تب تک اپنی قانونی حیثیت رکھتا ہے جب تک الحاقی دستاویز کی قانونی حیثیت برقرار ہے- ایک عالمی معاہدے کی قانونی حرمت ہوتی ہے جس کا احترام ہر قوم پہ واجب ہے جیسا کہ ویانا کنونشن آن لاء آف ٹریٹیز 1969 میں اس بات کا اعادہ کیا گیا- آرٹیکل 26 'پیکٹا سنٹ سروانڈا'(Pacta sunt servanda) کے مطابق دو فریقین کے مابین معاہدہ طے پا جانے کے بعد دونوں فریقین پہ لازم ہے کے وہ اس معاہدہ پر نیک نیتی سے عمل درآمد کریں-
بین الاقوامی قانون میں عالیجاہ نواب آف جونا گڑھ کی ایک منفرد حیثیت ہے- داخلی اور بین الاقوامی قوانین میں نواب آف جو نا گڑھ ’’جلاوطن مگر خود مختار (Sovereign in exile) ‘‘کی حیثیت رکھتے ہیں جن کے اپنے حقوق ہیں یعنی ایک ایسا شخص جو اپنی ریاست کا اقتدار کھو چکا ہو لیکن اس کے پاس اس مقصد کے لئے قانونی دستاویزات موجود ہوں اِسے عوامی زبان میں یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک اراضی کی لیگل رجسٹری تو آپ کے نام پہ ہو مگر عملاً اس پہ قبضہ کسی قابض قوت کا ہو ، لہٰذا قانونی مالک اس جگہ کے آپ ہوں گے قبضہ بھلے کسی کے پاس ہوگا - اس لحاظ سے دیکھا جائےتو عالمی قوانین کے تحت نواب آف جوناگڑھ آج بھی جونا گڑھ کے قانونی حکمران ہیں -لیکن ان کی قانونی حیثیت کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہم ان کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے ہیں- اسی ضمن میں حکومتِ پاکستان نواب صاحب کومالی معاونت فراہم کیے ہوئے ہے جو ان کے ساتھ کیے گئے قانونی معاہدہ کے تحت ہے- یہی وجہ ہے کہ جونا گڑھ کا علاقہ پھر سے پاکستان کے نقشہ میں متنازعہ علاقہ کے طور پر موجود ہے-
جونا گڑھ کا الحاقی دستاویز پاکستان کے لیے ایک بائنڈنگ کی حیثیت رکھتا ہے اور پاکستان کا کیس قانونی طور پر بہت مضبوط ہے- یہ باعث افسوس ہے کہ جب جونا گڑھ پر قبضہ ہوا، ہم نے احتجاج بھی کیا اور اقوامِ متحدہ میں بھی گئے مگر بعد میں اس معاملے کو آگے نہیں بڑھا سکے- اسی طرح بنگلہ دیش کی صورت میں بھارت نے سازشوں سے ہمارے ملک کے حصے پر قبضہ کر کے الگ ملک بنایا-ہم فکر نہیں کرتے کہ بھارت ابتدا ہی سے ہماری سرزمین کو کم سے کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے- بدقسمتی سے ہم جونا گڑھ کو بھول چکے ہیں حتیٰ کہ اسلام آباد میں جونا گڑھ ہاؤس کے لیے جگہ مختص کی گئی لیکن اس پر بھی سیاسی قابضین مسلط ہو گئے- جونا گڑھ کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے ہمیں الحاق کے ستر سال پورے ہونے پر ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کرنا چاہیے اور ہمیں جونا گڑھ پر تفصیلی کتب شائع کرنی چاہیں- نوجوان نسل کو اس مسئلہ سے لازمی طور پر آگاہ رکھنا چاہئے جو اسی صورت ممکن ہے کہ اس مسئلہ کی تاریخ ہمارے نصاب میں شامل ہو- اسی طرح جونا گڑھ کو پاکستان کے ہر نقشے میں ظاہر کرنا چاہئے- پاکستان کو اس مسئلہ کوعالمی سطح پر اجاگر کرنا چاہیے تاکہ عالمی برادری بھی اس مسئلہ سے آگاہ ہو-
وقفہ سوالات و جوابات:
مقررین کے اظہار خیال کے بعد وقفہ سوال و جواب کا انعقاد کیا گیا جس میں شرکاء نے بھر پور حصہ لیا، زیرِ بحث آنے والے اہم نکات درج ذیل ہیں :
جونا گڑھ ہماری تاریخ کا حصہ ہے لیکن بد قسمتی سے ہم اس تاریخ کو بھلاتے جارہے ہیں - ہمارے بچے اور نوجوان جونا گڑھ کے بارے میں نہیں جانتے باوجود اس کے کہ جوناگڑھ پہ پاکستان کا قانونی حق ہے- ہمارے دفتر خارجہ نے گزشتہ 30 سال کے عرصے میں جونا گڑھ کے متعلق آواز نہیں اٹھائی- چین ، ہانگ کانگ حاصل کرنے کے لیے100 سال تک جدو جہد کرسکتا ہے تو ہم کیوں نہیں کر سکتے؟ اس مسئلہ سے متعلق آگاہی پیدا کر کے ہم تاریخ میں موجود غلطی کو درست کر سکتے ہیں بھارت نے فوجی مداخلت سے جونا گڑھ پر قبضہ کیا تھا اور اس فوجی مداخلت میں نہ صرف گاڑیاں بلکہ ٹینک بھی استعمال کئے گئے - آج اس دستاویز کے دونوں فریق یعنی نواب آف جوناگڑھ اور ریاست پاکستان کی اس مقدمے میں قانونی حیثیت برقرار ہے- ہمیں اِس طرح کی ڈسکشنز کا انعقاد کرتے رہنا چاہیے تاکہ ہمیں یہ بھی معلوم ہو کہ ہم نے کیا پایا اور کیا کھویاہے -
تجاویز:
ڈسکشن میں کی گئی گفتگو اور بحث سے درج ذیل تجاویز اخذ کی گئی ہیں-
v پاکستان کو مسئلہ جونا گڑھ عالمی سطح پر دوبارہ اٹھانا چاہئے اور بالخصوص اقوامِ متحدہ میں اس مسئلہ پر پیش رفت کے لئے کام کرنا چاہئے-
v مسئلہ جونا گڑھ اور مسئلہ کشمیر الگ الگ نوعیت کے دو مختلف مسائل ہیں اور دونوں پر ان کی اپنی نوعیت کے اعتبار سے ترجیہی بنیادوں پہ کام کرنے کی ضرورت ہےاور دونوں مسائل کو اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر اٹھانا چاہیے-
v پاکستان کو پارلیمنٹ میں جونا گڑھ کمیٹی قائم کرنی چاہئے جو اس مسئلہ پر کام کرنے کے لئے ذمہ دار ہو-
v اسلام آباد میں جوناگڑھ ہاؤس کا قیام فی الفور عمل میں لانا چاہئے -
v پاکستان کے دفتر خارجہ کو جونا گڑھ ڈیسک قائم کرنا چاہیے جو انڈیا ڈیسک کے ماتحت کام کرے-
v محققین اور تجزیہ نگاروں کو نئے عالمی جیو پولیٹیکل تناظر میں مسئلہ جونا گڑھ سے متعلق نئی جہتوں پر تحقیق کرنی چاہئے تاکہ پالیسی سازوں کو اس کا مقدمہ لڑنے میں معاونت فراہم ہو-
v جونا گڑھ کو پاکستان کی سر زمین سمجھ کے اس پر بھارت کے غاصبانہ تسلط کو دنیا میں اجاگر کرنا چاہیے-
v مطالعہ پاکستان کی کُتب میں اس مسئلہ کا تفصیلی ذکر ہونا چاہئے تاکہ ہماری نئی نسل اس کے متعلق مکمل معلومات حاصل کر سکے-
v عوام الناس کو اس مسئلہ سے آگاہ رکھنے کے لئے میڈیا کو اپنا بھر پور کردار ادا کرنا چاہئے-
٭٭٭