31 اگست 1957ءکو دنیا کے نقشے پر اُبھرنے والی نوزائیدہ اسلامی ریاست ملا ئیشیا آج دنیا کے ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں نمایاں ہے-ملا ئیشیا نے پاکستان کے 10سال بعد برطانوی راج سے ہی آزادی حاصل کی تھی لیکن پاکستان کے مقابلے میں کم عمر ہونے کے باوجود آج ملائیشیا اقوام عالم میں اقتصادی،سیاسی اور سماجی حوالے سے بہت آگے نکل چکا ہے-جنوب مشرقی ایشیا کی یہ مسلم ریاست رقبے کے لحاظ سے دنیا میں 67 ویں نمبر پر ہے-اس کا کل رقبہ 330803 مربع کلو میٹر اور آبادی تقریباتین کروڑ انیس لاکھ تریسٹھ ہزار( 31963000 )نفوس پر مشتمل ہے-ملائیشیا میں وفاقی آئینی اختیاری شہنشاہت موجود ہے-حکومتی نظم و نسق برطانوی طرز(ویسٹ منسٹر پارلیمانی نظام)سے قریب تر ہے-حکومت کا سربراہ وزیر اعظم ہوتا ہے جبکہ ریاست کا سربراہ بادشاہ ہوتا ہے-ملائیشیا بنیادی طور پر تیسری دنیا کے غیر ترقی یافتہ ممالک سے تعلق رکھتا تھا-لیکن عصرِ حاضر کے عظیم لیڈر ڈاکٹر مہاتیر محمد کی قیادت اور سرپرستی نے ملائیشیا کی کایا پلٹ دی-آج صنعتی حوالے سے ملائیشیا کا شمار دنیا کے اہم ممالک میں ہوتا ہے-1925ء کو ملائیشیا کے ایک سکول ٹیچرمحمد اسکندر کے گھر پیدا ہونے والا مہاتیر محمد ملائیشیا کے لیے مسیحا بن کر آیا-
اس کا تعلق ایک غریب خاندان سے تھا-وہ اپنے 9 بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے-خاندان کے مالی حالات کمزور ہونے کے باوجود مہاتیر محمد نے محنت اور مستقل مزاجی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور سنگا پور سے ایم-بی-بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ٹھہرے-تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انہوں نے طب کے شعبہ میں سرکاری ملازمت بھی اختیار کی -لیکن 1957ء میں اس سے سبکدوش ہو گئے-دلچسپ امر یہ ہے کہ مہاتیر محمد کی زندگی میں وہ حالات بھی آئے کہ جب ملائیشیا جاپان کے زیرِ تسلط تھا تووہ گھر کے خرچ میں حصہ ڈالنے کے لیے پیٹیز (Patez ) بیچا کرتے تھے-مہاتیر محمدنے 1964ء میں ’’یونائیٹڈ ملائی نیشنل آرگنائزیشن‘‘کے پلیٹ فارم سے اپنی باقاعدہ سیاست کا آغاز کیا-وہ 1964ء میں پہلی دفعہ رکنِ پارلیمنٹ منتخب ہوئے-بعد میں 1974،1973اور 1978ء میں یکے بعد دیگرے وہ سنیٹر،وزیرِ تعلیم اور نائب صدر کے عہدوں پر بھی فائز رہے-16 جولائی 1981ء سے 31 اکتوبر 2003ء تک وہ مسلسل 22 سال کا عرصہ ملائیشیا کے وزیرِ اعظم کے عہدے پر فائز رہے-انہیں ملائیشیا کی تقدیر بدلنے اور اس کو معاشی سر بلندی دینے پر ملائیشیا کے سب سے بڑے سول لقب تون سے نوازا گیا- اہلِ مغرب انہیں ملائیشیا کے ’’اقتصادی معجزہ‘‘ کا بانی کہتے ہیں-
ملائیشیاء کی حکمرانی جب مہاتیر محمد کے ہاتھ آئی تو اس وقت ملائیشیا کی معاشی حالت بہت ابتر تھی،ان کی معیشت کا انحصار مکمل طور پر زراعت اور سمال انڈسٹریز پر تھا-لیکن مہاتیر محمد نے آکر معاشی میدان میں وہ تبدیلیاں کیں کہ جس سے ان کا معاشی ڈھانچہ تبدیل ہو گیا اور ملائیشیا تھوڑے ہی عرصے میں اقوام عالم کی توجہ کا مرکز بن گیا-بنیادی مسئلہ ملائیشیا کی دو بڑی اقوام ملائی اور چینیوں کی نا اتفاقی تھا-ملائیشیا نسلی اور علاقائی گروہ بندی کاشکار تھا-مہاتیر محمد نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے ان گروہ بندیوں کو ختم کیا اور تمام اقوام کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر ان کو ریاست کے مرکزی نقطے پر اکھٹا کیا - ان نے دوسرے ممالک کے ساتھ مل کرملک میں صنعت و حرفت کو مضبوط کیا-مہاتیر محمد 2003ء میں ریٹائر ہوگئے-وہ 15سال کا عرصہ حکومت سے دور رہے لیکن سماجی سطح پر وہ عوام سے دور نہیں ہوئے-
2003ء سے 2018ء تک برسر اقتدار رہنے والے لوگوں نے ملائیشیا کی عوام کی توقعات کو پورا نہ کیا-جس میں افراطِ زرکی شرح میں کمی،بے روزگاری،سول ٹیکسیز کے نفاذ کے علاوہ کرپشن اور منی لانڈرنگ کے واقعات رونما ہوئے- بالخصوص ملائشیا کے ابھی سبکدوش ہونے والے وزیرِ اعظم کرپشن اور بد عُنوانی میں معروف تھے اور اس وجہ سے پورا مُلک کرپشن کی لپیٹ میں آتا جا رہا تھا؛یہ اور اس طرح کے کئی دیگر الزامات کی وجہ سے حکمران طبقہ عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہا-اور ایک بار پھر 9 مئی 2018ء کو انہوں نے 92 سالہ ڈاکٹر مہاتیر محمد کو اپنا ساتواں وزیر اعظم منتخب کیا-مہاتیر محمد کو جدید ملائیشیا کا معمار کہا جاتا ہے- اس سے بڑھ کر ان کی شخصیت اور قیادت کی خوبی اس دفعہ کے الیکشن میں یہ دیکھنے کو ملی کہ مہاتیر محمد نے اپنی سیاسی پارٹی کو چھوڑ کر اپوزیشن جماعت کی طرف سے انتخاب لڑا اور 222 میں سے 115 نشتیں جیت کر واضح کامیابی حاصل کی-دلچسپ بات یہ کہ وہ پارٹی جو 60 سال سے ملائیشیا پر حکمرانی کر رہی تھی ایک مہاتیر محمد کی قیادت کے تبدیل ہونے سے اس کو شکست کا سامنا کرنا پڑا-اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کامیاب لیڈر ثابت ہونے کے لیے انسان کا اپنا کردار بنیادی چیز ہوتا ہے-مہاتیر محمد کی اس جیت نے ایک بار پھر اس نظریے کو تقویت بخشی ہے کہ پارٹیاں اور ادارے اچھے لیڈر ہی سے شناخت قائم کر پاتے ہیں اگر پارٹیوں کی قیادت نا اہل ہو تو لوگ متبادل قیادت کو منتخب کر لیتے ہیں، یعنی لیڈر شپ سے مراد آج بھی با کردار شخص ہے-
ان کی اس کامیابی کے پیچھے چند ایک محرکات تھے جن مین اول ان کا دیا گیا ترقی کا ماڈل تھا جس میں وہ پوری طرح کامیاب رہے-اسی طرح سیاسی استحکام کے معاملے میں انہوں نے کامیابی حاصل کی-انہوں نے عوام کے بنیادی حقوق پورے کر کے عوام کو اس حد تک اعتماد میں لیا ہے کہ وہاں پر اب ہڑتال،دھرنا اور احتجاج کلچر کا نام و نشان نہیں-انہوں نے نجی سطح پر آکر عوام کو اس بات پر مطمئن کیا کہ حکومت آپ کے مسائل کا ہر حوالے سے تدارک کرے گی اور ایسا ہوا بھی-اس کے ساتھ ساتھ مہاتیر محمد نے وہاں کی عوام کو مذہبی،علاقائی ،نسلی اور لسانی گروہ بندی سے نکال کر متحد کیا- ڈاکٹر مہاتیر محمد نے آتے ہی سابق حکمران گروہ کے گھروں، سیف ہاؤسز اور کاروباری دفاتر پہ چھاپے لگوائے اور اربوں ڈالرز کی کرنسی کے ساتھ ساتھ بیش قیمت زیورات اور اشیا بر آمد کروائیں-جس وجہ سے حالیہ دنوں میں ملائشیا ایک بار پھر کرپشن کے انسداد میں عالمی حلقوں میں نیک نامی کما رہا ہے-
آج مہاتیر محمد کی کامیابی میں پاکستان اور تیسری دنیا کے ممالک کےلیے بھی سبق ہے کہ جب تک عوام کی امنگوں اور ان کے جذبات کا احترام نہیں کیا جائے گاتب تک نہ تو سیاسی استحکام ہوسکتا ہے اور نہ ہی کوئی ملک ترقی کر سکتا ہے-عوام کو بھی اپنے اختیارات کا درست استعمال کر کے ان لوگوں کو موقع دینا چاہیے جو ملک و قوم کے مفادات میں مخلص ہوں- پاکستان میں اللہ تعالی کی نعمتوں کی کوئی کمی نہیں اللہ تعالیٰ نے ہم کو ہر حوالے سے نواز رکھا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان نعمتوں کا استعمال اس طرح سے کریں جو ملک و قوم کی ترقی کے لیے کارگر ثابت ہو-ہمیں زرعی اور صنعتی دونوں شعبوں میں اپنے ترقی کے ماڈل کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے-بے روزگاری،کرپشن اور منی لانڈرنگ جیسے ناسور کے خاتمے کے لیے اداروں کو مضبوط بنانا ہوگا جس کے لئے عوام میں اس شعور کی بیداری کی ضرورت ہے کہ ہم بھی وطن عزیز کے لیے اپنے مسلکی، لسانی، علاقائی، سیاسی اور نسلی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر صرف ملک وقوم کو وقار کے لیے متحد ہو جائیں اور ایسے لوگوں کو موقع نہ دیا جائے جو ملک و قوم کی بقاء اور سالمیت کے لیے مضر ہوں-تب جا کر ہی ہم اقوام عالم میں پورے قد سے کھڑے ہو سکتے ہیں-
٭٭٭
31 اگست 1957ءکو دنیا کے نقشے پر اُبھرنے والی نوزائیدہ اسلامی ریاست ملا ئیشیا آج دنیا کے ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں نمایاں ہے-ملا ئیشیا نے پاکستان کے 10سال بعد برطانوی راج سے ہی آزادی حاصل کی تھی لیکن پاکستان کے مقابلے میں کم عمر ہونے کے باوجود آج ملائیشیا اقوام عالم میں اقتصادی،سیاسی اور سماجی حوالے سے بہت آگے نکل چکا ہے-جنوب مشرقی ایشیا کی یہ مسلم ریاست رقبے کے لحاظ سے دنیا میں 67 ویں نمبر پر ہے-اس کا کل رقبہ 330803 مربع کلو میٹر اور آبادی تقریباتین کروڑ انیس لاکھ تریسٹھ ہزار( 31963000 )نفوس پر مشتمل ہے-ملائیشیا میں وفاقی آئینی اختیاری شہنشاہت موجود ہے-حکومتی نظم و نسق برطانوی طرز(ویسٹ منسٹر پارلیمانی نظام)سے قریب تر ہے-حکومت کا سربراہ وزیر اعظم ہوتا ہے جبکہ ریاست کا سربراہ بادشاہ ہوتا ہے-ملائیشیا بنیادی طور پر تیسری دنیا کے غیر ترقی یافتہ ممالک سے تعلق رکھتا تھا-لیکن عصرِ حاضر کے عظیم لیڈر ڈاکٹر مہاتیر محمد کی قیادت اور سرپرستی نے ملائیشیا کی کایا پلٹ دی-آج صنعتی حوالے سے ملائیشیا کا شمار دنیا کے اہم ممالک میں ہوتا ہے-1925ء کو ملائیشیا کے ایک سکول ٹیچرمحمد اسکندر کے گھر پیدا ہونے والا مہاتیر محمد ملائیشیا کے لیے مسیحا بن کر آیا-
اس کا تعلق ایک غریب خاندان سے تھا-وہ اپنے 9 بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے-خاندان کے مالی حالات کمزور ہونے کے باوجود مہاتیر محمد نے محنت اور مستقل مزاجی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور سنگا پور سے ایم-بی-بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ٹھہرے-تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انہوں نے طب کے شعبہ میں سرکاری ملازمت بھی اختیار کی -لیکن 1957ء میں اس سے سبکدوش ہو گئے-دلچسپ امر یہ ہے کہ مہاتیر محمد کی زندگی میں وہ حالات بھی آئے کہ جب ملائیشیا جاپان کے زیرِ تسلط تھا تووہ گھر کے خرچ میں حصہ ڈالنے کے لیے پیٹیز (Patez) بیچا کرتے تھے-مہاتیر محمدنے 1964ء میں ’’یونائیٹڈ ملائی نیشنل آرگنائزیشن‘‘کے پلیٹ فارم سے اپنی باقاعدہ سیاست کا آغاز کیا-وہ 1964ء میں پہلی دفعہ رکنِ پارلیمنٹ منتخب ہوئے-بعد میں 1974،1973اور 1978ء میں یکے بعد دیگرے وہ سنیٹر،وزیرِ تعلیم اور نائب صدر کے عہدوں پر بھی فائز رہے-16 جولائی 1981ء سے 31 اکتوبر 2003ء تک وہ مسلسل 22 سال کا عرصہ ملائیشیا کے وزیرِ اعظم کے عہدے پر فائز رہے-انہیں ملائیشیا کی تقدیر بدلنے اور اس کو معاشی سر بلندی دینے پر ملائیشیا کے سب سے بڑے سول لقب تون سے نوازا گیا- اہلِ مغرب انہیں ملائیشیا کے ’’اقتصادی معجزہ‘‘ کا بانی کہتے ہیں-
ملائیشیاء کی حکمرانی جب مہاتیر محمد کے ہاتھ آئی تو اس وقت ملائیشیا کی معاشی حالت بہت ابتر تھی،ان کی معیشت کا انحصار مکمل طور پر زراعت اور سمال انڈسٹریز پر تھا-لیکن مہاتیر محمد نے آکر معاشی میدان میں وہ تبدیلیاں کیں کہ جس سے ان کا معاشی ڈھانچہ تبدیل ہو گیا اور ملائیشیا تھوڑے ہی عرصے میں اقوام عالم کی توجہ کا مرکز بن گیا-بنیادی مسئلہ ملائیشیا کی دو بڑی اقوام ملائی اور چینیوں کی نا اتفاقی تھا-ملائیشیا نسلی اور علاقائی گروہ بندی کاشکار تھا-مہاتیر محمد نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے ان گروہ بندیوں کو ختم کیا اور تمام اقوام کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر ان کو ریاست کے مرکزی نقطے پر اکھٹا کیا - ان نے دوسرے ممالک کے ساتھ مل کرملک میں صنعت و حرفت کو مضبوط کیا-مہاتیر محمد 2003ء میں ریٹائر ہوگئے-وہ 15سال کا عرصہ حکومت سے دور رہے لیکن سماجی سطح پر وہ عوام سے دور نہیں ہوئے-
2003ء سے 2018ء تک برسر اقتدار رہنے والے لوگوں نے ملائیشیا کی عوام کی توقعات کو پورا نہ کیا-جس میں افراطِ زرکی شرح میں کمی،بے روزگاری،سول ٹیکسیز کے نفاذ کے علاوہ کرپشن اور منی لانڈرنگ کے واقعات رونما ہوئے- بالخصوص ملائشیا کے ابھی سبکدوش ہونے والے وزیرِ اعظم کرپشن اور بد عُنوانی میں معروف تھے اور اس وجہ سے پورا مُلک کرپشن کی لپیٹ میں آتا جا رہا تھا؛یہ اور اس طرح کے کئی دیگر الزامات کی وجہ سے حکمران طبقہ عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہا-اور ایک بار پھر 9 مئی 2018ء کو انہوں نے 92 سالہ ڈاکٹر مہاتیر محمد کو اپنا ساتواں وزیر اعظم منتخب کیا-مہاتیر محمد کو جدید ملائیشیا کا معمار کہا جاتا ہے- اس سے بڑھ کر ان کی شخصیت اور قیادت کی خوبی اس دفعہ کے الیکشن میں یہ دیکھنے کو ملی کہ مہاتیر محمد نے اپنی سیاسی پارٹی کو چھوڑ کر اپوزیشن جماعت کی طرف سے انتخاب لڑا اور 222 میں سے 115 نشتیں جیت کر واضح کامیابی حاصل کی-دلچسپ بات یہ کہ وہ پارٹی جو 60 سال سے ملائیشیا پر حکمرانی کر رہی تھی ایک مہاتیر محمد کی قیادت کے تبدیل ہونے سے اس کو شکست کا سامنا کرنا پڑا-اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کامیاب لیڈر ثابت ہونے کے لیے انسان کا اپنا کردار بنیادی چیز ہوتا ہے-مہاتیر محمد کی اس جیت نے ایک بار پھر اس نظریے کو تقویت بخشی ہے کہ پارٹیاں اور ادارے اچھے لیڈر ہی سے شناخت قائم کر پاتے ہیں اگر پارٹیوں کی قیادت نا اہل ہو تو لوگ متبادل قیادت کو منتخب کر لیتے ہیں، یعنی لیڈر شپ سے مراد آج بھی با کردار شخص ہے-
ان کی اس کامیابی کے پیچھے چند ایک محرکات تھے جن مین اول ان کا دیا گیا ترقی کا ماڈل تھا جس میں وہ پوری طرح کامیاب رہے-اسی طرح سیاسی استحکام کے معاملے میں انہوں نے کامیابی حاصل کی-انہوں نے عوام کے بنیادی حقوق پورے کر کے عوام کو اس حد تک اعتماد میں لیا ہے کہ وہاں پر اب ہڑتال،دھرنا اور احتجاج کلچر کا نام و نشان نہیں-انہوں نے نجی سطح پر آکر عوام کو اس بات پر مطمئن کیا کہ حکومت آپ کے مسائل کا ہر حوالے سے تدارک کرے گی اور ایسا ہوا بھی-اس کے ساتھ ساتھ مہاتیر محمد نے وہاں کی عوام کو مذہبی،علاقائی ،نسلی اور لسانی گروہ بندی سے نکال کر متحد کیا- ڈاکٹر مہاتیر محمد نے آتے ہی سابق حکمران گروہ کے گھروں، سیف ہاؤسز اور کاروباری دفاتر پہ چھاپے لگوائے اور اربوں ڈالرز کی کرنسی کے ساتھ ساتھ بیش قیمت زیورات اور اشیا بر آمد کروائیں-جس وجہ سے حالیہ دنوں میں ملائشیا ایک بار پھر کرپشن کے انسداد میں عالمی حلقوں میں نیک نامی کما رہا ہے-
آج مہاتیر محمد کی کامیابی میں پاکستان اور تیسری دنیا کے ممالک کےلیے بھی سبق ہے کہ جب تک عوام کی امنگوں اور ان کے جذبات کا احترام نہیں کیا جائے گاتب تک نہ تو سیاسی استحکام ہوسکتا ہے اور نہ ہی کوئی ملک ترقی کر سکتا ہے-عوام کو بھی اپنے اختیارات کا درست استعمال کر کے ان لوگوں کو موقع دینا چاہیے جو ملک و قوم کے مفادات میں مخلص ہوں- پاکستان میں اللہ تعالی کی نعمتوں کی کوئی کمی نہیں اللہ تعالیٰ نے ہم کو ہر حوالے سے نواز رکھا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان نعمتوں کا استعمال اس طرح سے کریں جو ملک و قوم کی ترقی کے لیے کارگر ثابت ہو-ہمیں زرعی اور صنعتی دونوں شعبوں میں اپنے ترقی کے ماڈل کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے-بے روزگاری،کرپشن اور منی لانڈرنگ جیسے ناسور کے خاتمے کے لیے اداروں کو مضبوط بنانا ہوگا جس کے لئے عوام میں اس شعور کی بیداری کی ضرورت ہے کہ ہم بھی وطن عزیز کے لیے اپنے مسلکی، لسانی، علاقائی، سیاسی اور نسلی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر صرف ملک وقوم کو وقار کے لیے متحد ہو جائیں اور ایسے لوگوں کو موقع نہ دیا جائے جو ملک و قوم کی بقاء اور سالمیت کے لیے مضر ہوں-تب جا کر ہی ہم اقوام عالم میں پورے قد سے کھڑے ہو سکتے ہیں-
٭٭٭