ایسی الیکٹرانک ڈیوائس جو رابطے کیلئے انٹرنیٹ کے ساتھ جُڑی ہوں ’’سائبر‘‘کہلاتی ہیں اور سیکیورٹی سے مراد ’’حفاظت‘‘کے ہیں-اس کو عام الفاظ میں یوں کَہ سکتے ہیں کہ ’’انٹرنیٹ سے جڑی ہوئی الیکٹرانک ڈیوائسز کی حفاظت‘‘کو سائبر سیکیورٹی (Cyber Security)کہتے ہیں اور دوسری اصطلاح جو عام استعمال ہوتی ہے وہ ’’سائبر اٹیک‘‘کی ہے عام لفظوں میں ہم اسے یوں کَہ سکتے ہیں کہ انٹرنیٹ سے جڑی ہوئی چیزوں پر حملہ کرکے کسی ادارے یا ملک کی معلومات کو چوری کرنا اور سسٹم کو متاثر کرنا سائبر اٹیک (Cyber Attack)کہلاتا ہے- ہر ملک میں سائبر سیکیورٹی،قومی سیکیورٹی کے مترادف سمجھی جاتی ہے کیونکہ اُس ملک کے باسیوں اور گورنمنٹ اداروں کا مکمل ریکارڈ انٹرنیٹ پر ہوتا ہے جس کے چوری ہونے یا ختم ہونے کی صورت میں بہت سا نقصان اکیلے شخص یا ملک کو اُٹھانا پڑتا ہے-
موجودہ دورمیں ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی نے زندگی میں جدت کے ساتھ حساسیت کو بھی جنم دیا ہے-اگر ہم ماضی کی بات کریں تو ٹرانزسٹر کی ایجاد نے کمپیوٹرکے سائز میں کمی واقع کی جس کے بعد کمپیوٹر لیپ ٹاپ کی شکل میں تبدیل ہو گیا-لیپ ٹاپ سے سیل فون، سیل فون سے سمارٹ فون اور نہ جانے اب کیا کچھ! انٹر نیٹ کی آمد سے جہاں دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے وہاں اس گلوبل ویلج کی سالمیت و بقا کو برقرار رکھنے کیلئے بہت سے چیلنجز اور مشکلات کا سامنا ہے- گلوبل ویلج کو آج جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ سائبر اٹیک کا ہے -اس سے مراد کسی بھی ملک میں رہنے والے لوگوں، مالیاتی ، سیاسی،سرکاری ، نیم سرکاری ، پرائیویٹ اداروں، ہاسپٹلز ، بینک ، نادرا اور پاسپورٹ اداروں کی ویب سائٹ سے معلومات کو چرانا اور اُن کے سسٹم میں موجود ڈیٹا کو ضائع کرنا ’’سائبر اٹیک‘‘کہلاتا ہے-کچھ ممالک کی طرح پاکستان میں بھی سائبر اٹیک سے بچنے کیلئے ایمرجنسی رسپانس ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جس کی مدد سے وہ اپنے ملک کی سائبر سیکیورٹی کے مسائل سے نپٹنے کیلئے ہر وقت تیار اور سائبر اٹیک سے ہوشیار رہتی ہیں- [1]
پچھلے کچھ عرصے سے پوری دنیا ایک نئے خطرے سے دو چار ہے اور یہ خطرہ مستقبل قریب میں بڑھتا دکھا ئی دے رہا ہے-پہلے پہل وائرس فائل کسی ڈیوائس کی صورت میں کمپیوٹر میں داخل ہو جاتی جس پر کلک کرنے سے کمپیوٹر میں موجود ڈیٹا ضائع ہو جاتا تھا پھر اُس کا بھی حل ڈھونڈ لیا گیا - آہستہ آہستہ وائرسز بھی جدید ہوتے گئے اور حل بھی نکلتے چلے گئے لیکن آج پوری دنیا کو جس چیز سے خطرہ لاحق ہے وہ ہیکرز سے ہے-ہیکرز کون ہیں؟ ایک ایساپروگرامر جو کمپیوٹر کی مختلف زبانوں (Languages)پر عبور رکھتا ہو اور دور دراز سے ریموٹ(Access) کے ذریعے اپنی صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے کسی بھی دوسرے نیٹ ورک یا سسٹم میں موجود خامیوں کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُس کے سسٹم کو اپنے قابو میں کر لیتے ہیں جس سے وہ ملکی یا پرسنل معلومات کو حاصل کر کے نقصان پہنچا سکتے ہیں -آج کل ہیکرز ایک ایسے وائرس بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں جس کو کلک کرنے سے بظاہر کوئی بھی فائل اوپن نہیں ہوتی وہ سسٹم کی ساری انفارمشین ’’پاس ورڈز‘‘ اور کی بورڈ(keyboard) کے سٹروکس کومحفوظ کر کے ساری انفارمیشن ہیکرز کو فراہم کر دیتا ہے[2]- جس سے وہ اُس ملک میں رہنے والوں کی کھوج لگا کر بلیک میل کر کے اپنے ناپاک عزائم کوپورے کر نے کی کو شش کرتے ہیں- پرسنل اور ملکی اثاثہ جات کو جد ید ترین ٹیکنالوجی سے لیس کرنے اور سائبر سپیس بنانے سے پہلے، سائبر اٹیک سے بچنے کیلئے مناسب حکمت علمی سے ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پر یوزر کی موجود انفارمیشن کو محفوظ بنانے کی شدید ضرورت ہے تاکہ ملک اور قوم کو آنے والے نقصان سے بچایا جا سکے- دنیا میں مختلف ملکوں کے ہیکرز بہت زیادہ مشہور ہیں جن کا پروفیشن ہی ملک کیلئے کام کرنا ہے جس سے وہ کسی بھی ملک کے سسٹم کی خامیاں تلاش کر کے اُس کا ڈیٹا چوری کر لیتے ہیں یا اپنے کنڑول میں کر لیتے ہیں-اگر ہم سائبر اٹیک کے بات کریں تو 2016ء میں یوکرائن کا پاور گرڈ اسٹیشن معمولی سائبر سکیوئر ہونے کی وجہ سے سائبر اٹیک کی زد میں آیا [3] جس کی وجہ سے ہزاروں گھر بجلی کی سہولت سے محروم ہو گئے-جرمنی کی سٹیل مِل کو بھی سائبر اٹیک کی وجہ سے ملین ڈالر کی سٹیل کا نقصان اُٹھانا پڑا [4]اور تاریخ کی سب سے بڑی بینک ڈکیتی بھی سائبر اٹیک سے کی گئی وہ تقریباً ایک بلین ڈالر کی تھی جس میں 25 سے 30 ملکوں کےتقریباً 100بینک زد میں آئے -[5]
پاکستان میں سوشل میڈیا اور انڈرائڈ ایپس (Android Apps) نے بہت شہرت حاصل کی ہے موبائل یا لیپ ٹاپ رکھنے والا ہر شخص اس پر ٹائم گزارنے کی کوشش کرتا ہے دن بھر کی مصروفیات، پرسنل اور گھریلو معلومات کو اپنی آئی ڈی سے عوامی طور پر شئیر کرکے فرینڈز سے داد وصول کرتا ہے-سوشل میڈیا کے آزادانہ استعمال سے پہلے اس کو سائبر اٹیک سے بچانے کیلئے حفاظتی تدابیر اپنانے کی ضرورت تھی جو سُستی کی نظر ہوئی-سوشل میڈیا استعمال کرنے کیلئے مرد و خواتین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس میں زیادہ تعداد طلباء اور طالبات کی ہے جو اپنی پرسنل اور گھریلو انفارمیشن کوبِلا خوف و خطر متعلقہ یا غیر متعلقہ شخص کوشئیر کرتے ہیں جو کہ بعد میں مختلف جرائم کا پیش خیمہ بنتی ہیں-بالخصوص سوشل میڈیا پر خواتین کو ہراساں (Harassment) کرنا، بلیک میل کرنا ، اُن کی تصاویراور ویڈیوز کو غلط مقاصد کیلئے استعمال کرنے کےواقعات میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے- اس طرح بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات ’’ Credit or Debit ‘‘ کارڈ کے پاسورڈز ،بغیر اجازت کسی بھی الیکٹرانک ڈیوائس سےڈیٹا چوری کرنا، ملک کے شہری، سرکاری اور نیم سرکاری ادارے ، مالیاتی ادارے ، پاسپورٹ اورنادرا آفسز کا ریکارڈ چرانا ، حساس اداروں کی معلومات اور اُن کی آفیشل ویب سائٹ کو نقصان پہنچانا سائبر کرائمز کے زمرے میں آتا ہے- ایسی صورتحال سے بچنے کیلئے ایک مضبوط فائر وال بنانا جس کو کوئی بھی ملکی یا غیر ملکی باشندہ سسٹم میں داخل ہوکر ان معلومات کوکنٹرول یا چوری نہ کر سکے سائبر سیکیورٹی کہلاتا ہے- اس کے علاوہ کاروباری مقاصد کیلئے بھی ان ذاتی معلومات کا استعامل ممکن ہے- حال ہی میں فیس بُک کے بانی نے فیس بُک صارفین کا ڈیٹا استعمال ہونے اور اُس کا مختلف ممالک کی الیکشن کمپین میں استعمال ہونے کا اعتراف کیا ہے نہ جانے اور کتنے واقعات ہیں جس پر منفی سرگرمیوں میں ملوث عناصر اُس شخص کا ڈیٹا استعمال کرنے میں کامیاب ہوئے اوراس طرح کے واقعات کی روک تھام کیلئے ہمیں عصرِ حاضر کےدرپیش چیلنجز کو سامنے رکھتے ہو ئے مناسب پالیسی مرتب کرنے اور عوام کو سوشل میڈیا کے استعمال سے آگاہی دینے کی ضرورت ہے -تاکہ بالعموم عام شہری اور بالخصوص طالب علم جو ہر قوم کے مستقبل کا سرمایہ ہیں وہ کسی دشمن عناصر کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس کر اپنے روشن مستقبل کو تاریک نہ کر بیٹھیں-
اسلامی جمہوریہ پاکستان تمام اسلامی ممالک میں سے واحد جوہری ہتھیار رکھنے والا ملک ہے جس نے بہت ہی کم عرصے میں اپنی خداداد صلاحیتوں کو پوری دنیا میں منوایا ہے بہت سے ملک سائبر سیکیورٹی میں اپنے مالی اور پروفیشنل کی کمی کی وجہ سے پیچھے ہیں اور بد قسمتی سے پاکستان بھی اُس فہرست میں شامل ہے 2017ء (Global Cyber Security Index) کے مطابق پاکستان 76 ویں نمبر پر ہے -[6]پاکستان میں صرف ایک بل 2016ء میں سائبر ایکٹ کے نام سے پاس ہوا[7]- جس میں 23 جرائم کی وضاحت کی گئی ہے جس پر فوجداری کی 30 دفعات لاگو ہیں - انٹرنیشنل ممالک میں ایسے بہت سے بِل اور بہت سابجٹ سائبر سیکیورٹی پر لگایا جاتا ہے جس کی وجہ سے تاحال بہت سے ممالک مضبوط سائبرسیکیورٹی اقدامات کے باوجود وہ سائبر اٹیک سے محفوظ نہیں رہ پائے جن کا تذکرہ درج بالا پیرا میں کیا گیا ہے-پاکستان ایک حساس ملک ہے اور یہ بھی حقیت ہے کہ پاکستان سائبر حملوں کی زد میں ہےجس سے بچنے کیلئے پاکستان کو مناسب حکمت عملی کے ساتھ اپنی سائبر سپیس کو بھی مضبوط بنانا ہوگا -جس طرح سکول اور کالجز میں آئی ٹی کی تعلیم کو فروغ دینے کیلئے مناسب کورس متعارف کروایا گیا اُسی طرح اُن کورسز میں ایک بنیادی اور اہم پہلو سائبر سیکیورٹی کا بھی ہونا چاہیے اور والدین کو بھی اپنے بچوں کے موبائل استعمال کرنے میں نظر رکھنے کی ضرورت ہے-بالخصوص نوجوان نسل جو موبائل اور انٹرنیٹ کا زیادہ استعمال کرتی ہیں اُن کو چاہیے کہ اپنی پرسنل معلومات کسی بھی سوشل میڈیا پر شئیر کرنے سے ہر ممکن گریز کریں- تاکہ بعد میں آپ اور آپ کے گھر والے کسی قانونی چارہ گوئی سے محفوظ رہ سکیں کیونکہ ہم نے مل کر پاکستان اور پاکستان میں رہنے والے باسیوں کی حفاظت کرنی ہے -
٭٭٭