لفظ سائنس، لاطینی لفظ سائنٹیا ’’Scientia‘‘سے اخذکردہ ہے [1] جو وسیع تر مفہوم میں ’’علم‘‘سے عبارت ہے-اس وسیع مفہوم میں، علم کی تمام شاخیں بطور سائنس شمار ہوتی ہیں بالفاظ دیگر فلسفہ ایک سائنس ہے، تاریخ ایک سائنس ہے، قانون ایک سائنس ہے بعین اسی مفہوم میں دیگر علوم بھی سائنس شمار ہوتے ہیں-وسیع تر مفہوم کے مدمقابل اپنے محدود معانی میں سائنس جسے جدید دنیا میں بیان کیا جاتا ہےکہ سائنس طبیعیاتی کائنات (مادی) سےمتعلقہ علم پر مبنی ہے جو تجرباتی و خارجی بنیادوں پر مشاہدہ کرتی ہے یعنی اس کا موضوع مطالعہ مادی دنیا ہے-سائنس کی مذکورہ ہیئت کو ارسطو نے فزکس کانام دیا اور اسےمابعد الطبیعات اور ریاضیات جیسے علوم سے الگ بیان کیا-جسے قرونِ وسطیٰ میں فطری فلسفہ (Natural Philosophy) سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے- عمومی طور پر سائنس کی جو تعریف بیان کی جاتی ہے اُس کے مُطابق اس جہانِ رنگ و بُو اور اِس کے چھوٹے بڑے اجزا اور ان سب کے ایک دوسرے سے جُڑے تفاعلات کو عقلِ انسانی کی استعداد میں آسکنے والے مشاہدات اور تجربات کے ذریعے جاننا اور جانچنا اور اس کا منظم و مربوط مطالعہ کرنا سائنس کہلاتا ہے- ہر ماورائے عقل حقیقت یا شئے کو صرف سائنسی منطقی استدلال کے پیمانے پہ پرکھ کے دیکھنا اور اس کے امکان کا عقلی استعداد کے مطابق تعاقب کرنا بھی سائنس کہلاتا ہے-سائنس کی تعریف روبرٹ ای گبلر یوں بیان کرتے ہیں:
“Science involves more than the gaining of knowledge. It is the systematic and organized inquiry into the natural world and its phenomena. Science is about gaining a deeper and often useful understanding of the world”.[2]
’’سائنس کا دائرہ کارحصول ِعلم پر زیادہ مشتمل ہے- یہ نظام فطرت اور اس کے مظاہر کی بااصولی اور منظم تحقیق( تفتیش و چھان بین)ہے-سائنس دنیا کی عمیق اور مفید تفہیم حاصل کرنے سے متعلق ہے‘‘-
مزید جارجیا یونیورسٹی کے ڈاکٹربروئس ریلس بیک (Dr. Bruce Railsback) اپنے مقالے ’’what is science‘‘میں ڈاکٹر شیلڈن گوتلیب کی بیان کردہ سائنس کی تعریف یوں نقل کرتے ہیں کہ:
“Science is an intellectual activity carried on by humans that is designed to discover information about the natural world in which humans live and to discover the ways in which this information can be organized into meaningful patterns. A primary aim of science is to collect facts (data). An ultimate purpose of science is to discern the order that exists between and amongst the various facts”.[3]
’’سائنس انسانی عقل پر مبنی ایک دانشورانہ سر گرمی ہے جو نظام فطرت سے متعلقہ معلومات کو دریافت کرنے کے لئے ترتیب دی گئی ہے جس میں انسان زندہ رہتے ہیں اورطریقہ کو دریافت کرنا جس میں مذکورہ معلومات کو معقول پیٹرن میں منظم کیا جا سکے-سائنس کا بنیادی مقصد حقائق (ڈیٹا) جمع کرنا ہے-سائنس کا حتمی مقصد مختلف حقائق کے درمیان موجود ضوابط کا انکشاف کرناہے‘‘-
مندرجہ بالا تعریفات کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ سائنس کا بنیادی مقصد مادی دنیا کی وضاحت کرنا ہے،مجموعی لحاظ سےاس کا مطلوب تجربات کے ذریعے فطرتی عمل کی وضاحت بیان کرنا ہے کہ فطرت کیسےکام کرتی ہے؟ یہ تو تعریف تھی فزکس (طبیعات) کے نُقطۂ نظر سے ، تو اس کے بر عکس میٹا فزکس (ما بعد الطبیعات) کے نُقطۂ نظر سے اِسے یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ سائنس مافوق الفطرت یا ورائے عقل سےمتعلق حقائق کی توجیہہ نہیں کرتی-مابعد الطبیعات سائنس کی “Domain”میں نہیں آتے- جیساکہ اپنے پہلے خطبہ ’’علم اور مذہبی مشاہدہ ‘‘ میں علامہ اقبال فرماتےہیں :
“Science may ignore a rational metaphysics; indeed, it has ignored it so far”. [4]
’’سائنس ایک عقلی مابعد الطبیعات کو نظر انداز کر سکتی ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ ماضی میں اس نے ایسا کیا بھی ہے‘‘-
عقل کے پیمانے اور منطقی بنیادوں پر پورا نہ ا ٓنےوالی چیز کے وجود کا انکار ممکن نہیں ٹھہرتا اورنہ ہی اس کی حقیقت کوجھٹلایا جا سکتا ہے -کیونکہ عقل کا فیصلہ جزوی بنیادوں پر ہوتا ہے کلی و مطلق پرنہیں- یعنی عقل کوئی حتمی کسوٹی نہیں جسےبطور حجت تسلیم کیا جائے- عقل کے دائرۂ کار کو لامحدود پیمانوں پر بڑھا دیاجائے تو اس سےعائلی نظام کے قتلِ عام اور جنس پرستی کےجواز کے لئے تالیوں کی گونج میں قانون تو بن سکتے ہیں لیکن حقیقت تک رسائی ممکن نہیں- لہذا !عقل اپنے مخصوص و محدود دائرہ کارمیں راز ہائے سربستہ کو پا نے اور اُن کے اِدراک و شعور تک محدود ہےعقل کو ہر چیز صحیح اور غلط کے انتخاب کرنے کا اختیار نہیں دیا جاسکتا- جسے عظیم مؤرخ و ماہر عمرانیات علامہ عبد الرحمٰن ابن خلدون علمی وادبی دنیا میں مشہور اپنی تصنیف تاریخ ابن خلدون کے ’’مقدمہ ابنِ خلدون‘‘ میں علم کلام کی عقل کےمحدود دائرہ کار کی بڑی احسن انداز میں وضاحت اس مثال سے فرماتے ہیں کہ:
’’اعتراف عجز و قصور سے عقل انسانی کو کچھ داغ نہیں لگتا -عقل بے شک صحیح میزان ہے اس کے احکام سب ٹھیک ہیں -کذاب و خلاف واقعہ کو وہاں گزر نہیں لیکن یہ کام اس کے بوتہ کا نہیں ہے کہ تو حید و آخرت،حقائق صفات الٰہیہ حقیقت ِ نبوت جیسے امور کا پتہ ٹھیک ٹھیک لگا سکے-اس کی مثال بعین ہی ایسی ہوگی کہ کوئی کانٹے میں چاندی سونا تولتا ہوا دیکھ کر ارادہ کردے کہ اس میں ایک پہاڑ تول لے-کیا ممکن ہے ؟ہرگز نہیں مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ کانٹا غلط تھا یا نارسا ہے جہاں تک عقل کی رسائی ہے وہاں تک ٹھیک ٹھیک رائےدیتی ہے اور جو امور اس کی دسترس سے باہر ہیں ان میں مجبور و عاجز ہے-کیونکہ وہ موجودات میں ایک ذرۂ ناچیز سے زیادہ وُقعت نہیں رکھتی‘‘-[5]
لہذا عقلی و فلسفیانہ تجزیہ کےلئے عقل و فلسفے کوشُترِ بےمہار کی طرح نہیں چھوڑا جاسکتا کہ حقیقت کے باغیچے میں غل غپاڑہ کرتی پھرے اور رنگ برنگے پھولوں کو کچلتی پھرے، بلکہ خیر و شر اور اچھائی و برائی کا معیار مذہب کے مبادی اصولوں کی روشنی میں کیا جائے گا-جیسا کہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
’’مذہب کا تجزیہ کرتے وقت فلسفہ، مذہب کو اپنے دائرہ بحث میں کم تر مقام پر نہیں رکھ سکتا- مذہب کسی ایک شعبے تک محدود نہیں یہ نری فکر نہیں ہے-یہ نرا احساس بھی نہیں اور نہ محض عمل، یہ پورے انسان کا پورا ظہار ہے- لہٰذا مذہب کی قدر کا تعین کرتے وقت فلسفے کولازمی طور پر اس کی مرکزی حیثیت پیش نظر رکھنی چاہیے‘‘-[6]
سائنس کادائرہ کار طبیعیات(مادی دنیا)ہےجبکہ سائنس کا مافوق الفطرت عوامل کی ماہیت کو سمجھنااس کے دائرہ بحث میں شامل نہیں - کیونکہ سائنس کا موضوع ِ بحث اوردائرہ کار طبیعیات ہےجس کا انکشاف ہمارے حواس سے ہوتا ہے جس میں مذہبی اور جمالیاتی مشاہدات شامل نہیں ہوتے کیونکہ روحانیات اور مابعد الطبیعات مذہب کےموضوعات میں شامل ہیں- یعنی سائنس کاموضوع مافوق العقل سے متعلقہ مباحث نہیں-سائنسدان اپنے مشاہدے تک جبکہ سائنس ان مسائل پر توجہ مرکوز کرتی ہےجنہیں مشاہدات سے حل کیا جا سکے-جیسا کہ اقبال خُطبات میں فرماتے ہیں کہ:
’’جدید طبیعیات کے حقیقی مقام کو جاننے کےلئے نہایت ضروری ہے کہ ہم واضح طور پر یہ سمجھیں کہ مادہ سے ہماری مراد کیا ہے؟ طبیعیات ایک تجربی علم ہے جو حسی تجربے کے حقائق سے بحث کرتا ہے- طبیعیات کا آغاز محسوس مظاہر سے ہوتا ہے اور انہی پر اس کی انتہا ہے جن کے بغیر ماہر طبیعیات کے لیے ممکن نہیں کہ اپنے نظریات کی تصدیق کر سکے- وہ ناقابل ادراک موجودات مثلاً ایٹم وغیرہ کو مفروضے کےطورپر قبول کر سکتا ہے- مگر وہ ایسا اسی وقت کرتا ہے جب حسی تجربے کو واضح کرنے کے لیے اُس کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں ہوتا- چنانچہ طبیعیات مادی دنیا کا مطالعہ کرتی ہے، یعنی وہ دنیا جو ہمارے حواس سے منکشف ہوتی ہے- اس کے مطالعہ سے ذہنی عوامل اور اسی طرح مذہبی اور جمالیاتی مشاہدات بھی متعلق ہوتے ہیں لیکن یہ اُس کے دائرہ بحث میں شامل نہیں ہوتے کیونکہ یہ دائرہ بحث مادی دنیا یعنی اشیائے مدرکہ کی کائنات تک محدود ہے‘‘-[7]
اب یوں کہنا کہ ’’جدید سائنس انسانی زندگی کےتمام پہلوؤں کا احاطہ کئے ہوئے ہےاور اپنی حیثیت میں تمام امور کی توجیہہ پیش کرتی ہے‘‘ دراصل یہ کہنا خود سائنسی طریقہ کار سے متصادم ہے کیونکہ یہ سائنس کے بنیادی نظریات کے برعکس ہے- کیسے اپنا محدود دائرہ کار رکھنےوالی چیز کو حقیقت مطلقہ کے سمجھنے اورپرکھنے کا آلہ سمجھ لیا جائے-ایسی محدود دائرہ کار کی حامل شےکا اطلاق لا محدود پر کرنا انسانی شعور کی غلطی ہے یا پھرجانتے ہوئےاپنی فکری شدت پسندی اور ہٹ دھرمی پر قائم رہنا ہے-سائنس کو ہر چیزکی کسوٹی سمجھنا اور ہر چیز کے وجود کا ادراک سائنس کےسانچہ میں ڈال کر کرنا خود سائنسی بنیادوں کے خلاف ہےکیونکہ سائنس اپنے دائرہ کار کا تعین کر چکی جو محدود ہے-
جب ہم علم طبیعیات (Physics)،علم حیاتیات (Biology) اور فلسفہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو واضح ہوتا کہ تینوں علوم طبیعی کائنات کے حقائق سےمتعلق بحث کرتے ہیں-تینوں علوم بالترتیب اپنے دائرہ کار کے مباحث میں کچھ یوں ہیں:کائنات کی ابتداء کب ہوئی؟ تخلیقِ کائنات کیسے ہوئی ؟اور اس کے عمل میں کیا کارفرما ہے؟(جیسے علت ومعلول سے بیان کیا جاتاہے) علم حیاتیات، حیات کیا ہے؟ مظاہر حیات کی حقیقت کیاہے؟ حیاتیات کا اِرتقائی عمل کیا ہے؟ حیات اِنسانی کاآغازکب ہوا؟انسانی زندگی کن اِرتقائی مراحل سے گزری ہے ؟ سے بحث کرتا ہےجبکہ فلسفہ حقیقت کا متلاشی اورعلم کی اصلیت کیا ہے؟جیسے مباحث کا احاطہ کئے ہوئے ہے-مذکورہ تینوں علوم کی وضاحت سےعیاں ہو جاتا ہے کہ تینوں حقائق کی تلاش میں ہیں جبکہ حقائق سےمتعلق انکشاف کا حصول قطعیت و کلیت سے نہیں کرتی-لہٰذا ایک شاخِ علم کے طور پہ سائنس اور اِس کی مزید شاخوں کی نفی نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی ان کی حوصلہ شکنی کی جا سکتی ہے ، البتّہ اِس کی اتنی حوصلہ افزائی کردینا کہ یہ آپے سے باہر ہوکر اخلاقیات کے پیمانے بھی طے کرنا شروع کردے تو یہ خود سائنس کے اپنے طے کردہ اصُولوں کے منافی ہوگا-اِس لئے سائنس اپنی طے کردہ حدود میں رہتے ہوئے ہی انسانی زندگی کیلئے ایک مُفید علم ثابت ہو سکتی ہے-
بلاشبہ انسانی زندگی میں سہولتیں بہم پہنچانے کا سہراسائنس کے سر ہے- سائنس کا کردار انسانی زندگی میں حقیقت ہے، مشینی سہولتوں سے لبریز آج کی پرتعیش زندگی اسی کے مرہونِ منت ہے- انسانی زندگی کو لاحق امراض کے علاج کیلئے ایجاد کی گئی ٹیکنالوجی اور دریافت کی گئی میڈیسن سائنس ہی کا کریڈٹ ہیں-تحقیق میں چھان بین ہویا تفتیش میں کسی چیزکا کھوج لگانا سائنس ہی کے کارنامے ہیں- آج امورِ زندگی کوآرام و آسائش سے سر انجام دینا سائنس کی بدولت ہی ہے- جوان حوصلوں سے تسخیرِ کائنات کرنے، چاند پر قدم رکھنےاور ستاروں پر کمند ڈالنے جیسے انسانی عزائم سائنس کی بہ نسبت ہیں -سائنس کی کمال حد تک ترقی نے مادّی علوم کی رِفعتوں کو چھوا ہے اور جتنی ترقی کے مراحل و مدارج سائنس نے طے کئے ہیں اس سائنسئ ترقی میں یہ بیانیہ بلند کیا جانے لگا کہ ہر چیز کو پرکھنے کے لئے سائنس بطور جز و لازم ہے جو سادہ لوح انسان کا ذہنی رجحان بھی بن گیا کہ ہر چیز کو ثابت کرنے کے لیے سائنس کی مُہرِ تصدیق ثبت ہونی ضروری ٹھہرتی ہے-ایجادات کی ذیل میں سائنس کا عظیم خدمات سر انجام دینے کا مطلب یہ نہیں کہ اسے ’’ہر چیز‘‘ کو پرکھنے کا آلہ سمجھ لیا جائے- ہرگز یہ مطلب بھی اخذ نہ کیا جائے کہ سائنس کو شجر ممنوعہ سمجھ کر پس پشت ڈال دیا جائے بلکہ متعین شدہ حدود میں سائنس کے عمل و دخل کو مانا جائے- مگر پیشِ نظر رہے کہ لامحدود کا احاطہ محدود چیز کیسے کرسکتی ہے ؟ یوں محض سائنس کو صحیح و غلط ،حق و باطل ،سچ وجھوٹ کا پیمانہ قراردینا کنوئیں میں رہائش پذیرمینڈک کی طرح کنوئیں کو سمندر تسلیم کرنا ہوگا-لہذا انسانی زندگی و کلی علوم کا منبع ومآخذ محض جدید سائنس کو قرار دینا اور زندگی کی تمام توجیہات کی رہنمائی صرف اِسی سےحاصل کرنے کو سائنسی شدت پسندی سےتعبیر کیاگیا ہے اور یہ نظریہ ’’سائنٹزم‘‘ کہلاتاہے-
سائنٹزم /سائنس ازم:
سائنٹزم کی تفصیل پڑھنے سے پہلے حکیم الامت علامہ اقبالؒ کےان تاریخی الفاظ کوذہن نشین کر لیں جو انہوں نے اپنے دوسرے خطبے میں فرمائے کہ:
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنس کے نظریات قابل اعتماد علم کی تشکیل کرتے ہیں کیونکہ وہ قابل تصدیق ہیں اور ہمیں اس قابل بناتے ہیں کہ ہم فطرت کے بارے میں پیش گوئی کر سکیں اور اسے قابو میں رکھ سکیں- مگر ہمیں یقیناً یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ جسے ہم سائنس کہتے ہیں وہ حقیقت تک رسائی کا کوئی واحد منظم ذریعہ نہیں ہے بلکہ یہ فطرت کے جزوی مطالعات کا ایک مجموعہ ہے- ایک کلی تجربے کے جزوی مطالعات جو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ نظر نہیں آتے‘‘ -[8]
فطرت کوسائنسی طریقہ فکر سے انسان جانچ و پرکھ سکتا ہے اور قوانین فطرت کے میزان پر انسان محدود پیمانے میں جزوی فوائد حاصل کرسکتا ہے یعنی ضمنی نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں لیکن کلی نتائج کا سائنسی طرز فکر سے اخذ ہونا محال ہے- بالفاظ دیگر سائنس ہرشعبہ زندگی کا حتمی بنیادوں پر تعین کرنے سےقاصرہے-جبکہ عہد جدید کے الحادی مفکرین پوری شدت پسندی کے ساتھ اس پربضد ہیں کہ سائنس تمام سوالات کے جوابات اپنے اندر سموئے ہوئےہے-Scientismکے معتقدین کا ماننا ہے کہ عقلی علم ہی سائنٹفک طریقہ فکر ہے اس کے علاوہ علم غیر منطقی، جذباتیت اور حماقت پر مبنی ہے جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں[9]-یعنی :
Scientismایک ایسا غطریسیات: اذعانی اصولوں پرمبنی علم (راسخ الاعتقادی )کانظریہ ہے جس نے فرضی طور پر طے کر رکھا ہے کہ سائنس اپنے محدود معنوں میں تمام سوالات کےجوابات سموئے ہے-Scientismکےماننےوالوں کے نزدیک مابعدالطبیعات کے مطالبات باطل ہیں اور اس کاحقیقت سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے اور طبیعی کائنات(مادی دنیا) ہی سب کچھ ہے-مادی دنیا سوائے تین جہات کہ،اگر ہم ٹائم کو بھی بطور جہت شمارکریں تو چار جہات کے علاوہ کچھ بھی نہیں-جن کا ادراک حواس خمسہ سےکیاجاسکتا ہے[10]- سائنٹزم کو سادہ مفہوم میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ ’’حقیقتِ کلی کو جاننے کا واحد راستہ سائنس ہی ہے اور سائنس ہر طرح کےسوال کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے-لہذا اگر کسی بیان کو سائنسی بنیادوں پرثابت نہیں کیا جاسکتا تو وہ سچ نہیں اور سچ متعین کرنے کا حتمی راستہ سائنس ہے‘‘ - ظاہر ہے کہ اس طرح کی فکری شدت پسندی خود سائنس کے اپنے طے کردہ اصُولوں کے نہ صرف خلاف ہے بلکہ فی الحقیقت سائنس کی شدید نفی کے مترادف ہے اور سائنس کی بھلائی اِس میں ہے کہ اُسے ایسی مغالطہ آمیزانہ ہمدردی سے دُور رکھا جائے اور سائنس کی اندھی عقیدت کا شکار بیمار مُلحد ذہنیت کو سائنسی بُنیادوں اور بُنیادی اُصُولوں کا احترام سکھایا جائے-یہ صِرف اہلِ پاکستان یا مسلمان دانشوروں ہی کی رائے نہیں بلکہ دُنیا کے اکثر و بیشتر مفکرین کی یہی رائے ہے - کیونکہ سائنٹزم سائنس کے منافی ہے ، سائنس اپنے نظریات کی ابدیّت اور دوامیّت کا مطالبہ نہ کرتی ہے اور نہ کر سکتی ہے، جبکہ سائنٹزم کے ماننے والے اصرار اور تکرار سے یہ دُہراتے پھرتے ہیں کہ سائنس ہی سب کچھ ہے اور یہ ابدی و دوامی ہے -
ایک نظر سائنٹزم کی عالمی تعریف پہ کر لیں کہ دُنیا سائنٹزم کی کیا تعریف مقرر کرتی ہے، مختلف لوگوں نے سائنٹزم کو بیان کیا ہے جیسا کہ سر رچرڈ ولیئم لکھتے ہیں:
“Only certifiably scientific knowledge counts as real knowledge”. [11]
’’صرف سائنسی طورپر مصدقہ علم ہی حقیقی علم شمار ہوتا ہے‘‘-
سائنس ازم کے نظریہ کے مطابق علم محض سائنسی بنیا دوں پر حاصل کردہ علم ہے جبکہ غیر سائنسی دعوؤں کی کوئی حقیقت نہیں اگرچہ حقیقت میں وہ دعوی مبنی بر حق ہو- جیساکہ اگرعقل اپنی محدود وسعتِ انضمامیت سےکسی بڑی بات کو ہضم کرنے سے قاصرہو تو اسےغیر عقلی تسلیم کیاجائے-
سائنٹزم کومشہور آسٹریلوی پروفیسر جان کیوبرن اپنی کتاب میں یوں بیان کرتےہیں-
“Only scientific knowledge is valid . . . that science can explain and do everything and that nothing else can explain or do anything: it is the belief that science and reason, or scientific and rational, are co-extensive terms”.[12]
’’محض سائنٹفک علم ہی صحیح ہے-سائنس ہر چیز بیان کرسکتی ہے اور ہر عمل کر سکتی ہے جبکہ اس کے مد مقابل اور کچھ نہیں جو وضاحت بیان کر سکے یا کچھ کر پائے: یہ یقین ہے کہ سائنس اور عقل، یا سائنسی اور منطقی جیسی، مشترکہ اصطلاحات ہیں‘‘-
رچر ڈکیرئیر سائنٹزم کی وضاحت اپنی کتاب ’’بغیر خدا کے حواس اور نیکی: مابعدالطبیعاتی فطرت کا دفاع‘‘ میں یوں بیان کرتا ہے:
“An explanation of everything without recourse to anything supernatural, a view that takes reason and science seriously, and expects nothing from you that you cannot judge for yourself”.[13]
’’بغیر کسی مافوق الفطرت کی استعانت، سائنس ہر چیز کی وضاحت ہے، ایک نقطہ نظر جوعقل اور سائنس کو سنجیدگی سے اختیار کرتا ہے اور آپ سے کچھ توقع نہیں رکھتا کہ آپ خود سے فیصلہ کریں‘‘-
جہاں سائنٹزم کو بہت سے لوگوں نے تقویت دی وہیں اس کی مخالفت بھی کی گئی جیساکہ میامی یونیورسٹی شعبہ فلسفہ کے پروفیسر سوسان ہاک اپنی مشہور کتاب ’’Defending Science - within Reason‘‘میں کہتے ہیں:
Scientism “is an exaggerated kind of deference towards science”.[14]
’’سائنس کی عظمت و توقیر کیلئے سائنٹزم کو مبالغہ آمیز کیا گیا ہے‘‘-
سائنٹزم کی مندرجہ بالا بحث میں سائنسی طریقہ فکر کو مرکزیت حاصل ہے-یعنی اسی نقطہ نظر نے کائناتی تعبیر کا احاطہ کیا ہوا ہے- کائنات کی تفہیم مفروضہ اولین (Presuppositions) کے مہیا کردہ فریم ورک میں کی جاتی ہے-اس نظریہ میں فکری منہج کی مرکزی حیثیت سائنس کو دی گئی-اس نظریہ کی روشنی میں غیر سائنسی علوم کو بھی سائنسی بنیادوں پر استوار کیا گیا اور دینی و مذہبی علوم کو سائنسی علوم کے ماڈل پر تعبیر کیا گیا-اس تعبیر وتشریح کو خالص سائنسی سطح پر دیکھا جانے لگا جبکہ سائنسی مطالعہ میں معروضیت کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے-اسی پس منظر میں جو اصول ترتیب پائے انہوں نے روایتی تصورِ دین کا ڈھانچہ بدل دیا کیونکہ سائنس اپنے محدود دائرہ کار میں لامحدود اشیاء کا تجزیہ کرنے سے قاصر ہے-مثلاً: اخلاقیات کیا ہے؟اس کا جواب سائنس کے پاس نہیں - سائنس نہ صرف اخلاقی قدریں مہیا نہیں کرتی بلکہ اخلاقی اقدار کی بنیاد دینے میں ناکام ہے یعنی اچھے اور برے میں تمیز نہیں دیتی- اقبال کے الفاظ میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ سائنس سورج کی شُعاعوں کو گرفتار تو کر سکتی ہے مگر اُن سے انسانی زیست کی شبِ تاریک کو سحر نہیں کیا جا سکتا-ایسے تہذیبی رویے جس سے معاشرہ میں ہیجان جیسی کیفیت سے بچا جاتا ہے، معاشرتی اعتدال و توازن قائم ہوتا ہے، ایک کسوٹی جس سے خیر و شر میں فرق کیا جاتا ہے سائنس ان اخلاقی پاکیزہ تہذیبی رویوں سے عاری نظر آتی ہے - جبکہ سائنٹزم جیسے بھیانک نظریات تسلیم کرنے سے معاشرہ میں اخلاقیات کا جنازہ نکل جاتا ہے اور اخلاقیات کے ’’زوال‘‘ کی صورت میں بڑے بڑے ناقابلِ حل بُحران پیدا ہو جاتے ہیں - کسی بھی معاشرہ کا حقیقی تشخص اس میں اخلاقی اقدار سے عیاں ہوتا ہے، اخلاقی اقدار کی غیر موجودگی میں معاشرہ اپنا حقیقی تشخص کھو دیتا ہے-اس مقام پر مذہب اور سائنس کےنظریات میں تضادواقع ہوتاہے کیونکہ اؤل الذکر زندگی کا مکمل احاطہ کئے ہےجبکہ مؤخرالذکرمادی دنیا کی تعبیر کرتی ہے-
مذہب انسان کی عملی وفکری زندگی کے جملہ معاملات کااحاطہ کئے ہوئے ہے-مذہب ہر معاملہ میں خواہ مادی ہو یاروحانی، سیاسی ہو یا ثقافتی،تعلیمی پہلو ہویا معاشی الغرض ریاستی و حکومتی تمام معاملات کی اصولی رہنمائی مہیا کرتاہے- جبکہ سائنس کامبحث مادہ ہے اوریہ اپنے محدود دائرہ کار میں فعال ہے- مذہب اپنی شکل میں مکمل حتمی صورت رکھتا ہے اور تمام ضرویات انسانی کی رہنمائی میں خود کفیل ہوتا ہے-لامحالہ علوم مادی ہوں یا روحانی، تما م غیر سائنسی و سائنسی کا مرجع و منبع ہے لہذا! مذہب کے علاوہ کوئی معیاری پیمانہ نہیں ہے جو موجود مبہم تصورات پر حدود کاتعین کرے-بقول علامہ اقبال ؒ:
’’اس میں شک نہیں کہ مذہبی ایمانیات اور اعتقادات مابعد الطبیعی مفہوم بھی رکھتے ہیں-اس میں شک نہیں کہ ان کی حیثیت ان تعبیرات کی سی نہیں جو علوم فطرت سے متعلقہ تجربات کا موضوع ہیں- مذہب کوئی طبیعیات یا کیمیا نہیں کہ وہ علت و معلول کے ذریعے فطرت کی عقدہ کشائی کرے- اس کا مقصد تو انسانی تجربے کے ایک بالکل ہی مختلف میدان سے ہے- یعنی مذہبی تجربہ کسی سائنسی تجربے پر محمول نہیں کیا جا سکتا‘‘-[15]
سائنس اپنی ذات میں مکمل طورپر اپنے ذِہنی اِرتقاءو فکری بالیدگی سے بہرہ ور نہیں ہو ئی-ایک مخصوص مقررہ مدت تک کوئی بھی سائنسی نظریات حقیقت اور مسلمہ قانون مانے جاتے ہیں لیکن اسے درج حتمیت میں شمار نہیں کیا جاسکتا-جیساکہ متاخرین سائنس دان، متقدمین کے حتمی سمجھے جانے والے حرف آخر نظریات کو رد کرتے نظر آتے ہیں-حقائق کا درجہ رکھنے والے سائنسی نظریات کو جدید سائنس یکسر مسترد کر چکی ہے-ان سائنسئ نظریات میں ترمیم، اِضافہ اور اِصلاح کی گنجائش باقی رہتی ہے- چنانچہ سائنسی علوم نئی پیش آمدہ تحقیق و نظریات سے اپنے تسلیم شدہ نظریات سےرجوع کر سکتے ہیں-پھر بھی ڈھٹائی سےسائنسی بنیادوں پر اخذشدہ علم کو ہی حتمی کہا جائے تو چمکادڑ کو دن میں نظر نہ آنے پر سورج کو قصور وار نہیں ٹھہرایا جاسکتا-
گر نہ بیند بروز شیرہ چشم |
مذکورہ بالا مباحث تمام سے یہ عیاں ہوجاتا ہےکہ:
۱ سائنس کاکام محض مظاہر کے مادی اسباب تلاش کرنا ہے- اوراس کامبحث مادہ ہے-
۲ سائنس اپنے محدود دائرہ کار میں عمل د خل کرتی ہے-
۳ سائنس کا حقائق سےمتعلق انکشاف قطعیت و کلیت سے نہیں ہوتا-
۴ محدود دائرہ کار کی حامل سائنس کو لامحدود اشیاء کےپرکھنے کا آلہ نہیں سمجھا جا سکتا -
۵ سائنس اخلاقی قدریں مہیا نہیں کرتی-
۶ سائنسی قوانین معاشرت طےنہیں کرتی بلکہ انہیں متعین کرنے میں بھی ممدومعاون ثابت نہیں-
۷ سائنسی نظریات اپنی ذات میں مکمل طورپر حتمی شکل اختیار نہیں کئےہوئے-
۸ سائنس کےدائرہ کار میں مافوق الفطرت اورمابعد الطبیعات جیسےعوامل نہیں آتے-
حضرت اقبالؒ کانٹ اورغزالی کے افکار و نظریات میں فرق بیان فرماتے ہیں کہ اؤل الذکر نے اپنی فکر کی بنیاد محدود دائرہ کار پر مبنی علم پررکھی جبکہ مؤخر الذکر لامتناہی کل پر فکر کو پرکھا جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں:
’’تاہم غزالی اور کانٹ میں ایک بنیادی فرق ہے- کانٹ اپنے بنیادی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے خدا کے بارے میں علم کے امکان کی توثیق نہ کر سکا جبکہ غزالی نے تجزیاتی فکر میں اس کی امید نہ پا کر صوفیانہ تجربے کی طرف رجوع کیا اور یوں مذہب کے لئے ایک الگ دائرہ کار دریافت کر لیا- نتیجتاً اس نے سائنس اور مابعد الطبیعات سے الگ خود مکتفی حیثیت میں مذہب کے زندہ رہنے کے حق کو دریافت کر لینے میں کامیابی حاصل کر لی- تاہم صوفیانہ مشاہدے میں لامتناہی کل کی معرفت نے اسے فکر کی متناہیت اور نارسائی کا یقین دلا دیا‘‘-[16]
المختصر !تجرباتی و خارجی بنیادوں پرطبیعیاتی کائنات (مادی دُنیا) کامشاہدہ کرنے والی سائنس کا مافوق الفطرت اورمابعد الطبیعات جیسے پیچیدہ عوامل پر اطلاق نہ صرف اس کے دائرہ کار کے برعکس بلکہ بنیادی توجیہات کے بھی متضاد ہے- اگر پھربھی سائنس کی روشنی میں زندگی کی تمام توجیہات طےکی جائیں، محدود دائرہ کار کی حامل سائنس کو لامحدود اشیاء کےپرکھنے کا آلہ سمجھا جائے، سائنسی طریقہ فکر کو مرکزیت دی جائے اور ڈھٹائی اور شد و مد سے سائنس کا اطلاق کلی علوم ظاہر اور باطن پر کیا جائے تو اسے الحاد کی شدت پسندی کہنابجا ہوگا- مذہب اور سائنس کی بحث میں اکثر لوگ یہی نُکتہ زیرِ غور نہیں لا پاتے کہ اِن دونوں کا میدان ہی الگ الگ ہے ان میں ٹکراؤ تو تب ہو کہ یہ ایک ہی میدان میں ایک دوسرے پہ سبقت لےجانے کی کوشش میں ہوں جیسا کہ معاشیات میں سرمایہ داری اور اشتراکیت کے مابین تھا یا بین الاقوامی تعلقات میں رئیلزم اور لبرلزم کے مابین ہے، سائنس اور مذہب کی کیفیت دی گئی ان دونوں مثالوں سے مختلف ہے - سائنس اور مذہب کے مابین کوئی ازلی ،ابدی اورمستقل جنگ نہیں ہےجبکہ حقیقت یہ ہے کہ سائنس کی بجائے سائنٹزم کی شدت پسندانہ فکر نہ صرف مذہب بلکہ دیگر شعبہ ہائے زندگی سے مستقل حالت جنگ میں ہے- اِس لئے سائنس اور سائنٹزم کے فرق کو جاننا ضروری ہے، سائنٹزم کے جن کو بوتل میں بند کرنا اور سائنٹزم کی چُڑیل کو قید کرنا ضروری ہے-جس طرح مذاہب کو اُن کے ماننے والوں کے دُہرے معیارات سے نُقصان پہنچتا رہا ہےاِسی طرح آج سائنس کو سب سے بڑا خطرہ سائنٹزم کی فکری شِدّت پسندی سے ہے-
٭٭٭
[1]J. Ruskin, The Nineteenth Century, 1878, 4, 1072 n. Reprinbed in Works, ed. Cook and Wedderburn, London, 1908, vol. xxxiv., p. 157.
[2]Gabler, Robert E, Physical geography. Nelson Education, 2008,P-13
[3]http://www.personal.psu.edu/faculty/a/c/acp103/PSYCH105/whatisscience.htm
[4]Reconstruction of Religious Thought in Islam,1
[5](تاریخ ابن خلدون ،ص :506)
[6]Reconstruction of Religious Thought in Islam,1
[7]Reconstruction of Religious Thought in Islam,2
[8]Ibid
[9]Hutchinson, I. 2012. Monopolizing knowledge: a refutation of scientism. In: Faraday Institute Summer Course no. 7.
[11]Robinson, Daniel N., and Richard N. Williams, eds. Scientism: The New Orthodoxy. Bloomsbury Publishing, 2015.P.6
[12]Cowburn, John. Scientism: A Word We Need. Wipf and Stock Publishers, 2013.P-23
[13]Carrier, Richard. Sense and goodness without God: a defense of metaphysical naturalism. AuthorHouse, 2005.P-4
[14]Haack, Susan. Defending science-within reason: Between scientism and cynicism. Prometheus Books, 2011. 17
[15]Reconstruction of Religious Thought in Islam,1
[16]Ibid
لفظ سائنس، لاطینی لفظ سائنٹیا ’’Scientia‘‘سے اخذکردہ ہے [1] جو وسیع تر مفہوم میں ’’علم‘‘سے عبارت ہے-اس وسیع مفہوم میں، علم کی تمام شاخیں بطور سائنس شمار ہوتی ہیں بالفاظ دیگر فلسفہ ایک سائنس ہے، تاریخ ایک سائنس ہے، قانون ایک سائنس ہے بعین اسی مفہوم میں دیگر علوم بھی سائنس شمار ہوتے ہیں-وسیع تر مفہوم کے مدمقابل اپنے محدود معانی میں سائنس جسے جدید دنیا میں بیان کیا جاتا ہےکہ سائنس طبیعیاتی کائنات (مادی) سےمتعلقہ علم پر مبنی ہے جو تجرباتی و خارجی بنیادوں پر مشاہدہ کرتی ہے یعنی اس کا موضوع مطالعہ مادی دنیا ہے-سائنس کی مذکورہ ہیئت کو ارسطو نے فزکس کانام دیا اور اسےمابعد الطبیعات اور ریاضیات جیسے علوم سے الگ بیان کیا-جسے قرونِ وسطیٰ میں فطری فلسفہ (Natural Philosophy) سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے- عمومی طور پر سائنس کی جو تعریف بیان کی جاتی ہے اُس کے مُطابق اس جہانِ رنگ و بُو اور اِس کے چھوٹے بڑے اجزا اور ان سب کے ایک دوسرے سے جُڑے تفاعلات کو عقلِ انسانی کی استعداد میں آسکنے والے مشاہدات اور تجربات کے ذریعے جاننا اور جانچنا اور اس کا منظم و مربوط مطالعہ کرنا سائنس کہلاتا ہے- ہر ماورائے عقل حقیقت یا شئے کو صرف سائنسی منطقی استدلال کے پیمانے پہ پرکھ کے دیکھنا اور اس کے امکان کا عقلی استعداد کے مطابق تعاقب کرنا بھی سائنس کہلاتا ہے-سائنس کی تعریف روبرٹ ای گبلر یوں بیان کرتے ہیں:
“Science involves more than the gaining of knowledge. It is the systematic and organized inquiry into the natural world and its phenomena. Science is about gaining a deeper and often useful understanding of the world”.[2]
’’سائنس کا دائرہ کارحصول ِعلم پر زیادہ مشتمل ہے- یہ نظام فطرت اور اس کے مظاہر کی بااصولی اور منظم تحقیق( تفتیش و چھان بین)ہے-سائنس دنیا کی عمیق اور مفید تفہیم حاصل کرنے سے متعلق ہے‘‘-
مزید جارجیا یونیورسٹی کے ڈاکٹربروئس ریلس بیک (Dr. Bruce Railsback) اپنے مقالے ’’what is science‘‘میں ڈاکٹر شیلڈن گوتلیب کی بیان کردہ سائنس کی تعریف یوں نقل کرتے ہیں کہ:
“Science is an intellectual activity carried on by humans that is designed to discover information about the natural world in which humans live and to discover the ways in which this information can be organized into meaningful patterns. A primary aim of science is to collect facts (data). An ultimate purpose of science is to discern the order that exists between and amongst the various facts”.[3]
’’سائنس انسانی عقل پر مبنی ایک دانشورانہ سر گرمی ہے جو نظام فطرت سے متعلقہ معلومات کو دریافت کرنے کے لئے ترتیب دی گئی ہے جس میں انسان زندہ رہتے ہیں اورطریقہ کو دریافت کرنا جس میں مذکورہ معلومات کو معقول پیٹرن میں منظم کیا جا سکے-سائنس کا بنیادی مقصد حقائق (ڈیٹا) جمع کرنا ہے-سائنس کا حتمی مقصد مختلف حقائق کے درمیان موجود ضوابط کا انکشاف کرناہے‘‘-
مندرجہ بالا تعریفات کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ سائنس کا بنیادی مقصد مادی دنیا کی وضاحت کرنا ہے،مجموعی لحاظ سےاس کا مطلوب تجربات کے ذریعے فطرتی عمل کی وضاحت بیان کرنا ہے کہ فطرت کیسےکام کرتی ہے؟ یہ تو تعریف تھی فزکس (طبیعات) کے نُقطۂ نظر سے ، تو اس کے بر عکس میٹا فزکس (ما بعد الطبیعات) کے نُقطۂ نظر سے اِسے یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ سائنس مافوق الفطرت یا ورائے عقل سےمتعلق حقائق کی توجیہہ نہیں کرتی-مابعد الطبیعات سائنس کی “Domain”میں نہیں آتے- جیساکہ اپنے پہلے خطبہ ’’علم اور مذہبی مشاہدہ ‘‘ میں علامہ اقبال فرماتےہیں :
“Science may ignore a rational metaphysics; indeed, it has ignored it so far”. [4]
’’سائنس ایک عقلی مابعد الطبیعات کو نظر انداز کر سکتی ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ ماضی میں اس نے ایسا کیا بھی ہے‘‘-
عقل کے پیمانے اور منطقی بنیادوں پر پورا نہ ا ٓنےوالی چیز کے وجود کا انکار ممکن نہیں ٹھہرتا اورنہ ہی اس کی حقیقت کوجھٹلایا جا سکتا ہے -کیونکہ عقل کا فیصلہ جزوی بنیادوں پر ہوتا ہے کلی و مطلق پرنہیں- یعنی عقل کوئی حتمی کسوٹی نہیں جسےبطور حجت تسلیم کیا جائے- عقل کے دائرۂ کار کو لامحدود پیمانوں پر بڑھا دیاجائے تو اس سےعائلی نظام کے قتلِ عام اور جنس پرستی کےجواز کے لئے تالیوں کی گونج میں قانون تو بن سکتے ہیں لیکن حقیقت تک رسائی ممکن نہیں- لہذا !عقل اپنے مخصوص و محدود دائرہ کارمیں راز ہائے سربستہ کو پا نے اور اُن کے اِدراک و شعور تک محدود ہےعقل کو ہر چیز صحیح اور غلط کے انتخاب کرنے کا اختیار نہیں دیا جاسکتا- جسے عظیم مؤرخ و ماہر عمرانیات علامہ عبد الرحمٰن ابن خلدون علمی وادبی دنیا میں مشہور اپنی تصنیف تاریخ ابن خلدون کے ’’مقدمہ ابنِ خلدون‘‘ میں علم کلام کی عقل کےمحدود دائرہ کار کی بڑی احسن انداز میں وضاحت اس مثال سے فرماتے ہیں کہ:
’’اعتراف عجز و قصور سے عقل انسانی کو کچھ داغ نہیں لگتا -عقل بے شک صحیح میزان ہے اس کے احکام سب ٹھیک ہیں -کذاب و خلاف واقعہ کو وہاں گزر نہیں لیکن یہ کام اس کے بوتہ کا نہیں ہے کہ تو حید و آخرت،حقائق صفات الٰہیہ حقیقت ِ نبوت جیسے امور کا پتہ ٹھیک ٹھیک لگا سکے-اس کی مثال بعین ہی ایسی ہوگی کہ کوئی کانٹے میں چاندی سونا تولتا ہوا دیکھ کر ارادہ کردے کہ اس میں ایک پہاڑ تول لے-کیا ممکن ہے ؟ہرگز نہیں مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ کانٹا غلط تھا یا نارسا ہے جہاں تک عقل کی رسائی ہے وہاں تک ٹھیک ٹھیک رائےدیتی ہے اور جو امور اس کی دسترس سے باہر ہیں ان میں مجبور و عاجز ہے-کیونکہ وہ موجودات میں ایک ذرۂ ناچیز سے زیادہ وُقعت نہیں رکھتی‘‘-[5]
لہذا عقلی و فلسفیانہ تجزیہ کےلئے عقل و فلسفے کوشُترِ بےمہار کی طرح نہیں چھوڑا جاسکتا کہ حقیقت کے باغیچے میں غل غپاڑہ کرتی پھرے اور رنگ برنگے پھولوں کو کچلتی پھرے، بلکہ خیر و شر اور اچھائی و برائی کا معیار مذہب کے مبادی اصولوں کی روشنی میں کیا جائے گا-جیسا کہ اقبال ()فرماتے ہیں:
’’مذہب کا تجزیہ کرتے وقت فلسفہ، مذہب کو اپنے دائرہ بحث میں کم تر مقام پر نہیں رکھ سکتا- مذہب کسی ایک شعبے تک محدود نہیں یہ نری فکر نہیں ہے-یہ نرا احساس بھی نہیں اور نہ محض عمل، یہ پورے انسان کا پورا ظہار ہے- لہٰذا مذہب کی قدر کا تعین ?