مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام راونڈ ٹیبل ڈسکشن بعنوان ’’معاشرے میں امن اور برداشت کے لیے صوفیاء کا کردار‘‘کا انعقاد یکم مئی 2018ء کو ریکارڈ ہال لندن میں کیا گیا- ڈاکٹر ہسام الملک (سینئر ٹیچنگ فیلو کنگز کالج، لندن )، ڈاکٹر لیلیٰ عاصمہ ( ڈائریکٹر ادارہ برائے روحانی مذاہب کے مابین مفاہمت)، جناب ایم اے خان ( مصنف اور مترجم کتبِ صوفیاء )، ڈاکٹر عرفان العلاوی الیمانی ( مؤرخ ،تاریخ حجاز و ڈائریکٹر اسلامی ورثہ فاونڈیشن ) اور بیرسٹر عمار فاروق نے ڈسکشن میں حصہ لیا - ڈاکٹر اقبال حسین (پریزیڈنٹ مسلم انسٹیٹیوٹ یو کے چیپٹر )نے افتتاحی کلمات ادا کیے- علی افتخار ( پروگرام مینیجر دی مسلم ڈیبیٹ )نے ماڈریٹر کے فرائض سرانجام دئیے-مقررین کے اظہارِ خیال کے بعد وقفہ سوال و جواب بھی منعقد ہوا جس میں شرکاء نے بھر پور حصہ لیا اور معزز پینل کی جانب سے شرکاء کے سوالات کے تسلی بخش جوابات دیئے گئے-
معزز مہمان گرامی کے اظہار خیال اور وقفہ سوال و جواب کا خلاصہ درج ذیل ہے:
نبی کریم (ﷺ)کے زمانے میں تصوف، زہد کے حوالے سے جانا جاتا تھا-زہد کا مطلب اپنے آپ کو روک کے رکھنا ہے-اصحابِ صفہ کا یہ مخصوص درس تھا - اسی علم کو معرفت بھی کہتے ہیں اور جو لوگ راہ سلوک کو اپناتے ہیں انہیں درویش، صوفی، طالب یا فقیر کہا جاتا ہے - تصوف کا بنیادی مقصد تزکیہ نفس ہے- صوفیاء طالبانِ مولا کے لیے خانقاہوں کا قیام کرتے تھے جن کا خرچ فی سبیل للہ ہوتا تھا اور وہاں کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جاتا تھا حتیٰ کہ غیر مسلم زائرین کا بھی خیال رکھا جاتا-برصغیر میں عام روایت ہے کہ خانقاہوں پر دال یا سبزی بنائی جاتی ہے اس کا بنیادی فلسفہ بھی سبزی خور زائرین کی مہمان نوازی تھی جس کی مثالیں آج بھی موجود ہیں- پند و نصیحت اور روحانی تلقین ان صوفیاء کا خاصا تھا- صوفی وہ لوگ ہیں جو نفرت، عدم اعتماد عدمِ برداشت اور تعصب سے دور رہتے ہیں-صوفیاء نے غیر مسلموں کو اسلام کی طرف راغب کرنے کے لیے قوالی کا ذریعہ بھی استعمال کیا جس کی وجہ سے غیر مسلم آج دن تک بھی خانقاہوں پہ آتے ہیں -
قرآن مجید واضح راہنمائی فرماتا ہے کہ ہماری اصل طاقت کا سرچشمہ ہمارے اندر ہے جو کہ روح ہے جس سے نور ہمارے قلب پہ منعکس ہوتا ہے اور اس کو روشن کرتا ہے اور یہ نور ذات باری تعالیٰ کا ہے جیسا کہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
’’اَللہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِط مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْہَا مِصْبَاحٌط اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍط اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّہَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبٰـرَکَۃٍ زَیْتُوْنَۃٍ لَّاشَرْقِیَّۃٍ وَّلَا غَرْبِیَّۃٍ یَّکَادُ زَیْتُہَا یُضِٓیْئُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌط نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍط یَہْدِی اللہُ لِنُوْرِہٖ مَنْ یَّشَآئُط وَیَضْرِبُ اللہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِط وَاللہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌo[1] |
|
’’اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثال (جو نورِ محمدی(ﷺ)کی شکل میں دنیا میں روشن ہے) اس طاق (نما سینۂ اقدس) جیسی ہے جس میں چراغِ (نبوت روشن)ہے؛ (وہ) چراغ، فانوس (قلبِ محمدی(ﷺ) میں رکھا ہے- (یہ) فانوس (نورِ الٰہی کے پَرتو سے اس قدر منور ہے) گویا ایک درخشندہ ستارہ ہے (یہ چراغِ نبوت) جو زیتون کے مبارک درخت سے (یعنی عالم قدس کے بابرکت رابطہ وحی سے یا انبیاء و رسل ہی کے مبارک شجرۂ نبوت سے) روشن ہوا ہے نہ (فقط) شرقی ہے اور نہ غربی (بلکہ اپنے فیضِ نور کی وسعت میں عالمگیر ہے)- ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تیل (خود ہی) چمک رہا ہے اگرچہ ابھی اسے (وحی ربّانی اور معجزات آسمانی کی) آگ نے چھوا بھی نہیں(وہ) نور کے اوپر نور ہے (یعنی نورِ وجود پر نورِ نبوت گویا وہ ذات دو ہرے نور کا پیکر ہے)، اللہ جسے چاہتا ہے اپنے نور (کی معرفت) تک پہنچا دیتا ہے اور اللہ لوگوں (کی ہدایت) کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے اور اللہ ہر چیز سے خوب آگاہ ہے‘‘- |
اگرچہ ہم جانتےہیں کہ زندگی روح کی وجہ سے ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جسم کو کس طرح تابع کرتی ہے- ایک طرف روح ہے جو نور سے راہنمائی لیتی ہے اور دوسری طرف نفس ہے جو کہ شیطان سے راہنمائی لیتا ہے اور شیطان نفس کے ذریعے ہمارے اوپر اثر انداز ہوتا ہے - روح اور نفس دونوں انسانی دما غ کو اپنی ہدایات بھیجتے ہیں اور دماغ دونوں میں سے کسی ایک پہ عمل کرتا ہے- ان منفی اور مثبت ہدایات کے اپنے اپنے نتائج ہوتے ہیں جیسا کہ ابن سینا نے کہا تھا کہ منفی سوچ بھی بعین اس طرح انسان کو بیماری میں مبتلا کر سکتی ہے جیسا کہ زہر، زخم یا بھوک - صوفیاء اس روح کی تربیت کرتے ہیں جس کی وجہ سے انسانی عقل پہ مثبت سوچ غالب رہتی ہے - جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
’’اَلَا بِذِکْرِاللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ ‘‘[2] |
|
خبردار صرف اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے- |
فقر کی راہ پہ چل کر مرشدِ کامل کی زیر نگرانی ذکر کے ذریعے اطمینان قلب نصیب ہوتا ہے جس کا مقصد ذات حق کا قرب اور مخلوق خدا سے محبت ہے- جب ایک فرد میں یہ امن اور اطمینان قائم ہو جاتا ہے تو پھر یہ معاشرے پر بھی اثر انداز ہوتا ہے-
بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت بہاؤالدین نقشبند اپنے شیخ کے ہمراہ بازار میں موجود تھے- آپ نے اپنے شیخ سے دریافت کیا کہ وہ کس چیز کی تلاش میں ہیں-شیخ نے جواب دیا کہ وہ انسان کی تلاش میں ہیں- حضرت نقشبند نے کہا کہ وہ پہلے ہی بازار میں ہیں جہاں انسانوں کا انبوہ کثیر موجود ہے- شیخ نے اپنی دو انگلیاں اٹھائیں اور حضرت نقشبند کو ان کے درمیان میں سے دیکھنے کو کہا - آپ کو انگلیوں کے درمیان ایک انسان تک نظر نہ آیا اور وہاں پر سب حیوان اور درندے نظر آئے اِسی واقعہ پہ رُومی کا ایک عالمی شُہرت رکھنے والا شعر بھی ہے - اگر ہم قرآن مجید کا مطالعہ کریں تو اس طرح کے اشارے ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَلَقَدْ ذَرَئْ نَا لِجَھَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ لُھُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ بِھَا وَلَھُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِھَا ط اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ ط اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَ‘‘[3] |
|
’’کثیر تعداد جنوں اور انسانوں کی ایسی ہے جن کا ٹھکانہ جہنم ہوگا انہیں دِل عطا کیے ہیں وہ دِل کی حقیقت سے بے خبر ہیں اور ان کی آنکھیں ہیں ان سے دیکھتے نہیں ، ان کے کان ہیں ان سے سنتے نہیں وہ جانوروں کی مثل ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر ہیں یہی لوگ غافل ہیں ‘‘- |
یہاں پر جسمانی معذوری کا ذکر نہیں کیا گیا- اس کے بعد انسان کی عظمت کی کیا دلیل ہے - قرآن میں ہی یہ فرمایا گیا ہے کہ:
’’لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ‘‘[4] |
|
’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے‘‘- |
قرآن کا اسلوب حقیقی فطرت کے حوالے سے بڑے بنیادی مفروضے قائم کرتا ہے- یہ اس حوالے سے بنیادی ہیں کہ یہ وجود کی فطرت سے تعلق قائم کرتا ہے-
لفظ ’’اسلام‘‘ کا ماخذ ’’سلام‘‘ ہے جس کا مطلب امن و سلامتی کے ہیں-اسلام کا مقصد بنیادی طور پر انسان کااپنے آپ کو مطیع بنانا ہے-ظاہراً، اطاعت کا لفظ زبردستی کسی کو مطیع بنانے کا تاثر دیتا ہے- یہ اس صورت میں ٹھیک ہو سکتا ہے جب حقیقت وجود اور مذہب کو مادی نقطہ نظر سے دیکھا جائے- اطاعت کو پرامن اور بلا جبر اپنانے کے لیے ہمیں قرآنی آیات کو صوفیاء کی تعلیمات کی روشنی میں دیکھنا ہو گاجیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے ’’دین میں کوئی جبر نہیں‘‘-[5]شریعت میں اس سے مراد ہے کہ کسی پر دین کے اصولوں کی پیروی کے لیے جبر نہ کیا جائے- ہر کسی کو دلائل دینے کی اجازت ہے کیونکہ حق واضح ہے- لیکن صوفیاء کی نظروں میں اس آیت کی تشریح بالکل مختلف ہے- ان کےمطابق اس حکم کا اطلاق دوسروں پر نہیں بلکہ انسان کے اپنے اوپر ہے- جب کسی پر حق واضح ہو جائے تو اس کی روح اور کردار کو پاکیزگی عطاء ہوتی ہے- جب حق اور باطل میں فرق نمایاں ہو جائے تو انسان وساوس سے پاک ہوجاتا ہے کیونکہ وہ حقیقت کو پا لیتا ہے- اس سے انسان کا خدا سے تعلق مضبوط ہوتا ہے- یہ کسی بھی انسان میں باطنی امن کا ابدی سرچشمہ ہے جو معاشرے میں انقلاب برپا کر دیتا ہے-قلبِ انسان میں انقلاب اور باطن کی پہچان ایک پاکیزہ معاشرہ کو جنم دیتا ہے- یہ برداشت اور بردباری سے بہت آگے ہر انسان کے قلب میں پائی جانے والی حقیقتِ ازلی کی عبادت و پہچان کا نتیجہ ہے-
صوفیاء کے نزدیک ترقی کی منازل اعلیٰ شعور اور روحانی ذریعے سے تَہ کرنی چاہیں- صوفیاء کا اسلام پہ نُقطۂ نظر ہرگز تنگ نظری کا نُقطۂ نظر نہیں ہے اور اس کی دعوت پوری انسانیت کے لیے ہے-اگر ہم مولانا رومی کی مثال لیں تو آپ کی تعلیمات پہ مغرب میں بہت کام کیا گیا ہے- آپ کا پیغام عالمگیر ہے اور اس میں برداشت اور رحم کا درس ہے تصوف محبت کا پیغام ہے اور دل کو تمام نفسانی کدورتوں سے پاک کر دیتا ہے- صوفیاء معاشرتی برداشت کے لیے راہنمائی کا روشن مینار اسوہ رسول (ﷺ) ہے-حضور نبی کریم (ﷺ) نے جنگی قیدیوں سے بھی حسن سلوک فرمایا جبکہ جدید دنیا میں ابھی تک جنگی قیدیوں پہ ظلم کیا جاتا ہے- حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا جو شخص بھی اللہ اور روز قیامت پہ یقین رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسیوں کو ایذاء نہ پہنچائے- یہاں کوئی تفریق نہیں کی گئی آیا کہ وہ مسلمان ، یہودی یا عیسائی ہے - اسلام بچوں اور بزرگوں کے ساتھ بھی پیار سے برتاو کی تلقین کرتا ہے اور غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو بھی نقصان پہنچانے سے منع کیا گیا ہے- تصوف امن اور برداشت کا درس دیتا ہے- ہم جدید دور میں عدم برداشت کے نتائج دیکھ سکتے ہیں-صوفیاء کا در ہر انسان کے لیے کھلا ہوتا ہے اور ان کی بنیادی تعلیم انسانیت ہے- بد قسمتی سے آج دنیا نسل، زبان اور ذات کی تقسیموں میں مبتلا ہے جبکہ صوفیاء کا پیغام ان تما م تفریقوں سے آزاد ہے- وہ پیغام یہ ہے کہ تمام انسانوں کی بنیادی ضروریات ایک جیسی ہیں اور ہر ایک کا مقصد لوگوں کی بھلائی کا کام کرناہے-
٭٭٭
مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام راونڈ ٹیبل ڈسکشن بعنوان ’’معاشرے میں امن اور برداشت کے لیے صوفیاء کا کردار‘‘کا انعقاد یکم مئی 2018ء کو ریکارڈ ہال لندن میں کیا گیا- ڈاکٹر ہسام الملک (سینئر ٹیچنگ فیلو کنگز کالج، لندن )، ڈاکٹر لیلیٰ عاصمہ ( ڈائریکٹر ادارہ برائے روحانی مذاہب کے مابین مفاہمت)، جناب ایم اے خان ( مصنف اور مترجم کتبِ صوفیاء )، ڈاکٹر عرفان العلاوی الیمانی ( مؤرخ ،تاریخ حجاز و ڈائریکٹر اسلامی ورثہ فاونڈیشن ) اور بیرسٹر عمار فاروق نے ڈسکشن میں حصہ لیا - ڈاکٹر اقبال حسین (پریزیڈنٹ مسلم انسٹیٹیوٹ یو کے چیپٹر )نے افتتاحی کلمات ادا کیے- علی افتخار ( پروگرام مینیجر دی مسلم ڈیبیٹ )نے ماڈریٹر کے فرائض سرانجام دئیے-مقررین کے اظہارِ خیال کے بعد وقفہ سوال و جواب بھی منعقد ہوا جس میں شرکاء نے بھر پور حصہ لیا اور معزز پینل کی جانب سے شرکاء کے سوالات کے تسلی بخش جوابات دیئے گئے-
معزز مہمان گرامی کے اظہار خیال اور وقفہ سوال و جواب کا خلاصہ درج ذیل ہے:
نبی کریم (ﷺ)کے زمانے میں تصوف، زہد کے حوالے سے جانا جاتا تھا-زہد کا مطلب اپنے آپ کو روک کے رکھنا ہے-اصحابِ صفہ کا یہ مخصوص درس تھا - اسی علم کو معرفت بھی کہتے ہیں اور جو لوگ راہ سلوک کو اپناتے ہیں انہیں درویش، صوفی، طالب یا فقیر کہا جاتا ہے - تصوف کا بنیادی مقصد تزکیہ نفس ہے- صوفیاء طالبانِ مولا کے لیے خانقاہوں کا قیام کرتے تھے جن کا خرچ فی سبیل للہ ہوتا تھا اور وہاں کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جاتا تھا حتیٰ کہ غیر مسلم زائرین کا بھی خیال رکھا جاتا-برصغیر میں عام روایت ہے کہ خانقاہوں پر دال یا سبزی بنائی جاتی ہے اس کا بنیادی فلسفہ بھی سبزی خور زائرین کی مہمان نوازی تھی جس کی مثالیں آج بھی موجود ہیں- پند و نصیحت اور روحانی تلقین ان صوفیاء کا خاصا تھا- صوفی وہ لوگ ہیں جو نفرت، عدم اعتماد عدمِ برداشت اور تعصب سے دور رہتے ہیں-صوفیاء نے غیر مسلموں کو اسلام کی طرف راغب کرنے کے لیے قوالی کا ذریعہ بھی استعمال کیا جس کی وجہ سے غیر مسلم آج دن تک بھی خانقاہوں پہ آتے ہیں -
قرآن مجید واضح راہنمائی فرماتا ہے کہ ہماری اصل طاقت کا سرچشمہ ہمارے اندر ہے جو کہ روح ہے جس سے نور ہمارے قلب پہ منعکس ہوتا ہے اور اس کو روشن کرتا ہے اور یہ نور ذات باری تعالیٰ کا ہے جیسا کہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
’’اَللہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِط مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْہَا مِصْبَاحٌط اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍط اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّہَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبٰـرَکَۃٍ زَیْتُوْنَۃٍ لَّاشَرْقِیَّۃٍ وَّلَا غَرْبِیَّۃٍ یَّکَادُ زَیْتُہَا یُضِٓیْئُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌط نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍط یَہْدِی اللہُ لِنُوْرِہٖ مَنْ یَّشَآئُط وَیَضْرِبُ اللہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِط وَاللہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌo[1] |
|
’’اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثال (جو نورِ محمدی(ﷺ)کی شکل میں دنیا میں روشن ہے) اس طاق (نما سینۂ اقدس) جیسی ہے جس میں چراغِ (نبوت روشن)ہے؛ (وہ) چراغ، فانوس (قلبِ محمدی(ﷺ) میں رکھا ہے- (یہ) فانوس (نورِ الٰہی کے پَرتو سے اس قدر منور ہے) گویا ایک درخشندہ ستارہ ہے (یہ چراغِ نبوت) جو زیتون کے مبارک درخت سے (یعنی عالم قدس کے بابرکت رابطہ وحی سے یا انبیاء و رسل ہی کے مبارک شجرۂ نبوت سے) روشن ہوا ہے نہ (فقط) شرقی ہے اور نہ غربی (بلکہ اپنے فیضِ نور کی وسعت میں عالمگیر ہے)- ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تیل (خود ہی) چمک رہا ہے اگرچہ ابھی اسے (وحی ربّانی اور معجزات آسمانی کی) آگ نے چھوا بھی نہیں(وہ) نور کے اوپر نور ہے (یعنی نورِ وجود پر نورِ نبوت گویا وہ ذات دو ہرے نور کا پیکر ہے)، اللہ جسے چاہتا ہے اپنے نور (کی معرفت) تک پہنچا دیتا ہے اور اللہ لوگوں (کی ہدایت) کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے اور اللہ ہر چیز سے خوب آگاہ ہے‘‘- |
اگرچہ ہم جانتےہیں کہ زندگی روح کی وجہ سے ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جسم کو کس طرح تابع کرتی ہے- ایک طرف روح ہے جو نور سے راہنمائی لیتی ہے اور دوسری طرف نفس ہے جو کہ شیطان سے راہنمائی لیتا ہے اور شیطان نفس کے ذریعے ہمارے اوپر اثر انداز ہوتا ہے - روح اور نفس دونوں انسانی دما غ کو اپنی ہدایات بھیجتے ہیں اور دماغ دونوں میں سے کسی ایک پہ عمل کرتا ہے- ان منفی اور مثبت ہدایات کے اپنے اپنے نتائج ہوتے ہیں جیسا کہ ابن سینا نے کہا تھا کہ منفی سوچ بھی بعین اس طرح انسان کو بیماری میں مبتلا کر سکتی ہے جیسا کہ زہر، زخم یا بھوک - صوفیاء اس روح کی تربیت کرتے ہیں جس کی وجہ سے انسانی عقل پہ مثبت سوچ غالب رہتی ہے - جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
’’اَلَا بِذِکْرِاللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ ‘‘[2] |
|
خبردار صرف اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے- |
فقر کی راہ پہ چل کر مرشدِ کامل کی زیر نگرانی ذکر کے ذریعے اطمینان قلب نصیب ہوتا ہے جس کا مقصد ذات حق کا قرب اور مخلوق خدا سے محبت ہے- جب ایک فرد میں یہ امن اور اطمینان قائم ہو جاتا ہے تو پھر یہ معاشرے پر بھی اثر انداز ہوتا ہے-
بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت بہاؤالدین نقشبند اپنے شیخ کے ہمراہ بازار میں موجود تھے- آپ نے اپنے شیخ سے دریافت کیا کہ وہ کس چیز کی تلاش میں ہیں-شیخ نے جواب دیا کہ وہ انسان کی تلاش میں ہیں- حضرت نقشبند نے کہا کہ وہ پہلے ہی بازار میں ہیں جہاں انسانوں کا انبوہ کثیر موجود ہے- شیخ نے اپنی دو انگلیاں اٹھائیں اور حضرت نقشبند کو ان کے درمیان میں سے دیکھنے کو کہا - آپ کو انگلیوں کے درمیان ایک انسان تک نظر نہ آیا اور وہاں پر سب حیوان اور درندے نظر آئے اِسی واقعہ پہ رُومی کا ایک عالمی شُہرت رکھنے والا شعر بھی ہے - اگر ہم قرآن مجید کا مطالعہ کریں تو اس طرح کے اشارے ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَلَقَدْ ذَرَئْ نَا لِجَھَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ لُھُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ بِھَا وَلَھُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِھَا ط اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ ط اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَ‘‘[3] |
|
’’کثیر تعداد جنوں اور انسانوں کی ایسی ہے جن کا ٹھکانہ جہنم ہوگا انہیں دِل عطا کیے ہیں وہ دِل کی حقیقت سے بے خبر ہیں اور ان کی آنکھیں ہیں ان سے دیکھتے نہیں ، ان کے کان ہیں ان سے سنتے نہیں وہ جانوروں کی مثل ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر ہیں یہی لوگ غافل ہیں ‘‘- |
یہاں پر جسمانی معذوری کا ذکر نہیں کیا گیا- اس کے بعد انسان کی عظمت کی کیا دلیل ہے - قرآن میں ہی یہ فرمایا گیا ہے کہ:
’’لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ‘‘[4] |
|
’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے‘‘- |
قرآن کا اسلوب حقیقی فطرت کے حوالے سے بڑے بنیادی مفروضے قائم کرتا ہے- یہ اس حوالے سے بنیادی ہیں کہ یہ وجود کی فطرت سے تعلق قائم کرتا ہے-
لفظ ’’اسلام‘‘ کا ماخذ ’’سلام‘‘ ہے جس کا مطلب امن و سلامتی کے ہیں-اسلام کا مقصد بنیادی طور پر انسان کااپنے آپ کو مطیع بنانا ہے-ظاہراً، اطاعت کا لفظ زبردستی کسی کو مطیع بنانے کا تاثر دیتا ہے- یہ اس صورت میں ٹھیک ہو سکتا ہے جب حقیقت وجود اور مذہب کو مادی نقطہ نظر سے دیکھا جائے- اطاعت کو پرامن اور بلا جبر اپنانے کے لیے ہمیں قرآنی آیات کو صوفیاء کی تعلیمات کی روشنی میں دیکھنا ہو گاجیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے ’’دین میں کوئی جبر نہیں‘‘-[5]شریعت میں اس سے مراد ہے کہ کسی پر دین کے اصولوں کی پیروی کے لیے جبر نہ کیا جائے- ہر کسی کو دلائل دینے کی اجازت ہے کیونکہ حق واضح ہے- لیکن صوفیاء کی نظروں میں اس آیت کی تشریح بالکل مختلف ہے- ان کےمطابق اس حکم کا اطلاق دوسروں پر نہیں بلکہ انسان کے اپنے اوپر ہے- جب کسی پر حق واضح ہو جائے تو اس کی روح اور کردار کو پاکیزگی عطاء ہوتی ہے- جب حق اور باطل میں فرق نمایاں ہو جائے تو انسان وساوس سے پاک ہوجاتا ہے کیونکہ وہ حقیقت کو پا لیتا ہے- اس سے انسان کا خدا سے تعلق مضبوط ہوتا ہے- یہ کسی بھی انسان میں باطنی امن کا ابدی سرچشمہ ہے جو معاشرے میں انقلاب برپا کر دیتا ہے-قلبِ انسان میں انقلاب اور باطن کی پہچان ایک پاکیزہ معاشرہ کو جنم دیتا ہے- یہ برداشت اور بردباری سے بہت آگے ہر انسان کے قلب میں پائی جانے والی حقیقتِ ازلی کی عبادت و پہچان کا نتیجہ ہے-
صوفیاء کے نزدیک ترقی کی منازل اعلیٰ شعور اور روحانی ذریعے سے تَہ کرنی چاہیں- صوفیاء کا اسلام پہ نُقطۂ نظر ہرگز تنگ نظری کا نُقطۂ نظر نہیں ہے اور اس کی دعوت پوری انسانیت کے لیے ہے-اگر ہم مولانا رومی کی مثال لیں تو آپ کی تعلیمات پہ مغرب میں بہت کام کیا گیا ہے- آپ کا پیغام عالمگیر ہے اور اس میں برداشت اور رحم کا درس ہے تصوف محبت کا پیغام ہے اور دل کو تمام نفسانی کدورتوں سے پاک کر دیتا ہے- صوفیاء معاشرتی برداشت کے لیے راہنمائی کا روشن مینار اسوہ رسول (ﷺ) ہے-حضور نبی کریم (ﷺ) نے جنگی قیدیوں سے بھی حسن سلوک فرمایا جبکہ جدید دنیا میں ابھی تک جنگی قیدیوں پہ ظلم کیا جاتا ہے- حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا جو شخص بھی اللہ اور روز قیامت پہ یقین رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسیوں کو ایذاء نہ پہنچائے- یہاں کوئی تفریق نہیں کی گئی آیا کہ وہ مسلمان ، یہودی یا عیسائی ہے - اسلام بچوں اور بزرگوں کے ساتھ بھی پیار سے برتاو کی تلقین کرتا ہے اور غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو بھی نقصان پہنچانے سے منع کیا گیا ہے- تصوف امن اور برداشت کا درس دیتا ہے- ہم جدید دور میں عدم برداشت کے نتائج دیکھ سکتے ہیں-صوفیاء کا در ہر انسان کے لیے کھلا ہوتا ہے اور ان کی بنیادی تعلیم انسانیت ہے- بد قسمتی سے آج دنیا نسل، زبان اور ذات کی تقسیموں میں مبتلا ہے جبکہ صوفیاء کا پیغام ان تما م تفریقوں سے آزاد ہے- وہ پیغام یہ ہے کہ تمام انسانوں کی بنیادی ضروریات ایک جیسی ہیں اور ہر ایک کا مقصد لوگوں کی بھلائی کا کام کرناہے-
٭٭٭