مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام سیمینار بعنوان ’’سائنس اور مابعد الطبیعات: مسلم نقطہ نظر‘‘ کا انعقاد 26 اپریل 2018ء کو نیشنل لائبریری اسلام آباد میں کیا گیا-
پہلا سیشن : نظریاتی جائزہ
پہلے سیشن کی صدارت معروف مصنف اور سکالر ڈاکٹر زیڈ اے اعوان صاحب نے کی- چئیرمین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے افتتاحی کلمات ادا کیے- ملک آصف تنویر اعوان ایڈووکیٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ نے ماڈریٹر کے فرائض سرانجام دئیے- مختلف یونیورسٹیز کے طلبہ،اساتذہ، تھنک ٹینکس کے نمائندگان، صحافیوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے والے لوگوں نے سیمینار میں شرکت کی-
معزز مہمان گرامی کے اظہار خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے:
افتتاحی کلمات :
صاحبزادہ سلطان احمد علی:( چیئر مین مسلم انسٹیٹیوٹ )
اس سیمینار کے انعقاد کا مقصد ایک ایسے عنوان پہ بات کرنا ہے جو تاریخ انسانی میں کسی نا کسی صورت میں زیر بحث رہا ہے-آج کے دور میں فلاسفہ، علم الہیات کے ماہرین، سکالرز، مورخین، سائنسدان، ماہرِین نفسیات، صوفیاء اور دوسرے علوم کے ماہرین کی حقیقتِ ابدی، شعور، تقدیرِ کائنات اور ان جیسے دوسرے بڑے سوالات پر پُر مغز اور معنی خیز گفتگو نے اس بحث کو مزید دلچسپ بنا دیا ہے-سائنسی تحقیقات کو حرف آخر ماننے کی سوچ (scientism) عالمگیر حقیقتوں اور اقدار کے انحطاط کا باعث بن رہی ہے- حتیٰ کہ انسانیت کی سب سے اہم میراث، ’’شعور‘‘کو بھی بعض حلقوں کی جانب سے محض وہم قرار دیا جانے لگا ہے-اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ مسلم تہذیب نے علوم خصوصاً فلسفہ اور ما بعد الطبیعات کے ارتقاء میں اہم کردار ادا کیا ہے- حجۃ الاسلام ابو حامد، امام الغزالی اور محی الدین شیخِ اکبر ابنِ عربی جیسے سکالرز کا اس ضمن میں کردار بہت اہم ہے- ان عظیم شخصیات کی نمود کسی حادثے یا اتفاق کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ مسلم تہذیب کا علم کے لیے مسلسل لگاؤ کا ثمر ہے- اس تابناک پسِ منظر کے ساتھ، ہمیں ایک ایسی بحث کے آغاز کی ضرورت ہے جو کہ نہ صرف نئے سوالوں کے جواب دے سکے، نئے سوال اٹھا سکے بلکہ سوالات پر بھی سوال اٹھاسکے-
سائنس، اقدار اور اخلاقیات :
ڈاکٹر عالیہ سہیل خان: (پرنسپل گوررنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج برائے خواتین، راولپنڈی)
نیچرل سائنسز کی خدمات بہت زیادہ ہیں- لیکن سائنس، اقدار اور ادب میں واضح خلیج پائی جاتی ہے- یہ سب ٹیکنالوجی کی اندھا دھند ترقی کا نتیجہ ہے جس نےستارہویں صدی میں نظریہ (scientism)کو فروغ دیا جو اب ایک عقیدہ کی صورت اختیار کر چکا ہے کہ سائنس کے علاوہ کوئی حقیقت اور سچ نہیں ہے-ادبی انحطاط کے باعث علم محض اعداد اور انفارمیشن کا مجموعہ بن کر رہ گیا ہے- دوسری جانب،صرف معروضیت پسندی کا قصہ اچھے اور برے میں تمیز نہیں کر سکتا-حقیقت کے متعلق محدود نظریہ نے اس سوچ کو پروان چڑھایا ہے کہ حقیقت صرف وہ ہی ہے جس کو مادی اعتبار سے دیکھا یا پرکھاجا سکے جس سے زمان و مکاں کی قید سے آزاد ابدی حقیقت کا انکار ہوتا ہے-
انسانی فطرت کا محدود تجزیہ مادیت، خود پسندی اور ہوبس، ایڈم سمتھ، مالتھس، ڈارون، فرائیڈ اور مارکس کے پیش کردہ نظریہ حیات پر مبنی ہے- ادب ہمیں ازلی اور مقدس روایات کو جانچنے کا موقع فراہم کرتا ہے- اگر ہم اقدار کے نظام کو فروغ دیں گے تو اس سے یقین ایثار، عشقِ حقیقی، صبر، برداشت اور حقیقی خوشی و اطمینان نصیب ہو گا-
سائنس اور مذہب ؛ افسانہ بمقابلہ حقیقت :
ڈاکٹر عاصم رضا :(یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب لاہور)
مذہب اور سائنس کے متعلق عمومی واقفیت یہ ہے کہ مذہب محض رسوم و روایات کا نام نہیں ہے اور سائنس تصورات کی ایک ارادی و باقاعدہ ترتیب کا نام ہے اور اس سائنسی نظام کی بنیادی خوبصورتی یہ ہے کہ ان کو ہر جگہ دوہرایا جا سکتا ہے- ستارہویں صدی کے بعد مذہب پر ہونے والی بحث میں مذہب کو بطور فلسفۂ مذہب ہی سمجھا جاتا ہے یعنی مذہب بطور دین بحث میں نہیں آتا تھا - مذہب اور سائنس سے متعلق کسی بھی بحث میں مذ ہب فلسفہ اور سائنس تینوں دائروں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے- یہ تینوں دائرے فرد پہ اثرانداز ضرور ہوتے ہیں اور ہر دائرہ علم یہ دعویٰ کرتا ہے کہ حقیقت کے متعلق اس کے دلائل سب سے زیادہ مضبوط ہیں- لیکن جب یہ بحث عمومی لوگوں سے نکل کر اہل دانش کا رخ کرتی ہے تو اس کی مزید جہتیں سامنے آتی ہیں- جان پالکن نے سائنس اور مذہب کے ادراک کے لیے چار ماڈل پیش کیے ہیں:
1. سائنس اور مذہب کا تصادم
2. سائنس اور مذہب کی آزاد حیثیت (Independence)
3. سائنس اور مذہب کے مابین مکالمہ (Dialogue)
4. سائنس اور مذہب کا انضمام (Integration)
امام الغزالی نے ملحد یونانی فلسفیوں کا فلسفہ کی زبان سے ہی رد کیا جب کہ موحد یونانی فلسفیوں کے علوم کا اپنی تصانیف میں بھی استعمال کیا جیسا کہ تصور عدد اور ارسطو کی قیاسی منطق-
قرآن اور تجرباتی علم:
ڈاکٹر دلدار احمد علوی: (ڈین نیچرل سائنسز، فارمین کرسچین کالج یونیورسٹی ، لاہور)
قرآن مجید کی بنیادی تعلیمات کا شناختی ڈھانچہ کھڑا کرنا ہو گا مگر اس سے پہلے ہمیں اپنے آپ کو سمجھنے کی ضرورت ہے-علم نے جو اس دنیا میں ارتقا حاصل کیا ہے ہمیں اپنے آپ کو اس میں دیکھنا بہت ضروری ہے اور اسی چیز سے ہم نے قطع نظرکیا ہوا ہے- میں نے دیکھا ہے ہمارے مسائل بہت سادہ ہیں اور ان کا تعلق علم سے ہے مثال کے طور پر وہ لوگ جو قرآن پاک کی تشریح و تفسیر کرتے ہیں ان کی’’ capacity building‘‘ انتہائی ضروری ہے - جب قرآن پاک یہ کہتا ہے بیشک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے [1] تو ایام کی کوئی بھی تعریف کر لیں وہ ایک متعین وقت بنتا ہے- اگر یہ ایک عرصہ ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو ایک مخصوص وقت میں تخلیق فرمایا، اللہ تعالیٰ نے اس کو ایک حکمت کے تحت تخلیق فرمایا-اس کو آپ تدریجی تخلیق یا کچھ بھی کہیں مگر ارتقا کا تصور بالکل واضح ہے اس کی شکلیں مختلف ہو سکتی ہیں-ان بنیادی باتوں میں ہم فرق کر سکتے ہیں جب ہمارا اپنا ذہن وسیع ہو اور چیزوں کو ان کی خالص ترین حالت میں پرکھ سکیں-
سائنس اور معاشرہ:
پروفیسر ڈاکٹر سہیل عمر :(سابق ڈائریکٹر اقبال اکیڈمی پاکستان)
’’سائنس کے طلباء کیلئے سوشل سائنسز کی تعلیم کیوں ضروری ہے؟ ’’دورِ حاضر کا یونیورسٹیز میں زیرِ بحث ایک اہم سوال ہے-جدید سائنس ہمیں حقیقت کا محض جزوی منظر نامہ پیش کرتی ہے- 6ایسے پہلو ہیں جن پر سائنس کا کوئی اختیار نہیں-ان پہلوؤں میں اقدار، مفاہیم، مقاصد، لاشعور، خواص اور برتر کی قبولیت شامل ہیں-اگر سائنس ہمیں دنیا کے تمام پہلوؤں سے روشناس نہ کرا سکے تو اس صورت میں ہمیں دوسرے ذرائع سے رہنمائی حاصل کرنا پڑے گی اور یہی سوشل سائنسز کے محرکین کی دلیل ہے-اولاً، سائنس تشریحی اقدار کا تجزیہ تو کر سکتی ہے لیکن فطری اقدار پر اس کا کوئی زور نہیں-
دوئم، ادراکی مفاہیم تو سائنس کے زیرِ اثر ہیں لیکن نظریہ وجودیت سائنس کے دائرہ کار سے آزاد ہے-اسی طرح سائنس ظاہری زندگی کے مقاصد تو طے کر سکتی ہے لیکن اس کی سوچ کی وسعت غیر مادی زندگی کی صورتوں کا احاطہ نہیں کر سکتی-مزید، سائنس مقدار کو تو ناپ سکتی ہے خاصیت کو نہیں-سائنس ایسی غائب قوتوں پہ تو کام کر سکتی ہے جن کا کسی ظاہری وجود رکھنے والے شے سے تعلق ہو لیکن غائب کو دیکھ نہیں سکتی-آخر میں اپنے سے برتر کے وجود کو تسلیم کرنا ہےکیونکہ ثبوت کی عدم موجودگی کسی کی عدم موجودگی کا ثبوت نہیں ہو سکتی اور سائنس نے یہ غلطی بارہا دہرائی ہے- حقیقت کے ارفع پہلوؤں کا ہماری جدید فکر سے اخراج، جدت اور روایات کے مابین خلاء پیدا کر دے گا-
صدارتی کلمات :
ڈاکٹر زیڈاے اعوان صاحب:(معروف مصنف و سکالر)
سب سے پہلے میں مبارکباد پیش کرتا ہوں جناب صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کو جنہوں نے اتنے زبردست پروگرام کا انعقاد کیا اور اس میں بڑے بڑے موتی بکھیر دیے- سائِنس، ٹیکنالوجی پر بڑےبڑے مقالات موجود ہیں اور بہت ساری متاثر کن چیزیں ہیں-سب سے پہلے ڈاکٹر عالیہ خان صاحبہ نے بڑی خوبصورت بات کی ہے کہ عقلیت پسندی کے علاوہ بھی حقیقت کے ادراک کے ذرائع موجود ہیں- یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ وحی اور عقلی استدلال کی خلیج کو کیسے ختم کیا جا ئے- سائنس کی بنیادی چیز ’’ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘‘جسے مذہب بھی مانتا ہے- تمام سائنسی دریافتیں درحقیقت مذہب کی طرف ہی راہنمائی کرتی ہیں کیونکہ ان سے حقیقت کا وجدان حاصل ہوتا ہے- جیسے ڈاکٹر صاحب نے بتایا ڈارون کی جو بات شروع ہوئی ہےاس نے ایک نظریہ پیش کیا پھر اس سے ملتے جلتے مزید نظریات پیش کیے گئے اور نیو ڈارون کا نظریہ بھی پیش کیا گیا یہ ساری چیزیں مذہب کے زیر اثر بھی رہیں- زبردست بات یہ ہے کہ 100 سالہ ایک پادری پھول اکٹھے کرتا تھااور اس نے وراثت کے تین قانون متعارف کرائے- میرا تو یہ خیال ہے کہ یہ اس کا مذہبی وجدان تھا جس سے اس نے یہ قانون بنائے:
یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید |
وقفہ سوال و جواب:
تمام مقررین کے اظہارِ خیال کے بعد تفصیلی وقفہ سوال و جواب منعقد کیا گیا جن کا خلاصہ درج ذیل ہے:
قرآن پاک کو سمجھنے کے لئےمختلف ذرائع استعمال کرنے چاہئیں کیونکہ سب نے اپنے دائرہ علم کے مطابق لکھا ہے-قرآن پاک لامتناہی ہے اس کو سمجھنے کی کاوشیں جاری رہنی چاہیں-ہدایت کا لفظ وسیع تر مفہوم میں ہے-ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایک عالمی تناظر ہے اور ایک عملی نظام، پہلا قبول کرنا روحانی پہلو ہوگا اور دوسرا عملی نظام رہنمائی کے لئے کھلا ہوا ہے-ہمارا کام ہے کہ قرآن پاک کی ہدایت کے وسیع تر مفہوم کو سمجھیں-کائنات کا ایک خالق ہے جس نے اس کو ایک مقصد کے تحت بنایا ہے اور یہ کائنات بالآخر سمیٹ دی جائے گی-ایک رائے یہ ہے کہ اگرسائنس کو مناسب وقت مل جائے تو وہ اپنی محدودیت سےنکل جائے گی اور جو چیز اس کےگرفت میں نہیں وہ بھی آجائےگی،مگراس کی دوسری رائےیہ ہےکہ جب تک سائنس اپنےبنیادی طریقہ کارمیں تبدیلی نہ کرےاس میں کوئی تبدیلی نہیں آئےگی اور یہ ہر چیز کو سمجھنے سے قاصر رہےگی- آج کی اس محفل کا مقصد سائنس اور مذہب کے فاصلے کو ماپنا ہے اور ان میں تضاد نہیں کیونکہ خدا نے اس جہاں کو اپنی تدبیر کے تحت بنایا ہے اور انسان نے واپس اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے- طبیعات کے ماہرین بھی ایک دن جان جائیں گے کہ وہ حقیقت اور مشاہدات جن سے وہ واقف ہیں ان کے علاوہ بھی ایک حقیقت ہے کیونکہ آفاق میں اور بہت کچھ ہے جسے سائنس دریافت نہیں کر سکتی-
دوسراسیشن :
مسلم مفکرین کا ایک مطالعہ
دوسرے سیشن کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر سہیل عمر (سابق ڈائریکٹر اقبال اکیڈمی پاکستان) نے کی-مسلم انسٹیٹیوٹ کے ریسرچ ایسوسی ایٹ جناب احمد القادری نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دئیے-
دوسرے سیشن میں شرکت کرنے والے معزز مہمان گرامی کے اظہار خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے:
سائنس اور روحانیت اقبال کی نظر میں
جناب ادریس آزاد :(انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد)
علامہ اقبالؒ نے کائنات میں پائے جانے والے ہر ایک فرد کے انفرادی وجود اور اس کی اہمیت کو اجاگر کیا-کسی بھی فرد کو اپنے موجود ہونے کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کا وجود ہی اس کی موجودگی کا ثبوت ہے- پس ہر فردِ واحد کو اپنے وجود اور انفرادی اہمیت کا احساس ہونا چاہیے-اسی طرح ہر شخص کی خودی بھی اپنا وجود رکھتی ہے-ہر شخص کا اپنی انفرادیت کا احساس ہی اقبال کے فلسفہ خودی کا بنیادی پیغام ہے-اقبال نے طالبانِ مولیٰ کو حقیقتِ الٰہی کا مشاہدہ اور اس کو جذب کرنے والوں میں تقسیم کیا ہے-اقبال نے اپنے ایک خطبہ میں کہا کہ علم کی تلاش بھی عبادت ہے اور مظاہرِ قدرت کا سائنسی جائزہ لینے والے بھی عبادتِ الٰہی میں مصروف ہیں- مولانا رومیؒ کے الفاظ میں جب کوئی ہرن کے قدموں کی چھاپ کی پیروی کرتا ہے تو کستوری کی خوشبو اس کی راہنما بن جاتی ہے-اقبال اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سائنسدان صرف قدموں کی پیروی کر رہے ہیں جس کے باعث ان کی جستجو کا دائر ہ کار محدود ہو جاتا ہے-اس کے باوجود سائنس قدرت کے مشاہدہ کی طاقت عطا کرتی ہے جس سے فلسفہ کے پیروکار محروم ہیں- اسی لیے قرآن علمِ مشاہدہ پر بھی زور دیتا ہے کیونکہ یہ بھی حصولِ حقیقت کا ذریعہ ہے- اس بناء پر اقبال نے صوفیاء اور سائنسدان دونوں کو حقیقت الٰہی کا طالب قرار دیا ہے-تاہم، مراتب میں فرق ہے کیونکہ سائنسدان محض قدرت کے اصولوں کا جائزہ لیتا ہے جبکہ ولی اللہ صاحبِ حقیقت اور قدرت کے رازوں کا امین ہوتا ہے- سائنس دائمی حقیقت کو قدم بقدم اور روحانیت حقیقتِ الٰہی کو کامل صورت میں جاننے کا نام ہے-
سائنس، مذہب و فلسفہ کے متعلق امام غزالی کے تصورات
جناب محمد عثمان:(لیکچرار ، یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب، لاہور )
امام الغزالی بلند پایہ دانشمند مانے جاتے ہیں جس کی وجہ ان کی فکر کی کثیر الجہتی ہے- آج امام صاحب کے بارے میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ وہ فلسفہ اور سائنس کے دشمن تھے-امام غزالی کی تنقید چند فلسفیانہ نظریات پر تھی نہ کے فلسفہ پر- اگر امام غزالی کی کتاب ’’تہافۃ الفلاسفہ‘‘ کا جائزہ لیا جائے تو اس میں آپ فلسفہ پر نہیں بلکہ فلاسفہ کی عدمِ صلاحیت پر معترض ہیں کہ وہ منطق کے اصولوں کو صحیح طرح استعمال نہیں کر پا رہے- آپ کا دوسرا اعتراض مسلم فلاسفہ کے متکبرانہ اور تنگ نظر رویے پر تھا- امام صاحب کی فلسفہ اور سائنس پر معروضی پوزیشن کا جائزہ ان کی کتاب ’’مقاصد الفلاسفہ‘‘سے لیا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے فلاسفہ کے علوم کو 4حصوں (1)ریاضیات (2) الٰہیات (3)منطقیات اور (4)طبیعات میں تقسیم کیا ہے-
ریاضیات میں امام صاحب فلاسفہ سے کوئی اختلاف نہیں رکھتے لیکن الٰہیات کے اکثر مسائل پر آپ الٰہٰیین کے موقف سے متفق نظر نہیں آتے- منطقیات میں اکثر نظریات کو درست مانتے ہیں اور طبیعات کو غلط و صحیح کا مجموعہ سمجھتے ہیں-اسی طرح علوم کی درجہ بندی اور فلسفیانہ اخلاقیات کے بارے میں امام غزالی کے نظریات ہم عصروں یا پیشروؤں سے مطابقت رکھتے ہیں-ابنِ خلدون نے امام غزالی کو الٰہیات کا بانی قرار دیاکیونکہ متاخرین میں آپ نے ایک نئی روایت کی بنیاد ڈالی- امام الغزالی کے نظریات جیسا کہ روح اور اس کی ماہیت پر دلائل اور آپ کی متعدد تصانیف، مسلم فلسفیوں مثلاً ابنِ سینا کے اثرات نظر آتے ہیں-
علمِ کائنات : ابنِ عربی ، اقبال اور جدید فزکس
جناب محمد علی شہباز: (پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ طبیعات، قائداعظم یونیورسٹی، اسلام آباد)
ابن عربی اور طبیعات مابعد الطبیعات اور جدید سائنس کی انتہا ہیں اور ان دونوں انتہاؤں میں توازن اقبال کے فلسفہ نے پیدا کیا ہے- ابنِ عربی کے مطابق تکوینیات خدا کی پہچان اور مشاہدہ کا علم ہے- کائنات محض مادی صفات کا مجموعہ نہیں بلکہ خدا کی صفات کا مظہر ہے- ابنِ عربی نے کائنات میں موجود نشانیوں کی تصدیق کیلئے عقل سے زیادہ وجدان کو اہمیت دی ہے کیونکہ وجدان ان کائناتی مظاہر کا براہ راست مشاہدہ کرتا ہے جبکہ عقل حواس اور ذہن کے واسطے سے کام کرتی ہے- حواس ِ خمسہ صرف خدا کے مظاہر کی ظاہری سمجھ حاصل کرتے ہیں جبکہ باطن کی اشیاء حواسِ خمسہ کی زد سے باہر ہیں لہٰذا ان کا مشاہدہ مادی طریقوں سے نہیں کیا جا سکتا- فزکس کا علمِ کائنات آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت اور کوانٹم فزکس پر مشتمل ہے اور آغازِ کائنات کے لیے بگ بینگ تھیوری پیش کی جاتی ہے- تاہم جدید فزکس ابھی تک ایک مکمل کائناتی نظریہ تشکیل نہیں دے پائی-علامہ اقبالؒ نے جدید سائنسی نظریات پر تنقید کرتے ہوئے قرآن کی بنیاد پر مادیت، حیات اور شعور کی نئی تشریح کی- اقبال سائنس کو مسلمانوں کی میراث قرار دیتے ہیں اور نت نئے سائنسی مشاہدات کو قرآن کے فلسفہ کے تحت سمجھتے ہوئے کائنات کی تشکیلِ نو کرنے کا درس دیتے ہیں-
ابن عربی کا نظریہ علم
ڈاکٹر قیصر شہزاد: (سربراہ شعبہ تقابل بین المذاہب، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد )
ابنِ عربی کا نظریہ علم مروجہ فلسفیانہ روایات سے الگ خواص کا حامل ہے- آپ نے علم کی اخلاقی و عملی جہات پر زور دیا- آپ کے مطابق ایک سست عالم ایک ہوشیار جاہل سے بدرجہا اچھا ہے- یہ ہمیں دلیل اور جوش کی رقابت کی یاد دلاتی ہے - ابنِ عربی کے لیے علم لامحدود وسعت کا مالک ہے- چونکہ فلسفیانہ طور پرآپ کائنات کی تدریجی تخلیق کے قائل ہیں، اس لیے آپ کے خیال میں کوئی بھی علم کی آخری منزل تک نہیں پہنچ سکتا اور بہتری کی گنجائش ہمیشہ باقی رہتی ہے-آپ کا قول ہے کہ انسان علم کا حصول بنیادی طور پر دو طریقوں سے کرتا ہے- ایک اپنے وجدان سے اور دوسرا حواسِ خمسہ یا غوروفکر سے-
غور و فکر انسان کو حقائق کے جائزہ سے کسی نتیجہ پر پہنچنے میں معاون ثابت ہوتا ہے-یہ امر دلچسپی کا باعث ہو گا کہ دلیل اور غور و فکر میں تقلید کا رشتہ ہے- پس، دلیل غور و فکر کی مقلد ہے- آپ کے مطابق، دلیل خدا کو اس کی نشانیوں سے پہچانتی ہے لیکن اس کے پاس محض غور و فکر کا سہارا ہے- لیکن غور و فکر کے بعد حاصل کی گئی دلیل صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی-اس سے یہ پتا چلا کہ دلیل علم پر مبنی غور و فکر کا حاصل ہے جو کہ اتفاقیہ یا کسی حادثہ کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے- ابنِ عربی علم اور معرفت میں تفریق کرتے ہیں اور بعد الذکر کی تشریح کرتے ہیں-معرفت وہ علم ہے جو صرف پارسائی، مشق اور ریاضت کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے-
صدارتی کلمات
پروفیسر ڈاکٹر سہیل عمر :(سابق ڈائریکٹر اقبال اکیڈمی)
فوٹان کا برتاؤ یا Nonlocality (زیادہ فاصلے سے اجسام کا ایک دوسرے پہ اثر انداز ہونا) کی آخر تعبیر کیسے ہوگی یہ تو تجربات ہیں جو آپ کو تجربہ گا ہ سے حاصل ہو رہے ہیں- Bohm نے اس کو کامیابی سے ’’wholeness and the implicate order‘‘ (کاملیت اور مخفی ترتیب ) میں سمیٹ کر بیان کر دیا اور اسے اگر آپ غور سے پڑھیں تو وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کَہ رہا جو ’’اوپنیشد‘‘نے کَہ دیا تھا جو قرآن مجید میں فرمایا گیاہےاور یہ جو ہمارے بڑے لوگ کہتے چلے آ رہے ہیں کہ ایک مخفی ترتیب ہے جس میں ہر چیز منجمد ہے-
علم الاعداد اور چیز ہے، ریاضی اور چیز ہے علم الاعداد کا تعلق مشتری سے ہے-اگر امام غزالی نے کہیں یہ لکھا بھی ہے کہ علم الاعداد کارِ شیطان ہیں تو علم الاعداد کا ترجمہ ریاضی کیسے ہوگیا،انگلش میں ’’Mathematics‘‘ کیسے ہو گیا، وہ ریاضی ہو ہی نہیں سکتا وہ ’’numerology ‘‘ہونا چاہیےامام غزالی نے اصول فقہ میں منطق کا استعمال کیا جس پر طنز توڑا جا رہا تھا کہ آپ منطق کو فقہ میں کیوں لے کر آ گئے ہیں- لیکن یہ انہوں نے خدمت سر انجام دی ہے کہ آج اصول فقہ منطق کے بغیر چلتی نہیں ہے-
ابن سینا کا ایک مشہور قول ہے کہ :
’’وہ طبعی علوم بیکار ہیں اگر وہ اپنے اپنے علم کے راستے اور راہ داری سے آپ کو ایک اصول واحد کی طرف نہیں لے جاتے‘‘-
یہی بات عوام الناس نے امام الغزالی اور ابن عربی سے سنی لیکن انداز مختلف ہیں -
’’ Pantheism‘‘ کا نظریہ وحدت الوجود ہرگز نہیں ہے کہ ’’Pantheism ‘‘میں تنگ نظری پائی جاتی ہے اور مسلم تہذیب اپنے نظریات میں اتنی تنگ نظر قطعاً نہیں تھی- ابنِ عربی نے کہیں بھی وحدت الوجُود کی اِصطلاح استعمال نہیں کی، یہ تو اُن کے بہت بعد اُن سے منسُوب کر دی گئی-
علم کی حد کنہ ذات سے نیچے رک جاتی ہے اور کنہ ذات کو آپ نہیں جان سکتے- ابن عربی کے الفاظ میں یہ تو ایک ایسا سمندر ہے جس کا ساحل بھی نہیں ہے -علم سے جتنی آپ کی سیرابی ہوتی جائے گی اتنی اتنی تشنگی بڑھتی چلی جائے گی اور’’ہسٹن سمتھ‘‘ کا ایک بڑا اچھا فقرہ ہے کہ:
’’ علم کا ساحل جتنا بڑا ہو گا جہالت کا سمندر بھی اتنا ہی بڑا ہو گا‘‘-
وقفہ سوال و جواب:
تمام مقررین کے اظہارِ خیال کے بعد تفصیلی وقفہ سوال و جواب منعقد کیا گیا جن کا خلاصہ درج ذیل ہے :
خودی منفرد بھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یکجا بھی ہے جیسا کہ ہر فرد میں اس کی خودی منفرد ہے لیکن خدا کی ذات کے ساتھ بھی جڑی ہے- اقبال سے جب پوچھا گیا کہ جب کوئی بے پایاں خودی کے سامنے جائے گا تو کیا اس کے سامنے کھڑا رہ سکے گا؟ یا وہ اس میں ضم ہو جائے گا ؟ جواب میں اقبال نے کہا : جب کسی دوپہر میں چراغ لے کر سورج کے سامنے آجائیں تو چراغ کی روشنی سورج کی روشنی میں ضم ہو جائے گی لیکن چراغ بجھ نہیں جاتا اپنے ہونے کا ثبوت دے رہا ہوتا ہے-
تصوف کو مختصر بیان کریں تو یہ حق کا مشاہدہ ہے لیکن حواس و عقل سے نہیں اور اس میں ابن عربی اور اقبال متفق ہیں دونوں کے نزدیک وجدان ہی ہمارے عقلی استدلال سے زیادہ قابل اعتبار ہے-
خدا کوئی ’’ہیگز فیلڈ‘‘نہیں ہے کیونکہ خدا جہات سے ماورا ہے اور اس کی جہات لا متناہی ہیں-امام غزالی کی کتاب میں انہوں نے اس زمانے کے لوگوں کی سائنسی سوچ کا بڑی خوبصورتی سے خلاصہ پیش کیا ہے اور وہ زمان و مکاں کی بحث میں اپنے دور سے بہت آگے تھے- انہوں نے آئن سٹائن کے ریاضیاتی ماڈل سے 8صدیاں قبل زمان کی یکسانیت کو مکاں کی یکسانیت سے منطبق کیا اور زمان کی ابتدا پہ بحث کی-امام غزالی نے کبھی بھی سائنس اور ریاضی کے علم پہ اعتراض نہیں کیا بلکہ نظریہ جبر کو رد کیا جسے آج جدید فزکس بھی رد کرتی ہے- ایک طبقہ ہے جو بلاجواز و بلا ثبوت تنقید امام غزالی پہ شروع کئے ہوئے ہے اِس لئے امام غزالی کی درست تفہیم کی ضرورت ہے اور امام صاحب کو درست طریقہ سے اُن کے اپنے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے-
اظہارِ تشکر
صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب :(چئیرمین مسلم انسٹیٹیوٹ)
میں تمام مقررین کا دلی طور پر شکریہ اداکرتا ہوں کہ آپ سب نے اپنے قیمتی وقت میں وقت نکالا-جو گفتگو ہوئی وہ آپ سب کے سامنے ہے اس کے بعد میرا کچھ کہنا اس کو دھندلانے کے مترادف ہو گا-آج ہم نے دونوں سیشنز میں سائنس اور مابعد الطبیعات پہ بڑی سیر حاصل گفتگو سنی، اب اس کو ڈائجسٹ کرنے کیلئے بھی ایکسر سائز کرنے کی ضرورت ہے-اس کے لئےظاہر ہے علمی ایکسر سائز کرنی ہوگی جو سوالات اٹھے ہیں آپ انہیں بغیر جواب کے نہ چھوڑ دیں بلکہ اس کی تلاش میں جستجو کو جاری رکھیں-
بہت شکریہ
٭٭٭
[1](الاعراف:54)
مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام سیمینار بعنوان ’’سائنس اور مابعد الطبیعات: مسلم نقطہ نظر‘‘ کا انعقاد 26 اپریل 2018ء کو نیشنل لائبریری اسلام آباد میں کیا گیا-
پہلا سیشن : نظریاتی جائزہ
پہلے سیشن کی صدارت معروف مصنف اور سکالر ڈاکٹر زیڈ اے اعوان صاحب نے کی- چئیرمین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے افتتاحی کلمات ادا کیے- ملک آصف تنویر اعوان ایڈووکیٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ نے ماڈریٹر کے فرائض سرانجام دئیے- مختلف یونیورسٹیز کے طلبہ،اساتذہ، تھنک ٹینکس کے نمائندگان، صحافیوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے والے لوگوں نے سیمینار میں شرکت کی-
معزز مہمان گرامی کے اظہار خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے:
افتتاحی کلمات:
صاحبزادہ سلطان احمد علی:( چیئر مین مسلم انسٹیٹیوٹ )
اس سیمینار کے انعقاد کا مقصد ایک ایسے عنوان پہ بات کرنا ہے جو تاریخ انسانی میں کسی نا کسی صورت میں زیر بحث رہا ہے-آج کے دور میں فلاسفہ، علم الہیات کے ماہرین، سکالرز، مورخین، سائنسدان، ماہرِین نفسیات، صوفیاء اور دوسرے علوم کے ماہرین کی حقیقتِ ابدی، شعور، تقدیرِ کائنات اور ان جیسے دوسرے بڑے سوالات پر پُر مغز اور معنی خیز گفتگو نے اس بحث کو مزید دلچسپ بنا دیا ہے-سائنسی تحقیقات کو حرف آخر ماننے کی سوچ (scientism) عالمگیر حقیقتوں اور اقدار کے انحطاط کا باعث بن رہی ہے- حتیٰ کہ انسانیت کی سب سے اہم میراث، ’’شعور‘‘کو بھی بعض حلقوں کی جانب سے محض وہم قرار دیا جانے لگا ہے-اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ مسلم تہذیب نے علوم خصوصاً فلسفہ اور ما بعد الطبیعات کے ارتقاء میں اہم کردار ادا کیا ہے- حجۃ الاسلام ابو حامد، امام الغزالی اور محی الدین شیخِ اکبر ابنِ عربی جیسے سکالرز کا اس ضمن میں کردار بہت اہم ہے- ان عظیم شخصیات کی نمود کسی حادثے یا اتفاق کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ مسلم تہذیب کا علم کے لیے مسلسل لگاؤ کا ثمر ہے- اس تابناک پسِ منظر کے ساتھ، ہمیں ایک ایسی بحث کے آغاز کی ضرورت ہے جو کہ نہ صرف نئے سوالوں کے جواب دے سکے، نئے سوال اٹھا سکے بلکہ سوالات پر بھی سوال اٹھاسکے-
سائنس، اقدار اور اخلاقیات :
ڈاکٹر عالیہ سہیل خان:
(پرنسپل گوررنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج برائے خواتین، راولپنڈی)
نیچرل سائنسز کی خدمات بہت زیادہ ہیں- لیکن سائنس، اقدار اور ادب میں واضح خلیج پائی جاتی ہے- یہ سب ٹیکنالوجی کی اندھا دھند ترقی کا نتیجہ ہے جس نےستارہویں صدی میں نظریہ (scientism)کو فروغ دیا جو اب ایک عقیدہ کی صورت اختیار کر چکا ہے کہ سائنس کے علاوہ کوئی حقیقت اور سچ نہیں ہے-ادبی انحطاط کے باعث علم محض اعداد اور انفارمیشن کا مجموعہ بن کر رہ گیا ہے- دوسری جانب،صرف معروضیت پسندی کا قصہ اچھے اور برے میں تمیز نہیں کر سکتا-حقیقت کے متعلق محدود نظریہ نے اس سوچ کو پروان چڑھایا ہے کہ حقیقت صرف وہ ہی ہے جس کو مادی اعتبار سے دیکھا یا پرکھاجا سکے جس سے زمان و مکاں کی قید سے آزاد ابدی حقیقت کا انکار ہوتا ہے-
انسانی فطرت کا محدود تجزیہ مادیت، خود پسندی اور ہوبس، ایڈم سمتھ، مالتھس، ڈارون، فرائیڈ اور مارکس کے پیش کردہ نظریہ حیات پر مبنی ہے- ادب ہمیں ازلی اور مقدس روایات کو جانچنے کا موقع فراہم کرتا ہے- اگر ہم اقدار کے نظام کو فروغ دیں گے تو اس سے یقین ایثار، عشقِ حقیقی، صبر، برداشت اور حقیقی خوشی و اطمینان نصیب ہو گا-
سائنس اور مذہب ؛ افسانہ بمقابلہ حقیقت :
ڈاکٹر عاصم رضا :(یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب لاہور)
مذہب اور سائنس کے متعلق عمومی واقفیت یہ ہے کہ مذہب محض رسوم و روایات کا نام نہیں ہے اور سائنس تصورات کی ایک ارادی و باقاعدہ ترتیب کا نام ہے اور اس سائنسی نظام کی بنیادی خوبصورتی یہ ہے کہ ان کو ہر جگہ دوہرایا جا سکتا ہے- ستارہویں صدی کے بعد مذہب پر ہونے والی بحث میں مذہب کو بطور فلسفۂ مذہب ہی سمجھا جاتا ہے یعنی مذہب بطور دین بحث میں نہیں آتا تھا - مذہب اور سائنس سے متعلق کسی بھی بحث میں مذ ہب فلسفہ اور سائنس تینوں دائروں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے- یہ تینوں دائرے فرد پہ اثرانداز ضرور ہوتے ہیں اور ہر دائرہ علم یہ دعویٰ کرتا ہے کہ حقیقت کے متعلق اس کے دلائل سب سے زیادہ مضبوط ہیں- لیکن جب یہ بحث عمومی لوگوں سے نکل کر اہل دانش کا رخ کرتی ہے تو اس کی مزید جہتیں سامنے آتی ہیں- جان پالکن نے سائنس اور مذہب کے ادراک کے لیے چار ماڈل پیش کیے ہیں:
1. سائنس اور مذہب کا تصادم
2. سائنس اور مذہب کی آزاد حیثیت (Independence)
3. سائنس اور مذہب کے مابین مکالمہ (Dialogue)
4. سائنس اور مذہب کا انضمام (Integration)
امام الغزالی نے ملحد یونانی فلسفیوں کا فلسفہ کی زبان سے ہی رد کیا جب کہ موحد یونانی فلسفیوں کے علوم کا اپنی تصانیف میں بھی استعمال کیا جیسا کہ تصور عدد اور ارسطو کی قیاسی منطق-
قرآن اور تجرباتی علم:
ڈاکٹر دلدار احمد علوی:
(ڈین نیچرل سائنسز، فارمین کرسچین کالج یونیورسٹی ، لاہور)
قرآن مجید کی بنیادی تعلیمات کا شناختی ڈھانچہ کھڑا کرنا ہو گا مگر اس سے پہلے ہمیں اپنے آپ کو سمجھنے کی ضرورت ہے-علم نے جو اس دنیا میں ارتقا حاصل کیا ہے ہمیں اپنے آپ کو اس میں دیکھنا بہت ضروری ہے اور اسی چیز سے ہم نے قطع نظرکیا ہوا ہے- میں نے دیکھا ہے ہمارے مسائل بہت سادہ ہیں اور ان کا تعلق علم سے ہے مثال کے طور پر وہ لوگ جو قرآن پاک کی تشریح و تفسیر کرتے ہیں ان کی’’ capacity building‘‘ انتہائی ضروری ہے - جب قرآن پاک یہ کہتا ہے بیشک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے [1] تو ایام کی کوئی بھی تعریف کر لیں وہ ایک متعین وقت بنتا ہے- اگر یہ ایک عرصہ ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو ایک مخصوص وقت میں تخلیق فرمایا، اللہ تعالیٰ نے اس کو ایک حکمت کے تحت تخلیق فرمایا-اس کو آپ تدریجی تخلیق یا کچھ بھی کہیں مگر ارتقا کا تصور بالکل واضح ہے اس کی شکلیں مختلف ہو سکتی ہیں-ان بنیادی باتوں میں ہم فرق کر سکتے ہیں جب ہمارا اپنا ذہن وسیع ہو اور چیزوں کو ان کی خالص ترین حالت میں پرکھ سکیں-
سائنس اور معاشرہ:
پروفیسر ڈاکٹر سہیل عمر :(سابق ڈائریکٹر اقبال اکیڈمی پاکستان)
’’سائنس کے طلباء کیلئے سوشل سائنسز کی تعلیم کیوں ضروری ہے؟ ’’دورِ حاضر کا یونیورسٹیز میں زیرِ بحث ایک اہم سوال ہے-جدید سائنس ہمیں حقیقت کا محض جزوی منظر نامہ پیش کرتی ہے- 6ایسے پہلو ہیں جن پر سائنس کا کوئی اختیار نہیں-ان پہلوؤں میں اقدار، مفاہیم، مقاصد، لاشعور، خواص اور برتر کی قبولیت شامل ہیں-اگر سائنس ہمیں دنیا کے تمام پہلوؤں سے روشناس نہ کرا سکے تو اس صورت میں ہمیں دوسرے ذرائع سے رہنمائی حاصل کرنا پڑے گی اور یہی سوشل سائنسز کے محرکین کی دلیل ہے-اولاً، سائنس تشریحی اقدار کا تجزیہ تو کر سکتی ہے لیکن فطری اقدار پر اس کا کوئی زور نہیں-
دوئم، ادراکی مفاہیم تو سائنس کے زیرِ اثر ہیں لیکن نظریہ وجودیت سائنس کے دائرہ کار سے آزاد ہے-اسی طرح سائنس ظاہری زندگی کے مقاصد تو طے کر سکتی ہے لیکن اس کی سوچ کی وسعت غیر مادی زندگی کی صورتوں کا احاطہ نہیں کر سکتی-مزید، سائنس مقدار کو تو ناپ سکتی ہے خاصیت کو نہیں-سائنس ایسی غائب قوتوں پہ تو کام کر سکتی ہے جن کا کسی ظاہری وجود رکھنے والے شے سے تعلق ہو لیکن غائب کو دیکھ نہیں سکتی-آخر میں اپنے سے برتر کے وجود کو تسلیم کرنا ہےکیونکہ ثبوت کی عدم موجودگی کسی کی عدم موجودگی کا ثبوت نہیں ہو سکتی اور سائنس نے یہ غلطی بارہا دہرائی ہے- حقیقت کے ارفع پہلوؤں کا ہماری جدید فکر سے اخراج، جدت اور روایات کے مابین خلاء پیدا کر دے گا-
صدارتی کلمات :
ڈاکٹر زیڈاے اعوان صاحب:(معروف مصنف و سکالر)
سب سے پہلے میں مبارکباد پیش کرتا ہوں جناب صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کو جنہوں نے اتنے زبردست پروگرام کا انعقاد کیا اور اس میں بڑے بڑے موتی بکھیر دیے- سائِنس، ٹیکنالوجی پر بڑےبڑے مقالات موجود ہیں اور بہت ساری متاثر کن چیزیں ہیں-سب سے پہلے ڈاکٹر عالیہ خان صاحبہ نے بڑی خوبصورت بات کی ہے کہ عقلیت پسندی کے علاوہ بھی حقیقت کے ادراک کے ذرائع موجود ہیں- یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ وحی اور عقلی استدلال کی خلیج کو کیسے ختم کیا جا ئے- سائنس کی بنیادی چیز ’’ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘‘جسے مذہب بھی مانتا ہے- تمام سائنسی دریافتیں درحقیقت مذہب کی طرف ہی راہنمائی کرتی ہیں کیونکہ ان سے حقیقت کا وجدان حاصل ہوتا ہے- جیسے ڈاکٹر صاحب نے بتایا ڈارون کی جو بات شروع ہوئی ہےاس نے ایک نظریہ پیش کیا پھر اس سے ملتے جلتے مزید نظریات پیش کیے گئے اور نیو ڈارون کا نظریہ بھی پیش کیا گیا یہ ساری چیزیں مذہب کے زیر اثر بھی رہیں- زبردست بات یہ ہے کہ 100 سالہ ایک پادری پھول اکٹھے کرتا تھااور اس نے وراثت کے تین قانون متعارف کرائے- میرا تو یہ خیال ہے کہ یہ اس کا مذہبی وجدان تھا جس سے اس نے یہ قانون بنائے:
یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید |
وقفہ سوال و جواب:
تمام مقررین کے اظہارِ خیال کے بعد تفصیلی وقفہ سوال و جواب منعقد کیا گیا جن کا خلاصہ درج ذیل ہے:
قرآن پاک کو سمجھنے کے لئےمختلف ذرائع استعمال کرنے چاہئیں کیونکہ سب نے اپنے دائرہ علم کے مطابق لکھا ہے-قرآن پاک لامتناہی ہے اس کو سمجھنے کی کاوشیں جاری رہنی چاہیں-ہدایت کا لفظ وسیع تر مفہوم میں ہے-ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایک عالمی تناظر ہے اور ایک عملی نظام، پہلا قبول کرنا روحانی پہلو ہوگا اور دوسرا عملی نظام رہنمائی کے لئے کھلا ہوا ہے-ہمارا کام ہے کہ قرآن پاک کی ہدایت کے وسیع تر مفہوم کو سمجھیں-کائنات کا ایک خالق ہے جس نے اس کو ایک مقصد کے تحت بنایا ہے اور یہ کائنات بالآخر سمیٹ دی جائے گی-ایک رائے یہ ہے کہ اگرسائنس کو مناسب وقت مل جائے تو وہ اپنی محدودیت سےنکل جائے گی اور جو چیز اس کےگرفت میں نہیں وہ بھی آجائےگی،مگراس کی دوسری رائےیہ ہےکہ جب تک سائنس اپنےبنیادی طریقہ کارمیں تبدیلی نہ کرےاس میں کوئی تبدیلی نہیں آئےگی اور یہ ہر چیز کو سمجھنے سے قاصر رہےگی- آج کی اس محفل کا مقصد سائنس اور مذہب کے فاصلے کو ماپنا ہے اور ان میں تضاد نہیں کیونکہ خدا نے اس جہاں کو اپنی تدبیر کے تحت بنایا ہے اور انسان نے واپس اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے- طبیعات کے ماہرین بھی ایک دن جان جائیں گے کہ وہ حقیقت اور مشاہدات جن سے وہ واقف ہیں ان کے علاوہ بھی ایک حقیقت ہے کیونکہ آفاق میں اور بہت کچھ ہے جسے سائنس دریافت نہیں کر سکتی-
دوسراسیشن :
مسلم مفکرین کا ایک مطالعہ
دوسرے سیشن کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر سہیل عمر (سابق ڈائریکٹر اقبال اکیڈمی پاکستان) نے کی-مسلم انسٹیٹیوٹ کے ریسرچ ایسوسی ایٹ جناب احمد القادری نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دئیے-
دوسرے سیشن میں شرکت کرنے والے معزز مہمان گرامی کے اظہار خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے:
سائنس اور روحانیت اقبال کی نظر میں
جناب ادریس آزاد :(انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد)
علامہ اقبال ()نے کائنات میں پائے جانے والے ہر ایک فرد کے انفرادی وجود اور اس کی اہمیت کو اجاگر کیا-کسی بھی فرد کو اپنے موجود ہونے کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کا وجود ہی اس کی موجودگی کا ثبوت ہے- پس ہر فردِ واحد کو اپنے وجود اور انفرادی اہمیت کا احساس ہونا چاہیے-اسی طرح ہر شخص کی خودی بھی اپنا وجود رکھتی ہے-ہر شخص کا اپنی انفرادیت کا احساس ہی اقبال کے فلسفہ خودی کا بنیادی پیغام ہے-اقبال نے طالبانِ مولیٰ کو حقیقتِ الٰہی کا مشاہدہ اور اس کو جذب کرنے والوں میں تقسیم کیا ہے-اقبال نے اپنے ایک خطبہ میں کہا کہ علم کی تلاش بھی عبادت ہے اور مظاہرِ قدرت کا سائنسی جائزہ لینے والے بھی عبادتِ الٰہی میں مصروف ہیں- مولانا رومی ()کے الفاظ میں جب کوئی ہرن کے قدموں کی چھاپ کی پیروی کرتا ہے تو کستوری کی خوشبو اس کی راہنما بن جاتی ہے-اقبال اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سائنسدان صرف قدموں کی پیروی کر رہے ہیں جس کے باعث ان کی جستجو کا دائر ہ کار محدود ہو جاتا ہے-اس کے باوجود سائنس قدرت کے مشاہدہ کی طاقت عطا کرتی ہے جس سے فلسفہ کے پیروکار محروم ہیں- اسی لیے قرآن علمِ مشاہدہ پر بھی زور دیتا ہے کیونکہ یہ بھی حصولِ حقیقت کا ذریعہ ہے- اس بناء پر اقبال نے صوفیاء اور سائنسدان دونوں کو حقیقت الٰہی کا طالب قرار دیا ہے-تاہم، مراتب میں فرق ہے کیونکہ سائنسدان محض قدرت کے اصولوں کا جائزہ لیتا ہے جبکہ ولی اللہ صاحبِ حقیقت اور قدرت کے رازوں کا امین ہوتا ہے- سائنس دائمی حقیقت کو قدم بقدم اور روحانیت حقیقتِ الٰہی کو کامل صورت میں جاننے کا نام ہے-
سائنس، مذہب و فلسفہ کے متعلق امام غزالی کے تصورات
جناب محمد عثمان:(لیکچرار ، یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب، لاہور )
امام الغزالی بلند پایہ دانشمند مانے جاتے ہیں جس کی وجہ ان کی فکر کی کثیر الجہتی ہے- آج امام صاحب کے بارے میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ وہ فلسفہ اور سائنس کے دشمن تھے-امام غزالی کی تنقید چند فلسفیانہ نظریات پر تھی نہ کے فلسفہ پر- اگر امام غزالی کی کتاب ’’تہافۃ الفلاسفہ‘‘ کا جائزہ لیا جائے تو اس میں آپ فلسفہ پر نہیں بلکہ فلاسفہ کی عدمِ صلاحیت پر معترض ہیں کہ وہ منطق کے اصولوں کو صحیح طرح استعمال نہیں کر پا رہے- آپ کا دوسرا اعتراض مسلم فلاسفہ کے متکبرانہ اور تنگ نظر رویے پر تھا- امام صاحب کی فلسفہ اور سائنس پر معروضی پوزیشن کا جائزہ ان کی کتاب ’’مقاصد الفلاسفہ‘‘سے لیا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے فلاسفہ کے علوم کو 4حصوں (1)ریاضیات (2) الٰہیات (3)منطقیات اور (4)طبیعات میں تقسیم کیا ہے-
ریاضیات میں امام صاحب فلاسفہ سے کوئی اختلاف نہیں رکھتے لیکن الٰہیات کے اکثر مسائل پر آپ الٰہٰیین کے موقف سے متفق نظر نہیں آتے- منطقیات میں اکثر نظریات کو درست مانتے ہیں اور طبیعات کو غلط و صحیح کا مجموعہ سمجھتے ہیں-اسی طرح علوم کی درجہ بندی اور فلسفیانہ اخلاقیات کے بارے میں امام غزالی کے نظریات ہم عصروں یا پیشروؤں سے مطابقت رکھتے ہیں-ابنِ خلدون نے امام غزالی کو الٰہیات کا بانی قرار دیاکیونکہ متاخرین میں آپ نے ایک نئی روایت کی بنیاد ڈالی- امام الغزالی کے نظریات جیسا کہ روح اور اس کی ماہیت پر دلائل اور آپ کی متعدد تصانیف، مسلم فلسفیوں مثلاً ابنِ سینا کے اثرات نظر آتے ہیں-
علمِ کائنات :
ابنِ عربی ، اقبال اور جدید فزکس
جناب محمد علی شہباز:
(پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ طبیعات، قائداعظم یونیورسٹی، اسلام آباد )
ابن عربی اور طبیعات مابعد الطبیعات اور جدید سائنس کی انتہا ہیں اور ان دونوں انتہاؤں میں توازن اقبال کے فلسفہ نے پیدا کیا ہے- ابنِ عربی کے مطابق تکوینیات خدا کی پہچان اور مشاہدہ کا علم ہے- کائنات محض مادی صفات کا مجموعہ نہیں بلکہ خدا کی صفات کا مظہر ہے- ابنِ عربی نے کائنات میں موجود نشانیوں کی تصدیق کیلئے عقل سے زیادہ وجدان کو اہمیت دی ہے کیونکہ وجدان ان کائناتی مظاہر کا براہ راست مشاہدہ کرتا ہے جبکہ عقل حواس اور ذہن کے واسطے سے کام کرتی ہے- حواس ِ خمسہ صرف خدا کے مظاہر کی ظاہری سمجھ حاصل کرتے ہیں جبکہ باطن کی اشیاء حواسِ خمسہ کی زد سے باہر ہیں لہٰذا ان کا مشاہدہ مادی طریقوں سے نہیں کیا جا سکتا- فزکس کا علمِ کائنات آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت اور کوانٹم فزکس پر مشتمل ہے اور آغازِ کائنات کے لیے بگ بینگ تھیوری پیش کی جاتی ہے- تاہم جدید فزکس ابھی تک ایک مکمل کائناتی نظریہ تشکیل نہیں دے پائی-علامہ اقبال ()نے جدید سائنسی نظریات پر تنقید کرتے ہوئے قرآن کی بنیاد پر مادیت، حیات اور شعور کی نئی تشریح کی- اقبال سائنس کو مسلمانوں کی میراث قرار دیتے ہیں اور نت نئے سائنسی مشاہدات کو قرآن کے فلسفہ کے تحت سمجھتے ہوئے کائنات کی تشکیلِ نو کرنے کا درس دیتے ہیں-
ابن عربی کا نظریہ علم
ڈاکٹر قیصر شہزاد:
(سربراہ شعبہ تقابل بین المذاہب، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد )
ابنِ عربی کا نظریہ علم مروجہ فلسفیانہ روایات سے الگ خواص کا حامل ہے- آپ نے علم کی اخلاقی و عملی جہات پر زور دیا- آپ کے مطابق ایک سست عالم ایک ہوشیار جاہل سے بدرجہا اچھا ہے- یہ ہمیں دلیل اور جوش کی رقابت کی یاد دلاتی ہے - ابنِ عربی کے لیے علم لامحدود وسعت کا مالک ہے- چونکہ فلسفیانہ طور پرآپ کائنات کی تدریجی تخلیق کے قائل ہیں، اس لیے آپ کے خیال میں کوئی بھی علم کی آخری منزل تک نہیں پہنچ سکتا اور بہتری کی گنجائش ہمیشہ باقی رہتی ہے-آپ کا قول ہے کہ انسان علم کا حصول بنیادی طور پر دو طریقوں سے کرتا ہے- ایک اپنے وجدان سے اور دوسرا حواسِ خمسہ یا غوروفکر سے-
غور و فکر انسان کو حقائق کے جائزہ سے کسی نتیجہ پر پہنچنے میں معاون ثابت ہوتا ہے-یہ امر دلچسپی کا باعث ہو گا کہ دلیل اور غور و فکر میں تقلید کا رشتہ ہے- پس، دلیل غور و فکر کی مقلد ہے- آپ کے مطابق، دلیل خدا کو اس کی نشانیوں سے پہچانتی ہے لیکن اس کے پاس محض غور و فکر کا سہارا ہے- لیکن غور و فکر کے بعد حاصل کی گئی دلیل صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی-اس سے یہ پتا چلا کہ دلیل علم پر مبنی غ?