“This is quite a game, politics. There are no permanent enemies, and no permanent friends, only permanent interest”.[1]
’’یہ سیاست، بالکل ایک کھیل ہے-یہاں کوئی مستقل دشمن یا دوست نہیں مگر مستقل مقاصد ہیں‘‘-
عالمی سیاست کا یہ مقولہ جنوبی ایشیاء کے سیاست میں ہمیشہ بدلتی سیاسی ہواؤں کی صحیح عکاسی کرتا ہے- چاہے وہ مسئلہ کشمیر ہو، سرد جنگ ہو، امریکہ-چین تعلقات کی شروعات ہو،تخلیقِ بنگلہ دیش ہو، نیوکلئیر ازیشن ہو، افغان جنگ ہو، وار آن ٹیرر ہو، این -ایس-جی ممبر شپ ہو، پیوٹ ٹو ایشیاء (Pivot to Asia) لک ایسٹ (Look East) دفاعی و معاشی تعلقات ہوں یا وَن بیلٹ وَن روڈ (OBOR) جیسے معاشی ربط کےمنصوبے ہوں اس قول کی عکاسی کرتے ہیں-مندرجہ بالا تمام تاریخی لمحوں میں جنوبی ایشیاء خصوصاً پاکستان کی خارجہ پالیسی نمایاں رہی ہے-جنوبی ایشیاء کی سیاست، اندرونی کھلاڑیوں سے زیادہ عالمی شطرنج کے مہروں کے کھلاڑیوں سے کافی اثر انداز ہوئی ہے- عالمی سیاست نے اپنا سفر ملکی سیاست، علاقائی سیاست، بر اعظموں کی سیاست، بین الاقوامی سیاست، گلوبل ویلج کا سفر کرنے کے بعد اب دوبارہ واپسی کا سفر اختیار کیا اور علاقائی اور قومی سیاست نمایاں اہمیت حاصل کر رہی ہے-امریکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سب سےپہلے امریکہ(America First Policy) پالیسی ہو، بریکزٹ (Brexit)، یا پاک-چین اکنامک کوریڈور ہو اِس دور کی سیاست کو نمایا ں کرتی ہے-
پاکستان اور روس علاقائی اور عالمی سیاست میں دو اہم کردار ہیں- پاکستان اپنے ابتداء ہی سے ہمسایہ ملک کی طرف سے اِس کی خود مختاری پر حملوں کا شکار رہا جِنہوں نے پاکستان کو عالمی اداروں اور عالمی و سپیسفک طاقتوں کے ساتھ الحاق کا راستہ دکھایا جو ہاتھی کے دانتوں کی طرح دکھانے کو اور ،کھانے کو اور تھے- پاکستان کے اِس فیصلے نے اسے علاقائی طاقت سوویت یونین سے دور کر دیا- سرد جنگ میں حالات مزید کشیدہ ہو گئے اور آخر کار افغان جنگ پر تعلقات کے باب بند ہو گئے-مگر پاکستان کی عالمی امن و ترقی کے لیے خدمات کے اعتراف کی بجائے اُنہیں مشکوک بنا کر اور پاکستان کو دہشتگردی اور عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دے کر پاکستان کو نئی راہوں اور نئی منزلوں کی طرف مجبوراً دھکیلا جا رہا ہے- کیونکہ مقاصد مستقل رہتے ہیں مگر شائد ہمسفر بدل جاتے ہیں- پاکستان کے مقاصد واضح ہیں دہشتگردی سے پاک، محفوظ ایٹمی ہتھیار، تمام مسائل کا پر امن حل اور خود مختاری کا احترام-مگر شائد عالمی نادیدہ طاقتوں کے اپنے کالے کرتوتوں اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہماری امن کوششوں کو ہماری کمزوری بنا کر ہم پر آئے دن الزامات کی بوچھاڑ کر کے عالمی سیاست میں ناک آؤٹ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے-مگر شائد عالمی طاقتیں اور ان کے تلوے چاٹنے والوں کو انا میں کوئی اور نظر نہیں آتا جو خاموشی سے عالمی نظام میں ابھر رہے ہیں اور آہستہ آہستہ مختلف فیصلوں میں چیلنج کر رہے ہیں مثلاً افغانستان، شام، یمن، فلسطین، ساؤتھ چائنہ سی(South China Sea) ایران نیوکلیئیر ڈیل وغیرہ[2]- روس ان میں سے ایک ہے جو ایک بار ٹوٹ کر دوبارہ عالمی سیاست میں مزید طاقت اور مضبوطی سے ابھر رہا ہے، دُنیا بھر کے تجزیہ نگار (کچھ مُسکرا کر کچھ چہرہ بسور کر) اِس کا سہرا صدر پیوٹن کے سر سجاتے ہیں -
بدلتی جغرافیائی سیاست، دفاعی، معاشی حالات اور ابھرتے علاقائی خطرات نے پاکستان اور روس کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی راہ دکھائی -دونوں ممالک کے درمیان منظم اداروں نے دفاع، تجارت، سرمایہ کاری ، معیشیت، سائنس، ٹیکنالوجی، زراعت، تعلیم اور ثقافت کے شعبے میں تعاون میں کافی مدد فراہم کی[3]- افغانستان جنگ میں عالمی طاقتوں کی ناکامی اور اس کا الزام ہمسایوں پر لگا کر دہشتگردی کا تڑکا، بھارت کے مغربی طاقتوں کی طرف جھکاؤ، چین کا معاشی طاقت کے طور پر ابھرنا اور انفراسٹرکچر کے جال کو بچھانا، شام، قطر، یمن، فلسطین اور کشمیر پر یکساں خارجہ پالیسی نے بھی دونوں ممالک میں سرد جنگ میں پڑنے والی برف کو پگھلایا-پاکستان اور روس کے درمیان ایک دہائی سے شروع ہونے والی مفاہمت میں سب سے پہلے پاکستان پر ہتھیاروں کی فروخت پر لگائی گئی پابندی کو ختم کیا [4]اور 2014ءمیں دفاعی معاہدے کا سنگ ِ میل طے کیا جب روسی وزیر دفاع نے 45سال بعد پاکستان کا دورہ کیا-2015ءمیں دونوں حکومتوں کے درمیان تقریباً 2بلین ڈالر کاشمال -جنوب گیس پائپ لائن پروجیکٹ(North-South Gas Pipeline Project) کے معاہدہ پر دستخط ہوئے جِس کے تحت کراچی سے لاہور تک گیس پائپ لائن بچھائی جائے گی-ستمبر 2016ءمیں روس کی سپیشل فورسزز کے جوان پاکستان میں پاک فورسز کے ساتھ فوجی مشقوں ’’Friendship 2016‘‘ میں حصہ لینے کیلئے آئے[5]-2017ءمیں روس اور چین کے تعاون سے پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کی مستقل رکنیت ملی[6]- پاکستان اور روس کے درمیان باہمی تعاون دونوں ممالک کے لیے علاقائی سکیورٹی و استحکام، دفاع، معاشی تعاون کے لیے نئی راہیں کھولے گا-
دونوں ممالک اِس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ بین الاقوامی میگا پروجیکٹس بشمول چین-پاکستان معاشی راہداری، وسط ایشیائی علاقائی معاشی تعاون اور علاقائی ربط کا راستہ ہموار کر رہے ہیں- روس یوریشین ہم آہنگی میں پاکستان کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کر سکتا کیونکہ پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن سلک روڈ (اہم معاشی راہدای) کے دوبارہ انتظامی امور کیلئے کارآمد ہے جو کہ یورپ، مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور ایشیاء کے ملانے کا ایک قدرتی راستہ ہے- افغانستان میں استحکام، روس- بھارت تعلقات، امریکی اثر اندازی، یوکرائنین کرائسس، کریمیا، چین کے معاشی انقلاب، وسطیٰ ایشیاء کے ساتھ پاکستان کے تجارتی معاہدے اور ون بیلٹ ون روڈ نے پاکستان اور روس کے اپنے باہمی تعلقات کو دوبارہ سے دیکھنے اور ان کو بہتر بنانے پر مجبور کیا ہے- زیر مطالعہ تحریر بھی پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات ماضی، حالیہ قربت اور مستقبل کے لیے دونوں ممالک کے لیے نئی منزلوں کا تعین کرنے کی کوشش کرے گی تاکہ علاقائی ربط کو مزید مستحکم اور جان آور بنایا جا سکے جِس کے لیے دونوں ممالک کو عالمی فورمز کے ساتھ ساتھ علاقائی فورمز جیسا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے زیر سایہ اپنا سفر اعتماد کی فضا قائم رکھتے ہوئے طے کرنا ہے- [7]
تلخ تاریخ کے باوجود پاکستان اور روس(سابقہ سوویت یونین) کے تعلقات میں ایسے لمحات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کافی بہتر تھے- 1965ء سے 1970ء کے دورانیہ میں پاکستان اور سوویت یونین کے درمیان 1965ءمیں پہلے باہمی ثقافتی و سائنسی معاہدے پر دستخط ہوئے-پاکستان اور سوویت یونین نے پاکستان سٹیل مل کا افتتاح کیا جو کہ ایک سنگ میل سے کم نہ تھا-سرد جنگ کے خاتمے کے بعد 1999ء میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف اور روسی ہم منصب کے درمیان کئی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے-9/11کے بعد امریکہ نے پاکستان کو وار آن ٹیرر (War on Terror) میں شامل ہونے کیلئے دھمکیاں لگانی شروع کر دی [8]- امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کو اپنے مطلب کے لیے استعمال کیا اور آخر میں اپنا نزلہ پاکستان اور پاک فوج پر ڈال کر بچ جاتا مگر شائد اب اِس کی یہ چال کام نہ آئے کیونکہ دہشتگردی کے خلاف جو فوجی آپریشنزز پاکستان نے کیے ہیں وہ اپنی کامیابیوں کا منہ بو لتا ثبوت ہیں- امریکہ کے بین الاقوامی تعلقات میں اِس مستقل رویہ سے اکتا کر مجبوراً پاکستان روس کے قریب گیا اور پاکستان نے امریکہ کے ساتھ بگڑتے تعلقات کے پیش نظر 2004ء میں روسی جنگی ہیلی کاپٹر MI-35 کی پاکستان کو فراہمی سے دفاعی تجارت میں ایک نئے سنگ میل کا آغاز ہوا [9]جو بعد میں فوجی مشقوں کی صورت میں پروان چڑھا اور چڑھتا جائے گا- [10]
موجودہ دور میں پاکستان اور روس مختلف عالمی مسائل کے پُر امن حل، بین الاقوامی سکیورٹی، کثیر الجہتی ورلڈ آرڈر، اقوام متحدہ کو عالمی دنیا میں بطور مرکزی ادارہ کے مضبوط کرنا اور عالمی قانون کی بالادستی کو قائم کرنے جیسے مقاصد پر یکساں خارجہ پالیسی مقاصد رکھتے ہیں- دونوں ممالک موجودہ بین الاقوامی نظام کو تبدیل کرنے کیلئے یک طرفہ طاقت، غیر قانونی نقل و حرکت کے خلاف ہیں- دونوں ممالک ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت اور ان کو کم کرنے کے لیے مسلسل دوسری ایٹمی طاقتوں کے تعاون کے منتظر ہیں-دونوں ممالک افغانستان اور علاقائی استحکام کے لیے تعاون پر متفق ہیں- مزید برآن عالمی طاقتوں کے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم اور آئے دن پاکستان پر بےبنیاد الزامات کے باوجود روس پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف قابلِ تحسین کوششوں کا معترف ہے-[11] عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بڑھانے پر زور دیا ہے جو کہ علاقائی استحکام کے لیے روشن مستقبل کی نوید ہے- روس پاکستان کے بڑے بڑے منصوبوں جیساکہ ایران-پاکستان گیس پائپ لائن، پاکستان سٹیل مل کو مزید ترقی دینا، ٹیکسلا میں ہیوی مکینکل کمپلیکس کی بہتری، گڈو و مظفر گڑھ پاور پلانٹس کی ترقی، تھر کول پراجیکٹس، تاجکستان سے بجلی کے ترسیل کے منصوبے کاسا-1000 (Central Asia- South Asia-1000)، گیس کے منصوبے ٹاپی (Turkmenistan-Afghanistan-Pakistan-India-TAPI) اور سی پیک کے تحت اور کئی منصوبوں میں سرمایہ داری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے[12]- روس پاکستان کو اپنی تیار کردہ مصنوعات برآمد کرنے کی نظر سے دیکھتا ہے- جبکہ پاکستان اپنی موجودہ توانائی بحران کے لیے روس کے توانائی کے شعبہ سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے- اس بات کا اعادہ خود روسی صدر نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں بھی کیا کہ وہ پاکستان کے معاشی و توانائی منصوبوں میں پاکستان کی مدد کرے گا[13]- کئی سفارتکار اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ روس وسطی ایشیاء میں اپنے معاشی و دفاعی مقاصد کے حصول اور داعش کی انتقامی کاروائیوں، شدت پسندی و دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے -
دفاعی شعبہ میں روس نے پاکستان کو دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جدید ہتھیار فراہم کیے ہیں- عالمی جنگوں میں اپنے ہتھیار سے معیشیت مضبوط بنانے والوں کی پاکستان کو دفاعی آلات و ہتھیار بیچنے کی عدم دلچسپی نے پاکستان کو مجبوراً اپنے دفاع کو مضبوط کرنے کی خاطر روس کی طرف دیکھنے پر مجبور کیا ہے- جیسا کہ تحریر میں واضح ہے کہ روس پاکستان کی اہمیت کو بہت بہتر طریقہ سے سمجھتا ہے تو دفاعی تعاون علاقائی عدم استحکام کو ختم کرنے میں کافی مدد کرے گا- ہمارے سابقہ عالمی شراکت داروں کا رویّہ تو اس حد تک ہتک آمیز ہو چکا ہے کہ پاکستان کی امن پسندی کو کمزوری سمجھ کر پاکستان کومجرم کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے یہ تو ویسے ہی ہے جیسے الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے- مگر پاکستان کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ عالمی طاقتوں کی افغانستان امن میں ناکامی پر علاقائی طاقتوں کے ساتھ مل کر سیاسی طور پر اِس مسئلے کا حل نکالے کیونکہ فوجی طاقت سے حالات کشیدہ و دفاعی صنعت کے لیے موزوں تو ہو سکتے مگر شائد حل نہیں ہو سکتے- روس کے پاس سلامتی کونسل میں ویٹو کی طاقت ہے اور شنگھائی تعاون تنظیم میں بھی اہمیت کا حامل ہے جِس سے پاکستان روس کے تعاون سے دونوں فورمز پہ پاکستان دشمنوں کی ہرسرزہ سرائیوں کا بھر پور جواب دے سکتا ہے- پاکستان اور روس کے دفاعی تعلقات اِس تناظر میں بھی اہم ہیں کہ امریکہ بھارت کو روس اور چائنہ کے مقابلے میں بطور ایک علاقائی طاقت کے دیکھنا چاہتا ہے جو کہ تاریخ کے تناظر میں خود پاکستان کی اپنی سالمیت کے لیے ایک خطرہ بن سکتا ہے-طاقت وہ نشہ ہے جو آپ کو ایک نیو کلئیر ریاست پر بھی جنگ مسلط کرنے سے روک نہ سکے جِس کا ثبوت بھارت کے موجودہ آرمی چیف کے جنگی جنونیّت میں ڈوبے بیانات ہیں- [14]
عالمگیریت (Globalization) کے دور میں ہر ملک خصوصاً پاکستان ہر علاقائی و بین الاقوامی ملک سے تمام باہمی کشیدگیوں کو ختم کر کے بہتر تعلقات کا خواہاں ہے- ایسے عالم میں جِس میں معیشیت سیاست میں اپنا نمایاں اثرو رسوخ رکھتی ہے- پاکستان کیلئے اِس سے بڑھ کر کیا ہو گا اگر وہ روس، چین، امریکہ، یورپین یونین، افریقہ، مشرقِ وسطیٰ اور وسطیٰ ایشیاء کے ساتھ بہتر معاشی تعلقات مزید مضبوط کرنے کے لیے ہر موقع کا فائدہ اٹھائے- روس، یورپ کے ساتھ چلنے والے مسائل کریمیا و یوکرائن کی وجہ سے سمندری تجارت پر پابندیوں کا شکار ہے جس کی وجہ سے گوادر روس کے گرم پانیوں تک پہنچنے کیلئے بہترین موقعہ ہے جو روس کو پابندیوں کے باوجود تاریخی سلک روڈ اور سی پیک سے گوادر کے ذریعے دنیا کی معاشی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکے گا[15]-یہ پالیسی پاکستان کیلئے کسی عظیم معجزانہ انعام سے کم نہ ہو گی جِس سے نہ صرف پاکستان میں تجارتی سر گرمیاں ہوں گی بلکہ زراعت و چھوٹے کاروباروں کا کافی فائدہ ہو گا- اِس پالیسی کے تحت روس- پاک- بھارت- افغانستان کے درمیان مسائل کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرے گا جیسا کہ تاشقند معاہدہ کی صورت میں نمایاں ہے-
اگرچہ پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات کی بہتری کے کئی مواقع ہیں مگر ان کے درمیان حائل کافی روکاوٹیں اور مشکلات بھی ہو سکتی ہیں- سب سے پہلی مشکل بھارت کی شکل میں پیش آ سکتی ہے کیونکہ مسئلہ کشمیر اور دوسرے باہمی مسائل اور اعتماد کی کمی دونوں کے درمیان تعلقات میں رکاوٹیں ہیں- دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی عالمی ماحول کو سرد جنگ میں رکھے ہوئے ہے جہاں عالمی طاقتیں جنوبی ایشیاء کی سیاست پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہیں جِس سے کوئی بھی مثبت منصوبہ بھی شکوک و شبہات کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے[16]- دوسری بڑی مشکل امریکہ کی صورت میں ہو سکتی ہے- ’’پاکستان-روس‘‘ قربتیں عالمی طاقت کو پریشان کر سکتی ہیں-سرد جنگ کی جنگ ایک نیا رخ اختیار کر کے دوبارہ بھڑک سکتی ہے- جنگ وہی، میدان وہی، مقاصد وہی، کھلاڑی وہی، طریقہِ جنگ وہی بس تبدیل ہونی ہیں تو سابقہ دوستیاں و دشمنیاں-موجودہ حالات اور بھارت-امریکہ تعلقات، پاکستان اور روس کے تعلقات کیلئے موزوں فریم ورک ہے مگر ناقدین اِس کو بھی اپنے خلاف ایک پراپیگنڈہ (propaganda)کے طور پر استعمال کر رہے ہیں-سعودی عرب اور ایران کے درمیان سرد جنگ کی وجہ سے پاکستان کا ایران کے حامیوں کے بلاک میں شامل ہونا پاکستان اور عرب ممالک کے درمیان مسائل کو ہوا دے سکتا ہے- مشرقِ وُسطیٰ میں ابھرنے والے تین بڑے مسائل، شام یمن اور قطر ، پر پاکستان کی غیر جانبدار پالیسی اور غیر جانبدارانہ مؤقف پر پہلے ہی عرب دنیا میں تشویش پائی جاتی ہے-
خارجہ پالیسی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان اور روس تمام مشکلات اور روکاوٹوں کے باوجود باہمی تعاون بڑھانے پر یقین رکھتے ہیں اور مختلف سفارشات پیش کرتے ہیں-
1 دونوں ممالک کو افغانستان میں جلد امن کے لیے اپنی اپنی ذمہ داریوں کا تعین کرنا ہو گا-
2 پاکستان اور روس کو مل کر معلومات کے تبادلے کے لیے ایک ادارہ کا قیام کرنا ہو گا جِس سے دہشتگردی کا خاتمہ کیا جا سکے-
3 پاکستان کو روس کی سرمایہ کاری حاصل کرنے کے لیے ایک محفوظ اور معیشیت دوست ماحول مہیا کرنا ہو گا-
4 دونوں ممالک کے عوامی رابطے کے لیے ایک پروگرام کا افتتاح ناگزیر ہے-
5 پاکستان اور روس کو دفاعی شعبہ میں تعاون کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ایک تو بیلنس آف پاور رہے اور دوسرا کسی بھی قسم کی جارحیت کا بھر پور جواب دیا جا سکے -
6 پاکستان و روس کو ٹیکنالوجی خصوصاً سپیس ٹیکنالوجی کے شعبے میں کام کرنا ہو گا -
7 پاکستان کو روس کے ساتھ تعلقات کے ساتھ ساتھ باقی علاقائی اور بین الاقوامی دوستوں کو اعتماد میں رکھنا ہو گا-
8 پاکستان اور روس کو مل کر ہر اُس پراپیگنڈہ کا جواب دینا ہو گا جو ان تعلقات کو عالمی و علاقائی امن کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے-
9 دونوں ممالک کو مل کر سفارت کاری کے ذریعے عالمی مسائل کے حل پیش کرنا ہونگے-
10 دونوں ممالک کے میڈیا کو تعلقات کو پروان چڑھانے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہو گا-
پاک-روس تعلقات کی تاریخ ان واقعات سے بھر ی پڑی ہے جِن میں کتنے ہی مفید مواقع گنوا دیے گئے-دونوں ممالک کو ماضی کو بھلا کر نئی شروعات کی طرف دیکھنا چاہیے تاکہ ترقی و استحکام کی نئی سے نئی منزلیں طے کی جا سکیں- اِس کے لیے دونوں ممالک کو اپنی اپنی خارجہ پالیسی کے مقاصد کو دوبارہ دیکھنے اور ان کے مطابق اپنے دوستوں کا چناؤ کرنا ہو گا- تیزی سے بدلتی عالمی سیاست میں کوئی بھی ملک نہ تو تنہا رہ سکتا ہے اور نہ ہی صرف ایک عالمی طاقت کے سہارے ترقی کر سکتا ہے-اس کے لیے کثیر الجہتی نظام پر انحصار کرنا ہو گا جِس میں ادارے مضبوط اور عالمی قانون کی پاسداری کی جائے گی- پاکستان نہ تو مغربی طاقتوں کو چھوڑ سکتا ہے نہ علاقائی طاقتوں سے دور رہ سکتا ہے اِس لیے عالمی و علاقائی سیاست کے بدلتے تناظرات میں پاکستان کے بدلتے تعلقات کو شک کی نگاہ سے دیکھنا خود اپنے ساتھ ساتھ عالمی امن کو خطرہ میں ڈالنے کے مترادف ہو گا- [17]
٭٭٭
[2]Rana MF (2017) Comparative Relation with Russia: Pakistan and India an Approach to Peace and Position. J Pol Sci Pub Aff 5: 251
[3]Almas Haider Naqvi, Yasir Masood, Rejuvenating Pakistan-Russia Relations: Discernable Trends and Future
[4]http://www.dawn.com/news/1110131
[5]Muhammad Taimur Fahad Khan, Renaissance of Pakistan-Russia Relations, December 27, 2016
[6]Ali Haider Saleem, Significance of Pakistan’s membership of Shanghai Cooperation Organisation, March 21, 2017
[7]“Russian-Pakistani Relations,” Consulate General of the Russian Federation in Karachi, 2016. http://www.rusconsulkarachi.mid.ru/
[8]“Bush Threatened to Bomb Pakistan, says Musharraf,” Guardian, September 22, 2006, https://www.theguardian.com/world/2006/sep/22/pakistan.usa
[9]“Russia Lifts Arms Embargo to Pakistan: Report,” AFP, June 02, 2014, http://www.dawn.com/
[10]Matthew Bodner, “Russia Signs Landmark Military Cooperation Agreement With Pakistan,” November 20, 2014, http://www.themoscowtimes.com/
[11]“Pakistan, Russia Renewing Ties: FM Khar,” Dawn, October 04, 2012, http://www.dawn.com/
[12]Nadeem Hyder, “Pakistan-Russia Geopolitical Convergence”, Pakistan Observer (Islamabad), May 21, 2011.
[13]Sohail Amjad, Pak-Russia relationship: Economic and Political policies
[14]https://timesofindia.indiatimes.com/india/will-call-pakistans-nuke-bluff-if-tasked-to-cross-border-army-chief/articleshow/62477439.cms
[15]Joshua Kucera, “The New Silk Road?”, The Diplomat, http://thediplomat.com/2011/11/11/the-new-silk-road/ (accessed June 7, 2018)
[16]Richard Weitz, “The Maturing of Russia-India Defence Relations”, Journal of Defence Studies, vol. 6, no.3, (July 2012), http://www.idsa.in/ /6_3_2012_TheMaturingofRussiaIndiaDefenceRelations_RichardWeitz
[17]Nazir Hussain, Pak-Russia Relations: Lost Opportunities and Future Options , Journal of Political Studies, Vol. 19, Issue - 1, 2012
“This is quite a game, politics. There are no permanent enemies, and no permanent friends, only permanent interest”.[1]
’’یہ سیاست، بالکل ایک کھیل ہے-یہاں کوئی مستقل دشمن یا دوست نہیں مگر مستقل مقاصد ہیں‘‘-
عالمی سیاست کا یہ مقولہ جنوبی ایشیاء کے سیاست میں ہمیشہ بدلتی سیاسی ہواؤں کی صحیح عکاسی کرتا ہے- چاہے وہ مسئلہ کشمیر ہو، سرد جنگ ہو، امریکہ-چین تعلقات کی شروعات ہو،تخلیقِ بنگلہ دیش ہو، نیوکلئیر ازیشن ہو، افغان جنگ ہو، وار آن ٹیرر ہو، این -ایس-جی ممبر شپ ہو، پیوٹ ٹو ایشیاء (Pivot to Asia) لک ایسٹ (Look East) دفاعی و معاشی تعلقات ہوں یا وَن بیلٹ وَن روڈ (OBOR) جیسے معاشی ربط کےمنصوبے ہوں اس قول کی عکاسی کرتے ہیں-مندرجہ بالا تمام تاریخی لمحوں میں جنوبی ایشیاء خصوصاً پاکستان کی خارجہ پالیسی نمایاں رہی ہے-جنوبی ایشیاء کی سیاست، اندرونی کھلاڑیوں سے زیادہ عالمی شطرنج کے مہروں کے کھلاڑیوں سے کافی اثر انداز ہوئی ہے- عالمی سیاست نے اپنا سفر ملکی سیاست، علاقائی سیاست، بر اعظموں کی سیاست، بین الاقوامی سیاست، گلوبل ویلج کا سفر کرنے کے بعد اب دوبارہ واپسی کا سفر اختیار کیا اور علاقائی اور قومی سیاست نمایاں اہمیت حاصل کر رہی ہے-امریکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سب سےپہلے امریکہ(America First Policy) پالیسی ہو، بریکزٹ (Brexit)، یا پاک-چین اکنامک کوریڈور ہو اِس دور کی سیاست کو نمایا ں کرتی ہے-
پاکستان اور روس علاقائی اور عالمی سیاست میں دو اہم کردار ہیں- پاکستان اپنے ابتداء ہی سے ہمسایہ ملک کی طرف سے اِس کی خود مختاری پر حملوں کا شکار رہا جِنہوں نے پاکستان کو عالمی اداروں اور عالمی و سپیسفک طاقتوں کے ساتھ الحاق کا راستہ دکھایا جو ہاتھی کے دانتوں کی طرح دکھانے کو اور ،کھانے کو اور تھے- پاکستان کے اِس فیصلے نے اسے علاقائی طاقت سوویت یونین سے دور کر دیا- سرد جنگ میں حالات مزید کشیدہ ہو گئے اور آخر کار افغان جنگ پر تعلقات کے باب بند ہو گئے-مگر پاکستان کی عالمی امن و ترقی کے لیے خدمات کے اعتراف کی بجائے اُنہیں مشکوک بنا کر اور پاکستان کو دہشتگردی اور عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دے کر پاکستان کو نئی راہوں اور نئی منزلوں کی طرف مجبوراً دھکیلا جا رہا ہے- کیونکہ مقاصد مستقل رہتے ہیں مگر شائد ہمسفر بدل جاتے ہیں- پاکستان کے مقاصد واضح ہیں دہشتگردی سے پاک، محفوظ ایٹمی ہتھیار، تمام مسائل کا پر امن حل اور خود مختاری کا احترام-مگر شائد عالمی نادیدہ طاقتوں کے اپنے کالے کرتوتوں اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہماری امن کوششوں کو ہماری کمزوری بنا کر ہم پر آئے دن الزامات کی بوچھاڑ کر کے عالمی سیاست میں ناک آؤٹ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے-مگر شائد عالمی طاقتیں اور ان کے تلوے چاٹنے والوں کو انا میں کوئی اور نظر نہیں آتا جو خاموشی سے عالمی نظام میں ابھر رہے ہیں اور آہستہ آہستہ مختلف فیصلوں میں چیلنج کر رہے ہیں مثلاً افغانستان، شام، یمن، فلسطین، ساؤتھ چائنہ سی(South China Sea) ایران نیوکلیئیر ڈیل وغیرہ[2]- روس ان میں سے ایک ہے جو ایک بار ٹوٹ کر دوبارہ عالمی سیاست میں مزید طاقت اور مضبوطی سے ابھر رہا ہے، دُنیا بھر کے تجزیہ نگار (کچھ مُسکرا کر کچھ چہرہ بسور کر) اِس کا سہرا صدر پیوٹن کے سر سجاتے ہیں -
بدلتی جغرافیائی سیاست، دفاعی، معاشی حالات اور ابھرتے علاقائی خطرات نے پاکستان اور روس کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی راہ دکھائی -دونوں ممالک کے درمیان منظم اداروں نے دفاع، تجارت، سرمایہ کاری ، معیشیت، سائنس، ٹیکنالوجی، زراعت، تعلیم اور ثقافت کے شعبے میں تعاون میں کافی مدد فراہم کی[3]- افغانستان جنگ میں عالمی طاقتوں کی ناکامی اور اس کا الزام ہمسایوں پر لگا کر دہشتگردی کا تڑکا، بھارت کے مغربی طاقتوں کی طرف جھکاؤ، چین کا معاشی طاقت کے طور پر ابھرنا اور انفراسٹرکچر کے جال کو بچھانا، شام، قطر، یمن، فلسطین اور کشمیر پر یکساں خارجہ پالیسی نے بھی دونوں ممالک میں سرد جنگ میں پڑنے والی برف کو پگھلایا-پاکستان اور روس کے درمیان ایک دہائی سے شروع ہونے والی مفاہمت میں سب سے پہلے پاکستان پر ہتھیاروں کی فروخت پر لگائی گئی پابندی کو ختم کیا [4]اور 2014ءمیں دفاعی معاہدے کا سنگ ِ میل طے کیا جب روسی وزیر دفاع نے 45سال بعد پاکستان کا دورہ کیا-2015ءمیں دونوں حکومتوں کے درمیان تقریباً 2بلین ڈالر کاشمال -جنوب گیس پائپ لائن پروجیکٹ(North-South Gas Pipeline Project) کے معاہدہ پر دستخط ہوئے جِس کے تحت کراچی سے لاہور تک گیس پائپ لائن بچھائی جائے گی-ستمبر 2016ءمیں روس کی سپیشل فورسزز کے جوان پاکستان میں پاک فورسز کے ساتھ فوجی مشقوں ’’Friendship 2016‘‘ میں حصہ لینے کیلئے آئے[5]-2017ءمیں روس اور چین کے تعاون سے پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کی مستقل رکنیت ملی[6]- پاکستان اور روس کے درمیان باہمی تعاون دونوں ممالک کے لیے علاقائی سکیورٹی و استحکام، دفاع، معاشی تعاون کے لیے نئی راہیں کھولے گا-
دونوں ممالک اِس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ بین الاقوامی میگا پروجیکٹس بشمول چین-پاکستان معاشی راہداری، وسط ایشیائی علاقائی معاشی تعاون اور علاقائی ربط کا راستہ ہموار کر رہے ہیں- روس یوریشین ہم آہنگی میں پاکستان کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کر سکتا کیونکہ پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن سلک روڈ (اہم معاشی راہدای) کے دوبارہ انتظامی امور کیلئے کارآمد ہے جو کہ یورپ، مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور ایشیاء کے ملانے کا ایک قدرتی راستہ ہے- افغانستان میں استحکام، روس- بھارت تعلقات، امریکی اثر اندازی، یوکرائنین کرائسس، کریمیا، چین کے معاشی انقلاب، وسطیٰ ایشیاء کے ساتھ پاکستان کے تجارتی معاہدے اور ون بیلٹ ون روڈ نے پاکستان اور روس کے اپنے باہمی تعلقات کو دوبارہ سے دیکھنے اور ان کو بہتر بنانے پر مجبور کیا ہے- زیر مطالعہ تحریر بھی پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات ماضی، حالیہ قربت اور مستقبل کے لیے دونوں ممالک کے لیے نئی منزلوں کا تعین کرنے کی کوشش کرے گی تاکہ علاقائی ربط کو مزید مستحکم اور جان آور بنایا جا سکے جِس کے لیے دونوں ممالک کو عالمی فورمز کے ساتھ ساتھ علاقائی فورمز جیسا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے زیر سایہ اپنا سفر اعتماد کی فضا قائم رکھتے ہوئے طے کرنا ہے- [7]
تلخ تاریخ کے باوجود پاکستان اور روس(سابقہ سوویت یونین) کے تعلقات میں ایسے لمحات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کافی بہتر تھے- 1965ء سے 1970ء کے دورانیہ میں پاکستان اور سوویت یونین کے درمیان 1965ءمیں پہلے باہمی ثقافتی و سائنسی معاہدے پر دستخط ہوئے-پاکستان اور سوویت یونین نے پاکستان سٹیل مل کا افتتاح کیا جو کہ ایک سنگ میل سے کم نہ تھا-سرد جنگ کے خاتمے کے بعد 1999ء میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف اور روسی ہم منصب کے درمیان کئی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے-9/11کے بعد امریکہ نے پاکستان کو وار آن ٹیرر (War on Terror) میں شامل ہونے کیلئے دھمکیاں لگانی شروع کر دی [8]- امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کو اپنے مطلب کے لیے استعمال کیا اور آخر میں اپنا نزلہ پاکستان اور پاک فوج پر ڈال کر بچ جاتا مگر شائد اب اِس کی یہ چال کام نہ آئے کیونکہ دہشتگردی کے خلاف جو فوجی آپریشنزز پاکستان نے کیے ہیں وہ اپنی کامیابیوں کا منہ بو لتا ثبوت ہیں- امریکہ کے بین الاقوامی تعلقات میں اِس مستقل رویہ سے اکتا کر مجبوراً پاکستان روس کے قریب گیا اور پاکستان نے امریکہ کے ساتھ بگڑتے تعلقات کے پیش نظر 2004ء میں روسی جنگی ہیلی کاپٹر MI-35 کی پاکستان کو فراہمی سے دفاعی تجارت میں ایک نئے سنگ میل کا آغاز ہوا [9]جو بعد میں فوجی مشقوں کی صورت میں پروان چڑھا اور چڑھتا جائے گا- [10]
موجودہ دور میں پاکستان اور روس مختلف عالمی مسائل کے پُر امن حل، بین الاقوامی سکیورٹی، کثیر الجہتی ورلڈ آرڈر، اقوام متحدہ کو عالمی دنیا میں بطور مرکزی ادارہ کے مضبوط کرنا اور عالمی قانون کی بالادستی کو قائم کرنے جیسے مقاصد پر یکساں خارجہ پالیسی مقاصد رکھتے ہیں- دونوں ممالک موجودہ بین الاقوامی نظام کو تبدیل کرنے کیلئے یک طرفہ طاقت، غیر قانونی نقل و حرکت کے خلاف ہیں- دونوں ممالک ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت اور ان کو کم کرنے کے لیے مسلسل دوسری ایٹمی طاقتوں کے تعاون کے منتظر ہیں-دونوں ممالک افغانستان اور علاقائی استحکام کے لیے تعاون پر متفق ہیں- مزید برآن عالمی طاقتوں کے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم اور آئے دن پاکستان پر بےبنیاد الزامات کے باوجود روس پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف قابلِ تحسین کوششوں کا معترف ہے-[11] عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بڑھانے پر زور دیا ہے جو کہ علاقائی استحکام کے لیے روشن مستقبل کی نوید ہے- روس پاکستان کے بڑے بڑے منصوبوں جیساکہ ایران-پاکستان گیس پائپ لائن، پاکستان سٹیل مل کو مزید ترقی دینا، ٹیکسلا میں ہیوی مکینکل کمپلیکس کی بہتری، گڈو و مظفر گڑھ پاور پلانٹس کی ترقی، تھر کول پراجیکٹس، تاجکستان سے بجلی کے ترسیل کے منصوبے کاسا-1000 (Central Asia- South Asia-1000)، گیس کے منصوبے ٹاپی (Turkmenistan-Afghanistan-Pakistan-India-TAPI) اور سی پیک کے تحت اور کئی منصوبوں میں سرمایہ داری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے[12]- روس پاکستان کو اپنی تیار کردہ مصنوعات برآمد کرنے کی نظر سے دیکھتا ہے- جبکہ پاکستان اپنی موجودہ توانائی بحران کے لیے روس کے توانائی کے شعبہ سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے- اس بات کا اعادہ خود روسی صدر نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں بھی کیا کہ وہ پاکستان کے معاشی و توانائی منصوبوں میں پاکستان کی مدد کرے گا[13]- کئی سفارتکار اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ روس وسطی ایشیاء میں اپنے معاشی و دفاعی مقاصد کے حصول اور داعش کی انتقامی کاروائیوں، شدت پسندی و دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے -
دفاعی شعبہ میں روس نے پاکستان کو دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جدید ہتھیار فراہم کیے ہیں- عالمی جنگوں میں اپنے ہتھیار سے معیشیت مضبوط بنانے والوں کی پاکستان کو دفاعی آلات و ہتھیار بیچنے کی عدم دلچسپی نے پاکستان کو مجبوراً اپنے دفاع کو مضبوط کرنے کی خاطر روس کی طرف دیکھنے پر مجبور کیا ہے- جیسا کہ تحریر میں واضح ہے کہ روس پاکستان کی اہمیت کو بہت بہتر طریقہ سے سمجھتا ہے تو دفاعی تعاون علاقائی عدم استحکام کو ختم کرنے میں کافی مدد کرے گا- ہمارے سابقہ عالمی شراکت داروں کا رویّہ تو اس حد تک ہتک آمیز ہو چکا ہے کہ پاکستان کی امن پسندی کو کمزوری سمجھ کر پاکستان کومجرم کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے یہ تو ویسے ہی ہے جیسے الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے- مگر پاکستان کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ عالمی طاقتوں کی افغانستان امن میں ناکامی پر علاقائی طاقتوں کے ساتھ مل کر سیاسی طور پر اِس مسئلے کا حل نکالے کیونکہ فوجی طاقت سے حالات کشیدہ و دفاعی صنعت کے لیے موزوں تو ہو سکتے مگر شائد حل نہیں ہو سکتے- روس کے پاس سلامتی کونسل میں ویٹو کی طاقت ہے اور شنگھائی تعاون تنظیم میں بھی اہمیت کا حامل ہے جِس سے پاکستان روس کے تعاون سے دونوں فورمز پہ پاکستان دشمنوں کی ہرسرزہ سرائیوں کا بھر پور جواب دے سکتا ہے- پاکستان اور روس کے دفاعی تعلقات اِس تناظر میں بھی اہم ہیں کہ امریکہ بھارت کو روس اور چائنہ کے مقابلے میں بطور ایک علاقائی طاقت کے دیکھنا چاہتا ہے جو کہ تاریخ کے تناظر میں خود پاکستان کی اپنی سالمیت کے لیے ایک خطرہ بن سکتا ہے-طاقت وہ نشہ ہے جو آپ کو ایک نیو کلئیر ریاست پر بھی جنگ مسلط کرنے سے روک نہ سکے جِس کا ثبوت بھارت کے موجودہ آرمی چیف کے جنگی جنونیّت میں ڈوبے بیانات ہیں- [14]
عالمگیریت (Globalization) کے دور میں ہر ملک خصوصاً پاکستان ہر علاقائی و بین الاقوامی ملک سے تمام باہمی کشیدگیوں کو ختم کر کے بہتر تعلقات کا خواہاں ہے- ایسے عالم میں جِس میں معیشیت سیاست میں اپنا نمایاں اثرو رسوخ رکھتی ہے- پاکستان کیلئے اِس سے بڑھ کر کیا ہو گا اگر وہ روس، چین، امریکہ، یورپین یونین، افریقہ، مشرقِ وسطیٰ اور وسطیٰ ایشیاء کے ساتھ بہتر معاشی تعلقات مزید مضبوط کرنے کے لیے ہر موقع کا فائدہ اٹھائے- روس، یورپ کے ساتھ چلنے والے مسائل کریمیا و یوکرائن کی وجہ سے سمندری تجارت پر پابندیوں کا شکار ہے جس کی وجہ سے گوادر روس کے گرم پانیوں تک پہنچنے کیلئے بہترین موقعہ ہے جو روس کو پابندیوں کے باوجود تاریخی سلک روڈ اور سی پیک سے گوادر کے ذریعے دنیا کی معاشی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکے گا[15]-یہ پالیسی پاکستان کیلئے کسی عظیم معجزانہ انعام سے کم نہ ہو گی جِس سے نہ صرف پاکستان میں تجارتی سر گرمیاں ہوں گی بلکہ زراعت و چھوٹے کاروباروں کا کافی فائدہ ہو گا- اِس پالیسی کے تحت روس- پاک- بھارت- افغانستان کے درمیان مسائل کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرے گا جیسا کہ تاشقند معاہدہ کی صورت میں نمایاں ہے-
اگرچہ پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات کی بہتری کے کئی مواقع ہیں مگر ان کے درمیان حائل کافی روکاوٹیں اور مشکلات بھی ہو سکتی ہیں- سب سے پہلی مشکل بھارت کی شکل میں پیش آ سکتی ہے کیونکہ مسئلہ کشمیر اور دوسرے باہمی مسائل اور اعتماد کی کمی دونوں کے درمیان تعلقات میں رکاوٹیں ہیں- دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی عالمی ماحول کو سرد جنگ میں رکھے ہوئے ہے جہاں عالمی طاقتیں جنوبی ایشیاء کی سیاست پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہیں جِس سے کوئی بھی مثبت منصوبہ بھی شکوک و شبہات کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے[16]- دوسری بڑی مشکل امریکہ کی صورت میں ہو سکتی ہے- ’’پاکستان-روس‘‘ قربتیں عالمی طاقت کو پریشان کر سکتی ہیں-سرد جنگ کی جنگ ایک نیا رخ اختیار کر کے دوبارہ بھڑک سکتی ہے- جنگ وہی، میدان وہی، مقاصد وہی، کھلاڑی وہی، طریقہِ جنگ وہی بس تبدیل ہونی ہیں تو سابقہ دوستیاں و دشمنیاں-موجودہ حالات اور بھارت-امریکہ تعلقات، پاکستان اور روس کے تعلقات کیلئے موزوں فریم ورک ہے مگر ناقدین اِس کو بھی اپنے خلاف ایک پراپیگنڈہ (propaganda)کے طور پر استعمال کر رہے ہیں-سعودی عرب اور ایران کے درمیان سرد جنگ کی وجہ سے پاکستان کا ایران کے حامیوں کے بلاک میں شامل ہونا پاکستان اور عرب ممالک کے درمیان مسائل کو ہوا دے سکتا ہے- مشرقِ وُسطیٰ میں ابھرنے والے تین بڑے مسائل، شام یمن اور قطر ، پر پاکستان کی غیر جانبدار پالیسی اور غیر جانبدارانہ مؤقف پر پہلے ہی عرب دنیا میں تشویش پائی جاتی ہے-
خارجہ پالیسی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان اور روس تمام مشکلات اور روکاوٹوں کے باوجود باہمی تعاون بڑھانے پر یقین رکھتے ہیں اور مختلف سفارشات پیش کرتے ہیں-
v دونوں ممالک کو افغانستان میں جلد امن کے لیے اپنی اپنی ذمہ داریوں کا تعین کرنا ہو گا-
v پاکستان اور روس کو مل کر معلومات کے تبادلے کے لیے ایک ادارہ کا قیام کرنا ہو گا جِس سے دہشتگردی کا خاتمہ کیا جا سکے-
v پاکستان کو روس کی سرمایہ کاری حاصل کرنے کے لیے ایک محفوظ اور معیشیت دوست ماحول مہیا کرنا ہو گا-
v دونوں ممالک کے عوامی رابطے کے لیے ایک پروگرام کا افتتاح ناگزیر ہے-
v پاکستان اور روس کو دفاعی شعبہ میں تعاون کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ایک تو بیلنس آف پاور رہے اور دوسرا کسی بھی قسم کی جارحیت کا بھر پور جواب دیا جا سکے -
v پاکستان و روس کو ٹیکنالوجی خصوصاً سپیس ٹیکنالوجی کے شعبے میں کام کرنا ہو گا -
v پاکستان کو روس کے ساتھ تعلقات کے ساتھ ساتھ باقی علاقائی اور بین الاقوامی دوستوں کو اعتماد میں رکھنا ہو گا-
v پاکستان اور روس کو مل کر ہر اُس پراپیگنڈہ کا جواب دینا ہو گا جو ان تعلقات کو عالمی و علاقائی امن کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے-
v دونوں ممالک کو مل کر سفارت کاری کے ذریعے عالمی مسائل کے حل پیش کرنا ہونگے-
v دونوں ممالک کے میڈیا کو تعلقات کو پروان چڑھانے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہو گا-
پاک-روس تعلقات کی تاریخ ان واقعات سے بھر ی پڑی ہے جِن میں کتنے ہی مفید مواقع گنوا دیے گئے-دونوں ممالک کو ماضی کو بھلا کر نئی شروعات کی طرف دیکھنا چاہیے تاکہ ترقی و استحکام کی نئی س?