اگر انسانی معاشرے کو ایک گاڑی سے تشبیہ دی جائے تو مرد اور عورت اس گاڑی کے دو پہیوں کی سی حیثیت رکھتے ہیں-معاشرتی استحکام و ترقی کیلئے لازم ہے کہ گاڑی کے دونوں پہیوں میں توازن ہو اور دونوں کے حقوق و فرائض کا یکساں تحفظ ہو ورنہ یہ معاشرہ شدید بگاڑ کا شکا رہو گا اور اپنی منزل تک نہیں پہنچ پائے گا-فطرتی بنیادوں پر عورت کو اپنی منفرد خواص کے باعث نوعِ انسانی میں نمایاں احترام اور مقام و حیثیت حاصل ہے-
عورت کو جہاں ماں، بہن، بیٹی، بیوی، شکتی، ماتا وغیرہ کی صورت میں عزت اور اعلیٰ مقام دیا جاتا ہے وہیں عورت کو معاشرے میں شدید ظلم و جبر اور جنسی تشدد سمیت دیگر کئی مسائل کا سامنا ہے-مختلف معاشروں میں عورت کو وجہ شر و فساد اور محض مرد کی لونڈی و غلام تصور کیا جاتا رہا ہے- بقولِ اشفاق احمد:
’’عورت جسے اگر ایک وقت میں جنس لطیف، وجہِ سکون اور صنف نازک کے خوب صورت الفاظ سے تعبیر کیا گیا تو دوسرے لمحے اُسے لونڈی، داشتہ اور وجہِ شر و فساد بھی قرار دیا گیا‘‘-[1]
تاریخِ انسانی اس بات کی گواہ ہے کہ مختلف معاشروں میں عورت کے ساتھ اس لیے جان بوجھ کر امتیازی سلوک کیا جاتا رہا ہے کہ ان کے مطابق عورت کو تخلیقی و فطری طور پر مرد سے کمزور اور ادنیٰ پیدا کیا گیا ہے لہٰذا وہ ہمیشہ مرد سے کمتر ہی رہے گی-قبل از اسلام عرب معاشرہ میں عورت کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا جس کے متعلق قرآن مجید میں یوں بیان ہواہے کہ:
’’وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْہُہٗ مُسْوَدًّا وَّہُوَ کَظِیْمٌo یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓئِ مَا بُشِّرَ بِہٖط اَیُمْسِکُہٗ عَلَی ہُوْنٍ اَمْ یَدُسُّہٗ فِی التُّرَابِط اَ لَا سَآئَ مَا یَحْکُمُوْنَ‘‘[2]
’’اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی (کی پیدائش) کی خبر سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غصہ سے بھر جاتا ہےoوہ لوگوں سے چُھپا پھرتا ہے (بزعمِ خویش) اس بری خبر کی وجہ سے جو اسے سنائی گئی ہے، (اب یہ سوچنے لگتا ہے کہ) آیا اسے ذلت و رسوائی کے ساتھ (زندہ) رکھے یا اسے مٹی میں دبا دے (یعنی زندہ درگور کر دے)، خبردار! کتنا برا فیصلہ ہے جو وہ کرتے ہیں‘‘-
اس میں کوئی شک و شُبہ نہیں کہ یہ دینِ حق اِسلام ہی ہے جس نے بنتِ حوّا کی تکریم و تحریم سختی سے قائم فرمائی-مولانا الطاف حسین حالی قبل از اسلام عرب میں عورت کے ساتھ کیے جانے والے اس ظالمانہ عمل کی عکاسی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
جو ہوتی تھی پیدا کسی گھر میں دختر |
یونانی معاشرہ اپنے علم و ادب، فلسفہ، سیاسی و معاشرتی ترقی کے باوجود عورت کے ساتھ امتیازی سلوک روارکھے ہوئے تھا-یونان میں عورت کی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عظیم یونانی فلسفی سقراط کا کہنا تھا :
’’عورت سے زیادہ فتنہ و فساد کی چیز دنیا میں کوئی نہیں وہ دفلی کا درخت ہے کہ بظاہر بہت خوب صورت معلوم ہوتا ہے لیکن اگر چڑیا اُس کو کھا لیتی ہے تو وہ مر جاتی ہے‘‘-[4]
قدیم رومی و قبل از اسلام ایرانی تہذیب سمیت دیگر کم و بیش تمام معاشروں میں عورت کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا رہا اور عورت کو بچے پیدا کرنے اور جنسی تسکینِ نفس والی غلام سے زیادہ کوئی حقوق حاصل نہ تھے-ہندو مت کی بعض شاخوں میں بھی عورت کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا گیا، ’’ستی‘‘کی رسم ہندوستان میں صدیوں سے عورت کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کی نشاندہی کرتی ہے-مثلاً جب عورت کا شوہر مر جائے گا تو عورت کو دوبارہ شادی کی اجازت نہیں ہو گی اور بیوہ کو دو میں سے ایک حال منتخب کرنا ہو گا کہ یا تو اپنے خاوند کے ساتھ زندہ جل کر ہلاک ہو جائے یا ساری زندگی اکیلے بحیثیت بیوہ زندگی گزارے-بعض روایات کے مطابق ہندو راجاؤں کی بیویوں کو ان کی مرضی کے مخالف زندہ جلا دیا جاتا رہا ہے - مزید یہ کہ عورت اپنے مخصوص طبقہ سے باہر شادی نہیں کر سکتی یعنی براہمن مرد کی براہمن عورت سے، کشتری کی کشتری سے، ویش کی ویش سے اور شودر کی شودر سے ہی شادی ہوگی- ہندؤں کے عظیم فلاسفر چانکیا نے بھی عورت کے لیے مکار، جھوٹ بولنے والی، فریب دینے والی، بغیر سوچے سمجھے کام کرنے والی، موجب ہلاکت وغیرہ جیسے الفاظ کا استعمال کیا ہے - [5]
اگر جدیدیت حتیٰ کہ پسِ جدیدیت میں بھی عورت کو ایک ’’کاموڈیٹی‘‘ بنا کر رکھ دیا گیا ہے ، اس میں بھی عورت کو زمانہ قدیم کی جاہلانہ افکار سے بڑھ کر مقام نہیں دیا گیا - جدید مغرب میں حجاب اور عبایا کو اِس لئے ناپسندیدہ قرار دیا جاتا ہے کیونکہ عبایا اوڑھنے سے (اُن کے بقول) عورت کی جنسی دلکشی کم ہو جاتی ہے - ہوٹلوں میں، ایئر لائنز میں، بینکوں میں اور پبلک مارکیٹس میں استقبالیہ (Receptions) پہ صرف خُوبرو خواتین ہی کو منتخب کیا جاتا ہے اور انہیں مزید اس بات کا پابند بنایا جاتا ہے کہ بناؤ سنگھار کو بہر صُورت یقینی بنائیں تاکہ کسٹمر اسسٹنس بہت رہے - میڈیا انڈسٹری بھی اِسی طرح کے فرسودہ خیالات سے لدی پڑی ہے اور اسی طرح کے تذلیلِ عورت پہ مبنی میرٹ قائم کئے ہوئے ہے جن کے تحت خواتین کو منتخب اور ردّ کیا جاتا ہے - زمانۂ قدیم اور عہدِ جدید میں صرف لفظوں کی پریزنٹیشن کا فرق ہے- یعنی صرف چھلکے کا فرق ہے اندر مغز تو وہی ہے جو جبلّی جذبے کا نمائندہ ہے-آج جسے زمانۂ قدیم کہتے ہیں کبھی وہ جدید تھا، آج جسے عہدِ جدید کہتے ہیں کبھی یہ بھی قدیم کہلائے گا اور آنے والا مؤرخ لکھے گا کہ جسے اکیسویں صدی کا انسان جہالتِ قدیمہ کَہ کر ردّ کرتا تھا اُسی جہالت کے مغز کو جدیدیت کے چھلکے میں لپیٹ کر لئے گھومتا تھا -
عورت کی مشکلات آج کل کے جدید، ترقی یافتہ اور با شعور دور میں کم ہونے کی بجائے کئی گنا بڑھ چکی ہیں-عورتوں کے خلاف ہونے والے چند عام جرائم میں عصمت دری و آبروریزی، زنا بالجبر، تیزاب کا پھینکنا، عزت کے نام پر قتل، جبری تشدد، زبردستی کی شادی، امتیازی سلوک وغیرہ شامل ہیں -ان سب میں ہر لحاظ سے ریپ یا زنا بالجبر ایک ایسا جرم ہے جس سے نہ تو کوئی معاشرہ محفوظ ہے، نہ کسی معاشرے میں اس کی اجازت ہے اور بدقسمتی سے نہ ہی مختلف قوانین و ضوابط کی موجودگی میں اس پر قابو پایا جا سکا ہے- مثلاً بچوں پر تشدد سے بچاؤ کے لیے بنائی جانے والی ایک تنظیم، نیشنل سوسائٹی فار پریوینشن آف کریولٹی ٹو چلڈرن (NSPCC -National Society for the Prevention of Cruelty to Children) کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں ہر20 میں سے ایک بچہ جنسی زیادتی کا شکار ہوتا ہے-ملک میں ایک تہائی بالغ نوجونوان ایسے ہیں جو جنسی زیادتی کا نشانہ بن چکے ہیں اور ہر 10 منٹ میں ایک عورت جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہے[6]- اسی طرح امریکہ میں امراض پر تحقیق، قابو اور بچاؤ کے متعلق ادارہ ، سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (Centre for Disease Control and Prevention) کے مطابق کم و بیش ہر پانچ منٹ میں ایک عورت زنا بالجبر یا جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہے-گو کہ دیگر ممالک میں بھی یہ مسئلہ موجود ہے لیکن ہمارے ہمسائیہ ملک، دنیا کی نام نہاد سب سے بڑی سیکولر جمہوریت، ہندوستان میں عورتوں کی ساتھ جنسی تشدد کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے- اس مختصر مضمون میں ہم ہندوستان میں عورتوں کے ساتھ ہونے والےجنسی تشدد بالخصوص عصمت دری و آبرریزی کے متعلق چند حقائق بیان کریں گے-
ریپ یا زنا بالجبر تشدد پر مبنی ایک ایسا جرم ہے جو متاثرہ یعنی تشدد کا شکار ہونے والے کے لیے عمر بھر کا روگ بن جاتا ہے - یہ ناصرف مخصوص عورت بلکہ اس کے خاندان اور معاشرے پر تشدد کرنے کے مترادف ہے[7]-محققین کے مطابق ریپ کا عورت پر ناصرف جسمانی بلکہ نفسیاتی اور سماجی اثر ہوتا ہے [8]- 1993ء میں اقوامِ متحدہ کے عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے لیے ہونے والے اعلامیہ (United Nations Declaration on the Elimination of Violence against Women)کے تحت عورتوں پر تشددکی ایک بنیادی تعریف مرتب کی گئی جس کے مطابق:
“Any act of gender-based violence that results in, or is likely to result in, physical, sexual or psychological harm or suffering to women, including threats of such acts, coercion or arbitrary deprivation of liberty, whether occurring in public or in private life”.[9]
’’جنسی بنیاد پر ہونے والے تشددکا کوئی بھی عمل جس کے نتیجے میں،یا ممکنہ طور پر عورت کو جسمانی، جنسی(مباشرتی) یا نفسیاتی نقصان یا تکلیف ہو، بشمول ایسے اعمال کی دھمکی،جبر و زبردستی، جبراً آزادی سے محرومی، چاہے وہ ذاتی زندگی میں ہو یا سماجی زندگی میں ‘‘-
عورت کو شکتی، دیوی، کہنے اور ماتا ویشنو دیوی (Mata Vaishno Devi) کو پوجنے والے ہندوستان میں آج عورت کسم پرسی کی زندگی گزار رہی ہے جہاں عام عورت اور کم سن بچے بالعموم اور اقلیتیں (مثلاً مسلمان، عیسائی، دلت وغیرہ) بالخصوص شدت پسندی، نفرت، عصمت دری اور گینگ ریپ جیسے مسائل سے دوچار ہے-بعض مقامات پر عورتوں کو صرف اس لیے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ ایک مخصوص اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں-ہندوستان میں روزانہ کی بنیاد پر عصمت دری کے متعدد واقعات معمول کی بات بن چکی ہے جو کہ نہ صرف زندہ دل با شعور ہندوستانیوں بلکہ ہر ذی روح با شعور کیلئے باعثِ فکر و پریشانی ہے-اس طرح کے واقعات کا خواتین کے ساتھ پیش آنے کی وجوہات تو سمجھ میں آ سکتی ہے لیکن درندگی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ تین، پانچ، چھ، آٹھ سال کے بچے اور ستر سالہ بوڑھی خواتین بھی اس شرمناک رویہ کی زد میں خود کو غیر محفوظ تصور کرتی ہیں جس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ہندوستانی معاشرے میں انسانیت، درندگی میں بدلتی جا رہی ہے اور حکومت بہت سے معاملات میں خود ملوث ہونے کے باعث خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے-گو کہ ماضی بعید میں بھی عصمت دری کے بہت سے واقعات ہو چکے ہیں لیکن ہم صرف پچھلے چند سالوں میں ہونے والے واقعات، حقائق اور اعداد و شمار پر بات کریں گے-
دسمبر 2012ء میں انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں پیرا میڈیکل طالبہ کے ساتھ چلتی ہوئی بس میں مبینہ اجتماعی جنسی زیادتی و آبرو ریزی اور قتل کے واقعہ سے پورے ملک سمیت دنیا بھر میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی تھی[10]-بہت سے باشعور لوگ خصوصاً نوجوان طلبا و طالبات کے دھرنوں اور جلوسوں وغیرہ کی شکل میں شدید احتجاج کے باعث ملک کے دارالحکومت کا نظام مفلوج ہو کر رہ گیا تھا-اس واقعہ پر قومی و بین الاقوامی مذمت و احتجاج کے بعد یہ تصور کیا جا رہا تھا کہ حکومت اس سنگین معاملہ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ایسے واقعات کے روک تھام کے لیے مناسب اقدامات کرے گی جس سے عورتوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ ممکن ہو گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا-گو کہ وقتی طور پر حکومت کی جانب سے زنا بالجبر کی سزا میں چند ترامیم کی گئیں لیکن بدقسمتی سے عصمت دری کے واقعات میں کمی کی بجائے اضافہ نظر آیا[11]-رئیوٹرز ٹرسٹ لاء گروپ کی 2012ء کی تحقیقی رپورٹ میں انڈیا کو عورتوں کیلئے دنیا کا بدترین ملک قرار دیا تھا[12]- انسانی حقوق کے عالمی اہمیت کے ادارے ہیومن رائٹ واچ (Human Right Watch)کی 2017ء کی رپورٹ میں بھی یہی انکشاف کیا گیا کہ ہندوستان میں عصمت دری کے قوانین و سزا میں تبدیلی کی باوجود متاثرین کو انصاف مہیا نہیں کیا گیا-اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ متاثرین کو انصاف مہیا کرنا تو دور، ان کے ساتھ پولیس و دیگر اداروں کے لوگوں کا رویہ ان کیلئے مزید پریشانی کا باعث ہے- 82 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں واضح طور پر بیان کیا گیا کہ متاثرین کو پولیس اسٹیشن و ہسپتال وغیرہ میں شرمناک و ذلت آمیز سوالات پوچھے جاتے ہیں اور بعض واقعات میں اگر متاثرہ عورت یا بچہ اگر غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہو تو پولیس کئی کئی دن تک ایف آی آر(FIR) ہی درج نہیں کرتی-اس رپورٹ میں بیان کردہ انتہائی افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ پولیس جب تک متاثرہ خاتون کا ٹو فنگر ٹیسٹ (Two-Finger Test)نہ کر وا لے متاثرہ خاتون کی نہ تو ایف آئی آر (FIR) لکھی جاتی ہے اور نہ ہی صحت کا کوئی خاص خیال رکھا جاتا ہے[13]-الجزیرہ کی 2012ء کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہر20منٹ میں ایک خاتون زنا بالجبر کا شکار ہوتی ہے[14]-ٹائمز آف انڈیا کی 2011ء اور 2012ء کی رپورٹس کے مطابق پچھلے 40 سالوں میں بھارت میں عصمت دری و زنا بالجبر کےواقعات میں 792فیصد تک اضافہ ہوا ہے - [15]
مختلف رپورٹس کے مطابق انڈیا میں خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم میں زنا بالجبر تیسرا [16]یا چوتھا [17]بڑا جرم ہے-انڈیا میں 2014ء میں عصمت دری کے 36735 مقدمات درج کیے گئے تھے اور 95.5 فیصد سے زائد متاثرین زانی مجرمین کو پہلے سے جانتی پہنچانتی تھیں[18]- انڈیا کے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو (National Crime Records Bureau) کی 2015ء کی رپورٹ کے مطابق2012ء تا 2015ء کے تین سے چار سالہ مختصر دور میں انڈیا میں عورتوں کے خلاف ہونے والے جرائم میں 34 فیصد تک اضافہ ہوا-اس رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ جنسی تشدد کا شکار ہونے والی خواتین میں6 سال تا 60سالہ خواتین بھی شامل ہیں-اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ صرف 2015ء میں 34651 مقدمات درج کیے گئے جبکہ 2016 ءکی رپورٹ کے مطابق ان واقعات میں 12.4 فیصد سے زائد اضافہ ہوا یعنی مقدمات کی تعداد 34651 سے بڑھ کر 38947 ہو گئی ہے-یہ بات ناصرف خلافِ توقع اور حیران کن ہے بلکہ تشویش ناک حد تک خطرناک بھی ہے کہ 95 فیصد سے زائد واقعات میں ملوث مجرم متاثرہ خواتین کے رشتہ دار یا جان پہچان کے لوگ تھے- انڈین نیشنل کرائم بیورو کے مطابق 2015ء میں اگر عصمت دری یا زنا بالجبر کےعلاوہ خواتین کے ساتھ ہونے والے دیگر جرائم (مثلاً برہنہ کرنے کی کوشش، شوہر کی جانب سے شدید تشدد، جنسی طور پر ہراساں کرنا، اغواا ور بیرون ممالک عورتوں کی انسانی اسمگلنگ وغیرہ ) کو بھی شامل کیا جائے تو کم وبیش 327394 واقعات منظرِ عام پر آئے تھے[19]-
2016ء میں صرف دہلی میں پولیس کی جانب سے ریپ کے 2155 مقدمات درج کے گئے جو کہ 2012ء کی نسبت 67 فیصد زیادہ تھے- ایک تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ انٹرویو کے دوران 18 سال سے کم عمر متاثرہ خواتین سمیت دیگر نے بتایا کہ پولیس نے ان کو اپنا بیان بدلنے کے لیے نہ صرف دباؤ ڈالا بلکہ تشدد بھی کیا-بلکہ ہندوستانی پولیس انسانیت و اخلاقیات کے دائرہ کار سے نکل کر معصوم متاثرہ خواتین پر مختلف میڈیکل ٹیسٹ کے ذریعے الزام تراشی بھی کرتی ہے کہ وہ خواتین پہلے ہی اپنی رضا سے زنا کی عادی ہیں-لہٰذا زبردستی انہیں مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کی بجائے چپ چاپ تاریکی میں گُم ہو جائیں-مذکورہ بالا حقائق سے واضح ہوتا ہے کہ اکثر واقعات میں پولیس نہ صرف مجرموں کی مدد کرتی ہے بلکہ بہت سے واقعات میں پولیس کے اپنے لوگ اس شرمناک جرم میں ملوث ہوتے ہیں - [20]
گلوبل پیس انڈیکس (Global Peace Index-2017) کی رپورٹ کے مطابق انڈیا دنیا میں عورتوں کے سفر کے لیے چوتھا خطرناک ترین ملک ہے[21]-
2016ء کے اواخر میں ہندوستان کے وزیر برائے سیر و تفریح (Tourism) مہیش شرما بین الاقوامی دنیا سے آنے والی خواتین سمیت دیگر قومی خواتین کو بھی یہ تنبیہ کرچکے ہیں کہ وہ انڈیا میں سکرٹس وغیرہ نہ پہنیں اور نہ ہی رات کو اکیلے باہر نکلیں[22]- انڈین گورنمنٹ کی جانب سے اس قسم کے بیان سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ جو ملک چند دن کے لیے دیگر ممالک سے آنے والی خواتین کو اپنے بے مہار انسان نما درندوں سے تحفظ فراہم نہیں کر سکتا وہ ہندوستان کی عورتوں کے حقوق و عصمت کی حفاظت کیونکر کر رہا ہو گا-
تھامسن ریوٹرز فاونڈیشن (Thomson Reuters Foundation) کی 2017ء کی تحقیقی رپورٹ میں نام نہاد سیکولر عظیم جمہوریت کے دارالحکومت ’’دہلی‘‘کو انڈیا کا ’’ریپ کیپیٹل‘‘ قرار دیا گیا جو کہ انڈیا ابھی تک اپنے نام کے ساتھ سے نہیں ہٹا پایا-
بھارتی حکومت کی بین الاقوامی دنیا سے آنے والی خواتین کو کپڑوں کے متعلق خبر دار کرنے، ان معاملات میں لاپرواہی برتنے، مجرموں کی مدد کرنے اور ایسے دیگر کئی واقعات بھارت کی عالمی دنیا میں یہ صرف جگ ہنسائی کا باعث بنے بلکہ بہت سے تحقیقی اداروں، صحافیوں، اخباری ایجنسیوں سمیت دیگر دنیا کے حکمرانوں سے شدید مذمت کا سامنا بھی کرنا پڑا- انڈیا میں اقوامِ متحدہ کی نمائندہ برائے خواتین ریبیکا ریچ مین (Rebecca Reichmann Tavares) کا کہنا ہے کہ:
“I’m not surprised by the results as they’re based on perceptions. India and Brazil have seen a lot of media attention on sexual violence in recent years”.[23]
’’میں انڈیا میں عصمت دری (کے واقعات )کے نتائج دیکھ کر حیران نہیں ہوئی کیونکہ یہ سب متوقعہ تھا- پچھلے چند سالوں میں انڈیا اور برازیل کے میڈیا نے جنسی حراساں کیے جانے کے واقعات کو خاصی توجہ دی ہے‘‘-
فروری 2018ء میں ٹائمز آف انڈیا کی پبلش ہونے والی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں 2018ءکے پہلے 45 دنوں میں ہی 2017ء کے پہلے 45 دنوں کی نسبت جرائم میں کافی اضافہ ہوا ہے- رپورٹ میں بتایا گیا کہ قتل، اغواء برائے تاوان، جہیز نہ لانے پر عورت کا قتل اور زنا بالجبر کی جرائم میں اضافہ تشویش ناک حد تک بڑھ سکتا ہے جبکہ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے حکومت کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے -اسی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ہر دودن میں ایک عورت کو جہیز نہ لانے پر قتل کر دیا جاتا ہے-رپورٹ کے مطابق ان 45 دنوں کے موازنے سے ثابت ہوتا ہے کہ قتل کے مقدمات 53 سے بڑھ کر 59 اور زنابالجبر کے واقعات240 سے بڑھ کر 243 ہو چکے ہیں - [24]
2012ء میں دہلی میں میڈیکل کی طالبہ کے ساتھ ہونے والی اجتماعی زیادتی کے بعد رواں سال مقبوضہ کشمیر میں خانہ بدوش مسلمان برادری سے تعلق رکھنے والی آصفہ نامی آٹھ سالہ بچی کو ایک ہفتے تک اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے اور پھر پتھر مار کر قتل کر دینے کے ہولناک واقعےنے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے-اس سانحے میں ملوث 8افراد (ایک سابق سرکاری ملازم، چار پولیس اہلکار اور ایک نوجوان) کو گرفتار کرنے پر بھارت کی حکمران سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP)سے تعلق رکھنے والے ہزاروں انتہا پسند ہندو افراد، ہندو انتہا پسند تنظیم ’’ہندو ایکتا منج‘‘ سمیت دیگر کئی شدت پسند ہندو تحریکوں نے اُن 6 افراد کی رہائی کے لیے شدید احتجاج بھی کیے جن میں بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) کے 2 وزراء نے ملزموں کے حق میں شرکت بھی کی جو کہ انتہائی افسوس ناک ہے-تحقیقات کے مطابق اس مخصوص واقعہ کا مقصد مسلمانوں کو ’’کاتھوا‘‘ کا علاقہ چھوڑنے پر مجبور کرنا تھا اسی وجہ سے ہندو شدت پسندوں نے بچی کی میت کو اس علاقے میں دفن بھی نہیں کرنے دیا[25]- اس مخصوص واقعہ کے بعد دنیا بھر میں مودی سرکار کے خلاف ایک شدید لہر اٹھی اور ہندوستان کو عالمی برادری میں شدید مذمت کا سامنا بھی ہوا-گو کہ موجودہ بی جے پی کی گورنمنٹ سے قبل بھی ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا تھا مگر بی جے پی کی حکومت میں یہ معاملہ سنگین ہو گیا کیونکہ شدت پسند ہندؤں کو بی جے پی اور حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے-بین الاقوامی تحقیقی ادارہ پیؤ ریسرچ سینٹر (Pew Research Center) کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ انڈیا 198 ممالک میں چوتھا بدترین ملک ہے جہاں مذہبی انتہا پسندی اور اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے[26]-یہ معاملہ مودی سرکار میں مکمل خاموشی کی وجہ سے مزید تکلیف دہ ثابت ہوا-انڈیا میں انسانیت تقریباً ناپید ہو چکی ہے، اخلاقیات، آداب اور دوسروں کی عزت و آبرو کا تحفظ شدید خطرے میں ہے-نیو یارک ٹائمز کے مطابق:
“India is sliding toward a collapse of humanity and ethics in political and civic life”.[27]
’’انڈیا سیاسی و سماجی زندگی میں انسانیت اور اخلاقیات سے مکمل طور پہ محروم ہوتا چلا جا رہا ہے ‘‘-
جس طرح کہ مغربی ممالک میں پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ اسلام اور مسلمان عورت کے متعلق سخت رویّہ رکھتے ہیں ، اِس آڑ میں اسلامی فوبیا کا شکار لوگوں کی طرف سے کئی اسلامی ممالک کو خواتین کے لئے ناپسندیدہ قرار دیا جاتا ہے-اِس تاثر کی نفی کرتے ہوئے ایمنیسٹی انٹر نیشنل کی رپورٹ میں انڈیا کو عورتوں کیلئے دنیا کا بدترین ملک قرار دیا -اس رپورٹ کے مطابق:
“Our analysis found Canada to be the best G20 country for women. The worst? Perhaps a surprise: Not Saudi Arabia, but India.”[28]
’’ہمارے تجزیے کے مطابق کینیڈا جی بیس (G-20) ممالک میں عورتوں کے لیے بہترین ملک ہے جبکہ بدترین؟ شاید حیرت انگیز-بدترین ملک سعودی عرب نہیں بلکہ انڈیا ہے ‘‘-
ایک بات توجہ طلب ہے کہ مندرجہ بالا اعداد و شمار اُن مقدمات و واقعات کے ہیں جو رپورٹ کیے گئے ہیں اور بدقسمتی سے یہ جرم بہت کم رپورٹ کیا جاتا ہے اور بیشتر متاثرہ خواتین معاشرے میں بدنامی، انصاف کی عدم فراہمی کے ڈر، مجرموں کی جانب سے دھمکیاں اور پولیس کے ناروا رویہ وغیرہ کی وجہ سے مقدمات درج کروانے سے گریز کرتی ہیں جس کے متعلق آل انڈیا پروگریسیو ویمن ایسوسی ایشن (All India Progressive Women's Association) کی سیکرٹری کویتا کرشنن (Kavita Krishnan)نے بھی نشاندہی کی تھی- اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ریپ کے صرف 11 فیصد واقعات رپورٹ ہوتے ہیں[29]-بھارت کے مشہور ’’دی ہندو‘‘ (The Hindu) اخبار کی ایک سینئر صحافی کے تحقیقی تجزیے کے مطابق ہندوستان میں ریپ کے صرف 5 سے 7 فیصد واقعات پولیس میں رپورٹ کیے جاتے ہیں جس کا مطلب ہر 100 واقعات میں سے صرف 5 یا 7 واقعات پولیس میں درج کیے /کروائے جاتے ہیں-اس لیے مندرجہ بالا اعداد و شمار کل تعداد کا صرف 5 سے 7 فیصد ہےیعنی بھارت میں عصمت دری کے واقعات مندرجہ بالا اعداد شمار سے کم و بیش 93 تا 95 فیصد زیادہ ہے جو واقعی ایک تشویش ناک حقیقت بن چکی ہے - [30]
انڈیا میں ریپ کی شرح میں اضافہ کی چند ممکنہ وجوہات مندرجہ ذیل ہو سکتی ہیں جن پر بھارتی حکومت سمیت بین الاقوامی اداروں کو سنجیدگی سے عمل درآمد کی ضرورت ہے -
1. پولیس کی کم تعداد بالعموم اور پولیس میں عورتوں کی محدود تعداد بالخصوص
امریکہ کے مشہور ری پبلکن ریسرچ تھنک ٹینک ’’بروکنگ انسٹیٹیوٹ‘‘ نے ہندوستان پہ تنقیدی بلاگ میں کہا ہے کہ انڈیا کے دارالحکومت ’’دہلی‘‘ میں کم و بیش 84000 پولیس افسران موجود ہیں جن کا محض تیسرا حصہ اپنا کام کرتے ہیں جبکہ باقی پولیس افسران اشرافیہ، سیاسی قائدین، حکمرانوں اور دیگر بیورو کریٹس وغیرہ کی سکیورٹی کے لیے مختص ہیں- دہلی میں ہر 200 عام شہریوں کے لیے ایک پولیس افسر جبکہ ہر 20 اشرافیہ کے لیے ایک پولیس افسر ڈیوٹی سر انجام دیتا ہے[31]- دوسری طرف انڈین پولیس میں صرف 7 فیصد خواتین شامل ہیں اور دارالحکومت ’’دہلی‘‘کے 161 پولیس اسٹیشنز میں سے صرف ایک پولیس اسٹیشن میں خاتون اسٹیشن افسر ہے-بہت سی متاثرہ خواتین اور ان کے لواحقین کا کہنا ہے جب عورت مرد پولیس افسر کو مقدمہ درج کرنے کا کہتی ہے تو اولاًان کا مقدمہ درج ہی نہیں کیا جاتا اور ایسے غلیظ و توہین آمیز سوالات پوچھے جاتے ہیں کہ متاثرہ خاتون اکثر اپنا حوصلہ اور ہمت کھو کر مقدمہ درج کروانے سے انکار کر دیتی ہے یا خود کشی کر لیتی ہے-
واشنگٹن پوسٹ کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق جب انہوں نے ایک زنا بالجبر کی شکار خاتون (جس نے خود کشی کر لی تھی ) کی بہن چرن جیت کور (Charanjit Kaur) سے وجہ دریافت کی تو اس کا کہنا تھا:
“The police refused to file a complaint. Instead, they asked my sister such vulgar details, it was as if she was being raped all over again. There was no lady police officer, they were all men. My sister cried in front of them and kept asking, ‘Would you still ask such questions if I were your daughter”?[32]
’’پولیس نے مقدمہ درج سے صاف انکار کر دیا- بلکہ انہوں نے میری بہن سے ایسے غلیظ و بیہودہ وضاحت (سوالات)طلب کی کہ یہ اس کے ساتھ دوبارہ زنابالجبر کرنے کے مترادف تھا -وہاں کوئی بھی خاتون پولیس افسر نہیں تھی، وہ سب مرد تھے- میری بہن ان کے سامنے روتی رہی اور پوچھتی رہی کہ ’’اگر میری جگہ آپ کی اپنی بیٹی ہوتی تو کیا آپ پھر بھی مجھ سے یہ سب سوالات کرتے‘‘؟
2. تشدد کے واقعات پر حکومت کی لاپرواہی و نظر اندازی اور معاشرتی تشدد پسندی
ہندوستان میں عورتوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے بیشتر واقعات پر حکومت مختلف وجوہات کہ بنا پر عمداً رعائیت برتتی ہے اور معاملات کو نظر انداز کرتی ہے- دوسری جانب معاشرے میں عورت کے ساتھ تشدد کے رویہ کے حامی لوگوں میں دن بدن فروغ کی وجہ سے بھی یہ مسئلہ بہت تقویت پکڑ رہا ہے - مثلاً2012ء میں یونیسیف (UNICEF) کی تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ انڈیا میں 15 سے 19 سال کے 57 فیصد لڑکے جبکہ 53 فیصد لڑکیوں کا ماننا ہے کہ شوہر بیوی پر تشدد کر سکتا ہےاور اسے مار پیٹ سکتا ہے[33]-اس لیے لازم ہے کہ ہندوستان میں نوجوان نسل سمیت مکمل معاشرے میں تحریک آگاہی کی ضرورت ہے جس میں عورت کی عزت، مقام وغیرہ کی تفہیم فراہم کی جائے اور معاشرے میں شدت پسندانہ و تخریبی سوچ و رویہ کی بجائے مثبت، تعمیری رویہ پروان چڑھے -
اقوامِ متحدہ کے سابقہ سیکرٹری جنرل بانکی مون نے انڈین حکومت کو عورتوں کے حقوق و عزت کے تحفظ کے متعلق خصوصی کردار ادا کرنے کے متعلق تنبیہ کر چکا ہے اور بھارتی حکومت کو یہ باور کروا چکا ہے کہ زنا بالجبر ہندوستان کا قومی سطح کا مسئلہ ہے جس کا باقاعدہ و باضابطہ حل نکالنے کی ضرورت ہے- [34]
3. سست عدالتی نظام انصاف
اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت گرداننے والے انڈیا میں عدالتی نظام معاشرے میں جرائم کی تعداد میں اضافے کی بہت بڑی وجہ ہے-جس معاشرہ میں مجرم آزادانہ پھریں اور عدالتیں انصاف مہیا کرنے سے قاصر ہوں وہ معاشرے صفحہ ہستی سے مٹ جایا کرتے ہیں- انڈیا میں ہر10لاکھ لوگوں کے لیے صرف 15 جج موجود ہیں جو کہ اپنا فرض وقت پر کیونکر اور کیسے ادا کر سکتے ہیں؟دہلی کے ایک معروف جج کا کہنا ہے کہ صرف دہلی میں بقایا مقدمات جات کو حل کرنے کے لیے کم از کم 466 سال کا عرصہ درکار ہے -لہذا ایسے حالات میں عورتوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ اور جرائم کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟ عدالتی نظام کی بد حالی اور ججز کی کمی درحقیقت حکومت کی لاپرواہی و عدم دلچسپی کا منہ بولتا ثبوت ہے - [35]
4. عورت کا معاشرہ میں کمتر مقام
تاریخی طور پہ بدقسمتی سے ہندوستانی معاشرے میں عورت کے ساتھ مجموعی طور پر ناروا و امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے- غریب و امیر عورت کو اپنے لیے بوجھ سمجھتا ہے-انڈیا دنیا کے اُن چند ممالک میں شامل ہے جہاں مردوں کی نسبت عورتوں کی تعداد بہت کم ہے جس کی ایک بنیادی وجہ رحمِ مادر میں بیٹی ہونے کے شک پر ہی اسقاطِ حمل کا عمل اور بچیوں کی طفل کُشی وغیرہ شامل ہیں-قدرتی طور پر ہر 100 لڑکیوں کے متوازی 105 لڑکے پیدا ہوتے ہیں جبکہ انڈیا میں ہر 100 لڑکیوں کے متوازی پیدا ہونے والے لڑکوں کی تعداد 112ہے جس کا مطلب انڈیا میں مردوں کی نسبت 630 لاکھ عورتوں کی کمی ہے[36]-اکثر رپورٹس میں یہ انکشاف کیا جاتا ہے کہ انڈیا میں بچپن ہی سے والدین بچیوں اور بیٹیوں کی نسبت بچوں اور بیٹوں کی خوراک اور پرورش کا خاص خیال رکھتے ہیں جس وجہ سے بہت سی بچیاں اور لڑکیا ں شدید بیماریوں کا شکار ہو جاتی ہیں-لہٰذا بھارتی معاشرے میں عورت کی بنیادی عزت و تکریم کی تبلیغ و ترویج کی ضرورت ہے[37] -
5. سماجی و اقتصادی مسائل (مثلاً غربت، ناخواندگی و جہالت، رہائشی گھروں کی کمی، انتہائی گنجان آباد علاقے)
انڈیا میں زنا بالجبر اور عورتوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی ایک بنیادی وجہ سماجی و اقتصادی مسائل کی شدت ہے- دہلی پولیس 2017ء کی رپورٹ کے مطابق غربت، ناخواندگی، کچی بستیاں، بڑھتی ہوئی جھگی جھونپڑی کا تصور، انصاف کی عدم فراہمی، آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح وغیرہ عصمت دری کی بنیادی وجوہات میں شامل ہیں[38]- ایسے میں حکومت سمیت دیگر غیر حکومتی ترقیاتی و فلاحی اداروں کو مل کر ملک میں سماجی و اقتصادی مسائل کے حل کے لیے مناست حکمتِ عملی مرتب کرنے اور جلد از جلد سنجیدہ رویہ اپنانے کی ضرورت ہے-
6. حکومتی اداروں، خاندان کے بڑوں اور گھر والوں کی جانب سے متاثرین کو انصاف فراہم کرنے کی بجائے انہیں سمجھوتے پر زبردستی رضا مند کرنے کی کوششیں بھی ایسے واقعات میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں -
7. الٹرا ماڈرن بننے کی خواہش، بے لاگ آزادی، فلموں کے بے ہنگم مناظر، اشتہارات وغیرہ میں فحش و عریانیت، ڈرامہ سیریل میں پیار و محبت اور ناجائز جنسی تعلقات کا فروغ، انٹرنیٹ اور فحش ویب سائٹس تک رسائی وغیرہ چند نہایت اہم وجوہات و مسائل ہیں -
المختصر! یہ کہ ہمارا ہمسائیہ ملک جو دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد سیکولر جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے وہ اندرونی طور پر نہایت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے- ہر 20 منٹ میں حوا کی بیٹی کی عزت نیلام کی جاتی ہے، اسے برہنہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، قتل و غارت عام ہے، عدالتیں اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں اور حکمران ’’صُمٌّۢ بُکْمٌ عُمْیٌ ‘‘ نہ صرف خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں بلکہ فی الاصل اِس تذلیلِ بنتِ حوّا کے پسِ پردہ اصل محرک ہیں-خلاصہ یہ ہے کہ اس مخصوص جرم کے خلاف ایک تحریک آگاہی چلانےکے ساتھ ساتھ پولیس کے محکمے میں ریفارمز، انصاف کی فوری فراہمی، مجرموں کو جلد از جلد تختہ دار تک پہنچانے،حکومتی مثبت تعمیری کردار اور نوجوان نسل کی ظاہری،اخلاقی و روحانی تربیت لازم ہے، میڈیا انڈسٹری کے ذریعے پھیلائی جانے والی فحاشی و عُریانی کو کنٹرول کیا جائے، فیشن کے نام پہ پھیلائی جانے والی جنسی اشتہا کو فیشن سے الگ کیٹا گرائز کیا جائے، جنسی اشتہا پہ ابھارنے والی فلموں، ڈراموں اور ٹی وی اشتہارات کی شدید ترین حوصلہ شکنی کی جائے - وگرنہ یہ ناسور پوری نسل اور قوم میں وباء کی طرح پھیلتا چلا جائے گا -
٭٭٭
[1]( اشفاق احمد، مختلف معاشروں میں عورت کی حیثیت، بزمِ اردو لائبریری)
[2](النحل:58-59)
[3](مولانا الطاف حسین حالی ، مسدس)
[4](عبدالصمد صارم ، مقالات صارم، ص:85)
[5](اشفاق احمد، مختلف معاشروں میں عورت کی حیثیت، بزمِ اردو لائبریری)
[6] https://www.nspcc.org.uk/preventing-abuse/child-abuse-and-neglect/child-sexual-abuse/sexual-abuse-facts-statistics/.
[7]Misra, A. (2008). Rape: A psychological analysis. Journal of Psychosocial Research 3(2),215-224-
[8]Louise, I. D. (1988) Adolescent Rape: The Role Of Nursing,Vol. 11, No. 1 , Pages 59-70.
[10]V. K. Madan and R.K. Sinha, “The Dynamics of Rape in Modern Indian Society,” AGORA International Journal of Juridical Sciences, No. 4 (2013), pp. 81-87.
[11]Daniele Selby, “Despite India’s Anti-Rape Laws, Sexual Assault Is Still a Major Problem,” Global Citizen, 09 Nov, 2017,
[12]www.washingtonpost.com/news/worldviews/wp/2012/12/29/india-rape-victim-dies-sexual-violence-proble/?utm_term=.bfcbc365163e
[13]India: Rape Victims Face Barriers to Justice Uneven Progress in 5 Years Since Delhi Gang Rape, Human Rights Watch, 08 Nov, 2017,
[14]“Are women safe in India?” Al Jazeera, December 24, 2012,
[15] https://timesofindia.indiatimes.com/india/Rape-rises-fastest-among-major-crimes/articleshow/10636396.cms
[16]Anusha Venkat, “Why most rapes go unreported in India,” Asia Times, Jan 5, 2017,
[17]“India is third in rape cases, second in murder in the world,” The Hindu, Jul 23, 2014, Available at http://www.thehindu.com/news/national/india-is-third-in-rape-cases-second-in-murder-in-the-world/article6242011.ece#
[18]Zena Tahhan, “India: More than 34,000 cases of rape reported in 2015,” Al Jazeera News and Agencies, Sept 01, 2016,
[19]Daniele Selby, “Despite India’s Anti-Rape Laws, Sexual Assault Is Still a Major Problem,” Global Citizen, 09 Nov, 2017,
[20]Ibid,
[21]Global Peace Index-2017 Measuring Peace in a Complex World, Institute for Economics and Peace,
[22]“India minister tells foreign tourists: 'Don't wear skirts,” BBC News, 29 Aug, 2016, Available at http://www.bbc.com/news/world-asia-india-37212219
[23]Nita Bhalla and Karla Mendes, “EXCLUSIVE -Delhi, Sao Paulo seen as worst megacities for sex attacks on women – poll,” Reuters 16 Oct, 2017,
[24]“Murders, rapes show marginal rise in first 45 days compared to last year,” Times of India, 26 Feb, 2018, Available at www.timesofindia.indiatimes.com/city/delhi/murders-rapes-show-marginal-rise-in-first-45-days-compared-to-last-year/articleshow/63072001.cms
[25]Um-Roommana, “The Rape That Shook India,” The Diplomat, Apr 19, 2018,
[26]“Global Restrictions on Religion Rise Modestly in 2015, Reversing Downward Trend,” Pew Research Centre, Apr 11, 2017,
[29]UN Women, “Factsheet - Global, Progress of the World's Women 2011-12,” May 2013.