افغانستان میں ہندوصہونیت کے مذموم مقاصد

افغانستان میں ہندوصہونیت کے مذموم مقاصد

افغانستان میں ہندوصہونیت کے مذموم مقاصد

مصنف: آصف تنویر اعوان ایڈووکیٹ جولائی 2018

افغان تہذیب اور خدمتِ اسلام:

ایک معروف روایت کے مطابق قیس عبد الرشید نامی ایک بزرگ جو بعد از اسلام افغانوں کے ایک طرح سے جد امجد بتائے جاتے ہیں اپنے قبیلے کے کچھ آدمیوں سمیت رسول اللہ (ﷺ) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تاکہ اسلام کی تعلیمات اور ہدایت حاصل کر کے افغانوں کو مشرف بہ اسلام کر سکیں-رسول اکرم (ﷺ) ان کی استقامت اور عزم سے اتنے خوش ہوئے کہ ان کو ’’بطان‘‘ کا لقب عطا فرمایا جس کا معنی جہاز کے مرکزی مضبوط حصے کے ہیں- یہی بطان، بتان، پٹان اور پٹھان ہو گیا- [1]

ایک طرف اس قوم کی وہ تابندگی نظر آتی ہے جسے پڑھ کر جی چاہتا ہے کہ ایک ایک لمحے میں ان نیک روحوں کو لاکھوں کروڑوں سلام اور سیلوٹ پیش کئے جائیں جنہوں نے اپنے آپ کو واقعتاً قومِ رسولِ ہاشمی (ﷺ) کا سب سے اعلیٰ خدمت گار اور جانثار ثابت کیا- پاک و ہند کا ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہم میں سے ہر ایک کو یہ اعترافِ حقیقت ہونا چاہیے کہ پاک و ہندمیں جو اسلام آیا ہے یہ براستہ افغانستان آیا ہے ، اِس کی ترویج میں سب سے بڑا اور اہم کردار براستہ افغانستان یہاں داخل ہونے والے صوفیا کرام اور بلند پایہ اسلامی سالاروں کا ہے - خدمتِ اسلام، افغان تہذیب کا ہمیشہ نمایاں وصف رہا ہے- افغان تہذیب، جمال الدین افغانی، حکیم سنائی، مولانا جلال الدین رومی، امام عبد الرحمن جامی، سلطان محمود غرنوی، علی بن عثمان المعروف حضرت داتا گنج بخش اور احمد شاہ ابدالی جیسے زندہ و تابندہ ستاروں سے روشن و منور ہے- ان مشاہیر کے سینے دین ِاسلام کی پُر خلوص خدمت سے روشن تھے- ان کی زندگی کا اولین مقصد دین کی سرفرازی اور اتحاد امتِ مسلمہ کی روشن تعبیر پیش کرنا تھا- چاہے اس قوم کے بچے تھے یا بوڑھے، جوان تھے یا نوجوان سب کی روح کی تڑپ ترویجِ اِسلام اور حفاظتِ اُمتِ اسلامی تھا -

اگر ہم ایک ایک شخصیّت کی دین و ملت کیلئے ناقابلِ فراموش خدمات کا محض تعارفی خاکہ ہی پیش کریں تو بھی اُس کیلئے کئی جلدوں پہ مشتمل انسائیکلوپیڈیا تیار ہو جائے- مثلاً آپ سیّد جمال الدین افغانی رحمہ اللہ کو دیکھ لیں جو کہ نسب سے حسینی سید تھے - آپ نے تحریک اتحاد عالمِ اسلام کی بنیاد ڈالی جس کی حمایت سلطنتِ عثمانیہ کے سلطان عبد الحمید ثانی نے بھی کی-آپ کا ماننا تھا کہ جو اسلامی ممالک آپس میں دفاعی اتحاد نہیں کرتے، ان کی اقتصادی ناکہ بندی کر دی جائے[2]- نتائج سے بے پروا ہو کر حق گوئی، اسلامی اتحاد و اخوت اور مشترکہ دفاعی قوتوں کے یکجا ہونے کی خاطر کام کرنا، عالم اسلام کے مسلمانوں کو ممکن حد تک استعمار پسندوں کے عزائم سے آگاہ کرنا اور ان کی قوتوں کو میدان عمل میں گامزن کرنے کی خاطر سعی کرنا، ان کی سیرت و فعالیت کے خاص پہلو ہیں- آپ نے افغانوں کی تاریخ فارسی زبان میں لکھی-آپ کا کہنا تھا کہ:

’’زمین کا کوئی خطہ مسلمانوں کا مرز و بوم ہو اور ان کی کوئی بھی قومیت ہو، جب وہ اسلام پر ایمان لے آئے تو ایک بڑے خانوادے کے فرد بن گئےہیں- اب اگر وہ کوئی عصبیت رکھتے ہیں تو وہ اسلام کی عصبیت ہونی چاہیے-اے علمبردارانِ توحید! دنیا کے گوشے گوشے سے اٹھو اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں عملا ًشریک ہو جاؤ‘‘[3]-

آپ مزید فرماتے ہیں کہ:

’’کیا مسلمانوں سے یہ نہیں ہو سکتا جس طرح دوسری قوموں نے اتحاد کر رکھا ہے یہ بھی متحد ہو جائیں؟ اگر مسلمان اتحاد کر لیں تو ان کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے- کیا ان کو اتنا شعور نہیں کہ اس بات کا احساس کریں کہ ان میں سے ہرایک کی احتیاجات دوسرے سے وابستہ ہیں؟ ان میں کوئی ایسا نہیں رہا جو خدا کے اس حکم کے مطابق کہ ’’مومن بھائی بھائی ہیں‘‘ اپنے بھائی کا بھی خیال رکھے؟ اگراہل اسلام ایک محکم دیوارکی مانند کھڑے ہوجایں تو اُن سیلابوں کو روک دیں گے جو اس وقت اُن پر ہر سمت سے عود کر آ رہے ہیں‘‘-[4]

یہ ہے وہ ’’افغان سپرٹ‘‘ یا روح افغان جو کہ ہماری محبوب ہے جس پہ ہم دل و جان سے قُربان ہیں -

افغانوں کی یہ روایتِ دردِ اسلام و مسلمین ہمیں اسی طرح محمد نادر شاہ (جرنیل، فرمانروائے افغانستان)میں بھی نظر آتی ہے جنہوں نے نہ صرف افغانستان کو اس وقت کے سیاسی بحران سے نجات دلائی بلکہ اپنے عصر کے جلیل ترین حکمرانوں میں سے تھے-آپ بہادر، متقی اور اسلام سے محبت کرنے والے خدا ترس انسان تھے-آپ نے اکتوبر 1933ء میں افغانستان میں تعلیمی اصلاحات کے سلسلے میں مشورہ کی خاطر ہند سے علامہ محمد اقبالؒ، سر راس مسعود اور سید سلمان ندوی کو افغانستان آنے کی دعوت دی- انہوں نے اس وفد سے کہا کہ آپ ہندوستان جا کر مسلمانوں کو یہ پیغام پہنچا دیں کہ مسلمانانِ ہند و افغانستان کو اتفاق و اتحاد کی سب سے زیادہ ضرورت ہے-مزید کہا کہ:

’’میری کوشش ہے کہ افغانستان میں دین و دنیا کو جمع کر دوں اور ایک ایسے اسلامی ملک کا نمونہ پیش کروں جس میں قدیم اسلام اور جدید تمدن کے محاسن یکجا ہوں اور چاہتا ہوں کہ ہمارے مسلمان بھائی بھی اس کو اپنا ملک سمجھیں-میرے بھائیوں کو کَہ دیجیے گا کہ دنیا میں ایک نئے انقلاب کا مواد تیار ہو رہا ہے- ضرورت ہے کہ مسلمان اپنی تعدادی، اقتصادی اور تعلیمی استعداد اس کے لیے پہلے سے تیار کر لیں‘‘-[5]

افغان قوم اور افغانستان کی بات ہو اور اسلامیانِ ہند کے محسنِ عظیم سلطان محمود غرنوی کی بات نہ ہو تو یہ تاریخ سے اِنصاف نہیں ہوتا-آپ عادل بادشاہ سبکتگین کے بیٹے تھے-آپ بت شکن سومنات کی حیثیت سے پہلے مسلمان تھے جنہوں نے سنت ابراہیمؑ اور اسوۃ محمدی (ﷺ)کی عملی پیروی کی- [6] آپ نے سومنات کو پاش پاش کر کے جہاں ایک طرف کفر و شرک کو ختم کیا وہیں ہندوستان میں بت پرستی کی آڑ میں برہمن اجارہ داری کو بھی مٹایا- آج اگر بر صغیر پاک و ہند کے طُول و عرض میں مسجدوں کے میناروں سے ’’أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللہُ‘‘ اور ’’أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللہِ‘‘ کی صدا بُلند ہوتی ہے تو اِس میں سُلطان محمود غزنوی کی پے بہ پے ضربوں کا ناقابلِ تردید حصہ شامل ہے-

آج اسلامیانِ ہند سُلطان محمود غزنوی کے سارے احسانات بھُلا کر محض اپنے مسلکی بُغض و عناد میں اُنہیں بھلانا چاہیں بھی تو یہ احسان کیسے بھلا پائیں گے کہ صوفیائے کرام کی پوری ایک جماعت کو تبلیغ و اشاعتِ اسلام کیلئے ہند میں لانے کا سہرا بھی اُسی بُت شکن و فاتحِ سومنات کے سر سجتا ہے، اُن صوفیا کے سرخیل علی بن عثمان بن علی ہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخشؒ تھے - سلطان محمود غزنوی کی فتوحات کے بعد آپ ہندوستان تشریف لائے اور لوگوں کی روحانی تعلیم و تربیت میں مصروف ہو گئے- آپ نے پاکیٔ دل، قرب الٰہی اور خدمت اسلام کی تعلیمات سے لوگوں کے قلوب و اذہان کو منور کیا- افغانستان سے آنے والے دیگر صوفیاء نے بھی برصغیر میں مسلمانوں اور اسلام کو خوب تقویت دی-

موسس ملتِ افغانیہ حضرت احمد شاہ بابا المعروف احمد شاہ ابدالی کے اِحسانات بھی اُسی طرح جلی و واضح ہیں جنہوں نے ایک بڑے ہی کٹھن تاریخی مرحلہ پہ اسلامیانِ ہند کی مدد کی اورمرہٹوں کو ہندوستان میں ہسپانیہ کی تاریخ دُہرانے سے روک لیا وگرنہ آج یہاں بھی قلعے اور مسجدیں تو کھڑی ہوتیں لیکن شمعِ توحید و رسالت کے پروانے خال خال ہی نظر آتے-سلطنت مغلیہ کے زوال کے دور آخر میں جب مرہٹوں نے قوت حاصل کر کے شمالی ہندوستان پر قبضہ جمانا شروع کیا اور دہلی کے تخت پر قبضہ کرنے کے بعد پنجاب کی طرف بڑھنے لگے تو احمد شاہ ابدالی نے محدثِ دہلوی حضرت شاہ ولی اللہؒ اور دیگر مسلمان بزرگوں کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے پانی پت کے میدان میں افغانوں کی مدد سے لاکھوں ہندو مرہٹوں کو شکست فاش دی- اقبال فرماتے ہیں کہ احمد شاہ ابدالی کے مطابق جہانِ شب و روز میں جو صاحب امروز ہے، مستقبل بھی اسی کا ہے اور جو بیداری، سخت کوشی اور کراری سے رہتا ہے وہی زندہ رہ سکتا ہے- یہ عثمانیوں اور ہندی مسلمانوں میں جب تک باقی رہی ان کا جاہ و جلال بھی رہا- کتاب و سنت ہی اعتبار ملت اور قوت کا ذخیرہ ہے- قرآن جہانِ ذوق و شوق کی برکات اور سنت ’’عالم تحت و فوق‘‘ کی فتوحات کی ضامن ہے-قرآن اگر مومن کا جمال ہے تو سنت اس کا جلال- قرآن ہی ثبات و حیات کی بنیاد ہے- [7]

افغان مشاہیر جہاں امت مسلمہ کا درد رکھتے تھے وہیں وہ اپنے دشمنوں کی سازشوں سے بھی واقف رہتے اور مسلمانوں کو دشمن کے شر سے بچانے اور متحد کرنے کے لیے مائل بہ عمل رہتے تھے- ان کی زندگیوں کا حاصل دین کی خدمت اور مسلمانوں سے وفا تھی- وہ امت مسلمہ کی واحد و مشترک منفعت کو جانتے اور پہچانتے تھے- شاید یہی قدرِ مشترک تھی جس کی بدولت علامہ اقبال ؒ کو افغان قوم سے والہانہ محبت تھی-

افکار اقبالؒ اور افغانستان:

حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبالؒ افغانستان کے متعلق اپنے خیالات کے اظہار میں لکھتے ہیں:

آسیا یک پیکرِ آب و گل است
ملت افغان در آں پیکر دل است
از فساد او فساد آسیا
در کشاد او کشاد آسیا[8]

’’ایشیاء ایک وجود کی مثل ہے اور اس وجود کا دل افغانستان ہے- اگر افغانستان میں فساد ہو گا تو پورے ایشیاء میں فساد ہوگا اگر وہاں امن و خوشحالی ہوگی تو پورے ایشیاء میں امن و خوشحالی ہو گی‘‘-

آپؒ نے اپنے کلام میں بڑی وضاحت سے افغان محبت کا اظہار کیا-

افغان باقی کہسار باقی
الحکم للہ! المک للہ!

علامہ اقبالؒ نے ’’محراب گل افغان کے افکار‘‘ نامی نظم میں افغانوں کی صفات و خصوصیات کو بیان کیا- آپ نے اپنے کلام میں افغانوں کو بار ہا سراہا کیونکہ اسلام کی اشاعت اور حفاظت کے لیے بندہ صحرائی اور مرد کہستانی نے ہمیشہ بے مثال کردار ادا کیا-

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا مرد کہستانی

علامہ اقبالؒ خوشحال خان خٹک اور احمد شاہ ابدالی سے لے کر امان اللہ خان اور نادر شاہ تک ہر اس شخص کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جس نے باہم متحارب افغان قبائل کو متحد کر کے ایک منظم اسلامی فلاحی افغان مملکت کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی- [9]

افغان افکار اسلامی نظریاتی بنیادوں کی وجہ سے ہمیشہ مسلمان دوست رہے ہیں- جرأت و بہادری کی علامت سمجھی جانے والی غیور افغان قوم نے کبھی استعمار کے ہاتھوں اپنی حریت کا سودا نہیں کیا- لیکن دشمن کی سازشیں ہمیشہ اس تعاقب میں رہی ہیں کہ کب اور کس طرح اس غیور قوم سے اسلام اور مسلمان دوستی کا اعزاز چھینا جائے؟ حریت کے نغمے سے سرشار رہنے والی قوم کو کس طرح خود غرضی کی زنجیر میں جکڑا جائے- تاریخی طور پہ جب یہ ممکن نہ رہا تو ایسے اسباب تراشے گئے تاکہ افغانوں سے اسلامی جذبۂ ایثار چھین لیا جائے، اس سفر کا آغاز تو روسی مداخلت سے شروع ہوتا ہے لیکن اس کا نُقطۂ کمال تب سامنے آیا جب امریکہ میں نائن الیون واقعہ کے مبیّنہ ذمہ دار اُسامہ بن لادن کو افغانستان میں تلاش کرنے 40 سے زائد ممالک کی افواج افغانستان پہ ٹوٹ پڑیں - اندریں حالات افغانوں کی نمائندگی کا مسئلہ درپیش ہوا کہ کس کو افغان قوم کا نمائندہ بنایا جائے تو رُجلانِ حُریّت کے مقابلے میں ایسے لوگوں کو افغانستان کا نمائندہ ظاہر کیا گیا جو مکمل طور پہ استعماری طاقتوں کی غُلامی پہ رضا مند تھے اور روایتی افغان حریت کے جذبے سے نہ صرف خالی تھے بلکہ فی الحقیقت اسے اپنے لئے بوجھ سمجھتے تھے اِس لئے عالمی طاقتوں نے روحِ افغان کچلنے کیلئے قرضئیوں کا انتخاب کیا - ایسے حالات میں عالمی طاقتوں کے ہاتھوں کچھ اپنے ہی ناعاقبت اندیش افراد اغیار کے ہاتھوں فروخت ہوئے اور اس عظیم غیور قوم کی فکری آزادی چھیننے کا سبب بنے- استعمار نے بعض افراد کو خریدا، کچھ کو اعلیٰ مناصب کے حصول میں بھر پور معاونت کی، مستحق افراد کو ان کے عہدوں سے دستبردارکیا گیا اور کثیر تعداد میں سرمایہ کاری کی گئی تاکہ آئندہ افغانستان کی مُلکی پالیسی ملی مفادات کے مخالف اور استعماری قوتوں کے حق میں ہو  اور خاص کر اسلامی ہند کی نگہبانی کرنے والے افغان جذبے کو ہندو صہیونیّت کی دوستی میں بدل دیا جائے تاکہ بر صغیر میں اسلام اور ملتِ اسلامی کی دوستی کے تاریخی و روایتی احساس کو افغانوں سے چھین لیا جائے-یہی وجہ ہے کہ قرضئیوں کے آنے کے بعد افغانستان کی موجودہ پالیسی افغان مشاہیر کے افکار سے بہت دور اور اُن کے نظریات سے متصادم ہے- ضرورت اِس امر کی ہے کہ افغان پالیسی کی اساس کو دیکھا جائے اور مقاصد کے ماخذ کا تعین کیا جائے تاکہ نہ صرف افغانستان میں اسلام کی اصل روح کو زندہ کیا جا سکے بلکہ افکار کے نظریات کی صورت میں اتحاد ِ امت کے لیے ملک و قوم و مسلم اُمہ کو اتحاد کا درس دیا جا سکے-

ہندو صیہونیت کے مذموم مقاصد اور موجودہ افغان پالیسی:

افغانستان میں ہندو صیہونیت کے مذموم مقاصد بڑےعیاں ہیں- ان مقاصد میں، پاکستان کیلئے افغانستان کودفاعی کمزوری بنا دیا جائے، افغان کٹھ پتلی حکومت کے خلاف برسرپیکار باغی گروہوں کو ختم کرنا، تجارتی ذرائع سے موجودہ اور مستقبل حکومت کے ساتھ روابط بہتر بنانا اور مشرق وسطی کے وسائل تک رسائی کا حصول ممکن بنانا ہے- [10]یہ بھی طے کر لینا چاہیے کہ جسے افغان حکومت کہا جاتا ہے اُس سے افغانستان کا کون سا حصہ مُراد ہے؟ کیونکہ کابل کے صدارتی محل اور ارد گرد کے چند نامور ہوٹلوں کے علاوہ تو کہیں افغان حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی  افغانستان تو بہت بڑا ہے-

بھارت کو خطے کا طاقتور ترین ملک بنانے کے خبط میں امریکہ اپنے فوجیوں کے پہرے میں ہندو صہیونیوں کے ہاتھوں افغانستان میں بے دریغ سرمایہ کاری کروا رہا ہے- طالبان کے دور حکومت میں بھارت نے منتخب حکومت کے خلاف ’’ناردرن الائنس‘‘ کا کھل کر ساتھ دیا- جس میں 8 ملین ڈالر مالیت کے ہتھیار دینے کے ساتھ ساتھ ایک بریگیڈیر کوبھی مقرر کیا گیا تاکہ وہ طالبان کے خلاف لڑنے میں ناردرن الائنس کو غیر قانونی مشاورتی خدمات دے سکے- بھارتی خفیہ ایجنسی راء نے Soviet made Mi-17 اور Mi-35 ہیلی کاپٹر سے کئی حملہ کرنے میں بھی ناردرن الائنس کی مدد کی-[11] طالبان کی حکومت زوال پذیر ہونے کے بعد بھارت نے علاقائی بالا دستی کے حصول کیلئے کرزئی حکومت کو اپنی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی بنا لیا، افغانستان میں تہذیبی یلغار کر کے اسلامی تہذیب کے آثار کو مٹانے کے درپے ہو گیا - بھارت کے وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے کرزئی حکومت کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی اور افغانستان میں سفارتخانہ کا دوبارہ آغاز کیا- [12]

گو کہ جغرافیائی اعتبارسے بھارت کی افغانستان کے ساتھ سرحد نہیں ملتی نہ ہی بھارتیوں کی بڑی تعداد افغانستان میں مقیم ہے اس کے باوجود بھارت کا ایک عظیم الجثہ سفارتخانہ کابل میں جبکہ سولہ کونسل خانے پاکستان بارڈر کے ساتھ ساتھ قائم کئے جن میں 4 کونسل خانے قندھار، ہرات، مزار شریف اور جلال آباد میں واقع ہیں-[13] قندھار اور جلال آباد میں موجود کونسل خانہ پاکستان میں عدم استحکام کی نیت سے پس پردہ بلوچستان میں نام نہاد باغیوں کی سپورٹ میں مصروف عمل ہے -[14]

بھارت، افغانستان حکومت سے اپنے مطالبات منوانے کیلئے دوستی کی آڑ میں سرمایہ کاری اور دفاعی معاونت جاری رکھے ہوئے ہے-جس کی ایک جھلک کابل میں اندرا گاندھی چائلڈ ہاسپٹل کے قیام، افغانستان کی بری اور فضائی افواج کی افغانستان بالخصوص بھارت (وائرنجٹ،مزورام) میں ٹریننگ سے واضح ہے- بھارت کی بظاہر دوستی کی پینگیں درحقیقت افغانستان کے 3 ٹریلین ڈالر مالیت کے زمینی ذخائر ہتھیانے اور پاکستان کو توڑنے کی سازش ہے- ان ذخائر میں سونا، کاپر، لیتھیم، لوہا، بیریم سلفیٹ شامل ہیں-افغانستان میں تیل اور گیس کے ذخائر بھی موجود ہیں-

بھارت افغانستان کی سرزمین کو مسلسل پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے، کبھی وہاں سے مسلح جتھوں کی صورت میں پاکستانی چوکیوں پہ حملے کئے جاتے ہیں اور پاکستانیوں کو شہید کیا جاتا ہے، کبھی وہاں پہ پاکستان کے ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کے قاتلوں کو پناہ دی جاتی ہے - جیسا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں بتایا کہ ایک ہی دن میں پاکستان میں قومیّت پرستی کی آگ کو بھڑکانے کیلئے 5000سوشل میڈیا اکاؤنٹس بنا دیئے جاتے ہیں اور  افغانستان ہی کی سر زمین سے بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں بھارتی جاسوسی کا جال آپریٹ کیا جاتا ہے- افغانستان پاکستان اور اسلامیانِ ہند کے ساتھ اپنے تاریخی تعلق کو محض بھارتی بالا دستی کے عزائم میں بھلا بیٹھا ہے- افغانستان کو یہ یادرکھنا چاہیے کہ ہندو صہیونیّت کے مذموم مقاصد صرف پاکستان کے خِلاف نہیں ہیں بلکہ فی الاصل اسلام اور دینِ حق کے خلاف ہیں جس کا واضح اظہار بی جے پی اور آر ایس ایس کی اتحادی حکومت کے کارناموں سے ہوتا ہے -

حاصل کلام:

 جو قومیں اپنے اسلاف کے نظریات کو چھوڑ دیتی ہیں تاریخ گواہ ہے کہ وہ قومیں تاریخ بن کر رہ جاتی ہیں- یہ بات اس بات پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہیں کہ افغانستان میں ہندو صہیونیت کا انتہاوں کو چھوتا ہوا رومانس، افغان تہذیب کے اَجزائے ترکیبی کے خلاف ہے- اس لئے بے لوث قسم کے سنجیدہ فکر افغان مفکرین کو آگے آنا چاہیے اور افغان قوم پہ مسلط بھارت نواز پالیسیوں اور پالیسی سازوں سے دُور کرنا چاہیے-افغانیوں کوبھی چاہیے کہ ہندو صہیونیت کے دکھلائے سبز باغ پر فریفتہ ہونے کی بجائے ہندو بنیے کی نیت کے بھید اور چھید کو سمجھیں-اپنے اسلاف کی فکر سے راہنمائی لے کر صحیح سمت کا تعین کریں تاکہ خلعت برہمن کو ٹھکرا کر آزاد افغان روح کا حصول ممکن ہو-افغان اوروں سے امیدیں رکھنے کی بجائے اپنے اسلاف کے نظریات کی روشنی میں اپنی خودی کو پہچانیں-

ڈھونڈ کے اپنی خاک میں جس نے پایا اپنا آپ
اس بندے کی دہقانی پر سلطانی قربان
اپنی خودی پہچان او غافل افغان

تاکہ افغان قوم اپنی عظمت رفتہ کو یاد اور اپنی خودی کو بازیافت کرسکے کیونکہ اسلام میں تجاہل و تغافل حرام ہے-ملت سے وابستگی زندگی کا پیام جبکہ اغیار پر تکیہ موت ہے-

٭٭٭


[1](میر عبدالصمد خان، "اقبال اور افغان،" اقبال افغان اور افغانستان، ایڈٹ- محمد اکرام چغتائی (لاہور: سنگ میل پبلیکیشنز، 2004)، 561-)

[2]( ڈاکٹر محمد ریاض، "جمال الدین افغانی اور اقبال ،" اقبال افغان اور افغانستان، ایڈٹ- محمد اکرام چغتائی (لاہور: سنگ میل پبلیکیشنز، 2004)،342)

[3](النجسیہ والدیانتہ السلامیتہ)

[4](العروۃ الوثقیٰ)

[5](سید سلمان ندوی، "سیر افغانستان،" اقبال افغان اور افغانستان، ایڈٹ- محمد اکرام چغتائی

[6](میر عبدالصمد خان، "اقبال اور افغان،" اقبال افغان اور افغانستان، ایڈٹ- محمد اکرام چغتائی

[7]( اقبال افغان اور افغانستان، ایڈٹ- محمد اکرام چغتائی (لاہور: سنگ میل پبلیکیشنز، 2004)

[8](جاوید نامہ)

[9](فتح محمد ملک،’’اپنی خودی پہچان: اقبال اور افغانستان‘‘،  اقبال افغان اور افغانستان، ایڈٹ- محمد اکرام چغتائی (لاہور: سنگ میل پبلیکیشنز، 2004)

[10]Hanauer, Larry & Chalk, Peter. India’s and Pakistan’s Strategies in Afghanistan Implications for the United States and the Region. Rand Corportaion. Retrieved from http://www.rand.org/pubs/occasional_papers/OP387.html#key-fingings

[11]Bedi, Rahul. (2002, September 14-27). India and Central Asia. Frontline, No. 19. Retrieved from http://www.hinduonnet.com/f;ine/fl1919/19190600.htm

[12]The Tribune, 2001, December 22.

[13]http://www.immihelp.com/directory/indiansonsultes.html

[14]Rand analyst C. Christine Fair remarks at a CFR roundtable held in 2009.

افغان تہذیب اور خدمتِ اسلام:

ایک معروف روایت کے مطابق قیس عبد الرشید نامی ایک بزرگ جو بعد از اسلام افغانوں کے ایک طرح سے جد امجد بتائے جاتے ہیں اپنے قبیلے کے کچھ آدمیوں سمیت رسول اللہ (ﷺ) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تاکہ اسلام کی تعلیمات اور ہدایت حاصل کر کے افغانوں کو مشرف بہ اسلام کر سکیں-رسول اکرم (ﷺ) ان کی استقامت اور عزم سے اتنے خوش ہوئے کہ ان کو ’’بطان‘‘ کا لقب عطا فرمایا جس کا معنی جہاز کے مرکزی مضبوط حصے کے ہیں- یہی بطان، بتان، پٹان اور پٹھان ہو گیا- [1]

ایک طرف اس قوم کی وہ تابندگی نظر آتی ہے جسے پڑھ کر جی چاہتا ہے کہ ایک ایک لمحے میں ان نیک روحوں کو لاکھوں کروڑوں سلام اور سیلوٹ پیش کئے جائیں جنہوں نے اپنے آپ کو واقعتاً قومِ رسولِ ہاشمی (ﷺ) کا سب سے اعلیٰ خدمت گار اور جانثار ثابت کیا- پاک و ہند کا ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہم میں سے ہر ایک کو یہ اعترافِ حقیقت ہونا چاہیے کہ پاک و ہندمیں جو اسلام آیا ہے یہ براستہ افغانستان آیا ہے ، اِس کی ترویج میں سب سے بڑا اور اہم کردار براستہ افغانستان یہاں داخل ہونے والے صوفیا کرام اور بلند پایہ اسلامی سالاروں کا ہے - خدمتِ اسلام، افغان تہذیب کا ہمیشہ نمایاں وصف رہا ہے- افغان تہذیب، جمال الدین افغانی، حکیم سنائی، مولانا جلال الدین رومی، امام عبد الرحمن جامی، سلطان محمود غرنوی، علی بن عثمان المعروف حضرت داتا گنج بخش اور احمد شاہ ابدالی جیسے زندہ و تابندہ ستاروں سے روشن و منور ہے- ان مشاہیر کے سینے دین ِاسلام کی پُر خلوص خدمت سے روشن تھے- ان کی زندگی کا اولین مقصد دین کی سرفرازی اور اتحاد امتِ مسلمہ کی روشن تعبیر پیش کرنا تھا- چاہے اس قوم کے بچے تھے یا بوڑھے، جوان تھے یا نوجوان سب کی روح کی تڑپ ترویجِ اِسلام اور حفاظتِ اُمتِ اسلامی تھا -

اگر ہم ایک ایک شخصیّت کی دین و ملت کیلئے ناقابلِ فراموش خدمات کا محض تعارفی خاکہ ہی پیش کریں تو بھی اُس کیلئے کئی جلدوں پہ مشتمل انسائیکلوپیڈیا تیار ہو جائے- مثلاً آپ سیّد جمال الدین افغانی رحمہ اللہ کو دیکھ لیں جو کہ نسب سے حسینی سید تھے - آپ نے تحریک اتحاد عالمِ اسلام کی بنیاد ڈالی جس کی حمایت سلطنتِ عثمانیہ کے سلطان عبد الحمید ثانی نے بھی کی-آپ کا ماننا تھا کہ جو اسلامی ممالک آپس میں دفاعی اتحاد نہیں کرتے، ان کی اقتصادی ناکہ بندی کر دی جائے[2]- نتائج سے بے پروا ہو کر حق گوئی، اسلامی اتحاد و اخوت اور مشترکہ دفاعی قوتوں کے یکجا ہونے کی خاطر کام کرنا، عالم اسلام کے مسلمانوں کو ممکن حد تک استعمار پسندوں کے عزائم سے آگاہ کرنا اور ان کی قوتوں کو میدان عمل میں گامزن کرنے کی خاطر سعی کرنا، ان کی سیرت و فعالیت کے خاص پہلو ہیں- آپ نے افغانوں کی تاریخ فارسی زبان میں لکھی-آپ کا کہنا تھا کہ:

’’زمین کا کوئی خطہ مسلمانوں کا مرز و بوم ہو اور ان کی کوئی بھی قومیت ہو، جب وہ اسلام پر ایمان لے آئے تو ایک بڑے خانوادے کے فرد بن گئےہیں- اب اگر وہ کوئی عصبیت رکھتے ہیں تو وہ اسلام کی عصبیت ہونی چاہیے-اے علمبردارانِ توحید! دنیا کے گوشے گوشے سے اٹھو اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں عملا ًشریک ہو جاؤ‘‘[3]-

آپ مزید فرماتے ہیں کہ:

’’کیا مسلمانوں سے یہ نہیں ہو سکتا جس طرح دوسری قوموں نے اتحاد کر رکھا ہے یہ بھی متحد ہو جائیں؟ اگر مسلمان اتحاد کر لیں تو ان کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے- کیا ان کو اتنا شعور نہیں کہ اس بات کا احساس کریں کہ ان میں سے ہرایک کی احتیاجات دوسرے سے وابستہ ہیں؟ ان میں کوئی ایسا نہیں رہا جو خدا کے اس حکم کے مطابق کہ ’’مومن بھائی بھائی ہیں‘‘ اپنے بھائی کا بھی خیال رکھے؟ اگراہل اسلام ایک محکم دیوارکی مانند کھڑے ہوجایں تو اُن سیلابوں کو روک دیں گے جو اس وقت اُن پر ہر سمت سے عود کر آ رہے ہیں‘‘-[4]

یہ ہے وہ ’’افغان سپرٹ‘‘ یا روح افغان جو کہ ہماری محبوب ہے جس پہ ہم دل و جان سے قُربان ہیں -

افغانوں کی یہ روایتِ دردِ اسلام و مسلمین ہمیں اسی طرح محمد نادر شاہ (جرنیل، فرمانروائے افغانستان)میں بھی نظر آتی ہے جنہوں نے نہ صرف افغانستان کو اس وقت کے سیاسی بحران سے نجات دلائی بلکہ اپنے عصر کے جلیل ترین حکمرانوں میں سے تھے-آپ بہادر، متقی اور اسلام سے محبت کرنے والے خدا ترس انسان تھے-آپ نے اکتوبر 1933ء میں افغانستان میں تعلیمی اصلاحات کے سلسلے میں مشورہ کی خاطر ہند سے علامہ محمد اقبال(﷫)، سر راس مسعود اور سید سلمان ندوی کو افغانستان آنے کی دعوت دی- انہوں نے اس وفد سے کہا کہ آپ ہندوستان جا کر مسلمانوں کو یہ پیغام پہنچا دیں کہ مسلمانانِ ہند و افغانستان کو اتفاق و اتحاد کی سب سے زیادہ ضرورت ہے-مزید کہا کہ:

’’میری کوشش ہے کہ افغانستان میں دین و دنیا کو جمع کر دوں اور ایک ایسے اسلامی ملک کا نمونہ پیش کروں جس میں قدیم اسلام اور جدید تمدن کے محاسن یکجا ہوں اور چاہتا ہوں کہ ہمارے مسلمان بھائی بھی اس کو اپنا ملک سمجھیں-میرے بھائیوں کو کَہ دیجیے گا کہ دنیا میں ایک نئے انقلاب کا مواد تیار ہو رہا ہے- ضرورت ہے کہ مسلمان اپنی تعدادی، اقتصادی اور تعلیمی استعداد اس کے لیے پہلے سے تیار کر لیں‘‘-[5]

افغان قوم اور افغانستان کی بات ہو اور اسلامیانِ ہند کے محسنِ عظیم سلطان محمود غرنوی کی بات نہ ہو تو یہ تاریخ سے اِنصاف نہیں ہوتا-آپ عادل بادشاہ سبکتگین کے بیٹے تھے-آپ بت شکن سومنات کی حیثیت سے پہلے مسلمان تھے جنہوں نے سنت ابراہیمؑ اور اسوۃ محمدی (ﷺ)کی عملی پیروی کی- [6] آپ نے سومنات کو پاش پاش کر کے جہاں ایک طرف کفر و شرک کو ختم کیا وہیں ہندوستان میں بت پرستی کی آڑ میں برہمن اجارہ داری کو بھی مٹایا- آج اگر بر صغیر پاک و ہند کے طُول و عرض میں مسجدوں کے میناروں سے ’’أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللہُ‘‘ اور ’’أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللہِ‘‘ کی صدا بُلند ہوتی ہے تو اِس میں سُلطان محمود غزنوی کی پے بہ پے ضربوں کا ناقابلِ تردید حصہ شامل ہے-

آج اسلامیانِ ہند سُلطان محمود غزنوی کے سارے احسانات بھُلا کر محض اپنے مسلکی بُغض و عناد میں اُنہیں بھلانا چاہیں بھی تو یہ احسان کیسے بھلا پائیں گے کہ صوفیائے کرام کی پوری ایک جماعت کو تبلیغ و اشاعتِ اسلام کیلئے ہند میں لانے کا سہرا بھی اُسی بُت شکن و فاتحِ سومنات کے سر سجتا ہے، اُن صوفیا کے سرخیل علی بن عثمان بن علی ہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخشؒ تھے - سلطان محمود غزنوی کی فتوحات کے بعد آپ ہندوستان تشریف لائے اور لوگوں کی روحانی تعلیم و تربیت میں مصروف ہو گئے- آپ نے پاکیٔ دل، قرب الٰہی اور خدمت اسلام کی تعلیمات سے لوگوں کے قلوب و اذہان کو منور کیا- افغانستان سے آنے والے دیگر صوفیاء نے بھی برصغیر میں مسلمانوں اور اسلام کو خوب تقویت دی-

موسس ملتِ افغانیہ حضرت احمد شاہ بابا المعروف احمد شاہ ابدالی کے اِحسانات بھی اُسی طرح جلی و واضح ہیں جنہوں نے ایک بڑے ہی کٹھن تاریخی مرحلہ پہ اسلامیانِ ہند کی مدد کی اورمرہٹوں کو ہندوستان میں ہسپانیہ کی تاریخ دُہرانے سے روک لیا وگرنہ آج یہاں بھی قلعے اور مسجدیں تو کھڑی ہوتیں لیکن شمعِ توحید و رسالت کے پروانے خال خال ہی نظر آتے-سلطنت مغلیہ کے زوال کے دور آخر میں جب مرہٹوں نے قوت حاصل کر کے شمالی ہندوستان پر قبضہ جمانا شروع کیا اور دہلی کے تخت پر قبضہ کرنے کے بعد پنجاب کی طرف بڑھنے لگے تو احمد شاہ ابدالی نے محدثِ دہلوی حضرت شاہ ولی اللہؒ اور دیگر مسلمان بزرگوں کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے پانی پت کے میدان میں افغانوں کی مدد سے لاکھوں ہندو مرہٹوں کو شکست فاش دی- اقبال فرماتے ہیں کہ احمد شاہ ابدالی کے مطابق جہانِ شب و روز میں جو صاحب امروز ہے، مستقبل بھی اسی کا ہے اور جو بیداری، سخت کوشی اور کراری سے رہتا ہے وہی زندہ رہ سکتا ہے- یہ عثمانیوں اور ہندی مسلمانوں میں جب تک باقی رہی ان کا جاہ و جلال بھی رہا- کتاب و سنت ہی اعتبار ملت اور قوت کا ذخیرہ ہے- قرآن جہانِ ذوق و شوق کی برکات اور سنت ’’عالم تحت و فوق‘‘ کی فتوحات کی ضامن ہے-قرآن اگر مومن کا جمال ہے تو سنت اس کا جلال- قرآن ہی ثبات و حیات کی بنیاد ہے- [7]

افغان مشاہیر جہاں امت مسلمہ کا درد رکھتے تھے وہیں وہ اپنے دشمنوں کی سازشوں سے بھی واقف رہتے اور مسلمانوں کو دشمن کے شر سے بچانے اور متحد کرنے کے لیے مائل بہ عمل رہتے تھے- ان کی زندگیوں کا حاصل دین کی خدمت اور مسلمانوں سے وفا تھی- وہ امت مسلمہ کی واحد و مشترک منفعت کو جانتے اور پہچانتے تھے- شاید یہی قدرِ مشترک تھی جس کی بدولت علامہ اقبال ؒ کو افغان قوم سے والہانہ محبت تھی-

افکار اقبالؒ اور افغانستان:

حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال(﷫) افغانستان کے متعلق اپنے خیالات کے اظہار میں لکھتے ہیں:

آسیا یک پیکرِ آب و گل است
ملت افغان در آں پیکر دل است
از فساد او فساد آسیا
در کشاد او کشاد آسیا[8]

’’ایشیاء ایک وجود کی مثل ہے اور اس وجود کا دل افغانستان ہے- اگر افغانستان میں فساد ہو گا تو پورے ایشیاء میں فساد ہوگا اگر وہاں امن و خوشحالی ہوگی تو پورے ایشیاء میں امن و خوشحالی ہو گی‘‘-

آپ(﷫)نے اپنے کلام میں بڑی وضاحت سے افغان محبت کا اظہار کیا-

افغان باقی کہسار باقی
الحکم للہ! المک للہ!

علامہ اقبالؒ نے ’’محراب گل افغان کے افکار‘‘ نامی نظم میں افغانوں کی صفات و خصوصیات کو بیان کیا- آپ نے اپنے کلام میں افغانوں کو بار ہا سراہا کیونکہ اسلام کی اشاعت اور حفاظت کے لیے بندہ صحرائی اور مرد کہستانی نے ہمیشہ بے مثال کردار ادا کیا-

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا مرد کہستانی

علامہ اقبالؒ خوشحال خان خٹک اور احمد شاہ ابدالی سے لے کر امان اللہ خان اور نادر شاہ تک ہر اس شخص کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جس نے باہم متحارب افغان قبائل کو متحد کر کے ایک منظم اسلامی فلاحی افغان مملکت کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی- [9]

افغان افکار اسلامی نظریاتی بنیادوں کی وجہ سے ہمیشہ مسلمان دوست رہے ہیں- جرأت و بہادری کی علامت سمجھی جانے والی غیور افغان قوم نے کبھی استعمار کے ہاتھوں اپنی حریت کا سودا نہیں کیا- لیکن دشمن کی سازشیں ہمیشہ اس تعاقب میں رہی ہیں کہ کب اور کس طرح اس غیور قوم سے اسلام اور مسلمان دوستی کا اعزاز چھینا جائے؟ حریت کے نغمے سے سرشار رہنے والی قوم کو کس طرح خود غرضی کی زنجیر میں جکڑا جائے- تاریخی طور پہ جب یہ ممکن نہ رہا تو ایسے اسباب تراشے گئے تاکہ افغانوں سے اسلامی جذبۂ ایثار چھین لیا جائے، اس سفر کا آغاز تو روسی مداخلت سے شروع ہوتا ہے لیکن اس کا نُقطۂ کمال تب سامنے آیا جب امریکہ میں نائن الیون واقعہ کے مبیّنہ ذمہ دار اُسامہ بن لادن کو افغانستان میں تلاش کرنے 40 سے زائد ممالک کی افواج افغانستان پہ ٹوٹ پڑیں - اندریں حالات افغانوں کی نمائندگی کا مسئلہ درپیش ہوا کہ کس کو افغان قوم کا نمائندہ بنایا جائے تو رُجلانِ حُریّت کے مقابلے میں ایسے لوگوں کو افغانستان کا نمائندہ ظاہر کیا گیا جو مکمل طور پہ استعماری طاقتوں کی غُلامی پہ رضا مند تھے اور روایتی افغان حریت کے جذبے سے نہ صرف خالی تھے بلکہ فی الحقیقت اسے اپنے لئے بوجھ سمجھتے تھے اِس لئے عالمی طاقتوں نے روحِ افغان کچلنے کیلئے قرضئیوں کا انتخاب کیا - ایسے حالات میں عالمی طاقتوں کے ہاتھوں کچھ اپنے ہی ناعاقبت اندیش افراد اغیار کے ہاتھوں فروخت ہوئے اور اس عظیم غیور قوم کی فکری آزادی چھیننے کا سبب بنے- استعمار نے بعض افراد کو خریدا، کچھ کو اعلیٰ مناصب کے حصول میں بھر پور معاونت کی، مستحق افراد کو ان کے عہدوں سے دستبردارکیا گیا اور کثیر تعداد میں سرمایہ کاری کی گئی تاکہ آئندہ افغانستان کی مُلکی پالیسی ملی مفادات کے مخالف اور استعماری قوتوں کے حق میں ہو  اور خاص کر اسلامی ہند کی نگہبانی کرنے والے افغان جذبے کو ہندو صہیونیّت کی دوستی میں بدل دیا جائے تاکہ بر صغیر میں اسلام اور ملتِ اسلامی کی دوستی کے تاریخی و روایتی احساس کو افغانوں سے چھین لیا جائے-یہی وجہ ہے کہ قرضئیوں کے آنے کے بعد افغانستان کی موجودہ پالیسی افغان مشاہیر کے افکار سے بہت دور اور اُن کے نظریات سے متصادم ہے- ضرورت اِس امر کی ہے کہ افغان پالیسی کی اساس کو دیکھا جائے اور مقاصد کے ماخذ کا تعین کیا جائے تاکہ نہ صرف افغانستان میں اسلام کی اصل روح کو زندہ کیا جا سکے بلکہ افکار کے نظریات کی صورت میں اتحاد ِ امت کے لیے ملک و قوم و مسلم اُمہ کو اتحاد کا درس دیا جا سکے-

ہندو صیہونیت کے مذموم مقاصد اور موجودہ افغان پالیسی:

افغانستان میں ہندو صیہونیت کے مذموم مقاصد بڑےعیاں ہیں- ان مقاصد میں، پاکستان کیلئے افغانستان کودفاعی کمزوری بنا دیا جائے، افغان کٹھ پتلی حکومت کے خلاف برسرپیکار باغی گروہوں کو ختم کرنا، تجارتی ذرائع سے موجودہ اور مستقبل حکومت کے ساتھ روابط بہتر بنانا اور مشرق وسطی کے وسائل تک رسائی کا حصول ممکن بنانا ہے- [10]یہ بھی طے کر لینا چاہیے کہ جسے افغان حکومت کہا جاتا ہے اُس سے افغانستان کا کون سا حصہ مُراد ہے؟ کیونکہ کابل کے صدارتی محل اور ارد گرد کے چند نامور ہوٹلوں کے علاوہ تو کہیں افغان حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی  افغانستان تو بہت بڑا ہے-

بھارت کو خطے کا طاقتور ترین ملک بنانے کے خبط میں امریکہ اپنے فوجیوں کے پہرے میں ہندو صہیونیوں کے ہاتھوں افغانستان میں بے دریغ سرمایہ کاری کروا رہا ہے- طالبان کے دور حکومت میں بھارت نے منتخب حکومت کے خلاف ’’ناردرن الائنس‘‘ کا کھل کر ساتھ دیا- جس میں 8 ملین ڈالر مالیت کے ہتھیار دینے کے ساتھ ساتھ ایک بریگیڈیر کوبھی مقرر کیا گیا تاکہ وہ طالبان کے خلاف لڑنے میں ناردرن الائنس کو غیر قانونی مشاورتی خدمات دے سکے- بھارتی خفیہ ایجنسی راء نے Soviet made Mi-17 اور Mi-35 ہیلی کاپٹر سے کئی حملہ کرنے میں بھی ناردرن الائنس کی مدد کی-[11] طالبان کی حکومت زوال پذیر ہونے کے بعد بھارت نے علاقائی بالا دستی کے حصول کیلئے کرزئی حکومت کو اپنی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی بنا لیا، افغانستان میں تہذیبی یلغار کر کے اسلامی تہذیب کے آثار کو مٹانے کے درپے ہو گیا - بھارت کے وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے کرزئی حکومت کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی اور افغانستان میں سفارتخانہ کا دوبارہ آغاز کیا- [12]

گو کہ جغرافیائی اعتبارسے بھارت کی افغانستان کے ساتھ سرحد نہیں ملتی نہ ہی بھارتیوں کی بڑی تعداد افغانستان میں مقیم ہے اس کے باوجود بھارت کا ایک عظیم الجثہ سفارتخانہ کابل میں جبکہ سولہ کونسل خانے پاکستان بارڈر کے ساتھ ساتھ قائم کئے جن میں 4 کونسل خانے قندھار، ہرات، مزار شریف اور جلال آباد میں واقع ہیں-[13] قندھار اور جلال آباد میں موجود کونسل خانہ پاکستان میں عدم استحکام کی نیت سے پس پردہ بلوچستان میں نام نہاد باغیوں کی سپورٹ میں مصروف عمل ہے -[14]

بھارت، افغانستان حکومت سے اپنے مطالبات منوانے کیلئے دوستی کی آڑ میں سرمایہ کاری اور دفاعی معاونت جاری رکھے ہوئے ہے-جس کی ایک جھلک کابل میں اندرا گاندھی چائلڈ ہاسپٹل کے قیام، افغانستان کی بری اور فضائی افواج کی افغانستان بالخصوص بھارت (وائرنجٹ،مزورام) میں ٹریننگ سے واضح ہے- بھارت کی بظاہر دوستی کی پینگیں درحقیقت افغانستان کے 3 ٹریلین ڈالر مالیت کے زمینی ذخائر ہتھیانے اور پاکستان کو توڑنے کی سازش ہے- ان ذخائر میں سونا، کاپر، لیتھیم، لوہا، بیریم سلفیٹ شامل ہیں-افغانستان میں تیل اور گیس کے ذخائر بھی موجود ہیں-

بھارت افغانستان کی سرزمین کو مسلسل پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے، کبھی وہاں سے مسلح جتھوں کی صورت میں پاکستانی چوکیوں پہ حملے کئے جاتے ہیں اور پاکستانیوں کو شہید کیا جاتا ہے، کبھی وہاں پہ پاکستان کے ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کے قاتلوں کو پناہ دی جاتی ہے - جیسا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں بتایا کہ ایک ہی دن میں پاکستان میں قومیّت پرستی کی آگ کو بھڑکانے کیلئے 5000سوشل میڈیا اکاؤنٹس بنا دیئے جاتے ہیں اور  افغانستان ہی کی سر زمین سے بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں بھارتی جاسوسی کا جال آپریٹ کیا جاتا ہے- افغانستان پاکستان اور اسلامیانِ ہند کے ساتھ اپنے تاریخی تعلق کو محض بھارتی بالا دستی کے عزائم میں بھلا بیٹھا ہے- افغانستان کو یہ یادرکھنا چاہیے کہ ہندو صہیونیّت کے

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر