ماضی و حال کی شدت پسندانہ تحریکوں کا جائزہ

ماضی و حال کی شدت پسندانہ تحریکوں کا جائزہ

ماضی و حال کی شدت پسندانہ تحریکوں کا جائزہ

مصنف: حافظ محمد شہباز عزیز ستمبر 2018

تاریخ عالم گواہ ہے کہ کسی بھی ملک یا قوم کی تقدیر بنا نے یا بگاڑنے میں اس قوم کے سر براہ کا کردار ہمیشہ سے سر فہرست رہا ہے اگر لیڈر مخلص ہو،با کردار ہو، تو اس ملک کا شمار ترقی یافتہ ممالک کی صف میں ہوتا ہے-اس کے بر عکس اگر لیڈر تنگ نظر، شدت پسند نظریات کا حامل ہو،دوسرے ممالک و اقوام کا دشمن ہو تو ذلت و خواری ان اقوام کا مقدر ٹھہرتی ہے-اس لیے کسی بھی قوم کے لیڈر کا مخلص ہونا،مثبت نظریہ کا حامل ہونا نہ صرف اس قوم کی بقاء کیلئے بلکہ استحکامِ عالم کیلئے بھی انتہائی ضروری ہے-نظریہ در اصل انسان کی حقیقی سوچ کا عکا س ہوتا ہے اس لئے کسی بھی قوم کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے-نظریہ اگر مثبت ہو تو اس قوم میں تہذیب و تمدن، ثقافت، سماج، عدل و انصاف اور بھائی چارہ جیسے عناصر کی تخلیق کا ذمہ دار ہوتا ہے اور حیات انسانی کی انفرادی و اجتماعی سطح پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتا ہے اس کے برعکس اگر منفی ہو تو بد امنی اور عدم استحکام کا باعث بنتا ہے-اگر ہم اَوْراقِ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ کس طرح شدت پسندانہ اور نسل پرستا نہ نظریات کے حامل افراد نے نظریہ کی خود ساختہ تشریح کرتے ہوئے اسے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کیا-جس کے نتیجے میں نا زی ازم (جرمنی)، ایپرتھایڈ (جنوبی افریقہ)،انقلا ب فرانس، یو رپ میں تیس (30)سالہ مذہبی جنگ اور فاشزم(اٹلی) جیسی تحریکوں نے سر ابھارا اور عالمی امن و استحکام کو خطرات سے دو چار کیا اور دنیا میں نسل پرستانہ اور شدت پسندانہ فکر کو تقویت دینے کے ساتھ ساتھ اپنے نظریات کو دوسروں پر زبر دستی مسلط کرنے کی کو شش کی-

نظریات کی اس جنگ نے لاکھوں انسانوں کو ایک پل میں ابدی نیند سُلا دیا- موجودہ صدی میں جہاں فلسفہ، تاریخ، قانون، سیاسیات، ذرائع ابلاغ و صنعت جیسے علوم نے بلندیوں کو چھو لیا ہے وہیں اکیسویں صدی میں جمہوریت، اخلاقیات، مذہبی ہم آہنگی اتحاد اور گلوبلائزیشن جیسی اقدار نے انسانی معاشرے میں خاص اہمیت حاصل کر لی ہے-مگر بد قسمتی سے دنیا میں آج بھی ایسی تحریکیں اور افراد موجود ہیں جو نسل پرستانہ نظریات، منفی سوچ اور شدت پسندی کے قائل ہیں جو انسا نیت کیلئے کسی المناکی سے کم نہیں-عصر حاضر میں ہمارے سامنے کئی عالمی سیاسی و مذہبی رہنماؤں کے کردار عالم انسانیت سے ڈھکے چھپے نہیں جنہوں نے ایسے نظریات کو عملی جامہ پہنانے میں کوئی کسراٹھا نہ رکھی اور جن کا مقصد ہی محض انسانیت کی تذلیل اور عالمی امن و استحکام کو داؤ پر لگانا ہے-

ماضی کی مشہور تحریکیں میری مراد نازی ازم اور فاشزم جیسے نظریات نے انسا نیت کیلئے دنیا کو تختہِ دار بنا ڈالا-مثلاً نازی ازم جنگ عظیم اول کا سبب بنی جس میں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بنے؛اسی طرح فاشزم نے خود کو دوسروں کی نسبت برتر سمجھتے ہوئے شدت پسندی کو تقویت دی اور انسانیت کا ناحق خون بہایا-ان تحریکوں کا خمیازہ آج بھی انسانیت ادا کر رہی ہے-اسی طرح موجودہ دور میں بھی ہمیں ایسی تحریکیں اور افراد نظر آتے ہیں جو فاشزم اور نازی ازم جیسے نظریات کے پیروکار ہیں مثلا ً دوسری ریاستوں پر ناجائز قبضہ کرنا یا مداخلت کرنا، نسل پرستی کو تقویت دینا،نا حق خون بہانا ان کا شیوہ ہے-جن کی وجہ سے دنیا ایک بار پھر ناگہانی آفت سے دو چار ہو سکتی ہے اور عالمی امن و استحکام برباد ہوسکتا ہے-اس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ نسل پرستی کیا ہوتی ہے؟ نسل پرستانہ تحریکیں کیا ہو تی ہیں اور ماضی و حال کی چند ایسی تحریکوں کا بھی مختصر جائزہ لیں گے- آخر میں ہم ان تحریکوں کے سد باب میں دین اسلام کے ایسے درخشندہ ستاروں کا ذکر کریں گے جو ہمیشہ ان تحریکوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح قائم و دائم رہے اور آج بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں-

یہ یقین کے ہر نسل کے تمام افراد جداگانہ صلاحیتوں و خوبیوں کے حامل ہیں اور وہ کسی دوسری نسل پر علاقائی،لسانی، نسلی یا مذہبی بنیاد پر فوقیت رکھتے ہیں،نسل پرستی کہلاتا ہے اور افراد کا ایسا گروہ جو کسی ملک یا خطے میں نسل پر ستی،علاقہ پرستی، قوم پرستی اور انتہا پسندی جیسے عناصر کو فروغ دینے کے لئے کام کرے،نسل پرستانہ تحریک (Racist Movement)کہلاتی ہے اور ان کا طریق ہمیشہ شدت پسندی ہوگا تاکہ دوسری نسل کے لوگوں کے گرد دائرہ تنگ کیا جائے اور اپنا دفاع مضبوط سے مضبوط تر بنایا جائے-

فاشزم (اٹلی):

فاشزم( فسطا ئیت) لاطینی زبان کے لفظ ’’Fascio‘‘ سے ما خذ ہے- قدیم لاطینی زبان میں یہ لفظ ڈنڈوں کے ایک مجموعے کے لئے استعمال ہوتا تھا اور یہ اُس وقت سِول مجسٹرِیٹ کی علامت تھی- فاشزم دراصل کیمونزم، جمہوریت مخالف تحریک اور آمرانہ نظریات پر مبنی ایسا سیاسی نظام ہے جس میں اختیار صرف سربراہ ریاست کے پاس ہوتا ہے اور اس کی اطاعت دوسروں پر واجب ہو تی ہے-فاشسٹ واحد پارٹی، واحد ریاست اور واحد لیڈر پر مبنی نظا م پر یقین رکھتے تھے-اس کے علاوہ آزادی سے نفرت،جمہوریت پر مبنی سیاسی نظام سے نفرت،قوم پرستی،آمرانہ نظام،عسکریت پسندی، توسیع پسندی، قومی مفاد کے لئے جنگ کرنا، طا قت کا ا ستعما ل کرتے ہوئے دوسری ریاستوں پر قبضہ کرنا،فاشزم کے نظریات اور مقا صد میں شامل ہیں-

بیسویں صدی میں اٹلی میں سب سے پہلے فاشزم نے سر ابھارا اور اس طرح یہ تحریک پورے یورپ میں پھیل گئی-ان نظریات نے دنیا کے کئی رہنماؤں کو مائل کیا جو اپنے اپنے ممالک میں حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے جن میں جرمنی، آسٹریا، پرتگال، یونان، کروشیا، ناروے، جاپان، پولینڈ اور فرانس (جہاں فاشسٹ نظریات پارٹی کی حکومت تو نہ آئی مگر فوجی بغاوت میں بھرپور کردار ادا کیا گیا)- بینیٹو میسو لینی نے 1919ء میں فاشسٹ تحریک کی بنیاد رکھی اور اقتدار سنبھالا-جنگ عظیم اول کے بعد اٹلی نے بد ترین اقتصادی بحران، سیاسی عدم استحکام، لا قانونیت اور بد امنی جیسے عناصر کا سامنا کیا-میسولینی نے برسراقتدار آتے ہی اٹلی کی اقتصادی حالت، زراعت اور تجارت کو فروغ تو دیا لیکن بعد میں جب اس نے آمرانہ پالیسی اپنائی تو اٹلی کے لوگوں کو ان احسانات کی بھاری قیمت چکانا پڑی-مثلاً لوگوں کو سیاسی آزادی کھونا پڑی،پریس اور اخبارات پر پابندی لگا دی گئی،آزادئ اظہا ر رائے کا حق چھین لیا گیا علاوہ ازیں اس معاملے میں جو میسولینی کی مخالفت کرتا اس پر ظلم و تشدد کیا جاتا اور اسے بے رحمی سے کچل دیا جاتا- [1]

ایپرتھایڈ تحریک:

ایپر تھایڈ(Apartheid) ایک افریقن لفظ ہے جس کا مطلب ’’علیحدگی‘‘ ہے -ایپرتھایڈ کا دورانیہ 1948ء سے 1990ء تک ہے- یہ جنوبی افریقہ میں سفید اور کالے رنگ کی بنیاد پر چلائی جانی وا لی تحریک تھی-1948ءمیں جنوبی افریقہ کی نیشنل پارٹی (یورپی قبائل جو نوآبادیاتی نظام کے تحت یہاں آباد ہوئے) کے اقتدار حاصل کرنے کے بعد اس کی سفید فام حکومت نے قانون سازی کے ذریعے نسلی علیحدگی کی ثقافت کو باقاعدہ قانون کی صورت میں نافذ کرنا شروع کر دیا جو کہ ایپرتھایڈ کے طور پر جانا جاتا ہے-[2] اس قانون کی خلاف ورزی پر سخت سے سخت سزا دی جاتی تھی جو اکثر اوقات موت آنے پر ہی معطل کی جاتی تھی-ایپرتھایڈ تحریک نے مختلف نسلی گروہوں کے سا تھ مکمل طور پر غیر منصفانہ رویہ اپنایا اور انہیں علیحدہ زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا اور اس کے لئےسخت قوانین بنائے- مثلاً ان قوانین نے تمام نسلی گروہوں کے درمیان خاندانی شادی (inter-marriage)اور سماجی انضمام( social integration) کو روکنے کی بھر پور کوششیں کیں-حتی کہ فقط سفید نہ ہونے کی وجہ سے انہیں مفلس ہی چھوڑ دیا جاتا-[3] سفید افریقن نے ریاست اور معیشت دونوں پر اپنا تسلط قائم کیا اور نسلی برتری کا ایک واضح نظریہ اور فلسفہ اپناتے ہوئے جدید ملٹری اور پولیس فورس کے ذریعے ایسا قانونی اور اقتصادی نظام نافذ کیا جس نے جان بوجھ کر سیاہ فام کو اقتصادی اور سیاسی طاقت سے خارج کر دیا- [4] جس کے متعلق نیلسن مینڈیلا اپنی کتاب’’Long walk to Freedom ‘‘میں ’’ص: 136‘‘پر لکھتے ہیں کہ:

1.       حصولِ زمین ایکٹ 1913ء: جس کے مطابق سیاہ فارم لوگوں کو زمین کے حقوق سے دستبردار کر دیا گیا-

2.       مقامی آبادی نمائندگی ایکٹ 1936ء: جس کے مطابق سیاہ فارم افریقی باشندوں کو ووٹ کے حق سے محروم کر دیا گیا-[5]

1953ء جنوبی افریقہ میں پیش کیا جانے والا بینٹو (Bantu) تعلیمی قانون قابل غور ہ-بینٹو تعلیمی قانون نے سفید بالا دستی کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاہ فام لوگوں کو سفید جنوبی افریقن کے مقابلے میں برابر تعلیمی مواقع اور وسائل فراہم کرنے سے انکار کیا-بینٹو تعلیمی قانون نے سیاہ لوگوں کی تاریخ، ثقافت اور شناخت کو پس پشت ڈال دیا-اس نے تعلیمی نصاب اور درسی کتب میں من گھڑت قصوں اور نسل پرستی کو فروغ دیا-[6] اسی طرح 1950ءمیں ایپر تھائیڈ کی طرف سے پیش کیا جانے والا قانون اندراجِ آبادی (Population Registration Act)نسلی امتیاز اور تعصب کی ایک واضح مثال ہے-اس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ لوگوں کا اندراج ان کے نسلی گروہوں کے مطابق کیا جائے گا-حکومت کے شعبہ معاملات کے پاس لوگوں کا ریکارڈ موجود ہو گا آیا کہ وہ سفید ہیں،سیاہ ہیں، ایشیائی ہیں-پس ان کے ساتھ ان کی حیثیت اور پہچان کے مطابق برتاؤ کیا جائے گا-[7] اسی تحریک کا خمیازہ آج بھی جنوبی افریقہ میں عوام کو غربت، بیروزگاری، ناخواندگی و پسماندگی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے-

نازی ازم(جرمنی):

جرمن ملازم کارکنوں کی پارٹی جو عام طور پر نازی پارٹی کے نام سے مشہور ہے- یہ ایک تشدد پسندانہ تحریک تھی اور 1920ء اور 1945ء کے دوران جرمن سیاست میں بھی اس کا گہرا اثر رہا-نازی پارٹی 1933ء میں اڈ ولف ہٹلر کی قیا دت میں بر سر اقتدار آئی جو دراصل فاشسٹ نظریات کا حا می تھا- فاشزم اور نازی ازم نظریات تقریباً ایک جیسے ہیں؛ اگر اس تحریک کو فاشزم کی ایک کڑی کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا مثلاً قوم پرستی کو فروغ دینا،ظلم و ستم کرنا، بین الاقوامیت،امن اور جمہوریت سے نفرت کرنا، ذاتی مفاد کیلئے جنگ کرنا، جرمن نسل برتری کو فروغ دینا وغیرہ یہ سب نازی ازم کے مقاصد اور نظریات میں شامل تھا-

’’نسلی عصبیت--جرمن قومی سوشلزم یعنی نازی ازم کا ہمیشہ سے ہی ایک ناگزیر حصہ رہا ہے- نازیوں نے تمام انسانی تاریخ کو مختلف نسلوں کے درمیان کشمکش کے نتیجے میں سامنے آنے والی حیاتیاتی تاریخ کے طور پر لیا ہے‘‘-[8]

نازی ازم کے حوالے سےایک اصطلاح ’’ہولو کاسٹ‘‘ (holocaust)یا جسے عالمی تباہی کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے جو دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی ازم کی نسلی بنیادوں پر انسان دشمنی کا عملی ثبوت ہے- لفظ ’’ہولو کاسٹ‘‘کا ماخذ دراصل یونانی زبان سے ہے جس کے معنی ہیں ’’آگ کے ذریعے قربانی‘‘- ہولو کاسٹ کے دور میں جرمنوں نے کچھ دوسرے گروپس کو بھی نسلی طور پر گھٹیا تصور کرتے ہوئے نشانہ بنایا- نازی ازم کی تشدد پسندانہ سوچ نہ صرف دوسری جنگِ عظیم کی ایک وجہ بنی بلکہ اس میں شدت بھی لائی اور لاکھوں افراد و بستیاں بارود کے ڈھیر تلے دبا دی گئیں-

کو - کلس - کلان (امریکہ):

کو-کلس- کلان تین ادوار میں منقسم ہے اس لیے عام طور پر ’’KKK‘‘ کے نام سے بھی جانی جاتی ہے جو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی تاریخ میں تین مختلف نسل پرستانہ تحریکوں کے طورپر وجود میں آئی-امریکہ میں خانہ جنگی(1861ء-1865ء)کے بعد ’’کو-کلس- کلان‘‘ کے نظریات نے زور پکڑا- سفید بالا دستی، قومیت پرستی،  مہاجرین کی مخالفت،شدت پسندانہ سیاست، جیسے عناصر اس تحریک کے نظریات میں شامل تھے-اس کے ساتھ ساتھ ان تحریکوں نے اپنے مخالفین کے خلاف دہشت گردی اور قتل و غارت سے کام لیا- پہلی مرتبہ دسمبر 1965ءاور اگست  1966ءکے درمیان امریکی ریاست تو نیزی کے شہر( پلاسکی) کے چھ اتحادیوں نے مل کر اس تحریک کا باقاعدہ آغاز کیا - کلان نے جنوب میں سفید بالا دستی کو برقرار رکھنے کیلئے ریڈیکل اصلاحات کے باوجود سیا ہ فام لوگوں پر تشدد کیا- ’’کو-کلس-کلان‘‘ تحریک کے تمام کارکن گورے،عیسائی امریکن شہری ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کی نسل اور مذہب دیگر مذاہب اور رنگ کے لوگوں سے برتر ہیں-یہ دراصل امریکہ میں سفید بالا دستی کا ایک گروہ ہے جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ غیر امریکی کم تر ہیں اور ان کیلئے امریکہ میں کوئی جگہ نہیں-[9]امریکہ صرف اور صرف گورے عیسائیوں کا گھر ہے-یہ افراد دیگر مذاہب اور نسل کے لوگوں سے شدید نفرت کرتے ہیں- اس تحریک کی مثال امریکہ کی خونی سول وار اور سول رائٹس موومنٹ ہے جس میں کئی لوگوں کو نسل پرستی اور شدت پسندانہ سوچ کی بنیاد پر عبرتناک سزائیں دی گئیں-

نریندر مودی(بھارت):

دنیا میں سب سے بڑا جمہوریت پسند اور سیکولر نظریہ کا دعویٰ دار بھارت؛ اقلیتوں کے حقوق کی پامالی، مذہبی انتہا پسندی،نسل پرستی، ذات پات اور نسل کشی جیسی خصوصیات کے حامل ممالک کی فہرست پر کسی کو سبقت نہیں لینے دیتا-اسی نظریات کے حامل شدت پسند ہندو نے دو قومی نظریہ کو تقویت بخشی اور مسلمانوں کو الگ وطن حاصل کرنے پر مجبور کیا- ان نظریات کی وجہ سے آج بھی بھارت میں تقریباً 50 سے زائد مسلح و غیر مسلح علیحدگی پسند تحریکیں سر گرم ہیں- جب سے ہندو شدت پسند تنظیم ’’RSS‘‘ کا سیاسی دھڑا، بھارتی جنتا پارٹی (BJP) بر سراقتدار آئی ہے تب سے ان انسانیت دشمن عناصر کو مزید تقویت ملی- تقسیم ہند، بنگلہ دیش کی تخلیق، سارک (SAARC) کی ناکامی، مسئلہ کشمیر، سری لنکا میں خانہ جنگی، افغانستان میں مداخلت، پاکستان میں استحکام دشمن عناصر کی سر پرستی، اکھنڈ بھارت کا خواب اور ون بیلٹ ون روڈ (OBOR) وغیرہ پروجیکٹس میں بھارت کا منفی و تعصبانہ کردار دنیا کے سامنے آچکا ہے-انسانی حقوق واچ نے 2018ء کی رپورٹ میں مودی حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہو ئے کہا کہ مودی حکومت بھارت میں خصوصاً مسلمانوں پر ہونے والے حملوں کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے اور ان سے متعلق صحیح طریقے سے جانچ پڑتال نہیں کرائی- یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بھارتی جنتا پا رٹی سے منسلک کچھ انتہا پسند طبقوں نے مسلمان اقلیتوں کے خلاف 2017ء میں سال بھر حملے جاری رکھے ہیں- نومبر 2017ء تک 38حملے ہوئے جس میں10لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا-حملوں کی ناکام تحقیقات نے بھارتی بالا دستی اور انتہائی قوم پرستی کو فروغ دیا ہے-[10] علاوہ ازیں مقبوضہ کشمیر میں بھی مودی سرکار مظالم روکنے میں نا کام رہی ہے اقوام متحدہ کمشنر برائے انسانی حقوق نے جون 2018ءمیں کشمیر میں قابض بھارتی فورسز کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پہلی رپورٹ مرتب کی ہے- [11]

فتنۂ خوارِج:

اسلام بطور پر امن مذہب بھی اس شدت پسندی کی لپیٹ میں ہے جس کو ہوا دینے والوں کی کمی نہیں-اسلام میں شدت پسندی کا پہلا فتنہ، فتنہِ خوارج ہے- اسلام دشمن عناصرملعون خارجی ’’ابن ملجم‘‘ نے صحابیِ رسول (ﷺ)، امیر المومنین حضرت امام علی المرتضی (﷜)کو شہیدکردیا-حضور رسالت مآب(ﷺ) نے ان عناصر کے بارے میں کئی جگہ پر ارشاد فرمایا کہ ’’وہ بد ترین مخلوق ہیں‘‘-[12] مزید فرمایا ’’وہ ناحق خون بہائیں گیں‘‘[13] یعنی مسلم اور غیر مسلم افراد کا قتل جائز سمجھیں گے- آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ ’’یہ ہمیشہ نکلتے ہی رہیں گے، یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ نکلے گا‘‘[14] فی زمانہ جتنی بھی دہشتگردی ہوئی ہے یا مسلم ممالک کے اندر جو قتل و غارت کی گئی ہے اس کو بھی علماءِ حق فتنہِ خوارج کا ہی تسلسل گردانتے ہیں- اس فتنہ کے حامی اپنے نظریات کے ماننے والوں کے علاوہ سب کو کافر قرار دے کر واجب القتل سمجھتے ہیں اور تا دم ان کے خلاف شدت پسندانہ رویہ رکھتے ہیں-گوکہ یہ نسلی تعصب تو نہیں مگر مذہبی تعصب کی انتہائی مثال فتنہِ خوارج ہے-

تجزیہ :

اگر ان تحریکوں کا بنظرِ عمیق مطالعہ کیا جائے اور نسل پرستی و شدت پسندی کے محرکات کی نشاندہی کی جائے تو قاری کے سامنے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ یہ نظریات مادیت پرستی و ذات پرستی پر مبنی ہوتے ہیں- عصر حاضر میں مادہ پرستی عروج پر ہے جس کی وجہ سے شدت پسندی اور عالمی بد امنی میں خطر ناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور دن بہ دن اولادِ آدم کا شیرازہ بکھرتا چلا جا رہا ہے-جیسے ہم نے دیکھا کہ ماضی میں کس طرح نسلی، لسانی،علا قا ئی،مذ ہبی و نظریاتی بنیادوں پر انسانیت کی تذلیل،اس کی عظمت اور حقوق کو پا مال کیا جاتا رہا ہے- آج اِس پُرفِتن دور میں ان کا حل تلاش کرنا بقائے انسا نی کیلئے انتہائی ضروری ہے-اس مادہ پرستانہ دور میں اگر عالمی قیامِ امن اور انسان دشمن عناصر سے نجات کیلئے کوئی واحد اور عالمگیر حل ہے تو وہ صرف اسلام ہی ہے- کیو نکہ اسلا م کا نظام عالمگیریت پر مبنی ہے-اسلا م نے ہمیشہ انتہا پسندی کی بجا ئے باہمی اتفا ق رائے، اتحاد اور امن پر زور دیا ہے- اِسلام نے ہر اس نظریے کو اپنانے سے منع کیا ہے جو فساد فی الارض کا سبب بنے-لیکن صد افسوس! کہ چند انتہا پسندانہ ومتعصبانہ نظریات کے حامل افراد دنیا میں ہونے والی دہشت گردی اور انتہا پسندی کو اسلام سے منسوب کرتے ہیں- وہ دین جو ایک (جان ) کا قتل پوری انسانیت کا قتل قرار دے،جو رحمت ا للعا لمین (ﷺ) کا دین ہو،بھلا وہ دہشت گردی و فتنہ ا نگیزی جیسے موذی عناصر کے فروغ کا باعث کیو نکر ہو- اسلام پر ایسا الزام سرا سر لغو ہے- بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام پر الزا م تراشی اور اس کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں - اسلام بذات خود امن و سلامتی پر دلیل ہے جس کی امثال ہمیں جنگی قیدیوں کے ساتھ منصافہ و انسانی برتاؤ، میثاقِ مدینہ، فتح مکہ پر عام معافی، یروشلم میں اعلانِ امن وغیرہ ہیں-

اسلام کے لغوی معنی ’’سلامتی‘‘(Peace)کے ہیں- گویا اسلام خود بھی سراپا سلامتی ہے اور دو سروں کو بھی امن و سلا متی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی تلقین کرتا ہے- پھر جب ہم تعلیما ت اسلام کا بنظر عمیق مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں بھی ایک ایسا با صفا طبقہ ہے جو دور جدید میں اس کا واحد حل نظر آتا ہے اور یہ طبقہ صوفیاء کا ہے جن کا طریق عین قرآن و سنت کے مطابق ہے-یہ ایک نا قابل تردید حقیقت ہے کہ صو فیاء نے پوری دنیا میں اسلامی تعلیما ت پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا اور دنیا کے سا منے اسلام کا حقیقی،روحانی اور انقلابی چہرہ پیش کیا- پیرانِ پیرحضرت شیخ عبد القادر جیلانی، حضرت بابا بلھے شاہ، حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری، حضرت بابا فرید الدین گنج شکر، حضرت سلطان باھو اور حضرت مولانا روم ؒ جیسے نامی گرامی صوفیاء نے اپنے اخلاق اور کردار کے ذریعے اسلام کے سنہری اصول قرآن و سنت کی روشنی میں وضع کیے-صوفیاء کا نظریہ امن پسند اور انسان دوست ہے اور یہی چیز ہمیں ان کی تحریروں میں بھی نظر آتی ہے-صوفیاء نے ہمیشہ فرقہ واریت، انتہا پسندی اور متعصب رُجحانات سے اسلام کی حفاظت کے لئے جدوجہد کی اور انسان کو مادیت پرستی اور نفس پرستی(ذات پرستی) کے خلاف جدوجہد کا درس دیا جو انسانیت کے استحکام کے لیے انتہائی ضروری ہے- جیسا کہ حضرت سخی سلطان باھو فرماتے ہیں:

ناں میں سُنّی ناں میں شیعا میرا دوہاں توں دل سڑیا ھو

صوفی کسی تشدد پسند فرقے کا نمائندہ نہیں ہوتا بلکہ اس کا سب سے اولین درس انسانیت کا ہوتا ہے جو ان کو قرآن و سنت سے ملتا ہے-اسلام کے امن پسندانہ اصول اس کی کلی شنا خت ہیں اور وہ دنیا کیلئے اس تقسیم اور نسل پرستی کو زہر قرار دیتا ہے- اسی لیے صوفیاء کا پیغام کسی مخصوص علاقے، قبیلے،قوم، یا خطہ تک محدود نہیں ہوتا بلکہ عالمگیریت پر مبنی ہوتا ہے- خانقاہی نظام اس بات کا واضح ثبوت ہے جہاں ہر مذہب،فرقے،نسل، ذات اور رنگ کے لوگ جاتے اور عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں-اس میں صو فیاء کی انسانیت سے محبت کی واضح جھلک نظر آتی ہے- صوفیاء نے ہمیشہ عالمی امن، محبت، اخوت، اتحاد، برابری اور ہم آہنگی کا درس دیا- علاوہ ازیں حقیقی مقصد حیات، تزکیہ نفس،ظاہر و باطن کی پاکیزگی اور قلب و روح کی بیداری، صوفیاء کا درس ہے-آج امن و محبت کے فروغ کیلئے تصوف (روحانیت) کی تعلیمات کو عام کرنے کی ضرورت ہے- عصر حا ضر میں صوفیاء کی تعلیمات کی ترویج و اشاعت ہی عالمی قیام امن و استحکام کی ضمانت ہے- صوفیاء کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے دنیا میں تیزی سے بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور نسل پرستی کا قلع قمع کیا جا سکتا ہے جو کہ وقت کی اشد ضرورت ہے-

٭٭٭


[4] https://www.nonviolent-conflict.org/the-anti-apartheid-struggle-in-south-africa-1912-1992/

[5]mandeela nelson, a long walk to freedom, back bay books, p.136

[12](قاضی عیاض، الشفا: 842، 843)

[13](مسلم، الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب التحریض علی قتل الخوارج، 748:6، رقم: 1066)

[14](احمد بن حنبل، المسند، 198:2 ، رقم:6871)

تاریخ عالم گواہ ہے کہ کسی بھی ملک یا قوم کی تقدیر بنا نے یا بگاڑنے میں اس قوم کے سر براہ کا کردار ہمیشہ سے سر فہرست رہا ہے اگر لیڈر مخلص ہو،با کردار ہو، تو اس ملک کا شمار ترقی یافتہ ممالک کی صف میں ہوتا ہے-اس کے بر عکس اگر لیڈر تنگ نظر، شدت پسند نظریات کا حامل ہو،دوسرے ممالک و اقوام کا دشمن ہو تو ذلت و خواری ان اقوام کا مقدر ٹھہرتی ہے-اس لیے کسی بھی قوم کے لیڈر کا مخلص ہونا،مثبت نظریہ کا حامل ہونا نہ صرف اس قوم کی بقاء کیلئے بلکہ استحکامِ عالم کیلئے بھی انتہائی ضروری ہے-نظریہ در اصل انسان کی حقیقی سوچ کا عکا س ہوتا ہے اس لئے کسی بھی قوم کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے-نظریہ اگر مثبت ہو تو اس قوم میں تہذیب و تمدن، ثقافت، سماج، عدل و انصاف اور بھائی چارہ جیسے عناصر کی تخلیق کا ذمہ دار ہوتا ہے اور حیات انسانی کی انفرادی و اجتماعی سطح پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتا ہے اس کے برعکس اگر منفی ہو تو بد امنی اور عدم استحکام کا باعث بنتا ہے-اگر ہم اَوْراقِ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ کس طرح شدت پسندانہ اور نسل پرستا نہ نظریات کے حامل افراد نے نظریہ کی خود ساختہ تشریح کرتے ہوئے اسے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کیا-جس کے نتیجے میں نا زی ازم (جرمنی)، ایپرتھایڈ (جنوبی افریقہ)،انقلا ب فرانس، یو رپ میں تیس (30)سالہ مذہبی جنگ اور فاشزم(اٹلی) جیسی تحریکوں نے سر ابھارا اور عالمی امن و استحکام کو خطرات سے دو چار کیا اور دنیا میں نسل پرستانہ اور شدت پسندانہ فکر کو تقویت دینے کے ساتھ ساتھ اپنے نظریات کو دوسروں پر زبر دستی مسلط کرنے کی کو شش کی-

نظریات کی اس جنگ نے لاکھوں انسانوں کو ایک پل میں ابدی نیند سُلا دیا- موجودہ صدی میں جہاں فلسفہ، تاریخ، قانون، سیاسیات، ذرائع ابلاغ و صنعت جیسے علوم نے بلندیوں کو چھو لیا ہے وہیں اکیسویں صدی میں جمہوریت، اخلاقیات، مذہبی ہم آہنگی اتحاد اور گلوبلائزیشن جیسی اقدار نے انسانی معاشرے میں خاص اہمیت حاصل کر لی ہے-مگر بد قسمتی سے دنیا میں آج بھی ایسی تحریکیں اور افراد موجود ہیں جو نسل پرستانہ نظریات، منفی سوچ اور شدت پسندی کے قائل ہیں جو انسا نیت کیلئے کسی المناکی سے کم نہیں-عصر حاضر میں ہمارے سامنے کئی عالمی سیاسی و مذہبی رہنماؤں کے کردار عالم انسانیت سے ڈھکے چھپے نہیں جنہوں نے ایسے نظریات کو عملی جامہ پہنانے میں کوئی کسراٹھا نہ رکھی اور جن کا مقصد ہی محض انسانیت کی تذلیل اور عالمی امن و استحکام کو داؤ پر لگانا ہے-

ماضی کی مشہور تحریکیں میری مراد نازی ازم اور فاشزم جیسے نظریات نے انسا نیت کیلئے دنیا کو تختہِ دار بنا ڈالا-مثلاً نازی ازم جنگ عظیم اول کا سبب بنی جس میں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بنے؛اسی طرح فاشزم نے خود کو دوسروں کی نسبت برتر سمجھتے ہوئے شدت پسندی کو تقویت دی اور انسانیت کا ناحق خون بہایا-ان تحریکوں کا خمیازہ آج بھی انسانیت ادا کر رہی ہے-اسی طرح موجودہ دور میں بھی ہمیں ایسی تحریکیں اور افراد نظر آتے ہیں جو فاشزم اور نازی ازم جیسے نظریات کے پیروکار ہیں مثلا ً دوسری ریاستوں پر ناجائز قبضہ کرنا یا مداخلت کرنا، نسل پرستی کو تقویت دینا،نا حق خون بہانا ان کا شیوہ ہے-جن کی وجہ سے دنیا ایک بار پھر ناگہانی آفت سے دو چار ہو سکتی ہے اور عالمی امن و استحکام برباد ہوسکتا ہے-اس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ نسل پرستی کیا ہوتی ہے؟ نسل پرستانہ تحریکیں کیا ہو تی ہیں اور ماضی و حال کی چند ایسی تحریکوں کا بھی مختصر جائزہ لیں گے- آخر میں ہم ان تحریکوں کے سد باب میں دین اسلام کے ایسے درخشندہ ستاروں کا ذکر کریں گے جو ہمیشہ ان تحریکوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح قائم و دائم رہے اور آج بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں-

یہ یقین کے ہر نسل کے تمام افراد جداگانہ صلاحیتوں و خوبیوں کے حامل ہیں اور وہ کسی دوسری نسل پر علاقائی،لسانی، نسلی یا مذہبی بنیاد پر فوقیت رکھتے ہیں،نسل پرستی کہلاتا ہے اور افراد کا ایسا گروہ جو کسی ملک یا خطے میں نسل پر ستی،علاقہ پرستی، قوم پرستی اور انتہا پسندی جیسے عناصر کو فروغ دینے کے لئے کام کرے،نسل پرستانہ تحریک (Racist Movement)کہلاتی ہے اور ان کا طریق ہمیشہ شدت پسندی ہوگا تاکہ دوسری نسل کے لوگوں کے گرد دائرہ تنگ کیا جائے اور اپنا دفاع مضبوط سے مضبوط تر بنایا جائے-

فاشزم (اٹلی):

فاشزم( فسطا ئیت) لاطینی زبان کے لفظ ’’Fascio‘‘ سے ما خذ ہے- قدیم لاطینی زبان میں یہ لفظ ڈنڈوں کے ایک مجموعے کے لئے استعمال ہوتا تھا اور یہ اُس وقت سِول مجسٹرِیٹ کی علامت تھی- فاشزم دراصل کیمونزم، جمہوریت مخالف تحریک اور آمرانہ نظریات پر مبنی ایسا سیاسی نظام ہے جس میں اختیار صرف سربراہ ریاست کے پاس ہوتا ہے اور اس کی اطاعت دوسروں پر واجب ہو تی ہے-فاشسٹ واحد پارٹی، واحد ریاست اور واحد لیڈر پر مبنی نظا م پر یقین رکھتے تھے-اس کے علاوہ آزادی سے نفرت،جمہوریت پر مبنی سیاسی نظام سے نفرت،قوم پرستی،آمرانہ نظام،عسکریت پسندی، توسیع پسندی، قومی مفاد کے لئے جنگ کرنا، طا قت کا ا ستعما ل کرتے ہوئے دوسری ریاستوں پر قبضہ کرنا،فاشزم کے نظریات اور مقا صد میں شامل ہیں-

بیسویں صدی میں اٹلی میں سب سے پہلے فاشزم نے سر ابھارا اور اس طرح یہ تحریک پورے یورپ میں پھیل گئی-ان نظریات نے دنیا کے کئی رہنماؤں کو مائل کیا جو اپنے اپنے ممالک میں حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے جن میں جرمنی، آسٹریا، پرتگال، یونان، کروشیا، ناروے، جاپان، پولینڈ اور فرانس (جہاں فاشسٹ نظریات پارٹی کی حکومت تو نہ آئی مگر فوجی بغاوت میں بھرپور کردار ادا کیا گیا)- بینیٹو میسو لینی نے 1919ء میں فاشسٹ تحریک کی بنیاد رکھی اور اقتدار سنبھالا-جنگ عظیم اول کے بعد اٹلی نے بد ترین اقتصادی بحران، سیاسی عدم استحکام، لا قانونیت اور بد امنی جیسے عناصر کا سامنا کیا-میسولینی نے برسراقتدار آتے ہی اٹلی کی اقتصادی حالت، زراعت اور تجارت کو فروغ تو دیا لیکن بعد میں جب اس نے آمرانہ پالیسی اپنائی تو اٹلی کے لوگوں کو ان احسانات کی بھاری قیمت چکانا پڑی-مثلاً لوگوں کو سیاسی آزادی کھونا پڑی،پریس اور اخبارات پر پابندی لگا دی گئی،آزادئ اظہا ر رائے کا حق چھین لیا گیا علاوہ ازیں اس معاملے میں جو میسولینی کی مخالفت کرتا اس پر ظلم و تشدد کیا جاتا اور اسے بے رحمی سے کچل دیا جاتا- [1]

ایپرتھایڈ تحریک:

ایپر تھایڈ(Apartheid) ایک افریقن لفظ ہے جس کا مطلب ’’علیحدگی‘‘ ہے -ایپرتھایڈ کا دورانیہ 1948ء سے 1990ء تک ہے- یہ جنوبی افریقہ میں سفید اور کالے رنگ کی بنیاد پر چلائی جانی وا لی تحریک تھی-1948ءمیں جنوبی افریقہ کی نیشنل پارٹی (یورپی قبائل جو نوآبادیاتی نظام کے تحت یہاں آباد ہوئے) کے اقتدار حاصل کرنے کے بعد اس کی سفید فام حکومت نے قانون سازی کے ذریعے نسلی علیحدگی کی ثقافت کو باقاعدہ قانون کی صورت میں نافذ کرنا شروع کر دیا جو کہ ایپرتھایڈ کے طور پر جانا جاتا ہے-[2] اس قانون کی خلاف ورزی پر سخت سے سخت سزا دی جاتی تھی جو اکثر اوقات موت آنے پر ہی معطل کی جاتی تھی-ایپرتھایڈ تحریک نے مختلف نسلی گروہوں کے سا تھ مکمل طور پر غیر منصفانہ رویہ اپنایا اور انہیں علیحدہ زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا اور اس کے لئےسخت قوانین بنائے- مثلاً ان قوانین نے تمام نسلی گروہوں کے درمیان خاندانی شادی (inter-marriage)اور سماجی انضمام( social integration) کو روکنے کی بھر پور کوششیں کیں-حتی کہ فقط سفید نہ ہونے کی وجہ سے انہیں مفلس ہی چھوڑ دیا جاتا-[3] سفید افریقن نے ریاست اور معیشت دونوں پر اپنا تسلط قائم کیا اور نسلی برتری کا ایک واضح نظریہ اور فلسفہ اپناتے ہوئے جدید ملٹری اور پولیس فورس کے ذریعے ایسا قانونی اور اقتصادی نظام نافذ کیا جس نے جان بوجھ کر سیاہ فام کو اقتصادی اور سیاسی طاقت سے خارج کر دیا- [4] جس کے متعلق نیلسن مینڈیلا اپنی کتاب’’Long walk to Freedom ‘‘میں ’’ص: 136‘‘پر لکھتے ہیں کہ:

1.       حصولِ زمین ایکٹ 1913ء: جس کے مطابق سیاہ فارم لوگوں کو زمین کے حقوق سے دستبردار کر دیا گیا-

2.       مقامی آبادی نمائندگی ایکٹ 1936ء: جس کے مطابق سیاہ فارم افریقی باشندوں کو ووٹ کے حق سے محروم کر دیا گیا-[5]

1953ء جنوبی افریقہ میں پیش کیا جانے والا بینٹو (Bantu) تعلیمی قانون قابل غور ہ-بینٹو تعلیمی قانون نے سفید بالا دستی کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاہ فام لوگوں کو سفید جنوبی افریقن کے مقابلے میں برابر تعلیمی مواقع اور وسائل فراہم کرنے سے انکار کیا-بینٹو تعلیمی قانون نے سیاہ لوگوں کی تاریخ، ثقافت اور شناخت کو پس پشت ڈال دیا-اس نے تعلیمی نصاب اور درسی کتب میں من گھڑت قصوں اور نسل پرستی کو فروغ دیا-[6] اسی طرح 1950ءمیں ایپر تھائیڈ کی طرف سے پیش کیا جانے والا قانون اندراجِ آبادی (Population Registration Act)نسلی امتیاز اور تعصب کی ایک واضح مثال ہے-اس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ لوگوں کا اندراج ان کے نسلی گروہوں کے مطابق کیا جائے گا-حکومت کے شعبہ معاملات کے پاس لوگوں کا ریکارڈ موجود ہو گا آیا کہ وہ سفید ہیں،سیاہ ہیں، ایشیائی ہیں-پس ان کے ساتھ ان کی حیثیت اور پہچان کے مطابق برتاؤ کیا جائے گا-[7] اسی تحریک کا خمیازہ آج بھی جنوبی افریقہ میں عوام کو غربت، بیروزگاری، ناخواندگی و پسماندگی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے-

نازی ازم(جرمنی):

جرمن ملازم کارکنوں کی پارٹی جو عام طور پر نازی پارٹی کے نام سے مشہور ہے- یہ ایک تشدد پسندانہ تحریک تھی اور 1920ء اور 1945ء کے دوران جرمن سیاست میں بھی اس کا گہرا اثر رہا-نازی پارٹی 1933ء میں اڈ ولف ہٹلر کی قیا دت میں بر سر اقتدار آئی جو دراصل فاشسٹ نظریات کا حا می تھا- فاشزم اور نازی ازم نظریات تقریباً ایک جیسے ہیں؛ اگر اس تحریک کو فاشزم کی ایک کڑی کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا مثلاً قوم پرستی کو فروغ دینا،ظلم و ستم کرنا، بین الاقوامیت،امن اور جمہوریت سے نفرت کرنا، ذاتی مفاد کیلئے جنگ کرنا، جرمن نسل برتری کو فروغ دینا وغیرہ یہ سب نازی ازم کے مقاصد اور نظریات میں شامل تھا-

’’نسلی عصبیت--جرمن قومی سوشلزم یعنی نازی ازم کا ہمیشہ سے ہی ایک ناگزیر حصہ رہا ہے- نازیوں نے تمام انسانی تاریخ کو مختلف نسلوں کے درمیان کشمکش کے نتیجے میں سامنے آنے والی حیاتیاتی تاریخ کے طور پر لیا ہے‘‘-[8]

نازی ازم کے حوالے سےایک اصطلاح ’’ہولو کاسٹ‘‘ (holocaust)یا جسے عالمی تباہی کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے جو دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی ازم کی نسلی بنیادوں پر انسان دشمنی کا عملی ثبوت ہے- لفظ ’’ہولو کاسٹ‘‘کا ماخذ دراصل یونانی زبان سے ہے جس کے معنی ہیں ’’آگ کے ذریعے قربانی‘‘- ہولو کاسٹ کے دور میں جرمنوں نے کچھ دوسرے گروپس کو بھی نسلی طور پر گھٹیا تصور کرتے ہوئے نشانہ بنایا- نازی ازم کی تشدد پسندانہ سوچ نہ صرف دوسری جنگِ عظیم کی ایک وجہ بنی بلکہ اس میں شدت بھی لائی اور لاکھوں افراد و بستیاں بارود کے ڈھیر تلے دبا دی گئیں-

کو - کلس - کلان (امریکہ):

کو-کلس- کلان تین ادوار میں منقسم ہے اس لیے عام طور پر ’’KKK‘‘ کے نام سے بھی جانی جاتی ہے جو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی تاریخ میں تین مختلف نسل پرستانہ تحریکوں کے طورپر وجود میں آئی-امریکہ میں خانہ جنگی(1861ء-1865ء)کے بعد ’’کو-کلس- کلان‘‘ کے نظریات نے زور پکڑا- سفید بالا دستی، قومیت پرستی،  مہاجرین کی مخالفت،شدت پسندانہ سیاست، جیسے عناصر اس تحریک کے نظریات میں شامل تھے-اس کے ساتھ ساتھ ان تحریکوں نے اپنے مخالفین کے خلاف دہشت گردی اور قتل و غارت سے کام لیا- پہلی مرتبہ دسمبر 1965ءاور اگست  1966ءکے درمیان امریکی ریاست تو نیزی کے شہر( پلاسکی) کے چھ اتحادیوں نے مل کر اس تحریک کا باقاعدہ آغاز کیا - کلان نے جنوب میں سفید بالا دستی کو برقرار رکھنے کیلئے ریڈیکل اصلاحات کے باوجود سیا ہ فام لوگوں پر تشدد کیا- ’’کو-کلس-کلان‘‘ تحریک کے تمام کارکن گورے،عیسائی امریکن شہری ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کی نسل اور مذہب دیگر مذاہب اور رنگ کے لوگوں سے برتر ہیں-یہ دراصل امریکہ میں سفید بالا دستی کا ایک گروہ ہے جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ غیر امریکی کم تر ہیں اور ان کیلئے امریکہ میں کوئی جگہ نہیں-[9]امریکہ صرف اور صرف گورے عیسائیوں کا گھر ہے-یہ افراد دیگر مذاہب اور نسل کے لوگوں سے شدید نفرت کرتے ہیں- اس تحریک کی مثال امریکہ کی خونی سول وار اور سول رائٹس موومنٹ ہے جس میں کئی لوگوں کو نسل پرستی اور شدت پسندانہ سوچ کی بنیاد پر عبرتناک سزائیں دی گئیں-

نریندر مودی(بھارت):

دنیا میں سب سے بڑا جمہوریت پسند اور سیکولر نظریہ کا دعویٰ دار بھارت؛ اقلیتوں کے حقوق کی پامالی، مذہبی انتہا پسندی،نسل پرستی، ذات پات اور نسل کشی جیسی خصوصیات کے حامل ممالک کی فہرست پر کسی کو سبقت نہیں لینے دیتا-اسی نظریات کے حامل شدت پسند ہندو نے دو قومی نظریہ کو تقویت بخشی اور مسلمانوں کو الگ وطن حاصل کرنے پر مجبور کیا- ان نظریات کی وجہ سے آج بھی بھارت میں تقریباً 50 سے زائد مسلح و غیر مسلح علیحدگی پسند تحریکیں سر گ?

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر