مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام ’’میراثِ قائد اور آج کا پاکستان‘‘ کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد نیشنل لائبریری اسلام آباد میں کیا گیا- وفاقی وزیر برائے توانائی جناب عمر ایوب خان اس موقع پہ مہمان خصوصی تھے- صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے افتتاحی و اختتامی کلمات ادا کیے- پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر ، ڈاکٹر فاروق احمد ڈار اور جناب رانا عبدالباقی نے تحقیقی موضوعات پہ اظہار خیال کیا- مختلف یونیورسٹیز کے طلبہ،اساتذہ، تھنک ٹینکس کے نمائندگان، صحافیوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے والے لوگوں نے سیمینار میں شرکت کی-
معزز مہمان گرامی کے اظہار خیال کا خلاصہ درج زیل ہے-
افتتاحی کلمات:
صاحبزادہ سلطان احمد علی:( چیئر مین مسلم انسٹیٹیوٹ)
قائداعظم ہندو مسلم اتحاد کے سفیر رہے لیکن وہ ہندو مسلم اتحاد کے سفیر سے آہستہ آہستہ وہ دو قومی نظریے کی طرف آئے اور انہوں نے دو علیحدہ تشخص رکھنے والی اقوام کی بنیاد پہ ایک الگ ملک کا مطالبہ کیا- یہ تبدیلی کن عوامل کی بنا پہ رونما ہوئی؛ سب سے پہلے نہرو رپورٹ اور اس بنیاد پہ پیدا ہونے والے اختلافات اور اس کے بعد قائد اعظم کے وقتاً فوقتاً جو مطالبات تھے ان کو جس طریقے سے ٹھکرایا گیا- اس کے بعد دوسری گول میز کانفرنس تھی جو آپ کی سوچ کی تبدیلی کی جانب ایک اور قدم ثابت ہوئی پھر 2سالہ کانگریسی وزارتوں کے جو سیاسی نتائج برآمد ہوئے انہوں نے قائد اعظم کے خیالات کو مکمل طور پر تبدیل کیا اور حکومتوں کے خاتمے پر پورے ہندوستان میں قائد اعظم کے کہنے پر یوم نجات منایا گیا- علامہ اقبال سے قائد اعظم محمد علی جناح کے مابین خط و کتابت نے بھی قائد کی سوچ پہ گہرا اثر چھوڑا - پاکستان کی بقاء اور وحدت کی ضمانت اگر کسی فکر میں ہے تو کئی سیاسی اکائیوں کی موجودگی کے باوجود وہ وحدت صرف اور صرف قائد اعظم محمد علی جناح کی فکر میں ہے-
قومی وحدت کو درپیش مسائل :
تحریک پاکستان سے سبق
رانا عبدالباقی:(معروف کالم نگار ، چئیرمین جناح اقبال فکری فورم)
قائد اعظم کا جھکاؤ اسلام اور حضور نبی کریم (ﷺ) کی جانب تھا- جب وہ لندن میں تعلیم حاصل کر رہے تھے تو انہوں نے اس کالج سے بیرسٹر کی ڈگری پاس کی جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کہ حضورنبی کریم (ﷺ) وہ عظیم شخصیت ہیں جنہوں نے دنیا کو قانون سے نوازا ہے- 1934ء میں قائداعظم برصغیر واپس آئے ان کو بلانے والوں میں علامہ اقبال بھی شامل تھے جو یہ جانتے تھےکہ مسلمان انتشار کا شکار ہیں اور آپ ہی ان کو قومی یکجہتی کی لڑی میں پرو سکتے ہیں- 3 جون 1947ء کو بالآخر وائس رائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تقسیم ہند کا منصوبہ پیش کیا تو اس وقت بھی برطانوی پارلیمنٹ میں وزیراعظم لارڈ ایٹلی سے یہ سوالات کیےگئے کہ ہمارا منصوبہ متحدہ ہندوستان کی شکل میں تھا لیکن صورتحال اس کے برعکس ہے- لارڈ ایٹلی کا جواب ریکارڈ پر موجود ہے کہ یہ 2ڈویژن میں تقسیم کر کے آزادی کا عمل شروع کر رہے ہیں لیکن یہ عمل عارضی ہے- کچھ عرصے بعد یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر دولت مشترکہ میں شریک ہو جائیں گے- جواہر لال نہرو نے بھی ملتے جلتے تاثرات کا اظہار کیا کہ یہ ایک عارضی ترتیب ہے اور ہم نے اس کو آزادی کے حوالے سے تسلیم کیاہے-
آج پاکستان میں جو صورت حال ہے اس کی تمام تر ذمہ دار سیاسی حکومتیں ہیں جنہوں نے پاکستان کو اس نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے- قائد اعظم کے افکار کے حوالے سے دیکھیں تو ہمیں اب واپس جناح اور اقبال کی فکر کی طرف سفر کرنا ہوگا-
قائد اعظم کا پاکستان کی خارجہ پالیسی کے متعلق نقطہ نظر
ڈاکٹر فاروق احمد ڈار: ( ایسوسی ایٹ پروفیسر، شعبہ تاریخ، قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد)
قائداعظم محمد علی جناح کی پاکستان کی خارجہ پالیسی کے متعلق بصیرت پہ اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے آپ کے 6بنیادی اصول تھے:
1. آپ پاکستان اور پاکستان سے باہر امن کے خواہاں تھے-
2. تنازعات کے حل کے لیے بین الاقوامی سطح پہ ایک ادارے جیسا کہ اقوام متحدہ کے غیر جانبدارانہ فعال کردار کو بھی بڑی اہمیت کا حامل سمجھتے تھے-
3. حق خود ارادیت وہ چاہے مسلمان ممالک ہوں یا غیر مسلم- قائداعظم فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کے بھی علمبردار تھے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1933ء سے 1946ء کے دوران مسلم لیگ نے فلسطین کے حق میں 18 قراردادیں منظور کیں- قائد اعظم نے سیلون اور برما میں بھی حق خود ارادیت کی تحریکوں کی حمایت کی-
4. مسلمان ممالک سے تعاون اور قریبی تعلقات، جس کی دلیل یہ ہے کہ پاکستان کا پہلا بیرونی دورہ فیروز خان نون صاحب نے مسلم ممالک ترکی، شام اور سعودی عرب میں کیا تھا-
5. ہمسایہ ممالک کے ساتھ برابری کی سطح پراچھے تعلقات، آپ بھارت کے ساتھ امن چاہتے تھے لیکن آپ کسی بھی صورت بھارت کی بالا دستی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے-
6. غیر جانبداری -
قیام پاکستان کے وقت پاکستان کے دفتر خارجہ کیلئے محض 200لوگ تھے جن میں سے صرف 4خارجہ امور کا تجربہ رکھنے والے آفیسر تھے جبکہ باقی تمام نائب قاصد اور کلرک تھے- دسمبر 1947 تک وزیر اعظم جناب رانا لیاقت علی خان کے پاس خارجہ امور کی اضافی وزارت تھی -
قائداعظم کا پاکستان کے سیاسی نظام کے متعلق نقطہ نظر
پروفیسر ایوب صابر:(مورخ ، مصنف و تجزیہ نگار)
قائد اعظم پاکستان میں اسلام کے اصولوں کے مطابق ایک سچی جمہوریت چاہتے تھے نہ کہ مغربی یا کانگرس کی طرز کا پارلیمانی نظام- یہ بڑی حیران کن بات ہے کہ پارلیمانی نظام اور پارٹی سسٹم کو قائد اعظم سپورٹ نہیں کرتے تھے - آپ ایک ایسی ریاست چاہتے تھے جس کو اپنی ثقافت کے مطابق ڈھال سکیں اور جہاں اسلام کے معاشرتی نظام کا صحیح معنوں میں اطلاق ممکن ہو- قائد اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کا دستور پاکستان کی دستور ساز اسمبلی بنائے گی جس کا مجھے کوئی حق نہیں ہے اور وہ دستور عین اسلام کےمطابق ہو گا کیونکہ اسلام ہمیں ایک مکمل قانون وضابطہ حیات عطا کرتا ہے- قائد اعظم نے اسلامی جمہوریت اور اقبال نے روحانی جمہوریت کا لفظ استعمال کیا جس کا مطلب حریت، مساوات اور اخوت ہے- ایک اخوت اسلامی ہے اور ایک اخوت انسانی ہے، اخوت انسانی بھی اسلام کا ایک بنیادی اصول ہے جس کو مسلمان حضور رسالت مآب(ﷺ) کی پیروی کرتے ہوئے آپ (ﷺ) کی صفت رحمت العالمین سے اخذ کرتے ہیں-
مہمان خصوصی
عمر ایوب خان :(وفاقی وزیر برائے توانائی )
جب مغل دور حکومت میں ایسٹ انڈیا کمپنی برصغیر میں آئی اس وقت برصغیر کا تجارتی حجم دنیا کی تجارت کا %28 سے %30 تھا- جس وقت 14 اگست 1947ء کو پاکستان بنا اس وقت پاکستان اور ہندوستان کا حصہ گلوبل ٹریڈ میں1-2 فیصد رہ چکا تھا- مسلمانوں کو کیا ضرورت تھی کہ وہ اپنے الگ خطہ کا مطالبہ کریں کیونکہ مسلمانوں کو یہ محسوس کرایا گیا کہ اس برصغیر میں اقتصادی بہتری آپ کا حق نہیں ہے آپ ترقی نہیں کر سکتے ہیں- سول سروس اور باقی چیزیں ہندو یا باقی مذاہب کے ہاتھوں میں تھیں مسلمانوں کو جان بوجھ کر محروم رکھا گیا اس لیے انہوں نے اپنے جائز حق کے لیے اپنی الگ ریاست کا مطالبہ کیا - ایک ملک کے لیے اپنی جغرافیائی حدود کو برقرار رکھنے کیلئے 3چیزیں بہت اہم ہیں:
1- قومی ہم آہنگی 2- مضبوط دفاع 3-مضبوط معیشت
وقفہ سوال و جواب
تمام مقررین کے اظہارِ خیال کے بعد تفصیلی وقفہ سوال و جواب منعقد کیا گیا جن کا خلاصہ درج ذیل ہے :
آخری وقت تک تین ایسے مسائل تھے جن کو قائداعظم حل کرنا چاہتے تھے- ان میں مسئلہ کشمیر، آئین کی تشکیل اور مہاجرین کی آباد کاری شامل تھی- کشمیر پر جناح صاحب کا مؤقف بہت واضح تھا اور وہ کشمیریوں پر اصولِ حقِ خود ارادیت کا اطلاق چاہتے تھے- جب 27 اکتوبر 1947ء کو بھارتی فوج نے بزورِ طاقت کشمیر پر قبضہ کر لیا تو قائد اعظم نے فیصلہ کیا کہ پاکستان کشمیر میں قابض بھارتی افواج کا مقابلہ کرے گا- قائداعظم کی حیات میں ہی جب بھارتی افواج نے اُری سیکٹر کی حدود تک پہنچ گئی تو پاکستان فوج نے جوابی کاروائی کی- اس لیے کشمیر کی حمایت ہمیشہ سے قائداعظم کے ایجنڈا پر تھی-
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بارے مسز اندرا گاندھی نے بڑا واضح بیان دیا تھاکہ ہم نے بنگلہ دیش بنا کر دوقومی نظریہ کو خلیجِ بنگال میں ڈبو دیا ہے اور ہم نے ہندوستان پر مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ حکومت کا بدلہ لے لیا ہے- جہاں تک یہ بات کہ قائدِ اعظم نے بنگلہ دیش میں کہا کہ قومی زبان اردو ہو گی اور اس پر تنفر پھیلا تو یہ قطعی غلط بات ہے- جب محترمہ فاطمہ جناح نے 1964ء میں صدارتی الیکشن لڑا تھا اور آپکی حمایت میں مشرقی پاکستان میں ہونے والے اجتماعات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات غلط ثابت ہوتی ہے-
اختتامی کلمات و اظہارِ تشکر
صاحبزادہ سلطان احمد علی: (چئیرمین مسلم انسٹیٹیوٹ)
رانا عبدالباقی صاحب نے اپنی گفتگو میں چندر سنگھ کا حوالہ دیا جنہوں نے بھارت جانے سے انکار کیا اور کہا کہ مَیں پاکستان میں رہنا چاہتا ہوں کیونکہ مَیں محمد علی جناح پہ اعتماد کرتا ہوں- مَیں قائداعظم کو اس حوالے سے بڑا پر فیکٹ پاتا ہوں کہ مذہبی اور سیکولر دونوں لوگ آپ پر اتفاق رکھتے ہیں اور قائداعظم سے انحراف نہیں کر سکتے- یہ قائداعظم کی کامیاب حکمت عملی اور سفارتکاری تھی کہ افغانستان سے ہمارے برادرانہ تعلقات قائم ہوئے - ڈاکٹر فاروق احمد ڈار کے قائداعظم کی خارجہ پالیسی کے بارے چھ نکات بہت خوبصورت تھے -ایوب صابر صاحب کی رحمت اللعالمین(ﷺ) پر گفتگو پاکستان اور قائداعظم کے تناظر میں نہایت اہم تھی- آپ نے قائداعظم کے تین اصول حریت، اخوت اور مساوات کا حوالہ دیا- اس کے علاوہ 11 اگست کی تقریر کا ذکر بھی کیا جس کے بارے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اس تقریر کا ایک لفظ بھی ’’چارٹر آف مدینہ‘‘ کے ساتھ متصادم نہیں تھا-
میں جب بھی اقبال کی نظم مسجدِ قرطبہ کو دیکھتا ہوں تو دو چیزیں اخذ کرتا ہوں- ایک مسجدِ قرطبہ کا تصور جو اقبال نے دیا اور دوسرا مسجدِ قرطبہ کے وہ معمار اور مومن جن کی تشریح اقبال نے کی ہے- میرے نزدیک پاکستان وہ مسجد قرطبہ ہے اور قائداعظم وہ مردِ مومن ہیں-
پاکستان ہمارا سیاسی نہیں بلکہ روحانی عزم ہے
اور یہی مسلم انسٹیٹیوٹ کا بھی عزم ہے-
٭٭٭
مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام ’’میراثِ قائد اور آج کا پاکستان‘‘ کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد نیشنل لائبریری اسلام آباد میں کیا گیا- وفاقی وزیر برائے توانائی جناب عمر ایوب خان اس موقع پہ مہمان خصوصی تھے- صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے افتتاحی و اختتامی کلمات ادا کیے- پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر ، ڈاکٹر فاروق احمد ڈار اور جناب رانا عبدالباقی نے تحقیقی موضوعات پہ اظہار خیال کیا- مختلف یونیورسٹیز کے طلبہ،اساتذہ، تھنک ٹینکس کے نمائندگان، صحافیوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے والے لوگوں نے سیمینار میں شرکت کی-
معزز مہمان گرامی کے اظہار خیال کا خلاصہ درج زیل ہے-
افتتاحی کلمات:
صاحبزادہ سلطان احمد علی:( چیئر مین مسلم انسٹیٹیوٹ)
قائداعظم ہندو مسلم اتحاد کے سفیر رہے لیکن وہ ہندو مسلم اتحاد کے سفیر سے آہستہ آہستہ وہ دو قومی نظریے کی طرف آئے اور انہوں نے دو علیحدہ تشخص رکھنے والی اقوام کی بنیاد پہ ایک الگ ملک کا مطالبہ کیا- یہ تبدیلی کن عوامل کی بنا پہ رونما ہوئی؛ سب سے پہلے نہرو رپورٹ اور اس بنیاد پہ پیدا ہونے والے اختلافات اور اس کے بعد قائد اعظم کے وقتاً فوقتاً جو مطالبات تھے ان کو جس طریقے سے ٹھکرایا گیا- اس کے بعد دوسری گول میز کانفرنس تھی جو آپ کی سوچ کی تبدیلی کی جانب ایک اور قدم ثابت ہوئی پھر 2سالہ کانگریسی وزارتوں کے جو سیاسی نتائج برآمد ہوئے انہوں نے قائد اعظم کے خیالات کو مکمل طور پر تبدیل کیا اور حکومتوں کے خاتمے پر پورے ہندوستان میں قائد اعظم کے کہنے پر یوم نجات منایا گیا- علامہ اقبال سے قائد اعظم محمد علی جناح کے مابین خط و کتابت نے بھی قائد کی سوچ پہ گہرا اثر چھوڑا - پاکستان کی بقاء اور وحدت کی ضمانت اگر کسی فکر میں ہے تو کئی سیاسی اکائیوں کی موجودگی کے باوجود وہ وحدت صرف اور صرف قائد اعظم محمد علی جناح کی فکر میں ہے-
قومی وحدت کو درپیش مسائل :
تحریک پاکستان سے سبق
رانا عبدالباقی:(معروف کالم نگار ، چئیرمین جناح اقبال فکری فورم)
قائد اعظم کا جھکاؤ اسلام اور حضور نبی کریم (ﷺ) کی جانب تھا- جب وہ لندن میں تعلیم حاصل کر رہے تھے تو انہوں نے اس کالج سے بیرسٹر کی ڈگری پاس کی جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کہ حضورنبی کریم (ﷺ) وہ عظیم شخصیت ہیں جنہوں نے دنیا کو قانون سے نوازا ہے- 1934ء میں قائداعظم برصغیر واپس آئے ان کو بلانے والوں میں علامہ اقبال بھی شامل تھے جو یہ جانتے تھےکہ مسلمان انتشار کا شکار ہیں اور آپ ہی ان کو قومی یکجہتی کی لڑی میں پرو سکتے ہیں- 3 جون 1947ء کو بالآخر وائس رائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تقسیم ہند کا منصوبہ پیش کیا تو اس وقت بھی برطانوی پارلیمنٹ میں وزیراعظم لارڈ ایٹلی سے یہ سوالات کیےگئے کہ ہمارا منصوبہ متحدہ ہندوستان کی شکل میں تھا لیکن صورتحال اس کے برعکس ہے- لارڈ ایٹلی کا جواب ریکارڈ پر موجود ہے کہ یہ 2ڈویژن میں تقسیم کر کے آزادی کا عمل شروع کر رہے ہیں لیکن یہ عمل عارضی ہے- کچھ عرصے بعد یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر دولت مشترکہ میں شریک ہو جائیں گے- جواہر لال نہرو نے بھی ملتے جلتے تاثرات کا اظہار کیا کہ یہ ایک عارضی ترتیب ہے اور ہم نے اس کو آزادی کے حوالے سے تسلیم کیاہے-
آج پاکستان میں جو صورت حال ہے اس کی تمام تر ذمہ دار سیاسی حکومتیں ہیں جنہوں نے پاکستان کو اس نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے- قائد اعظم کے افکار کے حوالے سے دیکھیں تو ہمیں اب واپس جناح اور اقبال کی فکر کی طرف سفر کرنا ہوگا-
قائد اعظم کا پاکستان کی خارجہ پالیسی کے متعلق نقطہ نظر
ڈاکٹر فاروق احمد ڈار:
( ایسوسی ایٹ پروفیسر، شعبہ تاریخ، قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد)
قائداعظم محمد علی جناح کی پاکستان کی خارجہ پالیسی کے متعلق بصیرت پہ اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے آپ کے 6بنیادی اصول تھے:
1. آپ پاکستان اور پاکستان سے باہر امن کے خواہاں تھے-
2. تنازعات کے حل کے لیے بین الاقوامی سطح پہ ایک ادارے جیسا کہ اقوام متحدہ کے غیر جانبدارانہ فعال کردار کو بھی بڑی اہمیت کا حامل سمجھتے تھے-
3. حق خود ارادیت وہ چاہے مسلمان ممالک ہوں یا غیر مسلم- قائداعظم فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کے بھی علمبردار تھے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1933ء سے 1946ء کے دوران مسلم لیگ نے فلسطین کے حق میں 18 قراردادیں منظور کیں- قائد اعظم نے سیلون اور برما میں بھی حق خود ارادیت کی تحریکوں کی حمایت کی-
4. مسلمان ممالک سے تعاون اور قریبی تعلقات، جس کی دلیل یہ ہے کہ پاکستان کا پہلا بیرونی دورہ فیروز خان نون صاحب نے مسلم ممالک ترکی، شام اور سعودی عرب میں کیا تھا-
5. ہمسایہ ممالک کے ساتھ برابری کی سطح پراچھے تعلقات، آپ بھارت کے ساتھ امن چاہتے تھے لیکن آپ کسی بھی صورت بھارت کی بالا دستی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے-
6. غیر جانبداری -
قیام پاکستان کے وقت پاکستان کے دفتر خارجہ کیلئے محض 200لوگ تھے جن میں سے صرف 4خارجہ امور کا تجربہ رکھنے والے آفیسر تھے جبکہ باقی تمام نائب قاصد اور کلرک تھے- دسمبر 1947 تک وزیر اعظم جناب رانا لیاقت علی خان کے پاس خارجہ امور کی اضافی وزارت تھی -
قائداعظم کا پاکستان کے سیاسی نظام
کے متعلق نقطہ نظر
پروفیسر ایوب صابر:(مورخ ، مصنف و تجزیہ نگار)
قائد اعظم پاکستان میں اسلام کے اصولوں کے مطابق ایک سچی جمہوریت چاہتے تھے نہ کہ مغربی یا کانگرس کی طرز کا پارلیمانی نظام- یہ بڑی حیران کن بات ہے کہ پارلیمانی نظام اور پارٹی سسٹم کو قائد اعظم سپورٹ نہیں کرتے تھے - آپ ایک ایسی ریاست چاہتے تھے جس کو اپنی ثقافت کے مطابق ڈھال سکیں اور جہاں اسلام کے معاشرتی نظام کا صحیح معنوں میں اطلاق ممکن ہو- قائد اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کا دستور پاکستان کی دستور ساز اسمبلی بنائے گی جس کا مجھے کوئی حق نہیں ہے اور وہ دستور عین اسلام کےمطابق ہو گا کیونکہ اسلام ہمیں ایک مکمل قانون وضابطہ حیات عطا کرتا ہے- قائد اعظم نے اسلامی جمہوریت اور اقبال نے روحانی جمہوریت کا لفظ استعمال کیا جس کا مطلب حریت، مساوات اور اخوت ہے- ایک اخوت اسلامی ہے اور ایک اخوت انسانی ہے، اخوت انسانی بھی اسلام کا ایک بنیادی اصول ہے جس کو مسلمان حضور رسالت مآب(ﷺ) کی پیروی کرتے ہوئے آپ (ﷺ) کی صفت رحمت العالمین سے اخذ کرتے ہیں-
مہمان خصوصی
عمر ایوب خان :(وفاقی وزیر برائے توانائی )
جب مغل دور حکومت میں ایسٹ انڈیا کمپنی برصغیر میں آئی اس وقت برصغیر کا تجارتی حجم دنیا کی تجارت کا %28 سے %30 تھا- جس وقت 14 اگست 1947ء کو پاکستان بنا اس وقت پاکستان اور ہندوستان کا حصہ گلوبل ٹریڈ میں1-2 فیصد رہ چکا تھا- مسلمانوں کو کیا ضرورت تھی کہ وہ اپنے الگ خطہ کا مطالبہ کریں کیونکہ مسلمانوں کو یہ محسوس کرایا گیا کہ اس برصغیر میں اقتصادی بہتری آپ کا حق نہیں ہے آپ ترقی نہیں کر سکتے ہیں- سول سروس اور باقی چیزیں ہندو یا باقی مذاہب کے ہاتھوں میں تھیں مسلمانوں کو جان بوجھ کر محروم رکھا گیا اس لیے انہوں نے اپنے جائز حق کے لیے اپنی الگ ریاست کا مطالبہ کیا - ایک ملک کے لیے اپنی جغرافیائی حدود کو برقرار رکھنے کیلئے 3چیزیں بہت اہم ہیں:
1- قومی ہم آہنگی 2- مضبوط دفاع 3-مضبوط معیشت
وقفہ سوال و جواب
تمام مقررین کے اظہارِ خیال کے بعد تفصیلی وقفہ سوال و جواب منعقد کیا گیا جن کا خلاصہ درج ذیل ہے :
آخری وقت تک تین ایسے مسائل تھے جن کو قائداعظم حل کرنا چاہتے تھے- ان میں مسئلہ کشمیر، آئین کی تشکیل اور مہاجرین کی آباد کاری شامل تھی- کشمیر پر جناح صاحب کا مؤقف بہت واضح تھا اور وہ کشمیریوں پر اصولِ حقِ خود ارادیت کا اطلاق چاہتے تھے- جب 27 اکتوبر 1947ء کو بھارتی فوج نے بزورِ طاقت کشمیر پر قبضہ کر لیا تو قائد اعظم نے فیصلہ کیا کہ پاکستان کشمیر میں قابض بھارتی افواج کا مقابلہ کرے گا- قائداعظم کی حیات میں ہی جب بھارتی افواج نے اُری سیکٹر کی حدود تک پہنچ گئی تو پاکستان فوج نے جوابی کاروائی کی- اس لیے کشمیر کی حمایت ہمیشہ سے قائداعظم کے ایجنڈا پر تھی-
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بارے مسز اندرا گاندھی نے بڑا واضح بیان دیا تھاکہ ہم نے بنگلہ دیش بنا کر دوقومی نظریہ کو خلیجِ بنگال میں ڈبو دیا ہے اور ہم نے ہندوستان پر مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ حکومت کا بدلہ لے لیا ہے- جہاں تک یہ بات کہ قائدِ اعظم نے بنگلہ دیش میں کہا کہ قومی زبان اردو ہو گی اور اس پر تنفر پھیلا تو یہ قطعی غلط بات ہے- جب محترمہ فاطمہ جناح نے 1964ء میں صدارتی الیکشن لڑا تھا اور آپکی حمایت میں مشرقی پاکستان میں ہونے والے اجتماعات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات غلط ثابت ہوتی ہے-
اختتامی کلمات و اظہارِ تشکر
صاحبزادہ سلطان احمد علی: (چئیرمین مسلم انسٹیٹیوٹ)
رانا عبدالباقی صاحب نے اپنی گفتگو میں چندر سنگھ کا حوالہ دیا جنہوں نے بھارت جانے سے انکار کیا اور کہا کہ مَیں پاکستان میں رہنا چاہتا ہوں کیونکہ مَیں محمد علی جناح پہ اعتماد کرتا ہوں- مَیں قائداعظم کو اس حوالے سے بڑا پر فیکٹ پاتا ہوں کہ مذہبی اور سیکولر دونوں لوگ آپ پر اتفاق رکھتے ہیں اور قائداعظم سے انحراف نہیں کر سکتے- یہ قائداعظم کی کامیاب حکمت عملی اور سفارتکاری تھی کہ افغانستان سے ہمارے برادرانہ تعلقات قائم ہوئے - ڈاکٹر فاروق احمد ڈار کے قائداعظم کی خارجہ پالیسی کے بارے چھ نکات بہت خوبصورت تھے -ایوب صابر صاحب کی رحمت اللعالمین(ﷺ) پر گفتگو پاکستان اور قائداعظم کے تناظر میں نہایت اہم تھی- آپ نے قائداعظم کے تین اصول حریت، اخوت اور مساوات کا حوالہ دیا- اس کے علاوہ 11 اگست کی تقریر کا ذکر بھی کیا جس کے بارے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اس تقریر کا ایک لفظ بھی ’’چارٹر آف مدینہ‘‘ کے ساتھ متصادم نہیں تھا-
میں جب بھی اقبال کی نظم مسجدِ قرطبہ کو دیکھتا ہوں تو دو چیزیں اخذ کرتا ہوں- ایک مسجدِ قرطبہ کا تصور جو اقبال نے دیا اور دوسرا مسجدِ قرطبہ کے وہ معمار اور مومن جن کی تشریح اقبال نے کی ہے- میرے نزدیک پاکستان وہ مسجد قرطبہ ہے اور قائداعظم وہ مردِ مومن ہیں-
پاکستان ہمارا سیاسی نہیں بلکہ روحانی عزم ہے
اور یہی مسلم انسٹیٹیوٹ کا بھی عزم ہے-
٭٭٭