لفظ : حیاتِ انسانی کا حیران کن پہلو (قسط 1)

لفظ : حیاتِ انسانی کا حیران کن پہلو (قسط 1)

لفظ : حیاتِ انسانی کا حیران کن پہلو (قسط 1)

مصنف: حافظ محمد شہباز عزیز جنوری 2019

معاشرے میں زندگی بسر کرنے، مثالی معاشرے کا قیام، حوائج و ضروریات کو پورا کرنے، مشترکہ مقاصد کے حصول اور دیگر معاملات حیات سے نبرد آزما ہونے کے لئے انسان ایک دوسرے پر منحصر ہیں کیونکہ اللہ رب العزت نے انسان کو تخلیق کر کے اس کی ضروریات زندگی کو محض فرد واحد تک محدود نہیں کیا بلکہ باہم کچھ اس طرح وابستہ کر دیا ہے کہ وہ چاہتے ہو ئے بھی معاشرے میں بسنے والے دیگر افراد سے بے نیاز اور تن تنہا زندگی کا تصور نہیں کر سکتا-یہ حقیقت ہے کہ انسان اجتماعیت پسند ہے اور اس کی فطرت میں مل جل کر رہنے کا رجحان پایا جاتا ہے- اسی طبع انسانی کو بانئ تا ریخ و ماہر عمرانیات علامہ عبدالرحمٰن ابن خلدونؒ نے کچھ یوں بیان کیا ہے:

’’انسان کی فطرت میں اجتماعیت پنہاں ہے-یہی مطلب ہے فلسفیوں کے اس قول کا کہ انسان مدنی الطبع ہے‘‘-[1]

اس مدنی الطبع (ملنسار) ماحول میں دیگر انسانوں سے تعلقات بڑھانے اور کار ہائے نمایاں سر انجام دینے کیلئے انسان مختلف ذرائع اختیار کرتا ہے جن میں ایک اہم اور مؤثر ترین ذریعہ گفت و شنید کا بھی ہے جو الفاظ کے بغیر محال ہی نہیں نا ممکن بھی ہے کیونکہ مدعائے متکلم تک پہنچنے کیلئے ہمیں الفاظ کا سہارا لینا پڑتا ہے - کار گاہ حیات میں الفاظ کی اہمیت سے انکار کسی طرح بھی ممکن نہیں- حیات انسانی میں جو چیز سب سے زیادہ پرورش پاتی ہے وہ الفاظ ہیں اور انسان کی الفاظ سے دوستی بے مثال ہے- الفاظ کے بغیر انسان نا مکمل ہے کیونکہ انسان اور الفاظ کا چولی دامن کا ساتھ ہے-انسان کا طرزِ بیان الفاظ کا محتا ج ہےوہ ما فی الضمیر میں موجود نظریات، تخیلات، افکار،احساسات و جذبات کا اظہار الفاظ کی بدولت ہی کرتا ہے- الفاظ محض بے روح لفظ نہیں ہوتے بلکہ کسی بھی انسانی شخصیت،معاشرے،تہذیب و تمدن،کلچر اور مذہب کا آئینہ دار ہو تے ہیں- الفاظ معاشرے میں بسنے والے افراد کے درمیان ’’موڈ آف کمیو نیکیشن‘‘ اور پیغام رسانی کا انمول ذریعہ ہیں جس میں انسان اپنے علاقہ یا ملک کی مخصوص زبان (الفاظ ) کے ذریعے اپنا پیغام دوسرے افراد و اقوم تک پہنچاتا ہے- زبان در اصل الفاظ،لہجے اور قواعد کی ہی مربوط شکل ہے اور یہ ایک طرح کی انسانی صلاحیتِ مواصلات کا نام ہے-

دنیا میں ہر پل نت نئے نئے الفاظ جنم لیتے ہیں جو اس میں رونما ہونے والے مختلف واقعات مثلاً تہذیبوں کے درمیان مکالمے، سماجی تغیر و تبدل، نفسیاتی کشمکش اور سیاسی و معاشی انقلاب کے نتیجے میں بھی پیدا ہوتے ہیں - زبان مجموعی طور پر معاشرے کے قیام، تعمیر و ترقی، جدت،تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے، انسانوں کے درمیان تجربات کے تباد لے، تعلیمی میدان، دفاعی میدان، زرعی میدان حتی کہ ضرورت انسانی سے متعلق کوئی بھی ایسا شعبہ نہیں جس میں زبان (الفاظ) کا عمل دخل نہ ہو- زبان سوچنے اور حیات بسر کرنے کےلئے بہتر اور منفرد بصیرت کے مختلف طریقے پیش کرتی ہے- علاوہ ازیں زبان کسی بھی ملک و قوم کے ثقافتی،ملی،تہذیبی و تمدنی اور مذہبی ورثہ کی بنیاد ہوتی ہے اور معاشرے کی روایات، اقدار اور تاریخ کے اظہار میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے-

انسان کی الفاظ سے محبت و اُنسیت آئے دن بڑھتی جا رہی ہے جس کی تابندہ مثال دنیا میں آج تک لکھی جانے والی کتب، مجلات، روزنامہ جات، ریسرچ جنرلز،سوشل میڈیا کمنٹس،آن لائن ویب نیوز،روزانہ لکھے جانے والے بلاگز،اخبارات وغیرہ کے علاوہ دنیا میں منعقد کتابی میلوں (Books Fair)کی صورت میں موجود ہے جن میں سے چند ایک کے اعداد و شمار کا تذکرہ ذیل میں کیا جائے گا-

موجودہ صدی میں انسان کے الفاظ سے تعلق و اُنس میں بتدریج اضا فہ ہوا ہے جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اوسطاً ایک مرد یومیہ تقریبا 7000 الفاظ اور عورت 20000 لفظ بولتی ہے[2] -جوماہانہ تقریبا 8لاکھ 10ہزار الفاظ اور سالانہ تقریبا ایک انسان(مرد و عورت) کے 9 ملین 8لاکھ 28 ہزار الفاظ بنتے ہیں- اگر اسے ہم موجودہ کل انسانی آبادی یعنی 7.7بلین لوگوں سے ضرب دیں تو دنیا میں روزانہ بولے جا نے والے الفاظ کی اوسطاً تعداد تقریبا  104 ہزار ارب بنتی ہے-اسی طرح امریکن ادارے ’’نیشنل ورچول ٹرانسلیشن سنٹر‘‘ کے مطابق اس وقت دنیا میں بولی جا نے والی زبانوں کی کل تعداد 6900 ہے اورکیمبرج انسائیکلو پیڈیا آف لینگویجز کے مطابق دنیا میں بولی جانے والی مختلف زبانوں کی تعداد تقریبا3000 سے 10000تک ہے[3] -’’لسانیات کی 2عظیم ماہر شخصیات فرڈینینڈ ڈی سوسچیئر اور نوم چومسکی کے اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں بولی جانے والی مختلف زبانوں کی کل تعداد تقریبا 5000 اور  7000ہے ‘‘-[4]

اسی طرح ایک اندازے کے مطابق دنیا میں قریباً 2.2 ملین کتب سالانہ شائع ہوتی ہیں جن میں براعظم ایشیاء اور مشرقی وسطی کے2 بڑے ممالک (چائنہ،روس)بالترتیب سالانہ 4لاکھ 40ہزار،1لاکھ 20ہزار پانچ سو بارہ، شائع کرتے ہیں- شمالی اور وسطی امریکہ کے 3 بڑے ممالک (امریکہ،میکسیکو،کینیڈا) سالانہ بالترتیب 3لاکھ 4ہزار 9سو بارہ، 23ہزار9سو اڑتالیس، 19 ہزار 9سو کتب شائع کرتےہیں -یورپ کے3 بڑے ممالک (یوکے، جرمنی، اٹلی) سالانہ با لترتیب 1لاکھ84 ہزار، 82ہزار 48 اور61 ہزار 966 کتب شائع کرتے ہیں-اسی طرح افریقہ کے 3بڑے ممالک جن میں مصر، جنوبی افریقہ، نائیجیریا شامل ہیں سالانہ تقریبا ً بالترتیب 9 ہزار بائیس 5ہزار 4سو اٹھارہ اور 1 ہزار 314 کتب شائع کرتے ہیں-[5]مذکورہ کتب کی شب و روز بڑھتی ہوئی تعداد سے قیاس کرنا کوئی مشکل امر نہیں رکھتا کہ ان کی تعداد میں آئے روز مزید اضافہ ہورہا ہے-

’’تحریر‘‘دور جدید میں وہ اہم ذریعہ ہے جو زبان کے تحفظ اور حقائق میں اہم کردار ادا کرتا ہے چاہے وہ تحریر کتب کی صورت میں ہو، مجلات، بلاگز،اخبارات یا سوشل میڈیا کمنٹس کی صورت میں ہو-

دنیا میں لکھے جانے والے مجلات کے چند اعداد و شمار:

جدید تقاضوں کے مطابق جہاں لوگوں میں تحقیق کا رجحان بڑھ رہا ہے تو وہیں تحقیقی مجلات (سالانہ، سہ ماہی، ماہانہ، ہفتہ وار،روزنامہ جات) کی تعداد میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے جس کا حتمی اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اس وقت دنیا میں شائع ہونے والے مجلات کی تعداد کتنی ہے کیونکہ دنیا کی بیشتر جامعات  ہر جامعہ میں موجود مختلف شعبہ جات، ادارے،تنظیمیں پھر ان کی فروعات اور اس طرح کی دیگر مختلف سرگر میوں (تعلیمی، ادبی، سائنسی) میں شامل شعبہ جات اپنا علیحدہ علیحدہ مجلہ (سالانہ، سہ ماہی،ماہانہ وغیرہ) شائع کرتے ہیں- ’’امریکن جرنل ایکسپرٹ (AJE) کمپنی کی شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ 2016ء کے مطابق صرف 2015ء کو پوری دنیا کے مجلات میں میں شائع ہونے والے تحقیقی مضامین کی تعداد2.2ملین ہے-اس رپورٹ میں مختلف ممالک (امریکہ، چائنہ، یوکے، جرمنی) جن کا اشاعت اور تحقیق کے میدان میں شمار صف اول میں ہوتا ہے؛ کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے-2016ء کوتعلیمی میدان مثلاً طب میں567890 مجلات شائع ہوئے،انجینئرنگ میں 285378 مجلات،بائیو کیمسٹری،جینیٹکس اور مالیکیولر بائیولوجی میں  266385، فزکس اور اسٹرونومی میں220602،کیمسٹری میں 290044 تحقیقی مجلات شائع ہوئے ہیں‘‘-[6] اسی طرح یونیورسٹی آف اوتاوا (Ottawa)نے  2009ء میں تحقیق کی جس کے مطابق دنیا میں سالانہ تقریبا 2.5ملین نئے سائنسی مقالات شا ئع ہوتے ہیں ‘‘-[7]

روزانہ لکھے جانے والے بلاگز کی تعداد:

بلاگ انٹرنیٹ پر موجود مختلف مضامین، خیالات،آراء یا تجربات کا باقاعدہ ریکارڈ ہے جو کوئی شخص(بلاگر) ایک بلاگ کی صورت میں دوسرے انسانوں کے مطالعہ کیلئے محفوظ کرتا ہے اور یہ مختلف اقسام مثلا بزنس، لٹریچر، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، ایجوکیشن،فنی معلومات،کھیل، سیاست وغیرہ سے متعلق ہو سکتے ہیں-’’اس وقت دنیا میں روزانہ لکھے جا نے والے بلاگز کی اوسطاً تعداد تقریبا5 ملین ہے‘‘-[8] جو ما ہانہ تقریبا 150ملین اور سالانہ 1600ملین بنتی ہے-2017ء کے اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ یعنی 360 ملین بلاگز ٹمبلر (مائیکرو بلاگنگ اور سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ) پر موجود ہیں‘‘-[9]اسی طرح ایک اور اندازے کے مطابق روزانہ لکھے جانے والے بلاگز کی تعداد تقریبا  3ملین سے زائد بتائی گئی ہے ‘‘-[10]

روزانہ لکھے جانے والے اخبارات کی تعداد:

اخبار انسان کو شب و روزکےحالات وا قعات سے آگاہی اور معلومات میں اہم کردار ادا کرتاہے- ورلڈ پریس ٹرینڈز 2017ء کے مطابق دنیا کی کل آبادی کا 40 فیصد یعنی 2.7بلین لوگ روزانہ اخبار کا مطالعہ کرتےہیں جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 2016ء میں اخبارات کی اشاعت اور تشہیر سے حاصل ہونے والی آمدنی بالترتیب تقریباً 82204 اور 58182 ملین ڈالرہے- ایک اندازے کے مطابق دنیا میں شائع ہونے والے اخبارات کی تعداد 2012ءمیں 614ملین تھی جو کہ 2016ءمیں بڑھ کر 757ملین تک پہنچ گئی-[11]’’دنیا میں روزانہ شائع ہونے والے مختلف اخبارات کی اوسطاً تعداد 433 ملین 745199 ہے‘‘-[12] ’’اسی طرح فروخت ہونے والے اخبارات کی اوسطاً تعداد تقریبا 56ملین ہے اور سنڈے کو یہ تعداد  60 ملین  تک تجاوز کرجاتی ہے ‘‘-[13]

سوشل میڈیا کے چند اعداد و شمار:

سوشل میڈیا انسانی زندگی کا ایک ناگزیر حصہ بن چکا ہے جو انٹرنیٹ، فیس بک، انسٹا گرام، ٹوئٹر، یو ٹیوب، سکائپ، گوگل،  پنٹرسیٹ، وٹس ایپ جیسے سوشل نیٹ ورکس پر مشتمل اور دور جدید میں لوگوں کے درمیان تعامل کا اہم ذریعہ ہےجسے لوگ فاسٹ کمیو نیکیشن کے علاوہ دیگر مختلف مقاصد کے طور پر استعمال کرتےہیں-مذکورہ بالا سوشل نیٹ ورکس کے ذریعے لوگوں کے درمیان تعلق اور پیغام رسانی کی شرح میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے جس کا ندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رواں سال میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی تعداد 3.03 بلین بتائی گئی ہے-اسی طرح فیس بک میسنجر اور و ٹس ایپ روزانہ کی بنیاد پہ 60بلین میسیجز ہینڈل کرتا ہے- گوگل ہر ماہ میں 100بلین تحقیق پروسس کرتا ہے جو کہ روزانہ 3.5 بلین اور اوسطا 40000 فی سیکنڈ ہے-ٹوئٹر پر روزانہ 500ملین ٹویٹس کیے جا تے ہیں جو کہ 6000فی سیکنڈ بنتا ہے -[14]فیس بک پر روزانہ کیے جانے والے کمنٹس کی تعداد3.2بلین ہے جو کہ ماہانہ تقریبا 96 بلین بنتے ہیں-[15] اسی طرح روزانہ 2.25بلین ای-میلز بھیجی جاتی ہیں اور روزانہ کی جانے والی سکائپ کالز کی اوسطاً تعداد تقریبا 350ملین ہے - [16]

ایک اور اندازےکے مطابق دنیا میں اس وقت میسیجنگ ایپ استعمال کرنے والوں کی تعداد 2.5 بلین ہے اور ایک انسان روزانہ اوسطا تقریبا 125منٹ سوشل میڈیا پر صرف کرتا ہے -[17]ان اعداد وشمار میں صارفین کے اضافہ سے روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہے-

کتاب میلہ:(Book Fair)

انسان کی الفاظ سے محبت کی ایک تابندہ مثال کتاب میلہ بھی ہے جوکسی بھی انسانی معاشرے میں افراد کے درمیان کتاب آگاہی اور مطالعہ کتب کی عادت کے فروغ و رجحان میں اہم کردار ادا کرتا ہے- دنیا کے کئی ممالک میں کتاب میلوں کا انعقاد ہوتا ہے جس میں لوگوں کی کثیر تعداد شریک ہوتی ہے- ’’انٹر نیشنل پبلشرز ایسوسی ایشن کی گلوبل بک فیئر رپورٹ (Global2017 Book Fair Report) جس میں ایشیاء، افریقہ، آسٹریلیا، یورپ اور امریکہ (شمالی اورجنوبی) جیسے بر اعظموں میں منعقد ہونے والے عظیم الشان کتابی میلوں پر رپورٹ مرتب کی گئی ہے جس کےمطابق کینیڈا کے صوبے کیوبیک(Quebec) میں 5سے9اپریل 2017ء میں بین الاقوامی کتاب میلہ کا انعقا د ہوا جس میں639پبلشنگ ہاؤسزقائم کیے گئے، 67ہزار افراد نے شرکت کی، 1340مصنفین شریک ہوئے-ارجنٹائن کے دارالحکومت بیونوزآئریس(Buenos Aires)میں 27اپریل تا 15 مئی2017ء تک کتا ب میلہ کا انعقاد ہو ا جس میں 526لوگوں نے کتب کی نمائش کی،12لاکھ افراد شریک ہوئے، 25ممالک نے نمائندگی کی-کولمبیا کے دار الحکومت بگوٹا(Bogota)میں 25اپریل تا 8مئی 2017ءتک بین الاقوامی کتاب میلہ کا انعقاد ہو ا جس میں 21ممالک نے نمائندگی کی، شرکاء کی تعداد 5لاکھ، 300مصنفین شریک ہوئے-  25نومبر تا 2 دسمبر2017ءکو میکسیکو کے شہر گوادالا- جارا(Guadalajara) میں بین الاقوامی کتاب میلہ منعقد ہوا جس میں تقریبا 2000پبلشرز شریک ہوئے،44ممالک نے نمائندگی کی-تائیوان میں 8تا 13فروری کو کتاب میلہ منعقد ہوا جس میں 700 کے قریب لوگوں نے کتب کی نمائش کی، 5لاکھ 60ہزار لوگ شریک ہوئے،67ممالک نے نمائندگی کی-اسی طرح لندن میں 14تا 17 مارچ 2017ء کو کتاب میلہ منعقد ہوا جس میں 1500 لوگوں نے کتب کی نمائش کی،شرکاء کی تعداد 25000تھی-3تا 6اپریل کو اٹلی کے شہر بولوگنا (Bologna)میں چلڈرن بک فیئر ہوا جس میں 1278افراد نے کتب کی نمائش کی، شرکاء کی تعداد 25 ہزار سے زائد تھی، 98ممالک نے نمائندگی کی تھی‘‘-[18] درج بالا اعداد و شمار کا تذکرہ کرنے کے بعد ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دنیا ئے جدیدمیں انسان کی الفاظ سے مانوسیت کس قدر انتہاء کو چھو رہی ہے اور انسان الفاظ کی اقتداء میں سر پٹ دوڑے چلا جا رہا ہے-

(جاری ہے)

٭٭٭


[1](تاریخ ابن خلدون،ج:1،ص:91(

[2]https://www.dailymail.co.uk/femail/article-419040/Women-talk-times-men-says-study.html

[3]https://is.muni.cz/th/ntnbf/Diploma_Thesis_Growing_up_Bilingual_Theoretical_Part.pdf

[5]https://ebookfriendly.com/countries-publish-most-books-infographic/

[13]http://www.libraryspot.com/know/newspaper.htmhttp://www.worldometers.info

[16]http://www.internetlivestats.com/

معاشرے میں زندگی بسر کرنے، مثالی معاشرے کا قیام، حوائج و ضروریات کو پورا کرنے، مشترکہ مقاصد کے حصول اور دیگر معاملات حیات سے نبرد آزما ہونے کے لئے انسان ایک دوسرے پر منحصر ہیں کیونکہ اللہ رب العزت نے انسان کو تخلیق کر کے اس کی ضروریات زندگی کو محض فرد واحد تک محدود نہیں کیا بلکہ باہم کچھ اس طرح وابستہ کر دیا ہے کہ وہ چاہتے ہو ئے بھی معاشرے میں بسنے والے دیگر افراد سے بے نیاز اور تن تنہا زندگی کا تصور نہیں کر سکتا-یہ حقیقت ہے کہ انسان اجتماعیت پسند ہے اور اس کی فطرت میں مل جل کر رہنے کا رجحان پایا جاتا ہے- اسی طبع انسانی کو بانئ تا ریخ و ماہر عمرانیات علامہ عبدالرحمٰن ابن خلدونؒ نے کچھ یوں بیان کیا ہے:

’’انسان کی فطرت میں اجتماعیت پنہاں ہے-یہی مطلب ہے فلسفیوں کے اس قول کا کہ انسان مدنی الطبع ہے‘‘-[1]

اس مدنی الطبع (ملنسار) ماحول میں دیگر انسانوں سے تعلقات بڑھانے اور کار ہائے نمایاں سر انجام دینے کیلئے انسان مختلف ذرائع اختیار کرتا ہے جن میں ایک اہم اور مؤثر ترین ذریعہ گفت و شنید کا بھی ہے جو الفاظ کے بغیر محال ہی نہیں نا ممکن بھی ہے کیونکہ مدعائے متکلم تک پہنچنے کیلئے ہمیں الفاظ کا سہارا لینا پڑتا ہے - کار گاہ حیات میں الفاظ کی اہمیت سے انکار کسی طرح بھی ممکن نہیں- حیات انسانی میں جو چیز سب سے زیادہ پرورش پاتی ہے وہ الفاظ ہیں اور انسان کی الفاظ سے دوستی بے مثال ہے- الفاظ کے بغیر انسان نا مکمل ہے کیونکہ انسان اور الفاظ کا چولی دامن کا ساتھ ہے-انسان کا طرزِ بیان الفاظ کا محتا ج ہےوہ ما فی الضمیر میں موجود نظریات، تخیلات، افکار،احساسات و جذبات کا اظہار الفاظ کی بدولت ہی کرتا ہے- الفاظ محض بے روح لفظ نہیں ہوتے بلکہ کسی بھی انسانی شخصیت،معاشرے،تہذیب و تمدن،کلچر اور مذہب کا آئینہ دار ہو تے ہیں- الفاظ معاشرے میں بسنے والے افراد کے درمیان ’’موڈ آف کمیو نیکیشن‘‘ اور پیغام رسانی کا انمول ذریعہ ہیں جس میں انسان اپنے علاقہ یا ملک کی مخصوص زبان (الفاظ ) کے ذریعے اپنا پیغام دوسرے افراد و اقوم تک پہنچاتا ہے- زبان در اصل الفاظ،لہجے اور قواعد کی ہی مربوط شکل ہے اور یہ ایک طرح کی انسانی صلاحیتِ مواصلات کا نام ہے-

دنیا میں ہر پل نت نئے نئے الفاظ جنم لیتے ہیں جو اس میں رونما ہونے والے مختلف واقعات مثلاً تہذیبوں کے درمیان مکالمے، سماجی تغیر و تبدل، نفسیاتی کشمکش اور سیاسی و معاشی انقلاب کے نتیجے میں بھی پیدا ہوتے ہیں - زبان مجموعی طور پر معاشرے کے قیام، تعمیر و ترقی، جدت،تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے، انسانوں کے درمیان تجربات کے تباد لے، تعلیمی میدان، دفاعی میدان، زرعی میدان حتی کہ ضرورت انسانی سے متعلق کوئی بھی ایسا شعبہ نہیں جس میں زبان (الفاظ) کا عمل دخل نہ ہو- زبان سوچنے اور حیات بسر کرنے کےلئے بہتر اور منفرد بصیرت کے مختلف طریقے پیش کرتی ہے- علاوہ ازیں زبان کسی بھی ملک و قوم کے ثقافتی،ملی،تہذیبی و تمدنی اور مذہبی ورثہ کی بنیاد ہوتی ہے اور معاشرے کی روایات، اقدار اور تاریخ کے اظہار میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے-

انسان کی الفاظ سے محبت و اُنسیت آئے دن بڑھتی جا رہی ہے جس کی تابندہ مثال دنیا میں آج تک لکھی جانے والی کتب، مجلات، روزنامہ جات، ریسرچ جنرلز،سوشل میڈیا کمنٹس،آن لائن ویب نیوز،روزانہ لکھے جانے والے بلاگز،اخبارات وغیرہ کے علاوہ دنیا میں منعقد کتابی میلوں (Books Fair)کی صورت میں موجود ہے جن میں سے چند ایک کے اعداد و شمار کا تذکرہ ذیل میں کیا جائے گا-

موجودہ صدی میں انسان کے الفاظ سے تعلق و اُنس میں بتدریج اضا فہ ہوا ہے جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اوسطاً ایک مرد یومیہ تقریبا 7000 الفاظ اور عورت 20000 لفظ بولتی ہے[2] -جوماہانہ تقریبا 8لاکھ 10ہزار الفاظ اور سالانہ تقریبا ایک انسان(مرد و عورت) کے 9 ملین 8لاکھ 28 ہزار الفاظ بنتے ہیں- اگر اسے ہم موجودہ کل انسانی آبادی یعنی 7.7بلین لوگوں سے ضرب دیں تو دنیا میں روزانہ بولے جا نے والے الفاظ کی اوسطاً تعداد تقریبا  104 ہزار ارب بنتی ہے-اسی طرح امریکن ادارے ’’نیشنل ورچول ٹرانسلیشن سنٹر‘‘ کے مطابق اس وقت دنیا میں بولی جا نے والی زبانوں کی کل تعداد 6900 ہے اورکیمبرج انسائیکلو پیڈیا آف لینگویجز کے مطابق دنیا میں بولی جانے والی مختلف زبانوں کی تعداد تقریبا3000 سے 10000تک ہے[3] -’’لسانیات کی 2عظیم ماہر شخصیات فرڈینینڈ ڈی سوسچیئر اور نوم چومسکی کے اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں بولی جانے والی مختلف زبانوں کی کل تعداد تقریبا 5000 اور  7000ہے ‘‘-[4]

اسی طرح ایک اندازے کے مطابق دنیا میں قریباً 2.2 ملین کتب سالانہ شائع ہوتی ہیں جن میں براعظم ایشیاء اور مشرقی وسطی کے2 بڑے ممالک (چائنہ،روس)بالترتیب سالانہ 4لاکھ 40ہزار،1لاکھ 20ہزار پانچ سو بارہ، شائع کرتے ہیں- شمالی اور وسطی امریکہ کے 3 بڑے ممالک (امریکہ،میکسیکو،کینیڈا) سالانہ بالترتیب 3لاکھ 4ہزار 9سو بارہ، 23ہزار9سو اڑتالیس، 19 ہزار 9سو کتب شائع کرتےہیں -یورپ کے3 بڑے ممالک (یوکے، جرمنی، اٹلی) سالانہ با لترتیب 1لاکھ84 ہزار، 82ہزار 48 اور61 ہزار 966 کتب شائع کرتے ہیں-اسی طرح افریقہ کے 3بڑے ممالک جن میں مصر، جنوبی افریقہ، نائیجیریا شامل ہیں سالانہ تقریبا ً بالترتیب 9 ہزار بائیس 5ہزار 4سو اٹھارہ اور 1 ہزار 314 کتب شائع کرتے ہیں-[5]مذکورہ کتب کی شب و روز بڑھتی ہوئی تعداد سے قیاس کرنا کوئی مشکل امر نہیں رکھتا کہ ان کی تعداد میں آئے روز مزید اضافہ ہورہا ہے-

’’تحریر‘‘دور جدید میں وہ اہم ذریعہ ہے جو زبان کے تحفظ اور حقائق میں اہم کردار ادا کرتا ہے چاہے وہ تحریر کتب کی صورت میں ہو، مجلات، بلاگز،اخبارات یا سوشل میڈیا کمنٹس کی صورت میں ہو-

دنیا میں لکھے جانے والے مجلات کے چند اعداد و شمار:

جدید تقاضوں کے مطابق جہاں لوگوں میں تحقیق کا رجحان بڑھ رہا ہے تو وہیں تحقیقی مجلات (سالانہ، سہ ماہی، ماہانہ، ہفتہ وار،روزنامہ جات) کی تعداد میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے جس کا حتمی اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اس وقت دنیا میں شائع ہونے والے مجلات کی تعداد کتنی ہے کیونکہ دنیا کی بیشتر جامعات  ہر جامعہ میں موجود مختلف شعبہ جات، ادارے،تنظیمیں پھر ان کی فروعات اور اس طرح کی دیگر مختلف سرگر میوں (تعلیمی، ادبی، سائنسی) میں شامل شعبہ جات اپنا علیحدہ علیحدہ مجلہ (سالانہ، سہ ماہی،ماہانہ وغیرہ) شائع کرتے ہیں- ’’امریکن جرنل ایکسپرٹ (AJE) کمپنی کی شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ 2016ء کے مطابق صرف 2015ء کو پوری دنیا کے مجلات میں میں شائع ہونے والے تحقیقی مضامین کی تعداد2.2ملین ہے-اس رپورٹ میں مختلف ممالک (امریکہ، چائنہ، یوکے، جرمنی) جن کا اشاعت اور تحقیق کے میدان میں شمار صف اول میں ہوتا ہے؛ کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے-2016ء کوتعلیمی میدان مثلاً طب میں567890 مجلات شائع ہوئے،انجینئرنگ میں 285378 مجلات،بائیو کیمسٹری،جینیٹکس اور مالیکیولر بائیولوجی میں  266385، فزکس اور اسٹرونومی میں220602،کیمسٹری میں 290044 تحقیقی مجلات شائع ہوئے ہیں‘‘-[6] اسی طرح یونیورسٹی آف اوتاوا (Ottawa)نے  2009ء میں تحقیق کی جس کے مطابق دنیا میں سالانہ تقریبا 2.5ملین نئے سائنسی مقالات شا ئع ہوتے ہیں ‘‘-[7]

روزانہ لکھے جانے والے بلاگز کی تعداد:

بلاگ انٹرنیٹ پر موجود مختلف مضامین، خیالات،آراء یا تجربات کا باقاعدہ ریکارڈ ہے جو کوئی شخص(بلاگر) ایک بلاگ کی صورت میں دوسرے انسانوں کے مطالعہ کیلئے محفوظ کرتا ہے اور یہ مختلف اقسام مثلا بزنس، لٹریچر، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، ایجوکیشن،فنی معلومات،کھیل، سیاست وغیرہ سے متعلق ہو سکتے ہیں-’’اس وقت دنیا میں روزانہ لکھے جا نے والے بلاگز کی اوسطاً تعداد تقریبا5 ملین ہے‘‘-[8] جو ما ہانہ تقریبا 150ملین اور سالانہ 1600ملین بنتی ہے-2017ء کے اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ یعنی 360 ملین بلاگز ٹمبلر (مائیکرو بلاگنگ اور سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ) پر موجود ہیں‘‘-[9]اسی طرح ایک اور اندازے کے مطابق روزانہ لکھے جانے والے بلاگز کی تعداد تقریبا  3ملین سے زائد بتائی گئی ہے ‘‘-[10]

روزانہ لکھے جانے والے

 اخبارات کی تعداد:

اخبار انسان کو شب و روزکےحالات وا قعات سے آگاہی اور معلومات میں اہم کردار ادا کرتاہے- ورلڈ پریس ٹرینڈز 2017ء کے مطابق دنیا کی کل آبادی کا 40 فیصد یعنی 2.7بلین لوگ روزانہ اخبار کا مطالعہ کرتےہیں جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 2016ء میں اخبارات کی اشاعت اور تشہیر سے حاصل ہونے والی آمدنی بالترتیب تقریباً 82204 اور 58182 ملین ڈالرہے- ایک اندازے کے مطابق دنیا میں شائع ہونے والے اخبارات کی تعداد 2012ءمیں 614ملین تھی جو کہ 2016ءمیں بڑھ کر 757ملین تک پہنچ گئی-[11]’’دنیا میں روزانہ شائع ہونے والے مختلف اخبارات کی اوسطاً تعداد 433 ملین 745199 ہے‘‘-[12] ’’اسی طرح فروخت ہونے والے اخبارات کی اوسطاً تعداد تقریبا 56ملین ہے اور سنڈے کو یہ تعداد  60 ملین  تک تجاوز کرجاتی ہے ‘‘-[13]

سوشل میڈیا کے چند اعداد و شمار:

سوشل میڈیا انسانی زندگی کا ایک ناگزیر حصہ بن چکا ہے جو انٹرنیٹ، فیس بک، انسٹا گرام، ٹوئٹر، یو ٹیوب، سکائپ، گوگل،  پنٹرسیٹ، وٹس ایپ جیسے سوشل نیٹ ورکس پر مشتمل اور دور جدید میں لوگوں کے درمیان تعامل کا اہم ذریعہ ہےجسے لوگ فاسٹ کمیو نیکیشن کے علاوہ دیگر مختلف مقاصد کے طور پر استعمال کرتےہیں-مذکورہ بالا سوشل نیٹ ورکس کے ذریعے لوگوں کے درمیان تعلق اور پیغام رسانی کی شرح میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے جس کا ندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رواں سال میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی تعداد 3.03 بلین بتائی گئی ہے-اسی طرح فیس بک میسنجر اور و ٹس ایپ روزانہ کی بنیاد پہ 60بلین میسیجز ہینڈل کرتا ہے- گوگل ہر ماہ میں 100بلین تحقیق پروسس کرتا ہے جو کہ روزانہ 3.5 بلین اور اوسطا 40000 فی سیکنڈ ہے-ٹوئٹر پر روزانہ 500ملین ٹویٹس کیے جا تے ہیں جو کہ 6000فی سیکنڈ بنتا ہے -[14]فیس بک پر روزانہ کیے جانے والے کمنٹس کی تعداد3.2بلین ہے جو کہ ماہانہ تقریبا 96 بلین بنتے ہیں-[15] اسی طرح روزانہ 2.25بلین ای-میلز بھیجی جاتی ہیں اور روزانہ کی جانے والی سکائپ کالز کی اوسطاً تعداد تقریبا 350ملین ہے - [16]

ایک اور اندازےکے مطابق دنیا میں اس وقت میسیجنگ ایپ استعمال کرنے والوں کی تعداد 2.5 بلین ہے اور ایک انسان روزانہ اوسطا تقریبا 125منٹ سوشل میڈیا پر صرف کرتا ہے -[17]ان اعداد وشمار میں صارفین کے اضافہ سے روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہے-

کتاب میلہ:(Book Fair)

انسان کی الفاظ سے محبت کی ایک تابندہ مثال کتاب میلہ بھی ہے جوکسی بھی انسانی معاشرے میں افراد کے درمیان کتاب آگاہی اور مطالعہ کتب کی عادت کے فروغ و رجحان میں اہم کردار ادا کرتا ہے- دنیا کے کئی ممالک میں کتاب میلوں کا انعقاد ہوتا ہے جس میں لوگوں کی کثیر تعداد شریک ہوتی ہے- ’’انٹر نیشنل پبلشرز ایسوسی ایشن کی گلوبل بک فیئر رپورٹ (Global2017 Book Fair Report) جس میں ایشیاء، افریقہ، آسٹریلیا، یورپ اور امریکہ (شمالی اورجنوبی) جیسے بر اعظموں میں منعقد ہونے والے عظیم الشان کتابی میلوں پر رپورٹ مرتب کی گئی ہے جس کےمطابق کینیڈا کے صوبے کیوبیک(Quebec) میں 5سے9اپریل 2017ء میں بین الاقوامی کتاب میلہ کا انعقا د ہوا جس میں639پبلشنگ ہاؤسزقائم کیے گئے، 67ہزار افراد نے شرکت کی، 1340مصنفین شریک ہوئے-ارجنٹائن کے دارالحکومت بیونوزآئریس(Buenos Aires)میں 27اپریل تا 15 مئی2017ء تک کتا ب میلہ کا انعقاد ہو ا جس میں 526لوگوں نے کتب کی نمائش کی،12لاکھ افراد شریک ہوئے، 25ممالک نے نمائندگی کی-کولمبیا کے دار الحکومت بگوٹا(Bogota)میں 25اپریل تا 8مئی 2017ءتک بین الاقوامی کتاب میلہ کا انعقاد ہو ا جس میں 21ممالک نے نمائندگی کی، شرکاء کی تعداد 5لاکھ، 300مصنفین شریک ہوئے-  25نومبر تا 2 دسمبر2017ءکو میکسیکو کے شہر گوادالا- جارا(Guadalajara) میں بین الاقوامی کتاب میلہ منعقد ہوا جس میں تقریبا 2000پبلشرز شریک ہوئے،44ممالک نے نمائندگی کی-تائیوان میں 8تا 13فروری کو کتاب میلہ منعقد ہوا جس میں 700 کے قریب لوگوں نے کتب کی نمائش کی، 5لاکھ 60ہزار لوگ شریک ہوئے،67ممالک نے نمائندگی کی-اسی طرح لندن میں 14تا 17 مارچ 2017ء کو کتاب میلہ منعقد ہوا جس میں 1500 لوگوں نے کتب کی نمائش کی،شرکاء کی تعداد 25000تھی-3تا 6اپریل کو اٹلی کے شہر بولوگنا (Bologna)میں چلڈرن بک فیئر ہوا جس میں 1278افراد نے کتب کی نمائش کی، شرکاء کی تعداد 25 ہزار سے زائد تھی، 98ممالک نے نمائندگی کی تھی‘‘-[18] درج بالا اعداد و شمار کا تذکرہ کرنے کے بعد ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دنیا ئے جدیدمیں انسان کی الفاظ سے مانوسیت کس قدر انتہاء کو چھو رہی ہے اور انسان الفاظ کی اقتداء میں سر پٹ دوڑے چلا جا رہا ہے-

(جاری ہے)

٭٭٭



[1](تاریخ ابن خلدون،ج:1،ص:91(

[2]https://www.dailymail.co.uk/femail/article-419040/Women-talk-times-men-says-study.html

[3]https://is.muni.cz/th/ntnbf/Diploma_Thesis_Growing_up_Bilingual_Theoretical_Part.pdf

[5]https://ebookfriendly.com/countries-publish-most-books-infographic/

[13]http://www.libraryspot.com/know/newspaper.htmhttp://www.worldometers.info

[16]http://www.internetlivestats.com/

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر